ہفتہ، 30 نومبر، 2024

ذوالقرنین نبی تھے یاولی؟


سوال :

مفتی صاحب : سورہ کہف میں حضرت ذو القرنين کا ذکر آیا ہے۔ کیا وہ نبی تھے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ڈاکٹر شہباز، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کی سورہ کہف میں حضرت  ذوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق صرف اتنا ذکر ملتا ہے کہ وہ ایک نیک صالح عادل بادشاہ تھے، جنہوں نے مشرق و مغرب کے ممالک فتح کیے اور ان میں عدل و انصاف قائم کیا۔ اور ایک علاقے والوں کے لیے یاجوج ماجوج سے بچنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تعمیر کرائی۔ 

حضرت ذوالقرنین کے نبی ہونے میں اگرچہ علماء کا اختلاف ہے، مگر مؤمن صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے، حافظ ابن کثیر کے ہاں ان کا نبی ہونا راجح ہے، جب کہ جمہور کا قول یہ ہے کہ وہ نہ نبی تھے نہ فرشتہ، بلکہ ایک نیک صالح مسلمان تھے۔


ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى ذَا الْقَرْنَيْنِ هَذَا، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِالْعَدْلِ، وَأَنَّهُ بَلَغَ الْمَشَارِقَ وَالْمَغَارِبَ، وَمَلَكَ الْأَقَالِيمَ وَقَهَرَ أَهْلَهَا، وَسَارَ فِيهِمْ بِالْمَعْدَلَةِ التَّامَّةِ، وَالسُّلْطَانِالْمُؤَيَّدِ الْمُظَفَّرِ الْمَنْصُورِ الْقَاهِرِ الْمُقْسِطِ. وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ كَانَ مَلِكًا مِنَ الْمُلُوكِ الْعَادِلِينَ، وَقِيلَ: كَانَ نَبِيًّا. وَقِيلَ: كَانَ رَسُولًا. وَأَغْرَبَ مَنْ قَالَ: مَلَكًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ. وَقَدْ حُكِيَ هَذَا عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَإِنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ لِآخَرَ: يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ، فَقَالَ: مَهْ، مَا كَفَاكُمْ أَنْ تَتَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ حَتَّى تَسَمَّيْتُمْ بِأَسْمَاءِ الْمَلَائِكَةِ. ذَكَرَهُ السُّهَيْلِيُّ.
وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ نَبِيًّا. وَرَوَى الْحَافِظُ ابْنُ عَسَاكِرَ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَمَّادٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «لَا أَدْرِي أَتُبَّعٌ كَانَ لَعِينًا أَمْ لَا، وَلَا أَدْرِي الْحُدُودُ كَفَّارَاتٌ لِأَهْلِهَا أَمْ لَا، وَلَا أَدْرِي ذُو الْقَرْنَيْنِ كَانَ نَبِيًّا أَمْ لَا» وَهَذَا غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ السَّاجِ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:  كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ مَلِكًا صَالِحًا، رَضِيَ اللَّهُ عَمَلَهُ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي كِتَابِهِ، وَكَانَ مَنْصُورًا، وَكَانَ الْخَضِرُ وَزِيرَهُ۔ (البدایہ النہایہ : ٢/٥٣٦)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
27 جمادی الاول 1446

جمعہ، 29 نومبر، 2024

ایک آدمی کا دو مسجد میں اذان دینا


سوال :

مفتی صاحب ! کسی مؤذن کے لئے ایسا درست ہے کہ وہ ایک ہی وقت کی اذان کئی مسجدوں میں دے؟ مثلاً : 1بجے کی ظہر کی اذان دے، پھر کہیں 1.30 کی اذان دے، ایسا کرنا کسی ایسے شہر یا گاؤں میں ہو جہاں دوسرا کوئی اذان نہ دے سکتا ہو، یا وہ اپنی آمدنی میں اضافے کے پیش نظر کرے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک مسجد میں اذان دینے اور وہاں نماز پڑھ لینے کے بعد دوسری مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ اس لیے کہ دوسری مسجد میں اس کا اَذان دینا اس کے حق میں نفل ہوگا، جب کہ نفل اَذان مشروع نہیں ہے، نیز اَذان کا مقصد فرض نماز کی طرف بلانا ہے، اس صورت میں یہ شخص دوسروں کو تو فرض نماز کی طرف بلانے والا ہوگا اور خود ان کے ساتھ فریضے کی ادائیگی میں شامل نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایک مرتبہ فرض نماز ادا کرچکا ہے۔

