ہفتہ، 29 فروری، 2020

احرام کی حالت میں ماسک لگانا

*احرام کی حالت میں ماسک لگانا*

سوال :

جراثیم سے بچنے کے لئے ماسک لگا کر حالت احرام میں عُمرہ کی ادائیگی کی گنجائش ہوسکتی ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد شرجیل، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احرام کی حالت میں ’’ماسک‘‘ پہننا مردوں اورعورتوں سب کے لئے ممنوع ہے، البتہ بیماری پھیلنے یا لگنے کا قوی اندیشہ ہوتو اس کے پہننے کی گنجائش ہوسکتی ہے، اور امید ہے کہ اس پر گناہ نہیں ہوگا، لیکن اس وقت بھی جزاء لازم ہوگی، اور جزاء کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر ’’ماسک‘‘ اتنا چوڑا ہے کہ اس سے چوتھائی چہرہ ڈھک جاتا ہے اور یہ ’’ماسک‘‘ مسلسل بارہ گھنٹے لگائے رکھا تو دم میں ایک بکری ذبح کرنا واجب ہے، اور اگر ’’ماسک‘‘ کی چوڑائی چوتھائی چہرے سے کم ہو یا اسے ۱۲؍گھنٹے سے کم لگایا تو صدقۂ فطر (پونے دوکلو گیہوں یا اس کی قیمت) واجب ہوگا۔ اور یہ صدقہ یا اس کی قیمت کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے۔

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت : کان الرکبان یمرون بنا ونحن مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم محرمات، فإذا حاذوا بنا سدلت إحدانا جلبابہا من رأسہا علی وجہہا، فإذا جاوزونا کشفناہ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۵۴ رقم : ۱۸۳۳)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: لا یعصب المحرم رأسہ بسیر ولا خرقۃ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۱۶۶ رقم: ۱۳۴۵۱)

ولو عصب رأسہ أو وجہہ یوماً أو لیلۃً فعلیہ صدقۃ إلا أن یأخذ قدر الربع فدم۔ (غنیۃ الناسک ۲۵۴، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۴۲، شامي ۳؍۴۹۸ زکریا)

ولا یغطي المحرم رأسہ ولا وجہہ، والمحرمۃ لا تغطي وجہہا، وإن فعلت ذٰلک، إن کان یوماً إلی اللیل فعلیہا دم، وإن کان أقل من ذٰلک فعلیہا صدقۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۵۷۸، خانیۃ علی الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۸۹، بدائع الصنائع ۲؍۴۱۱ زکریا)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 رجب المرجب 1441

پیشگی (ایڈوانس) زکوٰۃ ادا کرنا

*پیشگی (ایڈوانس) زکوٰۃ ادا کرنا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید کی سالانہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا وقت ایک رمضان المبارک ہے، لیکن وہ رمضان المبارک سے پہلے رجب میں ہی اس نے کسی مستحق کو زکوٰۃ کی نیت سے کچھ رقم دے دی ہے تو کیا یہ زکوٰۃ ادا ہوگی؟ کیا ایڈوانس زکوٰۃ دینا صحیح ہے؟
(المستفتی : محمد ہارون، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے زکوٰۃ ادا کرتے وقت یا اپنے مال سے زکوٰۃ کی رقم الگ کرتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرلی تھی تو اس کی آئندہ سال کی زکوٰۃ ادا ہوگئی، چنانچہ سالانہ زکوٰۃ کے حساب کے وقت زکوٰۃ کی رقم سے ادا کردہ رقم کو کم کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ اگر کوئی صاحب نصاب سال گذرنے سے پہلے ہی پیشگی زکوٰۃ ادا کردے تو جائز ہے، سال پورا ہونے پر نصاب باقی ہے تو یہ پیشگی ادا کی گئی زکوٰۃ، زکوٰۃ ہوگی، ورنہ نفلی صدقہ میں اس کا شمار ہوگا۔

وَيَجُوزُ تَعْجِيلُ الزَّكَاةِ بَعْدَ مِلْكِ النِّصَابِ، وَلَا يَجُوزُ قَبْلَهُ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ. وَإِنَّمَا يَجُوزُ التَّعْجِيلُ بِثَلَاثَةِ شُرُوطٍ أَحَدُهَا أَنْ يَكُونَ الْحَوْلُ مُنْعَقِدًا عَلَيْهِ وَقْتَ التَّعْجِيلِ. وَالثَّانِي أَنْ يَكُونَ النِّصَابُ الَّذِي أَدَّى عَنْهُ كَامِلًا فِي آخِرِ الْحَوْلِ. وَالثَّالِثُ أَنْ لَا يَفُوتَ أَصْلُهُ فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ فَإِذَا كَانَ لَهُ النِّصَابُ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ الْفِضَّةِ أَوْ أَمْوَالِ التِّجَارَةِ أَقَلَّ مِنْ الْمِائَتَيْنِ فَعَجَّلَ الزَّكَاةَ ثُمَّ كَمَّلَ النِّصَابَ أَوْ كَانَتْ لَهُ مِائَتَا دِرْهَمٍ أَوْ عُرُوضٌ لِلتِّجَارَةِ قِيمَتُهَا مِائَتَا دِرْهَمٍ فَتَصَدَّقَ بِالْخَمْسَةِ عَنْ الزَّكَاةِ وَانْتَقَصَ النِّصَابُ حَتَّى حَالَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ وَالنِّصَابُ نَاقِصٌ أَوْ كَانَ النِّصَابُ كَامِلًا وَقْتَ التَّعْجِيلِ ثُمَّ هَلَكَ جَمِيعُ الْمَالِ صَارَ مَا عَجَّلَ بِهِ تَطَوُّعًا هَكَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الزکٰوۃ، ١/١٧٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
04 رجب المرجب 1441

جراثیم سے بچنے کے لیے ماسک لگاکر نماز پڑھنا

*جراثیم سے بچنے کے لیے ماسک لگاکر نماز پڑھنا*

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا وائرس سے بچنے کیلئے منہ اور ناک پر ڈھاٹا یا ماسک لگا نماز پڑھ سکتے ہیں؟
(المستفتی : خالد عزیز، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عام حالات میں منہ اور ناک ڈھک کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، اس لیے کہ منہ ڈھک کر عبادت کرنا مجوسیوں کا طریقہ ہے وہ آگ کی پوجا کے وقت یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ البتہ جہاں ضرورت ہو یعنی کسی بیماری کے جراثیم پھیلنے یا اس سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتو وہاں ماسک وغیرہ لگاکر نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہوگا۔

وَلَوْ غَطَّاهُ بِثَوْبٍ فَقَدْ تَشَبَّهَ بِالْمَجُوسِ؛ لِأَنَّهُمْ يَتَلَثَّمُونَ فِي عِبَادَتِهِمْ النَّارَ۔ (بدائع الصنائع : ١/٢١٦)

وَيُكْرَهُ التَّلَثُّمُ وَهُوَ تَغْطِيَةُ الأَْنْفِ وَالْفَمِ فِي الصَّلاَةِ لأَِنَّهُ يُشْبِهُ فِعْل الْمَجُوسِ حَال عِبَادَتِهِمُ النِّيرَانَ، وَهُوَعِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ مَكْرُوهٌ تَحْرِيمًا۔ (حاشية الطحطاوي : ١/٢٧٥)

اَلضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱۴۰، الفن الاول)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 رجب المرجب 1441

رمضان المبارک کی آمد کی خوشخبری دینا

*رمضان المبارک کی آمد کی خوشخبری دینا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا رمضان المبارک کی آمد کی خوشخبری دینے کی کوئی فضیلت حدیث شریف میں موجود ہے؟ اگر ہے تو اس کی سندی حیثیت کیا ہے؟ وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : رمضان المبارک کی آمد سے کچھ پہلے سوشل میڈیا پر درج ذیل من گھڑت پوسٹ بڑی زور شور سے عوام الناس کی طرف سے چلائی جاتی ہے۔

من أخبر بخبر رمضان أولا حرام عليه نار جهنم
ترجمہ : جو رمضان کی خبر سب سے پہلے دے گا اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی۔

معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی کوئی روایت نہ کبھی اہل علم سے سنی ہے، نہ پڑھی ہے، نہ ہی تلاش کرنے سے کسی کتاب میں ملی ہے، بلکہ یہ موجودہ دور کی من گھڑت باتوں میں سے ہے، جو کہ بڑی جہالت اور حماقت کی بات ہے۔ لہٰذا قصداً اس کا پھیلانا اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔ یعنی ایسی کوئی بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔

چنانچہ ہم سب پر ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کوئی بھی بات بلاتحقیق بیان نہ کریں۔ لہٰذا خود بھی اس من گھڑت پوسٹ کے پھیلانے سے اجتناب کریں اور دوسروں کو بھی روکیں۔

نوٹ : رمضان المبارک کے علاوہ بھی کسی مہینے کے آمد کی مبارکباد یا خوشخبری سنانا حدیث شریف سے ثابت نہیں ہے۔

قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : من کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (صحیح البخاري : 1291،صحیح مسلم : 933)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 رجب المرجب 1441

جمعہ، 28 فروری، 2020

قرآن مجید میں بال نکلنا

*قرآن مجید میں بال نکلنا*

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ گھر کے قرآن میں بال نکلا ہے، نیا قرآن لانے کے باوجود بھی اس کے کچھ صفحات کے بیچ میں بال نکل رہا ہے دیگر قرآن میں بھی چیک کیا تو اس میں بھی بال نکلا، اس کی کیا حقیقت ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
(المستفتی : حافظ فہد، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم میں بال ڈھونڈنے والی حماقت آج کل شروع نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہ بدعقیدگی سالوں پُرانی ہے، جس پر صاحبِ فتاوی رحیمیہ مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری نور اللہ مرقدہ نے بیسیوں سال پہلے مفصل اور کافی شافی جواب لکھا ہے، جسے معمولی کمی بیشی کے ساتھ نقل کیا جارہا ہے۔

کوئی جگہ بالوں سے خالی نہیں ہے، سر کے، بھنوؤں کے، مونچھ کے داڑھی اور بدن کے ہزاروں لاکھوں بالوں میں سے نہ معلوم روز اور کتنے بال گرتے،ٹوٹتے، مونڈوائے اور کتروائے جاتے ہیں وہ ہوا میں اڑ کر اِدھر اُدھر گھس جاتے ہیں، قرآن شریف برسوں سے پڑھے جاتے ہیں اور گھنٹوں کھلے رہتے ہیں ان میں گھر میں گرے ہوئے بال ہوا سے اُڑ کر اور پڑھنے والے کے سر کے بال کھجلانے سے ٹوٹ کر گرتے ہیں اور برسوں اوراق کی تہہ میں دبے رہتے ہیں، نیز یہی اندیشے نئے قرآن میں بھی ہوتے ہیں، کیونکہ یہ سب چَھپائی میں انسانوں کے ہاتھوں سے گذر کر ہی آتے ہیں، پس اگرتلاش کرنے کے بعد ان میں کوئی بال مل جائے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ بلکہ ان میں بال نہ نکلنا حیرت ناک ہے۔

قرآن مجید میں سے نکلے ہوئے بالوں کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک بال سمجھ لینا، ان پر درود خوانی کرنا، ان کی زیارت کرنا، کروانا ایمان کھونے جیسی حرکت ہے اور اسے کرامت سمجھنا بھی جہالت ہے۔
ہر حیرت کی بات کرامت نہیں ہوتی بلکہ استدراج اورشیطانی حرکت بھی ہوسکتی ہے۔

حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دن سیرو سیاحت کرتے ہوئے میرا ایک ایسے جنگل میں گزر ہوا جہاں پانی نہیں تھا، چند دنوں تک وہیں ٹھیرنا پڑا، پانی نہ ملنے کی وجہ سے سخت پیاس لگی، حق سبحانہ تعالیٰ نے بادل کا سایہ میرے اوپر کر دیا اور اس بادل سے چند قطرے ٹپکے جس سے مجھ کو کچھ تھوڑی بہت تسکین ہوئی، اس کے بعد ان بادلوں سے ایک روشنی نکلی جس نے آسمان کے تمام کناروں کو گھیر لیا، اور اس روشنی میں سے ایک عجیب و غریب صورت نمودار ہوئی جو مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی کہ اے عبدالقادر میں تیرا پروردگار ہوں تجھ پر تمام حرام چیزوں کو حلال کرتا ہوں (اس لئے) جو چاہو کرو (کوئی باز پرس نہ ہوگی) میں نے کہا اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم۔اے شیطان ملعون ! راندہ درگاہ دور ہوجا اور بھاگ یہاں سے یہ کیا بات ہے؟ اس کے بعد ہی فوراً وہ روشنی تاریکی سے بدل گئی اور اندھیرا چھا گیا، وہ صورت غائب ہوگئی اور آواز آئی اے عبدالقادر تم نے اپنے علم وفہم کی وجہ سے (جو احکام الٰہی سے حاصل کئے ہیں) اور اپنے مرتبہ کے ذریعہ مجھ سے نجات پائی ہے (ورنہ) میں اس جگہ ستر ۷۰ بزرگوں اورصوفیوں کو گمراہ کر چکا ہوں ایک بھی سیدھے راستے پر قائم نہ رہ سکا۔ (البلاغ المبین، ص ۳۴ /تصنیف حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ)

اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک تعجب خیز چیز کو کرامت سمجھ لینا یہ گمراہی کی علامت ہے، دجال کے کرشمے بڑے تعجب انگیز ہوں گے، مردوں کو زندہ کرنے کا کرشمہ دکھائے گا، اس کے ساتھ اس کی جنت اور دوزخ بھی ہوگی، جو اس کو مانے گا اس کو وہ جنت میں اور نہ ماننے والے کو دوزخ میں ڈالے گا سخت قحط سالی کے زمانے میں کسی کے پاس غلہ نہ ہوگا اس وقت جو اس کو مانے گا اسے وہ دے گا بارش برسائے گا، غلہ پیدا کرے گا، زمین میں مدفون خزانے اس کےتابع ہوجائیں گے ، ایسے حالات میں آج کل کے بال پرست اور ضعیف العقیدہ لوگ اپنا ایمان کیونکر محفوظ رکھ سکیں گے؟
ایمان اور عقیدہ کی سلامتی کے لئے حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مقدس تاریخی درخت جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے محض اس لئے کٹوادیا کہ لوگ اس کی زیارت کے لئے بڑے اہتمام سے آتے تھے، اسی طرح مکہ و مدینہ کے راستہ میں وہ جگہ جہاں آنحضرتﷺ نے نماز ادا فرمائی تھی، وہاں لوگوں کو بڑے اہتمام سے جاتے ہوئے دیکھ کر ان کو تنبیہہ فرمائی اور فرمایا فانما ھلک من کان قبلکھم بمثل ذلک کانوا یتبعون اثار الا نبیاء (تم سے پہلی قومیں اسی لئے ہلاک و برباد ہوئیں کہ تمہارے اس فعل کی طرح وہ اپنے نبیوں کے نشانات کے پیچھے لگا کرتی تھیں۔ (البلاغ المبین ص ۷)

ذکر کردہ دونوں مثالیں مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہیں۔ آدمی کے بدن سے علیٰحدہ شدہ بالوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ ان کو زمین میں دفن کر دیا جائے، لیکن موجودہ دور میں پکے مکانات اور سڑکوں کی وجہ سے اس کا موقع نہ ہوتو ان کو کچرے میں پھینک دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

نوٹ : بھائیو ! قرآن شریف اﷲ کا قانون ہے، یہ ایک کامل اور بہترین دستور العمل ہے اس میں بھلائی اور ہدایت کا راستہ تلاش کرنا چاہئے جسے اختیار کرکے دین اور دنیا کی بھلائی حاصل کر سکتے ہیں۔مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہم نیکی اور ہدایت کے راستہ کی تلاش چھوڑ کر قرآن شریف میں بال تلاش کرنے لگے ہیں اور اگر اتفاق سے کوئی بال نکل آتا ہے تو ا س کی پرستش میں لگ جاتے ہیں (معاذ اﷲ) کتنے افسوس کا مقام ہے۔

اﷲ ہم سب کی بدعقیدگی سے حفاظت فرمائے، کرنے کے کاموں پر توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور فضول کاموں سے ہماری حفاظت فرمائے۔آمین

فاذا قلم اظفارہ او جز شعرہ ینبغی ان یدفن ذلک الظفر والشعر المجزوز فان رمی بہ فلا بأس وان القاہ فی الکنیف اوفی المغتسل یکرہ ذلک۔ (فتاوی عالمگیری، ۵/ ۳۵۸، کتاب اکراھبۃ، الباب التاسع عشر فی الحنان والخصآ ء وقلم الا طفارالخ۔)
فتاوی رحیمیہ : ٣ /٢١-٢٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 رجب المرجب 1441

جمعرات، 27 فروری، 2020

عازمِ عمرہ کا ویزہ حکومت منسوخ کردے؟

*عازمِ عمرہ کا ویزہ حکومت منسوخ کردے؟*

سوال :

مفتی صاحب ! آج کی ایک اہم خبر کہ سعودی حکومت نے بڑا فیصلہ لیا ہے کہ حرم شریف میں کرونا وائرس پائے جانے کی وجہ سے عمرہ ویزا پر پابندی لگا دی ہے
صورت مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو حالت احرام میں جدہ سے ہی واپس کر دیا گیا ہے وہ معتمرین حضرات جو حالت احرام میں ہیں وہ احرام سے کیسے نکلیں؟ اور احرام سے نکلتے ہیں تو کیا ان کے اوپر دم واجب ہوگا یا نہیں؟ نیز اگر جو لوگ ہندوستان کے ایئرپورٹ پر ہوں اور احرام باندھ لیا ہو ان کے متعلق جو بھی رہنمائی ہو آپ فرمائیں۔
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسلامی شریعت میں ناگہانی پیش آمدہ حالات کی بھی رعایت رکھی گئی ہے اور جو شخص کسی ناقابل تحمل مشکل میں پھنس جائے تو اس سے خلاصی کی تدبیریں بھی بتائی گئی ہیں، انہی میں سے احرام باندھنے کے بعد حج یا عمرہ میں رکاوٹ پیش آنے کا مسئلہ بھی ہے، گوکہ اصل حکم یہی ہے کہ جس شخص نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا ہو وہ حج یا عمرہ کے مناسک ادا کئے بغیر حلال نہ ہو، لیکن اگر حالات ایسے بن جائیں کہ وہ حج یا عمرہ کے مناسک ادا نہ کرسکے تو اس کے لئے گنجائش ہے کہ وہ قربانی کرکے حلال ہوجائے اور بعد میں جب سہولت ہو، حج یا عمرہ کی قضا کرے۔ اس مسئلہ کی عملاً تعمیل خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیبیہ میں کرائی گئی، اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :

وَاَتِمُّوْا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ، فَاِنْ  اُحْصِرْتُمْ  فَمَا اسْتَیْسَرَمِنَ الْہَدْیِ، وَلَا تَحْلِقُوْا رُؤُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ۔ (سورۃ البقرۃ : ۱۹۶)
ترجمہ : اور حج اور عمرہ کو اللہ واسطے پورا کیا کرو، اور اگر تم روک دیئے جاؤ تو تم پرحسب سہولت ایک قربانی واجب ہے اور تم مت منڈواؤ اپنے سروں کو قربانی کا جانور اپنے موقع محل پر پہنچنے سے قبل۔

اس آیت میں موقع محل سے مراد حضراتِ حنفیہ نے حدودِ حرم کو لیا ہے، لہٰذا دیگر جگہوں پر احصار کی قربانی کافی نہ ہوگی۔ (معارف القرآن وغیرہ)

احصار کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں، مثلاً :

۱) کسی دشمن یا زور آور کے ذریعہ سفر میں رکاوٹ پیش آنا۔

٢) حکومت کی طرف سے قید کردیا جانا۔

۳) حج یا عمرہ کا ویزا حکومت کی طرف سے منسوخ کردیا جانا۔

۴) حادثہ میں اس طرح زخمی ہوجانا کہ سفر ممکن نہ رہے۔

۵) بدن کی ہڈی ٹوٹ جانا یا لنگڑا ہوجانا کہ چلنا ممکن نہ ہو۔

٦) سفر کی وجہ سے مرض میںاضافہ کا غالب گمان ہونا۔

۷) سفر خرچ ضائع ہوجانا اور اخراجات کا کوئی متبادل نظم نہ ہوسکنا۔

٨) سواری کا نظم مفقود ہونا جب کہ دوری اس قدر ہو کہ پیدل چلنے پر قدرت نہ ہو، مثلاً احرام باندھنے کے بعد جہاز چھوٹ جائے اور بعد میں کوئی جہاز نہ ہو۔

٩) بیوی نے شوہر کی اجازت کے بغیر حج فرض کا یا نفلی حج وعمرہ کا احرام باندھ لیا ہو، اس کے بعد شوہر اس کو مناسک ادا کرنے سے منع کردے۔

مندرجہ بالا صورتوں یا ان جیسے حالات سے جو شخص دوچار ہو اس پر احصار کے احکامات جاری ہوں گے۔

واما الاحصار فی عرف الشرع : فہو منع المحرم عن الوقوف والطواف، سواء کان من العدو او المرض او الحبس او الکسر اوالعرج او غیرہا من الموانع من اتمام ما احرم بہ حقیقۃ او شرعاً۔ (البحر العمیق ۴؍۲۰۶۸، مناسک ملا علی قاری ۴۱۳، غنیۃ الناسک جدید ۳۱۰)

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں جو لوگ عمرہ کا احرام باندھ کر جدہ میں موجود ہیں پھر احصار پیش آگیا یعنی حکومت کی جانب سے ویزہ کی منسوخی کا حکم آگیا اور انہیں واپس کیا جارہا ہے تو ان پر حدودِ حرم میں ایک دم (دم میں ایک بکری یا بڑے جانور میں ایک حصہ دینا ہے، اور اس کے گوشت کا مصرف فقراء ومساکین ہوتے ہیں) دینا اور بعد میں عمرہ کی قضا بھی واجب ہوگی۔ نیز وہ لوگ جو اپنے ملک میں ہی ہوں اور احرام پہن لیا ہو اور نیت کرکے تلبیہ بھی پڑھ لیا ہو ان کا شرعی احرام جاری ہوگیا ہے، لہٰذا ویزہ کی منسوخی کے بعد ان پر بھی ایک دم اور بعد میں کبھی بھی عمرہ کی قضا واجب ہوگی۔

البتہ وہ لوگ جو اپنے ملک میں ہی ہوں اور انہوں نے احرام پہن لیا ہو لیکن نیت کرکے تلبیہ نہ پڑھا ہو، ان کا احرام ابھی شروع نہیں ہوا، لہٰذا ان پر کچھ بھی واجب نہیں، وہ احرام کا کپڑا اتار کر اپنے سِلے ہوئے کپڑے پہن لیں۔

نوٹ : حنفیہ کے نزدیک اصل حکم تو یہی ہے کہ محصر (جس پر پابندی ہو) کو احرام کھولنے کے لئے حدودِ حرم میں ہی قربانی کرنی چاہئے، لیکن اگر ایسی صورت پیش آئے کہ محصر کے لئے حدودِ حرم میں قربانی ممکن نہ ہو، مثلاً کسی شخص کو ایئرپورٹ ہی سے واپس کردیا جائے اور اس شخص کا کوئی جانکار مکہ معظمہ میں موجود نہ ہو یا اس سے رابطہ کی کوئی شکل نہ ہو تو اس کے لئے یہ بھی گنجائش ہے کہ حدودِ حرم کے علاوہ جہاں ممکن ہو قربانی کرکے حلال ہوجائے۔ اگر قربانی کیے بغیر احرام کھول دے گا تو اس پر مزید ایک دم اور واجب ہوجائے گا۔ دمِ احصار میں جانور ذبح ہونے کے بعد آدمی خود بخود حلال ہوجاتا ہے، حلق یا قصر کرانا لازم نہیں، البتہ اگر کرالے تو بہتر ہے۔

فان احصر فقط عن نسک واحدٍ، فیکفیہ دم واحد للتحلل، وعلیہ قضاء ما تحلل عنہ، فان کانت عمرۃ فعمرۃ یقضیہا۔ (البحر العمیق ۴؍۲۰۹۷)

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ عِکْرِمَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ بْنَ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کُسِرَ أَوْ عَرِجَ فَقَدْ حَلَّ وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ قَالَ عِکْرِمَةُ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَا صَدَقَ۔ (ابوداؤد)
مستفاد : کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 رجب المرجب 1441

بدھ، 26 فروری، 2020

کیا زنا قرض ہے؟

*کیا زنا قرض ہے؟*

سوال :

مفتی صاحب! زنا قرض ہے یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء کی کیا رائے ہے؟ ہمارے شہر کے ایک عالم کے بیان میں کئی مرتبہ سن چکا ہوں کہ زنا قرض ہے، اور یہ قرض زانی کی بہن بیٹی کو چکانا پڑے گا۔ اس کے برعکس مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی زنا کرے اور اس کی سزا اس کی بہن بیٹی کو ملے، زنا قرض نہیں ہے۔ آپ ان دونوں رائے پر روشنی ڈالیں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زنا انتہائی سنگین اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، جس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور بروز حشر ایسے لوگوں کا انجام انتہائی دردناک ہوگا۔ معراج کی شب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زناکاروں کو ہورہا عذاب دکھایا گیا کہ ایک جگہ تنور کی طرح ایک گڑھا ہے جس کا منہ تنگ ہے اور اندر سے کشادہ ہے برہنہ مرد و عورت اس میں موجود ہیں اور آگ بھی اس میں جل رہی ہے جب آگ تنور کے کناروں کے قریب آجاتی ہے تو وہ لوگ اوپر اٹھ آتے ہیں اور باہر نکلنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور جب آگ نیچے ہوجاتی ہے تو سب لوگ اندر ہوجاتے ہیں۔

اسلامی حکومت میں اگر غیرشادی شدہ لڑکی یا لڑکا زنا کرے تو اسے سو کوڑے سزا کے طور پر مارنے کا حکم ہے اور اگر شادی شدہ مرد و عورت یہ قبیح اور غلیظ عمل کریں تو انہیں سنگسار یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم اور ضروری ہے کہ وہ اس گناہ عظیم کے قریب بھی نہ جائے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ زنا قرض ہے، یہ حدیث شریف کے الفاظ نہیں ہیں، بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے جو مکمل درج ذیل ہے :

عفوا تعف نساوٴکم في المحرم وتجنبوا ما لا یلیق بمسلم
إن الزنا دین فإن أقرضتہ کان الوفا من أھل بیتک فاعلم

ترجمہ : پاکدامن رہو تمہاری عورتیں پاکدامن رہیں گی اور بچو اس سے جو مسلمان کے لائق نہیں
بے شک زنا قرض ہے اگر تونے اس کو قرض لیا تو ادئیگی تیرےتیرے گھر والوں سے ہوگی اس کو جان لے

چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو حرف آخر اور قطعی نہ سمجھا جائے، کیونکہ اگر اسے قطعی سمجھ لیا جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ خدانخواستہ زانی کی بہن بیٹیاں بھی زانی ہوں گی۔ اگر ایسا ہوا تو بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے، گھر کے ایک بگڑے ہوئے فرد کی وجہ سے دوسروں پر بدگمانی پیدا ہوگی، لہٰذا یہ سمجھ لیا جائے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول اس گناہ کی نحوست بتانے اور زجر وتوبیخ پر محمول ہے، حقیقت پر نہیں۔

البتہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : عِفُّوا تَعِفُّ نِسَاؤُكُمْ ۔
ترجمہ : پاک دامن رہو تمھاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔ (معجم کبیر طبرانی : ۱۱/۱۷۳ - مستدرک حاکم : ۱۷/۹۸)

اس حدیث شریف کے پیشِ نظر یہ تو کہا جاسکتا ہے تم پاکدامن رہوگے تو اس کی برکت سے تمہاری عورتیں بھی پاکدامن رہیں گی، لیکن اس حدیث کا مفہوم مخالف یعنی اس کے اُلٹے معنی لینا کہ اگر کوئی شخص زنا کرے تو اس کے گھر کی عورتیں بھی زنا جیسے گناہ میں ملوث ہوجائیں گی، درست نہ ہوگا۔ کیونکہ احناف کے یہاں نصوصِ شرعیہ یعنی قرآن و حدیث میں مفہومِ مخالف معتبر نہیں ہے، البتہ کُتُب فقہ کی عبارتوں میں مفہوم مخالف معتبر ہے بشرطیکہ وہ مفہوم مخالف کسی صریح فقہی عبارت کے معارض نہ ہو۔

پاکستان کے جید عالم دین اور محقق مفتی عبدالباقی صاحب اخونزادہ اسی عنوان کے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں کہ اللہ رب العزت ظالم نہیں ہیں، اور نہ کسی ایک شخص کے گناہوں کی سزا دوسروں کو دیں گے، البتہ علماء امت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کھلم کھلا زنا کرے اور اپنے اس فسق اور گناہ پر اصرار کرتا رہے تو یقیناً اس کے گھر والے جو اس کو یہ عمل کرتے دیکھ رہے ہوں گے انکے دلوں سے بھی اس گناہ کی برائی ختم ہوجائے گی، اور وہ بھی اس فعل میں مبتلا ہوجائیں گے، لیکن اگر کوئی کسی غلطی کو کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اسے اپنے عمل پر ندامت ہو تو ان شاءاللہ اس کی مغفرت اور رحمت بہت وسیع اور اللہ رب العزت کی ذات جس عمل کو خود ناپسند کرتی ہے اس عمل میں اپنے بندوں کو کس طرح سزا کے طور پر مبتلا کرسکتی ہے؟ (مستفاد : تنبیہات)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
زنا حقوق اللہ میں سے ہے اور حقوق اللہ صدق دل سے توبہ کرلینے اور اپنے اس فعل پرنادم ہونے سے معاف ہوجاتا ہے، آپ نے جو یہ سن رکھا ہے کہ ”زنا ایک قرض ہے جو زنا کرنے والے شخص کی ماں، بہن، بیوی، یابیٹی کو لوٹانا ہوتا ہے“ اس کی کوئی اصل نہیں ہے؛ بلکہ یہ آیت قرآنیہ ”ولاتزروازرة وزر أخری“ ( کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہ اٹھائے گا)کے بھی خلاف ہے۔ (رقم الفتوی : 150964)

درج بالا تفصیلات کے بعد یہی کہا جائے گا کہ سوال نامہ میں مذکور شہر کے عالم صاحب کی بات ناقص اور وضاحت طلب ہے، ان کی بہ نسبت مفتی طارق مسعود صاحب کی بات زیادہ واضح اور صحیح ہے۔

مفہوم المخالفۃ لم یعتبرہ الحنفیۃ، والشافعي اعتبرہ؛ وفي ’’جامع الرموز‘‘ في بیان الوضوء: مفہوم المخالفۃ کمفہوم الموافقۃ معتبر في الروایۃ بلاخلاف؛ لٰکن في ’’اجازۃ الزاہري‘‘: أنہ غیر معتبر۔ والحق أنہ معتبر إلاأنہ أکثري لاکلي کما في حدود النھایۃ وغیرہا۔ (کشاف اصطلاحات الفنون:۳،۴۷۶/بحوالہ دستور الطلباء)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 رجب المرجب 1441