پیر، 31 جولائی، 2023

رباعی "شاہ است حسین" کی مفصل تحقیق

سوال :

شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

یہ رباعی خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کی جاتی ہے، کہاں تک صحیح ہے؟ اور اس کا پڑھنا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حشیم الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور رباعی شاہ است حسین الخ کو خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے، اس سلسلے میں ہم متعدد تحقیقات یہاں نقل کررہے ہیں۔

عظیم محدث شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ کی شہرہ آفاق کتاب "تحفہ اثنا عشریہ" کے مترجم مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی مظاہری نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ
شاہ است حسین الخ : اس رباعی کو سرگروہ چشتیاں خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ علیہ کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ اور کیا عوام اور کیا خواص، سب کے سب اس رباعی کو خواجہ صاحب کا کلام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس رباعی کے مضمون کو دیکھتے ہوئے معمولی عقل رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ایسے جاہلانہ عقیدہ سے ہزار بار پناہ مانگتے ہیں۔ یہ اشعار دراصل ایک ایرانی شاعر معین الدین حسن سنجری نامی شخص کے ہیں جو شیعہ تھا۔ اور اہل سنت نادانستہ طور پر اور شیعہ دانستہ طور پر خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ (تحفہ اثنا عشریہ اردو : ١٠٦)

مفتی یوسف صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
جہاں تک اوّل الذکر رباعی اور اقبال کے شعر کا تعلق ہے یہ خالصتاً رافضی نقطہٴ نظر کے ترجمان ہیں، خواجہ اجمیری کی طرف رباعی کا انتساب غلط ہے، اور اقبال کا شعر “فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ” کا مصداق ہے۔ لطف یہ ہے کہ رباعی میں “سرداد و نہ داد دست در دست یزید” کو، اور اقبال کے شعر میں “بہر حق در خاک و خوں غلطیدن” کو “بنائے لاالٰہ” ہونے کی علت قرار دیا گیا ہے، حالانکہ توحید، جو مفہوم ہے “لاالٰہ” کا حق تعالیٰ کی صفت ہے، بندہ کا ایک فعل اللہ تعالیٰ کی توحید و یکتائی کی علت کیسے ہوسکتا ہے؟ ہاں جو لوگ ائمہ معصومین میں خدا اور خدائی صفات کے حلول کے قائل ہوں ان سے ایسا مبالغہ مستبعد نہیں۔ الغرض یہ رباعی کسی رافضی کی ہے، اور اقبال کا شعر اس کا سرقہ ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ١٠/١٤٣)

بریلوی عالم، مفتی شریف الحق امجدی نے لکھا ہے :
باوجود تتبع تام استقراء حتی الامکان کے تاہنوز حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ان کے سلسلے کے بزرگوں یا ہندوستان کے معتمد مصنفین کے تصنیفات میں کہیں اس رباعی کا تذکرہ نہیں، قصاص قسم کے واعظین بڑے طمطراق سے اسے حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں میں نے ان قصاصین سے پوچھا کہ اس کی کیا سند ہے؟ تو اب تک کوئی بھی اس کی سند نہیں پیش کرسکا کسی نے بازاری رسالوں کا نام لیا کسی نے اور واعظ کا حوالہ دیا غرض کہ اب تک یہ ثابت نہیں کہ حضرت سلطان ہند رضی اللہ عنہ کی رباعی ہے۔ (فتاویٰ شارح بخاری : ۲/۲۵۹)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
یہ کسی رافضی کا بنایا ہوا معلوم ہوتا ہے، حضرت اجمیری رحمہ اللہ کی طرف اس کی نسبت محل نظر ہے، اس ”رباعی“ میں سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شان میں بہت غلو سے کام لیا گیا ہے، اسے نہیں پڑھنا چاہیے۔

نوٹ : سوال میں مذکور شعر معین الدین کاسانی شیعی کا ہے اس کا مفہوم شریعت کے خلاف ہے، معین الدین اجمیری رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 155262)

