منگل، 30 اپریل، 2019

استقبالِ رمضان کے پروگرام کی شرعی حیثیت

*استقبالِ رمضان کے پروگرام کی شرعی حیثیت*

سوال :

استقبال رمضان پروگرام کرنا چاہئے یا نہیں؟ کیا آپ صلى الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے وقت اس قسم کے پروگرام ہوتے تھے؟
(المستفتی : قاری اشتیاق جمالی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : استقبالِ رمضان کے عنوان سے جو مجالس مساجد میں منعقد کی جاتی ہیں اس میں رمضان المبارک کے فضائل و مسائل بیان کیے جاتے ہیں اور اعمال رمضان پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب اور ان کی درستگی کی تعلیم دی جاتی ہے جس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مستحسن عمل ہے، جس  کا ثبوت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث شریف سے بھی ملتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شعبان کی آخری تاریخ میں رمضان المبارک کے فضائل پر مبنی ایک طویل خطبہ دیا تھا۔

عن سلمان رضی اللہ عنہ قال: خطبنا رسول اﷲ ﷺ فی آخر یوم من شعبان قال: یا ایھا الناس قد أظلکم شھر عظیم مبارک، شھر فیہ لیلۃ خیر من الف شھر، شھر جعل اﷲ صیامہ فریضۃ فیہ وقیام لیلہ تطوعاً من تقرب فیہ بخصلۃ من الخیر کان کمن أدّی فریضۃ فیما سواہ ومن أدّی فریضۃ فیہ کان کمن ادّی سبعین فریضۃ فیما سواہ الخ۔ رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ، ثم قال صح الخبر ورواہ من طریق البیھقی ورواہ ابو الشیخ ابن حبان فی الثواب باختصار عنھما۔(الترغیب والترھیب : ۵۷/۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 شعبان المعظم 1440

نماز وِتر تراویح کے بعد ادا کرنا

*نماز وِتر تراویح کے بعد ادا کرنا*

سوال :

حضرت مفتی صاحب دریافت طلب بات یہ ہے کہ رمضان المبارک میں وتر کو صلوۃِ تراویح پر مؤخر کرنے کی وجہ (دلیل) ہو تو برائے مہربانی ارسال فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمیر، پونہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وتر ایک مستقل نماز ہے جو تراویح کے تابع نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی تراویح سے پہلے وتر ادا کرلے تو اس کی وتر ادا ہوجائے گی، وتر کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔ البتہ حدیث شریف اور آثارِ صحابہ وتابعین سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں تراویح کے بعد باجماعت وتر ادا کرنا مسنون ہے۔

درج ذیل چند روایات ملاحظہ فرمائیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ۔(طبرانی کبیر:12102)(ابن ابی شیبہ:7692)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس ﷠سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان میں 20 رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔

حضرت زید بن وھب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي بِنَا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ“حضرت عبد اللہ بن مسعود ہمیں رمضان کے مہینہ میں تَراویح پڑھایا کرتے تھے۔اور اِس کی مِقدار اِمام اَعمَش﷫فرماتے ہیں:”كَانَ يُصَلِّي عِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ“حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ 20 رکعت تَراویح اور تین رکعت وِتر پڑھایا کرتے تھے۔(أخرجہ محمّد بن نصر المَروَزی فی قیام اللیل و قیامِ رَمضان:221)(عُمدۃ القاری:11/127)

عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ:كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلاَثٍة وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً فِيْ رَمَضَانَ۔(مؤطا مالک:281)
ترجمہ:حضرت یزید بن رُومان فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر ﷜کے زمانہ خلافت میں رَمضان کے اندر(وتر سمیت)23رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔

عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ:كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:7684)
ترجمہ: حضرت عبد العَزیز بن رُفیع فرماتے ہیں کہ مدینہ منوّرہ میں حضرت اُبَی بن کعب﷜ لوگوں کو ماہِ رَمضان میں 20 رکعت تَراویح اور تین رکعت وِتر پڑھایا کرتے تھے۔

عَنِ الْحَارِثِ:أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً،وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ، وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ۔(ابن ابی شیبہ :7685)
ترجمہ : حضرت حارث رحمہ اللہ سے مَروی ہے کہ وہ رمضان میں لوگوں کو20 تراویح اور 3 وتر پڑھاتے تھے اور رُکوع سے قبل قنوت پڑھتے تھے۔

عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ:أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ فِي رَمَضَانَ، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(ابن ابی شیبہ :7686)
ترجمہ:حضرت اَبوالبختری جوکہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے خاص اَصحاب میں سے ہیں ،اُن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ رمضان المُبارک میں 5 تَرویحے (یعنی20 رَکعات) اور 3 رکعات وِتر پڑھایا کرتے تھے۔

عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ،أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيعَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيْحَاتٍ وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(مصنف ابن ابی شیبہ:7690)
ترجمہ:حضرت سعید بن عُبید فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن ربیعہ لوگوں کو رمضان المبارک میں 5ترویحے(یعنی بیس رکعت)اور 3 رکعت وتر پڑھایا کرتے تھے۔

وفی شرح المنیۃ : والصحیح أن الجماعۃ فیہا أفضل إلا أن سنتیہا لیست کسنیۃ جماعۃ التراویح۔ قال الخیر الرملی: وہذا الذی علیہ عامۃ الناس الیوم۔ (شامی زکریا ۲؍۵۰۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شعبان المعظم 1440

اتوار، 28 اپریل، 2019

خون کی بوتل جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا

*خون کی بوتل جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا*

سوال :

محترم مفتی صاحب! زید نے خون جانچ کے لیے شیشی جیب میں رکھی تھی اور اسی حالت میں نماز پڑھ لی تو زید کی نماز ہوگی یا نہیں؟
(المستفتی : حافظ انس، مالیگاؤں)
---------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر نجاست اور گندگی اپنی جگہ اور محل میں موجود ہوتو اسے نجاست کے حکم میں شمار نہیں کیا جاتا ہے، مثلاً کسی کی جیب میں نماز کے دوران انڈا موجود ہو، جس کا پانی خون میں تبدیل ہوگیا ہو، اُس کی موجودگی میں نماز درست ہوجاتی ہے، اگر وہ نجاست اپنے غیرمحل اور دوسری جگہ ہو تو اسے نجاست کے حکم میں شمار کیا جاتا ہے، مثلاً نماز کے دوران جیب میں شیشی ہو، اور اُس میں پیشاب خون یا شراب وغیرہ ہو تو اُس شیشی کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں، اس نماز کا اعادہ لازم ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کے جیب میں خون والی شیشی موجود تھی اور خون کی مقدار پھیلاؤ میں ایک روپے کے سکے سے زائد تھی تو اس کی وجہ سے اس کی نماز نہیں ہوئی، لہٰذا اس نماز کا دوہرانا ضروری ہے۔

ونجاسۃ باطنہ فی معدنھا فلا یظھر حکمھا کنجاسۃ باطن المصلی، کما لو صلی حاملا بیضۃ مذرۃ صار محھا دما جاز، لأنہ فی معدنہ، والشی مادام فی معدنہ لایعطی لہ حکم النجاسۃ، بخلاف مالو حمل قارورۃ مضمومۃ فیھا بول فلا تجوز صلاتہ لانہ فی غیر معدنہ کمافی البحر عن المحیط۔ (شامی : ۴۰۳/۱)

