کیا فسق یزید عقیدہ کا مسئلہ ہے؟

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا وہ یہ کہ "یزید فاسق تھا" یہ علماء دیوبند کا عقیدہ ہے؟ یا نہیں ہے؟ اگر عقیدہ ہے تو اس عقیدے کا معیار کیا ہے؟ اس کی وضاحت مطلوب ہے۔
(المستفتی : عبداللہ فیصل گائیڈ، مالیگاؤں) 
------------------------------------------------- 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : یزید کے موضوع پر لکھنا کوئی عوامی فائدہ کا کام نہیں ہے، خود فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یزید کے کفرو اسلام سے بحث کرنا نہ تو اعتقادی مسئلہ ہے کہ بغیر اس کے ایمان ہی معتبر نہ ہو، نہ ہی عملی مسئلہ ہے کہ اعمال شرعیہ اس پر موقوف ہوں، اس بحث میں پڑنا اپنے وقت عزیز کو ضائع کرنا ہے، وقت خدائے پاک کی طرف سے ایک بیش بہا خزانہ ہے اس کی قدر لازمی ہے، اس کو ضائع کردینا اور لایعنی میں صرف کردینا انتہائی ناقدری ہے۔ (فتاوی محمودیہ : ٤/٤٣٦) لیکن چونکہ آپ کا اصرار تھا اور فی الحال اس مسئلہ کو بحث کا موضوع بنایا جارہا ہے، لہٰذا اس کی سنگینی کے پیش نظر دو اہم فتاوی نقل کرکے اپنی بات عرض کروں گا جس سے بہت حد تک مسئلہ ھذا میں اہل سنت والجماعت علماء دیوبند کا مزاج سمجھ میں آجائے گا۔

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
ہر شخص کو اپنے ایمان اور عمل صالح کی فکر کرنی چاہئے۔ یزید کے صالح یا فاسق ہونے کی تحقیق شرعاً کچھ ضروری نہیں، اور نہ آخرت میں اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ (تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُوْنَ۔ ترجمہ : وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی انکے واسطے ہے جو انہوں نے کیا اور تمہارے واسطے ہے جو تم نے کیا اور تم سے کچھ پوچھ نہیں ان کے کاموں کی۔ سورہ بقرہ، آیت 134) اور آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ  (من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ. ترجمہ : اسلام کا حسن لایعنی باتوں کا ترک کردینا ہے۔ لہٰذا ان فضول بحثوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔ (فتاوی عثمانی : ١/١٩٩)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
قرآن کریم حدیث شریف میں اس کے متعلق کوئی خاص عقیدہ رکھنے کا حکم وارد نہیں ہوا ہے اگر سکوت اختیار کئے رہیں تو یہ اسلم ہے۔ (رقم الفتوی : 174599) 

یہ بات درست ہے کہ ہمارے بہت سے اکابر رحمھم اللہ نے یزید کو فاسق لکھا ہے، لیکن کسی نے بھی اس کو صراحتاً عقیدہ نہیں لکھا ہے، اور جہاں بھی مسئلہ ھذا میں عقیدہ سے متعلق کوئی بات لکھی ہے وہاں فسق یزید نہیں عظمت صحابہ اور ناموس صحابہ مراد ہے۔ اس لیے کہ فسق یزید تاریخی مسئلہ ہے، اور مسئلہ ھذا میں تاریخ میں سخت اضطراب ہے۔ لہٰذا کوئی یزید کو فاسق مانے تو ہم اس کی تردید نہیں کرتے، کوئی غیر فاسق مانے تو ہم اس کی تائید یا حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے۔ یزید کو کوئی فاسق مانے یا غیرفاسق، یہ اس کی اپنی تحقیق ہے، اس سے اس کے ایمان اور عقیدہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ یہ عقیدہ کا مسئلہ قطعاً نہیں ہے، عقیدہ قرآن وحدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ ہاں اگر یزید کو نیک اور صالح ثابت کرنے میں معاذ اللہ نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول، علی کے دلارے، جنتی جوانوں کے سردار سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شان میں اگر ذرہ برابر بھی گستاخی ہوتی ہے تو ایسا شخص گمراہ، اہل سنت والجماعت کے موقف سے ہٹا ہوا اور باطل نظریات کا حامل ہے، اس لیے کہ آپ رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی اور بہت ساری فضیلت کے حامل ہیں، جبکہ ایک عام صحابی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والا مردود اور گمراہ ہے تو پھر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والا تو بدرجہ اتم گمراہ، بدبخت اور اہل سنت والجماعت کے عقائد کا مخالف ہے، ہم اس سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔

ملحوظ رہے کہ ہم اپنے آپ کو حسینی مانتے ہیں، اور یزید کو حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں کی دھول بھی نہیں مانتے، لیکن حسینی ہونے کے لیے یزید کو برا کہنا بہرحال ضروری نہیں ہے، اس کے بغیر بھی حسینیت پوری آب وتاب کے ساتھ حق کا نشان بنی رہے گی۔


قال اللہ تعالیٰ : يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۔ (سورۃ الحجرات، آیت : ۲۶)

وَيَنْبَغِي أَنْ لَا يَسْأَلُ الْإِنْسَانُ عَمَّا لَا حَاجَةَ إلَيْهِ... مِمَّا لَا تَجِبُ مَعْرِفَتُهُ وَلَمْ يَرِدُ التَّكْلِيفُ بِهِ۔ (شامی : ٦/٧٥٤)

لم یثبت لنا عنہ تلک الأسباب الموجبۃ أي لکفرہ وحقیقۃ الأمر المتوقف فیہ، ومرجع أمرہ إلی اللّٰہ سبحانہ وتعالی۔ (شرح الفقہ الأکبر : ۸۸)

والصحابۃ کلہم عدول مطلقاً لظواہر الکتاب وسنۃ وإجماع من یعتد بہ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۵؍۵۱۷)

وقولہ ونحب اصحاب رسول اللہ ولانفرط فی حب احد منہم ولانتبرأ من احدمنہم ونبغض من یبغضہم وبغیر الخیرلا نذکرہم ونری حبہم دینا وایمانا واحسانا وبغضہم کفرا وشقاقا ونفاقاوظغیانا۔ (شرح عقیدہ طحاویہ : ٤٦٧)

قال أبو زرعۃ الرازی: إذا رأیت الرجل ینتقص أحدا من أصحاب رسول اللّٰہ ا فاعلم أنہ زندیق، وذٰلک أن الرسول حق، والقرآن حق، وماجاء بہ حق، وإنما أدی ذٰلک کلہ إلینا الصحابۃ، وہؤلاء الزنادقۃ یریدون أن یجرحوا شہودنا لیبطلوا الکتاب والسنۃ فالجرح بہم أولی۔ (الأصابۃ ۱؍۲۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی
29 ربیع الاول 1447

فسق یزید عقیدہ کا مسئلہ نہیں ہے۔
مفتی ثمیر الدین صاحب قاسمی، مانچسٹر، انگلینڈ 

عمدہ
مفتی شکیل منصور قاسمی

ماشاء اللہ بہت عمدہ، بہت جامع، بہت واضح اور بہت دو ٹوک لکھا ہے۔
مفتی توصیف صاحب قاسمی

جواب مختصر اور عمدہ تحریر فرمایا ہے.
ماشاءاللہ
مفتی جنید صاحب پالنپوری

ماشاء اللہ جواب معتدل اور جامع ہے۔
مفتی ثاقب صاحب فتحپوری

الجواب صحیح
محمد زبیر ندوی
دارالافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

تبصرے

  1. ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ اور معتدل جواب ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. الجواب صحیح
    محمد زبیر ندوی
    دارالافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مستقیم بھائی آپ سے یہ امید نہ تھی