مذکورہ بالا تفصیلات سے اس بات کا بخوبی علم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور رباعی کی نسبت حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف قطعاً درست نہیں ہے بلکہ یہ کسی رافضی شاعر کی لکھی ہوئی ہے اور جب یہ کسی شیعہ اور رافضی کی لکھی ہوئی ہے تو بلاشبہ اس میں ان کے باطل عقیدہ کے مطابق باتیں ہوں گی جو اہل سنت کے یہاں درست نہیں، جبکہ ان کے یہاں تقیہ بھی مشہور ہے۔ پھر اس کے ظاہری الفاظ پر بھی غور کیا جائے :

شاہ است حسین بادشاہ است حسین
شاہ بھی حسین ہیں بادشاہ بھی حسین ہیں
دین است حسین دین پناہ است حسین
دین بھی حسین ہیں دین کو پناہ دینے والے بھی حسین ہیں
سرداد نہ داد دست در دست یزید
سر دے دیا مگر نہیں دیا اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین
حقیقت تو یہ ہے کہ لاالہ کی بنیاد ہی حسین ہیں

تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رباعی اہل سنت کے عقائد کے مطابق نہیں ہے۔ لہٰذا ایک رافضی کی لکھی ہوئی اس رباعی کی نہ تاویل کی جائے اور نہ ہی ان کو پڑھا جائے۔ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول، علی کے دلارے، جنتی جوانوں کے سردار، سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شان میں اور بھی بہت سے اچھے اور بدعقیدگی سے پاک اشعار ہیں، انہیں پڑھنا چاہیے۔ اور ہمارے لیے تو ان کے نانا جان، رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان کافی شافی ہے کہ حسین (رضی اللہ عنہ) مجھ سے ہے اور میں حسین (رضی اللہ عنہ) سے ہوں اور جس شخص نے حسین سے محبت رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی۔ (ترمذی)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ۔ (سورہ حجرات، آیت : ٠٦)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ : مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ ؟ قَالَ : أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ، كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٠٢)

عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْکَبَائِرِ قَالَ الشِّرْکُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَقَوْلُ الزُّورِ۔ (مسلم، رقم : ٨٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 محرم الحرام 1445

ہفتہ، 29 جولائی، 2023

تعزیہ بنانے اور اس کو دیکھنے کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! تعزیہ بنانا کیسا ہے؟ اور اس کو دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ مسلمانوں کا ایک طبقہ جو اپنے آپ کو سنی کہتا ہے وہ بھی تعزیہ بناتا ہے، جبکہ سننے میں آیا ہے کہ ان کے بڑوں نے بھی اس کے ناجائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ مکمل مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : نعیم الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن وحدیث اور صحابہ کرام و سلف صالحین میں سے کسی کے بھی عمل سے تعزیہ داری کا ثبوت نہیں ہے، یہ ایک بہت بڑی بدعت اور گمراہی ہے۔

تعزیہ کی تاریخ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہندوستان کا ایک بادشاہ تیمور لنگ جو شیعہ فرقہ سے تھا، محرم کے مہینے میں ہر سال عراق ضرور جاتا تھا، لیکن بیماری کی وجہ سے ایک سال نہیں جا پایا۔ وہ دل مریض تھا، اس لئے اطباء نے اسے سفر کیلئے منع کیا تھا۔ بادشاہ سلامت کو خوش کرنے کیلئے درباریوں نے ایسا کرنا چاہا، جس سے تیمور خوش ہو جائے۔ اس زمانہ کے فنکاروں کو جمع کر کے انہیں عراق کے کربلا میں بنے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبرمبارک کی نقل بنانے کا حکم دیا۔ کچھ فنکاروں نے بانس کی کھپچیوں کی مدد سےقبر یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی یادگار کا ڈھانچہ تیار کیا۔ اسے طرح طرح کے پھولوں سے سجایا گیا۔ اسی کو تعزیہ کا نام دیا گیا۔اس طرح تعزیہ کو پہلی بار 801 ہجری میں تیمور لنگ کے محل کے احاطے میں رکھا گیا۔تیمور کے اس تعزیہ کی دھوم بہت جلد پورے ملک میں مچ گئی۔ ملک بھر سے راجے رجواڑے اور عقیدت مند عوام ان تعزیوں کی زیارت کیلئے پہنچنے لگے۔ تیمور لنگ کو خوش کرنے کیلئے ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اس روایت کا سختی کیساتھ آغازہو گیا۔خاص طور پر دہلی کے آس پاس کے آباد شیعہ فرقے کے نواب تھے، انہوں نے فوری طور پر اس روایت پر عمل شروع کر دیا اس کے بعد سے لے کر آج تک اس منفرد روایت کو بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور برما یامیانمار میں منایا جا رہا ہے۔ جبکہ خود تیمور لنگ کے ملک ازبکستان یا قازقستان میں اور شیعہ اکثریتی ملک ایران میں تعزیوں کی روایت کا کوئی ذکرنہیں ملتا۔

