منگل، 30 مارچ، 2021

بدلا لینے سے متعلق ایک اہم سوال

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درمیان اس مسئلہ میں کہ زید ایک مسلم سماجی شخصیت ہے۔ لہٰذا سماجی مسائل، عوامی کام کاج اور جواب دہی پر اکثر غلطیاں کر بیٹھتا ہے۔ اور یہ بشری تقاضہ بھی ہے کہ اکثر غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں اور اس کے کسی عمل سے بعض لوگوں کو دلی تکلیف بھی پہونچتی ہے۔ اسی بشری تقاضہ کے تحت زید نے ایک مسلم، دیندار شخص کو بلا کسی خاص وجہ کے طمانچہ رسید کردیا۔ اور پھر اسے اپنی غلطی یا نادانی کا احساس ہوا اور مذکورہ شخص (زید) نے اپنے دیگر چاہنے والوں یا ایسے لوگ جو اسے موقع بہ موقع فائدہ پہونچانے کا کام کیا کرتے تھے وہ ناراض نہ ہوں اسلئے ان سے اپنی غلطی پر نادم ہوکر معافی طلب کرلی لیکن صاحب معاملہ سے کوئی معافی یا ندامت کا اظہار تک نہ کیا تو کیا زید کی معافی قابل قبول ہوگی؟ اس مسئلہ میں حقوق العباد کے تعلق سے شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا صاحب معاملہ سے معذرت خواہی کی کوئی ضرورت نہیں؟ قرآن و شریعت کی روشنی میں جواب دے کر مشکور و ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : محمد صابر محمد صادق گوہر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بلاعذرِ شرعی کسی کو کوئی تکلیف پہنچا دینا مثلاً کسی کو تھپڑ وغیرہ مار دینا شرعاً ناجائز اور حرام کام ہے۔ اگر کسی نے یہ گناہ کا کام کرلیا ہے تو اب اس پر ضروری ہے کہ وہ صاحبِ معاملہ سے براہ راست معافی مانگے اور اس گناہ پر شرمندگی اور ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار بھی کرے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے بغیر کسی شرعی عذر کے کسی کو طمانچہ رسید کیا ہے تو اس کا دوسروں سے معذرت کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ براہِ راست صاحبِ معاملہ سے معافی مانگنا ضروری ہے، ورنہ عنداللہ اس کا مؤاخذہ ہوگا۔ البتہ یہاں اس مسئلہ کی مزید وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ صاحبِ معاملہ نے پہلے ہی زید کے ساتھ زیادتی کی ہو، زید نے تو اسے ایک ہی طمانچہ مارا ہے، لیکن ہوسکتا ہے کہ صاحبِ معاملہ نے زید کو پہلے ہی لہولہان کردیا ہو، اور اس کے بدلہ میں زید نے صرف ایک طمانچہ پر اکتفا کیا ہو، اگر ایسا ہے تو زید نے جو ایک طمانچہ مارا ہے وہ اس کا اس حد تک بدلا ہوگیا، اب اسے معذرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ صاحبِ معاملہ نے زیادتی کی ہوتو اسے چاہیے کہ وہ زید سے معذرت اور توبہ و استغفار کرے ورنہ عنداللہ مؤاخذہ کے لیے تیار رہے۔ قرآن مجید کی سورہ شورٰی کی چند آیات میں اس سلسلے میں رہنمائی موجود ہے۔

نوٹ : اس جواب کے کسی حصہ کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنے والا خود اس کا ذمہ دار ہوگا اور اپنی نیت کے مطابق اللہ تعالٰی کے یہاں بدلہ پائے گا۔

قال اللہ تعالیٰ : وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ (39) وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (40) وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ (41) إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (42) وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ۔ (سورہ شوری)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شعبان المعظم 1442

ہفتہ، 27 مارچ، 2021

قبر میں تختہ لگائے بغیر مٹی ڈال دینا

سوال :

مفتی صاحب میت کو قبر میں دفنانے کے بعد اسکے اوپر تختہ ڈالے بغیر سیدها میت پر مٹی ڈال دی گئی، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ میں ایک دیہات میں گیا تھا وہاں اسطرح کیا گیا تھا۔ آپ اس پر مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : مولوی منصور، پرتور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : میت کو قبر میں رکھنے کے بعد لحد کو کچی اینٹوں سے یا لکڑی کے تختوں سے  بند کر دینا سنت ہے تاکہ میت پر مٹی نہ گرے۔ اور یہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے چلا آرہا ہے، لہٰذا اس کے خلاف کرنا جائز نہیں ہے۔

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
یہ طریقہ خلاف شریعت بھی ہے میت کو دفن کرنے کی صورت حدیث، فقہ، سے جو ثابت ہے وہ یہ ہے کہ قبر بناکر اس میں میت کو رکھا جائے اور اس طرح مٹی ڈالی جائے کہ میت پڑے اس کی دوصورتیں ہیں، ایک یہ کہ لحد بناکر اس میں میت کو رکھا جائے اورکچی اینٹیں لگادی جائیں تاکہ میت لحد میں محفوظ ہوجائے، پھرمٹی ڈال دی جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ شق بناکر اس میں میت کو رکھ کر اس پرتختہ رکھ کر میت کومحفوظ کردیا جائے، پھر مٹی ڈالدی جائے، غرض میت پرمٹی نہ ڈالی جائے، مسئلہ جب شریعت میں منصوص ہوتو پھر اس کے مقابلہ میں قیاس کرنا اورایسی علت تجویز کرنا جس سے نص ہی بے عمل رہ جائے جائز نہیں غلط ہے ،خلاف
اصول ہے۔ (فتاوی محمودیہ : ١٣/١٨٢)

معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں جس دیہات میں قبر کو کچی اینٹ یا لکڑی کے تختوں سے بند کیے بغیر براہ راست میت پر مٹی ڈالی جارہی ہے ان کا یہ عمل سراسر شریعت کے خلاف ہے جس میں میت کی بے حُرمتی کا گناہ بھی ہے۔ لہٰذا انہیں اس سے بچنا ضروری ہے۔

عن عامر بن سعد بن أبي وقاص أن سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ قال في مرضہ الذي ہلک فیہ: الحدوا لي لحداً، وانصبوا علي اللبن نصباً، کما صنع برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (صحیح مسلم، رقم: ۹۶۶)

ویستوي اللبن علیہ والقصب لما روی أنہ علیہ الصلاۃ والسلام جعل علی قبرہ اللبن۔ (تبیین الحقائق ۱/ ۵۸۶)

ویسوی اللبن علی اللحد، وتسد الفرج بالمدور والقصب أو غیر ذلک کیلا ینزل التراب منہا علی المیت۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲۱؍۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شعبان المعظم 1442

جمعرات، 25 مارچ، 2021

گم شدہ بیٹے کا میراث میں حصہ

سوال :

زید کا ایک بیٹا بچپن میں گم ہوگیا پھر کچھ سالوں کے بعد زید کا انتقال ہوگیا۔ بچے کے گم ہوئے تقریباً ٣۵ سال ہوگئے مگر اب تک کوئی پتہ نہیں۔ زید کی دیگر اولاد اب ترکہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں، تو اس بیٹے کا حصہ لگے گا یا نہیں؟ اگر لگے گا تو اس کا حصہ کیا کیا جائے؟
(المستفتی : مولوی عبداللہ، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں زید کا ترکہ زید کے گم شدہ بیٹے کو حیات سمجھ کر تقسیم کیا جائے گا اور اس کے حصے کو اس وقت تک محفوظ رکھا جائے گا جب تک اس کی موت کا یقینی علم نہ ہوجائے یا اس کی عمر نوے سال نہ ہو جائے، اس کے بعد بھی اگر وہ واپس نہ آئے تو اسے مردہ خیال کرکے اس کے مال کو ان کے وارثوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا۔

إذا غاب الرجل فلم یعرف لہ موضع ولا یعلم أحی ہو أم میت نصب القاضی من یحفظ مالہ ویقوم علیہ ویستوفی حقہ لأن القاضی نصب ناظرا لکل عاجز عن النظر لنفسہ والمفقود بہذہ الصفۃ وصار کالصبی والمجنون۔ (ہدایہ، باب المفقود، ۲/۶۲۰)

المفقود حي فی مالہ حتی لا یرث منہ أحد … واختلف الروایات فی تلک المدۃ… وقال بعضہم تسعون سنۃ وعلیہ الفتویٰ۔ (سراجی فی المیراث ص:۹۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 شعبان المعظم 1442

بدھ، 24 مارچ، 2021

حدیث شریف "تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کے ہیں" کی مراد

سوال :

مفتی صاحب! آپ نے جو مسئلہ لکھا ہے کہ نابالغ بچوں کا مال ان کی اجازت کے باوجود لینا جائز نہیں ہے، اگر لیا گیا تو اس بدل دینا ضروری ہے تو پھر یہ حدیث انت ومالک لابیک کی رو سے اس مسئلہ پر کیا اثر پڑے گا؟ امید کہ مطمئن فرمائیں گے۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ضرورت مند والد کا نفقہ یعنی ضروریات زندگی کا پورا کرنا اس کے بیٹے پر لازم ہے، اگر والد محتاج اور غریب ہو اور اپنی اولاد کے مال کا محتاج ہو تو ایسی صورت میں والد اپنے بیٹے کے مال میں سے بقدرِ ضرورت لے کر استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے، اور اس میں اولاد سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں، اور سوال نامہ میں مذکور حدیث کی یہی تشریح محدثین نے فرمائی ہے اور فقہاء کرام نے اسی کے مطابق حکم بیان فرمایا ہے۔ اگر یہ حکم مطلق ہوتا تو پھر قرآن کریم میں میراث کا جو حکم آیا ہوا ہے کہ والد کی زندگی میں کوئی بیٹا فوت ہوجائے تو بیٹے کے مال سے والد کو چھٹا حصہ ملے گا۔ یہاں بھی اگر اس روایت کو دلیل بنایا جائے کہ یہ مال والد کا ہی ہے تو پھر والد کو صرف چھٹا حصہ کیوں ملے گا؟

علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مثلاً والد کہیں کہ تمام کمائی اپنی ہم کو دیا کر تو اس میں بھی اطاعت واجب نہیں، اور اگر وہ اس پر جبر کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ اور حدیث ومالک لابیک محمول علی الاحتیاج کیف وقد قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یحل ما امریٔ الا بطیب نفس منہ اور اگر وہ حاجت ضروریہ سے بلا اذن زائد لیں گے وہ ان کے ذمہ دین ہوگا جس کا مطالبہ دنیا میں بھی ہو سکتا ہے اگر یہاں نہ دیں گے قیامت میں دینا پڑے گا۔ فقہاء کی تصریح اس کے لئے کافی ہے وہ احادیث کے معانی کو خوب سمجھتے ہیں خصوصاً جبکہ حدیث حاکم میں بھی اذا احتجتم کی قید مصرح ہے۔ (بوادر النوادر : ٤٤٣)

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ حدیث شریف انت ومالک لابیک کا حکم مطلق نہیں ہے، یعنی والد مطلقاً اپنی اولاد کے مال کا مالک نہیں ہے، بلکہ یہ صرف احتیاج اور ضرورت کے ساتھ مقید ہے۔ لہٰذا ہر جگہ اس روایت کو دلیل بنانا محدثین اور فقہاء کرام کی تشریحات اور تصریحات سے لاعلمی کی دلیل ہے۔

نابالغ کے ہدیہ سے متعلق ہم نے جو جواب لکھا ہے وہ مکمل غور وفکر اور تدبر کے بعد دلائل کی روشنی میں لکھا ہے، مسئلہ اسی طرح ہے جس طرح لکھا گیا ہے، اور اس سلسلے میں جو آسان حل ہے وہ بھی پیش کردیا گیا ہے، لہٰذا اب اس سلسلے میں مزید چوں چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغةً، لكن الفقهاء جوّزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورًا يحتاج إليه للنفقة كثيرًا، وإلّا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة، وقال له: أنت ومالك لوالدك، على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة، كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه، فلاأعلم أحدًا ذهب إليه من الفقهاء۔ (حاشية السندي على سنن ابن ماجه :2/ 43)

عَن أبي هُرَيْرَة ... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا۔ (التيسير بشرح الجامع الصغير : 2/ 210)

وفي حديث جابر : أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى۔ (شرح سنن الترمذي : 20/ 262)

وَرُوِيَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّ «رَجُلًا جَاءَ إلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَمَعَهُ أَبُوهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إنَّ لِي مَالًا وَإِنَّ لِي أَبًا وَلَهُ مَالٌ وَإِنَّ أَبِي يُرِيدُ أَنْ يَأْخُذَ مَالِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيك» أَضَافَ مَالَ الِابْنِ إلَى الْأَبِ فَاللَّامُ التَّمْلِيكِ وَظَاهِرُهُ يَقْتَضِي أَنْ يَكُونَ لِلْأَبِ فِي مَالِ ابْنِهِ حَقِيقَةُ الْمِلْكِ فَإِنْ لَمْ تَثْبُتْ الْحَقِيقَةُ فَلَا أَقَلَّ مِنْ أَنْ يَثْبُتَ لَهُ حَقُّ التَّمْلِيكِ عِنْدَ الْحَاجَةِ.
وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ «إنَّ أَطْيَبَ مَا يَأْكُلُ الرَّجُلُ مِنْ كَسْبِهِ وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ كَسْبِهِ فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ إذَا احْتَجْتُمْ إلَيْهِ بِالْمَعْرُوفِ» وَالْحَدِيثُ حُجَّةٌ بِأَوَّلِهِ وَآخِرِهِ أَمَّا بِآخِرِهِ فَظَاهِرٌ؛ لِأَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَطْلَقَ لِلْأَبِ الْأَكْلَ مِنْ كَسْبِ وَلَدِهِ إذَا احْتَاجَ إلَيْهِ مُطْلَقًا عَنْ شَرْطِ الْإِذْنِ وَالْعِوَضِ فَوَجَبَ الْقَوْلُ بِهِ.
وَأَمَّا بِأَوَّلِهِ فَلِأَنَّ مَعْنَى قَوْلِهِ وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ كَسْبِهِ أَيْ: كَسْبُ وَلَدِهِ مِنْ كَسْبِهِ؛ لِأَنَّهُ جَعَلَ كَسْبَ الرَّجُلِ أَطْيَبَ الْمَأْكُولِ وَالْمَأْكُولُ كَسْبُهُ لَا نَفْسُهُ وَإِذَا كَانَ كَسْبُ وَلَدِهِ كَسْبَهُ كَانَتْ نَفَقَتُهُ فِيهِ؛ لِأَنَّ نَفَقَةَ الْإِنْسَانِ فِي كَسْبِهِ وَلِأَنَّ وَلَدَهُ لَمَّا كَانَ مِنْ كَسْبِهِ؛ كَانَ كَسْبُ وَلَدِهِ كَكَسْبِهِ وَكَسْبُ كَسْبِ الْإِنْسَانِ كَسْبُهُ، كَكَسْبِ عَبْدِهِ الْمَأْذُونِ فَكَانَتْ نَفَقَتُهُ فِيهِ۔ (بدائع الصنائع : ٤/٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شعبان المعظم 1442

اسکولوں میں بچوں کو ملنے والا اناج گھر والوں کا استعمال کرنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ پہلے اسکولوں میں تمام بچوں کو حکومت کی طرف سے مڈڈے میل کے نام سےکھچڑی تقسیم  کی جاتی تھی وہ اس لئے کہ کوئی بھی بچہ بھوکا نا رہے۔ اب کرونا مہاماری کی وجہ سے اسکولیں بند ہیں ایسے میں تمام بچوں کو کچے چاول، چنا اور دال تقسیم کیے جاتے ہیں تو اس صورت میں کیا یہ تمام چیزیں گھر کے سب افراد استعمال کر سکتے ہیں؟
(المستفتی : ڈاکٹر شہباز/ شہزاد سر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کی جانب سے اسکولی طلباء کو ملنے والا اناج ہر امیر غریب طالب علم کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا ہر امیر غریب طالب علم کے لیے اس کا لینا جائز ہے، البتہ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ بچے چونکہ نابالغ ہوتے ہیں، اور نابالغ بچوں کو جو رقم یا اشیاء بطور انعام یا امداد کہیں سے ملے وہ بچوں کی ہی ملکیت ہوتی ہے۔ لہٰذا بچوں کو ملنے والے اس اناج کا استعمال گھر والوں کے لیے درست نہیں ہے۔ اگر بچے خود سے یہ اناج والدین کو دیں تب بھی گھر والوں کے لیے اس کا استعمال درست نہیں ہے۔ کیونکہ نابالغ بچوں کا ہدیہ شرعاً غیرمعتبر ہے، یعنی اگر نابالغ  اپنے مال میں سے کسی کو  ہدیہ  دے تو اس  کا  قبول کرنا بھی جائز نہیں، ہدیہ کے صحیح ہونے کے لئے ہدیہ دینے والے کا بالغ ہونا شرط ہے۔

چونکہ یہ اناج ان نابالغ بچوں کی ملکیت میں ہے، لہٰذا اس اناج کو بچوں سے خریدے بغیر غریبوں میں تقسیم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس کے استعمال کی جائز صورت یہ ہے کہ اس اناج کی مناسب قیمت طے کرلی جائے گویا کہ یہ اناج بچوں سے خریدا گیا ہے، اور یہ رقم بچوں کو دے دی جائے، البتہ اس رقم کا یکمشت بچوں کو دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ یہ نیت کرلی جائے کہ یہاں سے دو یا تین مہینے یا اس سے زیادہ مدت تک اب جب بھی بچوں پر کوئی رقم خرچ کروں گا یا بچوں کو خرچ کرنے کے لیے رقم دوں گا تو یہ رقم اس اناج کا ہی بدل ہوگی۔ ماضی میں اس سلسلے میں کوتاہی ہوئی ہو اور اب بچے بالغ ہوگئے ہوں اور وہ یہ رقم معاف کردیں تو معاف ہوجائے گی۔

وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَا يَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَا يَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، باب الہبۃ، ٤/٣٧٤)

(وَشَرَائِطُ صِحَّتِهَا فِي الْوَاهِبِ الْعَقْلُ وَالْبُلُوغُ وَالْمِلْكُ) فَلَا تَصِحُّ هِبَةُ صَغِيرٍ وَرَقِيقٍ، وَلَوْ مُكَاتَبًا۔ (شامی، کتاب الہبۃ، ٥/٦٨٧)

وسئل علی رضی اللہ عنہ من التوبۃ فقال یجمعھا ستۃ اشیاء علی الماضی عن الذنوب الندامۃ وللفرائض الاعادۃ ورد المظالم واستحلال الخصوم وان تعزم علی ان لاتعودوان تربی نفسک فی طاعۃ اللہ کماربیتہا فی معصیۃ انتہی۔ (تفسیر بیضاوی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 شعبان المعظم 1442

منگل، 23 مارچ، 2021

کیلا کھانے کا مسنون طریقہ؟

سوال :

مفتی صاحب! ایک بات لوگ سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ کیلا الٹی طرف سے کھانا چاہئے کیا یہ صحیح ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : شارق انور، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کیلا کس طرح کھایا جائے اس سلسلے میں باقاعدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی طریقہ منقول نہیں ہے۔

البتہ اتنی بات روایات میں ملتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب سال کا پہلا پھل تیار ہوتا دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے اور آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے :
اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي ثِمَارِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَأَنَا أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ بِهِ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ۔ترجمہ : اے اللہ ہمارے لئے ہمارے پھلوں، ہمارے شہر، ہمارے صاع اور ہمارے مد (ناپ تول کے پیمانے) میں برکت پیدا فرما۔ اے اللہ ابراہیم علیہ السلام تیرے دوست، بندے اور نبی تھے انہوں نے تجھ سے مکہ کیلئے دعا کی تھی۔ میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں۔ میں تجھ سے مدینہ کیلئے وہی کچھ مانگتا ہوں جو انہوں نے مکہ مکرمہ کیلئے مانگا تھا بلکہ اس سے دوگنا۔
پھر نبی اکرم ﷺ کسی چھوٹے بچے کو جو نظر آتا بلاتے اور وہ پھل اسے دے دیتے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
ایسی کوئی حدیث یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہماری نظر سے نہیں گذرا، جس کی بنا پر کسی خاص طریقہ کو سنت کہا جائے۔ بظاہر ادب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سے چھیلنا سہل اور آسان ہو۔ (رقم الفتوی : 160624)

معلوم ہوا کہ جس طرح کیلا چھیلنا آسان ہو اس طرح چھیل کر کھانا بہتر ہے، تاہم اسے بھی مسنون نہ کہا جائے۔ نیز کیلے کے اس حصے سے چھیلنا جسے الٹا حصہ کہا جاتا ہے اور اسے ہی مسنون قرار دینا درست نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کَانَ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا أَوَّلَ الثَّمَرِ جَائُوا بِهِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي ثِمَارِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَأَنَا أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ بِهِ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ قَالَ ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ يَرَاهُ فَيُعْطِيهِ ذَلِکَ الثَّمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی «هذا حديث حسن صحيح»۔ (سنن الترمذی، رقم : ٣٤٥٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 شعبان المعظم 1442

پیر، 22 مارچ، 2021

گالی دینے والے کی امامت کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر کوئی امام ماں بہن کی گالی دے تو اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : شیخ امجد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی امام کا گالی دینے کا معمول ہو اور وہ اس عمل پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار بھی نہ کرے تو ایسا شخص شریعت کی نظر میں فاسق کہلاتا ہے، جس کی امامت مکروہ ہوتی ہے۔ البتہ اگر کبھی کسی امام کے منہ سے بشری کمزوری کے تحت گالی نکل جائے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ ہر انسان خطا کار ہے، بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ کرلے۔ (ترمذی) اور وہ اس گناہ پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار بھی کرلے تو اس کا گناہ معاف ہوجائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ "التائب من الذنب كمن لا ذنب له " گناہوں سے توبہ کرنے والا گناہ گار بندہ بالکل اس بندے کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔

مطلب یہ ہے کہ سچی پکی توبہ کے بعد گناہ کا کوئی اثر اور داغ دھبہ باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا جب گالی دینے والا سچی پکی توبہ کرلے تو ایسے شخص کی امامت بلاکراہت درست ہے۔

وکرہ إمامۃ الفاسق لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً، فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ ( تحتہ) کون الکراہۃ فی الفاسق تحریمیۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ،کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ قدیم/۱۶۵)

قال اللہ تعالیٰ : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ (سورہٴ زمر، آیت : ۵۳)

عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کل بني آدم خطائون وخیر الخطائین التوابون۔ (سنن الترمذي رقم: ۲۵۰۱، سنن ابن ماجۃ رقم: ۴۲۵۱)

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 شعبان المعظم 1442