پیر، 10 فروری، 2025

شب برأت پر مرحومین کی روحوں کا گھر آنا


سوال :

مفتی صاحب ! ایک بات یہ سنی گئی ہے کہ مرنے والوں کی روحیں شب برأت پر اپنے گھر آتی ہیں، اسی لیے بہت سی عورتیں شب برأت سے پہلے ہی گھروں کی صاف صفائی، رنگ وروغن کر لیتی ہیں، اس بات میں کتنی سچائی ہے؟ اور اس عقیدے سے ان کاموں کو انجام دینا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ذیشان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد نیک لوگوں کی ارواح مقام عِلِّيِّينْ میں اور بُرے لوگوں کی ارواح مقام سِجِّیْنْ میں ہوتی ہیں، یعنی علیین نیکوں اور سجین بروں کا ٹھکانہ ہے۔ یہ مقام کس جگہ ہے اس کے متعلق حضرت برا بن عازب کی طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سبحین ساتویں زمین کے نچلے طبق میں ہے اور علیین ساتویں آسمان میں زیر عرش ہے۔ (مسند احمد)

حکیم الامت علامہ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
اگر تنعم میں مردہ ہے تو اسے یہاں آکر لیتے پھرنے کی ضرورت کیاہے؟ اور اگر معذب ہے تو فرشتگانِ عذاب کیوں کر چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو لپٹا پھرے۔ (اشرف الجواب : ۲؍۱۵۶)

یعنی روحوں کو گھر آنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ زندوں کا ثواب ان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اور جیسا کہ اوپر معلوم ہوا کہ اچھی روحیں مقام علیین میں ہوتی ہیں، جہاں وہ بڑے آرام اور نعمتوں میں رہتی ہیں، پھر وہ اپنی آرام کی جگہ چھوڑ کر بھلا دنیا میں کیوں آئیں گی؟ جبکہ بُری روحین مقام سجین یعنی قید خانہ میں ہوتی ہیں تو فرشتے کیونکر ان کو وہاں سے آنے دیں گے؟

معلوم ہوا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ شب برأت یا کسی بھی موقع پر مرحومین کی روحیں گھروں میں آتی ہیں قرآنِ کریم اور احادیثِ صحیحہ کے خلاف ہے۔ یہ جاہلانہ، احمقانہ اور گمراہی کی بات ہے۔ لہٰذا اس غلط عقیدے سے گھروں کی صاف صفائی اور رنگ وروغن کرنا جائز نہیں ہے، البتہ یہ عقیدہ نہ ہوتو کسی بھی وقت خواہ وہ شب برأت کا موقع کیوں نہ ہو، گھروں کی صاف صفائی اور رنگ وروغن کرنا درست ہے۔


كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ۔ (المطففین : ۷) كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ۔ (المطففین : ۱۸) قلنا وجہ التوفیق : أن مقر أرواح المومنین فی علیین أو فی السماء السابعة ونحو ذلک کما مر ومقر أرواح الکفار فی سجین۔ (مظہری : ۱۰/ ۲۲۵)

وقال کعب : أرواح الموٴمنین في علیین في السماء السابعة وأرواح الکفار في سجین في الأرض السابعة تحت جند إبلیس۔ (کتاب الروح، المسئلة الخامسة عشرة، این مستقر الأرواح ما بین الموت إلی یوم القیامة)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شعبان المعظم 1446

جمعہ، 7 فروری، 2025

قادیانی کی نماز جنازہ اور اس کی تدفین کا حکم


سوال :

محترم مفتی صاحب ! کسی قادیانی اور احادیث کا انکار کرنے والے شخص کا اسی حالت میں انتقال ہوجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ کیا کفن سنت کے مطابق دیا جائے گا؟ اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا؟ اور اگر کوئی اس کی نماز جنازہ پڑھا دے اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ براہ کرم مدلل اور مفصل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قادیانی اور احادیث کا انکار کرنے والا شخص بغیر توبہ کے مرجائے تو اس پر شرعاً مرتد اور کافر کا حکم لاگو ہوگا۔

قادیانی اور منکرِ حدیث علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک متفقہ طور پر کافر ہے، اس لئے کہ قادیانی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری نبی ہونے کا منکر ہوتا ہے، اسی طرح حدیث کا انکار دراصل قرآنِ کریم کا انکار ہے۔ (1)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ۔ (التوبۃ :۸۰)
ترجمہ : اور ان میں سے جو کوئی شخص مرجائے آپ اس پر کبھی نماز نہ پڑھیں اور اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں، بیشک ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ اس حال میں مرگئے کہ نافرمان تھے ۔

اس آیت کے تحت امام جصاصؒ تفسیر "احکام القرآن" میں لکھتے ہیں :
وحظر ھا (ای الصلوٰۃ) علی موتی الکفار…الخ
ترجمہ : اور اس میں کفار کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی ممانعت ہے۔

قرآن پاک کی مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی کافر و مرتد کے لیے مغفرت کی دعا کرنا یا اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ایسےشخص کو کپڑے میں لپیٹ کر کسی گڑھے میں دفن کردیا جائے گا، نہ نماز پڑھی جائے گی اور نہ ہی سنت کے مطابق تجہیز وتکفین کی جائے گی۔ (2) ایسے شخص کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی درست نہیں ہے ۔ (3)

کفایہ شرح ہدایہ میں ہے :
لان الموضع الذی فیہ الکافر ینزل فیہ اللعن والسخط والمسلم یحتاج إلی نزول الرحمۃ فی کل ساعۃ فینزہ قبرہ من ذلک کذا فی المحیط۔ (الکفایۃ مع فتح القدیر، باب الجنائز، فصل فی حمل الجنازۃ :۲؍۹۵۔ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

ترجمہ : چونکہ کافر کی قبر پر اﷲ تعالیٰ کی  ناراضگی اور لعنت برستی رہتی ہے اور مسلمانوں کو ہر لمحہ رحمت الٰہی کے نزول  کی ضرورت ہے، اس لیے مسلمانوں کے قبرستان کو اس (کافروں کے دفن) سے پاک رکھا جائے۔ 

سوال نامہ کا اہم حصہ یہ ہے کہ اس علم کے باجود کہ مذکورہ شخص قادیانی، منکرِ حدیث اور کفریہ عقائد کا حامل تھا، معاذ اللہ اس کو مسلمان سمجھا اور مسلمان سمجھ کر ہی اس کا جنازہ پڑھا تو ان تمام لوگوں کو جو جنازے میں شریک ہوں گے، ان سب پر کفر کا حکم ہوگا، کیونکہ ایک مرتد کے عقائد کو اسلام سمجھنا کفر ہے، اس لیے ایسے لوگوں کا ایمان جاتا رہے گا، اور ان پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہوں تو تجدیدِ نکاح لازم ہوگا۔ (4) اور اگر لوگوں نے اس کے کفریہ عقائد کو غلط سمجھتے ہوئے اس کی تدفین اور نماز جنازہ میں شرکت کی ہے تب بھی یہ ناجائز اور حرام کام ہوا جس کی وجہ سے ان پر توبہ و استغفار لازم ہے۔


1) وَمَنْ أَنْكَرَ الْمُتَوَاتِرَ فَقَدْ كَفَرَ، وَمَنْ أَنْكَرَ الْمَشْهُورَ يَكْفُرُ عِنْدَ الْبَعْضِ۔(الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٦٥)

وقال العلامۃ القرطبی رحمة اللہ علیہ فی تفسیرہ تحت قولہ تعالیٰ (وماینطق عن الھوی) وفیہ ایضا دلالة علی ن السنة کالوحی المنزل فی العمل (تفسیر قرطبی : ٨٥١٧)

2) فنقول لایصلی علی الکافر لان الصلاة علی المیت دعاء واستغفار لہ والاستغفار للکافر حرام۔ (المحیط البرھانی : ٣/٨٢)

(قَوْلُهُ وَشَرْطُهَا إسْلَامُ الْمَيِّتِ وَطَهَارَتُهُ) فَلَا تَصِحُّ عَلَى الْكَافِرِ لِلْآيَةِ {وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا} [التوبة: 84]۔ (البحرالرائق : ٢/١٩٣)

قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: (وَشَرْطُهَا) أَيْ شَرْطُ الصَّلَاةِ عَلَيْهِ (إسْلَامُ الْمَيِّتِ وَطَهَارَتُهُ) أَمَّا الْإِسْلَامُ فَلِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا} [التوبة: 84] يَعْنِي الْمُنَافِقِينَ، وَهُمْ الْكَفَرَةُ؛ وَلِأَنَّهَا شَفَاعَةٌ لِلْمَيِّتِ إكْرَامًا لَهُ وَطَلَبًا لِلْمَغْفِرَةِ، وَالْكَافِرُ لَا تَنْفَعُهُ الشَّفَاعَةُ، وَلَا يَسْتَحِقُّ الْإِكْرَامَ۔ (تبیین الحقائق : ١/٢٣٩)

3) والمرتد إذا قتل یحفرلہ حفیرۃ، ویلقي فیہا کالکلب، ولایدفع إلی من انتقل إلی دینہم لیدفنوہ۔ (الدر مع الرد : ۳/۱۳۴)

4) مَنْ اعْتَقَدَ الْحَرَامَ حَلَالًا، أَوْ عَلَى الْقَلْبِ يَكْفُرُ أَمَّا لَوْ قَالَ لِحَرَامٍ: هَذَا حَلَالٌ لِتَرْوِيجِ السِّلْعَةِ، أَوْ بِحُكْمِ الْجَهْلِ لَا يَكُونُ كُفْرًا، وَفِي الِاعْتِقَادِ هَذَا إذَا كَانَ حَرَامًا لِعَيْنِهِ، وَهُوَ يَعْتَقِدُهُ حَلَالًا حَتَّى يَكُونَ كُفْرًا أَمَّا إذَا كَانَ حَرَامًا لِغَيْرِهِ، فَلَا وَفِيمَا إذَا كَانَ حَرَامًا لِعَيْنِهِ إنَّمَا يَكْفُرُ إذَا كَانَتْ الْحُرْمَةُ ثَابِتَةً بِدَلِيلٍ مَقْطُوعٍ بِهِ أَمَّا إذَا كَانَتْ بِأَخْبَارِ الْآحَادِ، فَلَا يَكْفُرُ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٧٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 شعبان المعظم 1446

جمعرات، 30 جنوری، 2025

خواتین بائک پر کس طرح بیٹھیں؟

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی  ملی 
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! متعدد فکرمند احباب مسلسل اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ ہمارے یہاں خواتین کے بائک پر بیٹھنے کی ہیئت دن بدن تبدیل ہوتی جارہی ہے اور حیا کے خلاف معاملات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ 

بوقتِ ضرورت پردہ کی رعایت اور اپنے محرم مردوں اور شوہر کے ساتھ بائک پر بیٹھ کر آنے جانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن بائک پر اس طرح بیٹھا جائے جسے ہمارے یہاں سب سے محفوظ اور باحیا طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین دونوں پیر ایک طرف کرکے بیٹھیں اور سہارے کے لیے ضرورت ہوتو ہاتھ بائک چلانے والے اپنے محرم مرد یا شوہر کے کاندھے پر رکھ لیا جائے، خواہ بائک چلانے والا مرد ہو یا عورت، پیچھے بیٹھنے والی خواتین کے لیے یہی طریقہ مناسب، محفوظ اور زیادہ ستر والا ہے۔ 

اب اس کے علاوہ اگر کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تو اس سے غالب گمان یہ ہے کہ راستہ چلنے والے مردوں کی نظریں اس خاتون پر پڑے گی، بلکہ پڑتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اس کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ اور ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے مردوں کی نظریں عورت پر پڑے یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ شیطان کا تو کام ہی یہی ہے کہ عورتوں کو مزین کرکے مردوں کو دکھائے اور انہیں گناہ میں مبتلا کرے۔

بعض خواتین دونوں طرف پیر کرکے بیٹھتی ہیں، یہ طریقہ ہمارے یہاں مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اور ایسے بیٹھنے والی خاتون کی طرف لوگوں کی نظریں اُٹھتی ہیں۔

کوئی اپنے شوہر کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بیٹھتی ہے تو کوئی اس کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتی ہے۔ بعض خواتین مرد کے پیٹ کے گرد حلقہ بناکر بیٹھتی ہیں تو بعض خواتین کہنی کے اوپر کا حصہ مرد کے کاندھے پر رکھ بالکل مرد سے لگ کر بلکہ اس پر لَد کربیٹھتی ہیں۔

بلاشبہ میاں بیوی کا اس طرح ایک دوسرے کو چھونا جائز اور اس کے بالکل قریب رہنا جائز ہے، لیکن ایسے اعمال کے دوران دوسروں کی نظر پڑجائے اس کا موقع فراہم کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ ساری باتیں حیاء کے خلاف بلکہ بعض انتہائی بے حیائی کی ہیں، لہٰذا ان سے بچنا ضروری ہے۔

امید ہے کہ عزت مآب خواتین اسلام اور ہمارے غیور اسلامی بھائی مذکورہ بالا تمام باتوں پر توجہ فرماکر عمل فرمائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی بے حیائی سے حفاظت اور ہم سب کو باحیاء اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

بدھ، 29 جنوری، 2025

انڈر گراؤنڈ ڈرینج کا قہر

   خدارا اس سے نجات دلا دیجیے 

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! کہا جاتا ہے کہ مالیگاؤں کا باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں کے سرکاری درباری کام کاج پہلے تو ہوتے نہیں، اگر ہوں بھی تو انتہائی سست رفتاری، غفلت اور غیرمعیاری طرز کے ہوتے ہیں۔ فی الحال انڈر گراؤنڈ ڈرینج کا کام جاری ہے، نئی پرانی بنی ہوئی سڑکوں کو کھود کر پائپ ڈالے جارہے ہیں۔ اور یہ کام بغیر کسی منصوبہ بندی اور ترتیب کے انتہائی لاپروائی اور سُست رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔

 پہلی بات تو یہی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ  یہ انڈر گراؤنڈ گٹر ہے یا سنڈاس کے پائپ؟ کیوں کہ اس کے پائپ کی سائز پانچ چھ انچ ہے یہ ڈرینج، گٹر اور نالی کا کام تو بالکل نہیں کرسکتا۔ کیوں ہمارے یہاں جس حساب سے کچرے اور ڈائپر گٹروں میں ڈالے جاتے ہیں یہ پائپ پہلے ہی دن چوکپ ہوجائیں گے اور کئی سو کروڑ کی یہ اسکیم فیل ہوجائے گی۔

اندھیر تو اس وقت ہورہی ہے جب یہی کام ندی کے اُس پار ہوتا ہے تو وہاں پائپ لائن ڈالنے کے بعد گڑھوں کو فوراً ڈامر یا سمنٹ سے برابر کردیا جاتا ہے۔ لیکن ندی کے اِس پار جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں پائپ لائن ڈالنے کے بعد مزدور یہاں کے ذمہ داروں کی بے حسی، غفلت اور لاپروائی کا قبر نما نشان بناکر نکل لیتے ہیں گویا وہ کہہ رہے ہیں کہ بھُگتو کیڑے مکوڑو ! تم انسان تو ہو نہیں کہ تمہیں درد اور تکلیف ہو، نہ ہی تم میں اپنی تکلیف بتانے کے لیے زبان ہے، نہ تمہارے پاس ایسے لیڈر ہیں جو تمہاری تکلیفوں کا ازالہ کرسکیں۔ 

اس کھدائی اور سڑکوں کو برابر نہ کرنے کی وجہ سے پورا شہر دھول میں اَٹا ہوا ہے، ہر وقت شہر کہرے میں نظر آتا ہے۔ دو چار کلومیٹر بندہ شہر میں گھوم کر جب گھر پہنچتا ہے تو دھول سے اس کی حالت قریب قریب چکی میں کام کرنے والے شخص جیسی ہی ہوجاتی ہے۔ دھول سے الرجی والے مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، اور جن کو دھول سے تکلیف نہیں تھی وہ بھی مسلسل دھول سے بیماری کا شکار ہورہے ہیں۔

اس پروجیکٹ کی بے ترتیبی کی وجہ سے غریب عوام کو بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب پائپ لائن بچھانے کے لیے سڑکیں کھودی جاتی ہے تو گھروں میں جانے والے نل کے پائپ توڑ دئیے جاتے ہیں، اور کہیں نلوں میں گٹروں کا گندا پانی آنے لگتا ہے اور اسے درست کرنے کا بھی کوئی نظام نہیں ہے، غریب عوام کو مجبوراً ہزاروں روپے لگاکر اسے درست کرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے بڑا تکلیف دہ کام ہے۔

ابھی کل کی ہی بات ہے کہ مغرب کے مجھے سلیمانی مسجد کے پاس سے کوہ نور مسجد جانا تھا جس کا فاصلہ بائک پر دو منٹ ہے۔ لیکن مجھے یہاں پہنچنے کے لئے پندرہ منٹ لگ گئے۔ یہی روڈ کھود کھاد کے چکر میں ہر جگہ لمبا لمبا ٹرافک لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مجھے پورا گھوم کر تین قندیل کے پاس سے چھوٹا قبرستان ہوتے ہوئے کوہ نور مسجد پہنچنا پڑا۔ وہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ میں نماز سے کافی پہلے ہی نکل گیا تھا، ورنہ مغرب کی نماز میری ٹرافک میں ہوجاتی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عوام کس درجہ کی مصیبتوں کا سامنا ہے؟

یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ کسی شہر میں نہیں بلکہ جنگل میں رہ رہے ہیں، جہاں کسی کی کوئی سنوائی نہیں ہے، کارپوریشن اور وہاں کے انجینئرس کو فون کرنے والے فکرمند احباب کو بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا ہے۔ لہٰذا جو لوگ بھی ان سخت تکالیف کے ازالے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں تو انہیں ضرور کرنا چاہیے، اس لیے کہ شہریان فی الحال بہت زیادہ تکلیف میں ہیں، اور کسی کو تکلیف سے نجات دینا بڑا صدقہ اور نیکی کا کام ہے۔

اخیر میں دعا کے بجائے شہر کو کباڑ خانے میں تبدیل کرنے کا جو بھی کسی بھی درجہ میں ذمہ دار ہے میں بددعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی ضرور عذاب میں مبتلا کرے تاکہ اس کی حالت دیکھ کر دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہو اور وہ اس کام سے دور رہیں۔ آمین یا مجیب المضطرین

آپ سب بھی بد دعا کرسکتے ہیں کہ اب پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، اور ایسے حالات میں جب کہ کسی کے ذریعہ قومی وملی نقصان ہو تو ایسے شخص کے شر سے بچنے کے لئے اُس کے حق میں بد دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

 

جمعرات، 23 جنوری، 2025

سڑکوں پر اتی کرمن کرنے والے

اللہ کے لیے اب باز آجائیں 


✍️ مفتی محمد عامرعثمانی ملی
 (امام و خطیب مسجد کوہ نور)


قارئین کرام! شہر عزیز مالیگاؤں میں ہر سال کی طرح امسال بھی شہر میں اتی کرمن ہٹاؤ مہم توڑ پھوڑ کے ساتھ جاری ہے۔ چوں کہ یہ ایک موقع ہوتا ہے کہ متاثرین اور انتظامیہ سے کچھ بات کی جائے، لہٰذا کچھ سنجیدہ، فکرانگیز اور مفید باتیں اتی کرمن کرنے والوں اور انتظامیہ سے اس مضمون اور سوشل میڈیا کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں، اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری بات سب کے دلوں میں اتار دے۔

محترم قارئین ! متاثرین یعنی جن لوگوں نے سڑکوں پر اتی کرمن کر رکھا ہے ان تمام افراد سے مؤدبانہ، مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرلیں کہ اتی کرمن اور سڑکوں پر قبضہ کرلینا شرعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔ اور اگر اس سے راستہ چلنے والوں کو تکلیف ہورہی ہے تو اس پر دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا گناہ الگ ہوگا۔ یعنی یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس عمل پر احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذاء) سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے کہ جس سے لوگ اپنے جان و مال کا اطمینان رکھیں۔ (سنن نسائی)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : اے لوگو! جو محض زبان سے ایمان لائے اور یہ ایمان دل تک نہیں پہنچا، مسلمانوں کو تکلیف مت دو ،جو اپنے بھائی کی عزت کے درپے ہوگا تو اللہ اس کے درپے ہوگا اور اسے ذلیل کردے گا، خواہ وہ محفوظ جگہ چھپا ہوا ہو۔ (جامع المسانید والمراسیل، رقم: ۶۹۳۷۲)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو لعنت کرنے والوں (یعنی اپنے لیے لعنت کا سبب بننے والے دوکاموں) سے بچو، صحابہ نے دریافت کیا یہ دونوں کام کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو راستہ یا وہاں موجود سایہ میں ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔ (مسلم)

