ہفتہ، 30 اپریل، 2022

نماز عیدالفطر سے پہلے کچھ میٹھا کھانا

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب ! تحقیق اس امر کی مطلوب ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز عید الفطر کے لئے جانے سے پہلے کچھ میٹھا تناول فرماتے تھے؟ یا آپ نے کبھی تناول فرمایا ہے؟ جیسا کہ عیدالفطر کے دن مسنون اعمال میں ظاہر ہوتا ہے۔ ازراہ کرم مدلل جواب سے نوازیں۔
(المستفتی : محمد طلحہ، جلگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھجوریں تناول فرمائے بغیر عیدگاہ تشریف نہیں لے جاتے تھے اور کھجوریں طاق عدد میں تناول فرماتے تھے۔

اس حدیث شریف کی تشریح میں شارحین حدیث نے جو کچھ لکھا ہے ہم اسے یہاں نقل کررہے ہیں تاکہ اس سلسلے میں آپ کو مکمل تشفی ہوجائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عید کے روز عیدگاہ جانے سے پہلے کھجوریں تناول فرما کر گویا کھانے میں جلدی کرتے تھے تاکہ پہلے دنوں یعنی ایام رمضان میں امتیاز پیدا ہو جائے کیونکہ جس طرح رمضان میں نہ کھانا واجب ہے اسی طرح عید کے روز کھانا واجب ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھجوریں طاق یعنی تین، پانچ، سات یا اس سے کم اور زیادہ تناول فرماتے تھے چونکہ ہر کام میں "طاق" کی رعایت رکھنا بہتر ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس معاملہ میں بھی طاق کا لحاظ فرماتے تھے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اِنَّ اللہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْر یعنی اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے۔

عید کے روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھجوریں اس لئے تناول فرماتے تھے کہ وہی اس وقت موجود ہوتی تھیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ کھجوریں کھانے میں حکمت یہ تھی کہ وہ شیریں ہوتی ہے اور شیرینی تقویت بصر کا ذریعہ بنتی ہے خاص طور پر خالی معدہ کے وقت تو نگاہوں کی تقویت کے لئے یہ بڑی زود اثر ہوتی ہے۔ لہٰذا روزوں کی وجہ سے جو ضعف ہوجاتا تھا کھجوریں اپنے اثرات سے اسے ختم کرتی تھیں۔ پھر یہ کہ شیرینی مقتضاء ایمان کے موافق ہے۔

خلاصہ یہ کہ عید الفطر میں عیدگاہ جانے سے پہلے طاق عدد میں چھوارے یا کھجور کھاکر جانا مسنون و مستحب ہے، اگر یہ میسر نہ ہو تو کوئی بھی میٹھی چیز کھالینا کافی ہے، اس موقع پر صرف کھجور یا چھوہارہ ہی کھانا سنت نہیں۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ، وَقَالَ مُرَجَّأُ بْنُ رَجَاءٍ : حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٩٥٣)

(قَوْلُهُ وَنُدِبَ يَوْمَ الْفِطْرِ أَنْ يَطْعَمَ وَيَغْتَسِلَ وَيَسْتَاكَ وَيَتَطَيَّبَ وَيَلْبَسَ أَحْسَنَ ثِيَابِهِ) اقْتِدَاءً بِالنَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَيُسْتَحَبُّ كَوْنُ ذَلِكَ الْمَطْعُومِ حُلْوًا لِمَا رَوَى الْبُخَارِيُّ «كَانَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ وَيَأْكُلَهُنَّ وِتْرًا» وَأَمَّا مَا يَفْعَلُهُ النَّاسُ فِي زَمَانِنَا مِنْ جَمْعِ التَّمْرِ مَعَ اللَّبَنِ وَالْفِطْرِ عَلَيْهِ فَلَيْسَ لَهُ أَصْلٌ فِي السُّنَّةِ۔ (البحر الرائق : ٢/١٧١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 رمضان المبارک 1443

جمعرات، 28 اپریل، 2022

کیا طاق رات کی شبِ جمعہ شب قدر ہوتی ہے؟

سوال :

مفتی صاحب درج ذیل پوسٹ کی تحقیق مطلوب ہے؟
علامہ رجب حنبلیؒ اپنی کتاب لطائف المعارف میں لکھتے ہیں جب جمعہ کی رات طاق رات سے آملے تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہی شب قدر ہے۔ اور علامہ ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں جب جمعہ کی رات آخری عشرہ کی طاق رات سے ملے تو یہ رات لائق ہے کہ اسے شب قدر کا درجہ ملے۔
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ارسال کردہ تحریر میں ابن ھبیرہ کا قول درست ہے، درست کا مطلب یہ ہے کہ انہوں یہ بات کہی ہے۔ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کئے گئے قول کی علماء نے تردید کی ہے کہ یہ ان کا قول نہیں ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رہے کہ ان اقوال کی حیثیت صرف اندازہ اور گمان کی ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ شب قدر کے متعلق احادیث میں جو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے اخیر عشرہ میں تلاش کیا جائے اور اس سے زیادہ یہ کہ شب قدر طاق راتوں میں ہوتی ہے، اس کے آگے کے اقوال بزرگان دین کے جو ملتے ہیں وہ صرف اندازے اور ان کے تجربات ہوتے ہیں، شب قدر کو بالکل متعین کرکے کسی نے بھی نہیں کہا ہے۔ لہٰذا اس رات کو رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں تلاش کریں، اور دیگر اقوال کو لے کر تشویش میں مبتلا نہ ہوں۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٢٠١٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 رمضان المبارک 1443

جمعہ، 22 اپریل، 2022

اذان کا لاؤڈ-اسپیکر بیان ودعا کے لیے استعمال کرنا

سوال :

مفتی صاحب! جمعہ کے بیان کے لیے یا مسجد میں کسی دینی مجلس کے پروگرام کے لیے اور یا تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر دعا کے لیے مسجد کا اوپر کا اذان والا مائیک استعمال کرسکتے ہیں؟ اگر کر سکتے ہیں تو کس صورت میں؟ کیا اذان کے علاوہ اوپر والا مائیک کسی بیان دعا کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟ کچھ مسجدوں میں بڑے شوق سے اور بڑی فکروں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ابراہیم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مساجد میں اذان کے لیے استعمال ہونے والا لاؤڈ-اسپیکر صرف اذان کے لیے ہی استعمال ہونا چاہیے۔ جمعہ وغیرہ کے مواقع پر بیانات یا تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر دعا کے لیے اس کا استعمال کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کی تیز آواز سے مریضوں یا سونے والوں کو تکلیف ہوگی اور انفرادی عبادت کرنے والوں کو خلل ہوگا جو بلاشبہ ایذائے مسلم میں داخل ہے۔

اس معاملہ کی سنگینی کا اندازہ لگائیں کہ اگر اذان کے لاؤڈ-اسپیکر سے جمعہ کے دن تقرير کی اجازت دے دی جائے تو کیا منظر ہوگا شہر کا؟ بیک وقت تین چار سو مساجد سے بھانت بھانت کی تقریروں کی آواز آئے گی، کیا یہ چیز لوگوں کے لیے سخت تکلیف کا باعث نہیں بنے گی؟

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
باہر کا لاوٴڈ اسپیکر جو صرف اذان کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسے جمعہ کے دن خطبہ عربی کے لیے یا نماز پڑھانے یا نماز کی قراءة سننے کے لیے یا بیان کے لیے کھولنا جائز نہیں۔ اس سے محلہ پڑوس والوں کی نماز، تلاوت، تسبیحات، اوراد وظائف میں خلل واقع ہوگا۔ بیماروں کے آرام وسکون میں اور برادران وطن کی نیند میں اور ان کے آرام میں خلل ہوگا۔ باہر کے لاوٴڈاسپیکر کو صرف اذان کے استعمال میں لانا چاہیے۔ (رقم الفتوی : 24602)

اگر یہ بیانات اور دعا گھروں میں موجود خواتین کو سناکر ان کی اصلاح مقصود ہو تب بھی یہ عمل شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان کی اصلاح کے دوسرے مؤثر ذرائع موجود ہیں مثلاً ان کا ہفتہ واری اجتماع منعقد کیا جائے اور اس میں اصلاحی خطاب کیا جائے۔ اذان کے لاؤڈ-اسپیکر سے سوائے اذان کے اور کوئی چیز قطعاً شروع نہ کی جائے، لہٰذا جو لوگ اس کا شوق اور فکر رکھتے ہیں انہیں شریعت کے اس حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرلینا چاہیے۔


عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي، رقم : ۴۹۹۵)

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ۔ (شامی : ۱؍۶۶۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1443

جمعرات، 21 اپریل، 2022

اذان عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں دینا

سوال :

اذان عربی زبان کے علاوہ دیگر علاقائی زبانوں میں بھی دی جا سکتی ہے تاکہ مسلم و غیر مسلم عوام تک اس کے پیغام اور مقصد کو آسانی سے پہنچایا جا سکے؟
(المستفتی : فہیم ابراہیم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اذان اسلام کا اہم ترین شعار ہے، عبادت اور سنت ہے۔ اس کا طریقہ اور زبان خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے۔ لہٰذا اس کے الفاظ میں کمی بیشی کرنا یا اسے عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں دینا بالکل بھی درست نہیں ہے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے متعدد عجمی ملکوں کو فتح کیا اور وہاں گئے لیکن کہیں بھی عربی زبان کے علاوہ علاقائی زبان میں اذان دینا (خواہ غیر عربی مسلمانوں کو یا غیرمسلموں کو اذان کا پیغام پہنچانے کے لیے ہو) ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا اذان کا جو طریقہ شروع سے چلا آرہا ہے اسی پر عمل ہونا چاہیے۔ مسلمانوں اور غیرمسلموں کو اسلام اور اذان کا پیغام پہنچانے کے بہت سے مواقع ہیں، وہاں کوشش کرنا چاہیے۔

أنَّ الأذانَ شِعارُ الإسْلامِ۔ (فتح الباری : ٢/٩٠)

لِأنَّ الأذانَ مِن أعْلامِ الدِّينِ۔ (فتح القدیر : ١/٢٤٠)

قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ قَالَ لَمَّا أَجْمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَضْرِبَ بِالنَّاقُوسِ يَجْمَعُ لِلصَّلَاةِ النَّاسَ وَهُوَ لَهُ كَارِهٌ لِمُوَافَقَتِهِ النَّصَارَى طَافَ بِي مِنْ اللَّيْلِ طَائِفٌ وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ وَفِي يَدِهِ نَاقُوسٌ يَحْمِلُهُ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ قَالَ وَمَا تَصْنَعُ بِهِ قُلْتُ نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ قَالَ أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ قَالَ فَقُلْتُ بَلَى قَالَ تَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ ثُمَّ اسْتَأْخَرْتُ غَيْرَ بَعِيدٍ قَالَ ثُمَّ تَقُولُ إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَمَرَ بِالتَّأْذِينِ فَكَانَ بِلَالٌ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ يُؤَذِّنُ بِذَلِكَ وَيَدْعُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ قَالَ فَجَاءَهُ فَدَعَاهُ ذَاتَ غَدَاةٍ إِلَى الْفَجْرِ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمٌ قَالَ فَصَرَخَ بِلَالٌ بِأَعْلَى صَوْتِهِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ فَأُدْخِلَتْ هَذِهِ الْكَلِمَةُ فِي التَّأْذِينِ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ۔ (مسند احمد)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 رمضان المبارک 1443

بدھ، 20 اپریل، 2022

شب قدر کے چندہ کی شرعی حیثیت

سوال :

مفتی صاحب شب قدر کے چندے کے متعلق مسجد کے ذمہ داران نے فیصلہ لیا کہ انفرادی طور پر محلے میں گشت کرکے چندے کی وصولی کی جائے۔ اس  طرح شب قدر کے چندے کی رقومات سے ختم قرآن کے روز امام مسجد، مؤذن اور حافظ صاحب کو نذرانہ پیش کیا جائے۔ مسجد میں ایک شخص نے شب قدر کے چندے کے بارے میں اعتراض کیا کہ اس طرح کا عمل خلافِ شریعت ہے، آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : مختار احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے یہاں عُرف میں شب قدر کا چندہ اسے کہا جاتا جو رمضان المبارک میں امام، مؤذن اور امام تراویح کو نذرانہ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اور بعض مساجد میں ختم قرآن کے وقت شیرینی کا نظم بھی اسی چندہ سے کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال نامہ میں مذکور طریقہ پر شب قدر کا چندہ جمع کرنا بے غیرتی اور عار کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی مسجدوں میں شب قدر کے نام سے اس طرح چندہ کرنا بند کردیا ہے۔ لہٰذا ذمہ داران کو یہ طریقہ بند کردینا چاہیے۔ ہر مصلی کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر امام، مؤذن اور حافظ صاحبان کی بقدر استطاعت خدمت کرنا چاہیے، یا پھر متولیان کو بغیر کسی شور شرابہ کے خصوصی چندہ کرنا چاہیے جس میں برضا ورغبت چندہ کا لین دین ہو کسی پر کوئی زور زبردستی نہ ہو۔ اور شیرینی کے لیے کوئی چندہ ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ کوئی دین دار اور حلال آمدنی والا مصلی خود اپنی مرضی اور خوشی سے شیرینی کا نظم کرلے تو ٹھیک ہے، ورنہ شیرینی کا نظم کرنے کے لیے چندہ کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔

عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال : لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ۲۷۶۲)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا , وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ۔ (صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب : 101)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 رمضان المبارک 1443

منگل، 19 اپریل، 2022

رمضان میں دن میں حیض یا نفاس سے پاک ہوئی؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے ہندہ رمضان المبارک میں دن حیض سے پاک ہوئی تو اب وہ کیا کرے؟ بقیہ دن کس طرح گزارے گی؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عتیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر حیض یا نفاس والی عورت رمضان المبارک میں صبح صادق کے بعد پاک ہوئی ہے تو اب اس کے لیے غروب آفتاب تک کھانا پینا درست نہ ہوگا، بلکہ اس کے لیے روزہ داروں کی طرح رہنا ضروری ہوگا، اور یہ بھوکا پیاسا رہنا رمضان المبارک کے احترام اور صائمین سے تشبہ (روزہ داروں کی مشابہت) کی وجہ سے ہوگا۔ لیکن اس طرح رہنے کو روزہ نہیں کہا جائے گا، لہٰذا بعد میں اس روزے کی قضا لازم ہوگی۔

"يجب" على الصحيح وقيل يستحب "الإمساك بقية اليوم على من فسد صومه ولو بعذر ثم زال "وعلى حائض ونفساء طهرتا بعد طلوع الفجر۔ (مراقی الفلاح : ٢٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رمضان المبارک 1443

اتوار، 17 اپریل، 2022

رمضان المبارک میں فجر اول وقت میں ادا کرنا

سوال :

مفتی صاحب امید کہ بخیر ہوں گے۔ رہنمائی فرمائیں کہ عام دنوں میں یعنی رمضان المبارک کے علاوہ ہم نمازِ فجر اتنی تاخیر سے ادا کرتے ہیں کہ اُجالا پھیلنے لگتا ہے لیکن رمضان المبارک میں اتنی عجلت کیوں؟ نیز رمضان المبارک میں جلدی پڑھنے کی اور عام دنوں میں تاخیر سے پڑھنے کیا حکمت ہے؟ اس پر بھی روشنی ڈالیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
(المستفتی : مولوی نفیس، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے طلوع آفتاب تک رہتا ہے۔ فجر کی نماز اِسفار کرکے یعنی کچھ اجالے میں پڑھنا مستحب ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ فجر کی نماز اجالے میں پڑھو کیونکہ اجالے میں نماز پڑھنے میں اجر زیادہ ہے۔ البتہ اتنی تاخیر نہ ہو کہ نماز فاسد ہونے کی صورت میں مسنون طریقے پر نماز دوہرانے کی گنجائش نہ رہے۔ لہٰذا طلوع آفتاب سے کم ازکم ٢٥/ ٣٠ منٹ پہلے فجر کی جماعت کا وقت ہونا چاہیے۔

