جمعرات، 29 ستمبر، 2022

امام کی غلطی میں مقتدی کا قصور؟

سوال :

مفتی صاحب! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے اگر نماز میں کہیں سہو ہوجاتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ مقتدی سے کوئی غلطی ہوئی ہے اس لیے مجھ سے رکعت بھلا دی گئی ہے۔ کیا ایسی کوئی حدیث ہے؟
(المستفتی : حافظ عارف، شری رامپور)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مقتدیوں کی وضو میں بے احتیاطی کی وجہ سے امام سے نماز میں غلطی ہوتی ہے، اس سلسلے میں حدیث شریف ملتی ہے جو درج ذیل ہے۔

حضرت ابوروح سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں کوئی نماز پڑھائی جس میں سورت روم کی تلاوت فرمائی دوران تلاوت آپ پر کچھ اشتباہ ہوگیا۔ نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ شیطان نے ہمیں قرأت کے دوران اشتباہ میں ڈال دیا جس کی وجہ وہ لوگ ہیں جو نماز میں اچھی طرح وضو کرکے نہیں آتے۔ اس لئے جب تم نماز کے لئے آیا کرو تو خوب اچھی طرح وضو کیا کرو۔

درج بالا حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ باجماعت نماز میں مقتدیوں کے اچھی طرح سے وضو کیے بغیر شریک ہونے کا اثر امام پر پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے امام سے غلطی واقع ہوتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہر مرتبہ مقتدیوں کی وضو میں بے احتیاطی اور غفلت کی وجہ سے ہی امام سے غلطی ہوتی ہو، بلکہ امام کی اپنی الجھن اور بشری تقاضہ کے تحت بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔

عَنْ أَبِي رَوْحٍ الْكَلَاعِيِّ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً فَقَرَأَ فِيهَا سُورَةَ الرُّومِ فَلَبَسَ عَلَيْهِ بَعْضُهَا قَالَ إِنَّمَا لَبَسَ عَلَيْنَا الشَّيْطَانُ الْقِرَاءَةَ مِنْ أَجْلِ أَقْوَامٍ يَأْتُونَ الصَّلَاةَ بِغَيْرِ وُضُوءٍ فَإِذَا أَتَيْتُمْ الصَّلَاةَ فَأَحْسِنُوا الْوُضُوءَ۔ (مسند احمد، رقم : ١٥٨٧٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الاول 1444

جب جب نکاح کروں میری بیوی کو تین طلاق کہنا

سوال :

محترم المقام جناب مفتی صاحب! بہت ہی پیچیدہ مسئلہ در پیش ہے۔ کلاس میں ایک طالب علم سبق نہیں سنا سکا جس کی وجہ سے استاذ نے بہ طور سزا شاگرد سے کہا  کہ اگر اب آئندہ سبق نہیں سنائے تو تم قسم کھاؤ کہ جب جب بھی نکاح کرو گے عورت کو تین طلاق، شاگرد قسم قبول کرتے ہوئے کہا " اب میرا سبق کا ناغہ نہیں ہوگا اور اگر میرا سبق کا ناغہ ہوا تو میں قسم کھاتا ہوں جب جب نکاح کروں لڑکی کو تین طلاق" جب کہ شاگرد بالغ ہے، اگر شاگر کا سبق کا ناغہ ہوجائے، تو کیا شاگرد جتنی بھی عورتوں سے نکاح کرے گا ہر مرتبہ عورت پر نکاح ہوتے ہی تین طلاق واقع ہو جائے گی؟ اس کا کوئی حل مل جاتا تو بہتر ہوگا۔ اگر یہی مسئلہ نابالغ لڑکا کے ساتھ پیش آئے تو کیا حکم ہوگا؟
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگرکسی شخص نے اس طرح کہا کہ اگر میں فلاں کام کروں تو جب جب میں نکاح کروں میری بیوی پرتین طلاق، لہٰذا جب جب وہ نکاح کرے گا اس کی بیوی پر تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی۔

