منگل، 31 مئی، 2022

نماز کی حالت میں چڑھی ہوئی آستین نیچے کرنا

سوال :

بہت سارے لوگ نماز کی نیت باندھنے کے بعد ہاتھ کی آستین نیچے کرتے ہیں اور میں خود یہ کرتا ہوں تو کیا اس طرح کرنا درست ہے؟ اس سے نماز پر کیا اثر ہوگا؟
(المستفتی : انصاری محمد حاشر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وضو کے بعد چڑھی ہوئی آستین کو درست کیے بغیر نماز میں شامل ہوجانا اور اسی حالت میں نماز مکمل کرلینا مکروہ ہے۔ اگر آستین اتنی اوپر چڑھی ہوئی ہوں کہ کہنیاں بھی کھل جائیں، تو اس میں کراہت اور زیادہ ہے۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ آستین صحیح کرکے نماز میں شامل ہوا جائے خواہ رکعت کیوں نہ نکل جائے۔ اگر آستین درست کیے بغیر نماز میں شامل ہوجائے اور ایک ہاتھ سے آستین اتار لے تو گنجائش ہے اگر دونوں ہاتھوں سے اتارے یا ایسے انداز سے اتارے کہ دیکھنے والے کو لگے کہ یہ شخص نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔

(وَ) كُرِهَ (كَفُّهُ) أَيْ رَفْعُهُ وَلَوْ لِتُرَابٍ كَمُشَمِّرِ كُمٍّ أَوْ ذَيْلٍ (وَعَبَثُهُ بِهِ) أَيْ بِثَوْبِهِ ... (قَوْلُهُ أَيْ رَفْعُهُ) أَيْ سَوَاءٌ كَانَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ أَوْ مِنْ خَلْفِهِ عِنْدَ الِانْحِطَاطِ لِلسُّجُودِ بَحْرٌ. وَحَرَّرَ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ مَا يُفِيدُ أَنَّ الْكَرَاهَةَ فِيهِ تَحْرِيمِيَّةُ (قَوْلُهُ وَلَوْ لِتُرَابٍ) وَقِيلَ لَا بَأْسَ بِصَوْنِهِ عَنْ التُّرَابِ بَحْرٌ عَنْ الْمُجْتَبَى.
(قَوْلُهُ كَمُشَمِّرِ كُمٍّ أَوْ ذَيْلٍ) أَيْ كَمَا لَوْ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَهُوَ مُشَمِّرٌ كُمَّهُ أَوْ ذَيْلَهُ، وَأَشَارَ بِذَلِكَ إلَى أَنَّ الْكَرَاهَةَ لَا تَخْتَصُّ بِالْكَفِّ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ كَمَا أَفَادَهُ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ، لَكِنْ قَالَ فِي الْقُنْيَةِ: وَاخْتُلِفَ فِيمَنْ صَلَّى وَقَدْ شَمَّرَ كُمَّيْهِ لِعَمَلٍ كَانَ يَعْمَلُهُ قَبْلَ الصَّلَاةِ أَوْ هَيْئَتُهُ ذَلِكَ اهـ وَمِثْلُهُ مَا لَوْ شَمَّرَ لِلْوُضُوءِ ثُمَّ عَجَّلَ لِإِدْرَاكِ الرَّكْعَةِ مَعَ الْإِمَامِ. وَإِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَذَلِكَ وَقُلْنَا بِالْكَرَاهَةِ فَهَلْ الْأَفْضَلُ إرْخَاءُ كُمَّيْهِ فِيهَا بِعَمَلٍ قَلِيلٍ أَوْ تَرْكِهِمَا؟ لَمْ أَرَهُ: وَالْأَظْهَرُ الْأَوَّلُ بِدَلِيلِ قَوْلِهِ الْآتِي وَلَوْ سَقَطَتْ قَلَنْسُوَتُهُ فَإِعَادَتُهَا أَفْضَلُ تَأَمَّلْ. هَذَا، وَقَيَّدَ الْكَرَاهَةَ فِي الْخُلَاصَةِ وَالْمُنْيَةِ بِأَنْ يَكُونَ رَافِعًا كُمَّيْهِ إلَى الْمِرْفَقَيْنِ. وَظَاهِرُهُ أَنَّهُ لَا يُكْرَهُ إلَى مَا دُونَهُمَا. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَالظَّاهِرُ الْإِطْلَاقُ لِصِدْقِ كَفِّ الثَّوْبِ عَلَى الْكُلِّ اهـ وَنَحْوُهُ فِي الْحِلْيَةِ، وَكَذَا قَالَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ الْكَبِيرِ: إنَّ التَّقْيِيدَ بِالْمِرْفَقَيْنِ اتِّفَاقِيٌّ. قَالَ: وَهَذَا لَوْ شَمَّرَهُمَا خَارِجَ الصَّلَاةِ ثُمَّ شَرَعَ فِيهَا كَذَلِكَ، أَمَّا لَوْ شَمَّرَ وَهُوَ فِيهَا تَفْسُدُ لِأَنَّهُ عَمَلٌ كَثِيرٌ۔ (شامی : ١/٦٤٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 شوال المکرم 1443

ہفتہ، 28 مئی، 2022

حج و عمرہ کے لئے جانے والوں کی دعوت اور تحائف کا حکم

*حج و عمرہ کے لئے جانے والوں کی دعوت اور تحائف کا حکم*

سوال :

عمرہ پر جانے والے ایک صاحب نے رشتہ داروں کو دعوت دی تاکہ سب مل ملا لیں اور کہا کہ اللہ واسطے کچھ تحفہ مت لانا لیکن اس کے باوجود تقریباً سب لوگ کپڑا تحفہ لے کر آئے کسی کا دل نہ ٹوٹے اس لیے تحفہ قبول کر لیا گیا۔ پوچھنا یہ ہے کہ
1) اس موقع پر اس نیت سے دعوت دینا کیسا ہے؟
2) یہ بات مشہور ہے کہ تحفہ لیں گے تو پھر عمرہ سے واپسی پر دینا بھی ہوگا، تو کیا یہ بدگمانی تو نہیں ہے؟
3) اللہ کا واسطہ دے کر تحفہ لانے سے روکنا کیسا ہے؟
4) اسکے بعد بھی تحفہ لے آئیں تو کیا قبول کرنا چاہیے؟
5) اگر نہ لینا تھا اور لے لیا تو کیا اب واپس کردینا چاہئے؟
6) حج پر جانے والوں کو عزیز اقارب کی جانب سے دعوت دی جاتی ہے اگر کوئی دعوت قبول نا کرے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟
7) حج سے آنے کے بعد حاجی تحائف تقسیم کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ اگر کسی حاجی کی معاشی حالت بہتر نہیں اس کے پاس صرف سفر حج کی رقم ہے تو کیا قرض لے کے تحائف تقسیم کرنا ضروری ہے؟
(المستفتی : فضل الرحمن/غلام دستگیر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج یا عمرہ کے لئے جانے سے پہلے رشتہ دار دوست و احباب کی دعوت کرنا تاکہ سب سے ملاقات بھی ہوجائے فی نفسہ جائز تو ہے لیکن چونکہ آج کل ان دعوتوں میں کئی مفاسد سامنے آرہے ہیں، مثلاً اس دعوت کو ضروری سمجھنا، اس میں تحفہ کے لین دین کو ضروری سمجھنا، فضول خرچی کرنا وغیرہ جس کی وجہ سے اب اس کا ترک کردینا ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

٢) ایسا سوچنا بدگمانی نہیں کہلائے گی، بلکہ بدگمانی یہ ہے کہ ہدیہ دینے والے کے خلوص پر شک کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ واپسی کی امید پر یہ ہدیہ دیا جارہا ہے۔

٣) درست ہے۔ بلکہ احتیاط تو اس میں ہے کہ دعوت کا اہتمام ہی نہ کیا جائے۔

٤) قبول کرلینا یا واپس کردینا دونوں باتوں کا اختیار ہے۔

٥) تحفہ قبول کرلینے کے بعد اس کا واپس کرنا ضروری نہیں ہے۔

٦) اس موقع پر دی جانے والی دعوت قبول کرنا اور نہ قبول کرنا دونوں جائز ہے۔ قبول نہ کرنے کو گناہ سمجھنا درست نہیں۔

٧) حج یا عمرہ سے آنے والوں کا اپنی قریبی رشتہ داروں یا متعلقین کو زم زم، کھجور یا کسی اور چیز کا تحفہ دینا شرعاً صرف جائز ہے۔ فرض یا واجب نہیں۔ لہٰذا اگر کسی حاجی یا عمرہ کرنے والے کی استطاعت نہ ہوتو وہ قطعاً اس کی تکلیف نہ کرے کہ تحفہ دینے کے لیے قرض لے۔ بلکہ تحفہ دینے کو شرعاً ضروری سمجھے گا تو یہ عمل ناجائز اور گناہ بن جائے گا۔ اس لیے کہ ایک جائز عمل کو اس کی حیثیت سے بڑھا دیا گیا ہے۔

تمام سوالات کے جوابات کا خلاصہ یہی ہے کہ حتی الامکان عازم عمرہ یا حج کا خود یا دوسروں کو عازم حج یا عمرہ کے لیے دعوت کا اہتمام کرنے احتراز کرنا چاہیے، اسی طرح اس موقع پر تحفہ تحائف کے لین دین سے بھی جہاں تک ہوسکے اجتناب کیا جائے کیونکہ رفتہ رفتہ یہ چیزیں حج و عمرہ کا حصہ بن سکتی ہیں اور پھر استطاعت نہ رکھنے والے بھی قرض وغیرہ لے کر اس کا اہتمام کریں گے۔ اور اس تکلیف دہ رسم کا ختم کرنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔

عن عائشۃ ؓ قالت : قال رسول اللہ ﷺ : تہادوا تحابوا الحدیث۔ (المعجم الأوسط للطبرانی، رقم : ۷۲۴۰)

قال الله تبارک وتعالیٰ: وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۔ (سورۂ اعراف: ۳۱)

قال الله تبارک وتعالیٰ : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل : ۲۷)

عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، ۳/۲۲، رقم: ۲۷۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 شوال المکرم 1443

جمعہ، 27 مئی، 2022

ایک گھر کے تین لوگوں کا نکاح ایک ساتھ کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا ایک ہی گھر میں ایک ہی دن تین لوگوں کا نکاح کر سکتے ہیں؟ ایسا مشہور ہے کہ ایک ساتھ تین نکاح کرنے سے کسی ایک کا کام بگڑ جاتاہے۔ تحقیق مطلوب ہے۔
(المستفتی : سلیم سر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تین سگے یا تایازاد اور چچازاد بہن بھائیوں کا نکاح ایک دن کرنا شرعاً جائز اور درست ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کی کوئی قباحت اور کراہت نہیں ہے۔ عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ "ایک گھر کا تین نکاح ایک ساتھ ہوتو کسی ایک کا کام بگڑ جاتا ہے" یہ بدعقیدگی اور جہالت کی بات ہے۔ لہٰذا جو لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں انہیں توبہ و استغفار کرکے اپنا عقیدہ درست کرلینا چاہیے۔

قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)

وَكَانَ الْقَفَّال يَقُول بَعْدَهَا : أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ الأُْمُورَ كُلَّهَا بِيَدِ اللَّهِ، يَقْضِي فِيهَا مَا يَشَاءُ، وَيَحْكُمُ مَا يُرِيدُ، لاَ مُؤَخِّرَ لِمَا قَدَّمَ وَلاَ مُقَدِّمَ لِمَا أَخَّرَ۔ (الموسوعۃ الفھیۃ : ١٩/٣٩٨)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۵۳۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 شوال المکرم 1443