ویسے تعزیہ بنانے کی تاریخ خواہ کچھ بھی ہو، اس کے دین میں ایک نئی چیز اور بدعت قبیحہ و سیئہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

تعزیہ داری درعشرہ محرم وساختن ضرائح وصورت وغیرہ درست نیست زیراکہ تعزیہ داری عبارت ازیں ست کہ ترک لذائذ وترک زینت کند وصورت محزون و غمگیں نمایند یعنی مانند صورت زناں سوگ دارندہ بنشیند ومرد را ہیچ ازیں قسم در شرع ثابت نشود۔ (فتاویٰ عزیزی : ۷۲، مطبوعہ دہلی)
ترجمہ : عشرہ محرم میں تعزیہ داری اور تعزیے یا قبروں کی صورت بنانا جائز نہیں ہے اس لئے کہ تعزیہ نام ہے اس بات کا کہ لذیذ چیزوں اور زینت کو ترک کردے اور شکل وصورت غمگین و محزون بنائے یعنی سوگ والی عورتوں کی طرح بیٹھے، مرد کو یہ بات کسی موقع پر شریعت سے ثابت نہیں ہے۔

آپ نے صحیح سنا ہے، فاضل بریلی احمد رضا خاں صاحب مرحوم کے اس سلسلے میں متعدد فتاوی ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :

علم، تعزیہ، بیرک، مہندی، جس طرح رائج ہے بدعت ہے، اور بدعت سے شوکت اسلام نہیں ہوتی، تعزیہ کو حاجت روا یعنی ذریعۂ حاجت روائی سمجھنا جہالت پر جہالت ہے اور اس سے منت ماننا حماقت اور نہ کرنے والوں کو باعث نقصان خیال کرنا زنانہ وہم ہے، مسلمانوں کو ایسی حرکت سے باز آنا چاہئے۔ (رسالہ محرم و تعزیہ داری : ۵۹)

سوال : تعزیہ بنانا سنت ہے، جس کا یہ عقیدہ ہو یا قرآن شریف کی کسی آیت یا حدیث سے سند پکڑے، ایسا شخص علماء اہل سنت و الجماعت کے نزدیک خارج از اسلام تو نہ سمجھا جائے گا؟ اس پر کفر کا اطلاق جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ کیسے شروع ہوا ہے؟ اگر سامنے آجائے تو بنظر تحقیر یا تعظیم دیکھنا چاہئے یا نہیں؟
الجواب : وہ جاہل خطا وار مجرم ہے، مگر کافر نہ کہیں گے، تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض ورو گردانی کریں اس کی جانب دیکھنا ہی نہ چاہئے اس کی ابتداء سنا جاتا ہے امیر تیمور لنگ بادشاہ دہلی کے وقت سے ہوئی۔ (عرفان شریعت : ۱۵/۲)

تعزیہ داری طریقہ نامرضیہ کا نام ہے قطعاً بدعت و ناجائز و حرام ہے۔ (رسالہ تعزیہ داری : ۳)

رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں۔ اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیان لئام ہے۔ (فتاوی رضویہ جدید، 756/23، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