اگر دوسری مسجد میں کوئی اذان دینے والا نہ ہو تو یہ شخص وہاں اذان دے سکتا ہے، لیکن ایسی صورت میں مسجد ثانی ہی میں نماز پڑھے، اس لیے کہ مسجد اول میں نماز پڑھنے کے بعد مسجد ثانی میں اسی مؤذن کا اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔


إذَا صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ الْأَوَّلِ يَكُونُ مُتَنَفِّلًا بِالْأَذَانِ فِي الْمَسْجِدِ الثَّانِي وَالتَّنَفُّلُ بِالْأَذَانِ غَيْرُ مَشْرُوعٍ؛ وَلِأَنَّ الْأَذَانَ لِلْمَكْتُوبَةِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ الثَّانِي يُصَلِّي النَّافِلَةَ، فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يَدْعُوَ النَّاسَ إلَى الْمَكْتُوبَةِ وَهُوَ لَا يُسَاعِدُهُمْ فِيهَا. اهـ۔ (شامی : ١/٤٠٠)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
26 جمادی الاول 1446

جمعرات، 28 نومبر، 2024

جو جیتا وہ ہمارا اور ہم اُس کے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! پیشِ نظر مضمون کا عنوان کوئی مذاق یا طنز نہیں ہے اور نہ ہی یہ جملہ کوئی مطلبی یا مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ بلکہ یہ جملہ حقیقت ہے اور قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً یہ جملہ درست ہے۔ 

اسمبلی الیکشن 2024 میں مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار مفتی محمد اسمعیل صاحب قاسمی کو 162 ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی ہے۔ اب اس جیت کے بعد وہ پورے حلقہ اسمبلی 114 یعنی مالیگاؤں سینٹرل میں رہنے والے ہر چھوٹے بڑے مرد وعورت، ہر مذہب، ہر مسلک اور ہر برادری کے لوگوں کے نمائندے بن چُکے ہیں۔

اگرچہ حقیقت یہی ہے کہ اس مرتبہ شہر کی اکثریت نے مفتی اسمعیل صاحب کو ووٹ نہیں دی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً یہ ذمہ داری ہے کہ بغیر کسی تفریق کے وہ اپنے حلقہ انتخاب میں رہنے والے تمام لوگوں کا کام کریں۔

حالانکہ مفتی اسمعیل صاحب جیسے عالم دین کو یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن عوام کا ایک بڑا طبقہ ان سب باتوں سے لاعلم رہتا ہے، اور اس لاعلمی کی وجہ سے غلط فہمیاں بھی پھیلتی ہیں، اور اس میں شرعی نکتہ بھی ہے، جس کی وضاحت کے لیے یہ مضمون لکھنا پڑا۔

اسی طرح جن لوگوں نے مفتی اسمعیل صاحب کو ووٹ نہیں دی ہے وہ بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب آپ لوگوں کے ایم ایل اے اور نمائندے مفتی اسمعیل صاحب ہی ہیں، اس لیے ہر کوئی بغیر کسی تردد اور جھجک کے بوقتِ ضرورت موجودہ ایم ایل اے مفتی اسمعیل صاحب سے ہر وہ کام کروانے کے لیے جاسکتا ہے جو ایک رُکن اسمبلی کی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔ کیونکہ یہ حق آپ کو قانون اور شریعت دونوں نے دیا ہے۔ لہٰذا اس میں کسی قسم کی شرم یا عار بالکل محسوس نہ کریں۔ اور خدانخواستہ کام نہ ہونے کی صورت میں آپ کو قانوناً اور شرعاً یہ مکمل اختیار ہے کہ آپ ایم ایل اے صاحب پر صحت مند تنقید کریں۔

نوٹ : اس مضمون کے ذریعے ہم اس شعبہ کے ماہر حضرات سے درخواست کریں گے کہ وہ اردو زبان میں عام فہم انداز میں ایک ایسا مضمون ترتیب دیں جس میں ایک رُکن اسمبلی کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں؟ اسے واضح کریں اور اسے عام کریں تاکہ اس سلسلے میں جو غلط فہمیاں عوام میں پھیل جاتی ہیں وہ ختم ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر کام ترتیب اور قاعدہ سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بے قاعدگی اور بدنظمی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

بدھ، 27 نومبر، 2024

الیکشنی ہار جیت میں اپنی آخرت برباد نہ کریں



✍ محمد عامر عثمانی ملی
   (امام و خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! اسمبلی الیکشن 2024 کا نتیجہ ظاہر ہوئے کئی دن ہوچکے ہے۔ جس کے مقدر میں فتح لکھی ہوئی تھی وہ کامیاب ہوا اور جس کے نصیب میں ہار کا فیصلہ تھا وہ شکست سے دو چار ہوا۔ لیکن مشاہدہ میں یہ آرہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک سنگین گناہ کا ارتکاب دونوں جماعتوں کے بعض افراد کی طرف سے دھڑلے سے اور مسلسل ہورہا ہے، اس گناہ سے ہماری مراد ایک دوسرے کا تمسخر، استہزاء اور مذاق اُڑانا ہے۔

