ہفتہ، 31 اگست، 2024

روایت "میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے ابنیاء کی طرح ہیں" کی تحقیق

سوال :

محترم مفتی صاحب ! یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔ کیا یہ حدیث ہے؟ براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت اگرچہ ذخیرہ احادیث میں ملتی ہے، لیکن ماہر فن علماء مثلاً سیوطی، ابن حجر، ملا علی قاری اور زرکشی وغیرہ رحمھم اللہ نے اس روایت کو بے اصل اور من گھڑت قرار دیا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
یہ روایت بے اصل ہے، کسی معتبر کتاب میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔ ”علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل“ ”قال السیوطی فی الدرر: لا أصل لہ، وقال فی المقاصد: قال شیخنا یعنی ابن حجر: لا أصل لہ، وقبلہ الدمیری والزرکشی، وزاد بعضہم : ولا یعرف فی کتاب معتبر الخ (کشف الخفاء ومزیل الإ لباس: ۲/۷۴، رقم: ۱۷۴۴)۔ (رقم الفتوی : 164652)

لہٰذا اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، یہ روایت متعدد کتابوں میں مذکور ہے، جو معتبر بھی ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔


علماءُ أُمَّتي كأنبياءِ بَني إسرائيلَ
الراوي: - • ملا علي قاري، الأسرار المرفوعة (٢٤٧) • قيل لا أصل له أو بأصله موضوع

عُلَماءُ أُمَّتي كأنبياءِ بني إسرائيلَ.
الراوي: - • الزرقاني، مختصر المقاصد (٦٥٢) • لا أصل له

علماءُ أمتي كأنبياءِ بني إسرائيلَ
الراوي: - • الزركشي (البدر)، اللآلئ المنثورة (١٦٧) • لا يعرف له أصل۔

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه والدارمى)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
25 صفر المظفر 1446

پیر، 19 اگست، 2024

عورتوں کا بغیر سینہ بند (بَرا) کے نماز پڑھنا


سوال :

مفتی صاحب اسی طرح کا ایک مسئلہ کسی عالمہ نے بیان کیا کہ چھاتی کا زائد کپڑا (بَرا) کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس تعلق سے بھی رہنمائی کردیجئے، مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : عمر فاروق، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز میں عورت کا ستر چھپا ہو یعنی چہرہ، ہتھیلیاں اور دونوں قدم کے علاوہ بقیہ پورا جسم کپڑے سے ڈھکا ہوا ہو تو اس کی نماز ہوجائے گی، کپڑے کے اندر سینہ بند (بَرا) کا پہننا ضروری نہیں۔ بغیر سینہ بند کے بھی نماز بلاکراہت ادا ہوتی ہے۔

ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مذکورہ بات بے اصل ہے، عورت کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے ایسی کوئی شرط ثابت نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 152370)

لہٰذا سوال نامہ میں مذکور عالمہ صاحبہ کی بات بالکل غلط اور من گھڑت ہے، انہیں اپنی اصلاح کرنا چاہیے اور آئندہ بغیر دلیل کے ایسی بات نہیں کرنا چاہیے۔


سَتْرُ الْعَوْرَةِ شَرْطٌ لِصِحَّةِ الصَّلَاةِ إذَا قُدِرَ عَلَيْهِ. كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ... الْعَوْرَةُ لِلرَّجُلِ مِنْ تَحْتِ السُّرَّةِ حَتَّى تُجَاوِزَ رُكْبَتَيْهِ فَسُرَّتُهُ لَيْسَتْ بِعَوْرَةٍ عِنْدَ عُلَمَائِنَا الثَّلَاثَةِ وَرُكْبَتُهُ عَوْرَةٌ عِنْدَ عُلَمَائِنَا جَمِيعًا هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ. بَدَنُ الْحُرَّةِ عَوْرَةٌ إلَّا وَجْهَهَا وَكَفَّيْهَا وَقَدَمَيْهَا. كَذَا فِي الْمُتُونِ وَشَعْرُ الْمَرْأَةِ مَا عَلَى رَأْسِهَا عَوْرَةٌ وَأَمَّا الْمُسْتَرْسِلُ فَفِيهِ رِوَايَتَانِ الْأَصَحُّ أَنَّهُ عَوْرَةٌ. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ وَهُوَ الصَّحِيحُ وَبِهِ أَخَذَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى... قَلِيلِ الِانْكِشَافِ عَفْوٌ؛ لِأَنَّ فِيهِ بَلْوَى وَلَا بَلْوَى فِي الْكَبِيرِ فَلَا يُجْعَلُ عَفْوًا الرُّبْعُ وَمَا فَوْقَهُ كَثِيرٌ وَمَا دُونَ الرُّبْعِ قَلِيلٌ وَهُوَ الصَّحِيحُ. هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 صفر المظفر 1446