صورتِ مسئولہ میں بھی یہی مسئلہ ہے کہ طالب علم نے جب بھی سبق کا ناغہ کردیا تو جب جب وہ نکاح کرے گا اس کی بیوی تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی۔ البتہ اس قسم سے بچنے کے لئے تدبیر یہ ہے کہ کوئی شخص جو کہ حالات سے واقف ہو وہ جس عورت سے اس کا نکاح مناسب سمجھے بحیثیت فضولی نکاح کردے، مثلاً اس عورت سے کہے میں نے تمہارا نکاح اتنے مہر پر فلاں شخص سے کردیا وہ عورت جواب میں کہے کہ میں نے اس کو قبول کیا، اور ایجاب وقبول کم ازکم دوگواہوں کے سامنے ہو، پھر یہ فضولی اس قسم کھانے والے سے آکر کہے کہ میں نے فلاں عورت سے تمہارا نکاح کردیا ہے، اتنا مہرلاؤ، وہ زبان سے کچھ نہ کہے بلکہ کل یا جزو مہر دیدے، پھر وہ مہر عورت کے پاس پہنچا دے، اس طرح اس نکاح فضولی کی یہ اجازت فعلی ہوئی، جس سے نکاح درست ہوگیا، اور اس عورت پر طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔ البتہ اگر طالب علم نابالغ ہوتو وہ شریعت کا مکلف نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے کہنے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔

فضولی اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ خود صاحب معاملہ ہو نہ صاحب معاملہ کا ولی ہو اور نہ وکیل ہو، بلکہ ایک عام آدمی ہو جو کسی کی طرف سے معاملہ کرلے تو اس کا یہ معاملہ اصل صاحب کے اختیار پر موقوف رہیگا، اسی طرح نکاح کے سلسلہ میں بھی ہے کہ وہ کسی لڑکے یا لڑکی کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر کردے اور بعد میں اس کو اس کی اطلاع کردے تو وہ اسی وقت اسی مجلس میں اس پر راضی ہوجائیں تو نکاح ہوجائے گا۔

فَفِي جَمِيعِهَاأَيْ جَمِيعِ الْأَلْفَاظِ إذَا وُجِدَ الشَّرْطُ انْتَهَتْ الْيَمِينُ إلَّا فِيْ كُلَّمَا فَإِنَّهَا تَنْتَهِي فِيهَا بَعْدَ الثَّلَاثِ مَا لَمْ تَدْخُلْ عَلَى صِيغَةِ التَّزَوُّجِ لِدُخُولِهَا عَلَى سَبَبِ الْمِلْكِ فَلَوْ قَالَ كُلَّمَا تَزَوَّجْت امْرَأَةً فَهِيَ طَالِقٌ تَطْلُقُ بِكُلِّ تَزَوُّجٍ، وَلَوْ بَعْدَ زَوْجٍ آخَرَ۔ وَالْحِيلَةُ فِيهِ عَقْدُ الْفُضُولِيِّ أَوْ فَسْخُ الْقَاضِي الشَّافِعِيِّ، وَكَيْفِيَّةُ عَقْدِ الْفُضُولِيِّ أَنْ يُزَوِّجَهُ فُضُولِيٌّ فَأَجَازَ بِالْفِعْلِ بِأَنْ سَاقَ الْمَهْرَ وَنَحْوَهُ لَا بِالْقَوْلِ فَلَا تَطْلُقُ۔ (مجمع الانہر : ١/٤١٨)

(وَأَمَّا شَرَائِطُهَا فِي الْيَمِينِ بِاَللَّهِ تَعَالَى) فَفِي الْحَلِفِ أَنْ يَكُونَ عَاقِلًا بَالِغًا، فَلَا يَصِحُّ يَمِينُ الْمَجْنُونِ، وَالصَّبِيِّ، وَإِنْ كَانَ عَاقِلًا، وَمِنْهَا أَنْ يَكُونَ مُسْلِمًا فَلَا يَصِحُّ يَمِينُ الْكَافِرِ حَتَّى لَوْ حَلَفَ الْكَافِرُ عَلَى يَمِينٍ ثُمَّ أَسْلَمَ فَحَنِثَ لَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ عِنْدَنَا كَذَا فِي الْبَدَائِعِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٥١)

كُلُّ عَقْدٍ صَدَرَ مِنْ الْفُضُولِيِّ وَلَهُ قَابِلٌ يُقْبَلُ سَوَاءٌ كَانَ ذَلِكَ الْقَابِلُ فُضُولِيًّا آخَرَ أَوْ وَكِيلًا أَوْ أَصِيلًا انْعَقَدَ مَوْقُوفًا هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ وَشَطْرُ الْعَقْدِ يَتَوَقَّفُ عَلَى الْقَبُولِ فِي الْمَجْلِسِ وَلَا يَتَوَقَّفُ عَلَى مَا وَرَاءَ الْمَجْلِسِ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٩٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الاول 1444

بدھ، 28 ستمبر، 2022

صرف ایک بیٹے کے حق میں وصیت کرنا

سوال :

مفتی صاحب! مسئلہ اسطرح سے ہے کہ ایک آدمی کی چار اولاد ہیں، ۲ لڑکے ۲ لڑکی۔ اس آدمی کی جو ملکیت ہے وہ صرف ایک بیٹے کو وصیت کردی اسطرح سے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائداد کا مالک صرف فلاں بیٹا ہی رہے گا، دوسرے کوئی نہیں۔ تو کیا وہ آدمی جس نے وصیت کی وہ گناہ گار ہے؟ اور کیا اس کی وصیت کو نا مانتے ہوئے چاروں کو حصہ دیا جائے گا جس طرح سے ہوتا ہے۔ اسی طرح سے آدمی کی جگہ عورت ہو تو کیا حکم ہوگا؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : شاہد بھائی، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ میں وصیت وارثین کے حق میں قابلِ قبول نہیں ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دیے دیا ہے، لہٰذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہے۔ یعنی وصیت غیرِ وارث کے لیے ہوتی ہے، کیونکہ وارث کا حق تو منجاب اللہ مقرر ہوچکا ہے۔

پس اگر کوئی مرد یا عورت اپنی زندگی میں اس طرح کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائداد صرف فلاں بیٹے یا بیٹی کو دے دی جائے جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے تو ایسا کہنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس پر عمل کیا جائے گا، بلکہ مرحوم یا مرحومہ کی جائداد تمام اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگی کہ لڑکوں کو دو دو حصے ملیں گے اور لڑکیوں کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ : إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ أَعْطَى لِكُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢١٢٠)

ولا تجوز لوارثہ لقولہ علیہ السلام : إن ﷲ أعطی کل ذي حق حقہ، ألا لاوصیۃ للوارث؛ ولأنہ یتأذی البعض بإیثار البعض، ففي تجویزہ قطیعۃ الرحم، ولأنہ حیف بالحدیث الذي رویناہ۔ (ہدایۃ، کتاب الوصیۃ، ۴/ ۶۵۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ربیع الاول 1443

پیر، 26 ستمبر، 2022

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک سن کر انگوٹھے چومنا

سوال :

محترم المقام مفتی صاحب! کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سننے یا پڑھنے پر انگوٹھے کو آنکھوں میں لگا کر چومنا مستحب عمل ہے؟ جیسا کہ حضرت امام شامی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کنز العباد میں لکھا ہے۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اذان میں یا کسی بھی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ مبارک سننے پر انگوٹھے چومنا اور آنکھوں سے لگانا سنت نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسا کوئی حکم نہیں دیا اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ عمل نقل کیا گیا ہے۔ جن روایات کو اس بارے میں بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے ان کے بارے میں محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب موضوع (من گھڑت) یا سخت ضعیف ہیں۔ جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : الاحادیث التی رویت فی تقبیل الانامل وجعلھاعلی العینین عندسماع اسمہ صلی اللہ علیہ وسلم من المؤذن فی کلمۃ الشھادۃ کلھا موضوعات۔
ترجمہ : وہ حدیثیں جن میں مؤذن سے کلمہ شہادت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنتے وقت انگلیاں چومنے اور آنکھوں پر رکھنے کاحکم آیا ہے وہ سب کی سب موضوع اور جعلی ہیں۔

اسی طرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بسند فیہ مجاھیل مع انقطاعہ اس کی سند میں کئی مجہول راوی ہیں اور اس کی سند بھی منقطع ہے۔

معلوم ہوا کہ انگوٹھے چومنا کسی حدیث مرفوع سے ثابت نہیں۔ لہٰذا یہ سنت بلکہ مستحب بھی نہیں ہے۔ یہ عمل بعض بزرگوں نے آنکھیں نہ دُکھنے کے لیے بتایا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اس کوسنت نہ سمجھے اور آنکھوں کے نہ دُکھنے کے لیے بطور ایک علاج کے عمل کرے تو اس کے لیے فی نفسہ یہ عمل مباح ہوگا، مگر لوگ اس کو شرعی چیز اور سنت سمجھ کر کرتے ہیں جسے بلاشبہ بدعت اور ناجائز ہی کہا جائے گا۔

اور وہ کتابیں جن سے علامہ شامی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے یعنی کنزالعباد، فتاویٰ صوفیہ، کتاب الفردوس، سب غیرمعتمد ہیں جیسا کہ نافع الکبیر اور بستان المحدثین میں تصریح کی گئی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کنز العباد علامہ شامی رحمہ اللہ کی تصنیف نہیں ہے بلکہ یہ کتاب علی ابن احمد غوری کی تصنیف ہے۔

مزید تفصیلات اور تشفی کے لیے مفتی راشد صاحب ڈسکوی کی تصنیف "انگوٹھے چومنے سے متعلق بعض فقہاء احناف ؒکی ایک عبارت کی تحقیق" ملاحظہ فرمائیں۔

وذکر ذلک الجراحی وأطال، ثم قال : ولم یصح فی المرفوع من کل ہذا شیء۔ (شامی : ۶۸/۲)

’’الفتاویٰ الصوفیۃ في طریق البھائیۃ‘‘ لفضل اللہ محمد بن أیوب المنتسب إلیٰ ماجو ۔ قال صاحب کشف الظنون: قال المولیٰ البرکلي: الفتاویٰ الصوفیۃ لیست من الکتب المعتبرۃ، فلا یجوز العمل بما فیھا إلا إذا علم موافقتھا للأصول‘‘۔ (کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، حرف الفاء: ۲؍۱۲۲۵،دار إحیاء التراث العربي، بیروت/الأعلام للزرکلي، الماجوری:۶؍۴۷، دار العلم للملایین، بیروت/ النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمۃ الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقہاء والکتب،ص:۲۷، إدارۃ القرآن کراتشي)

وکذا’’کنز العباد‘‘ فإنہ مملوئٌ من المسائل الواھیۃ والأحادیث الموضوعۃ، لا عبرۃَ لہ، لا عند الفقہاء ولا عند المحدثین، قال علي القاري فيطبقات الحنفیۃ: ’’علي بن أحمد الغوري………… ولہ ’’کنز العبادفي شرح الأوراد‘‘، قال العلامۃ جمال الدین المرشدي: فیہ أحادیث سمجۃ موضوعۃ لا یحل سماعھا، انتھیٰ‘‘۔ (النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمۃ الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقہاء والکتب،ص:۲۷، إدارۃ القرآن کراتشي)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 صفر المظفر 1444

جمعہ، 23 ستمبر، 2022

بیوی کو اس کے میکہ سے حصہ لانے کے لیے کہنا

سوال :

مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی بیوی کو حصہ لے کر آ کہتے ہیں اور جب بیوی کچھ کہتی ہے تو پھر دونوں میں جھگڑا ہوجاتا ہے اور بات بہت بگڑ جاتی ہے پوچھنا یہ ہے کہ شوہر کا بیوی کو حصہ کے بارے حکم دینا درست ہے یا نہیں؟ اور اگر بیوی کو حصہ مل جائے تو اس پر شوہر کا کیا حق ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی لڑکی خواہ وہ شادی شدہ ہو یا کنواری، اس کے والد کا انتقال ہوتو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے۔ لیکن وہ ملنے والے مال کی ذاتی طور پر مالک ہوتی ہے۔ اس میں اس کے شوہر کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا شوہر کا اپنی بیوی کو حصہ لانے کے لیے کہنا اور اس سے جھگڑنا یہ سب مردانہ شان کے خلاف اور گناہ کی بات ہے۔ اور اگر بیوی کو حصہ مل جائے تو وہ اسے جائز کاموں میں کہیں بھی خرچ کرسکتی ہے۔ اور شوہر کو بھی دے سکتی ہے۔ لیکن شوہر کا زبردستی اس سے یہ مال لے لینا ناجائز اور حرام ہے، اس مال کا بیوی کو واپس کرنا ضروری ہے۔

