منگل، 30 اپریل، 2024

احرام پہن کر نفلی طواف مطاف سے کرنا



✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
              (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! گذشتہ تقریباً دو سال کے عرصہ سے یہ سوال بڑی کثرت سے آرہا ہے کہ مسجد حرام میں مطاف میں اترنے کے لئے سعودی حکومت کی طرف سے یہ پابندی ہے کہ صرف احرام والوں کو نیچے مطاف میں اتر کر عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔ بغیر احرام کے یعنی عام لباس میں مطاف کے گراؤنڈ میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ جبکہ اگر نفل طواف سادہ کپڑوں میں کرنا ہو تو اوپر والے منزلہ سے کرنا پڑتا ہے۔ جس میں بہت زیادہ وقت لگنے کے ساتھ ساتھ بہت لمبا چکر لگانا پڑتا ہے۔ جوکہ بہت زیادہ باعث مشقت ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی شخص کعبہ کے قریب جاکر نفل طواف کرنے کی غرض سے بغیر عمرہ کی نیت کئے صرف احرام کے چادر اوڑھ کر محرمین کی شکل و صورت اپنائے اور ان کے ساتھ مطاف میں اتر جائے تو از روئے شریعت اس کا یہ عمل جائز ہوگا یا نہیں؟ اس طرح کرنا دھوکہ دہی میں شامل ہے یا نہیں؟

بہت سارے دارالافتاء نے اس کے نادرست ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ مثلاً دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن نے جواب میں لکھا ہے کہ :
صورتِ مسئولہ میں جب حکومت کی طرف سے صرف احرام والے حضرات کو بیت اللہ کے قریب طواف کرنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ لوگوں  کو بیت اللہ کے قریب نفلی طواف کرنے کی اجازت نہیں ،تو صرف اس وجہ سے بغیر نیتِ احرام کے چادریں پہننا کہ بیت اللہ کے قریب  نفلی طواف کرسکوں، خلافِ واقع اور حقیقت کے برخلاف ہے۔ لہٰذا اس عمل سے اجتناب کیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص صرف احرام کی چادر پہن کر طواف کرے گا تو طواف ہوجائے گا۔ (رقم الفتوی : 144402101190)

لیکن کسی نے بھی جواب دیتے ہوئے یا سوال کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ آخر یہ پابندی کیوں ہے؟ کیا تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے؟ یا وبائی امراض کی وجہ سے؟ یا اور کچھ؟ اور پھر یہ پابندی بھی صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ہے۔ اگر یہ پابندی تعداد کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہے تو یہ کوئی خاص عذر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے احرام کو مطاف کے لئے لازم قرار دیا جائے، کیونکہ سعودی پولیس بھیڑ ہونے پر ایسے بھی مسجد الحرام ہی میں سرے سے داخلہ بند کر دیتی ہے، اور بھیڑ کو قابو کرتی ہے، ماضی میں بھی پچیس لاکھ لوگ حج کرتے رہے ہیں، اس کے باوجود ایسی کوئی پابندی نہیں تھی، پھر یہ پابندی صرف حج میں نہیں اب تو عام دنوں میں بھی لگائی جارہی ہے جس کی کوئی جائز وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

اس پابندی کا کورونا سے یا وبائی امراض سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ یہ مانتے ہیں کہ سعودی حکومت حج اور عمرے کو اب بزنس بنارہی ہے اور پیٹرول پر سے انحصار ختم کر رہی ہے، اس لئے وہ مطاف میں صرف عمرے والوں کو اترنے دے رہی ہے، آئندہ آنے والے دنوں میں یہ خدشہ ہے کہ ریاض الجنة کی طرح ایک سفر میں بس ایک عمرے کی اجازت وہ بھی ایپ کے ذریعے دی جائے گی، اور یہ اسی کے لئے ذہنی طور پر حجاج کو تیار کیا جارہا ہے۔ اور یہ سب اس لئے کہ عمرے کرنے والے کم سے کم دن رکیں اور اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بلاکر پیسہ کمایا جائے، کیونکہ لاک ڈاؤن نے سعودی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ بہت سارے علماء کرام کا ماننا یہ ہے کہ مطاف طواف کرنے والوں کے لئے خاص ہے، طواف چاہے نفل ہو یا عمرے کا، سعودی حکومت متولی ہے اس کو یہ حق نہیں ہے کہ مطاف سے طواف کرنے والوں کو روکے، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی مسجد کا متولی یہ پابندی لگادے کہ مسجد میں صرف فرض نماز کی اجازت ہے، سنت نفل اپنے گھر میں پڑھیں، ظاہر ہے ایسی پابندی لگانا درست نہیں ہے اور متولی کو اس کا کوئی حق نہیں ہے، اور نماز تو کہیں بھی ادا ہوجاتی ہے، مگر طواف تو صرف مسجد الحرام میں ہی ہوسکتا ہے، نفل طواف کے لئے مطاف کو بند کرنے کی کوئی شرعی دلیل سعودی حکومت کے پاس شاید نہیں ہے، اگر کوئی شرعی دلیل ہے تو سعودی حکومت کو چاہیے کہ اسے امت مسلمہ کے سامنے پیش کرے، بیت اللہ پر پوری امت کا حق ہے، لہٰذا امت کو واقف کرانا چاہیے۔

اگر سعودی حکومت کے اس قانون پر عمل کیا جائے تو گویا حجرِ اسود کے بوسہ کا عمل ہی گویا بالکل ختم ہوجائے گا، کیونکہ حج یا عمرہ کے احرام میں حجر اسود کا بوسہ لینا اس پر خوشبو لگی ہونے کی وجہ سے منع ہے، اور نفلی طواف میں ہم مطاف میں جا ہی نہیں سکتے تو کہاں سے بوسہ لیں گے؟

بہرحال آپ کے مسئلے میں ایک صورت پیش کرتا ہوں جس میں دھوکہ کا بھی اندیشہ نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ : جب عمرہ کریں تو عمرے کے طواف اور واجب الطواف کے بعد جتنا طواف کرنا چاہیں، کرلیں، ہر ایک کے بعد واجب الطواف پڑھ لیں اگر مکروہ وقت نہیں ہے تو، پھر آخر میں عمرہ کی سعی کر کے بال بنواکر احرام سے نکل جائیں، کیونکہ عمرہ کے طواف و سعی کے درمیان اتصال ضروری نہیں ہے بلکہ سنت ہے، بہتر ہے کہ طواف کے فوراً بعد سعی کرلی جائے، لیکن اگر مذکورہ عذر کی وجہ سے سعی کو مؤخر کیا تو کوئی حرج نہیں اور نہ ہی کوئی جزا لازم ہوگی۔

تاہم اگر کوئی نفلی طواف کرنے کے لیے احرام پہن لے اور مطاف چلا جائے تو مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر اس کی گنجائش ہوگی، ہاں اگر وہاں کوئی اس سے پوچھے کہ نفلی طواف کررہے ہیں یا عمرہ؟ تو جو بات صحیح ہو وہی کہے۔


واما السنۃ  فمنھا ان یوالی بین الطواف والسعی فلو فصل بینھما بوقت ولو طویلا فقد ترک السنۃ ولیس علیہ جزاء۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ : ١/٤٥٩)


نوٹ : اس مضمون میں استاذ محترم قاضی شریعت حضرت مولانا مفتی حسنین محفوظ صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے تبصروں کو بڑی تعداد میں شامل کیا گیا ہے اور حضرت مفتی صاحب کی تائید سے اس کو شائع کیا جارہا ہے۔ 

اتوار، 28 اپریل، 2024

قرآن مجید خریدتے وقت اس کی قیمت کم کروانا


سوال :

محترم مفتی صاحب  جب ہم دکاندار سے کوئی چیز خریدتے ہیں مثلا جوتا کپڑا چپل وغیرہ وغیرہ اور دکاندار سے ہم قیمت کم کرانے کا سوچتے ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک کو خریدنا اور اس پر قیمت کم کرانا اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس میں کوئی گناہ کی بات ہے یا دکاندار جتنا کہے اسے اتنی قیمت دے دینا چاہیے؟
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کے وقت سمجھداری سے کام لینا، تجربہ کار لوگوں کے مشورہ سے فائدہ اٹھانا تاکہ دھوکہ نہ کھائے، اور مول بھاؤ کرنا شریعت کے اصولوں سے ثابت اور شرعاً مطلوب ہے۔ لہٰذا قرآن مجید بھی خریدتے وقت اگر مول بھاؤ کیا جائے اور قیمت میں کچھ کمی کی بات کی جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جو لوگ اس وقت مول بھاؤ کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں، انہیں اپنی غلطی درست کرلینا چاہیے۔


قال : البيع ينعقد بالإيجاب والقبول إذا كانا بلفظي الماضي، مثل أن يقول أحدهما: بعت، والآخر: اشتريت؛ لأن البيع إنشاء تصرف، والإنشاء يعرف بالشرع والموضوع للإخبار قداستعمل فيه فينعقد به. ولاينعقد بلفظين أحدهما لفظ المستقبل والآخر لفظ الماضي، بخلاف النكاح، وقد مر الفرق هناك. وقوله: رضيت بكذا أو أعطيتك بكذا أو خذه بكذا، في معنى قوله: بعت واشتريت؛ لأنه يؤدي معناه، والمعنى هو المعتبر في هذه العقود، ولهذا ينعقد بالتعاطي في النفيس والخسيس هو الصحيح؛ لتحقق المراضاة۔ (ہدایہ : ٣/١٨)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
18 شوال المکرم 1445 


ہفتہ، 27 اپریل، 2024

سنت پڑھتے ہوئے امام سے آیتِ سجدہ سن لے؟


سوال :

زید مسجد میں فجر کی دو رکعت سنت پڑھ رہا تھا، اِسی دوران امام صاحب نے فجر کی پہلی رکعت میں سجدہ کی آیت کی تلاوت کر کے سجدہ کیا۔ اِس کے بعد زید نے اپنی سُنت کی نماز مکمل کی اور امام صاحب کی پہلی رکعت ہی میں شامل ہو گیا۔ تو کیا اُسے امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد سجدہ کرنا چاہئے تھا؟
(المستفتی : رئیس احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص سنت وغیرہ پڑھتے ہوئے امام سے آیتِ سجدہ سن لے تو وہ اپنی نماز میں سجدۂ تلاوت ادا نہیں کرے گا، بلکہ اگر وہ اپنی نماز مکمل کرنے کے امام کے ساتھ سجدے میں شامل ہوجائے یا امام کے سجدہ کرنے کے بعد اسی رکعت میں امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوگیا تو یہ سجدہ اس کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا۔ اور اس پر نماز کے بعد الگ سے سجدۂ تلاوت ادا کرنا ضروری نہیں۔

 ایک قول کے مطابق اگر وہ دوسری رکعت میں شامل ہو تب بھی اس پر الگ سے سجدۂ تلاوت ادا کرنا لازم نہیں۔ لیکن محتاط قول یہ ہے کہ دوسری رکعت میں شامل ہونے والا الگ سے سجدۂ تلاوت ادا کرلے۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ زید پہلی رکعت میں ہی شامل ہوگیا ہے، اس لیے اسے نماز مکمل کرنے کے بعد الگ سے سجدۂ تلاوت ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔


وَلَوْ سَمِعَهَا مِنْ الْإِمَامِ أَجْنَبِيٌّ لَيْسَ مَعَهُمْ فِي الصَّلَاةِ وَلَمْ يَدْخُلْ مَعَهُمْ فِي الصَّلَاةِ لَزِمَهُ السُّجُودُ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ، وَهُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ.

سَمِعَ مِنْ إمَامٍ فَدَخَلَ مَعَهُ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ سَجَدَ مَعَهُ وَإِنْ دَخَلَ فِي صَلَاةِ الْإِمَامِ بَعْدَمَا سَجَدَهَا الْإِمَامُ لَا يَسْجُدُهَا وَهَذَا إذَا أَدْرَكَهُ فِي آخِرِ تِلْكَ الرَّكْعَةِ أَمَّا لَوْ أَدْرَكَهُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى يَسْجُدُهَا بَعْدَ الْفَرَاغِ، كَذَا فِي الْكَافِي، وَهَكَذَا فِي النِّهَايَةِ.

(وَمَنْ سَمِعَہَا مِنْ إمَامٍ) وَلَوْ بِاقْتِدَائِہِ بِہِ (فَائْتَمَّ بِہِ قَبْلَ أَنْ یَسْجُدَ الْإِمَامُ لَہَا سَجَدَ مَعَہُ) وَلَوْ ائْتَمَّ (بَعْدَہُ لَا) یَسْجُدُ أَصْلًا کَذَا أَطْلَقَ فِی الْکَنْزِ تَبَعًا لِلْأَصْلِ (وَإِنْ لَمْ یَقْتَدِ بِہِ) أَصْلًا (سَجَدَہَا) وَکَذَا لَوْ اقْتَدَی بِہِ فِی رَکْعَةٍ أُخْرَی عَلَی مَا اخْتَارَہُ الْبَزْدَوِیُّ وَغَیْرُہُ وَہُوَ ظَاہِرُ الْہِدَایَةِ۔ قال ابن عابدین : (قَوْلُہُ لَا یَسْجُدُ أَصْلًا) أَیْ لَا فِی الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَہَا فَافْہَمْ۔ (شامی : ٢/١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شوال المکرم 1445 

اتوار، 21 اپریل، 2024

قعدہ اخیرہ میں کون سی دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں؟


سوال :

مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ کیا قعدہ اخیرہ میں درود ابراہیم کے بعد دعائے ماثورہ کے علاوہ بھی کوئی دعا پڑھی جاسکتی ہے؟ اور ان دعاؤں کی نشاندہی کردیں تو نوازش ہوگی۔
(المستفتی : عارف ندوی، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : فرض، واجب، سنت اور نفل ہر نماز کے قعدہ اخیرہ میں درود شریف کے بعد قرآن و حدیث میں منقول دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں، احادیث میں اس سلسلے میں متعدد دعائیں منقول ہیں، اس میں ایک مشہور دعا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فرمائش پر انہیں قعدہ اخیرہ میں پڑھنے کے لیے تعلیم فرمائی تھی وہ دعا درج ذیل ہے :

اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ
ترجمہ : اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہ کو بخشنے والا نہیں، اس لئے تو مجھے اپنے پاس سے مغفرت عطا کر، بے شک تو بخشنے والا مہربان ہے۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھے تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں کی پناہ مانگے۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ
ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے جہنم کے عذاب اور قبر کے عذاب اور زندگی اور موت کے فتنے اور مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (مسلم)

