بدھ، 31 جولائی، 2019

قربانی کس پر واجب ہے؟ اہم مسئلہ

*قربانی کس پر واجب ہے؟*

                 *اہم مسئلہ*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
  (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! عام طور پر عوام کا ایک طبقہ اس مسئلے سے ناواقف ہے یا پھر تذبذب کا شکار ہے کہ قربانی کس پر واجب ہے؟ لہٰذا ایسے افراد کے لیے اس مسئلے کو آسان اور مختصر الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

          قربانی ہر صاحبِ نصاب عاقل، بالغ، مقیم مرد وعورت پر واجب ہے۔ اور قربانی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے، لیکن یہ پرانا تولہ ہے جو تقریباً بارہ گرام کا ہوا کرتا تھا، موجودہ تولہ چونکہ دس گرام کا ہوتا ہے، لہٰذا اب قربانی کا نصاب باسٹھ تولہ چاندی ہوگا۔ جس کی قیمت فی الحال ہمارے شہر مالیگاؤں کے اعتبار سے کم و بیش 45000 پینتالیس ہزار (امسال جون/ جولائی 2023 میں قریب قریب پورے ہندوستان میں نصاب کی قیمت یہی ہوگی) بنتی ہے۔ اتنی ملکیت رکھنے والا شخص صاحبِ نصاب اور شرعاً مالدار کہلاتا ہے۔ مطلب یہ کہ جس شخص کے پاس زندگی کی لازمی ضروریات مثلاً رہائشی مکان، کھانے پینے کے سامان، استعمالی برتن و کپڑے کے علاوہ کرایہ کے مکانات، زمین، مالِ تجارت، رکھے ہوئے کپڑے اور برتن، سونا، چاندی یا نقد رقم اتنی مقدار میں ہو کہ ان کی مالیت پینتالیس ہزار کو پہنچ جائے تو اس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے۔ نیز اس 45000 کی مالیت پر سال کا گزرنا بھی ضروری نہیں، بلکہ قربانی کے روز بھی اتنا مال کہیں سے آجائے اور وہ مالک بن جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔ البتہ اگر اس پر قرض ہوتو قرض کی رقم کل مالیت سے نکالنے کے بعد ایسا شخص صاحبِ نصاب باقی رہے گا تب اس پر قربانی واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔

گھر کے جتنے بالغ افراد اپنے طور پر 45000 کے مالک ہوں گے ان سب پر قربانی واجب ہوگی، خواہ مرد ہوں یا عورت، برسرروزگار ہوں یا نہ ہوں۔

بطورِ خاص ملحوظ رہے کہ قربانی کے لیے باقاعدہ بڑا جانور یا پھر بکری، بکرا خریدنا ضروری نہیں، بلکہ بڑے جانور میں سے ایک حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، پھر کم استطاعت رکھنے والے افراد کے لیے مزید سہولت اور آسانی یہ بھی ہے کہ بیرون شہرمعتبر جگہوں پر اجتماعی قربانی میں حصہ لے لیں، جہاں کافی کم قیمت مثلاً پندرہ سو، سولہ سو روپے میں اجتماعی قربانی کا معقول نظم ہوتا ہے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض و واجبات کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

                            
                           ◼️حوالہ جات

قال الکاساني: ومنہا الغني: لما روي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: ’’من وجد سعۃً فلیضح‘‘ شرط علیہ الصلاۃ والسلام السعۃ، وہي الغنی؛ ولأنا أوجبناہا بمطلق المال۔ ومن الجائز أن یستغرق الواجب جمیع مالہ فیؤدي إلی الحرج فلابد من اعتبار الغني، وہو أن یکون في ملکہ مائتا درہمٍ أو عشرون دینارًا أو شيء تبلغ قیمتہ ذٰلک سوی مسکنہ، وما یتأثث بہ وکسوتہ وخادمہ وفرسہ وسلاحہ وما لا یستغنی عنہ، وہو نصاب صدقۃ الفطر۔ (بدائع الصنائع، کتاب التضحیۃ، ۴/۱۹۶)

وأما شرائط الوجوب : منہا : الیسار، ہو ما یتعلق بہ وجوب صدقۃ الفطر دون ما یتعلق بہ وجوب الزکاۃ … والموسر في ظاہر الروایۃ، مَن لہ أتا درہم أو عشرون دینارًا، أو شيء یبلغ ذٰلک مسکنہ ومتاع مسکنہ ومرکوبہ وخادمہ في حاجتہ التي لا یستغنی عنہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/۲۹۲)

راجیہ سبھا میں طلاقِ ثلاثہ بِل منظور مسلمان کیا کریں؟

*راجیہ سبھا میں طلاقِ ثلاثہ بِل منظور*

          *مسلمان کیا کریں؟*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! طلاقِ ثلاثہ بل اپنی تمام تر خامیوں اور احمقانہ جزئیات کے باوجود لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں بھی منظور ہوچکا ہے۔ اور ظاہری حالات یہی بتارہے ہیں کہ صدر جمہوریہ نامی ربر اسٹیمپ کے مرحلے سے گذار کر یہ بِل مسلمانوں کے لاکھ احتجاج کے باوجود ان پر تھوپ دیا جائے گا۔ اگرچہ اب بھی ہمارے پاس دنیاوی لحاظ سے ایک ہتھیار عدالتِ عظمی کا باقی ہے، اور اللہ کریم کی ذات سے امید ہے کہ ہمارے اکابر کی نمائندگی میں ہمیں دنیاوی عدالت میں بھی انصاف ملے گا۔ لیکن وہیں باطل کی پے درپے کامیابیاں ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ کیونکہ اس بِل کے منظور ہوجانے کے بعد ایک طبقہ کو بلاشبہ شہ ملے گی، اور ان کی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوششیں دن بدن تیز ہوجائیں گی۔ اس لئے مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ اس بِل کے منظور ہونے کی خبر ملتے ہی ایک واقعہ ذہن میں گردش کرنے لگا جس میں مسلمانوں کے لیے بڑا سبق موجود ہے۔

واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟ جواب آیا :
ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ اس نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا کر حاضر کیا گیا۔ شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی : کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم : یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں۔
شہزادی : کیا تمہارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
عالم : یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی : تو کیا اللہ نے آج ہمیں
تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
عالم : یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی : تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم : نہیں،
شہزادی : کیسے؟
عالم : تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی : ہاں دیکھا ہے۔
عالم : کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ کتے رکھے ہوتے ہیں؟
شہزادی : ہاں رکھے ہوتے ہیں۔ عالم : اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی دوسری طرف کو نکل کھڑی ہوں، اور چرواہے کی سن کر واپس آنے کو تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
شہزادی : وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے، تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم : وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
شہزادی : جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم نے کہا : تم تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہو جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، اور ہماری گردنوں پر مسلط رکھے گا، جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے اُس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔

محترم قارئین ! آج پھر مسلمانوں پر وہی حالات ہیں، مختلف قسم کے کتے ہم پر مسلط ہیں، اور جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی طرف واپس نہ آجائیں تب تک یہ ہم پر مسلط رہیں گے۔ لہٰذا ایسے حالات میں سب سے پہلی ضرورت یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں کہ یہی ایک در ہے جہاں تمام مسائل حل ہوتے ہیں۔