اور اگر بیوی کے والد کی حیات میں ہی شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ اپنے میکہ سے حصہ لے کر آ۔ تو ایسا کہنا تو بڑی قبیح حرکت اور بے غیرتی کی بات ہے جو شرعاً بھی جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ والد کے انتقال کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے مال میں بیٹی کا حصہ ہوتا ہے، زندگی میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا والد کی زندگی میں ان سے حصہ مانگنا درست نہیں ہے۔

عَنْ أنَسِ بْنِ مالِكٍ، أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قالَ : لا يَحِلُّ مالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إلّا بِطِيبِ نَفْسِهِ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ٢٨٨٥)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ۔ (شامی : ٤/٦١)

لایجوز التصرف في مال غیرہ  بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (شامي : ٦/۳۰۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 صفر المظفر 1444

جمعرات، 22 ستمبر، 2022

نماز جنازہ میں جنات کی شرکت

سوال :

مفتی صاحب! آج کل شوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جسمیں حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے میں جنّات کی شرکت بتائی جا رہی ہے اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد یسین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جنات کے سلسلے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ آگ سے پیدا کی گئی مخلوق ہے جو مختلف شکلیں اختیار کرتی ہے۔ ان کی کوئی ایک شکل مخصوص ومتعین نہیں ہے، انسانوں کی طرح جنات بھی شرعی احکام کے مکلف ہیں، بعض مؤمن اور نیک ہیں، بعض کافر اور نافرمان بھی ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو مومن اور نیک ہیں ان میں سے بعض کے نیک انسانوں سے تعلقات بھی ہوتے ہیں اور وہ ان کے انتقال کے بعد ان کے جنازہ میں بھی شریک ہوتے ہوں گے۔ یہ کوئی خلاف عقل یا خلاف شرع بات نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بہت حیرت اور تعجب کی بات ہے۔

سوال نامہ میں جس ویڈیو کا تذکرہ کیا گیا ہے اسے ہم نے اچھی طرح دیکھا ہے اور اس سلسلے میں ہماری ذاتی رائے یہی ہے کہ یہ جنات نہیں ہیں، بلکہ انسان ہی ہیں، اس لیے کہ اگر یہ جنات ہی ہوتے اور مولانا مرحوم کے شاگردوں میں سے ہوتے تو صرف جنازے کو چھونے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ جنازہ کو کاندھا دیتے جو ان کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں تھا، لہٰذا کاندھا دینا جو اصل اور فضیلت والا عمل ہے اسے چھوڑ کر صرف جنازہ کو چھونے کے لیے تکلف کرنا اور ہاتھ لمبے کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ جبکہ ویڈیو میں دکھنے والے لمبے ہاتھوں سے متعلق یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کیمرے کی خرابی کی وجہ سے ایسے شوٹ ہوئے ہیں یا پھر ہوسکتا ہے کہ اس کی ایڈیٹنگ کی گئی ہو۔ تاہم اگر انہیں بالفرض جنات بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس طرح کی ویڈیو کو عوام میں پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس سے نہ کوئی دین کا فائدہ ہے اور نہ دنیا کا۔ بلکہ اس سے بدعقیدگی پھیلنے کا اندیشہ ہے کہ ڈیجیٹل دور میں آئندہ ایڈیٹنگ کے ذریعے کسی بھی چیز کو جنات وغیرہ بتاکر دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے گی۔

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ وَکَّلَنِی رَسُوْلُ اللّہِ ﷺ بِحِفْظِ زَکوٰۃِ رَمَضَانَ فَاتَانِی اٰتِ فَجَعَلَ یَحْثُوْ مِنَ الطَّعَامِ فَاَخَذْتُہٗ وَقُلْتُ وَاللَّہِ لَاَ رْفَعَنَّکَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّہِ ﷺ (الیٰ قولہ) قَالَ ذَاکَ شَیْطَانٌ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٢٣١١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 صفر المظفر 1444

