منگل، 30 نومبر، 2021

آسیب زدہ کی طلاق کا حکم

سوال :

ایک آدمی نے اچانک بیٹھے بیٹھے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا، کچھ بھی معاملہ نہیں ہوا تھا۔ اور اسے طلاق دینا یاد بھی نہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسکو اثرات تھے۔ جب اسکو حاضر کئے تو بولنے لگا میں رمضان ہوں طلاق میں نے بولا ناکہ شوہر نے، تو طلاق ہوئی یا نہیں؟
(المستفتی : محمد مدثر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جو کیفیت بیان کی گئی ہے اگر واقعتاً ایسا ہی تھا کہ بیٹھے بیٹھے بلاوجہ اس آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور بعد میں اسے طلاق دینا یاد نہیں رہا۔ اور حاضر کرنے پر معلوم ہوا کہ آدمی نے طلاق نہیں دی ہے بلکہ جن نے طلاق دی ہے تو اس بات کا اعتبار کرلیا جائے گا کہ اس پر سوار جن نے طلاق کے الفاظ کہے ہیں، لہٰذا اس حالت میں دی گئی طلاق شرعاً معتبر نہ ہوگی، ان کا نکاح بدستور قائم رہے گا۔

وَلَا يَقَعُ طَلَاقُ الصَّبِيِّ وَإِنْ كَانَ يَعْقِلُ وَالْمَجْنُونُ وَالنَّائِمِ وَالْمُبَرْسَمُ وَالْمُغْمَى عَلَيْهِ وَالْمَدْهُوشُ هَكَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ربیع الآخر 1443

نماز جمعہ کا مستحب وقت اور تقریر کا مسئلہ؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! سوال یہ ہے کہ ہمارے شہر میں گزشتہ پانچ سات سالوں سے بہت ساری مساجد میں اول وقت میں نماز کی ادائیگی کا وقت رکھا جاتا ہے، خاص طور پر جمعہ کے دن پونے ایک بجے اذان ہوتی ہے اور تقریباً 1 بجے تک جماعت کھڑی کر دی جاتی ہے، اہل علم حضرات کا کہنا ہے کہ لے دے کر جمعہ کا دن ہی ایسا ہوتا ہے کہ تقریباً ہر مسلمان مرد مسجد آتا ہے (بھلے ہی دو رکعت کے لئے) تو انہیں بٹھا کر کچھ وعظ و نصیحت اور اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور کیا جائے، ناکہ جلد از جلد نماز ختم کر کے انہیں بھاگنے کا موقع دیا جائے (ہم گھر گھر تو جا نہیں سکتے بیان وغیرہ کے لئے) اس مسئلہ پر آپ روشنی ڈال کر ممنون و مشکور فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں آپ نے جن اہل علم کا ذکر کیا ہے ہمیں تو وہ بڑے لاعلم معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ جن مساجد میں جمعہ کی نماز اول وقت میں ہے وہاں بھی عموماً پہلی اذان سے پہلے کم و بیش نصف گھنٹہ وعظ و نصیحت کا مبارک سلسلہ پابندی سے جاری ہے۔ اور جن مساجد میں نہیں ہے انہیں بھی جاری کرلینا چاہیے کہ یہ کوئی مشکل بھی نہیں ہے، اگر علماء کے ذریعے منظم خطاب کا سلسلہ شروع کیا جائے تو ایک طبقہ بہرحال بیان کے وقت مسجد پہنچ جاتا ہے۔ اور جماعت اول وقت ہو یا تاخیر سے عوام کا ایک بڑا طبقہ تو بہرحال دوسری اذان کے وقت ہی مسجد آتا ہے، اور دو رکعت نماز مکمل ہوتے ہی مسجد کے باہر ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو وعظ ونصیحت کب کی جائے؟ جبکہ یہ طبقہ کچھ بھی سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ معترضین کا اعتراض بالکل بے بنیاد اور فضول ہے، نیز انہیں اس مسئلہ کا بھی علم ہونا چاہیے کہ نمازِ جمعہ کا وقت زوال کے بعد سے سایۂ اصلی دو مثل ہونے تک باقی رہتا ہے۔ اور گرمی ہو یا سردی ہر زمانہ میں نماز جمعہ اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے۔ جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام عام دنوں میں ظہر سے پہلے کھانا کھا کر قیلولہ کرتے تھے اور جمعہ کے دن نماز کے بعد کھانا کھاکر قیلولہ کرتے تھے، کیونکہ جمعہ کی نماز کے لیے جلد مسجد چلے جایا کرتے تھے۔ لہٰذا معترضین کو ایسے بے جا اعتراضات سے بچتے ہوئے امت کے حق میں کوئی مفید کام کرنے کی کوشش کرنا چاہیے، ورنہ ایسے اعتراضات خود ان کے لیے وبال بن جائیں گے۔

جمعہ کی نماز اور بیان کے سلسلے میں ہمارا درج ذیل مفصل اور مدلل جواب بھی ملاحظہ فرما لیا جائے تو ان شاءاللہ مزید تشفی ہوجائے گی۔
نماز جمعہ کے وقت اور بیانات سے متعلق سوالات

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٩٠٤)

عَنْ سَهْلٍ قَالَ مَا کُنَّا نَقِيلُ وَلَا نَتَغَدَّی إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ زَادَ ابْنُ حُجْرٍ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (صحيح المسلم، رقم : ١٩٤٦)

وَقَالَ الْجُمْهُورُ : لَيْسَ بِمَشْرُوعٍ؛ (أی الإبراد) لِأَنَّهَا تُقَامُ بِجَمْعٍ عَظِيمٍ، فَتَأْخِيرُهَا مُفْضٍ إلَى الْحَرَجِ وَلَا كَذَلِكَ الظُّهْرُ۔ (شامی : ١/٣٦٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 صفر المظفر 1441

نماز جمعہ کے وقت اور بیانات سے متعلق سوالات

سوال :

1) کیا جمعہ کی پہلی اذان زوال کے متصلاً بعدہونی چاہئے اور اسی پرعملی توارث چلا آ رہا ہے اور تمام فقہاء اس پر متفق ہیں؟
2) کیا پہلی اذان اگر تاخیر سے بھی ہوئی ہو تو بھی زوال کے بعد بیع و شراء سب حرام ہو جاتے ہیں کیونکہ زوال کے بعد جمعہ کا وقت شروع ہو جاتا ہے؟
3) کیا زوال اور پہلی اذان کے بعد صرف نماز کی تیاری کا اور جلد از جلد مسجد پہنچنے کاحکم ہے جو واجب ہے اور اس کا ترک گناہ ہے؟ کوئی دوسرا کام یعنی خریدو فروخت، سونا، حتی کہ کوئی دینی کام، مثلاً ظہر کی سنتیں، صلاۃ التسبیح، قرآن کی تلاوت یا کسی دینی کتاب کا مطالعہ وغیرہ سب  مکروہ تحریمی اور ناجائز  ہیں کیونکہ زوال کے بعد یہ سب  بھی بیع میں شامل ہیں؟
4) کیا پہلی اور دوسری اذان کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہونا چاہئے کہ لوگ نماز کی تیاری کرکے مسجد میں پہنچ جائیں اورسنتوں سے فارغ ہو سکیں کیونکہ جمعہ کی نماز میں تعجیل مستحب ہے؟
5) دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ طویل ہونے کی وجہ سے لوگ اول وقت مسجد میں آنے سے تساہلی برتتے ہیں  اور نماز کیلئے تیار ہونے کے باوجود دوسرے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں کہ ابھی تو بیان ہو رہا ہے مسجد پہنچ کر کیا کریں گے۔ کیا اس تاخیر کی ذمے داری تاخیر سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ مسجد کی منتظمہ، امام اور مقرر سب پر عائد ہوتی ہے کہ ترک واجب کے گناہ میں معاون ہوتے ہیں؟
6) ہمارے شہر میں جمعہ کی اذان اول زوال کے کافی دیر کے بعد ہوتی ہے۔ اس کے بھی تقریباً پچاس منٹ کے بعد دوسری اذان ہوتی ہے۔ بعض مساجد میں مزید تاخیر حتیٰ کہ دو بجے پہلی اذان اور پونے تین بجے دوسری اذان ہوتی ہے۔ نماز جمعہ میں اتنی تاخیر کی کیا تاویل کی جا سکتی ہے؟ اب تو شہر میں بے شمار مفتیان کرام اور جید علماء کرام موجود ہیں اس کے باوجود ہم ترک واجب کے اس اجتماعی گناہ میں کیوں مبتلا ہیں؟
7) کیا نماز جمعہ میں تعجیل کی سنت کو زندہ کرنا ہماری ذمے داری نہیں ہے؟
8) نماز جمعہ مستحب وقت پر ادا کرکے نماز کے بعد تقریر کرنے میں کیا قباحت ہے؟بینوا و تؤجروا
(المستفتی : ڈاکٹر سعید، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم :
الجواب وباللہ التوفيق : نمازِ جمعہ کا وقت زوال کے بعد سے سایۂ اصلی دو مثل ہونے تک  باقی رہتا ہے۔ البتہ ہر موسم میں نمازِ  جمعہ اوّل  وقت میں پڑھنا  مستحب  ہے، حنفی فقہاء اس کے استحباب پر متفق ہیں۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ زوال کے بعد جلد از نمازِ جمعہ ادا کرلی جائے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ فقہاء نے کسی بھی امر مستحب پر اصرار اور اس کے ترک پر نکیر کو مکروہ لکھا ہے۔ لہٰذا بوقت ضرورت اس میں تاخیر کو ناجائز سمجھنا بذاتِ خود اصلاح کا متقاضی ہے۔ شریعت نے جن معاملات میں سختی نہیں برتی ہے اس میں ہمارے اور آپ کے لیے سختی کا مظاہرہ کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔ اگر شہر میں زوال کے فوراً بعد اذان دینے کا معمول بنایا جائے تو ہر موسم میں جمعہ کی نماز کے وقت میں کمی بیشی کرنا پڑے گی جو بلاشبہ شہر کے ایک بڑے طبقہ کے لیے تنگی کا باعث ہوگی۔ اس لئے گرمی کے زوال کا اعتبار کرتے ہوئے شہر کی اکثر مساجد میں پون بجے اذان دینے کا معمول ہے جس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور صرف شہرِ عزیز ہی نہیں بلکہ برصغیر کے اکثر علاقوں میں یہی معمول ہے۔ (1)

2) مصلی جس مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرے گا اسی مسجد کی پہلی اذان کے بعد سے اس پر بیع و شراء کی ممانعت کا حکم لگے گا۔ زوال کے بعد اذانِ اوّل سے پہلے تک بیع و شراء ممنوع نہیں ہے۔ (2) اس لئے کہ قرآن کریم میں بالکل واضح آیت موجود ہے جس کی تفسیر میں مفسر قرآن مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
نُوْدِيَ للصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ ، نداء صلوٰة سے مراد اذان ہے اور من  یوم الجمعہ بمعنی فی  یوم الجمعہ  ہے، فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہ، سعی کے معنی دوڑنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کام کو اہتمام کے ساتھ کرنے کے بھی، اس جگہ یہی دوسرے معنی مراد ہیں کیونکہ نماز کے لئے دوڑتے ہوئے آنے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جب نماز کے لئے آؤ تو سکینت اور وقار کے ساتھ آؤ، آیت کے معنی یہ ہیں کہ جب جمعہ کے دن جمعہ کی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، یعنی نماز و خطبہ کے لئے مسجد کی طرف چلنے کا اہتمام کرو، جیسا دوڑنے والا کسی دوسرے کام کی طرف توجہ نہیں دیتا، اذان کے بعد تم بھی کسی اور کام کی طرف بجز نماز و خطبہ کے توجہ نہ دو۔ (ابن کثیر) ذکر اللہ سے مراد نماز جمعہ بھی ہو سکتی ہے اور خطبہ جمعہ جو نماز جمعہ کے شرائط و فراض میں داخل ہے وہ بھی، اس لئے مجموعہ دونوں کا مراد لیا جائے یہ بہتر ہے۔ (مظہری/بحوالہ معارف القرآن)

3) ایک بار پھر اس کا اعادہ کیا جارہا ہے کہ جن لوگوں پر جمعہ کی نماز فرض ہے ان کے لئے جمعہ کے دن جمعہ کی پہلی اذان (نہ کہ زوال) سے لے کر نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک مفتیٰ بہ قول کے مطابق خرید و فروخت کرنا، سونا، کسی دینی کام میں مشغول ہونا، حتی کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا، صلوۃ التسبیح پڑھنا، (جمعہ کے دن ظہر کی سنتیں کہاں سے آگئیں؟) غرض وہ سارے کام اور مشاغل جو جمعہ کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہوں سب کے سب مکروہ تحریمی اور ناجائز ہیں، حرام نہیں۔ سوال نامہ میں ایک جگہ آپ نے حرام لکھا ہے، لہٰذا اس کی اصلاح کرلی جائے۔ اس وقت کھانے کے مسئلہ میں تفصیل یہ ہے کہ اگر کھانے کی طرف رغبت اور بھوک اتنی غالب ہو کہ نماز کے دوران دل اس میں لگا رہنے کا اندیشہ ہو اور نماز سے فراغت تک کھانا بے لذت ہوجانے کا خطرہ ہو تو کھانا کھایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ خطبہ جمعہ کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ جمعہ کی تیاری کے متعلق جو کام ہیں وہ کئے جاسکتے ہیں جیسے غسل کرنا، وضو کرنا، لباس پہننا وغیرہ لیکن قصداً اذان تک دیگر کاموں میں مشغول رہنا اور اذان کے بعد غسل وغیرہ میں لگنا درست نہیں ہے۔ نیز مسجد پہنچ کر خطبہ سے پہلے قرآن کی تلاوت اور نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ اس کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔

4) بہتر تو یہی ہے کہ پہلی اذان اور خطبہ کے درمیان صرف اتنا ہی وقفہ ہو کہ اطمینان و سکون سے سنتیں ادا ہوجائیں۔ وعظ ونصیحت اذانِ اول سے پہلے ہوجائے۔ تاہم پہلی اذان کے بعد مختصر تقریر کا معمول بھی درست اور نفع بخش ہے جس کی وجہ سے ایک بڑے طبقے کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوتی ہے۔ نیز اس وقت وعظ ونصیحت کا ثبوت خود آثارِ صحابہ سے ملتا ہے جیسا کہ مستدرک حاکم میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے تقریر میں آنحضرت ﷺ کی احادیث بیان کیا کرتے تھے جب امام خطبہ کیلئے آتے تو وہ اپنی تقریر موقوف کر دیا کرتے تھے۔ (مستدرک، ۱/۱۰۸، ۳/۵۱۲)
قال الحاکم و الذھبیؒ صحیح۔ (ازراہ سنت مولانا محمد سرفراز خان صاحب)
اسی طرح مستدرک میں حضرت عبداللہ بن بسرؓ کا جمعہ کے دن خطبہ سے قبل وعظ کہنا منقول ہے۔ اور اصابہ فی تذکرۃ الصحابہ(۱۸۴/۱) میں ہے کہ حضرت تمیم داریؓ کے اصرار پر حضرت عمرؓ نے ان کو اجازت دیدی تھی کہ جمعہ کے دن اس سے قبل کہ میں خطبہ کیلئے آؤں، تقریر کر سکتے ہو۔ (ماہنامہ البلاغ، شوال ۱۴۱۵)

نیز شیخ الاسلام مفتی تقی صاحب عثمانی نے اپنے جواب میں پہلی اذان کے بعد پندرہ بیس منٹ تقریر کی گنجائش لکھی ہے اور آپ کے جواب کی تصویب کرتے ہوئے آپ کے برادر کبیر مفتی رفیع صاحب عثمانی نے بیس پچیس منٹ تک کی اجازت دی ہے۔ (فتاوی عثمانی، ۱/۵٤٦)

لہٰذا جمعہ کی پہلی اذان کے بعد مطلقاً تقریر کو تاخیر کا سبب سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ البتہ بہت سی مساجد میں اس وقت لمبی چوڑی تقریروں اور بے ضرورت مضامین اور غیرعالموں کےمخصوص قسم کے غیرمعیاری بیانات کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اس کی بھی اصلاح ضروری ہے۔ یہ قطعاً نہ ہو کہ وعظ و تقریر کا مبارک سلسلہ ہی بند کر دیا جائے، کیونکہ مغربی تہذیب کا دلدادہ آزاد خیال طبقہ یہی چاہتا ہے کہ ہر ہفتہ جو دین و شریعت کی کچھ باتیں مسلمانوں کے کانوں میں خطبہ جمعہ سے پہلے پڑ جاتی ہیں انہیں اس کا موقع بھی نہ ملے۔

درج بالا تمام باتوں کا خلاصہ یہ کہ ہر چیز میں حدود شریعت کی پابندی اور اعتدال کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، معترضین تمام دلائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعتراض کریں اور واعظین بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خطبات کی جامعیت کا احساس رکھتے ہوئے خطاب کریں۔

5) دونوں اذان کے درمیان وقفہ ہونے کی صورت میں جو لوگ بلاعذر تاخیر سے مسجد آئیں گے وہی اس کے گناہ گار ہوں گے، مسجد کے ذمہ داران، امام اور مقرر پر اس کا کوئی وبال نہ ہوگا۔ کیونکہ وقفہ کم رکھنے کی صورت میں بھی جنہیں تاخیر سے آنا ہے وہ تاخیر سے ہی آتے ہیں جس کا ذاتی مشاہدہ ہے، ہماری کوہ نور مسجد میں اذان اوّل سے پہلے ہی تقریر ہوجاتی ہے جس میں ایک بڑا طبقہ شامل ہوجاتا ہے۔ دونوں اذان کے درمیان صرف پندرہ منٹ کا وقفہ ہے اس کے باوجود مصلیان کی ایک تعداد اخیر کے پانچ منٹ میں آتی ہے۔ اور  چند افراد تو دورانِ خطبہ وضو میں مشغول رہتے ہیں، یہی حال شہر کی تقریباً تمام مساجد کا ہے۔ تاہم انتظامیہ اور امام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وقفہ کم سے کم رکھیں اور تقریر کا وقت تیس پینتیس منٹ سے زیادہ نہ رکھیں۔ بعض مساجد میں پون گھنٹے سے زائد تقریر کا معمول ہے جو اکثر غیرمعیاری ہونے کی وجہ سے مصلیان کے لیے بے زاری کا سبب بھی بنتی ہے۔