اس کے بعد سرِدست مسلمانوں کو چند باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ کالا قانون نافذ ہوجاتا ہے، تب بھی مسلمانوں کو اس سے کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے، بشرطیکہ مسلمان شریعتِ مطہرہ کے مطابق زندگی گذاریں۔ اس قانون کو بے اثر کرنے کے لیے سب سے پہلی کوشش یہ ہو کہ بیک وقت تین طلاق دینے کا سنگین گناہ معاشرے سے ختم ہو۔ اگر طلاق دینے کی نوبت آجائے تو صرف ایک طلاق دی جائے۔ جسے طلاق میں سب سے بہتر طلاق کہا گیا ہے، لیکن اگر کسی سے بیک وقت تین طلاق دینے کی غلطی ہو ہی جائے تو پھر ایسی صورت میں خاتون اور اس کے اہل خانہ کو چاہیے کہ اپنا معاملہ شریعت کے اصولوں کے مطابق حل کروائیں۔ نہ کہ کورٹ کچہری کے چکر لگائے جائیں۔ اس لئے کہ یہ قانون صرف مرد کے حق میں مضر نہیں ہے، بلکہ خواتین کے حق میں بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ جس کی وجہ سے عورت کی آخرت تو برباد ہوگی، دنیا میں بھی اسے بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔

یہ چند باتیں جو عوام الناس کے کرنے کی ہیں، بقیہ معاملات ہماری نمائندہ تنظیمیں اور اکابر علماء بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ جزاھم اللہ خیرا

اللہ تعالٰی ہم سب کو سو فیصد شریعت پر عمل کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

منگل، 30 جولائی، 2019

حالتِ احرام میں کنگھی کرنا اور تولیہ سے چہرا اور بالوں کا پونچھنا

*حالتِ احرام میں کنگھی کرنا اور تولیہ سے چہرا اور بالوں کا پونچھنا*

سوال :

مفتی صاحب احرام کی حالت میں کنگھی کرنا کیسا ہے؟ وضو یا غسل کے بعد سر یا چہرا پونچھ سکتے ہیں؟ اس سے دم صدقہ وغیرہ تو کچھ لازم نہیں ہوگا؟
(المستفتی : محمد مرتضی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بحالتِ احرام کنگھی کرنا مکروہ ہے۔ اور اگر کنگھی کرنے کی وجہ سے داڑھی یا سر کے  بال ٹوٹ  جائیں تو اس صورت  میں  ہر تین  بال  کے بدلہ  میں ایک مٹھی غلہ یا ہر  بال  کے بدلہ  میں  ایک کھجور صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

احرام کی حالت میں تولیہ وغیرہ سے بدن خشک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ چہرا یا بالوں کا پونچھنا کراہت سے خالی نہیں، اس لئے کہ اس  میں  ایک طرح سے  چہرہ  یا سر کا ڈھکنا پایا جاتا ہے، اگرچہ تھوڑی ہی دیر کے لئے ہو۔ لہٰذا اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ تاہم اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس پر صدقہ وغیرہ کچھ بھی واجب نہیں۔

فلو سقط من رأسہ او لحیتہٖ ثلاث شعراتٍ عند الوضوء او غیرہ فعلیہ کف من طعام…الخ۔ (غنیۃ الناسک : ۲۵۷)

او تمرۃ لکل شعرۃ۔ (غنیۃ الناسک : ۲۵۷)

إذا غطی رأسہ ووجہہ … أونائما … فعلیہ الجزاء، فإذا غطی جمیع رأسہ أو وجہہ والربع منہما کالکل … یوما أو لیلۃ والمراد مقدار أحدہما فعلیہ دم۔ وفي الأقل من یوم أو من الربع صدقۃ۔ (غنیۃ الناسک : ۲۵۴) 
مستفاد : کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی القعدۃ 1439

پیر، 29 جولائی، 2019

میاں بیوی کا ایک پیالے میں دودھ پینا

*میاں بیوی کا ایک پیالے میں دودھ پینا*

سوال :

کیا میاں بیوی ایک پیالی سے دودھ نہیں پی سکتے؟ زید کی شادی کے دوسرے دن زید کی سسرال والے ناشتہ کرانے کے لئے  دودھ جلیبی لے کر آئے  زید اور اس کی دلہن کو ایک پیالی میں دودھ پینے کے لیے دیا گیا، زید کہتا ہے کہ ایک پیالی میں میاں بیوی کو دودھ نہیں پینا چاہیے کیونکہ ایک پیالی میں دودھ پینے سے بہن بھائی کا رشتہ ہوجاتا ہے،اور نکاح ٹوٹ جائے گا، کیا زید صحیح کہتا ہے؟
(المستفتی : سفیان احمد، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بہن بھائی کا رشتہ نسب سے ثابت ہوتا ہے یا پھر رضاعت سے۔ نسب سے ثابت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے ماں باپ ایک ہوں یا کم از کم ماں یا باپ ایک ہوں۔ رضاعت سے ثابت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رضاعت کی مدت یعنی ڈھائی سال سے کم عمر میں دونوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوا ہے تو اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے جس کی وجہ سے دو لوگوں میں بھائی بہن کا رشتہ قائم ہو۔

میاں بیوی کا ایک پیالے میں دودھ، پانی وغیرہ کچھ بھی پینا جائز بلکہ مستحسن کہلائے گا، اس لئے کہ یہ عمل زوجین کے درمیان محبت میں اضافے کا سبب بھی ہے۔ مزید یہ کہ ایک پیالے میں دودھ اور پانی پینا حضور اکرم صلی اللہ علیہ اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ثابت ہے، روایات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

ابوداؤد شریف میں ہے :
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں (کھانے میں) ہڈی چوستی تھی اس حال میں کہ میں حائضہ ہوتی تھی پھر میں (وہ ہڈی) نبی ﷺ کو دیتی تو آپ ﷺ بھی اپنا منہ اسی جگہ رکھتے جہاں میں نے رکھا تھا اور میں پانی پی کر آپ ﷺ کو دیتی تو آپ ﷺ بھی اپنا منہ اسی جگہ لگاتے جہاں میں نے لگایا تھا۔

مسند احمد میں ہے :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے وقت کا واقعہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، جسے آپ نے پہلے خود نوش فرمایا : پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہ پیالہ پکڑا دیا، وہ شرما گئیں، چنانچہ انہوں نے شرماتے ہوئے وہ پیالہ پکڑ لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ مجھے دے دو، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دوبارہ نوش کرکے مجھے پکڑا دیا، میں بیٹھ گئی اور پیالے کو اپنے گٹھنے پر رکھ لیا اور اسے گھمانے لگی تاکہ وہ جگہ مل جائے جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہونٹ لگائے تھے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں زید کا قول بالکل باطل اور لاعلمی پر مبنی ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے قول سے رجوع کرے اور توبہ و استغفار کرے۔ نیز آئندہ پختہ علم کے بغیر دینی مسائل میں کچھ بھی کہنے سے اجتناب کرے۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِالْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كُنْتُ أَتَعَرَّقُ الْعَظْمَ وَأَنَا حَائِضٌ، فَأُعْطِيهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ فَمَهُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي فِيهِ وَضَعْتُهُ، وَأَشْرَبُ الشَّرَابَ فَأُنَاوِلُهُ، فَيَضَعُ فَمَهُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي كُنْتُ أَشْرَبُ مِنْهُ۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 259)

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ قَالَ حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ إِحْدَى نِسَاءِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ طَعَامًا فَقَالَ لَا أَشْتَهِيهِ فَقَالَتْ إِنِّي قَيَّنْتُ عَائِشَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جِئْتُهُ فَدَعَوْتُهُ لِجِلْوَتِهَا فَجَاءَ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِهَا فَأُتِيَ بِعُسِّ لَبَنٍ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَفَضَتْ رَأْسَهَا وَاسْتَحْيَا قَالَتْ أَسْمَاءُ فَانْتَهَرْتُهَا وَقُلْتُ لَهَا خُذِي مِنْ يَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ فَأَخَذَتْ فَشَرِبَتْ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطِي تِرْبَكِ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلْ خُذْهُ فَاشْرَبْ مِنْهُ ثُمَّ نَاوِلْنِيهِ مِنْ يَدِكَ فَأَخَذَهُ فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ نَاوَلَنِيهِ قَالَتْ فَجَلَسْتُ ثُمَّ وَضَعْتُهُ عَلَى رُكْبَتِي ثُمَّ طَفِقْتُ أُدِيرُهُ وَأَتْبَعُهُ بِشَفَتَيَّ لِأُصِيبَ مِنْهُ مَشْرَبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد، حدیث نمبر، 27591)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ذی القعدہ 1440