ہفتہ، 17 اگست، 2024

کیا عورتوں کے لیے نیکر(چڈی) پہننا ضروری ہے؟


سوال :

مفتی صاحب ! ایک عالمہ صاحبہ کہتی ہیں کہ عورتوں کو مخصوص ایام کے علاوہ بھی چڈی (نیکر) کا استعمال کرنا چاہیے  اگر نہیں کریں گی تو گناہ گار ہوں گی۔ شریعت کی روشنی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : زبیر احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شلوار اور پاجامہ کے اندر انڈر وئیر یعنی چڈی کا استعمال خواہ مرد ہو یا عورت سب کے لیے صرف جائز ہے، کوئی فرض یا واجب عمل نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
جیسے مرد حضرات لنگی پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں اگرچہ اندر انڈر ویئر وغیرہ نہ ہو، اسی طرح عورتیں بھی سوال میں مذکور لباس میں نماز پڑھ سکتی ہیں بشرطیکہ تمام ضروری ستر چھپ جائے، پیٹ، پیٹھ وغیرہ کھلی ہوئی نہ ہو۔ (رقم الفتوی : 62443)

لہٰذا جب شلوار اور پاجامہ سے ستر چھپ جاتا ہے تو اس کے اندر نیکر اور چڈی پہننے کو ضروری سمجھنا اور نہ پہننے کو ناجائز اور گناہ قرار دینا سخت غلطی ہے، عالمہ صاحبہ کو اپنی اس بے بنیاد بات سے توبہ و استغفار کرکے فوراً رجوع کرنا چاہیے۔


عَنْ دِحْيَةَ بْنِ خَلِيفَةَ الْکَلْبِيِّ أَنَّهُ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبَاطِيَّ فَأَعْطَانِي مِنْهَا قُبْطِيَّةً فَقَالَ اصْدَعْهَا صَدْعَيْنِ فَاقْطَعْ أَحَدَهُمَا قَمِيصًا وَأَعْطِ الْآخَرَ امْرَأَتَکَ تَخْتَمِرُ بِهِ فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ وَأْمُرْ امْرَأَتَکَ أَنْ تَجْعَلَ تَحْتَهُ ثَوْبًا لَا يَصِفُهَا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : 

(قَالَ): أَيِ النَّبِيُّ لَهُ (وَأْمُرْ): أَمَرَ مِنَ الْأَمْرِ (امْرَأَتَكَ أَنْ تَجْعَلَ تَحْتَهُ ثَوْبًا لَا يَصِفُهَا): بِالرَّفْعِ عَلَى أَنَّهُ اسْتِئْنَافُ بَيَانٍ لِلْمُوجِبِ، وَقِيلَ بِالْجَزْمِ عَلَى جَوَابِ الْأَمْرِ، أَيْ لَا يَنْعَتُهَا وَلَا يُبَيِّنُ لَوْنَ بَشْرَتِهَا لِكَوْنِ ذَلِكَ الْقُبْطِيِّ رَقِيقًا، وَلَعَلَّ وَجْهَ تَخْصِيصِهَا بِهَذَا اهْتِمَامٌ بِحَالِهَا، وَلِأَنَّهَا قَدْ تُسَامَحَ فِي لُبْسِهَا بِخِلَافِ الرَّجُلِ، وَفِإِنَّهُ غَالِبًا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ فَوْقَ السَّرَاوِيلِ وَالْإِزَارِ۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٧/٢٧٩٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 صفر المظفر 1446

جمعہ، 16 اگست، 2024

لاڈلی بہن اسکیم میں ملنے والی رقم کس کی؟


سوال :

