✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور )
قارئین کرام ! گذشتہ تقریباً دو سال کے عرصہ سے یہ سوال بڑی کثرت سے آرہا ہے کہ مسجد حرام میں مطاف میں اترنے کے لئے سعودی حکومت کی طرف سے یہ پابندی ہے کہ صرف احرام والوں کو نیچے مطاف میں اتر کر عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔ بغیر احرام کے یعنی عام لباس میں مطاف کے گراؤنڈ میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ جبکہ اگر نفل طواف سادہ کپڑوں میں کرنا ہو تو اوپر والے منزلہ سے کرنا پڑتا ہے۔ جس میں بہت زیادہ وقت لگنے کے ساتھ ساتھ بہت لمبا چکر لگانا پڑتا ہے۔ جوکہ بہت زیادہ باعث مشقت ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی شخص کعبہ کے قریب جاکر نفل طواف کرنے کی غرض سے بغیر عمرہ کی نیت کئے صرف احرام کے چادر اوڑھ کر محرمین کی شکل و صورت اپنائے اور ان کے ساتھ مطاف میں اتر جائے تو از روئے شریعت اس کا یہ عمل جائز ہوگا یا نہیں؟ اس طرح کرنا دھوکہ دہی میں شامل ہے یا نہیں؟
بہت سارے دارالافتاء نے اس کے نادرست ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ مثلاً دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن نے جواب میں لکھا ہے کہ :
صورتِ مسئولہ میں جب حکومت کی طرف سے صرف احرام والے حضرات کو بیت اللہ کے قریب طواف کرنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ لوگوں کو بیت اللہ کے قریب نفلی طواف کرنے کی اجازت نہیں ،تو صرف اس وجہ سے بغیر نیتِ احرام کے چادریں پہننا کہ بیت اللہ کے قریب نفلی طواف کرسکوں، خلافِ واقع اور حقیقت کے برخلاف ہے۔ لہٰذا اس عمل سے اجتناب کیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص صرف احرام کی چادر پہن کر طواف کرے گا تو طواف ہوجائے گا۔ (رقم الفتوی : 144402101190)
لیکن کسی نے بھی جواب دیتے ہوئے یا سوال کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ آخر یہ پابندی کیوں ہے؟ کیا تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے؟ یا وبائی امراض کی وجہ سے؟ یا اور کچھ؟ اور پھر یہ پابندی بھی صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ہے۔ اگر یہ پابندی تعداد کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہے تو یہ کوئی خاص عذر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے احرام کو مطاف کے لئے لازم قرار دیا جائے، کیونکہ سعودی پولیس بھیڑ ہونے پر ایسے بھی مسجد الحرام ہی میں سرے سے داخلہ بند کر دیتی ہے، اور بھیڑ کو قابو کرتی ہے، ماضی میں بھی پچیس لاکھ لوگ حج کرتے رہے ہیں، اس کے باوجود ایسی کوئی پابندی نہیں تھی، پھر یہ پابندی صرف حج میں نہیں اب تو عام دنوں میں بھی لگائی جارہی ہے جس کی کوئی جائز وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
اس پابندی کا کورونا سے یا وبائی امراض سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ یہ مانتے ہیں کہ سعودی حکومت حج اور عمرے کو اب بزنس بنارہی ہے اور پیٹرول پر سے انحصار ختم کر رہی ہے، اس لئے وہ مطاف میں صرف عمرے والوں کو اترنے دے رہی ہے، آئندہ آنے والے دنوں میں یہ خدشہ ہے کہ ریاض الجنة کی طرح ایک سفر میں بس ایک عمرے کی اجازت وہ بھی ایپ کے ذریعے دی جائے گی، اور یہ اسی کے لئے ذہنی طور پر حجاج کو تیار کیا جارہا ہے۔ اور یہ سب اس لئے کہ عمرے کرنے والے کم سے کم دن رکیں اور اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بلاکر پیسہ کمایا جائے، کیونکہ لاک ڈاؤن نے سعودی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ بہت سارے علماء کرام کا ماننا یہ ہے کہ مطاف طواف کرنے والوں کے لئے خاص ہے، طواف چاہے نفل ہو یا عمرے کا، سعودی حکومت متولی ہے اس کو یہ حق نہیں ہے کہ مطاف سے طواف کرنے والوں کو روکے، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی مسجد کا متولی یہ پابندی لگادے کہ مسجد میں صرف فرض نماز کی اجازت ہے، سنت نفل اپنے گھر میں پڑھیں، ظاہر ہے ایسی پابندی لگانا درست نہیں ہے اور متولی کو اس کا کوئی حق نہیں ہے، اور نماز تو کہیں بھی ادا ہوجاتی ہے، مگر طواف تو صرف مسجد الحرام میں ہی ہوسکتا ہے، نفل طواف کے لئے مطاف کو بند کرنے کی کوئی شرعی دلیل سعودی حکومت کے پاس شاید نہیں ہے، اگر کوئی شرعی دلیل ہے تو سعودی حکومت کو چاہیے کہ اسے امت مسلمہ کے سامنے پیش کرے، بیت اللہ پر پوری امت کا حق ہے، لہٰذا امت کو واقف کرانا چاہیے۔
اگر سعودی حکومت کے اس قانون پر عمل کیا جائے تو گویا حجرِ اسود کے بوسہ کا عمل ہی گویا بالکل ختم ہوجائے گا، کیونکہ حج یا عمرہ کے احرام میں حجر اسود کا بوسہ لینا اس پر خوشبو لگی ہونے کی وجہ سے منع ہے، اور نفلی طواف میں ہم مطاف میں جا ہی نہیں سکتے تو کہاں سے بوسہ لیں گے؟
بہرحال آپ کے مسئلے میں ایک صورت پیش کرتا ہوں جس میں دھوکہ کا بھی اندیشہ نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ : جب عمرہ کریں تو عمرے کے طواف اور واجب الطواف کے بعد جتنا طواف کرنا چاہیں، کرلیں، ہر ایک کے بعد واجب الطواف پڑھ لیں اگر مکروہ وقت نہیں ہے تو، پھر آخر میں عمرہ کی سعی کر کے بال بنواکر احرام سے نکل جائیں، کیونکہ عمرہ کے طواف و سعی کے درمیان اتصال ضروری نہیں ہے بلکہ سنت ہے، بہتر ہے کہ طواف کے فوراً بعد سعی کرلی جائے، لیکن اگر مذکورہ عذر کی وجہ سے سعی کو مؤخر کیا تو کوئی حرج نہیں اور نہ ہی کوئی جزا لازم ہوگی۔
تاہم اگر کوئی نفلی طواف کرنے کے لیے احرام پہن لے اور مطاف چلا جائے تو مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر اس کی گنجائش ہوگی، ہاں اگر وہاں کوئی اس سے پوچھے کہ نفلی طواف کررہے ہیں یا عمرہ؟ تو جو بات صحیح ہو وہی کہے۔
واما السنۃ فمنھا ان یوالی بین الطواف والسعی فلو فصل بینھما بوقت ولو طویلا فقد ترک السنۃ ولیس علیہ جزاء۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ : ١/٤٥٩)
نوٹ : اس مضمون میں استاذ محترم قاضی شریعت حضرت مولانا مفتی حسنین محفوظ صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے تبصروں کو بڑی تعداد میں شامل کیا گیا ہے اور حضرت مفتی صاحب کی تائید سے اس کو شائع کیا جارہا ہے۔