اتوار، 28 جولائی، 2019

احرام کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ/پاؤڈر استعمال کرنا

*احرام کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ/پاؤڈر استعمال کرنا*

سوال :

مفتی صاحب ایسا ٹوتھ  پیسٹ/پاؤڈر  جس  میں  الائچی، لونگ یا دیگر خوشبودار کیمیکل ملائے جاتے ہیں ایسے منجن کا بحالت احرام استعمال کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر ٹوتھ  پیسٹ/پاؤڈر  میں  لونگ، الائچی یا دیگر خوشبو دار اشیاء شامل ہوں اور وہ پکی ہوئی نہ ہوں، نیز مقدار کے اعتبار سے خوشبو دار چیز مغلوب ہو، (یعنی کم ہو) تو بحالتِ احرام ایسے منجن کا استعمال مکروہ ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے مُحرم پر کچھ بھی واجب نہ ہوگا۔ البتہ اگر ٹوتھ  پیسٹ/پاؤڈر  میں  خوشبو دار چیز غالب ہو تو چونکہ منجن  پورے منہ یا اکثر حصہ  میں  لگ جائے گا، جس کی وجہ سے دم واجب ہوگا۔

عام طور پر ٹوتھ پیسٹ/پاؤڈر میں خوشبو شامل ہوتی ہے اور وہ پکی ہوئی بھی نہیں ہوتی، لیکن خوشبو والی چیز غالب نہیں ہوتی، بلکہ مغلوب ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کا استعمال مکروہ ہوگا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ  احرام کی حالت  میں مسواک کے استعمال پر اکتفا کیا جائے، ٹوتھ پیسٹ/پاؤڈر استعمال کرنے سے اجتناب کیا جائے یا پھر ایسا منجن استعمال کیا جائے جس میں خوشبو والی اشیاء شامل نہ ہوں۔

فلو اکل طیباً کثیراً وھو ان یلتصق باکثرمنہ یجب الدم وان کان قلیلا بان لم یلتصق باکثر فمہ فعلیہ الصدقۃ ھذا اذا اکلہ‘ کما ھو من غیر خلط او طبخ فلو جعلہ فی الطعام وطبخہ فلا باس باکلہ لانہ خرج من حکم الطیب وصار طعاماً وکذلک کل ما غیر تہ النارمن الطیب فلا بأس باکلہ ولو کان ریح الطیب یو جد منہ ۔ الیٰ قولہٰ۔ وفی الفتح فان جعلہ فی طعام قد طبخ کالزعفان والا فاویہ من الزنجبیل والدارصینی یجعل فی الطعام فلا شئی علیہ فعن ابن عمر رضی اﷲعنہ انہ کان یاکل السکباج الا صفر وھو محرم وان لم یطبخ بل خلطہ بما یوکل بالا طنخل کا ملح وغرہ فان کانت رائحتہ موجودۃکرہ ولا شئی علی اذا کان مغلوبا فانہ کالمستھلک امااذاکان غالباً فھو کالزعفران الخالص فیجب الجزاء وان لم تظھرر الحتہ الخ۔ (غنیۃ الناسک، ۱۳۲/باب الجنایات، مطلب فی أکل الطیب وشربہ/بحوالہ فتاوی رحیمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ذی القعدہ 1440

طلاق کے بعد عدت گذارنا ضروری ہے

*طلاق کے بعد عدت گذارنا ضروری ہے*

سوال :

