قربانی کرنے کے بجائے فلسطینی مسلمانوں کی مدد کرنا

سوال : 

مکرمی جناب مفتی صاحب 
ایک مسئلہ میں شرعی رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی ۔
مسئلہ یہ ہے کہ جن صاحب نصاب مسلمانوں پر قربانی واجب ہے ان کے لئے حکم شرع کیا ہے؟
قربانی کے ایام میں قربانی ہی کرکے فریضہ ادا کرنا ضروری ہے یا پھر قربانی کی رقم سے غریب وضرورت مند افراد کی مالی امداد کرنے سے قربانی ساقط ہوجائے گی؟
چونکہ ان دنوں بہت سے بھولے بھالے صاحب نصاب مسلمانوں کو کچھ لوک یہ کہہ کر قربانی سے روک رہے ہیں کہ قربانی کی رقم فلسطین کے مظلوم ونادار اور غریب مسلمانوں کی امداد کے لئے بھیج دیں اس لئے کہ اس وقت وہ زیادہ ضرورت مند ہیں۔
اسی طرح بعض علاقوں میں جہاں مخصوص جانوروں کی قربانی پر پابندیوں کے سبب رنگین جانوروں کی قربانی مشکل ہورہی ہے تو کیا ان لوگوں کے کالے جانور کی قربانی کی بجائے دور دراز کے علاقوں میں یا اجتماعی قربانی کے مراکز ومدارس میں قربانی کی رقم دے کر مطمئن ہوجانے کی اجازت ہوگی؟
دونوں ہی مسائل کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جواب دینے کی زحمت گوارہ فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد طلحہ، جلگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قربانی شریعت مطہرہ کا ایک اہم اور مستقل حکم ہے جو اسلام کی پہچان اور شعائر میں سے ہے، جسے شریعت کے حکم کے مطابق بجالانا ضروری ہے، اسلام نام ہی فرمانبرداری کا ہے کہ جس وقت بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہو وہ اسے بلا چوں چرا پورا کردیں۔ لہٰذا جو لوگ صاحبِ نصاب ہوں ان کے لیے قربانی کے ایام میں قربانی کرنا واجب ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ قربانی کے ایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قربانی کے دن میں کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہ قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی میں بہایا جانے والا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دربار میں قبولیت کا مقام حاصل کرلیتا ہے، لہٰذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (١) یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی صاحبِ نصاب قربانی کے ایام میں قربانی کرنے کے بجائے اس کی رقم صدقہ کردے تو یہ اس کے لیے کافی نہ ہوگا بلکہ یہ شعائر اسلام کومسخ کرنا ہے اور ایسا شخص ترکِ واجب کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں قربانی کرنے کے بجائے اس کی رقم فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لیے بھیج دینا جائز نہیں ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حالتِ جنگ میں ہونے کے باوجود کبھی قربانی ترک نہیں فرمائی، جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منوّرہ میں دس سال گزارے، اور اس دوران ہرسال قربانی فرماتے تھے۔ (٢)

فلسطینی مسلمان بلاشبہ مظلوم اور مسلمانوں کی امداد کے بہت زیادہ مستحق ہیں، لہٰذا ان کی مدد زکوٰۃ اور نفلی صدقات سے کرنا ضرور کرنا چاہیے۔

کالا جانور یعنی بھینس، گائے کی ایک قسم ہے جس کی قربانی بلاتردد درست ہے۔ لہٰذا استطاعت اور سہولت کے باوجود اپنے علاقے میں اس کی قربانی نہ کرکے دور دراز علاقوں میں حصہ لے لینا شرعاً پسندیدہ عمل نہیں ہے، جس سے بچنا چاہیے۔

نوٹ : ہماری معلومات کے مطابق فلسطینی مسلمانوں کے لیے امداد براہ راست وہیں پہنچنے کی اب تک کوئی معقول سبیل نہیں بنی ہے، جو ویڈیوز آرہے ہیں وہ یا تو دوسرے علاقوں کے ہیں یا جعلی ہیں، اس لیے بہت سوچ سمجھ کر اور مکمل تحقیق واطمینان کے بعد ہی اپنی زکوٰۃ اور صدقات فلسطینی مسلمانوں کے نام پر کسی کو دیں۔


١) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا عَمِلَ آدْمِیٌّ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِہْرَاقِ الدَّمِ فَاِنَّہٗ لَتَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْ فَرْشِہٖ بِقُرُوْنِہَا وَاَشْعَارِہَا وَاَظْلاَفِہَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطَیِّبُوْا بِہَا نَفْساً۔ (سنن ابن ماجہ: ۳۱۲۶، ترمذی : ۱۴۹۳)

٢) "عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي كُلَّ سَنَةٍ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

قَوْلُهُ: (أَقَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي) أي كل سنة.

قال القارىء فِي الْمِرْقَاةِ : فَمُوَاظَبَتُهُ دَلِيلُ الْوُجُوبِ انْتَهَى. قُلْتُ مُجَرَّدُ مُوَاظَبَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فِعْلٍ لَيْسَ دَلِيلَ الْوُجُوبِ كَمَا لَا يَخْفَى."۔ (تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذی : ٥/٨٠، دارالکتب العلمیۃ)

٣) (وَمِنْهَا) أَنْ لَا يَقُومَ غَيْرُهَا مَقَامَهَا حَتَّى لَوْ تَصَدَّقَ بِعَيْنِ الشَّاةِ أَوْ قِيمَتِهَا فِي الْوَقْتِ لَا يَجْزِيهِ عَنْ الْأُضْحِيَّةَ؛ لِأَنَّ الْوُجُوبَ تَعَلَّقَ بِالْإِرَاقَةِ وَالْأَصْلُ أَنَّ الْوُجُوبَ إذَا تَعَلَّقَ بِفِعْلٍ مُعَيَّنٍ أَنَّهُ لَا يَقُومُ غَيْرُهُ مَقَامَهُ كَمَا فِي الصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَغَيْرِهِمَا۔ (بدائع الصنائع : ٥/٦٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ذی الحجہ 1446

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

لاڈلی بہن اسکیم کی شرعی حیثیت

بوہرہ سماج کا وقف ترمیمی قانون کی حمایت اور ہمارا رد عمل