مفتی صاحب مسئلہ یہ پو چھنا تھا کہ حکومت مہاراشٹر کی جانب سے بنی لاڈلی بہن یوجنا شروع ہوئی ہے۔ جس میں فارم بھرنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد ہر ماہ 1500 اپنے اکاونٹ میں آتا ہے۔ ابھی جلد یہ اسکیم شروع ہوئی۔ جس میں اب 2 ماہ کا 3000 انا شروع ہوگیا ہے۔ اور کچھ جاننے والوں کے گھر کی عورتوں کے اکاونٹ میں پیسہ آبھی گیا ہے۔ اب یہ مسئلہ ہے کہ اس پیسہ کا اصل مالک کون؟ آپ رہنمائی فرمائیں تو ان تک بات پہنچا دی جائیگی۔ انشاءاللہ اس سے کچھ میاں بیوی میں نااتفاقی ہو رہی ہے۔
(المستفتی : رضوان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : لاڈلی بہن اسکیم کے تحت مہاراشٹر گورنمنٹ کی جانب سے ملنے والی رقم میں چونکہ اس بات کی صراحت ہے کہ یہ رقم خواتین کے لیے ہے، لہٰذا ملنے والی اس رقم کی وہ تنہا مالک ہے اور اسے اس بات کا شرعاً اختیار ہے کہ وہ اس پیسے کو جائز کاموں میں جہاں چاہے خرچ کرے۔ اس رقم کا شوہر کو دینا ضروری نہیں۔ اور نہ ہی شوہر اس کی مرضی کے بغیر وہ یہ رقم اس سے لے سکتا ہے۔ ہاں اگر خاتون اپنی مرضی سے یہ رقم شوہر کو دے دے تو الگ بات ہے۔


عَنْ أنَسِ بْنِ مالِكٍ، أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قالَ : لا يَحِلُّ مالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إلّا بِطِيبِ نَفْسِهِ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ٢٨٨٥)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ۔ (شامی : ٤/٦١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 صفر المظفر 1446


روایت "مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے" کی تحقیق


سوال :

مفتی صاحب ! دریافت کرنا تھا کہ علامہ اقبال کے ایک شعر میں یہ الفاظ ملتے ہیں "میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے" جس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاتی ہے۔ کیا اس طرح کا کوئی اشارہ حدیث پاک میں ملتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اسعد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور شعر "میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے " کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک حدیث "مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے" کا مفہوم ہے اور اس کے عربی الفاظ یہ "قال رسول الله صلى الله علیہ وسلم تأتي إلىّ ريح طيبة من الهند" بیان کیے جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے ان الفاظ کے ساتھ یا اِس سے ملتے جلتے الفاظ مثلاً "مجھے ہند سے وفا کی خوشبو آتی ہے" وغیرہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث نہیں ہے۔ لہٰذا ان باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرنا اور اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک معتبر قول ملتا ہے کہ "آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سب سے بہترین ہوا سر زمینِ ہندوستان میں ہے، حضرت آدم وہیں پر اتارے گئے، اور حضرت آدم علیہ السلام نے وہاں جنت کا خوشبودار پودا لگایا۔" لہٰذا یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کے طور پر بیان کی جاسکتی ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْكَارِزِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: «أَطْيَبُ رِيحٍ فِي الْأَرْضِ الْهِنْدُ، أُهْبِطَ بِهَا آدَمُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فَعَلَقَ شَجَرُهَا مِنْ رِيحِ الْجَنَّةِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم، رقم : ٣٩٩٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 صفر المظفر 1446

منگل، 13 اگست، 2024

ٹولین (ٹونائن) یا چڑیل کی حقیقت ؟


سوال :

ٹولین اور چڑیل کی شریعتِ اسلامیہ میں کیا حقیقت ہے؟ کیا کسی عورت کو ٹولین لگتی ہے؟ یا لگ سکتی ہے؟ ہمارے معاشرے میں کسی ایسی بوڑھی عورت کو جو سب سے الگ تھلگ زندگی گزارتی ہو اور روزے نماز خوب کرتی ہو عموماً اس کو ٹولین کے نام سے مشہور کردیا جاتا ہے۔ لوگ اس سے خوف کھانے لگتے ہیں۔ تو اس کی کیا حقیقت ہے؟کبھی کسی عورت کا رشتہ محض یہ بول کر رد کردیا جاتا ہے کہ اس عورت کو ٹولین لگتی ہے۔ ایسا بولنے والوں کا کیا حکم ہے؟ جبکہ اس طرح کی بات بولنے سے اس خاتون کا رشتہ نہیں ہوتا؟ بینوا توجروا
(المستفتی : عرفان احمد انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریر جن کی مؤنث یعنی جنیہ ہی چڑیل ہوتی ہیں۔ یعنی وہی مختلف ہیبت ناک شکل میں بعض انسانوں کو ڈراتی ہیں یا پھر بعض مرتبہ عورتوں پر حاوی بھی ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ جنات کو اللہ تعالیٰ نے انسانی آزمائش کے لیے یہ قدرت دے رکھی ہے کہ وہ مختلف تصرف کرکے انسانی زندگی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جس کا قرآن وحدیث سے ثبوت بھی ملتا ہے، لہٰذا کسی کے جسم پر جنات کا تسلط اور اس کے اثر سے مغلوب ہوجانا کوئی بعید نہیں ہے۔

ایک واقعہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سنایا ہے کہ "بنو عذرہ" قبیلے کا ایک شخص جس کا نام "خرافہ" تھا اسے جنات پکڑ کر لے گئے تھے، وہ ایک عرصے تک جنات کے درمیان مقیم رہا پھر وہی اسے انسانوں کے پاس چھوڑ گئے۔ اب وہ واپس آنے کے بعد عجیب عجیب قصے سنایا کرتا تھا، اس لئے لوگ (ہر عجیب بات کو) خرافہ کا قصہ کہنے لگے، خلاصہ یہ کہ انسان پر جنات کا اثر ہو سکتا ہے اور وہ انسان کی رگوں کے اندر بھی داخل ہو سکتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
 بھوت پریت، سایہ، ہوا وغیرہ یہ سب وہمیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہاں جن کا اثر یا سحرکا اثر یہ تو ثابت ہے بقیہ ساری چیزیں توہمات کے قبیلہ سے ہیں۔ عامل لوگ لوگوں کے دلوں میں اس کا ہوا بیٹھا دیتے ہیں اور وہم کو تقویت دیتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو اس طرح کی وہمیات میں نہ پڑنا چاہئے، خود بھی پاک و صاف رہیں، گھروں کو بھی پاک و صاف رکھیں، پانچوں وقت نماز پڑھیں، گھروں میں نفل نماز اور قرآن کی تلاوت کرتے رہیں۔ ان شاء اللہ کوئی چیز قریب نہیں آئے گی۔ (رقم الفتوی : 600747)

ہمارے یہاں جسے ٹولین کہا جاتا ہے وہ اصل میں ٹونائن یعنی جادو ٹونا کرنے والی ہے۔ بلاشبہ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں، اور جادو کے ذریعے دوسری عورتوں کو سخت تکلیف پہنچاتی ہیں، یہاں تک کہ جادو کے زور سے ان پر اس طرح بھی غالب آسکتی ہیں کہ ان کی زبان سے اپنی بات بھی کہلوا سکتی ہیں۔ ایسی عورتوں کو کہا جاتا ہے کہ اسے ٹولین لگی ہے جبکہ اصلاً ان پر (ٹونائن) کے جادو کا اثر ہوتا ہے۔

اسی طرح بعض مرتبہ کسی دماغی بیماری کی وجہ سے بھی عورتوں سے ایسی حرکت سرزد ہوتی ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ ان پر جادو یا جنات کا اثر ہے، ایسی عورتوں کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اسے ٹولین لگی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے طبی لحاظ سے کوئی بیماری ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کا صحیح رُخ پر علاج کیا جائے تو یہ مسائل جلد ختم ہوجاتے ہیں۔

معلوم ہونا چاہیے کہ جادو کا سیکھنا سکھانا قرآن وحدیث کی رو ناجائز، حرام اور بروز حشر سخت عذاب میں مبتلا کرنے والا عمل ہے۔ نیز اگر جادو سیکھنے یا کرنے میں کوئی شرکیہ اور کفریہ عمل کیا گیا یا کوئی شرکیہ کفریہ کلمہ کہا گیا ہے تو ایسے لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں۔ اگر بغیر توبہ کے مرجائیں تو سیدھے جہنم میں جائیں گے۔ لیکن ایسی عورتیں یعنی (ٹونائن) بہت کم ہوتی ہیں، اگر ہوتی بھی ہیں تو وہ چھپ چھپا کر عمل کریں گی، اس طرح لوگوں کے درمیان مشہور تھوڑی نہ ہوں گی، عموماً بعض نیک اور نمازی خواتین کو ان کے ہی رشتہ دار یا پڑوسی کسی دشمنی یا حسد میں ٹولین مشہور کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں تو انہیں مجبوراً الگ تھلگ رہنا پڑتا ہے۔ یہ انتہائی واہیات اور سخت گناہ کی بات ہے کہ نیک عورتوں سے متعلق ایسی بے بنیاد باتیں لوگوں کے درمیان پھیلائی جائے، جب تک کسی کے بارے میں پختہ ثبوت نہ ملے کہ وہ جادو ٹونا کرتی ہے اسے ٹونائن کہنا بہتان، ناجائز اور حرام کام ہے۔ ایسے لوگوں کی بروزِ حشر سخت گرفت ہوگی۔ اور ان کی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھانے والے بھی سخت گناہ گار ہوں گے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے۔ اور ان کے بہتان اور جھوٹ بات کو بغیر پختہ ثبوت کے آگے بڑھانے کی وجہ سے کسی کا رشتہ لگنے یا کسی اور معاملات میں تکلیف آئے تو اس کا وبال بھی ان لوگوں پر ہوگا۔


عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ حَدِيثًا، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَأَنَّ الْحَدِيثَ حَدِيثُ خُرَافَةَ، فَقَالَ : " أَتَدْرِينَ مَا خُرَافَةُ ؟ إِنَّ خُرَافَةَ كَانَ رَجُلًا مِنْ عُذْرَةَ، أَسَرَتْهُ الْجِنُّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَمَكَثَ فِيهِنَّ دَهْرًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَدُّوهُ إِلَى الْإِنْسِ فَكَانَ يُحَدِّثُ النَّاسَ بِمَا رَأَى فِيهِمْ مِنَ الْأَعَاجِيبِ، فَقَالَ النَّاسُ : حَدِيثُ خُرَافَةَ۔ (مسند احمد، رقم : ٢٥٢٤٤) 

قال المحقق في الفتح : قال أصحابنا : للسحر حقیقۃ وتأثیر في الأجسام خلافًا لمن منع ذٰلک۔ (إعلاء السنن، کتاب السیر / حکم السحر وحقیقتہ ۱۲؍۶۰۰)

المراد بالسحر ما یستعان في تحصیلہ بالتقرب إلی الشیطان مما لا یستقل بہ الإنسان، وذٰلک لا یحصل إلا لمن یناسبہ في الشرارۃ وخبث النفس۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲۴؍۲۵۹)

اخل الأجسام المحالَ أن يتداخل جسمان كثيفان أحدُهما في الآخر، بحيث يكون حيِّزُهما واحدًا. وأما أن يدخل جسمٌ لطيف في كثيف يسري فيه، فهذا ليس بمحال۔(کتاب الروح : ٢/٦١١)

"(و) الكافر بسبب اعتقاد (السحر) لا توبة له (ولو امرأة) في الأصح.

مطلب في الساحر والزنديق (قوله والكافر بسبب اعتقاد السحر) في الفتح: السحر حرام بلا خلاف بين أهل العلم، واعتقاد إباحته كفر. وعن أصحابنا ومالك وأحمد يكفر الساحر بتعلمه وفعله سواء اعتقد الحرمة أو لا ويقتل وفيه حديث مرفوع «حد الساحر ضربة بالسيف» يعني القتل وعند الشافعي لا يقتل ولا يكفر إلا إذا اعتقد إباحته. وأما الكاهن، فقيل هو الساحر، وقيل هو العراف الذي يحدث ويتخرص، وقيل من له من الجن من يأتيه بالأخبار. وقال أصحابنا: إن اعتقد أن الشياطين يفعلون له ما يشاء كفر لا إن اعتقد أنه تخييل، وعند الشافعي إن اعتقد ما يوجب الكفر مثل التقرب إلى الكواكب وأنها تفعل ما يلتمسه كفر. وعند أحمد حكمه كالساحر في رواية يقتل، وفي رواية إن لم يتب، ويجب أن لا يعدل عن مذهب الشافعي في كفر الساحر والعراف وعدمه. وأما قتله فيجب ولا يستتاب إذا عرفت مزاولته لعمل السحر لسعيه بالفساد في الأرض لا بمجرد علمه إذا لم يكن في اعتقاده ما يوجب كفره. اهـ. وحاصله أنه اختار أنه لا يكفر إلا إذا اعتقد مكفرا، وبه جزم في النهر، وتبعه الشارح، وأنه يقتل مطلقا إن عرف تعاطيه له، ويؤيده ما في الخانية: اتخذ لعبة ليفرق بين المرء وزوجه. قالوا: هو مرتد ويقتل إن كان يعتقد لها أثرا ويعتقد التفريق من اللعبة لأنه كافر. اهـ. وفي نور العين عن المختارات: ساحر يسحر ويدعي الخلق من نفسه يكفر ويقتل لردته. وساحر يسحر وهو جاحد لا يستتاب منه ويقتل إذا ثبت سحره دفعا للضرر عن الناس. وساحر يسحر تجربة ولا يعتقد به لا يكفر. قال أبو حنيفة: الساحر إذا أقر بسحره أو ثبت بالبينة يقتل ولا يستتاب منه، والمسلم والذمي والحر والعبد فيه سواء۔ (شامی : ٤/٢٤٠)

عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ۔ (صحيح مسلم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 صفر المظفر 1446

پیر، 5 اگست، 2024

بی ٹی ایس (BTS) میں دلچسپی لینا


سوال :

مفتی صاحب یہ BTS کیا ہے؟ اسکول کالج وغیرہ میں لڑکیاں اس کی دیوانی ہیں، اس کو اپنا آئیڈیل مانتی ہے لڑکیاں جنون کی حد تک اُن سے محبت کرتی ہیں اس کے بارے میں مکمل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ناصر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کوریا کے سات نوجوانوں کا ایک بینڈ گروپ ہے جو BTS کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نوجوان بیک وقت گانے، ناچنے اور میوزک سب پر ان کی اصطلاح کے مطابق مہارت رکھتے ہیں، چونکہ یہ دکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں اور انہیں خوبصورت بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے گلیمر کی دلدادہ لڑکیاں ان کی فین اور دیوانی بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ناچنا، گانا اور موسیقی شرعاً ناجائز اور حرام کام ہے جس پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے ارشاد فرمایا : گانا دل میں نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔ (بیہقی)

ابوعامر یا ابو مالک الاشعری  فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا : میری اُمت میں سے کچھ گروہ اٹھیں گے، زنا کاری اور ساز باجوں کو حلال سمجھیں گے۔ ایسے ہی کچھ لوگ پہاڑ کے دامن میں رہا ئش پذیر ہوں گے۔ شام کے وقت ان کے چرواہے مویشیوں کو لیکر انکے ہاں واپس لوٹیں گے۔ ان کے پاس ایک محتاج آدمی اپنی حاجت لے کر آئے گا تو وہ اس سے کہیں گے : کل آنا مگر شام تک ان پر عذاب نمودار ہوگا اور اللہ ان پر پہاڑ گرادے گا جو انہیں کچل دے گا اور دوسرے لوگوں کی شکل وصورت تبدیل کرکے قیامت تک بندر اور خنزیر بنادے گا۔ (بخاری)

حضرت عبدالرحمن بن ثابت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ایک وقت آئے گا کہ میری امت کے کچھ لوگ زمین میں دَب جائیں گے، شکلیں بدل جائیں گی اور آسمان سے پتھروں کی بارش کا نزول ہوگا۔ فرمایا اللہ کے رسول ﷺ! کیا وہ کلمہ گوہوں گے جواب دیا : ہاں ،جب گانے، باجے اور شراب عام ہوجائے گی اور ریشم پہنا جائے گا۔ (ترمذی)

حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول ﷺنے فرمایا : میری امت میں لوگ زمین میں دھنسیں گے، شکلیں تبدیل ہوں گی اور پتھروں کی بارش ہوگی حضرت عائشہ  نے پوچھاکہ وہ لاالہ الااللہ کہنے والے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا : جب مغنیات (گانے والیوں) کا عام رواج ہوگا، سود کا کاروبار خوب چمک پر ہوگا اور شراب کا رواج عام ہوگا اور لوگ ریشم کو حلال سمجھ کر پہنیں گے۔ (ابن ابی الدنیا)

عمران بن حصین  سے روایت ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا : اس امت میں زمین میں دھنسا نا، صورتیں بدلنا اور پتھروں کی بارش جیسا عذاب ہوگا تو مسلمانوں میں سے ایک مرد نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ کیسے ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا : جب گانے والیاں اور باجے گاجے ظاہر ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی۔ (ترمذی)

نافع  مولیٰ ابن عمر فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر  نے ساز بانسری کی آواز سنی تو انہوں نے اپنے کانوں میں اُنگلیاں دے دیں اور راستہ بدل لیا، دور جاکر پوچھا: نافع کیا آواز آرہی ہے؟ تو میں نے کہا : نہیں، تب انہوں نے انگلیاں نکال کر فرمایا کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھا، آپ نے ایسی ہی آواز سنی تھی اور آواز سن کر میری طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں تھیں۔(احمد،ابوداود،ابن حبان)

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا : میں ساز باجے اور ڈھولک کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (الفوائد)

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : بلاشبہ اللہ نے شراب، جوا او ر ڈھولک حرام فرمائے ہیں اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ (مسنداحمد)

حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی گلو کارہ کی مجلس میں بیٹھا اور اس نے گانا سنا، قیامت کے روز اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ (قرطبی)

جس طرح کسی گلوکارہ کے شو میں بیٹھ کر گانا سننا حرام ہے ، اسی طرح ریڈیو،ٹی وی ،وی سی آر اور کیسٹوں کے ذریعہ گانا سننا بھی حرام ہے کیونکہ دونوں دراصل ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔

حضرت علی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب میری اُمت پندرہ کام کرنے لگے گی تو اس پر مصائب ٹوٹ پڑیں گے۔ صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ کون سے کام ہیں؟ آپﷺنے فرمایا : جب مالِ غنیمت تمام حق داروں کو نہیں ملے گا، امانتیں ہڑپ کرلی جائیں گی، زکوٰة تاوان سمجھی جائے گی، خاوند بیوی کا فرمانبردار ہوگا، بیٹا ماں کی نافرمانی کرے گا، اپنے دوست سے نیک سلوک اور باپ سے جفا سے پیش آئے گا، مسجدوں میں لوگ زور زور سے بولیں گے، انتہائی کمینہ ذلیل شخص قوم کا سربراہ ہوگا، کسی آدمی کی شر سے بچنے کے لئے اس کی عزت کی جائے گی، شراب نوشی عام ہوگی، ریشم پہنا جائے گا، گانے والی عورتیں عام ہوجائیں گی، ساز باجوں کی کثرت ہوگی اور آنے والے لوگ پہلے لوگوں پر طعن کریں گے۔ (ترمذی)

یعنی گانے ساز باجوں اور گانے والیوں کی وجہ سے مسلمان مصیبتوں میں گھر جائیں گے۔

لہٰذا ناچنے، گانے اور موسیقی میں دلچسپی رکھنا اور ان قبیح افعال کو انجام دینے والوں سے محبت رکھنا ناجائز اور حرام ہے، اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایسے لوگوں کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا۔ تو کیا یہ مسلمان لڑکیاں اس بات کو پسند کریں گی ان کا انجام بھی انہیں کی طرح ہو؟


استماع الملاھی و الجلوس علیہا وضرب المزامیر والرقص کلہا حرام ‘‘ ومستحلہا کافر وفی الحمادیۃ من النافع اعلم ان التغنی حرام فی جمیع الادیان۔ (جامع الفتاوی، ۱/ ۷۳، رحیمیہ، دیوبند)

(قَوْلُهُ وَمَنْ يَسْتَحِلُّ الرَّقْصَ قَالُوا بِكُفْرِهِ) الْمُرَادُ بِهِ التَّمَايُلُ وَالْخَفْضُ وَالرَّفْعُ بِحَرَكَاتٍ مَوْزُونَةٍ كَمَا يَفْعَلُهُ بَعْضُ مَنْ يَنْتَسِبُ إلَى التَّصَوُّفِ۔ وَقَدْ نَقَلَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ عَنْ الْقُرْطُبِيِّ إجْمَاعَ الْأَئِمَّةِ عَلَى حُرْمَةِ هَذَا الْغِنَاءِ وَضَرْبِ الْقَضِيبِ وَالرَّقْصِ. قَالَ وَرَأَيْتُ فَتْوَى شَيْخِ الْإِسْلَامِ جَلَالِ الْمِلَّةِ وَالدِّينِ الْكَرْمَانِيِّ أَنَّ مُسْتَحِلَّ هَذَا الرَّقْصِ كَافِرٌ، وَتَمَامُهُ فِي شَرْحِ الْوَهْبَانِيَّةِ. وَنَقَلَ فِي نُورِ الْعَيْنِ عَنْ التَّمْهِيدِ أَنَّهُ فَاسِقٌ لَا كَافِرٌ۔ (شامی : ٤/٢٥٩)

عن ابن عمر قال قال رسول اﷲﷺ من تشبہ بقوم فھو منھم۔ (سنن ابی داؤد : ۲۰۳/۲)

عن ابی موسی قال المرأ مع من احب۔ (صحیح ابن حبان : ۲۷۵/۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
29 محرم الحرام 1446

ہفتہ، 3 اگست، 2024

پارس گرو کُل میں ملازمت کرنے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں ابھی موبائل پر ایک پروگرام ہے۔  پارس گرو کل  ایک ادارہ ہے جس کے ذریعے آن لائن لیکچر دیا جاتا ہے اور اس لیکچر میں کچھ ایسی باتیں ہوتی جو دین و شریعت سے ٹکراتی ہیں اور اس لیکچر میں شریک ہونے کیلئے 590 روپیہ فیس بھری جاتی ہے اور اس گروپ میں دو لوگوں کو جوائن کرنا ہوتا ہے یہ لیکچر دو مہینہ چلتا ہے اس کے بعد اس لیکچر میں شریک لوگوں کا سلیکشن کرکے ان کو پڑھانے کیلئے لگایا جاتا ہے وہ بھی آن لائن اور ان کو ماہانہ 6000 روپیہ تنخواہ دیجاتی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ ایسی تعلیم حاصل کرنا اور اس کی تعلیم دینا کیسا ہے؟
(المستفتی : محمد زبیر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پارس گرو کُل سے متعلق زیادہ معلومات تو اکٹھا نہیں کی جاسکی۔ البتہ اس کے دو لیکچر سننے کا موقع ملا، جس میں گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کی مثال اس طرح دی جارہی تھی کہ گویا یہ کلچر جائز ہو، اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ غیرمسلموں کا بنایا ہوا کورس ہے، جس میں ایسی باتیں بلاشبہ ہوں گی جو شریعت سے متصادم ہوں۔ 