إذا صلی وفی کمہ بیضۃ مذرۃ قد حال محھا دماً جازت صلاتہ وکذا البیضۃ التی فیھا فرخ میت کذا فی فتاویٰ قاضیخان۔رجل صلی وفی کمہ قارورۃ فیھا بول لا تجوز الصلوۃ سواء کانت ممتلئۃ اولم تکن، لان ھذا لیس فی مظانہٖ ومعدنہ بخلاف البیضۃ المذرۃ لانہ فی معدنہ ومظانہ وعلیہ الفتویٰ۔ (الفتاوی الہندیہ : ۶۲/۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 شعبان المعظم 1440

تراویح میں اذان کا اسپیکر جاری رکھنا

*تراویح میں اذان کا اسپیکر جاری رکھنا*

سوال :

مفتی صاحب تراویح کے وقت مسجد کے اذان کا اسپیکر چالو رکھنا کیسا ہے؟ اس کی آواز سے مسجد کے اطراف کی مستورات تراویح پڑھ سکتی ہیں؟ اور کیا ان کی نماز ہوگی؟
(المستفتی : محمد سلمان، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز باجماعت میں امام کی آواز اتنی ہونی چاہیے کہ نماز میں شامل مقتدی حضرات آسانی سے سن لیں، اتنی زور سے تلاوت کرنا یا اسپیکر کی آواز اتنی تیز رکھنا کہ مقتدی حضرات کا ذہن و دماغ کو قرأتِ قرآن سے نشاط ہونے کے بجائے تکلیف ہونے لگے شریعتِ مطھرہ کی نظر میں ناپسندیدہ اور مکروہ ہے۔

صورت مسئولہ میں تراویح کے وقت اذان کا اسپیکر جاری رکھنا شرعاً درست نہیں ہے، اس لئے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔ (سورہ انفال، آیت 204)
ترجمہ:اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

چنانچہ جب اذان کے اسپیکر سے قرآن کی تلاوت ہوگی اور آواز دور دور تک پہنچے گی، جس کی وجہ سے قرآنِ کریم کی مذکورہ آیت پر عمل نہیں ہوسکے گا، اور قرآن مجید کی بے ادبی ہوگی، اسی طرح تیز آواز کی وجہ سے مریض یا سونے والوں کو تکلیف ہوگی اور انفرادی عبادت کرنے والوں کو خلل ہوگا۔ لہٰذا اس عمل سے اجتناب ضروری ہے۔

اذان کے اسپیکر میں قرأت اور تکبیر کی آواز سن کر اپنے گھروں میں نماز تراویح میں امام کی اقتداء کرنے والی خواتین کی نماز بھی درست نہیں ہوگی، اس لئے کہ اس صورت میں اتصال صفوف نہیں پایا جائے گا جو اقتداء کے لیے ضروری ہے۔

والجہرأفضل في غیر ذلک؛ لأن العمل فیہ أکبر، ولأنہ یتعدي نفعہ إلی غیرہ، ولأنہ یوقظ قلب القارئ، ویجمع ہمہ إلی الفکر، ویصرف سمعہ إلیہ، ویطرد النوم ویزید النشاط۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ۱۶؍۱۹۲)

وإذا جہر الإمام فوق حاجۃ الناس فقد أساء؛ لأن الإمام إنما یجہر لإسماع القوم لیدبروا في قرأتہ، لیحصل إحضار القلب۔(الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ،۱/۱۲۹)

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ۔ (شامی : ۱؍۶۶۰)

عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم.(سنن النسائي:۲؍۲۶۶، رقم الحدیث: ۴۹۹۵، کتاب الإیمان و شرائعہ،باب صفۃ المؤمن، ط: دیوبند)

ولواقتدیٰ خارج المسجد بإمام في المسجد إن کانت الصفوف متصلۃ جاز وإلافلا لأن ذلک الموضع بحکم اتصال الصفوف یلتحق بالمسجد الخ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، باب تقدم الإمام علی الماموم، ۱/۳۶۲)

المانع من الاقتداء ثلاثۃ اشیاء ( منہا ) طریق عام یمرفیہ العجلۃ والاوقارہکذافی شرح الطحاوی اذاکان بین الامام وبین المقتدی طریق ان کان ضیقا لایمرفیہ العجلۃ والاوقار لایمنع وان کان واسعا یمرفیہ العجلۃ والاوقاریمنع کذافی فتاوی قاضی خان۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱ ؍ ۸۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 شعبان المعظم 1440

ہفتہ، 27 اپریل، 2019

حفاظ کرام کی کثرت اور تراویح کے مسائل وحل

✍ محمد عامر عثمانی ملی
  (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! جیسا کہ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ شہرِ عزیز مالیگاؤں میں مکاتب و مدارس کا جال بچھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے حفاظ کی تعداد میں الحمدللہ دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، سینکڑوں کی تعداد میں ہر سال مکاتب ومدارس سے حفاظ کرام فراغت حاصل کررہے ہیں، جو ہمارے لیے بڑی سعادت اور فخر کی بات ہے لیکن اسی کے ساتھ اس بات کی فکر بھی ان حفاظ کے اساتذہ اور والدین کو دامن گیر ہے کہ ان بچوں کا حفظ کس طرح باقی رہے؟ کہیں قرآن کریم کی عدم مشغولی کی وجہ سے ان کا حفظ کمزور یا معاذاللہ ختم نہ ہوجائے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ضروری ہے کہ اس مسئلے پر خصوصی توجہ دی جائے اور اس کا کوئی مناسب حل تلاش کیا جائے تاکہ نئے حفاظ کرام کا قرآن یاد رہے اور وہ قرآن بھول کر کسی بھی قسم کی وعید کے مستحق نہ ہوں۔ اللھم احفظنا منہ۔ چنانچہ اس مضمون میں ہم ان مسائل کے آسان اور مؤثر حل پیش کریں گے۔

سب سے پہلا حل تو یہ ہے جو عموماً بیان کیا جاتا ہے کہ نئے حفاظ کرام تراویح سنانے کے بھروسے نہ رہیں بلکہ روزآنہ قرآن مجید پڑھنے کا معمول بنائیں، بلاشبہ حفاظ کرام کو روزآنہ قرآن مجید پڑھنے کا معمول بنانا چاہیے، لیکن ایسا کہنے والے سینئر حفاظ بعض تو وہ ہیں جو خود پینتیس، چالیس بلکہ پینتالیس سال سے جیسے تیسے تراویح سناکر ریکارڈ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، کیا یہ لوگ نئے حفاظ کے لیے اپنی جگہ نہیں چھوڑ سکتے؟ جس بات کا نئے حفاظ کو مشورہ دیا جارہا ہے خود اس پر عمل کرکے بتا دیا جائے تو ان شاء اللہ زیادہ بہتر اور مؤثر ثابت ہوگا۔ اگر یہ لوگ نئے حفاظ کے لیے اپنی جگہیں چھوڑ دیتے ہیں تو نئے حفاظ کی ایک بڑی تعداد کو مساجد میں تراویح سنانے کی سعادت مل سکتی ہے، معلوم ہوا کہ اس رائے پر غور کرنے اور مزید کوئی مؤثر حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں دوسرا حل یہ پیش کیا گیا ہے کہ ایک مسجد میں ایک سے زائد حافظ تراویح سنائیں، یہ حل بھی مفید ہے اور متعدد مساجد میں اس کے مطابق عمل بھی کیا جارہا ہے لیکن اب بھی بعض مساجد کے ذمہ داران یا ائمہ اسے پسند نہیں کررہے ہیں کہ وہاں ایک سے زائد امامِ تراویح ہو، لہٰذا بقیہ مساجد میں اس کی کوشش کی جائے کہ وہاں بھی دو تین حفاظ کرام مل کر تراویح سنائیں، ویسے حفاظ کرام کی کثرت کی وجہ سے یہ حل بھی دن بدن ناکافی ثابت ہوتا جارہا ہے، لیکن کسی حد تک فائدہ کی بہرحال امید ہے۔