حضرت سہل بن معاذ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو لوگوں نے خیمے لگانے میں راستہ کی جگہ تنگ کردی، اور عام گذر گاہ کو بھی نہ چھوڑا، اللہ کے رسول کو اس صورتحال کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستہ میں خیمہ لگائے تو اس کا جہاد (قبول) نہیں ہے۔ (ابوداؤد)

ان احادیث کو ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس عمل کی سنگینی کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ دوسروں کو تکلیف دے کر اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے جو روزی کمائی جائے گی اس میں برکت کہاں سے ہوگی؟ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ کے اتی کرمن کی وجہ سے ٹرافک میں پھنسنے والے راہ گیر آپ کو کیا کچھ کہہ جاتے ہیں؟ کیسی کیسی بد دعائیں اور آہیں ان کے دلوں سے نکلتی ہے؟ ایسی بددعائیں اور آہیں لے کر آپ کیسے چین اور سکون سے رہ سکتے ہیں؟ جب کہ یہ بات قسم کھا کر کہی جاسکتی ہے کہ جتنا آپ حضرات اتی کرمن کرکے کماتے ہیں اگر اتی کرمن نہ کرتے ہوئے صرف اپنی اصل اور خاصگی جگہ پر تجارت اور کاروبار کریں تب بھی آپ کو ان شاءاللہ اتنی روزی مل کر رہے گی اور اگر خدانخواستہ شروعات میں منجانب اللہ آزمائش کی وجہ سے کچھ کمی بھی ہوئی تو ان شاء اللہ اس میں ضرور ایسی برکت ہوگی کہ آپ کی ضروریات پوری ہوجائیں گی، بس اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور توکل رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سال پھر اتی کرمن مخالف دستہ کی طرف سے آپ کی محنت کی کمائی سے غلط جگہ یعنی اتی کرمن پر بنائے ہوئے اوٹے، کھوکھے، زینے، آگے نکالے ہوئے پترے توڑے جائیں گے، آپ کا مال بڑی مقدار میں ضائع ہوگا۔ چنانچہ اس پر ہماری آپ سے عاجزانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توبہ اور تلافی کا ایک اور موقع دیا ہے۔ لہٰذا اب اللہ کے لیے باز آجائیں اتی کرمن کرکے دوسروں کو تکلیف دے کر اپنی آخرت برباد کرنے کے ساتھ ساتھ خود اپنی حلال روزی کو بے برکت کرنے کا سبب نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔

انتظامیہ سے یہ درخواست ہے کہ وہ صرف توڑ پھوڑ میں دلچسپی نہ لے۔ بلکہ مستقبل میں اتی کرمن نہ ہو اس کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔ اس مہم کے بعد بھی مستقل ناجائز قبضہ جات پر نظر رکھی جائے، مستقل گشت لگانے کا انتظام کیا جائے۔ جن سڑکوں پر گٹریں نہیں ہیں وہاں فوری طور پر گٹریں بنوائی جائیں، گٹریں نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں بہت جلد خراب ہوجاتی ہیں، سڑکوں کو مکمل تعمیر کیا جائے، سڑکوں کی دونوں جانب تین تا پانچ فٹ چھوڑ کر سڑکیں تعمیر کی جاتی ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ سڑک یہیں تک ہے۔ لہٰذا بقیہ جگہ اتی کرمن کی نذر ہوجاتی ہے۔ سڑکیں چوڑی ہوں تو بجلی کے کھمبوں کو سڑک کے بالکل درمیان میں لگایا جائے یا پھر بالکل کنارے پر لگایا جائے، کھمبوں کو سڑک کے بالکل کنارے نہ لگاتے ہوئے کچھ آگے لگانے کی صورت میں یہ کھمبے بھی اتی کرمن میں معاون بنتے ہیں اور کھمبوں تک اتی کرمن کرنے کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا ان تمام باتوں پر توجہ دے کر اس پر عمل کیا جائے تب ہی اتی کرمن مخالف مہم کامیاب اور فائدہ مند ہوسکتی ہے، ورنہ ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ مہم چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ثابت ہوگی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دوسروں کو تکلیف پہنچانے والے عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو ایک دوسرے کے حق میں مفید بنائے اور ہمارے شہر کو اتی کرمن کی وبا سے پاک فرمائے۔ آمین