اسی طرح اس میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ اگر آپ کو اس ادارہ میں ملازمت کرنا ہے تو آپ کو دو لوگوں کو مزید گرو کُل سے جوڑنا پڑے گا، اگر آپ دو لوگوں کو نہیں جوڑتے ہیں تو پھر آپ کو بھی ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا۔ جبکہ کسی کو جوڑنے والی یہ لازمی شرط، شرط فاسد ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔ بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ کورس صرف برائے نام ہے، اصل اس ادارہ سے دوسروں کو جوڑ کر ان سے فیس اکٹھا کرنا ہے جیسا کہ ملٹی لیول مارکیٹنگ اور چین سسٹم میں ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ایسا عجیب سا کورس ہے جس میں تعلیم، عمر اور صلاحیت کی بھی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ 

درج بالا تمام باتیں "پارس گرو کُل" کو مزید مشکوک اور غیرمعتبر بناتی ہیں، لہٰذا ایسے کسی بھی ادارہ میں ملازمت کرنا اور روزی کمانا درست نہیں ہے۔


یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا لاَتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاَّ اَن تَکُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ۔ (سورۃ  النساء  : 29)

وکل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعة لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیہ وهو من أهل الاستحقاق یفسدہ۔ (هدایہ : ۳/۵۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 محرم الحرام 1446 

جمعرات، 1 اگست، 2024

نابالغ بچوں کا والدین کی شفاعت کرنا


سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ جو بچے بالغ ہونے سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں کیا وہ جنت میں اپنے ماں باپ کو ساتھ میں لے جائیں گے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : مصدق سر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ بچپن میں انتقال کرنے والے بچے بلکہ پیدا ہونے سے پہلے ہی ضائع ہوجانے والے بچے جسے عربی میں ’’سقط‘‘ کہتے ہیں یعنی ناتمام بچے بھی قیامت کے دن اپنے والدین کے لیے شفاعت کریں گے۔

مسند احمد ابن حنبل میں ہے :
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جن دو مسلمان میاں بیوی کے تین بچے فوت ہوجائیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل فرما دے گا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ!  ﷺ اگر دو بچے ہوں تو؟ فرمایا ان کا بھی یہی حکم ہے انہوں نے پوچھا اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا اس کا بھی یہی حکم ہے پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، نامکمل حمل بھی اپنی ماں کو کھینچ کر جنت میں لے جائے گا بشرطیکہ اس نے اس پر صبر کیا ہو۔

سنن ابن ماجہ میں ہے :
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کچا بچہ جھگڑا کرے گا اپنے مالک (اللہ عزوجل) سے جب مالک اس کے والدین کو دوزخ میں ڈالے گا پھر حکم ہوگا اے کچے بچے جھگڑنے والے اپنے مالک سے، اپنی ماں باپ کو جنت میں لے جاؤ وہ ان دونوں کو جنت میں لے جائے گا۔


عَنْ مُعَاذٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يُتَوَفَّى لَهُمَا ثَلَاثَةٌ إِلَّا أَدْخَلَهُمَا اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمَا فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ اثْنَانِ قَالَ أَوْ اثْنَانِ قَالُوا أَوْ وَاحِدٌ قَالَ أَوْ وَاحِدٌ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ السِّقْطَ لَيَجُرُّ أُمَّهُ بِسَرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ إِذَا احْتَسَبَتْهُ۔ (مسند احمد)

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ السِّقْطَ لَيُرَاغِمُ رَبَّهُ إِذَا أَدْخَلَ أَبَوَيْهِ النَّارَ فَيُقَالُ أَيُّهَا السِّقْطُ الْمُرَاغِمُ رَبَّهُ أَدْخِلْ أَبَوَيْکَ الْجَنَّةَ فَيَجُرُّهُمَا بِسَرَرِهِ حَتَّی يُدْخِلَهُمَا الْجَنَّةَ۔ (ابن ماجہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 محرم الحرام 1446