جیتنے والی جماعت کے افراد "باقی کیسا ہرائے" باقی کیسا ترسائے" ہمارے یہاں اطمینان بخش طریقے پر ہرایا جاتا ہے" تو دوسری طرف کے لوگ "جھامو دوبارہ بن گیا ایم ایل اے" ۔ جیسے متعدد دل آزار جملوں کا استعمال مستقل کررہے ہیں۔ دن بھر سوشل میڈیا پر اسی عنوان سے لطیفے اور اسٹیکر بنا بناکر پھیلائے جارہے ہیں۔ عجیب وغریب حماقت یہ بھی ہے جب کسی لیڈر سے اچانک کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجائے جو غیراختیاری ہوتو اسے ڈر کا نام دے کر اس کی ویڈیو وائرل کی جاتی ہے اور اس پر دل آزار تبصرے کیے جاتے ہیں، اور کسی کی زبان پھسل جانے پر کئی دنوں تک اس پر لطیفے چلتے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور دیندار کہے جانے والے افراد بھی اس میں برابر کے شریک ہیں گویا اسے گناہ ہی نہیں سمجھا جارہا ہے۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ طوفانِ بدتمیزی ابھی تھمنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں پر اس گناہ کی سنگینی کو واضح کردیا جائے تاکہ ماننے والوں کو رہنمائی مل جائے اور وہ اس سے باز رہیں۔

محترم قارئین ! ایک دوسرے کا تمسخر، استہزاء اور مذاق اڑانا اسلام میں ایک بڑا جرم اور گناہ کبیرہ ہے جس کی ممانعت میں قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ۔ (سورہ حجرات، جزء آیت 11)
ترجمہ : اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔

اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قرطبی نے فرمایا کہ تمسخر یہ ہے کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں اس کو سُخْرِیہ، تمسخر، استہزاء  کہا جاتا ہے۔ اور جیسے یہ زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھوں پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا اسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنص قرآن حرام ہیں۔

تمسخر کی ممانعت کا قرآن کریم نے اتنا اہتمام فرمایا کہ اس میں مردوں کو الگ مخاطب فرمایا عورتوں کو الگ، مردوں کو لفظ قوم سے تعبیر فرمایا کیونکہ اصل میں یہ لفظ مردوں ہی کے لئے وضع کیا گیا ہے اگرچہ مجازاً و توسعاً عورتوں کو اکثر شامل ہوجاتا ہے اور قرآن کریم نے عموماً لفظ قوم مردوں عورتوں دونوں ہی کے لئے استعمال کیا ہے مگر یہاں لفظ قوم خاص مردوں کے لئے استعمال فرمایا اس کے بالمقابل عورتوں کا ذکر لفظ نساء سے فرمایا اور دونوں میں یہ ہدایت فرمائی کہ جو مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ استہزاء و تمسخر کرتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ شاید وہ اللہ کے نزدیک استہزاء کرنے والے سے بہتر ہو، اسی طرح جو عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ استہزاء و تمسخر کا معاملہ کرتی ہے اس کو کیا خبر ہے شاید وہی اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔

حاصل آیت کا یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بدن یا صورت یا قد و قامت وغیرہ میں کوئی عیب نظر آئے تو کسی کو اس پر ہنسنے یا استہزاء کرنے کی جرأت نہ کرنا چاہئے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید وہ اپنے صدق و اخلاص وغیرہ کے سبب اللہ کے نزدیک اس سے بہتر اور افضل ہو۔ اس آیت کو سن کر سلف صالحین کا حال یہ ہوگیا تھا کہ عمرو بن شرجیل نے فرمایا کہ میں اگر کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتے دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہوجاؤں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ میں اگر کسی کُتے کے ساتھ بھی استہزاء کروں تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں خود کتا نہ بنادیا جاؤں۔ (قرطبی/ بحوالہ معارف القرآن)

لہٰذا ہماری دونوں جماعتوں کے کارکنان سے عاجزانہ اور دردمندانہ التجاء ہے کہ وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے اور اپنے لیڈر کو بدنام کرنے والے اس قبیح سلسلے کو بند کردیں، اس گناہ پر شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کریں۔ اگر آپ کو اپنے لیڈر سے سچی محبت اور عقیدت ہے تو اس کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ مثبت کام کریں۔ ناجائز لطیفے بنانے اور ذاتیات پر  مبنی چٹکلوں پر جو دماغ اور وقت لگارہے ہیں اس کا استعمال اپنے لیڈر کو اچھے مشورے دینے اور قوم و ملت کی ترقی کے لئے لگائیں جو یقیناً آپ کے لیے، آپ کے لیڈر کے لیے اور پوری قوم کے لئے نفع بخش ثابت ہوگا۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو قوم و ملت کے حق میں نافع بنائے، انتشار افتراق سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

جمعرات، 14 نومبر، 2024

بوگس ووٹ دینے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کچھ لوگ ووٹر آئی ڈی کارڈ کے نام یا ایڈریس وغیرہ میں تبدیلی کرواتے ہیں تو ان کا دو کارڈ بن جاتا ہے اور کبھی تین بھی بن جاتا ہے، اور کچھ لوگ جان بوجھ کر یہ کام کرتے ہیں اور اپنا کئی کئی کارڈ بنوا لیتے ہیں جس سے ان کی ووٹ بھی ایک سے زائد آتی ہے۔ ایسی صورت میں ایک سے زائد ووٹ دینا جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہندوستانی قانون کے مطابق کسی بھی الیکشن میں ایک شخص کو صرف ایک ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے۔ لہٰذا قصداً ایک سے زائد ووٹر آئی ڈی بنانا تاکہ زائد ووٹ دی جائے تو یہ عمل بلاشبہ دھوکہ ہے جو شرعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔ اور اگر کبھی غلطی سے کسی کا ووٹر آئی ڈی ایک سے زائد بن جائے اور اس کی ووٹ ایک سے زائد آنے لگے تب بھی اس کے لیے ایک سے زائد ووٹ دینا شرعاً جائز نہیں ہے، یہ دھوکہ اور بے ایمانی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : من غش فلیس منا، انتہی الحدیث، قال الترمذي : والعمل علی ہٰذا عند أہل العلم کرہوا الغش، وقالوا : الغش حرام۔ (سنن الترمذي : ۱؍۲۴۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الاول 1446

منگل، 12 نومبر، 2024

مفتی اسمعیل صاحب کی بیماری اور دیگر لیڈران کا سلوک


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں اپنی متعدد خوبیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کے رہنے والے ایک دوسرے سے محبت کرتے اور آپس میں مِل کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک رہتے ہیں۔ البتہ اسمبلی اور کارپوریشن الیکشن کے ایام میں یہاں ماحول کچھ خراب ہوجاتا ہے۔ اس وقت ایک بڑی تعداد اپنے آپ کو بہت بڑا مفکر اور دانشور سمجھنے لگتی ہے۔ اور جس لیڈر اور امیدوار کو وہ پسند کرتے ہیں اس کو اچھا، سچا اور سب سے زیادہ با صلاحیت اور مخالفت پارٹی کے امیدوار کو جھوٹا، نا اہل، اور بے ایمان ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ اپنے لیڈر کی ہر برائی کی تاویل اور مخالف لیڈر کی ہر اچھائی انہیں مکاری اور عیاری نظر آتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے یہ رویہ نہ تو شرعاً درست ہے اور نہ ہی اخلاقاً۔ اسی رویے کی وجہ سے تمام پارٹیوں کے ورکر دن ورات سوشل میڈیا پر آپس میں ایک دوسرے سے بحث وتکرار کرتے رہتے ہیں، اور بات قلبی بغض وعداوت سے ہوتی ہوئی گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ شہر میں یہی سب کچھ چل رہا تھا کہ کل بروز پیر دوپہر میں یہ انتہائی تکلیف دہ خبر پڑھنے کو ملی کہ رکن اسمبلی مفتی محمد اسمعیل صاحب قاسمی کو دل کا عارضہ لاحق ہوا ہے اور انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ یہ اطلاع جیسے ہی دیگر لیڈران کو ملی سب نے اپنی ترتیب بناکر ان سے ملاقات کرکے ان کی عیادت کی اور اپنا انسانی اور دینی وملی فریضہ ادا کیا۔ سب سے پہلے مفتی صاحب کے اصل مقابل شیخ آصف ہسپتال پہنچے اور ان کے بعد بالترتيب شان ہند صاحبہ، مستقیم ڈگنٹی اور اعجاز بیگ صاحب ہسپتال پہنچے اور اپنی فکرمندی کے اظہار کے ساتھ دعائیں بھی دی اور شہریان سے دعا کی درخواست بھی کی۔
 
مفتی صاحب کے پرانے ساتھی (جو فی الحال سماج وادی پارٹی میں ہیں) اطہر حسین اشرفی صاحب نے پُر نم آنکھوں سے مفتی صاحب سے اپنی ذاتی تعلق کا اظہار کیا اور کہا کہ میرا ان سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے۔ 

فی الحال اطلاع یہ ہے کہ مفتی محمد اسمعیل صاحب کو بغرض علاج بمبئی لے جایا گیا ہے، جہاں ان کا آپریشن بھی ہوسکتا ہے۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں شفائے کاملہ عاجلہ دائمہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

شہر کے سیاسی لیڈران کا یہ حسنِ سلوک بڑی خوش آئند بات ہے اور تمام پارٹیوں کے ورکروں کے لیے اس میں بڑا سبق اور سیکھ ہے کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ اور انسانیت، دینی وملی فریضہ اپنی جگہ۔ اس لیے سیاسی اختلافات میں اس حد تک نہ جائیں کہ بعد میں ملاقات کرنے میں جھجھک محسوس ہو۔ اپنا مدعا مدلل اور اچھے انداز میں رکھ دیں اور خاموش ہوجائیں، ہر بات کا جواب دینا اور ہر واقعہ پر تنقید کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ ایسے موقع کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان عالیشان ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ : اپنے دوست کے ساتھ میانہ روی کا معاملہ رکھو۔ شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن بن جائے اور دشمن کے ساتھ دشمنی میں بھی میانہ روی ہی رکھو، کیونکہ ممکن ہے کہ کل وہی تمہارا دوست بن جائے۔ (ترمذی)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اختلاف کے حدود وقیود کی رعایت کرنے اور ہم سب کو اختلاف کے باوجود آپس میں مل کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

پیر، 11 نومبر، 2024

گردوارہ سے ملنے والا کھانا کھانا


سوال :

مفتی صاحب ! کسی "گرودوارہ" میں جہاں خدمت و چیریٹی کے نام پر سکھ احباب کھانا پکاکر کھلاتے ہیں مفت میں۔ وہاں پر احمد نے بھوک کے چلتے کھانا کھالیا، تو کھانا حلال ہوا؟ کیونکہ ان میں  اللّٰہ کا نام نہیں لیا جاتا ہے۔
(المستفتی : سیف الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : ایسے مقامات جہاں غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہے، چونکہ یہ مقامات شرک ومعصیت کے اڈے اور شیطان کی آماج گاہ ہوتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے لیے ایسی جگہوں مثلاً مندر، چرچ اور گردواروں میں جانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ البتہ گردواروں میں جو کھانا ملتا ہے وہ چڑھاوے کا نہیں ہوتا، چنانچہ اگر گوشت کے علاوہ ہوتو یہ کھانا حرام نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے یہ کھانا کھالیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، تاہم آئندہ گردوارے میں جانے سے ہی بچنا چاہیے۔

 
(قَوْلُهُ: وَلَايَحْلِفُونَ فِي بُيُوتِ عِبَادَتِهِمْ)؛ لِأَنَّ الْقَاضِيَ لَايَحْضُرُهَا بَلْ هُوَ مَمْنُوعٌ عَنْ ذَلِكَ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ، وَلَوْ قَالَ: الْمُسْلِمُ لَايَحْضُرُهَا لَكَانَ أَوْلَى؛ لِمَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة: يُكْرَهُ لِلْمُسْلِمِ الدُّخُولُ فِي الْبِيعَةِ وَالْكَنِيسَةِ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ حَيْثُ إنَّهُ مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ، لَا مِنْ حَيْثُ إنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا تَحْرِيمِيَّةٌ؛ لِأَنَّهَا الْمُرَادَةُ عِنْدَ إطْلَاقِهِمْ، وَقَدْ أَفْتَيْت بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ۔ (البحرالرائق : ٧ / ٢١٤)

(وَلَا يَحْلِفُونَ) أَيْ الْكُفَّارُ (فِي مَعَابِدِهِمْ) ؛ لِأَنَّ فِيهِ تَعْظِيمًا لَهَا وَالْقَاضِي مَمْنُوعٌ عَنْ أَنْ يَحْضُرَهَا وَكَذَا أَمِينُهُ؛ لِأَنَّهَا مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ لَا أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ. وَفِي الْبَحْرِ وَقَدْ أَفْتَيْتُ بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى۔ (مجمع الانہر : ٢ / ٢٦٠)

قال اللہ تعالیٰ : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ۔ (سورۃ المائدۃ : ۳)

الاصل فی الاشیاء الاباحۃ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱؍۲۲۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
08 جمادی الاول 1446

جمعہ، 8 نومبر، 2024

ایک وقت میں دودھ اور مچھلی کھانا


سوال :

مچھلی اور دودھ کا کیا تعلق ہے؟ ایسا سنا ہے کہ مچھلی کھانے کے بعد دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی چیزوں سے بچنا چاہیے۔ کیا قرآن و حدیث میں اس تعلق سے کوئی رہنمائی موجود ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عازم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن وحدیث میں مچھلی اور دودھ یا دودھ سے بنی ہوئی اشیاء ایک وقت میں کھانے کی کوئی ممانعت نہیں آئی ہے۔ 

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، مچھلی کھانے کے بعد دودھ پی سکتے ہیں۔ اطباء اس سے منع کرتے ہیں۔ اس سے سفید داغ ہونے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 5033)

البتہ جدید طبی تحقیقات اس بات کا انکار کرتی ہیں کہ ایک وقت میں مچھلی اور دودھ یا دودھ سے بنی ہوئی اشیاء کھائی یا پی جائے تو برص یعنی سفید داغ کی بیماری ہوتی ہے اور نہ ہی اور کوئی بڑی بیماری ہوتی ہے، تاہم اگر کوئی احتیاط کرے تو شرعاً کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ لیکن اسے قرآنی حکم یا حدیث شریف کہہ کر منع کرنا جائز نہیں ہے۔


قال اللہ تعالیٰ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ۔ (سورۃ البقرہ : ۱۷۲)

الأصل في الأشیاء الإباحۃ۔ (قواعد الفقہ اشرفي : ۵۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الاول 1446

جمعرات، 7 نومبر، 2024

عورتوں کا الیکشن میں کھڑے ہونا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ عورتوں کا الیکشن میں کھڑا ہونا کیسا ہے؟ ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ وہ قوم گمراہ ہوجاتی ہے جو عورت کی حکمرانی میں ہو، اس کی وضاحت بھی فرما دیں۔
(المستفتی : محمد صادق، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس حدیث شریف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ حدیث کی متعدد کتابوں میں مذکور ہے اور مکمل درج ذیل ہے :

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو سلطنت کی حکمرانی دے دی ہے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو۔

لیکن فقہاء نے لکھا ہے کہ یہاں حکمرانی سے مراد امارة مطلقہ اور سیادة عظمیٰ ہے جو کسی کے تابع نہ ہو یعنی عورت کی ایسی سربراہی جس میں عورت واقعی خود مختار اور مطلق العنان ہو کسی کے تابع نہ ہو، درست نہیں ہے۔ البتہ اگر حکمرانی خود مختار مطلق العنان نہ ہو بلکہ کسی کے تابع اور وقتی ہوتو اس کی گنجائش ہے۔   حکیم الامت علامہ اشرف تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اپنے مجموعہ فتاوی "امداد الفتاوی "میں  مسئلہ ھذا کی مفصل بحث کے بعد تقریباً یہی بات خلاصہ کے طور پر لکھی ہے۔

مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری لکھتے ہیں :
ہر مسلمان عورت پر پردہ کی پابندی ضروری ہے، اِسی طرح اَجنبی مردوں سے اجتناب بھی لازم ہے، اگر اِن شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے کوئی عورت پنچایت وغیرہ کی ممبر بنتی ہے، تو اُس کی شرعاً گنجائش ہے اور اگر اِن شرعی حدود کی رعایت نہ رکھی جائے تو ظاہر ہے کہ گناہ ہوگا؛ اِس لئے کسی بھی باپردہ مسلم خاتون کو اِس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہئے؛ البتہ جو خواتین پہلے ہی سے عام زندگی میں شریعت کے احکامات کا خیال نہیں رکھتیں اور بلا حجاب بے تکلف گھر سے باہر آمد ورفت کرتی رہتی ہیں، وہ اگر اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے آگے آئیں تو بہتر ہوگا؛ لیکن وہ ترکِ حجاب کی وجہ سے گنہگار بہر حال رہیں گی۔ (کتاب النوازل : ١٧/٧٣)

معلوم ہوا کہ ہندوستان جو ایک جمہوری ملک ہے، یہاں حکومت خود مختار اور مطلق العنان نہیں ہوتی بلکہ پارلیمانی طرز کی ہوتی ہے، لہٰذا یہاں عورتوں کا الیکشن میں کھڑے ہونا شرعاً جائز ہے، البتہ عورتوں کے لیے پردہ ہر وقت ضروری ہے، اگر یہ خاتون اس کی رعایت نہیں کرے گی تو گناہ گار ہوگی۔

 
قال اللّٰہ تعالیٰ : قُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ۔ (النور، جزء آیت : ۳۱)

قال النووي: وسببہ الصیانۃ والإحتراز من مقارنۃ النساء للرجال من غیر حاجۃ۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۱؍۲۹۰)

قال اللّٰہ تعالیٰ : وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلیٰ۔ (الاحزاب، جزء آیت : ۳۳)

عن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال: المرأۃ عورۃ فإذا خرجت استشرفہا الشیطان۔ (سنن الترمذي آخر أبواب النکاح ۱؍۲۲۲ رقم : ۱۱۷۳)

وزاد فیہ: وأقرب ما تکون من ربہا وہيفي قعر بیتہا۔ (صحیح ابن خزیمۃ ۲؍۸۱۴ رقم : ۱۹۸۶)

المرأۃ إذا جعلت قاضیا فقضاء ہا جائز في ما تجوز شہادتہا فیہ۔ (شرح آداب القاضي للخصاف : ۳۱۷)

المرأۃ فیما تصلح شاہدۃ تصلح قاضیۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۱؍۳۳ رقم: ۱۵۳۹۴ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 جمادی الاول 1446

منگل، 5 نومبر، 2024

خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت سے متعلق اہم سوالات


سوال : 

محترم مفتی صاحب! آج کل ایسا لگتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو دنیا کے سامنے نیک، صالح، دیندار بتانے کے لیے کوئی بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں کچھ سوالات کے جوابات حدیث کی روشنی میں مطلوب ہیں جن سے یہ پتہ تو چلے کہ حقیقتاً کیا ممکن ہے؟

١) کسی کے بھی خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہو سکتی ہے؟

٢) جن کے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوتا ہے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کس شباہت میں نظر آئے ہیں؟

٣) اپنے خواب میں حضور اکرم کا دیدار ہونے کی جھوٹی، من گھڑت کہانی بنانے پر کیا گناہ ہو سکتا ہے؟

٤) کہیں حدیث وغیرہ میں اپنے خواب میں حضور کا دیدار کرنے کا کوئی طریقہ بتلایا گیا ہے؟

٥) کیا یہ بات سچ ہے کہ جسے اپنے خواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوا، وہ صحابہ کرام کے درجے میں شمار ہو گا؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خواب کے معاملے میں عوام کے ساتھ بعض خواص بھی غلط فہمی کا شکار ہیں، اور اسے بڑی اہمیت دیتے ہیں، یہاں تک کہ بعض معاملات میں خوابوں کو بنیاد بناکر حق اور باطل مقبولیت اور مردودیت کے فیصلے بھی کردیئے جاتے ہیں، لہٰذا ایسے حالات میں آپ کا سوال اہمیت کا حامل ہے کہ خواب کی شرعی حیثیت کو سمجھا اور سمجھایا جائے، تاکہ لوگ گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔

١) خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ممکن اور برحق ہے، اس سلسلے میں احادیث وارد ہوئی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے درحقیقت مجھ کو ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت نہیں بن سکتا۔ (بخاری ومسلم)

٢) جن لوگوں کو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوئی ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اصلی شکل اور حلیہ مبارک میں ہوئی ہے۔ 

حضرت مولانا مفتی یوسف صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ فتاوی "آپ کے مسائل اور ان کا حل" سے خواب سے متعلق کچھ تفصیلات من وعن نقل کی جاتی ہیں، امید ہے کہ مسئلہ ھذا میں تسلی وتشفی کا باعث ہوں گی۔

خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت تو برحق ہے، لیکن اس خواب سے کسی حکمِ شرعی کو ثابت کرنا صحیح نہیں، کیونکہ خواب میں آدمی کے حواس معطل ہوتے ہیں، اس حالت میں اس کے ضبط پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے صحیح طور پر ضبط کیا ہے یا نہیں؟ علاوہ ازیں شریعت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے سے پہلے مکمل ہوچکی تھی، اب اس میں کمی بیشی اور ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں، چنانچہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ خواب حجتِ شرعی نہیں، اگر خواب میں کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد سنا تو میزانِ شریعت میں تولا جائے گا، اگر قواعدِ شرعیہ کے موافق ہو تو دیکھنے والے کی سلامتی و استقامت کی دلیل ہے، ورنہ اس کے نقص و غلطی کی علامت ہے۔

خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بڑی برکت و سعادت کی بات ہے، لیکن یہ دیکھنے والے کی عنداللہ مقبولیت و محبوبیت کی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کا مدار بیداری میں اتباعِ سنت پر ہے۔ بالفرض ایک شخص کو روزآنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہو، لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تارک ہو اور وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو تو ایسا شخص مردود ہے۔ اور ایک شخص نہایت نیک اور صالح متبعِ سنت ہے، مگر اسے کبھی زیارت نہیں ہوئی، وہ عنداللہ مقبول ہے۔ خواب تو خواب ہے، بیداری میں جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی دولت سے محروم رہے وہ مردود ہوئے، اور اس زمانے میں بھی جن حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں ہوئی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہوئی وہ مقبول ہوئے۔ (آپ کے مسائل اور انکا حل : ١/١١٩، مکتبہ جبریل)

معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کا دعویٰ کرتا ہو، لیکن فرائض و واجبات اور سنتوں کا چھوڑنے والا ہو۔ جھوٹ، بہتان، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور ناجائز طریقوں سے روزی کمانے جیسے کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہوتو ایسا شخص عنداللہ مقبول نہیں، بلکہ مردود ہے بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کا جھوٹا دعویٰ کررہا ہے۔

٣) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا جھوٹا دعویٰ کرنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء ہے، اور یہ کسی شخص کی شقاوت و بدبختی کے لئے کافی ہے، اگر کسی کو واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تب بھی بلاضرورت اس کا اظہار مناسب نہیں۔ (آپ کے مسائل اور انکا حل : ١/١١٩، مکتبہ جبریل)

٤) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب میں اپنی زیارت کے لیے کوئی عمل نہیں بتایا ہے۔ لہٰذا کسی بھی عمل کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خواب میں زیارت کے لیے یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ اور خواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہو یا نہ ہو اصل زندگی میں بندہ کو عاشق رسول اور متبع سنت وشریعت ہونا چاہیے کہ یہی حقیقی کامیابی ہے۔

٥) جی نہیں۔ خواب میں اگر کسی کو واقعتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوتی ہے تب بھی اسے صحابہ کے درجہ میں نہیں مانا جائے گا۔ اس لیے کہ صحابی اُس شخصیت کو کہا جاتا ہے کہ جس نے ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ کی زیارت کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں ہی اس کی وفات ہوئی ہو۔ 


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي ؛ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ صُورَتِي۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦١٩٧)

وَاسْتَشْكَلَ إثْبَاتَهُ بِالرُّؤْيَا بِأَنَّ رُؤْيَا غَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ لَا يَنْبَنِي عَلَيْهَا حُكْمٌ شَرْعِيٌّ۔ (شامی : ١/٣٨٣)

من لقي النبي صلی اللہ علیہ وسلم موٴمنا بہ ومات علی الإیمان۔ (قواعد الفقہ : ۳۴۶)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 جمادی الاول 1446

پیر، 4 نومبر، 2024

نماز کے درود میں سیدنا کا اضافہ کرنا


سوال :

مفتی صاحب نماز کے قعدہ میں جو درود شریف پڑھتے ہیں اس میں لفظ *سیدنا*  کا اضافہ کرنا کیسا ہے؟ ایک مولوی صاحب نے بیان میں ایسے پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔
(المستفتی : مجاہد اقبال، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کے درود یعنی درود ابراہیم میں لفظِ محمد اور لفظِ ابراھیم دونوں سے پہلے لفظ "سیدنا" کا اضافہ کرنا درست ہے، اور بعض فقہاء نے اسے افضل بھی لکھا ہے، لہٰذا "سیدنا" کے اضافہ کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔


قال فی الدر وَنُدِبَ السِّيَادَةُ لِأَنَّ زِيَادَةَ الْإِخْبَارِ بِالْوَاقِعِ عَيْنُ سُلُوكِ الْأَدَبِ فَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ تَرْكِهِ، ذَكَرَهُ الرَّمْلِيُّ الشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُ؛ وقال المحشی (قَوْلُهُ ذَكَرَهُ الرَّمْلِيُّ الشَّافِعِيُّ) أَيْ فِي شَرْحِهِ عَلَى مِنْهَاجِ النَّوَوِيِّ. وَنَصُّهُ: وَالْأَفْضَلُ الْإِتْيَانُ بِلَفْظِ السِّيَادَةِ كَمَا قَالَهُ ابْنُ ظَهِيرِيَّةٍ، وَصَرَّحَ بِهِ جَمْعٌ، وَبِهِ أَفْتَى الشَّارِحُ لِأَنَّ فِيهِ الْإِتْيَانَ بِمَا أُمِرْنَا بِهِ، وَزِيَادَةُ الْإِخْبَارِ بِالْوَاقِعِ الَّذِي هُوَ أَدَبٌ، فَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ تَرْكِهِ (الی قولہ) وَأَنَّهُ يَأْتِي بِهَا مَعَ إبْرَاهِيمَ - عَلَيْهِ السَّلَامُ۔ (شامی : ١/٥١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 جمادی الاول 1446