اختلاف کی بنیاد پر بازو گلی میں مسجد کی تعمیر

  شہر کے ارباب حل وعقد توجہ فرمائیں

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں دور دور تک مسجدوں میناروں کے شہر سے مشہور ومعروف ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ہم بلاضرورت مسجدیں تعمیر کرتے چلے جائیں۔ ابھی چند دن پہلے مجھے ایک فون آیا کہ فلاں محلے میں ایک مسجد تعمیر کرنے کے لیے جگہ خریدنا ہے اس کے لیے آپ کی کوہ نور مسجد میں جمعہ میں چندہ کرنے کے لیے وقت چاہیے، میں نے ان سے کہا کہ وہاں تو فلاں مسجد تو کافی کشادہ ہے اور اب اس کے بازو گلی میں ہی مسجد تعمیر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی، تو انہوں نے کہا کہ وہاں کے جو ذمہ دار ہیں وہ اپنی چلاتے ہیں اور وہاں مکتب نہیں ہے اور جماعت کا کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ میں ان سے کہا کہ اس کا یہ حل نہیں ہے کہ اس کے بازو گلی میں دوسری مسجد ہی تعمیر کرلی جائے، اس کا کوئی دوسرا حل تلاش کیا جاسکتا ہے جو ذمہ دار اپنی چلاتے ہیں اہلیان محلہ ان سے باز پرس کریں اور شہر کے اکابر مفتیان کرام کے مشورہ سے مسئلہ حل کریں۔ لیکن انہوں نے اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا اور بات ختم ہوگئی۔

آپ حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ شہر کے ایک مشہور محلہ میں ایک بہت بڑی اور کشادہ مسجد جس کی تعمیر جدید کا کام غالباً اب بھی جاری ہے جس کے کئی مرتبہ طعام تعاون کے پروگرام ہوچکے ہیں، دور دور کے محلے میں نوجوانوں کے ذریعے عمومی چندہ ہوا ہے۔ اب اس کے بازو گلی میں ایک دوسری مسجد تعمیر ہونے جارہی ہے جس کی میں سمجھتا ہوں کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے۔

دیگر ذرائع سے مزید معلومات لینے سے یہ علم ہوا کہ اس مسجد کی تعمیر کی اصل بنیاد تبلیغی جماعت کا اختلاف ہے، کیونکہ پرانی مسجد میں ایک دھڑے کا کام ہوتا ہے، دوسرے دھڑے کو غالباً کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن یہ کوئی پہلی مسجد نہیں ہے، شہر کی ایسی پچاسوں مساجد ہیں جہاں صرف ایک دھڑے کا کام ہوتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہاں دوسرے دھڑے کے لوگ نہیں ہیں، وہ بھی ہیں، لیکن انتشار کی وجہ سے وہ لوگ دوسری مساجد کے اعمال میں شریک ہوجاتے ہیں۔ ہر کوئی جماعت کا کام کرنے کے لیے پرانی مسجد کے پیچھے ایک نئی مسجد تعمیر نہیں کرواتا۔ لیکن اس دوسرے دھڑے نے بازو گلی میں چھوٹی سی جگہ یعنی تقریباً سات آٹھ سو اسکوائر فٹ زمین کی خریدی کے نام پر شہر بھر میں چندہ جمع کرنا شروع کردیا جس کی قیمت نصف کروڑ تک جانے والی ہے پھر اس کی تعمیر میں اتنی ہی رقم لگنے والی ہے۔

میری شہر کی سنجیدہ عوام، دیندار طبقہ اور علماء کرام سے سوال ہے کہ ایک معمولی سے کام کی وجہ سے امت کا لاکھوں روپیہ لگانا درست ہے؟ اگر درست نہیں ہے تو اس پر روک لگانے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر خدانخواستہ اس غلط رجحان کو تقویت مل گئی تو تبلیغی جماعت کے اختلاف کی بنیاد پر ایک مسجد کے پیچھے دوسری مسجد کی تعمیر کے نام پر مخیران کو حیران پریشان کیا جائے گا۔ میرا کام اس سلسلے میں آپ حضرات کی توجہ دلانا تھا، میں نے اپنا کام کردیا ہے، امید ہے کہ اس کا کوئی شرعی اور معقول حل نکالا جائے گا۔

اس سلسلے میں کمنٹ باکس میں اپنی رائے ضرور دیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ضرورت کی جگہوں پر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

تبصرے

  1. اچھا ہے آپ نے اس کی طرف متوجہ کیا۔۔۔اللہ کرے اس طرح کرنے والوں کو بات سمجھ میں آجائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. صد فیصد متفق ہیں محترم آپ سے....
    یہ رجحان اچھا نہیں ہے شہر کے لیے، ذمہ داران کو جلد از جلد اس بارے میں اقدامات کرنا چاہیے..

