بھینس کی قربانی کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! بھینس کی قربانی نہیں ہوتی، عیدالاضحٰی کے موقع پر ایسی تحریریں سوشل میڈیا پر چلتی رہتی ہیں، براہ کرم دلائل کی روشنی میں بیان فرمائیں کہ بھینس کی قربانی درست ہے یا نہیں؟ اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں عرب میں بھینس نہیں پائی جاتی تھی، اس لیے بھینس کی قربانی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھینس کی قربانی سے متعلق صراحتاً کوئی حکم دیا ہے۔ اس بات کو بنیاد بنا کر غیرمقلدین میں سے بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں جاموس یعنی بھینس کا ذکر نہیں ہے، لہٰذا اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ‘‘ ترجمہ : حلال ہوئے تمہارے لیے چوپائے مویشی۔ (المائدہ، آیت : ۱) اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : پالتو جانور جیسے اونٹ، گائے، بھینس، بکری وغیرہ جن کی آٹھ قسمیں سورۂ انعام میں بیان فرمائی گئی ہیں ان کو ’’أَنْعَام‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس جملہ میں اُس خاص معاہدہ کا بیان آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اونٹ، بکری، گائے، بھینس وغیرہ کو حلال کردیا ہے، ان کو شرعی قاعدہ کے موافق ذبح کرکے کھا سکتے ہیں۔ (معارف القرآن : ٣/١٣)

تمام علماء کا اس مسئلہ میں اجماع ہے کہ ’’بہیمۃ الأنعام‘‘ (چرنے چگنے والے چوپایوں) کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں اور ان کی قربانی درست ہے۔

١) ’’غنم‘‘ میں اس کی انواع اور نر ومادہ شامل ہیں، یعنی بھیڑ اور بکری۔ 

 ٢) ’’إبل‘‘ سے مراد اونٹ نر ومادہ۔ 
 
٣) ’’بقر‘‘ میں بھی اس کی انواع اور نر ومادہ شامل ہیں، یعنی گائے اور بھینس۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے : واضح ہو کہ جنس واجب میں یہ ہونا چاہیے کہ قربانی کا جانور اونٹ، گائے اور غنم تین اجناس سے ہو اور ہر جنس میں اس کی نوع نر ومادہ اور خصی وفحل سب داخل ہیں، کیونکہ اسم جنس کا ان سب پر اطلاق کیا جاتا ہے اور ’’معز‘‘ (بھیڑ) نوعِ غنم ہے اور ’’جاموس‘‘ (بھینس) نوعِ بقر ہے۔ (١)

تمام فقہاء، محدثین، اور اہل لغت یہاں تک کہ بہت سے غیرمقلد علماء نے بھی (جاموس) بھینس کو (بقر) گائے کی جنس سے مانا ہے، بلکہ اس پر اجماع ہے، یعنی بھینس گائے ہی کی ایک نوع اور ایک قسم ہے اور جب گائے کی قربانی جائز ہے، تو بھینس جو اسی کی ایک نوع ہے اس کی بھی قربانی جائز ہوگی۔

وأجمعوا علی أنّ حکم الجوامیس حکم البقر 
اس پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے۔ (الإجماع لابن المنذر، ۱/۴۵، رقم : ۹۱)

علامہ ابوالولید بن رشدالحفیدبدایة المجتہد میں لکھتے ہیں :أجمع العلماء علی جواز الضحایا من جمیع بہیمة الأنعام۔ (بدایة المجتہد،۲/۱۹۲)
ترجمہ : تمام چوپایوں کی قربانی کے جواز پرعلماء کا اجماع ہے۔(اور بھینس کا بہیمة الانعام میں سے ہونا اظہر من الشمس ہے، گویا بھینس کی قربانی کے جواز پر بھی علماء کا اجماع ہے۔

امام حسن بصری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ : بھینس گائے کی طرح ہی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : ٣/۲۱۹ وسندہ صحیح)    

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
حدیث میں جاموس کا گوشت کھانا کہیں بھی حلال نہیں لکھا ہے، پھر اس کا گوشت غیرمقلدین کیوں کھاتے ہیں؟ جمعہ کا خطبہ عربی کے علاوہ اردو یا اور کسی زبان میں دینا کسی حدیث میں نہیں آیا ہے پھر وہ لوگ کیوں اپنے قیاس سے اردو میں خطبہ دیتے ہیں؟ حدیث سے جواب دیں۔
شریعت کے دلائل چار ہیں : قرآن، حدیث، اجماع، قیاس۔
تمام امت کا اس پر اتفاق ہے، دلائل میں پہلا درجہ قرآن کا ہے، قرآن پاک میں جن جانوروں کی قربانی کی اجازت ہو اس میں ”بقر“ بھی ہے، بقر کا معنی تمام عربی معتبر لغات میں گائے، بیل، بھینس سب ہی کو شامل ہے، جناب اہل لغت صاف لکھتے ہیں : والجاموس نوع من البقر یعنی بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے۔ جاموس بقر کے علاوہ کوئی جانور نہیں ہے۔ ہم احناف قیاس نہیں کرتے ہیں، قرآن پر ہمارا عمل ہے جو سب سے بڑی دلیل ہے۔ (رقم الفتوی : 52081)

ایک مرتبہ اسی سوال کے جواب میں استاد محترم حضرت مولانا جمال عارف صاحب ندوی دامت برکاتہم نے بظاہر ظریفانہ لیکن انتہائی مؤثر اور مسکت جواب لکھا کہ : بھیمۃ الانعام کی فہرست سے بھینس کو خارج کرنا ایسا ہی ہے جیسے افریقہ کے نیگرو (کالوں) کو انسانی برادری سے خارج کرنا۔

متعدد سلفی اور غیرمقلد علماء مثلاً شیخ محمد بن صالح العثيمين، عبیداللہ رحمانی مبارکپوری، ثناء اللہ امرتسری، نذیر حسین دہلوی، مفتی عبدالستار، اور حافظ زبیر علی زئی وغیرہ نے بھینس کی قربانی کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے، نیز صوبائی جمیعت اہل حدیث (بمبئی) کی جانب سے ایک کتابچہ شائع کیا گیا ہے جس میں متعدد بڑے بڑے علماء اہل حدیث کے حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ بھینس کی قربانی درست ہے۔ جو لوگ اسے ناجائز کہتے ہیں یہ ان کی اپنی بے دلیل باتیں ہیں، لہٰذا اس پر توجہ دینے اور تشویش میں پڑنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، بھینس کی قربانی بلاتردد جائز اور درست ہے۔


(الْبَابُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَحَلِّ إقَامَةِ الْوَاجِبِ) وَهَذَا الْبَابُ مُشْتَمِلٌ عَلَى بَيَانِ جِنْسِ الْوَاجِبِ وَنَوْعِهِ وَسِنِّهِ، وَقَدْرِهِ وَصِفَتِهِ. (أَمَّا جِنْسُهُ) : فَهُوَ أَنْ يَكُونَ مِنْ الْأَجْنَاسِ الثَّلَاثَةِ: الْغَنَمِ أَوْ الْإِبِلِ أَوْ الْبَقَرِ، وَيَدْخُلُ فِي كُلِّ جِنْسٍ نَوْعُهُ، وَالذَّكَرُ وَالْأُنْثَى مِنْهُ وَالْخَصِيُّ وَالْفَحْلُ لِانْطِلَاقِ اسْمِ الْجِنْسِ عَلَى ذَلِكَ، وَالْمَعْزُ نَوْعٌ مِنْ الْغَنَمِ وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِنْ الْبَقَرِ، وَلَا يَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيّ شَيْءٌ مِنْ الْوَحْشِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٢٩٧)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
08 ذی الحجہ 1446

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

لاڈلی بہن اسکیم کی شرعی حیثیت

بوہرہ سماج کا وقف ترمیمی قانون کی حمایت اور ہمارا رد عمل