سوال : محرم شریف میں مرثیہ خوانی میں شرکت جائز ہے یا نہیں؟
الجواب : ناجائز ہے کہ وہ مناہی و منکرات (ناجائز اعمال) سے مملو (بھرے) ہوتے ہیں۔ (عرفان شریعت : ١/۱۶)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ تعزیہ داری بدعت اور گمراہی ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور بات صرف بدعت پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس میں ہندوؤں کے تہوار گنپتی سے مشابہت بھی ہے، یعنی ہندوؤں کے تہوار گنپتی کے جیسے پہلے ایک ماڈل بنانا پھر اس سے منتیں ماننا اور پھر اسے جاکر ندی میں ڈبو دینا، اسے دیکھ کر کون سے غیرمسلم اسلام سے متاثر ہوں گے؟ وہ تو یہی سمجھیں گے جو کام ہم کرتے وہی معمولی سے تبدیلی کے ساتھ مسلمان بھی کرتے ہیں۔ اس لیے ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ گویا اس کی وجہ سے غیرمسلموں کو اسلام سے بدظن اور دور کرنے کا کام کیا گیا ہے۔

اور جب تعزیہ کا بنانا جائز نہیں ہے تو اس کا دیکھنا بھی جائز نہیں، کیونکہ گناہ کے کاموں کو دیکھنا بھی گناہ ہوتا ہے، نیز اس کو دیکھنے کی وجہ سے دشمنانِ اسلام کی رونق بڑھتی ہے، جبکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ " من کثر سواد قوم فہو منہم‘‘۔(کنز العمال ۹؍۲۲ رقم : ۲۴۷۳۵)
(ترجمہ : جو شخص کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنا اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا) کے مصداق ہوکر گناہ گار ہوں گے۔ لہٰذا مسلمانوں کو تعزیہ بنانے اور اس کے دیکھنے سے مکمل طور پر اجتناب کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ سنگین اور کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔

عن زینب بنت أبي سلمۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: لما أتی أم حبیبۃ نعي أبي سفیان دعت في الیوم الثالث بصفرۃ، فمسحت بہ ذراعیہا وعارضیہا وقالت : کنت عن ہٰذا غنیَّۃً، سمعت النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : لا یحل لامرأۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن تحد فوق ثلاثٍ إلا علی زوج، فإنہا تحد علیہ أربعۃ أشہر وعشرًا۔ (صحیح مسلم : ۱؍۴۸۷)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۲۵۱)

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ٤٦٠٧)

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 محرم الحرام 1445

بدھ، 26 جولائی، 2023

یوم عاشوراء سے منسوب واقعات کی تحقیق

سوال :

مفتیِ محترم سے ایک مسئلے کے متعلق رہنمائی مطلوب تھی کہ ایک عالم دین کی تحریر نظر سے گذری جس میں انہوں نے مندرجہ بالا واقعات کو یوم عاشورہ سے منسوب کیا ہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ واقعات مستند ہیں؟ کہیں یہ تمام واقعات اسرائیلی روایات سے ماخوذ تو نہیں؟ نیز ان واقعات کا عوامی مجالس مثلاً خطاب جمعہ وغیرہ کے دوران بیان کرنا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور وعندی ممنون ہوں۔

(۱) یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔
(۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔
(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔
(۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔
(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
(۶) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔
(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔
(۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔
(۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔
(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔
(۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔
(۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔
(۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔
(۱۵) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔
(۱۷) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔
(۱۸) اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
(۱۹) اسی دن حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔
(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔
(۲۱) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔
(المستفتی : مولوی خالد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور واقعات میں سے صرف حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون سے نجات کا واقعہ ہے، جو بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، کتب احادیث بشمول بخاری ومسلم میں صحیح سند کے ساتھ مذکور ہے۔

اس کے علاوہ چار واقعات اسانید ضعیفہ سے وارد ہوئے ہیں، ضعف سند کے ساتھ ان کا بھی اعتبار کیا جاسکتا ہے اور انہیں بیان بھی کیا جاسکتا ہے جو درج ذیل ہیں :

۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہونا
۲۔  حضرت نوح علیہ السلام کی طوفان سے نجات۔
۳۔ فرعون کے جادوگروں کی توبہ قبول ہونا۔
۴۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ۔

بقیہ جتنے بھی واقعات ہیں جو عاشوراء کی طرف منسوب کئے گئے ہیں انہیں ماہر فن علماء اور محدثین مثلاً امام بیہقی، ابن جوزی، امام ذہبی اور علامہ عبدالحی لکھنوی رحمھم اللہ نے موضوع، من گھڑت اور غیر معتبر قرار دیا ہے، لہٰذا ان کا لکھنا اور بیان کرنا درست نہیں ہے۔

مفصل تحقیق کے لیے احادیث کی تحقیق کے لیے مشہور حضرت شیخ طلحہ بلال منیار دامت برکاتہم کا مضمون درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں :
عاشوراء کے دن کی طرح منسوب انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی حقیقت

قلت : الَّذِي ثَبت بالأحاديث الصَّحِيحَة المروية فِي الصِّحَاح السِّتَّة وَغَيرهَا أَن الله تَعَالَى نجى مُوسَى على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام من يَد فِرْعَوْن وَجُنُوده وغرَّق فِرْعَوْن وَمن مَعَه يَوْمَ عَاشُورَاء .وَمِن ثَمَّ كَانَت الْيَهُودُ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاء ويتَّخذونه عيدا . وَقد صَامَ النَّبِي حِين دَخل الْمَدِينَة وَرَأى الْيَهُود يصومونه وَأمر أَصْحَابه بصيامه وَقَالَ : نَحن أَحَق بمُوسَى مِنْكُم، وَنهى عَن اتِّخَاذه عيدا وَأمر بِصَوْم يَوْم قبله أَو بعده حذرا من مُوَافقَة الْيَهُود والتشبه بهم فِي إِفْرَاد صَوْم عَاشُورَاء.

وَثَبت بروايات أخر فِي "لطائف المعارف" لِابْنِ رَجَب وَغَيره :أَن الله قبل تَوْبَة آدم على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام . وَثَبت بِرِوَايَة أُخْرَى أَن نوحًا على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام اسْتَوَت سفينتُه على الجُودي يَوْم عَاشُورَاء كَمَا فِي "الدّرّ المنثور" وَغَيره معزوّا إِلَى أَحْمد وَأبي الشَّيْخ وَابْن مرْدَوَيْه وَابْن جرير والأصبهاني وَغَيرهم .وَفِي رِوَايَة للأصبهاني فِي كتاب "التَّرْغِيب والترهيب" أَن يَوْم ولادَة عِيسَى يَوْم عَاشُورَاء كَمَا فِي "الدّرّ المنثور" أَيْضا .

وَأما هَذِه الْأَحَادِيث الطوَال الَّتِي ذُكر فِيهَا كثير من الوقائع الْعَظِيمَة الْمَاضِيَة والمستقبَلة أَنَّهَا فِي يَوْم عَاشُورَاء فَلَا أصل لَهَا ،وَإِن ذكرهَا كثير من أَرْبَاب السلوك والتاريخ فِي تواليفهم، وَمِنْهُم الْفَقِيه أَبُو اللَّيْث ذكر فِي" تَنْبِيه الغافلين" حَدِيثا طَويلا فِي ذَلِكَ ،وَكَذَا ذكر فِي "بستانه" فَلَا تغتر بِذكر هَؤُلَاءِ ،فَإِن الْعبْرَة فِي هَذَا الْبَاب لنقد الرِّجَال لَا لمُجَرّد ذكر الرِّجَال۔ (الآثار المرفوعہ في الأخبار الموضوعہ : ٩٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 محرم الحرام 1445