جمعرات، 26 مئی، 2022

بیوی کے انتقال کے بعد شوہر دوسرا نکاح کب کرسکتا ہے؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! پہلی بیوی کے انتقال پر دوسرا نکاح کب کرنا چاہیے؟ ہمارے یہاں دوسرا نکاح جلدی کرنے پر معیوب سمجھا جاتا ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عرفان، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بیوی کے انتقال کے بعد شوہر کے لیے چونکہ شریعت مطہرہ میں کوئی عدت وغیرہ کی پابندی نہیں ہے کہ وہ مخصوص مدت تک نکاح سے رکا رہے۔ بلکہ عدت کی پابندی تو صرف عورت کے لیے ہے۔ لہٰذا شوہر جب بھی ضرورت محسوس کرے اور مناسب رشتہ مل جائے تو وہ دوسرا نکاح کرسکتا ہے۔ اور جب شریعت میں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے تو پھر جلد نکاح کرلینے پر لوگوں کا اسے معیوب سمجھنا شریعت کے اصولوں سے لاعلمی کی دلیل ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس عمل کو معیوب اور برا سمجھتے ہیں انہیں یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور توبہ و استغفار کرکے اپنی اصلاح کرلینا چاہیے۔

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ : " يَا عَلِيُّ، ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا : الصَّلَاةُ إِذَا أَتَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفُؤًا۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٠٧٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شوال المکرم 1443

بدھ، 25 مئی، 2022

عمرہ کے لیے طواف وداع کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ عمرہ کے لئے جانے والے افراد کے لئے طواف وداع ضروری ہے یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : مجاہد بھائی، اورنگ آباد)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : "طوافِ وداع" اس طواف کو کہتے ہیں جو اپنے وطن کو واپسی کے وقت بیت اللہ شریف سے رخصت ہونے کے لیے کیا جاتا ہے۔ طوافِ وداع صرف حج میں واجب ہے، عمرے میں نہیں۔ البتہ اگر عمرہ کرنے والے واپسی میں بطور نفل الوداعی طواف کرلیں تو یہ اچھی بات ہے، لیکن اسے ضروری نہ سمجھا جائے۔

(ثُمَّ) إذَا أَرَادَ السَّفَرَ (طَافَ لِلصَّدِّ) أَيْ الْوَدَاعِ (سَبْعَةَ أَشْوَاطٍ بِلَا رَمَلٍ وَسَعْيٍ، وَهُوَ وَاجِبٌ إلَّا عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ) وَمَنْ فِي حُكْمِهِمْ فَلَا يَجِبُ بَلْ يُنْدَبُ كَمَنْ مَكَثَ بَعْدَهُ؛ ثُمَّ النِّيَّةُ لِلطَّوَافِ شَرْطٌ؛ فَلَوْ طَافَ هَارِبًا أَوْ طَالِبًا لَمْ يَجُزْ لَكِنْ يَكْفِي أَصْلُهَا، فَلَوْ طَافَ بَعْدَ إرَادَةِ السَّفَرِ وَنَوَى التَّطَوُّعَ أَجْزَأَهُ عَنْ الصَّدْرِ كَمَا لَوْ طَافَ بِنِيَّةِ التَّطَوُّعِ فِي أَيَّامِ النَّحْرِ وَقَعَ عَنْ الْفَرْضِ۔ (شامی : ٢/٥٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 شوال المکرم 1443

منگل، 24 مئی، 2022

کیا بندر، خنزير یہودیوں کی نسل سے ہیں؟

سوال :