    جواب دیںحذف کریں
  3. مفتی صاحب آپ نے بہت ہی اہم مسئلہ پر بات کی ہے اس طرف محلے کے ذمہ داروں کو توجہ دینی چاہیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. مفتی صاحب میرا ایک مشورہ ہے کہ آپ اس محلے کے سنجیدہ لوگوں کو لے بیٹھیں اور انہیں سمجھائیں امید ہے ایک مفتی کی بات ٹالی نہیں جائے گی

    جواب دیںحذف کریں
  5. غالباً اسلام آباد کے پاس حیات مسجد کا معاملہ ہے ۔۔آپ کی بات سے میں متفق ہوں۔یقینا روک لگنا چاہئے

    جواب دیںحذف کریں
  6. بر وقت تحریر ہے محترم.. برادران سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو حتی الامکان، اور شدت کے ساتھ ہر گروپ میں شئیر کریں تاکہ معاملہ سارے شہر میں گونج اٹھے اور ایسے کاموں پر بروقت روک لگے

    جواب دیںحذف کریں
  7. پہلے مسلکی معاملے پر دوسرے گلی میں مسجد بنانے کی ہوڑ لگی ہے ۔اب یہ نیا ورژن ۔مفتی صاحب آپ نے جو لکھا اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے ۔اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. جی مفتی صاحب آپ کی رائے انصاف اور شرعی راہنمائی پر مبنی ہے الحمدللہ رب العالمین کا احسان ہے آپ جیسے عالم ہم میں موجود ہیں جو قوم کی صحیح راہنمائی کرتے ہیں جزاک اللہ خیرا کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
  9. ٹرسٹیان کو چاہیے کہ ہر ایک معاملات میں محلہ کے ہر افراد سے مشورہ کرے۔
    اکثر مساجد میں ٹرسٹیان اپنی اپنی مرضی چلاتے ہے
    اگر محلہ کے افراد سے مشورہ کر بھی لے تو اس کے بعد بھی وہی کام کرتے ہے جو انہیں کرنا ہوتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. یہ معاملہ کس محلہ کا ہے؟ اس بات کو آپ بذات خود بتاکر مصیبت مول نہیں لینا چاہتے، لیکن آپ کسی دوسرے حیلے سے اس محلہ اور مسجد کا نام عوام میں پیش کر سکتے ہیں۔
    عاجز کی رائے ہے کہ آپ عوام کے سامنے نام پیش کیجیے تاکہ عوام کی گاڑھی کمائی صحیح مصرف میں خرچ ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. آپ ایک مفتی ہو اور آپ عوام سے سوال کررہے ہو کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔ آپ کو تو فیصلہ کرنا چاہئے۔ حکم کرنا چاہئے۔ اعلان کرنا چاہئے کہ یہ کام نہیں ہوگا۔

    جواب دیںحذف کریں
  12. اسلام میں اجتماعیت کو بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ اسکی بھی مثال ہے کہ اجتماعیت کو توڑنے والی مسجد کو بھی توڑ دیا گیا ہے(مسجد ضرار)۔ اب مسجد میں چندہ دیتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہو گیا ہے کہ وہاں واقعی مسجد کی ضرورت ہے یا نہیں

    جواب دیںحذف کریں
  13. بے حد افسوس ناک صورتحال ہے مفتی صاحب ۔آپ نے جرات کے ساتھ اس مسئلے پر لکھا ہے اللہ رب العزت کو جزائے خیر عطا فرمائے ورنہ ایسی صورت میں اعتراض کرنے والے پر مسجد کی تعمیر روکنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے ۔سرکردہ افراد کو اس مسئلے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. Aapke is vlog ne to sochne pr majboor kardiya k agar kahin masjid ka chanda manga jaraha hoga to dena chahiye ya nhi....

    جواب دیںحذف کریں
  15. مفتی صاحب مجھے آپ سے کچھ سوالات پوچھنے ہے کیسے رابطہ کیا جائے؟

    جواب دیںحذف کریں
  16. آپ نے ایک نہایت اہم اور نازک مسئلے پر توجہ دلائی ہے، اور واقعی یہ مسئلہ صرف مالیگاؤں تک محدود نہیں بلکہ بہت سے شہروں اور بستیوں میں دیکھا گیا ہے جہاں مذہبی مقاصد کے نام پر جذبات میں آ کر ایسی تعمیرات کی جاتی ہیں جو نہ صرف غیر ضروری ہوتی ہیں بلکہ امت کے درمیان انتشار، وسائل کا ضیاع، اور آپسی نفرت و منافرت کا سبب بنتی ہیں۔

    میری رائے (Islamic and rational perspective):

    1. مسجد کی تعمیر کی شرعی بنیاد:

    مسجد کی تعمیر شریعت میں ایک اہم عمل ہے لیکن اس کے کچھ اصول اور مقاصد ہوتے ہیں:

    جہاں واقعتاً مسلمانوں کو نماز کے لیے جگہ نہ مل رہی ہو،

    یا پرانی مسجد نمازیوں کے لیے تنگ ہو گئی ہو،

    یا آبادی اتنی بڑھ گئی ہو کہ نئی مسجد کی اشد ضرورت ہو۔


    📌 صرف اختلاف، ضد یا مسلکی تقسیم کی بنیاد پر مسجد تعمیر کرنا شرعاً جائز نہیں۔

    2. امت کا انتشار اور اختلاف:

    تبلیغی جماعت کا اختلاف یا کسی ایک دھڑے کو کام نہ کرنے دینا، یہ ایک ادارہ جاتی یا مشاورتی مسئلہ ہے۔ اس کا حل "دوسری مسجد" نہیں بلکہ اکابر علما، مفتیانِ کرام اور محلہ کے معزز افراد کی ثالثی سے نکالا جانا چاہیے۔

    دوسری مسجد بنا دینے سے اختلاف ختم نہیں ہوگا، بلکہ مزید بڑھے گا۔


    3. وسائل کا ضیاع اور چندہ کا غلط استعمال:

    سات آٹھ سو اسکوائر فٹ جگہ خریدنے کے لیے لاکھوں روپے چندہ جمع کرنا، اور پھر اتنی ہی رقم تعمیر میں لگانا، جب کہ محلہ میں پہلے ہی کشادہ مسجد موجود ہو، یہ مسلمانوں کے قیمتی وسائل کا ضیاع ہے۔

    اسی رقم سے:

    کسی یتیم خانے کی مدد ہو سکتی ہے،

    غریب بچیوں کی شادی ہوسکتی ہے،

    تعلیم کے ادارے کھولے جا سکتے ہیں،

    یا اسی پرانی مسجد کے انتظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔



    4. اکابر علماء کا طریقہ:

    بڑے علما جیسے حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ، مفتی تقی عثمانی مدظلہ، اور دیگر اکابر نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ:

    مسجد بنانا انتہائی ذمہ داری والا کام ہے،

    اس میں سیاسی یا جماعتی جذبات کو شامل نہ کیا جائے،

    اور اختلاف کی بنیاد پر نئی مسجد بنانا "مسجد ضرار" کے مشابہ ہو سکتا ہے (جس کا ذکر سورہ توبہ میں آیا ہے)۔



    ---

    نتیجہ اور مشورہ:

    📌 میری عاجزانہ رائے میں یہ قدم واقعی غلط ہے، اور اس کی بجائے:

    1. اہلِ محلہ کو چاہیے کہ پرانی مسجد کی انتظامیہ سے اجتماعی ملاقات کریں۔


    2. مفتیانِ شہر سے تحریری فتویٰ اور مشورہ لیا جائے۔


    3. تبلیغی جماعت کے دونوں دھڑوں کو بٹھا کر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش ہو۔


    4. نئی مسجد کی بجائے موجودہ مسجد میں ہی مکتب یا جماعت کا نظام بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔

    جواب دیںحذف کریں
  17. Apki bat se sahi hai

    Aur pahle shaher me sahaba k nam per masjid hoti thi ab apne bap dada k nam per masjid k nam rakhe jate hai ye kaha tak munasib hai pata nahi

    جواب دیںحذف کریں
  18. آپ نے صد فی صد درست فرمایا میں صرف اختلاف کی وجہ سے نئی مسجد کی تعمیر کی جاۓ یہ روجحان بالکل غلط اور آگے جاکر بڑے فتنے کا سبب بن سکتا ہے میری ایک ادنی سی درخواست ہے راۓ ہے کی کیوں نا اہلیان محلہ مل کر مسجد کے ذمہ داران کو دونوں دھڑوں کو کام کرنے کا مکلف بناے یہ جو رجحان ہمارے شہر میں پیدا ہو رہا ہے اس کے اصل ذمہ دار دراصل مسجد کے متولی حضرات ہیں اگر یہ حضرات دونوں دھڑوں کو اپنی مسجد میں کام کرنے دیں تو یہ صورتحال پیدا ہی نہ ہو یہ حضرات کسی ایک کو کام کرنے دیتے ہیں اور دوسرے کو کام سے روک دیتے ہیں اصل میں مسئلہ انکا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  19. ایسے تو ہر کسی سچ میں اپنی ڈیڑھ ینٹ کی مسجد بن جائے گی

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

لاڈلی بہن اسکیم کی شرعی حیثیت

بوہرہ سماج کا وقف ترمیمی قانون کی حمایت اور ہمارا رد عمل