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت درج ذیل دعا پڑھا کرتے تھے :
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ۔
ترجمہ : اے اللہ میرے ان گناہوں کی مغفرت فرما جو میں نے پہلے کئے اور جو میں نے بعد میں کئے اور جو میں نے چھپ کر کئے اور جو میں نے ظاہر کئے اور جو میں نے زیادتی کی اور جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی مبعود نہیں ہے۔ (مسلم)

اسی طرح درج ذیل دعائیں پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے :
اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنَ الخَيْرِ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْنَا مِنْهُ وَمَا لَمْ نَعْلَمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْنَا مِنْهُ وَمَا لَمْ نَعْلَمْ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ عِبَادُكَ الصَّالِحُونَ، ونَسْتَعِيذُ بِكَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُكَ الصَّالِحُونَ، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا، فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا، وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا، وتَوَفَّنَا مَعَ الأَبْرَارِ، رَبَّنَا وآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ، وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ۔ (طبرانی)


اگر کوئی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو وہ ایک سے زیادہ دعائیں بھی پڑھ سکتا ہے، البتہ اگر کوئی شخص امام ہوتو اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ ایک ہی دعا مثلاً اللھم انی ظلمت نفسی الخ پر اکتفا کرے، کیوں کہ طول طویل اور متعدد دعاؤں کی وجہ سے قعدہ اخیرہ لمبا ہوجائے گا جو مقتدی حضرات کے لیے گرانی سبب بن سکتا ہے۔


عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي، قَالَ : «قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ»۔ (صحیح البخاری، رقم : ٨٣٤)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَامِرٍ، نَا أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ نَهْشَلٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَ دُعَاءُ النَّبِيِّ ﷺ بَعْدَ التَّشَهُّدِ فِي الفَرِيضَةِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنَ الخَيْرِ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْنَا مِنْهُ وَمَا لَمْ نَعْلَمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْنَا مِنْهُ وَمَا لَمْ نَعْلَمْ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ عِبَادُكَ الصَّالِحُونَ، ونَسْتَعِيذُ بِكَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُكَ الصَّالِحُونَ، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا، فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا، وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا، وتَوَفَّنَا مَعَ الأَبْرَارِ، رَبَّنَا وآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ، وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ» وَيُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، رقم : ٧٥٧١) 

قَالَ: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ؛ فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ"۔ (بخاری)

فَإِذَا فَرَغَ مِنْ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَسْتَغْفِرُ لِنَفْسِهِ وَلِأَبَوَيْهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ وَيَدْعُو لِنَفْسِهِ وَلِغَيْرِهِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَخُصُّ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ وَهُوَ سُنَّةٌ. هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ ثُمَّ يَقُولُ: رَبَّنَا آتِنَا إلَى آخِرِهِ. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ وَلَا يَدْعُو بِمَا يُشْبِهُ كَلَامَ النَّاسِ وَمَا لَا يَسْتَحِيلُ سُؤَالُهُ مِنْ الْعِبَادِ كَقَوْلِهِ: اللَّهُمَّ زَوِّجْنِي فُلَانَةَ يُشْبِهُ كَلَامَهُمْ، وَمَا يَسْتَحِيلُ كَقَوْلِهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي لَيْسَ مِنْ كَلَامِهِمْ، وَقَوْلُهُ: اللَّهُمَّ اُرْزُقْنِي مِنْ قَبِيلِ الْأَوَّلِ. كَذَا فِي الْهِدَايَةِ فَلَا يَجُوزُ الدُّعَاءُ بِهَذَا اللَّفْظِ هُوَ الصَّحِيحُ. كَذَا فِي الْعَيْنِيِّ شَرْحِ الْهِدَايَةِ.
وَلَوْ قَالَ: اللَّهُمَّ اُرْزُقْنِي مَالًا عَظِيمًا تَفْسُدُ، وَلَوْ قَالَ: اللَّهُمَّ اُرْزُقْنِي الْعِلْمَ وَالْحَجَّ وَنَحْوَ ذَلِكَ لَا تَفْسُدُ. كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ وَفِي الْوَلْوَالِجِيَّةِ يَنْبَغِي أَنْ يَدْعُوَ فِي الصَّلَاةِ بِدُعَاءٍ مَحْفُوظٍ؛ لِأَنَّهُ يُخَافُ أَنْ يَجْرِيَ عَلَى لِسَانِهِ مَا يُشْبِهُ كَلَامَ النَّاسِ فَتَفْسُدُ صَلَاتُهُ. كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة وَكُلُّ مَا ذَكَرْنَاهُ أَنَّهُ يُفْسِدُ إنَّمَا يُفْسِدُ إذَا لَمْ يَقْعُدْ قَدْرَ التَّشَهُّدِ فِي آخِرِ الصَّلَاةِ وَأَمَّا إذَا قَعَدَ فَصَلَاتُهُ تَامَّةٌ يَخْرُجُ بِهِ مِنْ الصَّلَاةِ. كَذَا فِي التَّبْيِينِ

وَمِنْ الْأَدْعِيَةِ الْمَأْثُورَةِ مَا رُوِيَ «عَنْ أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي فَقَالَ: قُلْ اللَّهُمَّ إنِّي ظَلَمْتَ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» وَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَدْعُو بِكَلِمَاتٍ مِنْهُنَّ: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ الْخَيْرِ كُلِّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الشَّرِّ كُلِّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ. كَذَا فِي النِّهَايَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٧٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شوال المکرم 1445

خشخشی داڑھی رکھنے والے کی امامت کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین درمیان اس مسئلہ کہ زید کو اللہ تعالیٰ نے حفظ قرآن کی دولت لازوال سے نوازا ہے اور الحمدللہ زید تراویح میں قرآن پاک کے سنانے کا بھی اہتمام کرتا ہے، لیکن دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید شرعی حلیہ کو ترجیح نہیں دیتا ہے، داڑھی کے بال ترشواتا ہے، بالکل خشخشی داڑھی رکھتا ہے۔ اور شرٹ پینٹ (ٹی شرٹ، جنس پینٹ) بھی پہنتا ہے اب آپ از روئے شرع بیان کریں کہ زید کا تراویح کی امامت کرنا کیسا ہے؟ اور ہاں اس سے قبل (گزشتہ سال) زید سے کچھ گفت و شنید بھی ہوئی تھی اور اسے اس شنیع عمل پر تنبیہ بھی کی گئی جس پر زید نے آئندہ داڑھی کو نا کٹوانے اور مزاج شریعت کے مطابق دکھنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہا سابقہ رویہ کو ہی اپنا شیوا بنایا رہا۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : صحیح احادیث میں مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم وارد ہوا ہے۔

بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔

البتہ بعض حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا معمول داڑھی ایک مشت سے بڑھ جانے پر کٹا دینے کا تھا، جیسے حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرھم۔

اس لئے ائمہ اربعہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی امام احمد رحمہم اﷲ کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، اور اس سے پہلے کٹانا ناجائز اور حرام ہے۔ ایک مشت سے زائد ہونے پر کاٹنے کی گنجائش ہے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور زید کا ایک مشت سے کم اور خشخشی داڑھی رکھنا یہ ناجائز اور حرام ہے۔ اسی طرح پینٹ شرٹ اور ٹی شرٹ پہننا بھی منصب امامت کے منافی عمل ہے۔ داڑھی منڈوانے والا فاسق ہے خواہ حافظ قرآن ہو یا غیر حافظ، دونوں کے لیے حکم ایک جیسا ہے۔ ایسے شخص کو تراویح اور غیر تراویح میں امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ اور زید کو اس سے قبل جب تنبیہ کی جاچکی ہے اور اس کے بعد بھی اگر داڑھی اب بھی ویسی ہی غیرشرعی ہے، یعنی کٹی ہوئی اور ایک مشت سے کم ہے تو انہیں تراويح پڑھانے کے لیے نہ لگایا جائے۔


قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انہکوا الشوارب واعفوا اللحیٰ۔ (بخاري شریف ۲/۸۷۵، رقم:۵۶۶۴)

وکان ابن عمر إذا حج، أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ ۔ (بخاري شریف، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار ۲/۸۷۵، رقم: ۵۶۶۳)

عن أبي ذرعۃ کان أبو ہریرۃؓ یقبض علی لحیتہ، ثم یأخذ ما فضل عن القبضۃ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۲)

عن الحسن قال کانوا یرخصون فیما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ أن یؤخذ منہا۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، مؤسسہ علوم القرآن بیروت ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۵)

واما قطع مادون ذلک فحرام اجما عاً بین الا ئمۃ رحمھم اﷲ ۔ (ج۴ ص ۳۸۰ باب اعفآء اللحی، فیض الباری)

وأما الأخذ منہا وہي دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلہا فعل الیہود ومجوس الأعاجم۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۳۹۸ زکریا)

أو تطویل اللحیۃ إذا کانت بقدر المسنون وہو القبضۃ۔ (الدر المختار۲؍۴۱۷ کراچی)

إمامة الفاسق مکروهة تحریماً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٨٥)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 رجب المرجب 1445 

ہفتہ، 20 اپریل، 2024

شادی شدہ عورتوں کا جمعہ منگل میکے جانا


سوال : 

بیوی کا جمعہ منگل میکہ جانے کا شرعی کیا حکم ہے؟ اور اس کی کیا حکمتیں ہیں نیز کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گھر میں فساد کی جڑ جمعہ منگل ہی ہے کیا یہ کہنا صحیح ہے؟ اکابر علماء کا اس معاملے میں کیا عمل تھا؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
(المستفتی : ابومعاویہ، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہ کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر پر یہ بات لازم ہے کہ وہ بیوی کو دستور کے مطابق والدین سے ملاقات کی اجازت دے، اور ہمارے یہاں چونکہ عموماً میکہ اور سسرال ایک ہی شہر میں ہوتا ہے چنانچہ دستور یہ ہے کہ ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ خواتین میکہ جاتی ہیں، لہٰذا ہفتہ میں کم از کم ایک مرتبہ ان کا میکہ جانا جائز بلکہ ان کا حق ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

اس میں حکمت یہی ہوتی ہے کہ والدین کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈی کرنا اور اجروثواب حاصل کرنا، والدین اور بھائی بہنوں کے حالات جاننا، اور ایک دوسرے سے ملاقات پر والدین اور بھائی، بہنوں سے کوئی مفید مشورہ یا بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کی امداد وغیرہ کرنا۔

اسے فساد کی جڑ کہنا بالکل غلط ہے۔ جنہیں فساد پھیلانا اور کرنا ہوتا ہے وہ میکہ میں فون وغیرہ پر رابطہ کرکے بھی یہ کام کرلیتے ہیں، اس کے لیے منگل، جمعہ میکہ جانے کو ہی قصوروار ٹھہرانا نا انصافی اور ظلم ہے۔


(وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ) أَيْ الزَّوْجَ (لَا يَمْنَعُهَا مِنْ الْخُرُوجِ إلَى الْوَالِدَيْنِ وَلَا مِنْ دُخُولِهِمَا عَلَيْهَا فِي الْجُمُعَةِ) أَيْ سَبْعَةِ أَيَّامٍ (مَرَّةً) قَيْدٌ لِلْخُرُوجِ وَالدُّخُولِ كِلَيْهِمَا.

(وَ) كَذَا لَا يَمْنَعُ (فِي) الدُّخُولِ وَالْخُرُوجِ إلَى مَحْرَمٍ (غَيْرَهُمَا) أَيْ غَيْرَ الْوَالِدَيْنِ (فِي السَّنَةِ مَرَّةً) قَوْلُهُ وَالصَّحِيحُ احْتِرَازٌ عَنْ قَوْلِ مُحَمَّدِ بْنِ مُقَاتِلٍ فَإِنَّهُ قَالَ لَا يَمْنَعُ الْمَحَارِمَ فِي كُلِّ شَهْرٍ وَفِي الْمُخْتَارَاتِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى وَفِي أَكْثَرِ الْكُتُبِ لَهُ أَنْ يَأْذَنَهَا بِالْخُرُوجِ لِزِيَارَةِ الْأَبَوَيْنِ وَالْأَقْرِبَاءِ وَالْحَجِّ۔ (مجمع الانھر : ١/٤٩٣)

وَله أَن يمْنَع والديها وَوَلدهَا من غَيره وَأَهْلهَا من الدُّخُول عَلَيْهَا وَلَا يمنعهُم من النّظر إِلَيْهَا وكلامها فِي أَي وَقت اخْتَارُوا لما فِيهِ من قطيعة الرَّحِم وَلَيْسَ عَلَيْهِ فِي ذَلِك ضَرَر وَقيل لَا يمنعهُم من الدُّخُول وَالْكَلَام ويمنعهم من الْقَرار لِأَن الْفِتْنَة فِي اللّبْث وَتَطْوِيل الْكَلَام وَقيل لَا يمْنَعهَا من الْخُرُوج إِلَى الْوَالِدين وَلَا يمنعهما من الدُّخُول عَلَيْهَا فِي كل جُمُعَة وَفِي غَيرهمَا من الْمَحَارِم التَّقْدِير بِسنة وَهُوَ الصَّحِيح۔ (لسان الحکام : ٣٣٨)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
10 شوال المکرم 1445

جمعہ، 19 اپریل، 2024

کپڑا تیار ہونے سے پہلے فروخت کردینا


سوال :
 
پاورلوم کے کاروبار میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ بازار میں کپڑا بیچ دیتے ہیں۔ سودے میں کپڑے کی ڈلیوری کتنے وقت میں ہونا ہے یہ بھی طے ہوتا ہے۔ مگر ان کے پاس کپڑا موجود نہیں ہوتا نا ہی کپڑے کو تیار کرنے کے لیے خام مال یعنی یارن بھی موجود نہیں ہوتا ہے۔ کپڑا بیچ کر یارن نا لینے کی اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آگے کچھ عرصے میں یارن کی قیمت کم ہوجائے اور کم قیمت پر خرید کر کپڑا تیار کر کے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ اب کچھ حضرات کا ایسا کہنا ہے کہ کپڑا یا یارن موجود نہ ہونے کی صورت میں کپڑا بیچنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اسطرح سے کاروبار کرنے کو وہ سٹہ یا جوا کہتے ہیں۔ کیا صحیح ہے کیا غلط قرآن و احادیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اویس، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت میں بیع کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں، اُن میں ایک قسم بیع استصناع کی ہے، جس میں مبیع فی الحال موجود نہیں ہوتی، لیکن نمونہ دکھاکر یا اس کی تفصیلات بیان کرکے معاملات طے کرلیے جاتے ہیں، اور وقتِ معینہ پر شرائط کے مطابق لین دین ہوتا ہے، اس طرح کی بیع استحساناً جائز ہے۔  