مفتی صاحب! جیسا کہ بعض قوموں مثلاً یہودیوں کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اور انہیں بندر یا خنزیر بنادیا گیا۔ تو پوچھنا یہ تھا کہ پھر ان کی نسل چلی ہے یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مصطفی، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : گذشتہ قوموں میں سے بعض قوموں کے سنگین گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے سخت عذاب میں مبتلا کیا کہ انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا گیا۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے ان بندروں اور خنزیروں کی نسلیں نہیں چلائی۔ جیسا کہ متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یہ بندر اور خنزیر کیا یہودیوں کی نسل میں سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اللہ نے جس قوم کو بھی ملعون قرار دے کر ان کی شکلوں کو مسخ کیا تو انہیں ہلاک کرنے کے بعد ان کی نسل کو باقی نہیں رکھا، لیکن یہ مخلوق پہلے سے موجود تھی، جب یہودیوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور اس نے ان کی شکلوں کو مسخ کیا تو انہیں ان جیسا بنادیا۔

قال اللہُ تعالیٰ : قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ۔ (سورۃ المائدہ، آیت : ٦٠)

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، أَهِيَ مِنْ نَسْلِ الْيَهُودِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَلْعَنْ قَوْمًا قَطُّ فَمَسَخَهُمْ فَكَانَ لَهُمْ نَسْلٌ حِينَ يُهْلِكُهُمْ، وَلَكِنْ هَذَا خَلْقٌ كَانَ، فَلَمَّا غَضِبَ اللَّهُ عَلَى الْيَهُودِ مَسَخَهُمْ، فَجَعَلَهُمْ مِثْلَهُمْ۔ (مسند احمد، رقم : ٣٧٤٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 شوال المکرم 1443

قبر میں سوال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! بیانات میں سننے میں آیا ہے کہ قبر میں سوال کے وقت ہر مردے کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرائی جائے گی، کیا یہ درست ہے؟
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیث مبارکہ کے بیان سے صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ دفن کے بعد صاحب قبر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : جب کسی بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے منہ پھیر کر واپس چلے جاتے ہیں تو وہ مردہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اس مردے کو بٹھا کر کہتے ہیں کہ تو اس آدمی یعنی رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنے دوزخ والے ٹھکانے کو دیکھ اس کے بدلے میں اللہ نے تجھے جنت میں ٹھکانہ دیا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا وہ مردہ دونوں ٹھکانوں کو دیکھتا ہے۔

لیکن سوال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اشارہ کی کیا کیفیت اور کیا شکل ہوگی؟ اس کی صراحت احادیث مبارکہ میں نہیں ہے۔ بلکہ شارحین حدیث نے شواہد و قرائن کی روشنی میں چند کیفیات بیان فرمائی ہیں۔

١) اشارہ معہود ذہنی کی طرف ہوگا یعنی ذہن میں جو کچھ موجود ہے اسے خارج میں "موجود"  کا درجہ دے کر اشارہ کیا جائے گا۔

٢) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے روضہ اطہر اور میت کی قبر کے درمیان جو حجابات ہیں وہ ہٹادیئے جائیں گے۔

٣) مرقاة میں قیل کے ضعیف صیغہ کے ذریعے یہ توجیہ بھی بیان کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شکل بناکر اس کے سامنے پیش کی جائے گی۔

ان تینوں کیفیات میں سے کوئی ایک کیفیت ہوسکتی ہے۔ کسی ایک کیفیت کو حتمی نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذا حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کرائی جائے گی۔ اسی طرح یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ ایک مسلمان کے لیے صرف یہ عقیدہ رکھنا کافی ہے کہ مرنے کے بعد قبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق سوال ہوگا، لیکن اس کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کا جاننا اور اس کا عقیدہ رکھنا ہم پر ضروری نہیں۔

عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ : قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، قَالَ : يَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ قَالَ : فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ : أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، قَالَ : فَيُقَالُ لَهُ : انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ. قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٨٧٠)

فِي هَذا الرَّجُلِ، أيْ: فِي شَأْنِهِ، واللّامُ لِلْعَهْدِ الذِّهْنِيِّ، وفِي الإشارَةِ إيماءٌ إلى تَنْزِيلِ الحاضِرِ المَعْنَوِيِّ مَنزِلَةَ الصُّورِيِّ مُبالَغَةً۔ (مرقاۃ المفاتیح : ١/٢٠٤) ما كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذا الرَّجُلِ؟): قِيلَ يُصَوَّرُ صُورَتُهُ علیہ السلام فَيُشارُ إلَيْهِ۔ (١/٢١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 شوال المکرم 1443

پیر، 23 مئی، 2022

بچہ مختون پیدا ہوتو؟

سوال :

مفتی صاحب دریافت یہ کرنا ہے کہ اگر کوئی بچہ پیدائشی طور پر مختون ہو تو اس کے ختنہ کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
(المستفتی : محمد عبداللہ، جلگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بلاشبہ بعض بچے مختون پیدا ہوتے ہیں، جیسا کہ چند انبیاء کرام علیہم السلام اور دیگر افراد کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ مختون پیدا ہوئے تھے۔ لہٰذا اس مختون بچے سے متعلق یہ حسن ظن رکھا جاسکتا ہے وہ نیک صالح ہوگا۔ اور جب یہ ختنہ شدہ پیدا ہوا ہے تو اب ختنہ کے نام پر مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، اسے اسی طرح رہنے دیا جائے۔

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ الْحَيَائُ وَالتَّعَطُّرُ وَالسِّوَاکُ وَالنِّکَاحُ۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٠٨٠)

الْخِتَانَ سُنَّةٌ كَمَا جَاءَ فِي الْخَبَرِ وَهُوَ مِنْ شَعَائِرِ الْإِسْلَامِ وَخَصَائِصِهِ حَتَّى لَوْ اجْتَمَعَ أَهْلُ بَلَدٍ عَلَى تَرْكِهِ يُحَارِبُهُمْ الْإِمَامُ فَلَا يُتْرَكُ إلَّا لِلضَّرُورَةِ وَعُذْرُ الشَّيْخِ الَّذِي لَا يُطِيقُ ذَلِكَ ظَاهِرٌ فَيُتْرَكُ۔ (مجمع الأنہر : ٢/٧٤٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 شوال المکرم 1443

اتوار، 22 مئی، 2022

کیا ولیمہ کے لیے صحبت شرط ہے؟

سوال :

محترم ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا وہ یہ کہ ایک بچی کی شادی ہونے والی ہے اور وہ بچی شادی کے دن ہی حائضہ ہو گی۔ اب ولیمہ سسرال والے کررہے ہیں تو کیا ولیمہ درست ہوگا صحبت سے پہلے؟
(المستفتی : محمد عبداللہ، عثمان آباد)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح کے بعد میاں بیوی کی پہلی ملاقات اور تنہائی ہو، اس کے بعد حسبِ استطاعت لوگوں کو کھانا کھلایا جائے، اس دعوت کو شریعت کی اصطلاح میں ولیمہ کہا جاتا ہے۔ خلوت کے وقت ہم بستری کا ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ نکاح کے فوراً بعد یا رخصتی کے بعد یعنی بغیر میاں بیوی کی تنہائی میں ملاقات کے بغیر بھی دعوت کرنا ولیمہ کہلاتا ہے، البتہ افضل یہی ہے کہ شبِ زفاف گذرنے کے بعد دعوت کا اہتمام کیا جائے۔

معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ جبکہ رات میں میاں بیوی میں تنہائی ہوچکی ہو لیکن ماہواری کی وجہ سے صحبت نہ ہوئی ہو تب بھی دوسرے دن ہونے والی دعوت ولیمہ میں ہی شمار ہوگی اور افضل وقت میں ہی کہلائے گی۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الْوَلِيمَةُ أَوَّلَ يَوْمٍ حَقٌّ، وَالثَّانِيَ مَعْرُوفٌ، وَالثَّالِثَ رِيَاءٌ وَسُمْعَةٌ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ۱۹۱۵)

