روایت "حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی قبر سے مخاطب ہونا" کی تحقیق
سوال :
محترم مفتی صاحب! ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی تدفین کے وقت ان کی قبر سے مخاطب ہوکر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کچھ باتیں کہی تھی، اس کے جواب میں قبر نے بھی کچھ کہا تھا۔ اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے، رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد نعمان، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور واقعہ مکمل طور اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جب انتقال ہوا تو ان کا جنازہ چار آدمی حضرت علی ، حسن اور حسین اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنھم اجمعین نے اٹھایا، پس جب ان کا جنازہ قبر کے کنارے رکھا گیا تو حضرت ابو ذر غفاری نے قبر سے خطاب فرمایا اے قبر! کیا تجھے خبر بھی ہے کہ ہم کس کے جنازے کو لائے ہیں؟ یہ فاطمة الزھراء رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ہیں، یہ علی المرتضٰی کی زوجہ ہیں، یہ حضرت حسن اور حضرت حسین کی والدہ ہیں، تو ان سب نے قبر میں سے یہ آواز سنی کہ قبر کہہ رہی تھی کہ میں حسب و نسب بیان کرنے کی جگہ نہیں ہوں اور یقیناً میں تو عمل صالح کی جگہ ہوں اور مجھ سے وہی نجات پائے گا، جس کی اچھائیاں زیادہ ہوں اور دل مسلمان ہو اور عمل خالص ہو۔
معلوم ہونا چاہئے کہ یہ واقعہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں ہے، بلکہ وعظ ونصیحت کی ایک کتاب درۃ الناصحين میں بغیر سند کے ذکر کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس واقعہ کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔
حکی أن فاطمة الزهراء بنت النبی صلى الله علیه وسلم لما ماتت، حمل جنازتها أربعة نفر: زوجها علی کرم الله وجهه و ابناها الحسن والحسین وأبوذر الغفاری رضی الله عنهم أجمعین، فلما وضعوها على سفیر القبر قام أبو ذر،فقال: یا قبر! أتدری من التی جئنا بها إلیک، هی فاطمة الزهراء بنت رسول الله صلى الله علیه وسلم و زوجة علی المرتضی وأم الحسن والحسین، فسمعوا نداء من القبر،یقول: ما أنا موضع حسب ونسب، وإنما أنا موضع العمل الصالح، فلاینجومنی إلا من کثر خیره وسلم قلبه و خلص عمله .کذا فی مشکاة الأنوار‘‘۔ (درة الناصحین : ۲/۸۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی
20 ربیع الاول 1447
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں