پیر، 31 جنوری، 2022

مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب میں نے ایک صاحب سے سنا ہے کہ مغرب کی نماز سے پہلے بھی ٢ رکعت سنت پڑھی جا سکتی ہے، کیا یہ درست ہے؟
(المستفتی : فہد سردار، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بعض روایات سے مغرب کی فرض نماز سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا ثبوت اگرچہ ملتا ہے۔ لیکن مجموعی روایات اور نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی اذان کے بعد نوافل میں مشغول ہونے کے بجائے فوراً جماعت کھڑی کردینا افضل ہے۔

اس کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ ایک  وجہ تو یہ ہے کہ مغرب کی اذان کے بعد اگر لوگ نوافل پڑھنا شروع کر دیں تو امام کو ان لوگوں کا انتظار کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے مغرب کی فرض نماز میں تاخیر ہوگی، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب کی نماز میں جلدی کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ جیسا کہ ابوداؤد شریف کی روایت میں ہے :
حضرت مرثد بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ جب ابوایوب انصاری ؓ ہمارے پاس جہاد کی تیاری کی غرض سے آئے تو ان دنوں عقبہ بن عامر مصر کے حاکم تھے انہوں نے مغرب کی نماز دیر سے شروع کی تو ابوایوب نے کھڑے ہو کر کہا کہ اے عقبہ یہ کیسی نماز ہے؟ (جو اتنی دیر سے ادا کی جارہی ہے) حضرت عقبہ نے جواب دیا ہم کام میں مشغول تھے انہوں نے کہا کیا تم نے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ میری امت اس وقت تک خیر پر باقی رہے گی یا یہ کہا کہ فطرت پر قائم رہے گی جب تک کہ لوگ تارے چمک آنے تک مغرب میں تاخیر نہ کریں گے۔

دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ صحابہ کرام کی اکثریت یہ دو رکعات نہیں پڑھتی تھی اور احادیث کا صحیح مفہوم تعاملِ صحابہ ہی سے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ ابوداؤد شریف کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں، میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ یہ دو رکعت پڑھتے۔

نیز سنن دارقطنی کی ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن بریدہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : مغرب کی نماز کے علاوہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت (نفل یاسنت) ادا کی جائیں گی۔

ذکر کردہ دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے عام طور پر صحابہ کا عمل مغرب کی اذان کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھنے کا نہیں تھا جس کی وجہ سے احناف کا مسلک یہی ہے کہ مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھنا غیر افضل ہے۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُوأَيُّوبَ غَازِيًا، وَعُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ يَوْمَئِذٍ عَلَى مِصْرَ، فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو أَيُّوبَ ، فَقَالَ لَهُ : مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ يَا عُقْبَةُ ؟ فَقَالَ : شُغِلْنَا. قَالَ : أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ - أَوْ قَالَ : عَلَى الْفِطْرَةِ - مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤١٨)

حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٢٨٣)

حَدَّثَنَا عَلِىُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمِصْرِىُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ غُلَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ حَدَّثَنَا حَيَّانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : إِنَّ عِنْدَ كُلِّ أَذَانَيْنِ رَكْعَتَيْنِ مَا خَلاَ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ۔ (سنن دارقطنی، رقم : ١٠٢٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 جمادی الآخر 1443

اتوار، 30 جنوری، 2022

کرسی پر نماز پڑھنے والا قیام کیسے کرے؟

سوال :

ایک شخص قیام اور رکوع پر قادر ہے لیکن سجدہ اور قعدہ پر قادر نہیں ہے اگر یہ شخص کرسی پر نماز پڑھے گا تو پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھے گا یا قیام اور رکوع کھڑے ہونے کی حالت میں کرے گا؟ جبکہ کھڑے ہونے کی حالت میں صفوں سے باہر ہوجاتا ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ محمد واصف خان، کانپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جو شخص سجدہ پر قدرت نہ رکھتا ہو اس سے قیام کا فریضہ ساقط  ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ قیام اور رکوع یہ دونوں سجدہ کے لیے وسیلہ ہیں، اگر کوئی شخص اصل  سجدہ سے عاجز ہوجائے تو اس پر اس کے   وسیلہ کی فرضیت بھی ساقط ہوجائے گی۔ اب اس کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ مکمل نماز زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے ادا کرے، لیکن اگر کوئی ایسا عذر لاحق ہو کہ اس کے لیے زمین پر بیٹھنا انتہائی تکلیف دہ ہوتو پھر وہ کرسی پر نماز پڑھ سکتا ہے۔ اس صورت میں بھی وہ مکمل نماز کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے ہی ادا کرے گا، قیام اور رکوع کے وقت بھی کرسی پر بیٹھا رہے گا۔ قیام کے وقت کھڑے رہنا خلافِ اولی ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
چونکہ حقیقی رکوع اور سجدہ آپ سے ساقط ہے اس لیے قیام بھی ساقط ہوگیا اب نماز شروع کرتے وقت ہی کرسی پر بیٹھ جائیں بیٹھ کر ہاتھ باندھ کر قرأت کریں، پھر اشارہ سے رکوع کریں اور اشارہ ہی سے سجدہ کریں۔ (رقم الفتوی : 152420)

من تَعذَّر علیہ القیام لمرض أو خاف زیادتہ أو وجد لقیامہ ألمًا شدیدًا- صلی قاعدًا- کیف شاء- وإن تعذرا لیس تعذرہما شرطًا؛ بل تعذر السجود کاف لا القیام أو قاعدًا؛ لأن رکنیة القیام للتوصلی إلی السجود فلا یجب دونہ- وإن تعذرا لا القیام، أو قاعدًا وہو أفضل من الإیماء قائمًا لقربہ من الأرض۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۵۶۶- ۵۶۸، زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 جمادی الآخر 1443

جمعرات، 27 جنوری، 2022

گیہوں میں بورک ایسڈ پاؤڈر ملانا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! اکثر لوگ سال بھر کے لیے گیہوں، چاول اسٹاک رکھنے کے لئے اس میں بورک ایسیڈ پاؤڈر ملا کر رکھتے ہیں۔ چاول تو خیر دھوکر پکایا جاتا ہے، مگر گیہوں ویسے ہی نکال کر چکی پر بھیج دیا جاتا ہے۔ نیٹ پر سرچ کرنے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ پاؤڈر انسانی صحت کے لیے مضر ہے، چہ جائیکہ چاول دھو لیا جاتا ہے تو اسکے اثرات ختم ہو جاتے ہیں، مگر گیہوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی لوگ یہ کرتے ہیں، شرعاً اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بورک ایسیڈ میں کوئی ناپاک یا حرام شئے اپنی اصل حالت میں موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے ناجائز اور حرام نہیں کہا جائے گا۔ البتہ اگر تحقیق سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہے تو شریعت بھی اس بات کا حکم دیتی ہے کہ اپنے آپ کو ایسی نقصان دہ چیزوں سے بچایا جائے۔ لیکن اس سلسلے میں مشاہدہ کی بات یہ ہے کہ گیہوں میں بھی عموماً بہت کم مقدار میں یہ پاؤڈر ڈالا جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا اثر بھی ماند پڑ جاتا ہے، لہٰذا اس سے کوئی غیرمعمولی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ تاہم احتیاط کی بات یہی ہے کہ اس پاؤڈر کا استعمال کم سے کم کیا جائے اور جب پاؤڈر لگے ہوئے گیہوں کو چکی پر بھیجا جائے تو اسے اچھی طرح پھٹک لیا جائے تاکہ پاؤڈر کے مضر اثرات حتی الامکان ختم ہوجائیں۔

(لِانْقِلَابِ الْعَيْنِ) فَإِذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُكْمُ الْمِلْحِ. وَنَظِيرُهُ فِي الشَّرْعِ النُّطْفَةُ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ عَلَقَةً وَهِيَ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ مُضْغَةً فَتَطْهُرُ، وَالْعَصِيرُ طَاهِرٌ فَيَصِيرُ خَمْرًا فَيَنْجُسُ وَيَصِيرُ خَلًّا فَيَطْهُرُ، فَعَرَفْنَا أَنَّ اسْتِحَالَةَ الْعَيْنِ تَسْتَتْبِعُ زَوَالَ الْوَصْفِ الْمُرَتَّبِ عَلَيْهَا۔ (شامی : ١/٣٢٧)

الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)

مَعْنَى هَذِهِ الْقَاعِدَةِ أَنَّ مَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ بِالشَّكِّ، وَمَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ إِلاَّ بِيَقِينٍ، وَدَلِيلُهَا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَل عَلَيْهِ، أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لاَ؟ فَلاَ يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: قَال رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى أَثَلاَثًا أَمْ أَرْبَعًا؟ فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ، وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤٥/٥٧٩)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الدِّينُ النَّصِيحَةُ ". ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَنْ ؟ قَالَ : " لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ "۔(سنن الترمذی، رقم : ١٩٢٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 جمادی الآخر 1443

مکاتب میں زکوٰۃ دینے کا حکم

سوال :

ہمارے شہر میں کچھ حضرات زکوٰۃ کی وصولیابی کرتے ہیں مکتب کے نام پر، تو کیا مکتب کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟ جبکہ بظاہر تو ان کا کس مد میں صرف کرتے ہیں کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی کبھی یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ آمد و صرف کیا ہے؟ کیا مکتب کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟ کیا زکوٰۃ ادا کرنے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوگی؟ جو برسوں سے زکوٰۃ ادا کر رہے ہیں ان کی زکوٰۃ کا کیا ہوگا؟ جلد از جلد جواب سے نوازیں کرم ہوگا۔
(المستفتی : سعد غازی، پونہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی مکتب میں فیس کا نظم ہو اور یہاں ایسے طلباء بھی موجود ہوں جو مستحق زکوٰۃ ہوں اور فیس ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو ایسے مکتب کے ذمہ داران ان بچوں کی فیس کے بقدر زکوٰۃ وصول کرسکتے ہیں، اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ بجٹ کوئی بہت بڑا نہیں ہوتا جس کے لیے باقاعدہ زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے نکلنا پڑے، بلکہ یہ معمولی بجٹ چند افراد کی زکوٰۃ سے پورا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا مکتب کے لیے باقاعدہ زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے نکلنا قابلِ غور ہے۔ ایسے ذمہ داران سے آمد وخرچ کا حساب لینا چاہیے۔

اگر زکوٰۃ دینے والوں نے یہ سمجھ کر دیا ہے کہ ان کی زکوٰۃ مستحقین زکوٰۃ طلباء پر خرچ کی جائے گی تو ان کی زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ اب جن لوگوں نے زکوٰۃ کو اس کے مصرف میں خرچ نہیں کیا ہے وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے اور انہیں عنداللہ جواب دہ ہونا پڑے گا۔ تاہم زکوٰۃ دینے والوں کو بھی حتی الامکان اس بات کی معلومات لے لینا چاہیے کہ جس مکتب میں وہ زکوٰۃ دے رہے ہیں وہاں واقعی مستحق زکوٰۃ بچے موجود ہیں بھی یا نہیں؟ آنکھ بند کرکے اپنی زکوٰۃ کہیں بھی دے دینا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔

منہا کون المال نصاباً…، ومنہا الملک التام ومنہا فراغ المال عن حاجتہ الأصلیۃ فلیس فی دور السکنی وثیاب البدن وأثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ…، ومنہا الفراغ عن الدین… ومنہا کون النصاب نامیاً۔ (شامی : ۳؍۱۷۴)

دفع بتحر لمن یظنہ مصرفاً - إلی قولہٖ - وإن بان غناہ أو کونہ ذمیاً أو أنہ أبوہ أو ابنہ أو إمرأتہ أو ہاشمی لایعید۔ (الدر المختار : ١٣٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 جمادی الآخر 1443

بدھ، 26 جنوری، 2022

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑگیا

قارئین کرام! آج یوم جمہوریہ کی وجہ سے مدرسہ کی تعطیل تھی تو بندہ صبح آٹھ بجے کے بعد چہل قدمی کے لیے نکل گیا تھا۔ ساتھ میں مولوی نعیم بھی تھے۔ ہم لوگ محمد علی روڈ پر پہنچے تو چند برقعہ پوش بچیاں اُدھر سے آ رہی تھیں، اور ان کی حرکتوں سے صاف واضح ہورہا تھا کہ یہ اسکول کی بچیاں نہیں ہیں، بلکہ غالباً یوم جمہوریہ کی چہل پہل کا نظارہ کرنے کے لیے نکلی ہوئی ہیں۔ یہ بچیاں سڑک پر (جو بالکل سنسان بھی نہیں تھی، بلکہ لوگوں کا آنا جانا جاری تھا) زور زور سے ہنسی مذاق کررہی تھیں اور اتنے میں انہیں میں سے ایک لڑکی نے مخصوص لب ولہجہ میں زور سے کہا "پشپا" ہم لوگ ان سے کافی فاصلے پر تھے پھر بھی ہمیں ان کی آواز بالکل صاف سنائی دی۔ یہ سن کر تو بندہ سکتہ میں آگیا اور بے ساختہ مرحوم اکبر الہ آبادی کا یہ شعر ذہن میں آگیا کہ :
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

بلاشبہ یہ افسوسناک واقعہ ان بچیوں کے گھر کے مَردوں کی عقل پر پڑے ہوئے بے غیرتی کے پردہ کی وجہ سے وجود میں آیا ہے، ایسے مردوں کے متعلق احادیث میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا : تین طرح کے آدمیوں پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کر دیا ہے، ایک تو وہ شخص جو ہمیشہ شراب پئے، دوسرا وہ شخص جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے، اور تیسرا وہ دیوث کہ جو اپنے اہل وعیال میں ناپاکی پیدا کرے۔ (احمد، نسائی)

طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ "دُیوث" اس بے غیرت شخص کو کہتے ہیں جو اپنے گھر کی عورتوں کو بے حیائی میں مبتلا دیکھے لیکن نہ تو اس کو اس کی وجہ سے کوئی غیرت محسوس ہو اور نہ ان کو اس برائی سے منع کرے۔

بچیوں کو اسمارٹ فون مع انٹرنیٹ کنکشن دے کر والدین خواب خرگوش میں مست ہیں، آج ہندی فلمیں دیکھنے کو تو ایک بڑا طبقہ گناہ بھی نہیں سمجھتا۔ بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ ہندی فلم ہی تو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ڈائیلاگ کو برقع پوش بچیاں سڑکوں پر دوہرا رہی ہیں۔ لہٰذا والدین اپنے بچوں بالخصوص بچیوں پر نظر رکھیں، اس لیے کہ جس طرح یہ بات کہی جاتی ہے کہ مرد پڑھا فرد پڑھا، عورت پڑھی خاندان پڑھا۔ اسی طرح اس کے برعکس بھی ہے کہ عورت بگڑے گی تو صرف وہ خود نہیں بگڑے گی، بلکہ اس کے خاندان کے لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بچیوں کو اسمارٹ فون بلا ضرورت شدیدہ بالکل نہ دیا جائے۔ اگر بوقت ضرورت دینا پڑے تو ان کی مکمل نگرانی کریں، انہیں اچھے برے کی تمیز سمجھائیں، سیرت کی اور اصلاحی کتابیں انہیں پڑھنے کے لیے دیں، قریب میں ہفتہ واری درس قرآن اور اصلاحی مجالس میں انہیں شرکت کروائیں۔ موجودہ دور میں ہماری اپنے بچوں سے معمولی سی غفلت بھی ہمیں آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی شرمندہ کردے گی۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو دینی غیرت وحمیت عطا فرمائے، اور اپنی ماتحتوں کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

نوٹ : چونکہ بندہ سوشل میڈیا پر کافی ایکٹیو رہتا ہے اس لیے ٹرینڈ والے مواد کہیں نہ کہیں سے کانوں میں پڑجاتے ہیں یا نظروں کے سامنے آہی جاتے ہیں۔

منگل، 25 جنوری، 2022

کمیٹی (بسی) کے ایک طریقہ کی شرعی حیثیت

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے متعلق کے ایک بسی ہے۔ ہزار روپیہ مہینہ ہر ممبر کوبھرنا ہے اور جس ممبر کا نمبر نکل جائے چاہے پہلے مہینہ میں ہی کیوں نا ہو اب اسکو آگے بسی نہیں بھرنا ہے۔ کیا اس طرح کی بسی جائز ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : نثار احمد ملی، کامٹی)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور بسی کا طریقہ سراسر قمار اور جوئے پر مشتمل ہے۔

قمار اور جوئے کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ معاملہ جس میں کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر کوئی رقم اس طرح داؤ پر لگائی گئی ہو کہ یا تو رقم لگانے والااپنی لگائی ہوئی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اُسے اتنی ہی یا اس سے زیادہ ر قم کسی معاوضہ کے بغیر مل جائے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم نے "قمار" کی حقیقت درج ذیل الفاظ میں بیان کی ہے :
قمار ایک سے زائد فریقوں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ہر فریق نے کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر اپنا کوئی مال(یا تو فوری ادائیگی کرکے یا ادائیگی کا وعدہ کرکے) اس طرح داؤ پر لگایا ہو کہ وہ مال یا تو بلا معاوضہ دُوسرے فریق کے پاس چلا جائے گا یا دُوسرے فریق کا مال پہلے فریق کے پاس بلا معاوضہ آجائے گا۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل، 3/358)

لہٰذا اس بسی میں حصہ لینا اور اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ اس میں یہ بات موجود ہے کہ ایک ممبر کو اپنی جمع کردہ رقم سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے یا پھر اسے ایک ہی مرتبہ میں دیگر ممبران کے پیسے بھی مل جائیں گے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ قمار اور جوئے کی حُرمت خود قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ (المائدہ : آیت، 90)
ترجمہ : اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔

لہٰذا جن لوگوں نے اس میں حصہ لے لیا ہے وہ فوراً اپنا معاملہ ختم کریں اور جتنی رقم انہوں نے جمع کی ہے اسی کے بقدر ان کے لیے حلال ہوگی۔ بقیہ رقم ان کے مالکین کو لوٹانا ضروری ہے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو زائد رقم بلانیت ثواب غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا۔ (البقرۃ، جزء آیت: ۲۱۹)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى أُمَّتِي الْخَمْرَ، وَالْمَيْسِرَ۔ (مسند احمد، رقم : ٦٥٦٤)

ثم عرفوہ بأنہ تعلیق الملک علی الخطر والمال في الجانبین۔ (قواعد الفقہ : ۴۳۴)

