جمعہ، 19 اپریل، 2024

کپڑا تیار ہونے سے پہلے فروخت کردینا


سوال :
 
پاورلوم کے کاروبار میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ بازار میں کپڑا بیچ دیتے ہیں۔ سودے میں کپڑے کی ڈلیوری کتنے وقت میں ہونا ہے یہ بھی طے ہوتا ہے۔ مگر ان کے پاس کپڑا موجود نہیں ہوتا نا ہی کپڑے کو تیار کرنے کے لیے خام مال یعنی یارن بھی موجود نہیں ہوتا ہے۔ کپڑا بیچ کر یارن نا لینے کی اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آگے کچھ عرصے میں یارن کی قیمت کم ہوجائے اور کم قیمت پر خرید کر کپڑا تیار کر کے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ اب کچھ حضرات کا ایسا کہنا ہے کہ کپڑا یا یارن موجود نہ ہونے کی صورت میں کپڑا بیچنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اسطرح سے کاروبار کرنے کو وہ سٹہ یا جوا کہتے ہیں۔ کیا صحیح ہے کیا غلط قرآن و احادیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اویس، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت میں بیع کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں، اُن میں ایک قسم بیع استصناع کی ہے، جس میں مبیع فی الحال موجود نہیں ہوتی، لیکن نمونہ دکھاکر یا اس کی تفصیلات بیان کرکے معاملات طے کرلیے جاتے ہیں، اور وقتِ معینہ پر شرائط کے مطابق لین دین ہوتا ہے، اس طرح کی بیع استحساناً جائز ہے۔  

بیع استصناع کی ایک مثال یہ بھی ہے جیسے آج کل بلڈنگ کے تعمیر ہونے سے پہلے ہی اس کے فلیٹس (Flats) کی خرید وفروخت شروع ہوجاتی ہے، اور ضروری پیمنٹ کی ادائیگی کی وجہ سے وہ فلیٹ بکنگ کرنے والوں کی ملک سمجھے جاتے ہیں، جب کہ بلڈر کی طرف سے فلیٹس کا قبضہ کام مکمل ہونے کے بعد ہی دیا جاتا ہے، اس لئے بیع استصناع کی یہ صورت جائز ودرست ہے، واضح ہو کہ ایسی صورت حال میں کسی بلڈنگ کی مکمل تعمیر سے پہلے اس میں تعمیر کئے جانے والے دفاتر یا مکانات وغیرہ کا خریدنا اور بک کروانا اگر محض پہلی مرتبہ ہی ہو، تو بیع استصناع کے طور پر یہ جائز ودرست ہے۔

اسی نوعیت کے ایک سوال پر دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
محض نقشے کی بنیاد پر منزل کی تعمیر سے پہلے ”بیع استصناع“ کے حکم میں ہوکر فلیٹ کی خریداری جائز ہے۔ (رقم الفتوی : 32696)

جامعہ بنوری ٹاؤن، کراچی کا فتوی ہے :
صورتِ  مسئولہ میں کپڑا بنانے والی مل ایڈوانس پیسے لے کر ایک متعین وقت میں کپڑا تیار کرکے جو دیتی ہیں، اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’استصناع‘‘  کہا جاتا ہے،  جس کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خریدار ( آڈر دینے) والے کی منشا ( ڈیمانڈ) کے مطابق چیز تیار کیا جائے، اس میں کسی قسم کا دھوکا ( کپڑے کے گرامیج میں کمی، وغیرہ)  نہ دیا جائے، پس اگر  کپڑا مل مالکان اس کی پابندی کرتے ہوں تو ایسی صورت میں مذکورہ طریق پر خریداری اور منافع سب جائز ہوگا۔ (رقم الفتوی : 144106201350)

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور طریقہ جس میں کارخانہ دار کے پاس کپڑا ابھی تیار نہیں ہے بلکہ اس کا خام مال (یارن) بھی موجود نہیں ہے اور اس کی بیع (خرید و فروخت) کرلی جائے تو یہ بیع استصناع میں داخل ہے، لہٰذا ان میں اگر معاملہ آپسی رضامندی سے طے شدہ ہو اور مبیع (کپڑا) اور ثمن (قیمت) میں کوئی جہالت نہ ہو، اور بعد میں فریقین میں نزاع کا اندیشہ نہ ہوتو یہ معاملات شرعاً درست ہیں، یہ بیع قبل القبض کی ممانعت میں داخل نہیں، بلکہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ پس اسے جوا اور سٹہ کہنا سخت غلطی ہے۔


عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: اصطنع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتمًا، فقال: إنا قد اصطنعنا خاتمًا ونقشنا فیہ نقشاً فلا ینقش أحد علیہ۔ (المسند لإمام أحمد ۳؍۱۰۱ رقم: ۱۲۰۱۳، السنن الکبریٰ للنسائي ۵؍۴۵۶ رقم: ۹۵۴۵)

{اَلْمَوَاعِیْدُ تَجُوْزُ قِیَاسًا وَاِسْتِحْسَاناً}۔ (المبسوط للسرخي :۱۲/۱۶۵، کتاب البیوع ، الکافي في فقہ الحنفي :۳/۱۱۴۴، کتاب البیوع، الاستصناع، الہدایۃ:۳/۸۴، کتاب البیوع، باب السلم ، الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۱۴، البیع ، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام :۱/۱۷۷، المادۃ:۱۹۷) 

الِاسْتِصْنَاعُ جَائِزٌ فِي كُلِّ مَا جَرَى التَّعَامُلُ فِيهِ كَالْقَلَنْسُوَةِ وَالْخُفِّ وَالْأَوَانِي الْمُتَّخِذَةُ مِنْ الصُّفْرِ وَالنُّحَاسِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ اسْتِحْسَانًا كَذَا فِي الْمُحِيطِ ثُمَّ إنْ جَازَ الِاسْتِصْنَاعُ فِيمَا لِلنَّاسِ فِيهِ تَعَامُلٌ إذَا بَيَّنَ وَصْفًا عَلَى وَجْهٍ يَحْصُلُ التَّعْرِيفُ أَمَّا فِيمَا لَا تَعَامُلَ فِيهِ كَالِاسْتِصْنَاعِ فِي الثِّيَابِ بِأَنْ يَأْمُرَ حَائِكًا لِيَحِيكَ لَهُ ثَوْبًا بِغَزْلٍ مِنْ عِنْدِ نَفْسِهِ لَمْ يَجُزْ كَذَا فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٣/٢٠٧)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
09 شوال المکرم 1445

1 تبصرہ:

  1. بالکل اسی طرح شیئرز کی خریدوفروخت بھی جائز عمل ہے جب تک کہ کمپنی کسی حرام کاروبار میں ملوث نہ ہو

    جواب دیںحذف کریں