کاروبار میں اللہ تعالیٰ کو شریک بنانا

سوال :

مفتی صاحب! ید نے بکر کے ساتھ مل کر ایک کاروبار شروع کیا، دونوں کا کہنا ہے کہ ہم دو پارٹنر ہیں اور تیسرا پارٹنر ہم نے اللہ میاں کو بنایا ہے۔ کیا مفہوم ہوتا ہے اس بات کا؟ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی اس شراکت داری کی وجہ سے انہیں بے پناہ برکت ہو رہی ہے، جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں کماتے ہیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
----------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کاروبار میں اللہ تعالٰی کو شریک اور پارٹنر بنانا درست ہے اور یہ عمل بلاشبہ باعث خیر وبرکت ہوگا۔

اس کے تین طریقے ہیں، ایک طریقہ تو یہ ہے کہ زبان سے نہیں کہا کہ نفع میں اتنا حصہ اللہ تعالی کا ہے، بلکہ صرف نیت کی کہ اتنا حصہ غریبوں کو دوں گا تو اس کی حیثیت نفلی صدقہ کی ہے، اسے کسی غریب کو دینا، مسجد بنوانا، مدرسہ کی تعمیر کروانا، یا کسی مال دار کو بنیتِ ثواب دینا وغیرہ سب درست ہے۔ 

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہا کہ منافع کا اتنا حصہ صدقہ کریں گے، لیکن اس کی صراحت کی گئی کہ صدقے کا یہ حصہ ہم بطورِ نذر لازم نہیں کررہے، بلکہ یہ نفلی صدقے کے طور پر ہم خرچ کریں گے تو اس کی حیثیت بھی نفلی صدقہ کی ہوگی، لہٰذا اسے بھی اوپر بتائے گئے مصارف میں خرچ کرنا درست ہے۔

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہا کہ منافع کا اتنا حصہ اللہ تعالی کا ہے تو اس کی حیثیت نذر (منت) کی ہے، اس کی ادائیگی لازمی ہے، جسے صدقہ واجبہ کہا جاتا ہے، اس سے مسجد بنوانا، مدرسہ کی تعمیر کروانا، اسی طرح اس حصے میں سے مال دار  شخص کو یا اپنے والدین، اولاد اور میاں بیوی کا ایک دوسرے کو دینا درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ رقم کسی غریب مستحق زکوٰۃ مسلمان کو دینا ضروری ہے۔



اعْلَمْ أَنَّ الصَّدَقَةَ تُسْتَحَبُّ بِفَاضِلٍ عَنْ كِفَايَتِهِ،.... الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ؛ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ۔ (شامی : ٢/٣٥٧)

قَالَ فِي شَرْحِ الْمُلْتَقَى : وَالنَّذْرُ عَمَلُ اللِّسَانِ۔ (شامي : ٢/٤٣٣)
 
فالجملة في هذا أن جنس الصدقة یجوز صرفها إلی المسلم … ویجوز صرف التطوع إلیہم بالاتفاق، وری عن أبي یوسف أنه یجوز صرف الصدقات إلی الأغنیاء أذا سموا فی الوقف۔ فأما الصدقة علی وجه الصلة والتطوع فلا بأس به، وفي الفتاوی العتابیة: وکذلک یجوز النفل للغني۔ (الفتاویٰ التاتارخانیة : ۳؍۲۱۱-۲۱۴)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی 
23 ربیع الاول 1447

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مستقیم بھائی آپ سے یہ امید نہ تھی