تیسرا حل یہ ہے کہ نئے حفاظ جنہیں مسجد میں تراویح کے لیے جگہ نہ مل سکے وہ اپنے گھروں میں گھر کی خواتین کے ساتھ باجماعت نمازِ تراویح ادا کرلیں، اس پر بھی اگرچہ عمل ہورہا ہے لیکن ایسے افراد کی تعداد بہت معمولی ہے، جبکہ موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے دائرہ کو وسیع تر کیا جائے، کیونکہ یہ عمل مفید و مؤثر ثابت ہوسکتا ہے، اور بہت سی خواتین چونکہ تراویح سے متعلق غفلت کا شکار ہیں، جبکہ تراویح مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی سنت مؤکدہ ہے، لہٰذا اس کی برکت سے خواتین کا اس سنت پر عمل بھی ہوجائے گا۔ البتہ اس میں درج ذیل چند باتوں کا خیال رکھا جائے۔

مذکورہ طریقے پر تراویح کی جماعت کرنے میں سب سے مامون و محفوظ طریقہ یہ ہے کہ تراویح پڑھانے والے حفاظ ایک سے زائد ہوں اور وہ بالغ تو ہوں لیکن کم عمر ہی ہوں، اور بڑی عمر کے حفاظ اپنے گھر کی عورتوں کو تراویح پڑھائیں باہر کی نامحرم عورتیں اس میں شامل نہ ہوں، اور بہتر ہے کہ تراویح پڑھانے والے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھ کر آئیں ورنہ فرض نماز غیرمسجد میں پڑھنے کی وجہ سے مسجد کے ثواب سے محرومی ہوگی، تاہم عشاء کی نماز باجماعت وہیں گھر میں ادا کریں تب بھی نماز درست ہوجائے گی۔ نیز جس گھر میں تراویح ادا کی جائے بس اسی گھر کی پاس پڑوس کی عمردراز عورتیں تراویح کے لیے آئیں، دور دراز کی خواتین تراویح کے لیے گھر سے نہ نکلیں، بالخصوص نوجوان لڑکیاں، اپنے گھر میں ہی انفرادی طور پر تراویح ادا کریں تاکہ کسی بھی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ رہے۔ امام تراويح کے لیے عورتوں کی امامت کی نیت کرنا ضروری ہے۔ اگر امام تنہا ہو بقیہ سب عورتیں ہوں مقتدیوں میں مرد کوئی بھی نہ ہو تو امامت کی نیت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مقتدی عورتوں میں اس امام کی کوئی محرم رشتہ دار یا بیوی بھی شامل ہو ورنہ صرف غیرمحرم  خواتین کی  امامت کرنا مکروہ ہے۔

خواتین کی امامت خواتین کے حق میں بھی اگرچہ بعض فقہاء کے نزدیک مکروہ ہے، لیکن تراویح کے باب میں بعض علماء نے گنجائش لکھی ہے، چنانچہ صاحب کتاب النوازل حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں کہ اگر کوئی حافظہ عورت اپنا قرآن یاد کرنے کی غرض سے تراویح میں قرآنِ کریم سنائے تو اس کی گنجائش ہے، اس لئے کہ ام المؤمنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس صورت میں امامت کرنے والی خاتون صف کے بیچ میں کھڑی ہوگی مردوں کی طرح صف سے آگے نہیں بڑھے گی۔ (کتاب الآثار للامام محمدؒ ۱؍۲۰۳-۲۰۶، مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۴۰۳/بحوالہ کتاب المسائل)

واضح رہے کہ حفاظ کرام کا تراویح میں قرآن سنانا فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ عام لوگوں کی طرح ان پر بھی تراویح کی نماز ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، لیکن تجربات و مشاہدات اس پر دلالت کرتے ہیں کہ کماحقہ تراویح میں قرآن سنانے کی برکت سے قرآن کریم یاد رہتا ہے، چنانچہ یہی تجربات و مشاہدات اس تحریر کے وجود میں آنے کا سبب بنے ہیں، لہٰذا حفاظ کو تراویح میں قرآن مجید سنانے کی فکر کرنی چاہیے۔

اللہ تعالٰی حفاظ کرام پر اپنا خصوصی فضل و کرم نازل فرمائے تاکہ وہ سال بھر قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط رکھیں اور اپنے حفظ کو باقی رکھیں۔ آمین ثم آمین

بدھ، 24 اپریل، 2019

مغرب کی باجماعت نماز میں بہ نیتِ نفل شریک ہونا

*مغرب کی باجماعت نماز میں بہ نیتِ نفل شریک ہونا*

سوال :

حضرت مفتی صاحب!
مغرب کی تین رکعت فرض پڑھانے والے امام کے پیچھےنفل کی نیت کرکے اقتداء کرنا کیسا ہے؟
حوالہ بھی مطلوب ہے، جزاک اللہ خیرا
(المستفتی : اسعد احسنی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص ظہر اور عشاء میں جماعت سے پہلے فرض ادا کرلے یا کسی مسجد میں جلد نماز ادا کرنے کے بعد دوسری مسجد میں پہنچے تو وہ اس جماعت میں بہ نیت نفل شریک ہوسکتا ہے، لیکن فجر، عصر اور مغرب میں ایسا نہ کرے، فجر اور عصر میں تو اس لئے کہ ان کے بعد نفل نماز  مکروہ ہے۔ اور مغرب میں اس لئے کہ مغرب کی تین رکعت ہیں اگر یہ شریک ہوگا تو امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی صورت میں تین رکعت نفل ہونا لازم آئے گا جو کہ مشروع نہیں، اور امام کے بعد ایک رکعت اور پڑھنے کی صورت میں امام کی مخالفت لازم آئے گی، لہٰذا صورت مسئولہ میں مغرب کی نماز باجماعت میں نفل کی نیت سے شریک ہونا درست نہیں۔

عن عطاء بن یزید اللیثي أنہ سمع أبا سعید الخدري رضي اللہ عنہ یقول: قال رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ بعد صلاۃ العصر حتی تغرب الشمس ولا صلاۃ بعد صلاۃ الفجر حتی تطلع الشمس۔ (صحیح البخاري ۱؍۸۲، رقم: ۵۸۶)

وان قید الثالثۃ بسجدۃ لایقطع بل یتم صلاۃ لااستحکامہا بوجود الاکثر ویقتدی متنفلا ان کان فی الظہر او العشاء (الی قولہ) ان النہی عن النفل بعد الصبح والعصر وعدم شرعیۃ التنفل بالوتر ومخالفۃ الامام اللازم احدہما فی المغرب عارض اطلاقہ وموردہ فبقی فی الظہر والعشاء سالما عن المعارض فیعمل بہ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۱۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 شعبان المعظم 1440

منگل، 23 اپریل، 2019

بھاتی میں بچی ہوئی رقم کا کیا جائے؟

*بھاتی میں بچی ہوئی رقم کا کیا جائے؟*

سوال :

ہمارے یہاں جب کسی کاانتقال ہوتا ہے میت کے اقرباء کے لیے محلہ والےاور دیگر حضرات کھانے کا انتظام کرتے ہیں جسے ہمارے عرف میں بھاتی کہتے ہیں کبھی ایک شخص ہی اس کا انتظام کرتا ہے اور کبھی متعددشخص بھاتی کے لیے  پیسے جمع کرتے ہیں اس صورت میں بسا اوقات یہ رقم بچ جاتی ہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس بچی ہوئی رقم کا مصرف کیا ہے؟ کیا اسے مسجد ومدرسہ میں دیا جاسکتا ہے؟
(المستفتی : محمد معاذ، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے یہاں میت کے اہل خانہ کو کھانا دینے کے عام طور پر تین طریقے رائج ہیں، پہلا یہ کہ کوئی فرد واحد اہل خانہ کے ایک وقت کے کھانے کی ذمہ داری لے لیتا ہے، لہٰذا اس میں پیسے بچنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ میت کے گھر کے اطراف میں رہنے والے چند پڑوسی پیسے جمع کرکے اہل خانہ کے لیے کھانے کا انتظام کرتے ہیں، اس میں کبھی کبھار کچھ رقم بچ جاتی ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس رقم کو کسی ذمہ دار ساتھی کے پاس رکھ دیا جائے اور آئندہ مشورہ سے کسی کی بھاتی میں استعمال کرلیا جائے۔ تاہم اگر اس رقم کو مسجد یا مدرسہ میں دے دیا گیا تب بھی اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، اس لئے کہ یہ رقم عموماً بہت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بھاتی دینے والے افراد کی طرف سے صراحتاً یا پھر دلالۃً اس کی اجازت ہوتی ہے۔

تیسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دور دراز کے رشتہ دار دوست احباب مل کر بھاتی کا انتظام کرتے ہیں ایسی صورت میں جب کچھ رقم بچ جاتی ہے تو اس کا واپس کرنا بھی عموماً ممکن نہیں ہوتا، نیز بھاتی لکھانے والے افراد کی طرف سے اس کی صراحتاً یا پھر دلالۃً اجازت ہوتی ہے کہ اسے میت کے نام سے مسجد یا مدرسہ میں دے دیا جائے، چونکہ یہ رقم عطیہ ہی ہوتی ہے، لہٰذا اس رقم کا مسجد یا مدرسہ میں دینا جائز ہے۔

والإذن نوعان : صریح ودلالۃ ۔۔۔ وأما الدلالۃ فہي أن یقبض الموہوب لہ العین في المجلس ولا ینہاہ الواہب فیجوز قبضہ استحسانًا۔ (بدائع الصنائع، بیان شرائط صحۃ القبض، ۵؍۱۷۶-۱۷۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 شعبان المعظم 1440

سال کے درمیان میں مال نصاب سے کم ہوجائے

*سال کے درمیان مال نصاب سے کم ہوجائے*

سوال :

مفتی صاحب زید کے پاس ایک رمضان المبارک کو نصاب کے بقدر مال تھا لیکن درمیان سال یہ مال کم ہوگیا پھر دوسرے ایک رمضان کو نصاب کے بقدر مال ہوگیا تو کیا زید پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟
(المستفتی : محمد فہیم، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی کے پاس شروع اور اخیر میں نصاب کے بقدر مال تھا مگر درمیان سال میں اس کی مقدار کم رہی تب بھی پورے نصاب کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر زید کے پاس مثال کے طور پر یکم رمضان کو نصاب کے بقدر (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تھی، پھر درمیان میں اس میں کمی ہوگئی، لیکن رمضان کی ایک تاریخ کو دوبارہ اس کے پاس بقدر نصاب مال آگیا تو وہ صاحب نصاب ہے، لہٰذا اس وقت وہ اپنے کل مال کی ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرے گا، البتہ اگر درمیان میں سارا مال ختم ہوجائے تو اس صورت میں زید پر زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔

وفی عروض التجارۃ والدراھم والدنانیر نقصان النصاب فی اثناء الحول لایمنع وجوب الزکوۃ بلا خلاف وفی السراجیۃ وان عاد الی شیٔ قلیل،… ولو کان النصاب کاملا فی اول الحول وکاملا فی آخر الحول وفیما بینھما ھلک کلہ ولم یبق منہ شیٔ لاتجب الزکاۃ۔ وفی السغنا قی بالاتفاق۔ (فتاوی تاتارخانیۃ، ۲۵۲،۲۵۱/۲/بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 شعبان المعظم 1440