شوہرعورت سے دس سال دور رہا ایک ہی محلہ میں لیکن باتیں ملاقاتیں سب بند تھا اب دس سال گزرنے کے بعد وہ کہتا ہےکہ میں نے تجھے تین طلاق دی۔ تو تیرا سامان لیکر چلی جا۔ تو کیا یہ عورت طلاق کی عدت گذارے گی؟
(المستفتی : نعیم الظفر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں شوہر کے یہ کہنے کے بعد کہ "میں نے تجھے تین طلاق دی" تو اس کی بیوی پر تینوں طلاق واقع ہو جائیں گی۔ لہٰذا طلاق واقع ہونے کے بعد مطلقہ اب یہاں سے اپنی عدت گذارے گی، جس کی مدت تین ماہواری ہوگی۔ طلاق سے پہلے دونوں کے درمیان تعلقات خواہ کتنے ہی دن کیوں نہ منقطع رہے ہوں اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا اور نہ ہی اس کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا۔ طلاق کے بعد بہرحال عدت گذارنا ضروری ہے۔ عدت کی مدت میں دوسرا نکاح جائز نہیں ہے، اور نہ ہی یہ نکاح منعقد ہوتا ہے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوْءٍ۔ (سورۃ البقرۃ، جزء آیت : ۲۲۷)

واِبتداء العدۃ فی الطلاق عقیب الطلاق وفی الوفاۃ عقیب الوفاۃ فان لم تعلم بالطلاق أو الوفاۃ حتی مضت مدۃ العدۃ فقد انقضت عدتہا۔ (ہدایہ : ۲/۴۰۵)

أَمَّا نِكَاحُ مَنْكُوحَةِ الْغَيْرِ وَمُعْتَدَّتِهِ فَالدُّخُولُ فِيهِ لَا يُوجِبُ الْعِدَّةَ إنْ عَلِمَ أَنَّهَا لِلْغَيْرِ لِأَنَّهُ لَمْ يَقُلْ أَحَدٌ بِجَوَازِهِ فَلَمْ يَنْعَقِدْ أَصْلًا۔ (شامي : ٣/٥١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ذی القعدہ 1440

جمعرات، 25 جولائی، 2019

مقروض کا حج و عمرہ کرنا

*مقروض کا حج و عمرہ کرنا*

سوال :

مفتی صاحب! قرضدار کا حج وعمرہ کرنا کیسا ہے؟ کیا اس کا حج و عمرہ ادا ہوجاتا ہے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقروض کا حج و عمرہ ادا ہی نہیں ہوتا، لہٰذا آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ اس مسئلے کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیں تاکہ عوام کی صحیح رہنمائی ہوجائے۔
(المستفتی : محمد فیضانِ، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر قرض خواہ کی طرف سے مہلت ہوتو مقروض کا حج و عمرہ کے لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ قرض خواہ کو بلاعذر ٹال مٹول کرکے حج یا عمرہ پر جانا بہتر نہیں ہے، کیونکہ حقوق اللہ کے مقابلے میں حقوق العباد کا نمبر پہلے ہوتا ہے۔

تاہم مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں مقروض کا حج و عمرہ ادا ہوجائے گا بشرطیکہ اس نے ارکانِ حج و عمرہ صحیح طور پر انجام دئیے ہوں۔ لہٰذا کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ مقروض کا حج و عمرہ سِرے سے ادا ہی نہیں ہوتا، بالکل غلط ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ توبہ و استغفار کریں اور آئندہ بغیر علم کے دینی مسائل میں رائے زنی کرنے سے کُلّی طور پر اجتناب کریں۔

أما في حق المقترض، فالأصل فیہ الإباحۃ، وذلک لمن علم من نفسہ الوفاء، بأن کان لہ مال مرتجی، وعزم علی الوفاء منہ وإلا لم یجز، ما لم یکن مضطرا، فإن کان کذلک وجب في حقہ لدفع الضرر عن نفسہ۔  (۳۳/۱۱۳، قرض ، الحکم التکلیفي للقرض، الموسوعۃ الفقہیۃ)

ووسعہ أن یستقرض ویحج الخ، أما إن علم أنہ لیس لہ جہۃ القضاء أصلاً فالأفضل عدم الاستقراض؛ لأن تحمل حقوق اللّٰہ تعالیٰ أخف من ثقل حقوق العباد۔ (غنیۃ الناسک، ۳۳/بحوالہ کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
21 ذی القعدہ 1440

بدھ، 24 جولائی، 2019

حجاج و معتمرین کا مصلیانِ مسجد کو سلام بھیجنا

*حجاج و معتمرین کا مصلیانِ مسجد کو سلام بھیجنا*

سوال :

1) عازم حج کا سر زمین مقدس سے مقامی لوگوں کیلئے سلام بھیجنا کیسا ہے؟
2) کچھ لوگ یہاں رہ کر تو لوگوں کو سلام نہیں کرتے لیکن حج کیلئے جانے کے بعد سلام عرض کرتے ہیں اور اس کے پیچھے بہت سارے لوگوں کا مقصد نام و نمود ہوتا ہے تو ایسا کرنا کیسا ہے؟
3) واٹس ایپ پر ایک پوسٹ چل رہی ہیکہ اس طرح کے سلام پر پابندی عائد کی جائے کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟
(المستفتی : انصاری اسامہ، قلعہ، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کو غائبانہ سلام بھیجنا جائز ہے، احادیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔

ابوداؤد شریف کی روایت میں ہے کہ ایک صحابی رسول فرماتے ہیں مجھ کو میرے والد نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجتے ہوئے کہا کہ تم نبی ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ کو سلام عرض کرو۔  اپنے والد کے حکم پر میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میرے والد نے آپ کو سلام عرض کیا ہے، نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم اور تمہارے باپ پر سلامتی ہو۔

بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المؤمنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت جبرئیل علیہ السلام کا سلام پیش کیا تھا۔

معلوم ہوا کہ حجاج و معتمرین کا مصلیانِ مسجد کو سلام بھیجنا فی نفسہ جائز ہے، لیکن اسے فرض، واجب یا سنت نہ سمجھا جائے۔ جیسا کہ بعض حجاج اور معتمرین کے اہتمام سے گمان ہوتا ہے۔ پھر مسجد میں اس کے اعلان میں بھی اس بات کا بطور خاص اہتمام ہو کہ مسبوق حضرات کی نماز میں خلل نہ ہو، ورنہ کراہت کا ارتکاب لازم آئے گا۔ مثلاً جمعہ کی نماز میں اعلان کردینا مناسب ہوگا کہ جمعہ کی نماز میں عام طور پر مسبوق نہیں ہوتے۔

2) مقام پر رہ کر لوگوں کو سلام نہ کرنا اور حج یا عمرہ کے لئے جانے کے بعد وہاں سے سلام بھیجنا یہ تو سراسر رِیاکاری اور نام و نمود ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کو اس عمل سے باز آجانا چاہیے، ورنہ ان کے حج اور عمرے بروز حشر ان کے منہ پر مار دئیے جائیں گے۔

3) موجودہ دور میں جبکہ لوگوں کے اندر اخلاص و للہیت سلف صالحین کے درجہ کا نہیں رہا، لہٰذا بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کی شرعی حیثیت کو واضح کرکے اس کو بتدریج بند کردیا جائے۔

عن غالب قال: إنا لجلوس بباب الحسن إذ جاء رجلٌ، فقال: حدثني أبي عن جدي، قال: بعثني أبي إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ائتہٖ فاقرأہ السلام، قال: فأتیتہ، فقلتہ: إن أبي یقرئک السلام، فقال: علیک وعلی أبیک السلام۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأدب / باب في الرجل یقول: فلان یقرئک السلام رقم: ۵۲۳۱)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا حدثتْہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہا: إن جبرئیل یقرئک السلام، قالت : وعلیہ السلام ورحمۃ اللّٰہ۔ (صحیح البخاري، کتاب الاستئذان/باب إذا قال: فلان یقرئک السلام ۲؍۹۲۳ رقم: ۶۲۵۳)

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ۔ (شامی : ۱؍۶۶۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ذی القعدہ 1440