پیر، 24 جولائی، 2023

آشوب چشم میں آنکھوں سے نکلنے والے پانی کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ فی الحال آشوب چشم کی وباء چلی ہوئی ہے، ایک جگہ پڑھنے میں آیا ہے کہ اس بیماری میں آنکھ سے نکلنے والا پانی ناپاک ہوتا ہے اور اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، براہ کرم اس مسئلے کو وضاحت کے ساتھ تحریر فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آشوب چشم میں نکلنے والا پانی مطلقاً ناپاک اور ناقض وضو نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں تفصیل ہے۔

آنکھوں میں درد ہونے کی وجہ سے یا بغیر درد کے جو پانی نکلے اور وہ صاف ہوتو بلاشبہ ایسا پانی پاک ہے۔

ماہر فن اطباء کا اس سلسلے میں کہنا یہ ہے کہ آشوبِ چشم میں نہ زخم ہوتا ہے نا پیپ پڑتی ہے بلکہ چشم پر تہہ کرنے والی بیرونی پرت انفیکشن یا الرجی کا شکار ہوجاتی ہے اور مقامی سوزش کے نتیجے میں بیرونی پرت اور آنسوؤں کے غدود میں بھی سوزش ہوتی ہے۔ آنکھ سُرخ ہو جاتی ہے اور آنسو کثرت سے بہنے لگتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے عموماً آشوبِ چشم میں آنکھوں سے نکلنے والا پانی ناپاک اور وضو کو توڑنے والا نہیں ہوتا، لہٰذا اس کو لے کر تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔

البتہ آنکھوں سے نکلنے والا ایسا پانی (خواہ درد کی وجہ سے ہو یا بغیر درد کے) جو اپنی اصل حالت سے تبدیل ہو چکا ہو یعنی پیپ یا خون آلود ہوتو وہ ناپاک اور ناقض وضو ہے بشرطیکہ وہ آنکھ کے حلقہ سے باہر نکل آئے۔

بَلْ الظَّاهِرُ إذَا كَانَ الْخَارِجُ قَيْحًا أَوْ صَدِيدًا لَنَقَضَ، سَوَاءٌ كَانَ مَعَ وَجَعٍ أَوْ بِدُونِهِ لِأَنَّهُمَا لَا يَخْرُجَانِ إلَّا عَنْ عِلَّةٍ .... وَعَنْ مُحَمَّدٍ إذَا كَانَ فِي عَيْنَيْهِ رَمَدٌ وَتَسِيلُ الدُّمُوعُ مِنْهَا آمُرُهُ بِالْوُضُوءِ لِوَقْتِ كُلِّ صَلَاةٍ لِأَنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ مَا يَسِيلُ مِنْهَا صَدِيدًا فَيَكُونُ صَاحِبَ الْعُذْرِ. اهـ. قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَهَذَا التَّعْلِيلُ يَقْتَضِي أَنَّهُ أَمْرُ اسْتِحْبَابٍ، فَإِنَّ الشَّكَّ وَالِاحْتِمَالَ لَا يُوجِبُ الْحُكْمَ بِالنَّقْضِ، إذْ الْيَقِينُ لَا يَزُولُ بِالشَّكِّ نَعَمْ إذَا عَلِمَ بِإِخْبَارِ الْأَطِبَّاءِ أَوْ بِعَلَامَاتٍ تَغْلِبُ ظَنَّ الْمُبْتَلَى، يَجِبُ۔ (شامی : ١/١٤٧-١٤٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 محرم الحرام 1445

ہفتہ، 22 جولائی، 2023

نکاح کے وقت دولہے کو دودھ پلانا

سوال :

نکاح کے وقت دولہے کو دودھ پینے کےلیے دیا جاتا ہے۔ اس بارے میں کہتے ہیں کے دولہے کو تھوڑا پی کر دوستوں میں دے دینا چاہیے، دولہے کا جھوٹا پینے سے جلدی شادی ہوتی ہے۔ اور اگر دولہا پورا دودھ پی جائے تو اس کو برا سمجھا جاتا کہ پورا نہیں  پینا چاہیے تھا، ساتھ ہی اس رسم کے بارے میں بھی بتائے کے کیا یہ رسم نکاح کا حصہ ہے؟
(المستفتی : زبیر احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح کے وقت دولہے کو دودھ پلانا ایک جائز عمل ہے۔ بشرطیکہ اسے فرض، واجب یا سنت نہ سمجھا جائے، اور نہ ہی یہ نکاح کا حصہ ہے۔

اگر دولہا پورا دودھ پی جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، دوستوں کو بچاکر دینا ضروری نہیں۔ لہٰذا دودھ بچاکر نہ دینے کو برا سمجھنا درست نہیں ہے۔

دولہے کا جھوٹا پینے سے جلد شادی ہوتی ہے، یہ بالکل بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے۔ لہٰذا ایسی فضول باتوں کا عقیدہ رکھنے سے بچنا ضروری ہے۔

الاصل فی الاشیاء الاباحۃ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱؍۲۲۳)

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ۔(صحیح مسلم، رقم : 1718)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 محرم الحرام 1445

بدھ، 19 جولائی، 2023

قعدہ سے قیام میں آنے کا مسنون طریقہ

سوال :

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھنے میں آیا جس میں یہ بتارہے ہیں مقرر صاحب کہ قعدہ سے اٹھتے وقت ہاتھ کو زمین پر ٹیک کر اٹھنا سنت ہے اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر سہارے سے اٹھنا خلاف سنت ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ابو سفیان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک نماز میں سجدہ یا قعدہ سے کھڑے ہوتے ہوئے ہاتھوں کو گھٹنوں پر ٹکا کر پیروں کے زور پر اٹھنا مسنون ہے، بغیر کسی عذر کے زمین پر ہاتھ ٹیک کر اٹھنا خلافِ سنت ہے۔ احناف کی دلیل ابوداؤد شریف کی درج ذیل روایت ہے :

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی نماز میں اٹھتے ہوئے ہاتھوں پر سہارا دے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر ہی سجدے وغیرہ سے اٹھنا مسنون ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدے وغیرہ سے اٹھتے وقت ہاتھوں کو زمین پر ٹیکا تھا۔ احناف اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل ضعف اور کبر سنی پر محمول ہوگا کہ اس وقت چونکہ ضعف و کمزوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بغیر ہاتھوں کو ٹیکے ہوئے اٹھنا ممکن نہیں تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہاتھوں کو سہارا دے کر اٹھے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر عذر ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر نہیں اٹھتے تھے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو کوئی عذر (بہت زیادہ موٹا ہونا یا بدن کے جوڑوں میں درد ہونا یا بوڑھا ہونا) ہوتو اس کا ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر اٹھنے میں حرج نہیں۔

سوال نامہ میں جن عالم صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ شافعی مسلک کے مطابق مسئلہ بیان کررہے ہیں، ہم نے اوپر احناف کا مسلک مع دلیل بیان کردیا ہے۔

عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ : أَنْ يَجْلِسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِهِ. وَقَالَ ابْنُ شَبُّويَهْ : نَهَى أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدِهِ فِي الصَّلَاةِ. وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ : نَهَى أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِهِ. وَذَكَرَهُ فِي بَابِ الرَّفْعِ مِنَ السُّجُودِ. وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ : نَهَى أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدَيْهِ إِذَا نَهَضَ فِي الصَّلَاةِ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٩٩٢)

(قَوْلُهُ وَكَبَّرَ لِلنُّهُوضِ بِلَا اعْتِمَادٍ وَقُعُودٍ) لِحَدِيثِ أَبِي دَاوُد «نَهَى النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدَيْهِ إذَا نَهَضَ فِي الصَّلَاةِ» ، وَفِي حَدِيثِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٌ فِي صِفَةِ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «وَإِذَا نَهَضَ نَهَضَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَاعْتَمَدَ عَلَى فَخْذَيْهِ» وَلِحَدِيثِ التِّرْمِذِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يَنْهَضُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيْهِ۔ (البحر الرائق : ١/٣٤٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 ذی الحجہ 1444