پیر، 31 جولائی، 2023

رباعی "شاہ است حسین" کی مفصل تحقیق

سوال :

شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

یہ رباعی خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کی جاتی ہے، کہاں تک صحیح ہے؟ اور اس کا پڑھنا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حشیم الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور رباعی شاہ است حسین الخ کو خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے، اس سلسلے میں ہم متعدد تحقیقات یہاں نقل کررہے ہیں۔

عظیم محدث شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ کی شہرہ آفاق کتاب "تحفہ اثنا عشریہ" کے مترجم مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی مظاہری نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ
شاہ است حسین الخ : اس رباعی کو سرگروہ چشتیاں خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ علیہ کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ اور کیا عوام اور کیا خواص، سب کے سب اس رباعی کو خواجہ صاحب کا کلام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس رباعی کے مضمون کو دیکھتے ہوئے معمولی عقل رکھنے والا بھی مجھ سکتا ہے کہ خواجہ اجمیری رحمہ اللہ علیہ ایسے جاہلانہ عقیدہ سے ہزار بار پناہ مانگتے ہیں۔ یہ اشعار دراصل ایک ایرانی شاعر معین الدین حسن سنجری نامی کے ہیں جو شیعہ تھا۔ اور اہل سنت نادانستہ طور پر اور شیعہ دانستہ طور پر خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ (تحفہ اثنا عشریہ اردو : ١٠٦)

مفتی یوسف صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
جہاں تک اوّل الذکر رباعی اور اقبال کے شعر کا تعلق ہے یہ خالصتاً رافضی نقطہٴ نظر کے ترجمان ہیں، خواجہ اجمیری کی طرف رباعی کا انتساب غلط ہے، اور اقبال کا شعر “فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ” کا مصداق ہے۔ لطف یہ ہے کہ رباعی میں “سرداد و نہ داد دست در دست یزید” کو، اور اقبال کے شعر میں “بہر حق در خاک و خوں غلطیدن” کو “بنائے لاالٰہ” ہونے کی علت قرار دیا گیا ہے، حالانکہ توحید، جو مفہوم ہے “لاالٰہ” کا حق تعالیٰ کی صفت ہے، بندہ کا ایک فعل اللہ تعالیٰ کی توحید و یکتائی کی علت کیسے ہوسکتا ہے؟ ہاں جو لوگ ائمہ معصومین میں خدا اور خدائی صفات کے حلول کے قائل ہوں ان سے ایسا مبالغہ مستبعد نہیں۔ الغرض یہ رباعی کسی رافضی کی ہے، اور اقبال کا شعر اس کا سرقہ ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ١٠/١٤٣)

بریلوی عالم، مفتی شریف الحق امجدی نے لکھا ہے :
باوجود تتبع تام استقراء حتی الامکان کے تاہنوز حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ان کے سلسلے کے بزرگوں یا ہندوستان کے معتمد مصنفین کے تصنیفات میں کہیں اس رباعی کا تذکرہ نہیں، قصاص قسم کے واعظین بڑے طمطراق سے اسے حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں میں نے ان قصاصین سے پوچھا کہ اس کی کیا سند ہے؟ تو اب تک کوئی بھی اس کی سند نہیں پیش کرسکا کسی نے بازاری رسالوں کا نام لیا کسی نے اور واعظ کا حوالہ دیا غرض کہ اب تک یہ ثابت نہیں کہ حضرت سلطان ہند رضی اللہ عنہ کی رباعی ہے۔ (فتاویٰ شارح بخاری : ۲/۲۵۹)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
یہ کسی رافضی کا بنایا ہوا معلوم ہوتا ہے، حضرت اجمیری رحمہ اللہ کی طرف اس کی نسبت محل نظر ہے، اس ”رباعی“ میں سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شان میں بہت غلو سے کام لیا گیا ہے، اسے نہیں پڑھنا چاہیے۔

نوٹ : سوال میں مذکور شعر معین الدین کاسانی شیعی کا ہے اس کا مفہوم شریعت کے خلاف ہے، معین الدین اجمیری رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 155262)

مذکورہ بالا تفصیلات سے اس بات کا بخوبی علم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور رباعی کی نسبت حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف قطعاً درست نہیں ہے بلکہ یہ کسی رافضی شاعر کی لکھی ہوئی ہے اور جب یہ کسی شیعہ اور رافضی کی لکھی ہوئی ہے تو بلاشبہ اس میں ان کے باطل عقیدہ کے مطابق باتیں ہوں گی جو اہل سنت کے یہاں درست نہیں، جبکہ ان کے یہاں تقیہ بھی مشہور ہے۔ پھر اس کے ظاہری الفاظ پر بھی غور کیا جائے :

شاہ است حسین بادشاہ است حسین
شاہ بھی حسین ہیں بادشاہ بھی حسین ہیں
دین است حسین دین پناہ است حسین
دین بھی حسین ہیں دین کو پناہ دینے والے بھی حسین ہیں
سرداد نہ داد دست در دست یزید
سر دے دیا مگر نہیں دیا اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین
حقیقت تو یہ ہے کہ لاالہ کی بنیاد ہی حسین ہیں

تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رباعی اہل سنت کے عقائد کے مطابق نہیں ہے۔ لہٰذا ایک رافضی کی لکھی ہوئی اس رباعی کی نہ تاویل کی جائے اور نہ ہی ان کو پڑھا جائے۔ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول، جنتی جوانوں کے سردار، سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شان میں اور بھی بہت سے اچھے اور بدعقیدگی سے پاک اشعار ہیں، انہیں پڑھنا چاہیے۔ اور ہمارے لیے تو ان کے نانا جان، رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان کافی شافی ہے کہ حسین (رضی اللہ عنہ) مجھ سے ہے اور میں حسین (رضی اللہ عنہ) سے ہوں اور جس شخص نے حسین سے محبت رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی۔ (ترمذی)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ۔ (سورہ حجرات، آیت : ٠٦)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ : مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ ؟ قَالَ : أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ، كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٠٢)

عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْکَبَائِرِ قَالَ الشِّرْکُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَقَوْلُ الزُّورِ۔ (مسلم، رقم : ٨٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 محرم الحرام 1445

3 تبصرے:

  1. Mashallah Allah aap ko
    .Jazaye-Khair de. Aamin

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ آپ نے علمائے دیوبند و بریلوی کے فتاویٰ سے اپنے جواب کو بہت خوبصورت انداز میں مزین کیا ہے ۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا

    جواب دیںحذف کریں