6) جمعہ کی نماز کا وقت تاخیر سے مصلیان کی رعایت میں رکھا جاتا ہے جس کی گنجائش موجود ہے، اوپر دلائل بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ البتہ اتنی تاخیر سے نماز  جمعہ  کا  وقت  مقرر کرنا کہ اگلی  نماز  کا  وقت قریب ہونے لگے یا امام  کا  مقررہ  وقت  سے بلاوجہ اتنی زیادہ تاخیر کرنا کہ جس سے مقتدیوں کو پریشانی ہو، یہ طریقہ خلافِ سنت ہے۔ تاخیر سے جمعہ کی نماز قائم کرنا صرف غیرافضل ہے، مکروہ اور خلافِ سنت نہیں۔ جیسا کہ اولین مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان صاحب رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں اس سوال کے جواب میں کہ جمعہ کو سوا بجے پڑھنے والے افضلیت پر ہیں یا ڈھائی بجے پڑھنے والے افضلیت پر ہیں، لکھتے ہیں :
جمعہ میں تعجیل افضل ہے ایک بجے، سوا بجے پڑھنے والے افضلیت پر ہیں۔ (عزیز الفتاوی، ص۲۷۴)

7) تعجیل مستحب ہے، تاکیدی سنت نہیں کہ جس پر عمل نہ ہونے کی صورت میں نکیر کی جائے اور پورے شہر کے علماء، ائمہ اور مساجد کے ذمہ داران کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ ویسے بھی اب شہر کی متعدد مساجد میں اوّل وقت میں نماز جمعہ ادا کی جارہی ہے، لہٰذا سنت کو زندہ کرنے والا جملہ یہاں بے محل استعمال ہوا ہے۔

8) مصلیان کی ایک بڑی تعداد جو جمعہ کی فرض نماز کے بعد چار رکعت سنت مؤکدہ ہی اطمینان وسکون سے پڑھ لے تو غنیمت ہے۔ ایسے حالات میں کیا ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ نماز کے بعد وعظ ونصیحت سننے کے لیے ٹھہریں گے؟ بلاشبہ نماز کے بعد تقریر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اعتدال میں رہتے ہوئے نماز سے پہلے بھی تو کوئی قباحت نہیں ہے۔ لہٰذا آپ کا اصرار بھی صحیح نہیں ہے۔

1) عن أنس بن مالک رضی اﷲ عنہ أن رسول اﷲ ﷺ  کان یصلی الجمعۃ حین تمیل الشمس۔ (صحیح البخاری،۱۲۳/۱)

وأول  وقت الظہر إذا زالت الشمس وآخر وقتہا عند أبی حنیفۃؒ إذا صار ظل کل شئ مثلیہ سوی فئ الزوال۔ (درمختار : ۲؍۱۴)

وجمعۃ کظہر الخ۔ (درمختار : ۲؍۲۵)

وقال الجمہورلیس بمشروع (أی الإبراد) لأنہا تقام بجمع عظیم فتأخیرہا مفض إلی الحرج ولا کذلک الظہر۔ (شامی : ۲؍۲۵)

قال الطیبي : وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزما، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال۔ (مرقاۃ، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في التشہد، ۲/ ۳۵۳)

الإصرار علی أمر مندوب یبلغہ حد الکراہۃ۔ (سعایہ ۲/ ۲۶۵)

2) یا أیھا الذین اٰمنوا إذا نودي للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا إلی ذکر اللہ وذروا البیعَ ، ذلکم خیرٌ لکم إن کنتم تعلمون o فإذا قُضیت الصلوۃ فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل اللہ ، واذکروا اللہ کثیرًا لعلکم تفلحون ۔ (سورۃ الجمعۃ، آیت : ۹، ۱۰)

وإذا أذن المؤذنون الأذان الأول ترک الناس البیع والشراء وتوجہوا إلی الجمعۃ ۔ (ہدایہ، ۱/۱۷۱، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ)

ويجب السعي وترك البيع بالأذان الأول، … وقال الحسن بن زياد: المعتبر هو الأذان على المنارة، والأصح أن كل أذان يكون قبل الزوال فهو غير معتبر والمعتبر أول الأذان بعد الزوال سواء كان على المنبر أو على الزوراء، كذا في الكافي.(الفتاوى الهندية :۱؍۱۴۹، صلاۃ الجمعۃ)

والبیع عنداذان  الجمعۃ قال اللّٰہ تعالٰی وذرواالبیع ثمّ فیہ اخلال بواجب السعی علٰی بعض ابوجوہ وقد ذکرنا الاذان  المعتبر فیہ فی کتاب الصلوٰۃ کل ذٰلک یکرہ لماذکرناولایفسد بہ البیع۔ (ہدایہ : ۳؍۶۹،فصل فیما یکرہ، کتاب البیوع)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ربیع الاول 1441

پیر، 29 نومبر، 2021

سنیما گھر میں نوجوانوں کی آتش بازی کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

قارئین کرام ! شہر عزیز اپنی گوناگوں صفات کی وجہ سے ملک بھر بلکہ بیرون ملک بھی مشہور ومعروف ہے۔ شہریان اپنے اچھے کاموں کے ذریعے اس کا نام روشن کرتے رہتے ہیں۔ کرونا کے حالات میں ڈاکٹروں اور سوشل ورکروں نے جہاں شہر عزیز کی نیک نامی میں چار چاند لگائے ہیں تو وہیں دین سے دور اور عقل وشعور سے پیدل نوجوانوں نے اس کی شبیہ پر سوالیہ نشان لگانے کا بھی کام کیا ہے۔

ہم نے پہلے ہی کافی کچھ کھو دیا ہے۔ ہم اپنی مذہبی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں، ہماری تہذیب کا دامن ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے، ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں، ہماری معاشی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اور آج ہمارے نوجوانوں کو اس بات کا احساس بھی نہیں رہ گیا کہ ہم نے کیا کیا کھو دیا ہے؟ اور کیا کھو رہے ہیں؟ اور مستقبل میں کیا کھو دیں گے؟ ایسے حالات میں تو یہی شعر یاد آتا کہ :

وائے   ناکامی   متاع    کارواں    جاتا     رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

آج ہمارے شہر کے بعض افراد ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں تو وہیں حالات کی سنگینی سے بالکل بے خبر اور احساس سے عاری کچھ نوجوانوں کو مالیگاؤں کی زبان میں کہا جائے تو ہری ہری سوجھ رہی ہے۔ ایسے لوگ جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ پردہ پر جتنے ہی یہ غریبوں کے مسیحا نظر آتے ہیں حقیقت میں یہ اتنے ہی چاپلوس، خوشامدی اور ابن الوقت ہوتے ہیں۔ ان کی reel life اور real life میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ان کے نام کچھ اور ہوں گے لیکن پردہ پر ان کا کردار کسی دوسرے مذہب کا ہوتا ہے جسے یہ بخوبی نبھاتے ہیں، ابھی ایک فلم کو لے کر چند شرپسندوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کی ہے، لیکن اس نام کے مسلمان اداکاروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کبھی ان کی زبان اس مسئلے پر نہیں کھلے گی۔ اور ہمارے بعض نوجوان ایسے لوگوں کے عاشق بنے ہوئے ہیں، ان کی فلموں کی نمائش کے وقت آتش بازی کررہے ہیں، ان پر اپنے حلال اور خون پسینے سے کمائے گئے مال کو بے دردی سے لٹا رہے ہیں۔  جبکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح علم ہوجانا چاہیے کہ آدمی دنیا میں جس سے محبت کرتا ہے اور اس کے جیسی حرکتیں کرتا ہے تو قیامت میں اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا، تو کیا ہمارے یہ نوجوان اس بات کو پسند کریں گے کہ ان کا حشر انہیں کے ساتھ ہو؟

سب سے پہلی بات تو فلمیں دیکھنا گناہ کبیرہ، پھر ناچ گانا کرنے والے بھانڈ لوگوں کے فین اور ان کے عاشق بننا، ان کے نام پر اپنے خون پسینے کی حلال کمائی برباد کرنا۔ آتش بازی کرکے اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنا، قانون کی خلاف ورزی کرنا یہ سب کے سب ناجائز اور حرام کام ہیں، اور مومن کی یہ شان ہی نہیں ہے کہ وہ ایک ساتھ ایسے بڑے بڑے گناہوں میں ملوث ہو۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، انہیں دیکھ کر مستقبل طے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ہمارے نوجوان اللہ کے لیے حالات کی سنگینی کو سمجھیں اور فوری طور پر ایسے اعمال سے باز آجائیں جو دین ودنیا دونوں کو برباد کرکے رکھ دے۔

اسی طرح ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے بقدر ان برائیوں کو روکنے کی کوشش کریں، والدین اپنے بچوں کی مکمل خبر گیری کریں، بھائی بھائی پر دھیان دے۔ دوست دوست کی فکر کرے اور اسے برائیوں سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرے، تب جاکر معاشرہ میں کوئی سدھار آئے گا۔

اللہ تعالٰی ہمارے نوجوانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے، فضولیات اور منکرات سے ان کی حفاظت فرمائے اور قوم وملت کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ان میں پیدا فرمائے۔ آمین

اتوار، 28 نومبر، 2021

جمعہ کے دن مسجد میں اجتماعی طور پر سورہ کہف کی تلاوت کرنا

سوال :

حضرت مفتی صاحب ! جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں، ہماری مسجد میں جمعہ کی نماز (سنت و نفل) کے بعد ایک حافظ صاحب با آواز بلند سورہ کہف کی تلاوت کرتے ہیں اور چند لوگ جس میں ایک حافظ صاحب بھی ہوتے ہیں، بیٹھ کر سنتے ہیں، پہلے چند ہی لوگ ہوتے تھے، اب باقاعدہ اس سورہ کہف کے دَور میں شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے اور شریک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
(المستفتی : قاری توصیف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کے فضائل احادیث صحیحہ میں وارد ہوئے ہیں، لیکن اس طرح سورہ کہف پڑھنا کہ ایک آدمی پڑھے اور کچھ لوگ سنیں تو یہ طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المدخل" میں جمعہ کے دن سورہ کہف مسجد میں اجتماعی طور پر پڑھنے کو بدعت لکھا ہے۔ (١)

صاحب فتاوی فلاحیہ مفتی احمد ابراہیم بیمات رحمۃ اللہ علیہ جمعہ کے دن سورہ کہف اجتماعی طور پر پڑھنے کی قباحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
مذکور طریق کے مطابق پڑھنا خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے حضرات علماء نہیں پڑھیں گے، تو نا واقف لوگ ان پرلعن طعن کریں گے اور ان کے لعن طعن کاسبب یہی پڑھنے والے لوگ بنیں گے، لہٰذا یہ ناجائز اورحرام ہے۔

مساجد بنانے کے مقاصد میں سے یہ ہے کہ ان میں اللہ رب العزت کا ذکر کیا جائے۔ تو جو حضرات نماز، تسبیح، تحمید، استغفار اور درود شریف وغیرہ پڑھنے میں مشغول ہوں گے، اس طریقے سے سورہ کہف پڑھنے کی وجہ سے ان کے معمولات میں خلل واقع ہوگا، لہٰذا مذکورہ طریقے سے سورۂ کہف پڑھنا جائز نہیں ہے۔ (فتاوی فلاحیہ : ١/٤٤٧)

مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفصل اور مدلل جواب تحریر فرماتے ہیں :
امام شا طبی ؒفرماتے ہیں کہ عبادات میں خاص خاص کوائف اور رسمیں اور اوقات کی تعیین (جو شریعت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے ) ناجائز اور بدعت ہے۔ (الاعتصام : ۱/۳۴) یہ بھی قابل توجہ ہے کہ صرف سورۂ کہف ہی نہیں بلکہ جمعہ کے روز ’’ سورۂ اخلاص‘‘ ہزار بار ’’ سورہ آل عمران‘‘ سورۂ ہود ، سورۂ صافات ، ’’ صلوٰۃ التسبیح‘‘ درود شریف اور دعاء واستعغفار میں مشغول رہنے کی بھی فضیلتیں احادیث میں وارد ہیں اور یہ بھی روایت ہے کہ جس وقت سورۂ کہف پڑھی جاتی ہے یعنی بعد زوال خاص اس وقت صحابہ ٔ کرام دوسرے عمل کیا کرتے تھے مثلاً حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما صلوٰۃ التسبیح پڑھا کرتے تھے۔ (احیاء العلوم ج ۱ ص۱۶۹) اور حضرت ﷺ بو ہریرہ ؓ حاضرین کو احادیث سناتے تھے۔ (مستدرک حاکم ج ۱ ص ۱۰۸) اور حضرت تمیم داری ؒ وعظ فرمایا کرتے تھے۔ (مسند امام احمد ج۳ ص ۴۴۰) خلاصہ یہ ہے کہ جس سے جو کچھ ہوسکے اور جس چیز کا موقع ہو وہ کرے، ہمیشہ ایک ہی چیز ایک ہی وقت اور ایک ہی طریقہ اور ایک ہی رسم کو پکڑ رکھنا اور دوسرے سب فضائل کو ترک کردینا دین میں غلط دخل اندازی ہے، رہا عوام کو ثواب میں شامل کرنا تو اس کا شوق یا اس کی حرص وطمع، صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین رضی اﷲ عنہم اور خود آنحضرت ﷺ کو ہم سے کہیں زیادہ تھی صحابہ ٔ کرام کے آخری دور میں اور تابعین و تبع تابعین کے زمانہ میں جدید الاسلام (نو مسلموں) کی تعداد بھی کافی رہا کرتی تھی مگر کسی سے ثابت نہیں ہے کہ جمعہ کے دن اذان اول کے بعد مسجد میں جمع ہو کر سورۂ کہف سننے سنانے کا اہتمام کیا کرتے تھے یا بلا اہتمام یہ عمل کیا کرتے تھے۔ آج ہم یہ نئی چیز ایجاد کر کے گویا یہ ثابت کرتے ہیں کہ سلف صالحین اور خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم معاذ اﷲ غلطی پر تھے اور ان کو معاذ اﷲ اشاعت دین کا شوق نہیں تھا۔ جس نے نئی بات ایجاد کی اور اس کو اچھا سمجھا تو اس نے حضورﷺ کو تبلیغ دین میں خائن اور معاذ اﷲ قاصر گردانا۔ (الاعتصام : ۱/۴۸)

بہرحال ہماری کامیابی اور ہماری سعادت ان نئی ایجادوں میں نہیں ہے بلکہ ہماری سعادت اور کامیابی یہ ہے کہ سید الا نبیاء صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کی پوری پوری پیروی کریں ادھر ادھر نہ بھٹکیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے آگاہ فرما دیا تھا کہ جو میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت اختلاف دیکھیں گے۔ اس آگاہی کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی تاکید فرمادی تھی کہ میرے طریقہ اور خلفاء راشدین کے طریقہ کو ہرگز نہ چھوڑنا۔ اس پر مضبوطْی سے جمے رہنا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد فرمادیا تھا کہ دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے (اور گمراہی کا ٹھکانہ دوزخ ہے)۔ (مشکوٰۃ شریف، ص : ۳۰/فتاوی رحیمیہ : ٢/٢٣٦)

خلاصہ یہ کہ احادیث مقدسہ اور کتب فقہ کے حوالوں سے ثابت ہوگیا کہ آپ کی مسجد میں نماز جمعہ کے بعد سورۂ کہف پڑھنے کا یہ معمول شرعاً درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی سننے والوں کو پڑھنے کی فضیلت حاصل ہوگی، بلکہ شریعت میں ایک نیا کام ایجاد کرنے اور اس کی دعوت دینے کی وجہ سے یہ لوگ گناہ گار ہوں گے۔ لہٰذا اس طریقہ کو فوراً بند کردیا جائے، جنہیں پڑھنا آتا ہو وہ انفرادی طور پڑھیں اور جنہیں نہیں آتا وہ پڑھنے کی کوشش کریں کہ وہ بس اسی کے مکلف ہیں۔

وإذا كانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ فَيَنْبَغِي لَهُ أنْ يَنْهى النّاسَ عَمّا أحْدَثُوهُ مِن قِراءَةِ سُورَةِ الكَهْفِ يَوْمَ الجُمُعَةِ جَماعَةً فِي المَسْجِدِ أوْ غَيْرِهِ وإنْ كانَ قَدْ ورَدَ اسْتِحْبابُ قِراءَتِها كامِلَةً فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ خُصُوصًا فَذَلِكَ مَحْمُولٌ عَلى ما كانَ عَلَيْهِ السَّلَفُ - لا عَلى ما نَحْنُ عَلَيْهِ فَيَقْرَأُها سِرًّا فِي نَفْسِهِ فِي المَسْجِدِ أوْ جَهَرا فِي غَيْرِهِ أوْ فِيهِ إنْ كانَ المَسْجِدُ مَهْجُورًا ما لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَن يَتَشَوَّشُ بِقِراءَتِهِ والسِّرُّ أفْضَلُ، وأمّا اجْتِماعُهُمْ لِذَلِكَ فَبِدْعَةٌ كَما تَقَدَّمَ۔ (المدخل : ٢/٢٨١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الآخر 1443