رمضان المبارک میں چونکہ لوگ سحری کے لیے جلد نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں، اس لیے جماعت کا وقت پہلے رکھ دیا جاتا ہے تاکہ سب لوگ سحری سے فارغ ہوکر جماعت میں شامل ہوجائیں اور جماعت بڑی ہو، تاخیر کی صورت میں اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگ سوجائیں گے اور جماعت سے محروم رہ جائیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
فجر کی نماز رمضان میں اول وقت میں اس لیے پڑھی جاتی ہے کہ لوگ سحری کے لیے اٹھتے ہیں، پھر سحری کھاکر سوجائیں تو فجر کی نماز قضا ہوجائے گی، اس لیے اول وقت میں پڑھ لیتے ہیں کہ نماز کے بعد پھر اطمینان سے اپنی نیند پوری کرسکتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 41427)

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات کی روشنی میں آپ اس عمل کی حکمت ومصلحت سے واقف ہوگئے ہوں گے۔ نیز آپ کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ فجر کی نماز اول وقت میں پڑھنا اور کچھ تاخیر سے پڑھنا صرف افضل اور غیر افضل کا مسئلہ ہے، جائز اور ناجائز کا مسئلہ نہیں ہے۔ لہٰذا رمضان المبارک میں مصلیان کی رعایت میں جلد نماز فجر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٥٤)

أول وقت الفجر إذا طلع الفجر الثانی وہو المعترض فی الأفق وآخر وقتہا ما لم تطلع الشمس ۔ (ہدایۃ : ۱؍۸۰)

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُمْ تَسَحَّرُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ، قُلْتُ : كَمْ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ : قَدْرُ خَمْسِينَ أَوْ سِتِّينَ، يَعْنِي آيَةً۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٧٥)

فلو اجتمع الناس اليوم أيضاً في التغليس لقلنا به أيضاً، كما في «مبسوط السرخسي» في باب التيمم: أنه يستحب التغليس في الفجر، والتعجيل في الظهر إذا اجتمع الناس۔ (فيض الباري على صحيح البخاري  : ٢/١٧٧)

قوله : (كنت أتسحر في أهلي، ثم يكون سرعة بي أن أدرك صلاة الفجر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم) ولعل هذا التغليس كان في رمضان خاصةً، وهكذا ينبغي عندنا إذا اجتمع الناس، وعليه العمل في دار العلوم بديوبند من عهد الأكابر۔ (فيض الباري على صحيح البخاري : ٢/١٧٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رمضان المبارک 1443

منگل، 12 اپریل، 2022

تراویح کی نیت کا مسئلہ

سوال :

مفتی صاحب تراویح کی نیت کس طرح کرنا درست ہے؟ 2 2 رکعت پر یا پھر پوری 20 رکعت کی نیت کر لینا درست ہے؟ اگر دو تین امام تراویح پڑھائیں تو نیت کس طرح کریں؟ اور نمازِ تروایح نفل،سنت مؤکدہ یا واجب ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : کاشف انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کے لیے نیت کرنا ضروری ہے اور نیت دراصل دل کے ارادے کا نام ہے، لہٰذا دل میں ارادہ ہوجائے تو یہی نماز کے لیے کافی ہوجائے گا۔ زبان سے نیت کرنا اگرچہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، لیکن ناجائز اور بدعت بھی نہیں ہے، عوام الناس کے قلب و ذہن کو حاضر اور یکسو کرنے کے لئے فقہاء نے نیت کے الفاظ کو زبان سے کہنے کو بہتر لکھا ہے، تاہم زبان سے نیت کے الفاظ کہنے کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔

بلاشبہ نیت سے متعلق عوام کا ایک بڑا طبقہ غلط فہمیوں کا شکار ہے، اور زبان سے نیت کرنے کو ایک مشکل اور گھمبیر مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ نیت کے طول طویل الفاظ ادا کرنے میں تکبیرِ اُولیٰ بلکہ رکعت تک فوت کردیتے ہیں جو بالکل بھی درست نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی اصلاح ضروری ہے۔

معلوم ہونا چاہیے اگر زبان سے نیت کے الفاظ ادا کیے جارہے ہیں تو اصل نیت کے الفاظ بالکل مختصر ہیں، لہٰذا تراویح کی نیت ایک ساتھ بیس رکعت کی بھی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً اس طرح کہہ لینا کہ "بیس رکعت تراویح امام کے پیچھے ادا کرتا ہوں"۔ اس سے زیادہ کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔ اب تراویح میں چند رکعتوں کے بعد امام تبدیل ہو تب بھی نیت پر کوئی اثر نہیں ہوگا، اس لیے کہ نیت مطلق امام کی اقتداء کی جاتی ہے نہ کہ مخصوص امام کی اقتداء کی نیت کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہاں تردد میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یا ہر دو رکعت پر اس طرح کہنا کہ "دو رکعت تراویح امام کے پیچھے ادا کرتا ہوں" کافی ہے۔ اور تراويح سنت مؤکدہ ہے، لیکن نیت میں یہ بھی بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر کسی نے تراویح کی نیت کرنے میں اسے واجب یا نفل کہہ دیا تب بھی تراویح ادا ہوجائے گی۔

(وَ) الْخَامِسُ : (النِّيَّةُ) بِالْإِجْمَاعِ (وَهِيَ الْإِرَادَةُ) الْمُرَجِّحَةُ لِأَحَدِ الْمُتَسَاوِيَيْنِ أَيْ إرَادَةُ الصَّلَاةِ لِلّٰہِ تَعَالَى عَلَى الْخُلُوصِ، (لَا) مُطْلَقُ (الْعِلْمِ) فِي الْأَصَحِّ، أَلَا تَرَى أَنَّ مَنْ عَلِمَ الْكُفْرَ لَا يَكْفُرُ، وَلَوْ نَوَاهُ يَكْفُرُ، (وَالْمُعْتَبَرُ فِيهَا عَمَلُ الْقَلْبِ اللَّازِمِ لِلْإِرَادَةِ) فَلَا عِبْرَةَ لِلذِّكْرِ بِاللِّسَانِ إنْ خَالَفَ الْقَلْبَ؛ لِأَنَّهُ كَلَامٌ لَا نِيَّةَ إلَّا إذَا عَجَزَ عَنْ إحْضَارِهِ لِهُمُومٍ أَصَابَتْهُ فَيَكْفِيهِ اللِّسَانُ، «مُجْتَبَى»، (وَهُوَ) أَيْ عَمَلُ الْقَلْبِ (أَنْ يَعْلَمَ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بَدَاهَةً) بِلَا تَأَمُّلٍ (أَيَّ صَلَاةٍ يُصَلِّي)، فَلَوْ لَمْ يَعْلَمْ إلَّا بِتَأَمُّلٍ لَمْ يَجُزْ. (وَالتَّلَفُّظُ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بِهَا مُسْتَحَبٌّ) هُوَ الْمُخْتَارُ، وَتَكُونُ بِلَفْظِ الْمَاضِي وَلَوْ فَارِسِيًّا؛ لِأَنَّهُ الْأَغْلَبُ فِي الْإِنْشَاءَاتِ، وَتَصِحُّ بِالْحَالِ، «قُهُسْتَانِيٌّ»، (وَقِيلَ: سُنَّةٌ) يَعْنِي أَحَبَّهُ السَّلَفُ أَوْ سَنَّهُ عُلَمَاؤُنَا؛ إذْ لَمْ يُنْقَلْ عَن الْمُصْطَفَى ﷺ وَلَا الصَّحَابَةِ وَلَا التَّابِعِينَ، بَلْ قِيلَ : بِدْعَةٌ۔ (الدر مع الشامی : ١١٦- ١/١١٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 رمضان المبارک 1443