اتوار، 18 ستمبر، 2022

وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا

سوال :

وضو کے بعد جو پانی ہاتھ اور چہرے پر ہوتا ہے اسکے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا یہ پانی مکروہ ہے؟ اس کا رومال وغیرہ سے پونچھ لینا کیسا ہے؟ کیا سردی گرمی کا الگ الگ حکم ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد شہباز، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اعضاء وضو سے ٹپکنے والا پانی پاک ہے، نجس یا مکروہ نہیں، اس پر سب کا اتفاق ہے۔ البتہ وضو کے بعد اعضاء کو پونچھنے کے سلسلے میں دونوں روایتیں ملتی ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بعد اعضاء وضو کا پونچھنا اور نہ پونچھنا دونوں ثابت ہے۔ لہٰذا اپنے مزاج اور موسم کے مطابق عمل کی گنجائش ہے، اعضاء وضو کا پونچھنا اور نہ پونچھنا فرض، واجب یا مسنون کچھ بھی نہیں ہے۔ البتہ فقہاء نے وضو کے بعد اعضاء وضو کے پونچھنے کو مستحب لکھا ہے، لیکن پونچھنے میں مبالغہ نہ کیا جائے تاکہ وضو کا اثر باقی رہے۔ نیز سردی گرمی کی بھی کوئی قید نہیں ہے۔

عَنْ أَبِي بَکْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ أَنْ مَکَانَکُمْ ثُمَّ جَائَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ فَصَلَّی بِهِمْ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٣٣)

مَا يُصِيبُ مِنْدِيلَ الْمُتَوَضِّئِ وَثِيَابَهُ عَفْوٌ اتِّفَاقًا وَإِنْ كَثُرَ (وَهُوَ طَاهِرٌ)۔ (شامی : ١/٢٠٠)

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِرْقَةٌ يُنَشِّفُ بِهَا بَعْدَ الْوُضُوءِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٥٣)

عَنْ كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ قَالَتْ : وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى فَغَسَلَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ صَبَّ عَلَى فَرْجِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَغَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى نَاحِيَةً فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ الْمِنْدِيلَ فَلَمْ يَأْخُذْهُ، وَجَعَلَ يَنْفُضُ الْمَاءَ عَنْ جَسَدِهِ. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ : كَانُوا لَا يَرَوْنَ بِالْمِنْدِيلِ بَأْسًا، وَلَكِنْ كَانُوا يَكْرَهُونَ الْعَادَةَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٤٥)

وَالْمَنْقُولُ فِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ وَغَيْرِهَا أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِالتَّمَسُّحِ بِالْمِنْدِيلِ لِلْمُتَوَضِّئِ وَالْمُغْتَسِلِ إلَّا أَنَّهُ يَنْبَغِي أَنْ لَا يُبَالِغَ وَيَسْتَقْصِيَ فَيَبْقَى أَثَرُ الْوُضُوءِ عَلَى أَعْضَائِهِ۔ (البحر الرائق : ١/٥٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 صفر المظفر 1444

اکبر ہاشمی کا معافی ڈرامہ جبل گردد جبلت نہ گردد

قارئین کرام! گذشتہ دنوں پونہ کے اکبر ہاشمی نامی ایک بدزبان اور فحش گو یوٹیوبر کے اقوال وافعال کا ہم نے احادیث کی روشنی میں جائزہ لیا تھا جس سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہ شخص متعدد کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہے۔ اس لیے کہ یہ شخص اپنے بیانات کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کو آپس میں لڑواتا ہے۔ ظالم حکومت کی جانب سے ہونے والے مسلم بلکہ اسلام مخالف فیصلوں کا خیرمقدم اور تائید وحمایت کرتا ہے۔ اکابر علماء کرام کی شان میں گستاخی کرتا ہے اور ان پر بہتان باندھتا ہے۔ اور اس کی غلط سلط اور گمراہ کن باتوں سے اختلاف کرنے والوں کو گالیاں دیتا ہے اورفحش گوئی کرتا ہے۔ اور اسے یہ اصلاح معاشرہ اور دین کا کام سمجھتا ہے۔