وکون وقتہ بعد الدخول والمنقول من فعل النبی صلی الله علیہ وسلم انھا بعد الدخول کانہ یشیر الی قصۃ زینب بنت جحش رضی الله عنھا۔ (اعلاء السنن، باب استحباب الولیمۃ، ۱۰/۱۱)

وَذَهَبَ الْحَنَابِلَةُ وَالْحَنَفِيَّةُ فِي قَوْلٍ وَالْمَالِكِيَّةُ فِي قَوْلٍ كَذَلِكَ إِلَى أَنَّهُ تُسَنُّ الْوَلِيمَةُ عِنْدَ الْعَقْدِ، وَيَرَى بَعْضُ الْحَنَفِيَّةِ أَنَّ وَلِيمَةَ الْعُرْسِ تَكُونُ عِنْدَ الْعَقْدِ وَعِنْدَ الدُّخُول۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤٥/٤٩٠)

ویجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصۃ، أو بعد أن یبنی بہا، والثالث ہو الأولی۔ (بذل المجہود، کتاب الأطعمۃ، ١١/٤٧١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 شوال المکرم 1443

ہفتہ، 21 مئی، 2022

نشہ آور اشیاء کے استعمال سے عبادت کی قبولیت کا مسئلہ

سوال :

گانجا، چرس، ڈرگس اور دیگر نشے کی اشیاء پینا یا لینا مکروہ ہے یا حرام؟ اور ہم نے حدیث سنی ہے کہ اگر کسی نے شراب پی لے تو اسکی عبادت اور اعمال ٤٠ دن تک قبول نہیں ہوتے اور قبولیت کے دروازے بھی بند کر دیئے جاتے ہیں۔ کیا یہی گانجا، چرس اور دیگر نشے کی اشیاء کے پینے سے بھی ہوتا ہے؟ مطلب عبادت حرام؟ اسکا جواب دیجئے کہ عبادت قبول ہوگی کہ نہیں؟
(المستفتی : معین شاہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہر نشہ آور چیز (جس ست عقل فوت اور ماؤف ہوجائے) شراب ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ چونکہ گانجا، چرس، ڈرگس یہ سب نشہ آور اشیاء میں سے ہیں، لہٰذا ان سب کا استعمال بھی شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

شراب کے علاوہ دیگر نشہ آور اشیاء مثلاً چرس، گانجا، ڈرگس وغیرہ کے استعمال پر بھی یہی وعید ہے کہ ان اشیاء کا استعمال کرنے والے کی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو اپنی عبادت کا ثواب نہیں ملتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ عبادت مستحق انعام نہیں اورحق تعالیٰ اس سے راضی نہیں، اگرچہ وقت پر نماز کی ادائیگی کا فرض اس پر سے ساقط ہو جاتا ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اب اس کے لیے نماز پڑھنا جائز ہی نہیں ہے یا پھر اس کی نماز ہی ادا نہیں ہوگی۔ اور اگر ایسا شخص سچی پکی توبہ کرلے تو گناہ کے اثرات بالکل مٹ جاتے ہیں، جیسا کہ احادیث شریفہ سے ثابت ہے، لہٰذا اگر کسی نے نشہ آور اشیاء کا استعمال کرلیا اور سچی پکی توبہ کرلے یعنی اس عمل پر شرمندہ ہوکر فوراً اسے چھوڑ دے اور آئندہ اس سے باز رہنے کا پختہ عزم کرلے تو اس کے لئے مذکورہ وعید ختم ہوجائے گی، اور آئندہ اس کی نماز اور دیگر عبادات ان شاء اللہ قبول ہوں گی۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " كُلُّ مُخَمِّرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ، وَمَنْ شَرِبَ مُسْكِرًا بُخِسَتْ صَلَاتُهُ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٣٦٨٠)

قال اللہُ تعالیٰ : اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔(سورۃ الزمر، آیت : ۵٣)

عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ٤٢٥٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 شوال المکرم 1443