بیع استصناع کی ایک مثال یہ بھی ہے جیسے آج کل بلڈنگ کے تعمیر ہونے سے پہلے ہی اس کے فلیٹس (Flats) کی خرید وفروخت شروع ہوجاتی ہے، اور ضروری پیمنٹ کی ادائیگی کی وجہ سے وہ فلیٹ بکنگ کرنے والوں کی ملک سمجھے جاتے ہیں، جب کہ بلڈر کی طرف سے فلیٹس کا قبضہ کام مکمل ہونے کے بعد ہی دیا جاتا ہے، اس لئے بیع استصناع کی یہ صورت جائز ودرست ہے، واضح ہو کہ ایسی صورت حال میں کسی بلڈنگ کی مکمل تعمیر سے پہلے اس میں تعمیر کئے جانے والے دفاتر یا مکانات وغیرہ کا خریدنا اور بک کروانا اگر محض پہلی مرتبہ ہی ہو، تو بیع استصناع کے طور پر یہ جائز ودرست ہے۔

اسی نوعیت کے ایک سوال پر دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
محض نقشے کی بنیاد پر منزل کی تعمیر سے پہلے ”بیع استصناع“ کے حکم میں ہوکر فلیٹ کی خریداری جائز ہے۔ (رقم الفتوی : 32696)

جامعہ بنوری ٹاؤن، کراچی کا فتوی ہے :
صورتِ  مسئولہ میں کپڑا بنانے والی مل ایڈوانس پیسے لے کر ایک متعین وقت میں کپڑا تیار کرکے جو دیتی ہیں، اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’استصناع‘‘  کہا جاتا ہے،  جس کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خریدار ( آڈر دینے) والے کی منشا ( ڈیمانڈ) کے مطابق چیز تیار کیا جائے، اس میں کسی قسم کا دھوکا ( کپڑے کے گرامیج میں کمی، وغیرہ)  نہ دیا جائے، پس اگر  کپڑا مل مالکان اس کی پابندی کرتے ہوں تو ایسی صورت میں مذکورہ طریق پر خریداری اور منافع سب جائز ہوگا۔ (رقم الفتوی : 144106201350)

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور طریقہ جس میں کارخانہ دار کے پاس کپڑا ابھی تیار نہیں ہے بلکہ اس کا خام مال (یارن) بھی موجود نہیں ہے اور اس کی بیع (خرید و فروخت) کرلی جائے تو یہ بیع استصناع میں داخل ہے، لہٰذا ان میں اگر معاملہ آپسی رضامندی سے طے شدہ ہو اور مبیع (کپڑا) اور ثمن (قیمت) میں کوئی جہالت نہ ہو، اور بعد میں فریقین میں نزاع کا اندیشہ نہ ہوتو یہ معاملات شرعاً درست ہیں، یہ بیع قبل القبض کی ممانعت میں داخل نہیں، بلکہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ پس اسے جوا اور سٹہ کہنا سخت غلطی ہے۔


عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: اصطنع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتمًا، فقال: إنا قد اصطنعنا خاتمًا ونقشنا فیہ نقشاً فلا ینقش أحد علیہ۔ (المسند لإمام أحمد ۳؍۱۰۱ رقم: ۱۲۰۱۳، السنن الکبریٰ للنسائي ۵؍۴۵۶ رقم: ۹۵۴۵)

{اَلْمَوَاعِیْدُ تَجُوْزُ قِیَاسًا وَاِسْتِحْسَاناً}۔ (المبسوط للسرخي :۱۲/۱۶۵، کتاب البیوع ، الکافي في فقہ الحنفي :۳/۱۱۴۴، کتاب البیوع، الاستصناع، الہدایۃ:۳/۸۴، کتاب البیوع، باب السلم ، الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۱۴، البیع ، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام :۱/۱۷۷، المادۃ:۱۹۷) 

الِاسْتِصْنَاعُ جَائِزٌ فِي كُلِّ مَا جَرَى التَّعَامُلُ فِيهِ كَالْقَلَنْسُوَةِ وَالْخُفِّ وَالْأَوَانِي الْمُتَّخِذَةُ مِنْ الصُّفْرِ وَالنُّحَاسِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ اسْتِحْسَانًا كَذَا فِي الْمُحِيطِ ثُمَّ إنْ جَازَ الِاسْتِصْنَاعُ فِيمَا لِلنَّاسِ فِيهِ تَعَامُلٌ إذَا بَيَّنَ وَصْفًا عَلَى وَجْهٍ يَحْصُلُ التَّعْرِيفُ أَمَّا فِيمَا لَا تَعَامُلَ فِيهِ كَالِاسْتِصْنَاعِ فِي الثِّيَابِ بِأَنْ يَأْمُرَ حَائِكًا لِيَحِيكَ لَهُ ثَوْبًا بِغَزْلٍ مِنْ عِنْدِ نَفْسِهِ لَمْ يَجُزْ كَذَا فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٣/٢٠٧)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
09 شوال المکرم 1445

پیر، 15 اپریل، 2024

نذرانہ امام کو کم اور امام تراویح کو زیادہ دینا


سوال :

مفتی صاحب! دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک مسجد میں امام صاحب تقریباً پچیس سال سے امامت و خطابت کے فرائض بڑی پابندی سے انجام دے رہے ہیں، رمضان المبارک میں عموماً چھبیسویں روزہ کو امام مؤذن اور تراویح سنانے والے حافظ صاحب کو نذرانہ دیا جاتا ہے، تراویح امام جو صرف ایک مہینہ ہی خدمت انجام دیتے ہیں انہیں نذرانہ زیادہ اور امام صاحب جو پچیس سال سے خدمت انجام دے رہے ہیں انہیں نذرانہ کم دیا جاتا ہے، ذمہ داران کا یہ طریقہ اختیار کرنا ازروئے شرع کیسا ہے؟ یا صحیح طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : انیس احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : امام اور مؤذن کو جو نذرانہ رمضان المبارک میں دیا جاتا ہے وہ بلاشبہ جائز اور درست ہے، یہ امام کو سال بھر امامت کرنے اور مؤذن کو ان کی ذمہ داری ادا کرنے کی وجہ سے اکراماً دیا جاتا ہے، جسے عرفِ عام میں "حقِ رضا" یا "عید بونس" بھی کہا جاسکتا ہے۔ خواہ یہ چھبیسویں روزہ کو دیا جائے یا اس سے پہلے یا پھر بعد میں دیا جائے اور یہ رقم خصوصی طور پر چندہ کرکے دی جائے یا مسجد کی جمع شدہ رقم سے ہو شرعاً اس میں کوئی قباحت یا کراہت نہیں ہے اور یہ متفقہ مسئلہ ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جبکہ جو امام صرف تراویح کی امامت کرتا ہو اسے نذرانہ دینے کے سلسلے میں اختلاف ہے، بعض علماء ناجائز لکھتے ہیں، اور بعض کے یہاں گنجائش ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ سال بھر امامت کرنے والے امام کا مرتبہ اور اہمیت صرف تراویح پڑھانے والے امامِ تراویح سے بلاشبہ زیادہ ہے، اور جبکہ امام صاحب پچیس سال سے پابندی کے ساتھ اپنی خدمات بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں تو پھر ان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ سال بھر امامت کرنے والے امام صاحب کو امام تراویح سے زیادہ نذرانہ دینا چاہیے، کیونکہ امام صاحب کو نذرانہ دینے میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔ جبکہ امام تراویح کو نذرانہ دینے کے سلسلے میں اختلاف ہے، پس امام صاحب کو امام تراویح سے کم نذرانہ دینا غیرمعقول، انصاف کے تقاضوں کے خلاف اور شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔ لہٰذا آئندہ ذمہ داران کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔


عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا , وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ۔ (صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب : 101)

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ "۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٨٤٢)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
05 شوال المکرم 1445

جمعرات، 11 اپریل، 2024

عید کے دن میت کے گھر تعزیت کے لیے جانا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ہمارے شہر میں ایک روایت یہ ہے کہ کسی کا انتقال ہوتا ہے اس سال عیدالفطر کے موقع پر اس کے رشتہ دار اور متعلقین تعزیت کے لیے اس کے گھر جاتے ہیں، جبکہ اس شخص کی وفات کو کئی مہینے گزر چکے ہیں، تو کیا اس طرح کا عمل شرعاً درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : جمیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : فقہاء نے صراحتاً لکھا ہے کہ تعزیت کا وقت موت کے بعد تین دن تک ہے، تین دن کے بعد میت کے اہل خانہ کو تعزیت وتسلی دینا مکروہ ہے، البتہ اگر میت کے اہلِ خانہ یا تعزیت کرنے والا وفات کے بعد تین دن تک موجود نہ ہو تو تین دن کے بعد بھی تعزیت کی گنجائش ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ تعزیت کے بعد دوبارہ تعزیت کرنا بھی صحیح نہیں۔ لہٰذا جب میت کے انتقال کو کئی دن بلکہ کئی مہینے گزر چکے ہیں تو عید کے دن اس کے گھر صرف اس نیت سے جانا کہ یہ پہلی عید ہے، اور اس کے اہل خانہ کا غم تازہ کرنا، رونا رلانا یہ جاہلانہ رسم ہے جو شرعاً بھی ناجائز ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ ہاں عید کی خوشی میں شریک کرنے کے لیے میت کے گھر جانا درست ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ لَمَّا جَائَهَا نَعِيُّ أَبِيهَا دَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَحَتْ ذِرَاعَيْهَا وَقَالَتْ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا۔(بخاری)

وَرَوَى الْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ إذَا عَزَّى أَهْلَ الْمَيِّتِ مَرَّةً فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَزِّيَهُ مَرَّةً أُخْرَى، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. وَوَقْتُهَا مِنْ حِينِ يَمُوتُ إلَى ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَيُكْرَهُ بَعْدَهَا إلَّا أَنْ يَكُونَ الْمُعَزِّي أَوْ الْمُعَزَّى إلَيْهِ غَائِبًا فَلَا بَأْسَ بِهَا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٦٧)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
01 شوال المکرم 1445