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الآخر 1443

بینکوں کے کیلنڈر استعمال کرنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! کوآپریٹو بینک اور دیگر بینک کے ذریعہ ہر سال نئے کیلنڈر چھپواکر شیئر ہولڈرس اور دیگر کھاتے داروں میں تقسیم کرتے ہیں، ہم سبھی جانتے ہیں کہ بینکنگ کے کاروبار میں سودی لین دین ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی بہت سے شیئر ہولڈرس اپنے مکان، دکان اور آفس میں بینک سے ملے ہوئے کیلنڈرس کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ڈاکٹر مختار احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نئے سال کے آغاز پر مختلف کمپنیوں اور اداروں کی جانب سے کیلنڈر اور ڈائریاں اپنے گراہکوں اور شیئر ہولڈروں کو گفٹ کی جاتی ہیں۔ اگر یہ ادارے اور کمپنیاں جائز کام کرتی ہوں اور ان کی آمدنی کے ذرائع شرعاً جائز ہوں مثلاً فوٹ ویئرس، ملبوسات، بلڈنگ میٹیریلس اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والی کمپنیاں ہوں تو ان کے کیلنڈر قبول کرنے اور ان کا استعمال کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے بشرطیکہ اس پر جاندار کی تصاویر نہ ہوں۔ لیکن اگر یہ کیلنڈر اور ڈائریاں کوئی ناجائز کام کرنے والی کمپنی کی ہو مثلاً شراب فروخت کرنے والی یا بینکوں کی طرف سے ہو جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے تو پھر اس کا قبول کرنا ہی جائز نہیں ہے۔ اگر کسی نے لاعلمی میں اسے قبول کرلیا تو اس کا استعمال جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ ناجائز اور گناہ کے کام میں تعاون کے مترادف ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ نیز یہ کیلنڈر کسی اور کو بھی نہ دیا جائے، کیونکہ اگر کسی مستحق زکوٰۃ کو دیا گیا اور وہ اسے استعمال کرے تب بھی تعاون علی المعصیت کا حکم برقرار رہے گا۔ لہٰذا اسے واپس کردیا جائے یا پھر اسے ضائع کردیا جائے۔

قالَ اللہُ تعالیٰ : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (سورۃ المائدۃ، آیت :۲)

وقَوْله تَعالى وتَعاوَنُوا عَلى البِرِّ والتَّقْوى يَقْتَضِي ظاهِرُهُ إيجابَ التَّعاوُنِ عَلى كُلِّ ما كان تَعالى لِأنَّ البِرَّ هُوَ طاعاتُ اللَّهِ وقَوْله تعالى ولا تَعاوَنُوا عَلى الإثْمِ والعُدْوانِ نَهْيٌ عَنْ مُعاوَنَةِ غَيْرِنا عَلى مَعاصِي اللَّهِ تَعالى۔ (احکام القرآن للجصاص : ٣/٢٩٦)

اَلإعَانَۃُ عَلَی الْمَحْظُوْرِ مَحْظُوْرٌ۔ (جمہرۃ : ۲/۶۴۴، رقم:۳۰۳)

عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا تَصَاوِيرُ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۹۴۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الآخر 1443

پیر، 24 جنوری، 2022

کیا صدقہ موت کو ٹالتا ہے؟

سوال :

میں نے یہ سن رکھا ہے کہ صدقہ موت کو ٹال دیتا ہے تو کیا یہ بات صحیح ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : رضی احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صدقہ موت کو ٹالتا ہے ان الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث تو نہیں ہے۔ البتہ احادیث میں یہ بات ملتی ہے کہ صدقہ بری موت سے بچاتا ہے اور عمر میں اضافے کا سبب ہے۔ چنانچہ اگر موت کو ٹالنے سے مراد عمر میں اضافہ ہے تو یہ بات کہنا درست ہے۔ اور رہی بات موت کا وقت متعین ہونے کی تو یہ حدیث کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ تقدیر میں ہی یہ بات بھی لکھی ہوتی ہے کہ بندہ صدقہ کرے گا تو اس کی اتنی عمر بڑھا دی جائے گی پھر اس کے متعینہ وقت میں اس کی موت آئے گی۔

قالَ اللهُ تعالیٰ : وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ۔ (سورہ اعراف، آیت : ٣٤)

عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ المُزَنِيِّ، عَنْ أبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قالَ: قالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : إنَّ صَدَقَةَ المُسْلِمِ تَزِيدُ فِي العُمُرِ، وتَمْنَعُ مِيتَةَ السَّوْءِ ويُذْهِبُ اللهُ بِها الكِبْرَ والفَخْرَ۔ (المعجم الکبیر، رقم : ٣١)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ : إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِ المَلَكَ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعٍ، يَكْتُبُ رِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَعَمَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ۔ (ابن ماجہ، رقم : ٧٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الآخر 1443