معزز قارئین! تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ مدارس کے سروے جیسے انتہائی فضول اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے والے فیصلے کی اس شخص نے پر زور حمایت کی، جس کے ردعمل میں اس کی چوطرفہ مذمت ہوئی۔ ہندوستان کی انتہائی مؤقر تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سیکرٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ صاحب رحمانی نے بھی مہذب انداز میں اس کے نظریہ کی تردید کی۔ جس کے جواب میں اس شخص نے حضرت مولانا عمرین صاحب کے خلاف بھی ایک ویڈیو جاری کردیا۔ جس میں اس نے اپنے مخصوص انداز یعنی انتہائی بدتمیزی اور جاہلانہ انداز میں مولانا سمیت دیگر اکابر علماء کرام پر بہتان تراشی اور ان کی شان میں سخت گستاخی کی۔

اب چونکہ پانی سر سے اونچا ہوگیا تھا، اور پونہ بالخصوص کونڈوہ علاقے کے علماء اور سنجیدہ عوام کی نیک نامی پر حرف آرہا تھا کہ یہاں جید، فکرمند اور فعال علماء اور دیندار و سنجیدہ عوام کے درمیان ایک بددماغ مسلسل کس طرح اکابر علماء کرام کی عزتوں سے کھیل رہا ہے؟ لہٰذا یہاں کے چند علماء اور عمائدین شہر نے اس مرتبہ ایک مضبوط منصوبہ بندی اور مشورہ کے تحت اکبر ہاشمی کا گھیراؤ کیا۔ اور اسے اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ مدارس کے سروے پر دئیے گئے اپنے بیان سے رجوع کرے اور مولانا عمرین صاحب سے معافی مانگے۔ لہٰذا اس نے ایک مرتبہ پھر رجوع کا ڈرامہ کیا ہے۔ جسے مولانا عمرین صاحب نے اپنی سادگی کی وجہ سے قبول کرکے اسے معاف بھی کردیا۔ لیکن ہمیں اس کا یہ رجوع ناٹک ہی لگا ہے۔ اور ہم اسے ڈرامہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس نے خود سے اپنی غلطی کا احساس کرکے رجوع نہیں کیا ہے بلکہ جب اس نے دیکھ لیا کہ اس کے خلاف پونہ کے اکابر علماء، عمائدینِ شہر اور سنجیدہ عوام متحد ہوگئے ہیں اور جارحانہ رُخ اختیار کرچکے ہیں تب اس نے رجوع کیا ہے اور معافی مانگی ہے، ورنہ معافی نامہ کی خواندگی کی پُر امن شوٹنگ کے behind the scenes کیا کیا ہوا ہے ہم اچھی طرح جانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیں اب بھی اس ابن الوقت، بدتمیز، بدزبان، دروغ گو اور فحش گو پر اعتماد نہیں ہے۔ کیونکہ مستقل اس کی ان حرکتوں کو دیکھ کر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بدتمیزی، بدزبانی اور دروغ گوئی اس کی طبیعت بن چکی ہے۔ اور طبیعت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جبل گردد جبلت نہ گردد یعنی پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے لیکن طبیعت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ یا پھر ان دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے کہ یہ شخص یا تو باطل کا آلہ کار ہے یا پھر اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ ہر دو صورت میں عوام کو اس کے بیانات سننے سے بچنا چاہیے اور اس کے چینل کو بند کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ یہی اس کا حل سمجھ میں آتا ہے۔

اخیر میں پونہ کے ان علماء کرام بالخصوص مفتی شاہد صاحب اور ان کے رفقاء، عمائدین شہر اور سنجیدہ عوام کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے مؤثر عملی اقدام کیا۔ اللہ تعالٰی انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ اور ہم ان سے امید کرتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ آئندہ اس کی طرف سے ایسی کوئی حرکت ہوتی ہے تو آپ حضرات اپنے مشورہ اور اعلان کے مطابق اس کے آفس کو کونڈوہ بلکہ پونہ سے بھی بند کروا دیں گے۔ ان شاءاللہ

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کہنے، حق سننے، اور حق تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین