اتوار، 28 نومبر، 2021

جمعہ کے دن مسجد میں اجتماعی طور پر سورہ کہف کی تلاوت کرنا

سوال :

حضرت مفتی صاحب ! جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں، ہماری مسجد میں جمعہ کی نماز (سنت و نفل) کے بعد ایک حافظ صاحب با آواز بلند سورہ کہف کی تلاوت کرتے ہیں اور چند لوگ جس میں ایک حافظ صاحب بھی ہوتے ہیں، بیٹھ کر سنتے ہیں، پہلے چند ہی لوگ ہوتے تھے، اب باقاعدہ اس سورہ کہف کے دَور میں شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے اور شریک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
(المستفتی : قاری توصیف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کے فضائل احادیث صحیحہ میں وارد ہوئے ہیں، لیکن اس طرح سورہ کہف پڑھنا کہ ایک آدمی پڑھے اور کچھ لوگ سنیں تو یہ طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المدخل" میں جمعہ کے دن سورہ کہف مسجد میں اجتماعی طور پر پڑھنے کو بدعت لکھا ہے۔ (١)

صاحب فتاوی فلاحیہ مفتی احمد ابراہیم بیمات رحمۃ اللہ علیہ جمعہ کے دن سورہ کہف اجتماعی طور پر پڑھنے کی قباحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
مذکور طریق کے مطابق پڑھنا خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے حضرات علماء نہیں پڑھیں گے، تو نا واقف لوگ ان پرلعن طعن کریں گے اور ان کے لعن طعن کاسبب یہی پڑھنے والے لوگ بنیں گے، لہٰذا یہ ناجائز اورحرام ہے۔

مساجد بنانے کے مقاصد میں سے یہ ہے کہ ان میں اللہ رب العزت کا ذکر کیا جائے۔ تو جو حضرات نماز، تسبیح، تحمید، استغفار اور درود شریف وغیرہ پڑھنے میں مشغول ہوں گے، اس طریقے سے سورہ کہف پڑھنے کی وجہ سے ان کے معمولات میں خلل واقع ہوگا، لہٰذا مذکورہ طریقے سے سورۂ کہف پڑھنا جائز نہیں ہے۔ (فتاوی فلاحیہ : ١/٤٤٧)

مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفصل اور مدلل جواب تحریر فرماتے ہیں :
امام شا طبی ؒفرماتے ہیں کہ عبادات میں خاص خاص کوائف اور رسمیں اور اوقات کی تعیین (جو شریعت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے ) ناجائز اور بدعت ہے۔ (الاعتصام : ۱/۳۴) یہ بھی قابل توجہ ہے کہ صرف سورۂ کہف ہی نہیں بلکہ جمعہ کے روز ’’ سورۂ اخلاص‘‘ ہزار بار ’’ سورہ آل عمران‘‘ سورۂ ہود ، سورۂ صافات ، ’’ صلوٰۃ التسبیح‘‘ درود شریف اور دعاء واستعغفار میں مشغول رہنے کی بھی فضیلتیں احادیث میں وارد ہیں اور یہ بھی روایت ہے کہ جس وقت سورۂ کہف پڑھی جاتی ہے یعنی بعد زوال خاص اس وقت صحابہ ٔ کرام دوسرے عمل کیا کرتے تھے مثلاً حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما صلوٰۃ التسبیح پڑھا کرتے تھے۔ (احیاء العلوم ج ۱ ص۱۶۹) اور حضرت ﷺ بو ہریرہ ؓ حاضرین کو احادیث سناتے تھے۔ (مستدرک حاکم ج ۱ ص ۱۰۸) اور حضرت تمیم داری ؒ وعظ فرمایا کرتے تھے۔ (مسند امام احمد ج۳ ص ۴۴۰) خلاصہ یہ ہے کہ جس سے جو کچھ ہوسکے اور جس چیز کا موقع ہو وہ کرے، ہمیشہ ایک ہی چیز ایک ہی وقت اور ایک ہی طریقہ اور ایک ہی رسم کو پکڑ رکھنا اور دوسرے سب فضائل کو ترک کردینا دین میں غلط دخل اندازی ہے، رہا عوام کو ثواب میں شامل کرنا تو اس کا شوق یا اس کی حرص وطمع، صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین رضی اﷲ عنہم اور خود آنحضرت ﷺ کو ہم سے کہیں زیادہ تھی صحابہ ٔ کرام کے آخری دور میں اور تابعین و تبع تابعین کے زمانہ میں جدید الاسلام (نو مسلموں) کی تعداد بھی کافی رہا کرتی تھی مگر کسی سے ثابت نہیں ہے کہ جمعہ کے دن اذان اول کے بعد مسجد میں جمع ہو کر سورۂ کہف سننے سنانے کا اہتمام کیا کرتے تھے یا بلا اہتمام یہ عمل کیا کرتے تھے۔ آج ہم یہ نئی چیز ایجاد کر کے گویا یہ ثابت کرتے ہیں کہ سلف صالحین اور خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم معاذ اﷲ غلطی پر تھے اور ان کو معاذ اﷲ اشاعت دین کا شوق نہیں تھا۔ جس نے نئی بات ایجاد کی اور اس کو اچھا سمجھا تو اس نے حضورﷺ کو تبلیغ دین میں خائن اور معاذ اﷲ قاصر گردانا۔ (الاعتصام : ۱/۴۸)

بہرحال ہماری کامیابی اور ہماری سعادت ان نئی ایجادوں میں نہیں ہے بلکہ ہماری سعادت اور کامیابی یہ ہے کہ سید الا نبیاء صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کی پوری پوری پیروی کریں ادھر ادھر نہ بھٹکیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے آگاہ فرما دیا تھا کہ جو میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت اختلاف دیکھیں گے۔ اس آگاہی کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی تاکید فرمادی تھی کہ میرے طریقہ اور خلفاء راشدین کے طریقہ کو ہرگز نہ چھوڑنا۔ اس پر مضبوطْی سے جمے رہنا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد فرمادیا تھا کہ دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے (اور گمراہی کا ٹھکانہ دوزخ ہے)۔ (مشکوٰۃ شریف، ص : ۳۰/فتاوی رحیمیہ : ٢/٢٣٦)

خلاصہ یہ کہ احادیث مقدسہ اور کتب فقہ کے حوالوں سے ثابت ہوگیا کہ آپ کی مسجد میں نماز جمعہ کے بعد سورۂ کہف پڑھنے کا یہ معمول شرعاً درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی سننے والوں کو پڑھنے کی فضیلت حاصل ہوگی، بلکہ شریعت میں ایک نیا کام ایجاد کرنے اور اس کی دعوت دینے کی وجہ سے یہ لوگ گناہ گار ہوں گے۔ لہٰذا اس طریقہ کو فوراً بند کردیا جائے، جنہیں پڑھنا آتا ہو وہ انفرادی طور پڑھیں اور جنہیں نہیں آتا وہ پڑھنے کی کوشش کریں کہ وہ بس اسی کے مکلف ہیں۔

وإذا كانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ فَيَنْبَغِي لَهُ أنْ يَنْهى النّاسَ عَمّا أحْدَثُوهُ مِن قِراءَةِ سُورَةِ الكَهْفِ يَوْمَ الجُمُعَةِ جَماعَةً فِي المَسْجِدِ أوْ غَيْرِهِ وإنْ كانَ قَدْ ورَدَ اسْتِحْبابُ قِراءَتِها كامِلَةً فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ خُصُوصًا فَذَلِكَ مَحْمُولٌ عَلى ما كانَ عَلَيْهِ السَّلَفُ - لا عَلى ما نَحْنُ عَلَيْهِ فَيَقْرَأُها سِرًّا فِي نَفْسِهِ فِي المَسْجِدِ أوْ جَهَرا فِي غَيْرِهِ أوْ فِيهِ إنْ كانَ المَسْجِدُ مَهْجُورًا ما لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَن يَتَشَوَّشُ بِقِراءَتِهِ والسِّرُّ أفْضَلُ، وأمّا اجْتِماعُهُمْ لِذَلِكَ فَبِدْعَةٌ كَما تَقَدَّمَ۔ (المدخل : ٢/٢٨١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الآخر 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں