اتوار، 30 جون، 2024

گود بھرائی کی رسم کا حکم


سوال : 

مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ گود بھرائی (ستواسا) کی رسم کرنا کیسا ہے؟ اسقرار حمل کے ساتویں مہینے میں عورت کی گود بھری جاتی ہے۔ کپڑے، پھل فروٹ اور ہونے والے بچے کی مبارکبادی وغیرہ۔۔ آپ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : شیخ عارف، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور گود بھرائی کی رسم کا شریعت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک جاہلانہ، ہندوانہ اور احمقانہ رسم ہے جو بلاشبہ شرعاً ناجائز ہے، لہٰذا ایسی رسم سے بچنا اور بقدر استطاعت دوسروں کو روکنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔


عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ۴۰۳۱)

قال القاري : أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ … الخ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس / باب في الشہرۃ، ۱۲؍۵۹ مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
23 ذی الحجہ 1445

ہفتہ، 29 جون، 2024

زکوٰۃ کی رقم سے بورنگ کروانا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین کہ زید کے پاس زکوۃ  کی رقم ہے۔ کیا زید اس رقم سے کسی ضرورت مند علاقے میں بورنگ کروا سکتا ہے؟
(المستفتی : قاسم انصاری، ممبئی)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : زکوٰۃ کی رقم سے بورنگ کروانا جائز نہیں، کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے۔ تملیک کا مطلب یہ ہے کہ کسی مستحقِ زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک اور مختار بنا دیا جائے۔ صورتِ مسئولہ میں بورنگ کروانے میں چونکہ تملیک نہیں پائی جائے گی (خواہ وہ علاقہ ضرورت مند ہی کیوں نہ ہو) لہٰذا زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ البتہ کسی مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم دے دی جائے پھر وہ اپنی مرضی اور خوشی سے بورنگ کروا دے تو الگ بات ہے، اس طرح زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ 


أَمَّا تَفْسِيرُهَا فَهِيَ تَمْلِيكُ الْمَالِ مِنْ فَقِيرٍ مُسْلِمٍ غَيْرِ هَاشِمِيٍّ، وَلَا مَوْلَاهُ بِشَرْطِ قَطْعِ الْمَنْفَعَةِ عَنْ الْمُمَلِّكِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ لِلَّهِ - تَعَالَى - هَذَا فِي الشَّرْعِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٧٠)

وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَبْنِيَ بِالزَّكَاةِ الْمَسْجِدَ، وَكَذَا الْقَنَاطِرُ وَالسِّقَايَاتُ، وَإِصْلَاحُ الطَّرَقَاتِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ وَكُلُّ مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُكَفَّنَ بِهَا مَيِّتٌ، وَلَا يُقْضَى بِهَا دَيْنُ الْمَيِّتِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٨٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ذی الحجہ 1445

بدھ، 26 جون، 2024

عید غدیر کی شرعی حیثیت


سوال : 

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے عید غدیر کیا ہے؟ کون لوگ اسے مناتے ہیں؟ مکمل ومدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حجۃ الوداع‘‘سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے) پر خطبہ ارشادفرمایا تھا اور اس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشاد فرمایا تھا :  "من کنت مولاه فعلي مولاه" یعنی جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے۔

اس کا پس منظر یہ تھا کہ ’’حجۃ الوداع‘‘ سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف والی/ عامل بناکر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کرکے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا، اور یہ اعتراض براہِ راست نبی کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوکر دوہرایا، آپ ﷺ نے انہیں اسی موقع پر انفرادی طور پر سمجھایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصویب فرمائی، بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی کا اس سے بھی زیادہ حق تھا، نیز آپ ﷺ نے انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا حکم دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں دل میں کدورت اور میل رکھنے سے منع فرمایا، چناں چہ ان حضرات کے دل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بالکل صاف ہوگئے، وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ  نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ہمارے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ محبوب ہوگئے۔ البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں، آپ ﷺ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپ ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت اور ان کا حق ہونا بیان فرمائیں، چناں چہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق واضح فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرماکر دور فرمادیا: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ" یعنی اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا/میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہوگا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہوجا۔ آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا : اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو! آپ صبح و شام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے محبوب بن گئے۔ حضراتِ شیخین سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پہلے سے تھی، جن چند لوگوں کے دل میں کچھ شبہات تھے آپ ﷺ  کے اس ارشاد کے بعد ان کے دل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت سے سرشار ہوگئے۔ اس خطبہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اور مقرب بندے ہیں، ان سے اور میرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنا ایمان کا تقاضہ ہے، اور ان سے بغض وعداوت یا نفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے۔

مذکورہ پس منظر سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا  غدیرخُم  میں "من کنت مولاه فعلي مولاه"ارشادفرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لیے نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر ومنزلت بیان کرنے اور معترضین کے شکوک دور کرنے کے لیے تھا، نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قرار دینے کے لیے تھا۔ اور الحمدللہ! اہلِ سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اہلِ ایمان ہی محبت رکھتے ہیں۔

مذکورہ خطبے اور ارشاد کی حقیقت یہی تھی جو بیان ہوچکی۔ باقی  ایک گمراہ فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت بلافصل ثابت کرتا ہے، اور چوں کہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتا ہے، اور اسے ’’عید غدیر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دن عید کی ابتداء کرنے والا ایک حاکم معزالدولۃ گزرا ہے، اس شخص نے 18ذوالحجہ 351ہجری کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا تھا اور اس کا نام"عید خُم غدیر" رکھا۔

اولاً تو اس عیدِ غدیر کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے، دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے۔ ان کی مخالفت میں بھی بعض بدنصیب لوگ اس دن اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں۔  

معلوم ہونا چاہیے کہ دینِ اسلام میں صرف دوعیدیں ہیں : ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحیٰ۔ ان دو کے علاوہ دیگرتہواروں اور عیدوں کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، لہٰذا "عید غدیر" منانا ناجائز ہے جس سے اہلِ ایمان و اسلام کو دور رہنا ضروری ہے۔


سنن ابن ماجہ میں ہے :

"حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»". (رقم الحديث: ١٢١، فضل علي بن أبي طالب رضي الله عنه ١/ ٤٥)

"فضائل الصحابة لأحمد ابن حنبل" میں ہے :

"حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَفَّانُ قال: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: أنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ، فَنُودِيَ فِينَا: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ". ( رقم الحديث: ١٠١٦، فضائل علي رضي الله عنه ، ٢/ ٥٩٦،ط: مؤسسة الرسالة بيروت)

"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے :

"حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ح وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: ثنا شَرِيكٌ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: بَيْنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ جَالِسٌ فِي الرَّحَبَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَايَ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: أَبُو أَيُّوبَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»". (رقم الحديث: ٤٠٥٢، ٤/ ١٧٣، ط: مكتبة ابن تيمية)

"شرح ابن ماجة للسيوطي" میں ہے :

"«من كنت مَوْلَاهُ فعلي مَوْلَاهُ» قَالَ فِي النِّهَايَة: الْمولى اسْم يَقع على جمَاعَة كَثِيرَة، فَهُوَ الرب الْمَالِك، وَالسَّيِّد، والمنعم، وَالْمُعتق، والناصر، والمحب التَّابِع، وَالْجَار، وَابْن الْعم، والحليف، والصهر، وَالْعَبْد، وَالْمُعتق، والمنعم عَلَيْهِ. وَهَذَا الحَدِيث يحمل على أَكثر الْأَسْمَاء الْمَذْكُورَة، وَقَالَ الشَّافِعِي: عَنى بذلك وَلَاء الْإِسْلَام، كَقَوْلِه تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾،[محمد:١١] وَقيل: سَبَب ذَلِك أن أُسَامَة قَالَ لعَلي رَضِي الله عنه: لستَ مولَايَ، إنما مولَايَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك". ( باب اتباع السنة، ١/ ١٢ ،ط: قديمي)

"قوت المقتذي علي جامع الترمذي"میں ہے :

"من كُنْتُ مَوْلاَهُ فعَليٌّ مَوْلاهُ". أراد بذلك ولاء الإسلام، كقوله تعالى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١]وقيل: سبب ذلك أن أسَامة قال لعَلي: لسْتَ مولاي، إنما مولاي رسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذلك''. (أبواب المناقب 2/1002 ط: رسالة الدكتوراة بجامعة أم القري)

"مرقاة المفاتيح"میں ہے:

"(وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ) ذِكْرُهُ تَقَدَّمَ (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ") . قِيلَ: مَعْنَاهُ: مَنْ كُنْتُ أَتَوَلَّاهُ فَعَلِيٌّ يَتَوَلَّاهُ، مِنَ الْوَلِيِّ ضِدِّ الْعَدُوِّ أَيْ: مَنْ كُنْتُ أُحِبُّهُ فَعَلِيٌّ يُحِبُّهُ، وَقِيلَ مَعْنَاهُ: مَنْ يَتَوَلَّانِي فَعَلِّيٌّ يَتَوَلَّاهُ، كَذَا ذَكَرَهُ شَارِحٌ مِنْ عُلَمَائِنَا. وَفِي النِّهَايَةِ: الْمَوْلَى يَقَعُ عَلَى جَمَاعَةٍ كَثِيرَةٍ، فَهُوَ الرَّبُّ، وَالْمَالِكُ، وَالسَّيِّدُ، وَالْمُنْعِمُ، وَالْمُعْتِقُ، وَالنَّاصِرُ، وَالْمُحِبُّ، وَالتَّابِعُ، وَالْخَالُ، وَابْنُ الْعَمِّ، وَالْحَلِيفُ، وَالْعَقِيدُ، وَالصِّهْرُ، وَالْعَبْدُ، وَالْمُعْتَقُ، وَالْمُنْعَمُ عَلَيْهِ، وَأَكْثَرُهَا قَدْ جَاءَتْ فِي الْحَدِيثِ، فَيُضَافُ كُلُّ وَاحِدٍ إِلَى مَا يَقْتَضِيهِ الْحَدِيثُ الْوَارِدُ فِيهِ، وَقَوْلُهُ: « مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ» يُحْمَلُ عَلَى أَكْثَرِ هَذِهِ الْأَسْمَاءِ الْمَذْكُورَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: يَعْنِي بِذَلِكَ وَلَاءَ الْإِسْلَامِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١] وَقَوْلِ عُمَرَ لِعَلِيٍّ: أَصْبَحْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ [أَيْ: وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ]، وَقِيلَ: سَبَبُ ذَلِكَ أَنَّ أُسَامَةَ قَالَ لِعَلِيٍّ: لَسْتَ مَوْلَايَ إِنَّمَا مَوْلَايَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ». " قُضِيَ " قَالَتِ الشِّيعَةُ: هُوَ مُتَصَرِّفٌ، وَقَالُوا: مَعْنَى الْحَدِيثِ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْتَحِقُّ التَّصَرُّفَ فِي كُلِّ مَا يَسْتَحِقُّ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّصَرُّفَ فِيهِ، وَمِنْ ذَلِكَ أُمُورُ الْمُؤْمِنِينَ فَيَكُونُ إِمَامَهُمْ. أَقُولُ: لَا يَسْتَقِيمُ أَنْ تُحْمَلَ الْوِلَايَةُ عَلَى الْإِمَامَةِ الَّتِي هِيَ التَّصَرُّفُ فِي أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ، لِأَنَّ الْمُتَصَرِّفَ الْمُسْتَقِلَّ فِي حَيَاتِهِ هُوَ هُوَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا غَيْرُ، فَيَجِبُ أَنْ يُحْمَلَ عَلَى الْمَحَبَّةِ وَوَلَاءِ الْإِسْلَامِ وَنَحْوِهِمَا. وَقِيلَ: سَبَبُ وُرُودِ هَذَا الْحَدِيثِ كَمَا نَقَلَهُ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّينِ الْجَزَرِيُّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ عَلِيًّا تَكَلَّمَ فيه بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهُ بِالْيَمَنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّهَ، خَطَبَ بِهَا تَنْبِيهًا عَلَى قَدْرِهِ، وَرَدًّا عَلَى مَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ كَبُرَيْدَةَ، كَمَا فِي الْبُخَارِيِّ. وَسَبَبُ ذَلِكَ كَمَا رَوَاهُ الذَّهَبِيُّ، وَصَحَّحَهُ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَهُ إِلَى الْيَمَنِ، فَرَأَى مِنْهُ جَفْوَةَ نَقْصِهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَتَغَيَّرُ وَجْهُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَيَقُولُ: «يَا بُرَيْدَةُ أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَفِي الْجَامِعِ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ : عَنِ الْبَرَاءِ، وَأَحْمَدُ عَنْ بُرَيْدَةَ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالضِّيَاءُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. فَفِي إِسْنَادِ الْمُصَنِّفِ الْحَدِيثَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ إِلَى أَحْمَدَ وَالتِّرْمِذِيِّ مُسَامَحَةٌ لَاتَخْفَى، وَفِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ وَالنَّسَائِيِّ وَالْحَاكِمِ عَنْ بُرَيْدَةَ بِلَفْظِ: «مَنْ كُنْتُ وَلِيُّهُ». وَرَوَى الْمَحَامِلِيُّ فِي أَمَالِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَفْظُهُ: «عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ مَوْلَى مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ». وَالْحَاصِلُ أَنَّ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَا مِرْيَةَ فِيهِ، بَلْ بَعْضُ الْحُفَّاظِ عَدَّهُ مُتَوَاتِرًا؛ إِذْ فِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُونَ صَحَابِيًّا، وَشَهِدُوا بِهِ لِعَلِيٍّ لَمَّا نُوزِعَ أَيَّامَ خِلَافَتِهِ، وَسَيَأْتِي زِيَادَةُ تَحْقِيقٍ فِي الْفَصْلِ الثَّالِثِ عِنْدَ حَدِيثِ الْبَرَاءِ". (باب مناقب علي بن أبي طالب، ج:٩ ط: دار الفكر)

"شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة"میں ہے:

" أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: أنا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ، قَالَ: نا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: نا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: نا هِلَالُ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي بِسْطَامٍ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ النَّاسِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَقَعَ بَيْنَ أُسَامَةَ وَبَيْنَ عَلِيٍّ تَنَازُعٌ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «يَا عَلِيُّ، يَقُولُ هَذَا لِأُسَامَةَ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّهُ» . وَقَالَ لِأُسَامَةَ: «يَا أُسَامَةُ، يَقُولُ هَذَا لِعَلِيٍّ، فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»". (رقم الحديث: ٢٦٤٠، ٨/ ١٤٥٩، ط: دار طيبة)

"الاعتقاد للبيهقي"میں ہے:

"فَقَدْ ذَكَرْنَا مِنْ طُرُقِهِ فِي كِتَابِ الْفَضَائِلِ مَا دَلَّ عَلَى مَقْصودِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ أَنَّهُ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيمَنِ كَثُرَتِ الشَّكَاةُ عَنْهُ، وَأَظْهَرُوا بُغْضَهُ، فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ، وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ، فَقَالَ: «مِنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ»، وَفِي بَعْضِ الرُّوَايَاتِ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمْ وَالِ مِنْ وَالِاهُ وَعَادِ مِنْ عَادَاهُ». وَالْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ وَمَودَّتُهُ، وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يوَالِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَلَا يُعَادِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَهُوَ فِي مَعْنَى مَا ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ «أَنَّهُ لَا يُحِبُّنِي إِلَا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ» . وَفِي حَدِيثِ بُرَيْدَةَ شَكَا عَلِيًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَبْغِضُ عَلِيًّا؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: لَا تُبْغِضْهُ، وَأَحْبِبْهُ وَازْدَدْ لَهُ حُبًّا، قَالَ بُرَيْدَةُ: فَمَا كَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إليَّ مِنْ عَلِيٍّ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔
مستفاد : فتوی دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر: 144008201430۔)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ذی الحجہ 1445

منگل، 25 جون، 2024

حجاج کرام کا استقبال کس طرح ہو؟


سوال :

محترم مفتی صاحب ! حجاج کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ حاجیوں کے استقبال میں لوگ مختلف طرح کے اعمال انجام دیتے ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ استقبال میں کون سے اعمال انجام دئیے جاسکتے ہیں؟ ان کی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج بلاشبہ ایک عظیم الشان مالی اور بدنی عبادت ہے، لہٰذا حجاج کرام کے سفر حج سے واپس آنے پر ان سے ملاقات، سلام ومصافحہ اور دعا کی درخواست کرنا حدیث شریف سے ثابت ہے۔

حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
حاجیوں کا استقبال تو اچھی بات ہے، ان سے ملاقات اور مصافحہ اور معانقہ بھی جائز ہے، اور ان سے دُعا کرانے کا بھی حکم ہے، لیکن یہ پھول اور نعرے وغیرہ حدود سے تجاوز ہے، اگر حاجی صاحب کے دِل میں عجب پیدا ہوجائے تو حج ضائع ہوجائے گا۔ اس لئے ان چیزوں سے احتراز کرنا چاہئے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ٤/٢٤٣)

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی تحریر فرماتے ہیں :
پھولوں کا ہار ڈالنا سلف صالحین سے کہیں ثابت نہیں مشرکین اپنے بتوں پر پھول چڑھاتے ہیں اور مبتدعین ان کی حرص میں قبور اور مزارات پر چڑھاتے ہیں، اب ایک قدم اور آگے بڑھاکر زندہ لیڈروں اور عازمین حج یا حجاج پر چڑھانے لگے اس سے زیادہ اور کوئی اس کی اصل معلوم نہیں ہوتی۳؂، اگر سونگھنے کیلئے کسی کو پھول یاکوئی اورخوشبو دیجائے تو وہ بہتر ہے، جس کا رد کرنا بھی خلاف سنت ہے۔ (فتاوی محمودیہ : ١٥/٣٩١)

لہٰذا حجاج کرام کے استقبال میں ان سے ملاقات کرنا، مصافحہ، معانقہ کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا اور مزید کچھ کرنا ہے تو انہیں پھول پیش کردینا یا ان کا منہ میٹھا کردینا کافی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَقِيتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَصَافِحْهُ وَمُرْهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ۔ (مسند أحمد، رقم : ۵۳۷۱-۶۱۱۲)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ۴۰۳۱)

قال القاري : أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ … الخ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس / باب في الشہرۃ، ۱۲؍۵۹ مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ عُرِضَ عَلَيْهِ رَيْحَانٌ فَلَا يَرُدُّهُ فَإِنَّهُ خَفِيفُ الْمَحْمِلِ طَيِّبُ الرِّيحِ۔ (صحیح مسلم، رقم : ٢٢٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی الحجہ 1445

اتوار، 23 جون، 2024

خلع کے بعد نکاح کی صورت؟


سوال : 

میری بیوی دو سال پہلے مجھ سے خلع لے چکی ہے، لیکن اب میں پھر سے اُسی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت میں نے صرف ایک طلاق دیا تھا اسکے بعد ہم کبھی رجوع نہیں ہوئے، وہ اپنے میکے میں ہی رہ رہی ہے۔ اب دوبارہ اس سے نکاح کرنا ہے تو اس میں کیا حلالہ کی ضرورت ہوگی؟ یا بغیر حلالہ کیے نکاح کر سکتا ہوں؟
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ آپ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی تو ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے۔ البتہ عدت کی مدت تین ماہواری گزرنے کے بعد یہ طلاق، طلاق بائن بن گئی۔

طلاقِ بائن کا حکم یہ ہے کہ عدت گذرنے کے بعد آپ کی بیوی آپ کے نکاح سے نکل گئی، اب وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو نئے مہر کے ساتھ آپ سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس صورت میں حلالۂ شرعیہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ اب آپ کو صرف دو  طلاق کا حق حاصل رہے گا۔

بطورِ خاص ملحوظ رہے کہ یہ ایک عوامی غلط فہمی ہے کہ جس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک یا دو طلاق کی صورت میں بھی عدت گذر جانے کے بعد تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے، جب تک تین طلاق نہیں دی جائے گی تین طلاق واقع نہیں ہوگی۔


عن سماکؓ قال : سمعت عکرمۃؓ یقول : الطلاق مرتان : فإمساک بمعروف، أو تسریح بإحسان، قال: إذا طلق الرجل امرأتہ واحدۃ فإن شاء نکحہا، وإذا طلقہا ثنتین فإن شاء نکحہا، فإذا طلقہا ثلاثاً فلا تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ما قالوا في الطلاق مرتان، ۱۰/۱۹۷، رقم:۱۹۵۶۴)

أما الطلاق الرجعي: فالحکم الأصلي لہ ہو نقصان العدد، فأما زوال الملک وحل الوطئ، فلیس بحکم أصلي لہ لازم، حتی لا یثبت للحال، وإنما یثبت في الثاني بعد انقضاء العدۃ، فإن طلقہا ولم یراجعہا؛ بل ترکہا حتی انقضت عدتہا بانت۔ (بدائع الصنائع : ۴؍۳۸۷)

وینکح مبانتہ بما دون الثلاث في العدۃ و بعدہا بالإجماع۔ (تنویر الأبصار : ۳؍۴۰۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ذی الحجہ 1445

ٹیچر الیکشن میں امیدوار سے تحائف قبول کرنا


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! ٹیچر حلقے انتخاب کیلئے 26 جون کو ووٹنگ ہونے والی ہے، جس میں صرف ٹیچر ہی ووٹ کر سکتا ہے۔
اسی الیکشن کے پیش نظر امیدوار اسکولوں میں تحائف (کپڑے، سونے کی نتھنیاں وغیرہ) بھیجتے ہیں۔
ایک ٹیچر نے سوال کیا ہے کہ اگر ہم اسی امیدوار کو ووٹ دیں تو کیا ان تحائف کا استعمال کرنا جائز ہوگا؟ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر تحائف کو قبول نا کیا جائے تو تعصب کا اندیشہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں تحائف کا کیا کیا جائے؟
(المستفتی : محمد مدثر، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں الیکشن کے ایام میں ٹیچر الیکشن میں امیدوار کی طرف سے ووٹروں کو دیئے جانے والے تحائف رشوت ہیں۔ اس لئے کہ الیکشن کے ایام میں ہی امیدوار کو اس کا خیال کیوں آیا؟ الیکشن کے ایام کے علاوہ اسے کبھی ٹیچروں کو تحائف دینے کا خیال کیوں نہیں آتا؟ تحائف دینے والا امیدوار اگر ہار جائے تو کیا وہ یہ نہیں سوچے گا کہ تحفہ لینے والوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے؟ نیز اگر امیدوار کو یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ تحفہ لینے والے نے مجھے ووٹ نہیں دی ہے تو کیا وہ اسے دھوکے باز نہیں سمجھے گا؟ اسی طرح اگر اس کا بس چل جائے تو وہ دھوکہ دینے والوں سے اپنا تحفہ وصول کرنے کی کوشش نہیں کرے گا؟

مذکورہ بالا وجوہات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ تحائف رشوت ہی ہیں کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں رشوت وہ مال ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لیے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے، جسے یہ چاہتا ہے، جس کا لینا اور دینا دونوں شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس کے لین دین پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔ (1)

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے۔ (2)

ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (3)

ذکر کردہ احادیث مبارکہ رشوت کی حرمت پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں، کیونکہ لعنت یعنی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کسی عظیم گناہ کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رشوت گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، لہٰذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اس ملعون عمل سے خود بھی بچے اور بقدر استطاعت دوسروں کو بچانے کی کوشش بھی کرے۔ تاہم اگر کسی نے لاعلمی یا کسی اور وجہ سے تحفہ قبول کرلیا ہے تو اسے پہلی فرصت میں واپس کردے اگر واپس کرنا ممکن نہ ہوتو اسے بلانیت ثواب کسی مستحق زکوٰۃ کو دے دے، اور ووٹ اہلیت اور قابلیت رکھنے والے امیدوار کو ہی دے۔


1) قال العلامۃ ابن عابدین :  الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید۔ (ردالمحتار، ۴:۳۳۷،۳۳۸ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)

2) عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم،)

3) عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبیﷺ: الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/۵۵۰، رقم:۲۰۲۶،)

4) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 ذی الحجہ 1445

ہفتہ، 22 جون، 2024

قربانی کا گوشت ولیمہ میں استعمال کرنا


سوال :

مفتی صاحب ! ایام قربانی میں شادی ہے، اور شادی ہی کی نیت سے جانور خریدا ہے، اب اگر اس میں قربانی کی نیت کرلے، اور گوشت شادی میں استعمال کرلے تو کیا قربانی معتبر ہوگی؟
(المستفتی : محمد طیب، بیڑ)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : عیدالاضحیٰ کی قربانی کا گوشت ولیمہ کے مہمانوں کو دعوت کے طور پر کھلانا درست ہے۔ لہٰذا ولیمہ کی نیت سے خریدے گئے جانور کو ایام قربانی میں قربانی کی نیت سے ذبح بھی کیا جاسکتا ہے۔ قربانی بھی معتبر ہوگی، اور اس کا گوشت ولیمہ میں استعمال بھی کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ قربانی نذر کی نہ ہو، کیونکہ نذر کی قربانی کا گوشت صدقہ کرنا واجب ہے۔


(وَيَأْكُلُ مِنْ لَحْمِ الْأُضْحِيَّةِوَيَأْكُلُ غَنِيًّا وَيَدَّخِرُ، وَنُدِبَ أَنْ لَا يَنْقُصَ التَّصَدُّقُ عَنْ الثُّلُثِ) 
(قَوْلُهُ وَيَأْكُلُ مِنْ لَحْمِ الْأُضْحِيَّةَ إلَخْ) هَذَا فِي الْأُضْحِيَّةَ الْوَاجِبَةِ وَالسُّنَّةِ سَوَاءٌ إذَا لَمْ تَكُنْ وَاجِبَةً بِالنَّذْرِ۔ (شامی : ٦/٣٢٧)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
15 ذی الحجہ 1445

جمعرات، 20 جون، 2024

حاجیو ! اللہ کا شکر ادا کرو۔


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! امسال کے حج کے ایام مکمل ہوچکے ہیں۔ اطلاعات ملی ہیں کہ حج بڑا مشکل ہوگیا ہے۔ انتہاء کو پہنچی ہوئی سخت گرمی، حجاج کے قیام کے لیے ناکافی جگہیں، غیرمعمولی رَش اور کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنا اب عام حجاج کے لیے گویا لازمی ہوگیا ہے۔

سعودی حکومت لاکھ یہ دعوی کرے کہ وہ حاجیوں کی آسانی کے لیے بہت سارے پروجیکٹ پر کام کررہی ہے، اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی بہت سی پالیسیاں اور انتظامات دماغ اور لاجک میں آنے والے نہیں ہیں، بہت سی جگہوں پر انتظامات کے نام پر حجاج کو ہراساں اور غیرمعمولی تکالیف سے دو چار کیا جاتا ہے۔ جس پر حکومت کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان سب کا سب سے سیدھا اور آسان حل یہ ہے کہ حج یا عمرہ کے ویزا کی تعداد کو کم کیا جائے، بڑی تعداد میں عازمین کو حج یا عمرہ کا ویزا دے دینا اور پھر بھیڑ کو کنٹرول نہ کرپانا یہ کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ عمل شرعاً درست ہے۔ لیکن ایسا گمان ہوتا ہے کہ سعودی حکومت کو اب حجاج اور معتمرین کی خدمت سے زیادہ مال کمانے میں دلچسپی ہوگئی ہے۔

اسی طرح بغیر پرمٹ کے حج کرنے سے بھی بچنا چاہیے اس کی وجہ سے انتظامات میں اور پرمٹ والے حجاج کو بلاشبہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور گرفت کی صورت میں آپ کے جان مال کے خطرے میں پڑنے کا بھی سخت اندیشہ ہے۔

کچھ مشکلات مسائل کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بھی پیش آتے ہیں، مثلاً گرمی سخت اور بھیڑ بہت زیادہ ہوتو گیارہ بارہ کی رمی مغرب کے بعد بھی کی جاسکتی ہے۔ تیرہ کی رمی اگر نہ کی جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ ایسے معذور جو چل کر رمی کے لیے نہیں جاسکتے اور ان کو کوئی وہیل چیئر وغیرہ پر لے جانے والا بھی نہیں ہے تو وہ رَمی میں اپنا نائب بھی بناسکتے ہیں۔ سخت کمزور اور ضعیف افراد اگر ہوٹل میں ہی قیام کریں اور صرف رَمی کرنے کے لیے منی آئیں تو اس کی بھی گنجائش ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اگر ان باتوں کا علم پہلے سے اچھی طرح ہوجائے تو کچھ نہ کچھ راحت اور سہولت ہوجائے گی۔

خیر!الحمدللہ آپ کا حج مکمل ہوچکا ہے۔ آپ ایک بہت بڑی اور عظیم الشان ذمہ داری اور فریضے سے سبکدوش ہوچکے ہیں، بڑے بڑے فضائل آپ نے حاصل کرلیے ہیں، دنیا آخرت کے لیے مانگی گئی آپ کی دعائیں قبول ہوئی ہوں گی۔ یہ سب کچھ صرف اللہ کے کرم اور اس کے فضل سے ہوا ہے۔ ورنہ جو کچھ مشکلات، تکالیف اور مصائب حج کے ایام میں پیش آتے ہیں، ان کا جھیل جانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے آپ حجاج کرام اب ساری تکالیف کو بھول جائیں، کیونکہ تکالیف تو چلی گئیں، اور اجر باقی رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ کام کو صحیح طور پر انجام دینے والوں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ اور وہیں سے تہیہ اور پختہ عزم کرلیں کہ اب بقیہ زندگی سوفیصد شریعت اور سنت کے مطابق گزاریں گے، حقوق اللہ کی بھی پاسداری کریں گے اور حقوق العباد بھی مکمل طور پر ادا کریں گے۔

اللہ تعالیٰ آپ تمام کی اللہ کے راستے میں دی گئی قربانیوں کو قبول فرمائے، تکالیف کو راحتوں سے تبدیل فرمائے، اس راستے میں لگائے گئے مال کو کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس فرمادے، آپ تمام کے حج کو حج مقبول ومبرور بنادے۔ آمین یا رب العالمین 

پیر، 17 جون، 2024

سعودی میں موجود شخص کا ہندوستان میں تیسرے دن قربانی کرانا



سوال :

مفتی صاحب ! ہمارے کچھ رشتے دار سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ہم ان کی طرف سے یہاں ہندوستان میں بقرعید کی تیواسی کو قربانی کریں تو کیا قربانی ہو جائے گی؟ جب کہ ان کے یہاں (سعودی عرب) میں یہ بقرعید کا چوتھا دن ہوگا۔
(المستفتی : مشتاق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سعودی عرب میں رہنے والے شخص پر چونکہ قربانی کا سبب وجوب یعنی صاحبِ نصاب ہونا اور وجوبِ ادا یعنی وقت قربانی میں باحیات رہنا ثابت ہوچکا ہے؛ اِس لئے اَب وہ جو قربانی کرے گا اُس میں قربانی کا جانور جہاں موجود ہے، وہاں کے وقت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے سعودی میں مقیم رشتہ داروں کا ۱۳ ذی الحجہ کو اپنی مالی قربانی ہندوستان میں کرانا جب کہ یہاں ہندوستان میں ۱۲؍ذی الحجہ ہوگی، شرعاً درست ہوگا۔


ولو کان ہو في مصر وقت الأضحیۃ، وأہلہ في مصر آخر، فکتب إلی الأہل وأمرہم بالتضحیۃ، في ظاہر الروایۃ یعتبر مکان الأضحیۃ۔ (الخانیۃ علی ہامش الفتاویٰ الہندیۃ ۳؍۳۴۵، المکتبۃ الماجدیۃ پاکستان)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ذی الحجہ 1445

غیرحاجی کا قربانی کے بعد بال منڈوانا


سوال :

مفتی صاحب ایک سوال یہ پوچھنا تھا کہ بقرعید کے دن بال منڈوانا (ٹکلا) بنانا اسکی کچھ فضیلت یا روایت؟ چونکہ میرے والد صاحب کہہ رہے تھے کے بقرعید کے دن ٹکلا بنانے سے ایک قربانی کا ثواب ملتا ہے۔
(المستفتی : عامر سردار، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج کرنے والوں کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ حج کی قربانی کرنے کے بعد احرام کھولنے کے لئے قصر یا حلق کروائیں۔ لیکن غیر حاجی کا قربانی کے بعد سر منڈوا لینا یعنی حلق کرنا اور یہ سمجھنا کہ اس پر حج یا قربانی کا ثواب ملتا ہے، شرعاً ثابت نہیں۔ جن لوگوں کی قربانی کی استطاعت نہ ہو وہ نماز عیدالاضحٰی کے بعد ناخن کاٹ لیں، یا بال بنوانے کی ضرورت ہوتو بال بنوالیں تو انہیں قربانی کا ثواب مل جائے گا، لیکن یہ ثواب حاصل کرنے کے لیے حلق کروانے کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔ 


 عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ۔ (ترمذی، رقم : ١٥٢٣)

عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرٍ وَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمِرْتُ بِیَوْمِ الْاَضْحٰی عِیْدًا جَعَلَہُ اﷲُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ قَالَ لَہُ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَرَأَیْتَ اِنْ لَّمْ اَجِدْ اِلَّا مَنِیْحَۃً اُنْثٰی اَفَاُضَحِّیَ بِھَا قَالَ لَا وَلٰکِنْ خُذْ مِنْ شَعْرِکَ وَاَظْفَارِکَ وَتَقُصُّ شَارِبکَ وَتَحْلِقُ عَانَتَکَ فَذَالِکَ تَمَامٌ اُضْحِیَتُکَ عِنْدَ اﷲِ۔ (ابوداؤد، رقم : ٢٧٨٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ذی الحجہ 1445

بدھ، 12 جون، 2024

منی، مزدلفہ میں جمعہ کی نماز قائم کرنا


سوال :

مفتی صاحب ! اس مرتبہ منی میں جمعہ کا دن آرہا ہے، تو کیا ہم لوگوں کو وہاں جمعہ پڑھنا ہے؟  اگر پڑھنا ہے تو کس طرح ؟ مکمل مدلل رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولوی مجاہد ملی، بسمت)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : موسم حج میں امام ابوحنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ اور بعد کے تمام فقہاء کے نزدیک منی میں جمعہ جائز بلکہ لازم ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ موسم حج میں منی تمام شہروں کی طرح باقاعدہ ایک شہر بن جاتا ہے اس کی وجہ اور دلیل یہ ہے کہ حج میں منی میں حکام، سرکاری عملہ، ہسپتال، فوج کے خیمہ وغیرہ سب موجود ہوتے ہیں، نیز باقاعدہ شہر کی گلی کوچوں کی طرح منی میں گلی کوچے بھی ہوتے ہیں اور دکانیں بھی لگ جاتی ہیں، حجاج کرام کم وبیش اپنی ضروریات کی چیزیں منی سے حاصل کرتے ہیں یہی شہر کی تعریف ہے، اس لئے منی میں بلاشبہ جمعہ جائز ہے۔

اس کے دلائل ملاحظہ فرمائیں : 
بنایہ شرح ہدایہ میں اس کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے :
وَلَہُمَا أَيْ لِأَبِيْ حَنِیْفَۃَ، وَأَبِيْ یُوْسُفَ لِأَنَّہُا أَيْ لِأَنَّ مِنٰی تَتَمَصَّرُ أَيْ تَصِیْرُ مِصْرًا فِيْ أَیَّامِ الْمَوْسِمِ لِمَا یَکُوْنُ فِیْہَا أَسْوَاقٌ وَفِیْہَا سُلْطَانٌ أَوْ نَائِبُہٗ، وَقَاضِي فِيْ أَیَّامِ الْمَوْسِمِ فَتَصِیْرُ کَسَائِرِ الأمْصَارِ۔ (البنایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، نعیمیہ دیوبند ۳/ ۴۸)

ترجمہ : حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اور ابو یوسفؒ کے نزدیک منی میں جمعہ جائز ہونے کی علت یہ ہے کہ بے شک منی موسم حج میں باقاعدہ شہر بن جاتا ہے؛ اس لئے کہ اس میں بازار کی طرح دکانیں بھی ہوتی ہیں اور اس میں حاکم یا اس کے قائم مقام نائب ہوتا ہے اور موسم حج کا قاضی بھی ہوتا ہے؛ لہٰذا وہ ایسا شہر بن جاتا ہے جیسا کہ دیگر تمام شہر ہوتے ہیں۔

اس کو ’’البحر الرائق‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے :

وَالصَّحِیْحُ أَنَّہٗ مبني عَلٰی أَنَّہَا تَتَمَصَّرُ فِيْ أَیَّامِ الْمَوْسِمِ عِنْدَہُمَا؛ لِأَنَّ لَہَا بِنَائٌ، وَتُنْقَلُ إِلِیَہَا الأسْوَاقُ وَیَحْضُرُہَا وَالٍ وَقَاضٍ بِخِلافِ عَرَفَاتٍ؛ لِأَنَّہَا مَفَازَۃٌ فَلا تَتَمَصَّرُ بِاجْتِمَاعِ النَّاسِ وَحَضْرَۃِ السُّلْطَانِ۔ (البحر الرائق، باب صلاۃ الجمعۃ، کوئٹہ ۲/ ۱۴۲، زکریا ۲/ ۲۴۹)

ترجمہ : اور صحیح یہی ہے کہ منی بے شک موسم حج میں حضرات شیخینؒ کے نزدیک شہر بن جاتا ہے؛ اس لئے کہ منی میں موسم حج میں دن ورات کی رہائشی عمارتیں اور جھوپڑے ہوتے ہیں اور بازار منتقل ہوجاتا ہے اور اس میں حاکم اور قاضی موجود ہوتے ہیں، برخلاف عرفات کے اس لئے کہ عرفات صحراء ہے (دن ورات کے رہائشی جھوپڑے اور عمارتیں نہیں ہیں) لہٰذا عرفات لوگوں کے جمع ہونے اور حاکم کی حاضری کی وجہ سے شہر نہیں بنے گا۔

اس کو صاحب در مختار نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے :

وَجَازَتِ الْجُمُعَۃُ بِمِنٰی فِي الْمَوْسِمِ فَقَطْ لِوُجُوْدِ الْخَلِیْفَۃِ أَوْ أَمِیْرِ الْحِجَازِ أَوْ الْعِرَاقِ أَوْ مَکَّۃَ وَوُجُوْدِ الأسْوَاقِ وَالسِّکَکِ، وَکَذَا کُلُّ أَبْنِیَۃٍ نَزَلَ بِہَا الْخَلِیْفَۃُ وَعَدْمُ التَّعْیِیْدِ بِمِنٰی لِلتَّخْفِیْفِ لاَ تَجُوْزُ لاِمَیرِ الْمَوْسِمِ لِقُصُوْرِ وَلَایَتِہٖ عَلٰی أُمُوْرِ الْحَجِّ حَتّٰی لَوْ أَذِنَ لَہ جَازَ۔ (الدر مع الرد، باب الجمعۃ، کراچی ۲/ ۱۴۴، زکریا ۳/ ۱۴، ۱۵)

ترجمہ : صرف موسم حج میں منی میں جمعہ جائز ہے خلیفۂ حجاز، عراق یا مکہ کے امیر کے موجود ہونے کی وجہ سے اور بازاروں اور دکانوں کے موجود ہونے کی وجہ سے اور اس میں گلی کوچے ہونے کی وجہ سے ایسا ہی ہر اس آبادی کا حکم ہوتا ہے جس میں حاکم کا عارضی قیام ہوتا ہے اور منی میں عید کی نماز حاجیوں کی تخفیف کی غرض سے نہیں ہوتی ہے اور موسم کے امیر کے لئے جائز نہیں ہے، حاجیوں کے امور پر ولایت تامہ کی کمی کی وجہ سے یہاں تک کہ اگر امیر موسم کو حاکم کی طرف سے اجازت ہوجائے تو اس کے لئے جمعہ قائم کرنا جائز ہے۔

اس کو صاحب بدائع نے ان الفاظ کے ساتھ نقل فرمایا ہے :

وَہُمَا یَقُوْلانِ: إِنَّہَا تَتَمَصَّرُ فِي أَیَّامِ الْمَوْسِمِ؛ لِأَنَّ لَہَا بِنَاء وَیُنْقَلُ إِلَیْہَا الأَسْوَاقُ وَیَحْضُرُہَا وَالٍ یُقِیْمُ الْحُدُوْدَ وَیَنْفُذُ الأحْکَامَ فَالْتَحق بِسَائِرِ الأمْصَارِ۔ (بدائع، کتاب الصلاۃ، فصل في شرائط الجمعۃ، زکریا ۱/ ۵۸۶)

اور حضرات شیخینؒ فرماتے ہیں کہ بے شک منی موسم حج میں شہر بن جاتا ہے؛ اس لئے کہ منی میں رہائشی جھوپڑے اور مکانات ہیں اور بازار منتقل ہوجاتا ہے اور ایسا حاکم موجود ہوتا ہے جو حدود قائم کرسکتا ہے اور احکام نافذ کرسکتا ہے؛ لہٰذا موسم حج میں منی تمام شہروں کی طرح ایک شہر کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔

یاد رکھیں کہ منی میں قدیم زمانہ سے گاؤں کی شکل میں عرب بدؤوں کے مکانات تھے، اب حاجیوں کی ضرورت کی عمارتیں اور خیمے ہیں۔ (مستفاد : فتاوی قاسمیہ : ١٢/٣٨٩)

لہٰذا جو حجاج کرام مکہ، منی، مزدلفہ اور عرفات ملاکر اگر پندرہ دن قیام کی نیت رکھتے ہوں تو وہ مقیم ہیں، اور انہیں منی ، مزدلفہ میں جمعہ کا قیام کرنا ضروری ہے۔ اور جن حجاج کرام کی پندرہ دن قیام کی نیت نہیں ہے وہ مسافر ہیں، ان پر جمعہ قائم کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے دو رکعت ظہر قصر ادا کرنے کا حکم ہے۔ البتہ اگر وہ جمعہ قائم کرلیں تو ان کا جمعہ ادا ہوجائے گا اور ان سے ظہر کی نماز ساقط ہوجائے گی۔

نماز جمعہ کے لیے کم از کم چار افراد کا ہونا شرط ہے، چار افراد ہوں تو یہ لوگ باجماعت نماز جمعہ ادا کرسکتے ہیں۔ اگر چار افراد سے کم ہوں تو پھر جمعہ درست نہ ہوگا، ایسے لوگ ظہر باجماعت ادا کریں یا انفرادی ادا کریں دونوں درست ہے۔ 

اگر چار افراد یا اس سے زائد ہوں تو اس صورت میں نماز جمعہ باجماعت ادا کرنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ زوال کے بعد جمعہ کی پہلی اذان دی جائے، اور چار رکعت سنت کی ادائیگی کے دوسری اذان خطیب کے سامنے دی جائے۔ اذان کے بعد خطیب کھڑا ہوکر پہلا خطبہ دے اس کے بعد تین چھوٹی آیات پڑھنے کے بقدر بیٹھ جائے پھر دوسرا خطبہ دے، خطبہ مکمل ہونے کے بعد اقامت کہی جائے اور امام دو رکعت نماز جہراً پڑھا دے۔ جمعہ کے خطبہ کے لیے منبر کا ہونا شرط نہیں، بلکہ مسنون ہے، لہٰذا خیمہ وغیرہ میں جمعہ ادا کرنے کی صورت میں کرسی یا اسٹول وغیرہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔ 

نماز جمعہ میں چونکہ خطبہ دینا شرط ہے۔ اس کے بغیر جمعہ درست نہیں ہوگا۔ پس یہاں یہ مسئلہ سمجھ لینا چاہیے کہ صاحبین ؒ کے نزدیک خطبہ کی کم سے کم مقدار تشہد کے بقدر ہے اس سے کم مکروہ ہے۔ لہٰذا حاضرین میں کوئی عالم یا خطبہ دینے کے لائق شخص نہ ہوتو وہ دونوں خطبوں میں آیت الکرسی یا سورہ فاتحہ پڑھ لے تو خطبہ ادا ہوجائے گا اور نماز جمعہ درست ہوجائے گی۔

ذیل میں دو مختصر  اور جامع خطبات نقل کیے جارہے ہیں، اگر کوئی اسے آسانی سے پڑھ سکتا ہوتو سنت پر عمل ہوجائے گا، اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اوپر کی ہدایات کے مطابق عمل کرے۔

*خطبہ اولیٰ*

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ۞ اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞
اَمَّابَعْدُ ! فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ ۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ۞ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاُمَّةِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۞اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ الْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَسَيِّئِ الْأَسْقَامِ۞اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ لِيْ وَلَكُمْ۞

*خطبہ ثانیہ*

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞ وَاَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ۞ إِنَّ اللهَ وَمَلٰئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۞اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِهٖ وَذُرِّیَّتِهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِیْن۞قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه و سلم، خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ ۞اِنَّ اللهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْيِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۞ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ۞ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ۞ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۞

دلائل :
عَنْ سالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : لا تُجْمَعُ صَلاةٌ واحِدَةٌ فِي مَسْجِدٍ واحِدٍ مَرَّتَيْنِ۔ (المدونۃ : ١/١٨١)

وَمُقْتَضَى هَذَا الِاسْتِدْلَالِ كَرَاهَةُ التَّكْرَارِ فِي مَسْجِدِ الْمَحَلَّةِ وَلَوْ بِدُونِ أَذَانٍ؛ وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ: لَوْ دَخَلَ جَمَاعَةٌ الْمَسْجِدَ بَعْدَ مَا صَلَّى فِيهِ أَهْلُهُ يُصَلُّونَ وُحْدَانًا وَهُوَ ظَاهِرُ الرِّوَايَةِ۔ (شامی : ١/٥٥٣)

ولو صلی الجمعۃ في قریۃ بغیر مسجد جامع، والقریۃ کبیرۃ لہا قری، وفیہا والٍ، وحاکم جازت الجمعۃ بنوا المسجد أو لم یبنوا…والمسجد الجامع لیس بشرط؛ ولہذا أجمعوا جوازہا بالمصلی في فناء المصر۔ (حلبي کبیر، فصل صلاۃ الجمعۃ، ص:۵۵۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1445

حج کے فضائل اور اس کا طریقہ


سوال :

محترم مفتی صاحب ! حج کی فضیلت کیا ہے؟ اور اس کا طریقہ آسان انداز میں بیان فرما دیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے جس پر اسلام کی بنیاد ہے، اور یہ ایک ایسی عظيم الشان عبادت ہے جس میں بندے کا جان اور مال دونوں لگتا ہے۔ حج کے متعدد فضائل حدیث شریف میں بیان ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حجِ مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : پے درپے حج وعمرے کیا کرو، بے شک یہ دونوں (حج وعمرہ) فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے وچاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت فرمایا یارسول اللہ! کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ (یعنی عورتوں، بوڑھوں اور کمزوروں کو حج وعمرہ کرنے سے جہاد کا ثواب ملتا ہے)۔ (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جس شخص نے حج کیا، اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

حضرت ابو زہیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح، (جس کا ثواب) سات سو گنا تک ہے۔ (مسند احمد، شعب الایمان)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اسے سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لیے کہو، کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ (مسنداحمد)


حج کی تین قسمیں ہیں : حجِ افراد، حجِ تمتع اور حجِ قران۔

حجِ افراد : اگر حاجی میقات سے صرف حج کا احرام باندھے، تو ایسے حج کو ’’حجِ افراد‘‘ کہتے ہیں۔

حجِ تمتع : اگرحاجی حج کے مہینوں (شوال، ذی القعده، ذی الحجہ) میں عمرہ کا احرام باندھے اور عمرہ کرکے حلال ہوجائے، پھر آٹھ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ سے حج کا احرام باندھ کر حج کرے، تو ایسے حج کو ’’حجِ تمتع‘‘ کہتے ہیں۔

حجِ قران : اگر حاجی میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے اور عمرہ کرنے کے بعد احرام نہ کھولے، احرام ہی کی حالت میں رہے، پھر اسی احرام کے ساتھ حج کرے، تو ایسے حج کو ’’حجِ قران‘‘ کہتے ہیں۔

ذکرکردہ حج کی تین اقسام میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک افضل حجِ قران ہے، لیکن آج کل چوں کہ سفر حج کا نظام الاوقات حاجی کے قابو میں نہیں رہتا، اور بعض اوقات وقت سے بہت پہلے حاجی کو مکہ پہنچنا ہوتا ہے، اتنے طویل عرصہ تک احرام کی حالت میں رہنا اور احرام کی ممنوعات سے بچنا مشکل ہوتا ہے، اور مستحب عمل کے لیے حرام کا ارتکاب کرنا یا اس کے ارتکاب کا خطرہ مول لینا مناسب نہیں ہے، اسی لیے بعد کے علماء کرام نے دور دراز سے مکہ مکرمہ جانے والوں کے لیے "حج تمتع" کو افضل قرار دیا ہے۔

حج کے فرائض 
حج کے فرائض تين ہیں، ان میں سے پہلا : احرام ہے یعنی دل سے حج کی نیت کرکے مکمل تلبیہ پڑھنا، اس کے بغیر حج کی ادائیگی نہیں ہوتی، یہ ابتداءً شرط ہے اور انتهاءً اس كا حكم ركن كا ہی ہوجاتا ہے، اور احرام میں داخل ہوجانے کے بعد حج کے ارکان دو ہیں :

پہلا وقوف عرفہ : نویں ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کے درمیان میدانِ عرفات میں ٹھہرنا، چاہے کچھ ہی دیر کے لیے ٹھہرے۔ (یہ حج کا رکنِ اعظم ہے، اگر کسی نے وقوفِ عرفہ نہ کیا، اس کا حج ہی نہیں ہوگا، چاہے دم ہی کیوں نہ دے دے۔ البتہ اس کا وجوبی وقت نویں ذوالحجہ کے زوالِ آفتاب سے لے کر غروب سے پہلے پہلے ہے، لہٰذا بغیر عذر کے اس وقت کو چھوڑ کر مغرب کے بعد سے دسویں ذوالحجہ کی صبح صادق کے درمیان وقوف نہ کیا جائے، اگر بلا عذر ایسا کیا تو مکروہ ہوگا۔) 

دوسرا طوافِ زیارت : جو کہ وقوفِ عرفہ کے بعد کیا جاتا ہے، (جب تک حاجی طوافِ زیارت نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا اور بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہوتی، اس کا وجوبی وقت دسویں ذی الحجہ کے سورج طلوع ہونے سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے تک ہے، وقتِ مقررہ کے دوران طواف نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہوتا ہے۔)

رکن سے مراد حج کے فرائض ہوتے ہیں۔

حج کے واجبات
واجباتِ حج اصلاً چھ ہیں :
(۱) وقوفِ مزدلفہ (جس کا وقت ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح صادق سے طلوعِ آفتاب کے درمیان ہے)
(۲) صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔
(۳) رمی جمار کرنا۔
(۴) قارن ومتمتع کو دمِ شکر دینا۔
(۵) حلق یا قصر کرانا۔
(۶) آفاقی کو طواف وداع کرنا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ حج کے اصل واجبات کے ساتھ بہت سے واجبات ملحق ہیں، جیسے : ممنوعاتِ احرام مثلاً وقوفِ عرفہ کے بعد جماع کرنے، سلا ہوا کپڑا پہننے، سر اور چہرہ کو ڈھانکنے سے بچنا وغیرہ۔ ان تمام ملحقات کو ملاکر واجبات کی تعداد ۳۵؍تک پہنچ جاتی ہے۔

مذکورہ واجبات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں سے کوئی بلا عذر چھوٹ جائے تو دم واجب ہوگا، اور حج درست ہوجائے گا، چاہے قصداً چھوڑا ہو یا بھول کر۔ البتہ اگر کسی معقول عذر سے واجب چھوٹا ہوتو حکم میں تخفیف ہوگی۔

حج کا مکمل طریقہ :

حاجی آٹھ ذی الحجہ کو فجر کی نماز مکہ مکرمہ میں پڑھ کر منیٰ کی طرف روانہ ہو، منی میں پہنچ کر پانچ نمازیں اپنے اپنے وقت پر ادا کرے۔ فی الحال بھیڑ کی وجہ سے آٹھ ذی الحجہ کی رات کو ہی منی لے کر چلے جاتے ہیں، جس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

حج کا دوسرا دن یعنی وقوف عرفہ جو حج کا سب سے بڑا رُکن ہے۔ نو ذی الحجہ کو فجر کی نماز منیٰ میں پڑھ کر منیٰ سے عرفات کے لیے روانہ ہوجائے، عرفات پہنچ کر ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ظہر کے وقت میں ادا کرے اور غروب آفتاب تک عرفات میں رہے، زوال کے بعد سے غروب تک عرفات میں ٹھہرنا واجب ہے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی امیرِ حج کی اقتدا میں پڑھی جائے، یعنی عصر کو بھی ظہر ہی کے وقت میں پڑھ لے۔ وہاں جو بڑی مسجد ہے جس کو مسجد نمرہ کہتے ہیں اس میں امام دونوں نمازیں اکٹھی پڑھاتا ہے لیکن چونکہ ہر شخص وہاں پہنچ نہیں سکتا اور سب حاجی اس میں سما بھی نہیں سکتے اور بغیر امیرِ حج کی اقتدا کے دونوں نمازوں کو جمع کرنا درست بھی نہیں ہے، اس لیے حنفی حضرات اپنے اپنے خیموں میں ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نمازعصر کے وقت باجماعت پڑھیں اور نمازوں کے علاوہ جو وقت ہے اسے ذکر و دعا اور تلبیہ میں لگائیں، غروب آفتاب کے بعد تلبیہ پڑھتے ہوئے عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوجائے۔

مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں عشاء کے وقت میں ادا کرے، اس روز حجاج کے لیے مغرب کی نماز عرفات میں یا راستہ میں پڑھنا جائز نہیں، واجب ہے کہ نمازِ مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے وقت نمازِ عشاء کے ساتھ پڑھے۔ مزدلفہ پہنچ کر اوّل مغرب کے فرض پڑھے اور مغرب کے فرضوں کے فوراً بعد عشاء کے فرض پڑھے، مغرب کی سنتیں اور عشاء کی سنتیں اور وتر سب بعد میں پڑھے۔ مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی دونوں نمازیں ایک اذان اور ایک اقامت سے پڑھی جائیں اور مزدلفہ میں دونوں نمازوں کو اکھٹا پڑھنے کے لیے جماعت شرط نہیں ہے، تنہا ہو تب بھی اکٹھا کرکے پڑھے۔ اگر مغرب کی نماز عرفات میں یا راستہ میں پڑھ لی ہے تو مزدلفہ میں پہنچ کر اس کا اعادہ یعنی دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ اگر عشاء کے وقت سے پہلے مزدلفہ پہنچ گیا تو ابھی مغرب کی نماز نہ پڑھے، عشاء کے وقت کا انتظار کرے اور عشاء کے وقت میں دونوں نمازوں کو اکٹھا کرے۔ رات مزدلفہ میں گزارے، مزدلفہ کی رات عیدالاضحی کی شب ہے، اس رات میں حتی الامکان عبادت کرنا بہت فضیلت کی بات ہے۔ تھکاوٹ دور کرکے کچھ نہ کچھ عبادت، نماز، تلاوت، تلبیہ، اذکار اور دعا میں مشغول ہونا چاہئے۔  اور اسی رات میں ستر کنکریاں جمع کرلیں۔ اور پھر دس ذی الحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب کے بعد منیٰ کے لیے روانہ ہوجائے۔

منیٰ پہنچ کر رمی یعنی بڑے شیطان کو کنکریاں مارے، دسویں تاریخ کو صرف جمرۂ عقبہ کی رَمی ہوتی ہے، مزدلفہ سے چل کر جب منیٰ پہنچے تو پہلے اور دوسرے جمرہ کو چھوڑ کر سیدھا جمرۂ عقبہ پر جائے اور اس کو سات کنکریاں مارے اور پہلی کنکری کے ساتھ ہی تلبیہ پڑھنا ختم کردے۔ مفرد ہو یا متمتع یا قارِن سب کے لیے ایک ہی حکم ہے۔ حجِ تمتع یا قران کرنے والا دمِ شکر یعنی حج کی قربانی کرے جس کا حدود حرم میں کرنا ضروری ہے، حج افراد کرنے والے پر حج کی قربانی واجب نہیں ، البتہ کرلے تو اچھی بات ہے۔ اس کے بعد حلق (سرمنڈا) کر احرام سے نکل جائے۔

یاد رہے کہ یہ تینوں کام (شیطان کو کنکریاں مارنا، قربانی کرنا اور حلق کرنا) اسی ترتیب سے واجب ہیں۔ حلق کرانے کے بعد وہ تمام ممنوعاتِ احرام حلال ہوجائیں گے، یعنی خوشبو لگانا، ناخن کاٹنا، کسی بھی جگہ کے بال کاٹنا، سلے ہوئے کپڑے پہننا، سر اور چہرہ ڈھانکنا یہ سب کام جائز ہوجاتے ہیں، البتہ میاں بیوی والے خاص تعلقات حلال نہیں ہوتے، وہ طوافِ زیارت کے بعد حلال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد طوافِ زیارت کرے، جو دسویں کو کرنا افضل ہے، بارہ تاریخ کے سورج غروب ہونے تک کرسکتا ہے، اگر طوافِ قدوم کے ساتھ سعی نہیں کی، (متمتع پر طوافِ قدوم نہیں ہے) تو طواف زیارت کے ساتھ رمل بھی کرے اور اگر احرام اتار لیا ہے، تو اضطباع بھی نہ کرے، ورنہ اضطباع کرے۔ تمتع کرنے والا طوافِ زیارت کے بعد سعی کرے گا، لیکن اگر وہ پہلے سعی کرنا چاہے تو احرام باندھنے کے بعد ایک نفلی طواف کرکے حج کی سعی کرسکتا ہے، اس نفلی طواف میں رمل واضطباع کرے گا، پھر بعد میں طوافِ زیارت میں رمل واضطباع نہیں کیا جائے گا۔ اب طوافِ زیارت کے بعد بیوی بھی حلال ہوجائے گی۔ 

دسویں تاریخ کو طوافِ زیارت کے بعد منیٰ واپس آجائے اور گیارہویں بارہویں شب منیٰ میں گزارے اور ان دونوں دنوں میں زوال کے بعد تینوں جمرات کی رَمی کرے، (دس تاریخ کو طوافِ زیارت نہ کیا ہو تو گیارہویں، بارہویں تاریخ میں سے کسی وقت، رات کو یادن کو مکہ معظمہ جاکر طواف کرلے۔) پھر مکہ مکرمہ آسکتا ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ تیرہویں کو زوال کے بعد رمی کرکے آئے۔

طوافِ صدر جسے طوافِ وداع بھی کہتے ہیں، حج کے تمام ارکان ومناسک کی ادائیگی کے بعد اس طواف کا کرنا واجب ہے، طوافِ وداع کا وقت طوافِ زیارت کے ۴؍چکر کرلینے کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے، اورپھر جب تک حاجی مکہ معظمہ میں مقیم رہے، اس کا وقت باقی رہتا ہے، وہ کبھی بھی طوافِ وداع ادا کرسکتا ہے۔ اور بہتر ہے کہ واپسی کے وقت اسے ادا کیا جائے، نیز اہل مکہ اور اہل حل پر طوافِ وداع نہیں ہے۔ 

طوافِ وداع کرلینے کے بعد اب الحمدللہ حج مکمل ہوچکا۔ اللہ تعالیٰ حج مقبول ومبرور عطا فرمائے۔ جب تک چاہے مکہ میں قیام کرے اور خوب طواف اور عمرہ کرے، مگر عمرہ تیرہ ذی الحجہ کے بعد کرے، کیونکہ نو سے تیرہ ذی الحجہ تک عمرہ کرنا منع ہے۔

عمرہ کے فضائل اور طریقہ جاننے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔


مَطْلَبٌ فِي فُرُوضِ الْحَجِّ وَوَاجِبَاتِهِ (قَوْلُهُ فَرْضُهُ) عَبَّرَ بِهِ لِيَشْمَل الشَّرْطَ وَالرُّكْنَ ط (قَوْلُهُ الْإِحْرَامُ) هُوَ النِّيَّةُ وَالتَّلْبِيَةُ أَوْ مَا يَقُومُ مَقَامَهَا أَيْ مَقَامَ التَّلْبِيَةِ مِنْ الذِّكْرِ أَوْ تَقْلِيدِ الْبَدَنَةِ مَعَ السَّوْقِ لُبَابٌ وَشَرْحُهُ (قَوْلُهُ وَهُوَ شَرْطُ ابْتِدَاءٍ) حَتَّى صَحَّ تَقْدِيمُهُ عَلَى أَشْهُرِ الْحَجِّ وَإِنْ كُرِهَ كَمَا سَيَأْتِي ح (قَوْلُهُ حَتَّى لَمْ يَجُزْ إلَخْ) تَفْرِيعٌ عَلَى شَبَهِهِ بِالرُّكْنِ يَعْنِي أَنَّ فَائِتَ الْحَجِّ لَا يَجُوزُ لَهُ اسْتِدَامَةُ الْإِحْرَامِ، بَلْ عَلَيْهِ التَّحَلُّلُ بِعُمْرَةٍ وَالْقَضَاءُ مِنْ قَابِلٍ كَمَا يَأْتِي، وَلَوْ كَانَ شَرْطًا مَحْضًا لَجَازَتْ الِاسْتِدَامَةُ اهـ ح وَيَتَفَرَّعُ عَلَيْهِ أَيْضًا مَا فِي شَرْحِ اللُّبَابِ مِنْ أَنَّهُ لَوْ أَحْرَمَ ثُمَّ ارْتَدَّ وَالْعِيَاذُ بِاَللَّهِ تَعَالَى بَطَلَ إحْرَامُهُ وَإِلَّا فَالرِّدَّةُ لَا تُبْطِلُ الشَّرْطَ الْحَقِيقِيَّ كَالطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ اهـ وَكَذَا مَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ اشْتِرَاطِ النِّيَّةِ فِيهِ، وَالشَّرْطُ الْمَحْضُ لَا يَحْتَاجُ إلَى نِيَّةٍ وَكَذَا مَا مَرَّ مِنْ عَدَمِ سُقُوطِ الْفَرْضِ عَنْ صَبِيٍّ أَوْ عَبْدٍ أَحْرَمَ فَبَلَغَ أَوْ عَتَقَ مَا لَمْ يُجَدِّدْهُ الصَّبِيُّ۔ (الدر المختار شرح تنوير الأبصار : (٢/٤٦٧)

وأما ركن الحج فشيئان : أحدهما : الوقوف بعرفة وهو الركن الأصلي للحج ، والثاني:طواف الزيارة۔ (بدائع الصنائع : ٤/٣٧٠)

واما واجباتہ فستۃ : وقوف جمع فی وقتہ ولو لحظۃ، والسعی بین الصفا والمروۃ، ورمی الجمار، والذبح للقارن والمتمتع، والحلق او التقصیر فی اوانہ ومکانہ، وطواف الصدر للاٰفاقی غیر الحائض والنفساء إذا لم یستوطن بمکۃ قبل النفر الأول۔ (غنیۃ الناسک : ۴۵)

وألحق بالواجبات ترک محظورات الاحرام کالجماع بعد الوقوف بعرفۃ،ولبس المخیط۔ (غنیۃ الناسک : ۴۶)

فصار المجموع ای مجموع الواجبات بلحوق ترک المحظورات خمسۃ وثلاثین واجباً۔ (مناسک ملا علی قاری : ۷۲)

وکل ما ہو واجب فحکمہ وجوب الدم بترکہ بلا عذر وجواز الحج سواء ترکہ عمداً او سہواً او خطاً او جاہلاً او عالماً لکن العامد اٰثم۔ (غنیۃ الناسک : ۴۶)

ویرمل فی طواف الزیارۃ ویسعی بعدہ، وان اراد تقدیم السعی لزمہ ان یتنفل بطواف بعد احرامہ للحج ویضطبع فیہ ویرمل ثم یسعی بعدہ۔ (غنیۃ الناسک : ۲۱۶)

وواجبہ طواف الصدر وہو طواف الوداع للاٰفاقی من الحاج دون المعتمر …، الا انہ خفف عن المرأۃ الحائض۔ (شرح نقایۃ ۱؍۱۸۵، درمختار زکریا ۳؍۴۶۹-۴۷۰، مناسک ملا علی قاری ۱۴۲)

اما وقت جوازہ علی التعیین فاولہ بعد اتیان اکثر طواف الزیارۃ ولو فی یوم النحر ولا آخر لہ ما دام مقیماً فلو اتی بہ ولو بعد سنۃ یکون اداء اً لا قضاء اً۔ (غنیۃ الناسک : ۱۹۰)
 
وإذا أراد الإحرام اغتسل أو توضأ - والغسل أفضل - ولبس ثوبين جديدين أو غسيلين إزارا ورداء ومس طيبا إن كان له طيب وصلى ركعتين وقال: اللهم إني أريد الحج فيسره لي وتقبله مني، ثم يلبي عقيب صلاته فإن كان مفردا بالحج نوى بتلبيته الحج والتلبية أن يقول: لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك ولا ينبغي أن يخل بشي من هذه الكلمات فإن زاد فيها جاز۔۔۔ثم يقيم بمكة حراما يطوف بالبيت كلما بدا له فإذا كان قبل يوم التروية بيوم خطب الإمام خطبة يعلم الناس فيها الخروج إلى منى والصلاة بعرفات والوقوف والإفاضة فإذا صلى الفجر يوم التروية بمكة خرج إلى منى فأقام بها حتى يصلي الفجر يوم عرفة
ثم يتوجه إلى عرفات فيقيم بها فإذا زالت الشمس من يوم عرفة صلى الإمام بالناس الظهر والعصر ثم يبتدئ فيخطب خطبتين قبل الصلاة يعلم الناس فيها الصلاة والوقوف بعرفة والمزدلفة ورمي الجمار والنحر والحلق وطواف الزيارة ويصلي بهم الظهر والعصر في وقت الظهر بأذان وإقامتين۔۔۔فإذا غربت الشمس أفاض الإمام والناس معه على هينتهم حتى يأتوا المزدلفة فينزلوا بها والمستحب أن ينزل بقرب الجبل الذي عليه الميقدة يقال له قزح ويصلي الإمام بالناس المغرب والعشاء بأذان وإقامة۔۔۔فإذا طلع الفجر صلى الإمام بالناس الفجر بغلس ثم وقف ووقف الناس معه فدعا: والمزدلفة كلها موقف إلا بطن محسر
ثم أفاض الإمام والناس معه قبل طلوع الشمس حتى يأتوا منى فيبتدئ بجمرة العقبة فيرميها من بطن الوادي بسبع حصيات مثل الخذف
ويكبر مع كل حصاة ولا يقف عندها ويقطع التلبية مع أول حصاة
ثم يذبح إن أحب ثم يحلق أو يقصر والحلق أفضل وقد حل له كل شيء إلا النساء
ثم يأتي مكة من يومه ذلك أو من الغد أو من بعد الغد فيطوف بالبيت طواف الزيارة ستعة أشواط ۔۔۔ وقد حل له النساء ۔۔۔ثم يعود إلى منى فيقيم بها فإذا زالت الشمس من اليوم الثاني من النحر رمى الجمار الثلاث يبتدئ بالتي تلي المسجد فيرميها بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة ويقف ويدعو عندها ثم يرمي التي تليها مثل ذلك ويقف عندها ثم يرمي جمرة العقبة كذلك ولا يقف عندها فإذا كان من الغد رمى الجمار الثلاث بعد زوال الشمس كذلك فإذا أراد أن يتعجل النفر نفر إلى مكة وإن أراد أن يقيم رمى الجمار الثلاث في يوم الرابع بعد زوال الشمس فإن قدم الرمي في هذا اليوم قبل الزوال بعد طلوع الفجر جاز عند۔۔۔ فإذا نفر إلى مكة نزل بالمحصب ثم طاف بالبيت سبعة أشواط لا يرمل فيها وهذا طواف الصدر هو واجب إلا على أهل مكة ثم يعود إلى أهله۔ (مختصر القدوری : ٦٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1445

پیر، 10 جون، 2024

کیا بارش کے دوران دعا قبول ہوتی ہے؟


سوال :

مفتی صاحب ! کیا یہ سچ ہے کہ جب بارش ہو رہی ہوتی ہے اس وقت اللہ تعالٰی سے دعا کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت اللہ کی رحمت جوش مارتی ہے۔ اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
(المستفتی : حافظ جنید، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : بارش نازل ہونے کا وقت فضلِ الہی، اور لوگوں پر رحمتِ الہی کا وقت ہے، اس وقت میں خیر و بھلائی کے اسباب مزید بڑھ جاتے ہیں، اور یہ دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے۔

حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں یا یہ فرمایا کہ دو دعائیں بہت کم رد کی جاتی ہیں ایک اذان کے وقت (یعنی اذان کے بعد) دوسرے جنگ میں جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں۔ موسیٰ (اس حدیث کے ایک راوی) نے کہا کہ رزق بن سعید بن عبدالرحمن نے بواسطہ ابوحازم حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور بارش کے وقت بھی۔ 


حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَانِ لَا تُرَدَّانِ أَوْ قَلَّمَا تُرَدَّانِ الدُّعَائُ عِنْدَ النِّدَائِ وَعِنْدَ الْبَأْسِ حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا قَالَ مُوسَی وَحَدَّثَنِي رِزْقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَوَقْتُ الْمَطَرِ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٥٤٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ذی الحجہ 1445

ہفتہ، 8 جون، 2024

دس ذی الحجہ سے پہلے طوافِ زیارت کرنا


سوال :

مفتی صاحب ! طوافِ زیارت کا وقت اور اس کا طریقہ بتادیں، زید اور اس کی بیوی بہت زیادہ ضعیف ہیں، اس لیے وہ چاہ رہے ہیں کہ طوافِ زیارت دس ذی الحجہ سے پہلے ہی کرلیں، تاکہ اُس وقت کی بھیڑ سے محفوظ رہیں، تو کیا ان کا ایسا کرنا درست ہے؟ طوافِ زیارت ادا ہوجائے گا؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : رفیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : طوافِ زیارت کا اصل وقت دس ذوالحجہ کی صبح صادق سے بارہ ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب تک ہے۔ لیکن اگر اس وقت میں طواف نہیں کیا تو بعد میں بھی کرنا ہوگا، یہ ذمہ پر باقی رہتا ہے، البتہ بلاعذرِ شرعی بارہ ذوالحجہ کے غروب آفتاب کے بعد ادا کرنے کی وجہ سے دم واجب ہوگا۔ 

طوافِ زیارت کا طریقہ وہی ہے جو عام طواف کا ہے، البتہ اگر بعد میں سعی کرنے کا ارادہ ہے تو پہلے تین چکروں میں  رمل اور اضطباع کیا جائے گا۔ اور اگر حج کی سعی پہلے کرچکا ہے، اور احرام کھولنے کے بعد طوافِ زیارت کررہا ہے تو نہ رمل کرے گا اور نہ ہی اضطباع کیا جائے گا، کیوں کہ رمل و اضطباع صرف اسی طواف میں ہوتا ہے جس کے بعد سعی کرنے کا ارادہ ہو۔

ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ وقوفِ عرفات سے قبل طوافِ زیارت نہیں ہوسکتا، کیونکہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک طوافِ زیارت کا وقت یوم النحر کی صبحِ صادق سے شروع ہوتا ہے، اور امام شافعی اور احمد کے نزدیک یوم النحر کی نصف شب کے بعد سے اس کا وقت شروع ہوجاتا ہے، گویا یوم النحر کی نصف شب سے پہلے طوافِ زیارت کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ضعیفی اور کمزوری کی وجہ سے بھی اس کی گنجائش نہیں ہوگی کہ دس ذوالحجہ سے پہلے طوافِ زیارت کرلیا جائے، اگر کسی نے پہلے کرلیا تو اس کا طوافِ زیارت معتبر نہیں ہوگا، وقت ہونے کے بعد اس کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔


واول وقتہ طلوع الفجر الثانی من یوم النحر فلا یصح قبلہ ویمتد وقت صحتہ الی اٰخر العمر لکن یجب فعلہ فی ایام النحر ولیالیہا المتخللۃ بینہما منہا، فلو اخرہ عنہا ولو الی الیوم الرابع الذی ہو اٰخر ایام التشریق ولیلتہ منہ کرہ تحریماً ولزمہ دم وہو الصحیح۔ (غنیۃ الناسک ۱۷۸)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
01 ذی الحجہ 1445

جمعرات، 6 جون، 2024

ریاض الجنہ اور مسجد قباء مکروہ اوقات میں چلاجائے تو؟


سوال :

مفتی صاحب ! مدینہ میں ریاض الجنہ اور قبا وغیرہ میں عصر بعد نفل نمازیں پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ ابھی جیسا کہ آپ جانتے ہیں وہ پرمٹ کا مسئلہ ہے عصر بعد کسی کا جانا ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ کیا کریں؟ کیا پڑھیں؟
(المستفتی : محمد مکی، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے صبح صادق کے بعد فجر کی سنت اور فرض کے درمیان کوئی نفل پڑھنا ثابت نہیں ہے، یہاں تک کہ فجر کی نماز ہوجانے کے بعد بھی اشراق کا وقت ہونے تک نفل نماز پڑھنا منع ہے۔ اسی طرح عصر کی نماز پڑھ لینے کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفل نماز نہیں ہے۔ اس لئے فقہاء نے ان اوقات میں کوئی بھی نفل نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا ان اوقات میں کبھی ریاض الجنہ یا مسجد قباء جانے کی نوبت آجائے تو نفل نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ بلکہ مسجد قباء میں نماز کے لیے مکروہ وقت نکلنے کا انتظار کرنا چاہیے اس کے بعد نماز پڑھنا چاہیے، اور ریاض الجنہ میں اگر رکنے اور مکروہ وقت نکلنے کا موقع نہ ملے تو وہاں تلاوت، ذکر، دعا وغیرہ کرلی جائے۔ ریاض الجنہ میں نماز پڑھنے سے ہی اس کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ کسی بھی قسم کی عبادت کرلی جائے تو اس کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔



ویکرہ أن یتنفل بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب لما روی أنہ علیہ السلام نہی عن ذلک، ولابأس بأن یصلي في ہذین الوقتین الفوائت۔ (ہدایۃ : ۱/۸۵، ۸۶)

وَعَنْ التَّنَفُّلِ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَالْعَصْرِ لَا عَنْ قَضَاءِ فَائِتَةٍ وَسَجْدَةِ تِلَاوَةٍ وَصَلَاةِ جِنَازَةٍ) أَيْ مُنِعَ عَنْ التَّنَفُّلِ فِي هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ۔ (البحر الرائق : ١/٢٦٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ذی القعدہ 1445

منگل، 4 جون، 2024

بھاجپا کا غرور ٹوٹا

     انصاف پسند عوام کی محنت رنگ لائی

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
         (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! لوک سبھا انتخابات کے نتائج تقریباً مکمل ہونے کو ہیں، کانگریس اتحاد کو 230 اور بھاجپ کو 290 کے آس پاس سیٹیں مل رہی ہیں۔ جبکہ جس وقت لوک سبھا الیکشن کا بگل بجا تھا، اس وقت بھاجپ کی طرف سے انتہائی متکبرانہ نعرہ "اب کی بار، چار سو پار" بڑے زور شور سے لگایا جارہا تھا، اور رام مندر کے افتتاح اور اپوزیشن کے کمزور ہونے کی وجہ سے اس وقت ماحول بھی کچھ ایسا ہی بنا ہوا تھا کہ لگتا تھا کہ وہ اس عدد کے قریب پہنچ جائے۔ جبکہ بھاجپا ایک ایسی پارٹی ہے جس میں آپ کو ہر طرح کی برائیاں نظر آئیں، اس نے بدعنوانی اور کرپشن کی انتہاء کی ہے، مذہب کے نام پر عوام میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھری ہے، ایک دوسرے کو آپس میں لڑایا ہے، مہنگائی میں غیرمعمولی اضافہ کرکے دھنا سیٹھوں کو مزید امیر اور عوام کو مزید غریب کرنے کا کام کیا ہے۔ اپنے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگاکر ان کو جیلوں میں بند کیا ہے یا پھر مجرموں کو بھاجپا جوائن کرلینے کے بعد ان کے سارے پاپ دھو دئیے گئے۔ جمہوریت کا ایک اہم ستون کہے جانے والے تقریباً پورے میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو خرید لیا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس کے دور میں "گودی میڈیا" کی اصطلاح سامنے آئی۔ شریعت میں مداخلت کی ناکام کوشش کی گئی، یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے ان کی شہریت پر سوالیہ نشان لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ یہ ساری باتیں اس طرف واضح اشارہ کررہی تھیں کہ یہ جمہوری ملک ڈکٹیٹر شپ کی طرف تیزی بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ اس خطرے کو علماء کرام، انصاف پسند لیڈران اور چھوٹے بڑے سینکڑوں یوٹیوبرس نے محسوس کرلیا، اور اس بات کی کوشش شروع کردی کہ کسی بھی طرح ایسی پارٹی کو اقتدار سے دور رکھا جائے۔

یہاں اس بات کا اظہار کردینا ضروری ہے کہ ہم کانگریس اتحاد کو کوئی دودھ کا دھلا اور پارسا نہیں سمجھتے ہیں اور نہ ہی ہم نے اس سے بڑی بڑی امیدیں باندھی ہیں، لیکن اتنی بات تو بہرحال کہی جاسکتی ہے کہ وہ بھاجپ کی بہ نسبت کم نقصان دہ ہیں۔ لہٰذا علماء کرام نے بھی اس بات کو عوام کے سامنے بڑی فکرمندی اور اچھے انداز میں رکھا، جس پر انصاف پسند عوام بالخصوص مسلمانوں نے لبیک کہا اور اپنی اخلاقی، سماجی اور دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے گرمی کی شدت کے باوجود سفر کرکے اور اپنا مال لگاکر ووٹنگ کی، جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ خود ہمارے حلقہ پارلیمنٹ میں بھی الحمدللہ بیس سالوں کے بعد ایک سیکولر پارٹی کا نمائندہ کامیاب ہوا ہے اور مغرور بھاجپاکو چار سو سیٹیں کیا ملتیں ؟ اسے تو تین سو سیٹوں کے اندر ہی سمٹنا پڑگیا، اور اب حال یہ ہے کہ  وہ خانہ جنگیوں کی وجہ سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی نہ ہو،  لہٰذا اس موقع پر یہی شعر یاد آتا ہے کہ 
سورج لہولہان ہے ہر شام دیکھ لے
اے زندگی  غرور کا انجام دیکھ لے

انڈیا اتحاد کو اگرچہ اقتدار کا جادوئی عدد حاصل نہیں ہوا ہے، لیکن قوی امید ہے کہ وہ کوئی جگاڑ کرکے اپنی حکومت بنالے، اور اگر خدانخواستہ انڈیا اتحاد حکومت نہیں بناتا ہے تب بھی انصاف پسند عوام کی محنتوں سے بھاجپ کے سامنے ایک مضبوط اپوزیشن کھڑا ہوچکا ہے جو ان شاءاللہ اس کے ناپاک منصوبوں کا کامیاب نہیں ہونے دے گا۔

محترم قارئین ! یقیناً یہ ہمارے لیے ایک بڑی جیت اور خوشی کا موقع ہے۔ لیکن خوشی کے موقع پر ہمیں کس طرح رہنا ہے؟ اس کی تعلیم بھی ہمیں ہماری شریعتِ کاملہ میں ملتی ہے۔ لہٰذا ہم خوشی مناتے ہوئے کوئی ناجائز کام مثلاً آتش بازی، ڈھول باجے، ناچ گانے بالکل نہ کریں۔ بلکہ اسی رقم سے ہم اپنے علاقوں میں مٹھائیاں تقسیم کردیں، غریبوں کی کسی بھی طرح مدد کردیں، نماز شکرانہ ادا کریں، اور شریعتِ مطہرہ کی مکمل پیروی کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں کہ اس کے بغیر ہماری کوئی کامیابی، حقیقت میں کامیابی نہیں ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شہر اور ملک کو ایسا نمائندہ عطا فرمائے جو ہمارے شہر، ملک اور ہم سب کے حق میں خیر خواہ ہو اور ہم سب کو صراطِ مستقیم پر گامزن فرمائے۔ آمین 

پیر، 3 جون، 2024

"تجھے اپنے رشتہ سے آزاد کردیا" کہنے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب! ایک مسئلہ در پیش ہے۔
ایک مرد اپنی بیوی کو ایک مجلس میں دو بار کہا کہ میں اپنے رشتے سے تجھ کو آزاد کردیا۔ کون سی طلاق ہوئی؟ اور اب اس عورت کے لئے کیا حکم ہوگا؟ فی الحال وہ عورت اپنے شوہر ہی کے گھر میں ہے۔
(المستفتی : مولوی عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں مرد کا اپنی بیوی کو دو مرتبہ یہ کہنا کہ "میں نے اپنے رشتے سے تجھ کو آزاد کردیا" یہ جملہ صریح ہے اور اور صریح الفاظ میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی، بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس شخص کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے۔ دو طلاقِ رجعی کا حکم یہ ہے کہ اس سے پہلے کوئی طلاق نہ ہوئی ہوتو شوہر کو عدت کی مدت میں رجوع کا اختیار ہے، یعنی دو گواہوں کی موجودگی میں کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں یا تنہائی میں میاں بیوی والا عمل کرلے تو رجوع ہوجائے گا۔ اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں ہوئی ہوتو شوہر کے پاس اب صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا۔


فَإِنَّ سَرَّحْتُك كِنَايَةٌ لَكِنَّهُ فِي عُرْفِ الْفُرْسِ غَلَبَ اسْتِعْمَالُهُ فِي الصَّرِيحِ فَإِذَا قَالَ " رهاكردم " أَيْ سَرَّحْتُك يَقَعُ بِهِ الرَّجْعِيُّ مَعَ أَنَّ أَصْلَهُ كِنَايَةٌ أَيْضًا، وَمَا ذَاكَ إلَّا لِأَنَّهُ غَلَبَ فِي عُرْفِ الْفُرْسِ اسْتِعْمَالُهُ فِي الطَّلَاقِ وَقَدْ مَرَّ أَنَّ الصَّرِيحَ مَا لَمْ يُسْتَعْمَلْ إلَّا فِي الطَّلَاقِ مِنْ أَيِّ لُغَةٍ كَانَتْ۔ (شامی : ٣/٢٩٩) 

وَلَوْ قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ: ترا جِنّك بَازٍ داشتم أَوْ بهشتم أَوْ يَلِهِ كردم ترا أَوْ باي كَشَادِّهِ كردم ترا فَهَذَا كُلُّهُ تَفْسِيرُ قَوْلِهِ طَلَّقْتُك عُرْفًا حَتَّى يَكُونَ رَجْعِيًّا وَيَقَعُ بِدُونِ النِّيَّةِ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٧٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ذی القعدہ 1445

اتوار، 2 جون، 2024

قرض واپسی کی دعا؟


سوال :

مفتی صاحب ! لوگوں نے پیسے لے لئے ہیں۔ واپس نہیں کر رہے ہیں، مسنون دعائیں ہو تو بتائیں کہ لوگ پیسے لوٹا دیں۔
(المستفتی : وکیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرض وصول ہوجائے اس کے لیے باقاعدہ کوئی دعا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی مسئلہ در پیش ہوتو درج ذیل نبوی نسخہ پر عمل کریں۔

حضرت عبداللہ بن ابو اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی کو اللہ کی طرف کوئی حاجت یا لوگوں میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو اسے چاہئے کہ اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے (جس میں کوئی مخصوص سورۃ پڑھنا منقول نہیں) پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجے اور یہ پڑھے۔

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، أَسْأَلُکَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔

ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بردبار بزرگی والا ہے پاک ہے اللہ اور عرش عظیم کا مالک ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اے اللہ میں تجھ سے وہ چیزیں مانگتا ہوں جو تیری رحمت اور تیری بخشش کا سبب ہوتی ہیں اور میں ہر نیکی میں سے اپنا حصہ مانگتا ہوں اور ہر گناہ سے سلامتی طلب کرتا ہوں اے اللہ میرے گناہ بخشے بغیر میرے کسی غم کو دور کئے بغیر میری کسی حاجت کو جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہو پورا کئے بغیر نہ چھوڑنا اے رحم کرنے والوں سے بہت زیادہ رحم کرنے والے۔ (١)

ایک روایت میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ سے دنیا آخرت کی جو چیز چاہے مانگے اللہ تعالیٰ اس کے لئے مقدر فرمادیں گے۔

درج بالا دعا کے پڑھنے کے بعد دل لگاکر قرض واپس مل جائے اس کے لیے دعا کریں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ قرض دار سے اچھے انداز میں مطالبہ بھی کرتے رہیں، کیونکہ مطالبہ نہ کرنا بعض مرتبہ ایسوں کے لیے غفلت اور مزید کوتاہی کا سبب بنتا ہے اور وہ قرض کی ادائیگی کو گویا بھول ہی جاتے ہیں۔


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَتْ لَهُ إِلَی اللَّهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَی أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوئَ ثُمَّ لِيُصَلِّ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَی اللَّهِ وَلْيُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَسْأَلُکَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِيمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔ (سنن الترمذی : رقم ٤٧٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
24 ذی القعدہ 1445