اشاعتیں

دسمبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ابیھا نام رکھنے کا حکم

سوال : مفتی صاحب! بہت سے لوگ بچیوں کا نام "ابیھا" رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ابیھا" حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا لقب ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ (المستفتی : حافظ دانش، مالیگاؤں) ----------------------------------------------- بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : بعض روایات میں ملتا ہے کہ خاتون جنت سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی کنیت "اُمِّ اَبِیْھَا" یعنی "اپنے والد کی ماں" تھا۔ لہٰذا اگر کسی کو اپنی بچی کا نام رکھنا ہے تو "اُمِّ اَبِیْھَا" رکھنا چاہیے۔ صرف "اَبیھا" کا مطلب ہوگا "اس کا باپ"۔ لہٰذا صرف ابیھا نام رکھنا حماقت اور بے وقوفی ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔   وذكر عَنْ جعفر بْن مُحَمَّد، قَالَ: كانت كنية فاطمة بنت رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أم أبيها"۔(الاستيعاب في معرفة الأصحاب : ٤/١٨٩٩)فقط  واللہ تعالٰی اعلم  محمد عامر عثمانی ملی 11 جمادی الآخر 1447

حديث "منْ زارَ قَبري وَجَبَتْ له شَفاعتي" کی تحقیق

سوال : حضرت مفتی صاحب! ایسی کوئی حدیث ہے کیا جس میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔ رہنمائی فرمائیں۔ (المستفتی : محمد سجاد، بیڑ)  ------------------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم  الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور حدیث "منْ زارَ قَبري وَجَبَتْ له شَفاعتي" جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔) کو امام بیہقی اور امام دار قطنی نے نقل کیا ہے۔ اس حدیث کو اگرچہ بعض محدثین نے ضعیف اور منکر کہا ہے۔ لیکن بہت سے محدثین بالخصوص امام سبکی، امام ذہبی، امام زرقانی اور قاضی عیاض وغیرہ نے کثرتِ طُرق اور شواہد کی بناء پر اسے حسن اور معتبر قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا درست ہے۔ منْ زارَ قَبري وَجَبَتْ له شَفاعتي الراوي: عبدالله بن عمر • ابن الملقن، تحفة المحتاج (٢/١٨٩) • صحيح أو حسن [كما اشترط على نفسه في المقدمة] • أخرجه العقيلي في ((الضعفاء الكبير)) (٤/١٧٠) باختلاف يسير، وابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (٦/٣٥١...