پیر، 20 جنوری، 2025

مساجد میں نکاح کی تقریب کی فوٹو گرافی کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا علماء کرام اور مفتیان کرام نے مسجدوں میں DSLR کیمرے سے فوٹو گرافی اور ویڈیو شوٹنگ کی اجازت دے دی ہے؟ بڑی دھوم سے امام صاحب اور دیگر علمائے کرام کی موجودگی میں نکاح سے لیکر دولہا، باراتی اور گلے ملتے ہوئے، مسجد کے اندر ہی شوٹنگ ہو رہی ہے۔ پہلے پہل یہ کام چوری چھپے، موبائل کیمرے سے خاموشی سے کر لیا جاتا تھا، مگر اب کئی جگہوں پر کھل کر ہو رہا ہے۔ براہ کرم اس پر رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : ڈیجیٹل تصویر کے مسئلہ میں ہمارے علماء کے درمیان اختلاف ہے۔

جامعہ دارالعلوم کراچی اور جامعۃ الرشید کراچی، جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی وغیرہ کے مفتیان کرام کے نزدیک ڈیجیٹل  کیمرے سے لی گئی تصویر کا جب تک پرنٹ  نہ لیا گیا ہو یا اسے پائیدار طریقے سے کسی چیز پرنقش نہ کیا گیا ہو اس وقت تک اس تصویر پر ناجائز کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ عکس ہے جیسے پانی کے سامنے جانے پر عکس نظر آتا ہے۔ بشرطیکہ اس تصویر یا ویڈیو میں نامحرم افراد نہ ہوں اور فحش مناظر نہ ہوں۔

دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، مدرسہ شاہی مرادآباد وغیرہ کے مفتیان کرام عدم جواز کے قائل ہیں، ان کے نزدیک ڈیجیٹل تصویر اگرچہ وہ موبائیل، اور کمپیوٹر میں ہی موجود ہو تب بھی یہ تصویر کے حکم میں ہے اور جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ان علماء کرام کے نزدیک مسجد میں نکاح کی مجالس میں فوٹوگرافی اور ویڈیو شوٹنگ کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ 

اسی طرح پہلے طبقہ کے علماء کے نزدیک بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ نکاح کی مجالس میں فوٹو گرافی اور  ویڈیو شوٹنگ  کی جائے۔ کیونکہ اس غیر ضروری اور غیر اہم کام کے لیے ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جو بلاشبہ فضول خرچی میں داخل ہے، اور فضول خرچی کرنے والے کو قرآن کریم میں شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔

دوسرے یہ کہ ان کیمروں اور فوٹو، ویڈیو گرافی کی وجہ سے مسجد کی بے احترامی ہوتی ہے اور اس کا تقدس پامال ہوتا ہے، جو بلاشبہ گناہ کی بات ہے۔

تیسرے یہ کہ نکاح کی مجالس میں فوٹو اور ویڈیو گرافی سے عموماً نام ونمود اور دکھاوا مقصود ہوتا ہے۔

لہٰذا دونوں طبقہ کے علماء کے نزدیک مساجد میں نکاح کی مجالس میں فوٹو گرافی اور ویڈیو شوٹنگ کی اجازت نہیں ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔ اور ائمہ کرام کو بھی چاہیے کہ وہ اس سے منع کریں۔


قال النووي : قال أصحابنا وغیرہم من العلماء: تصویر صورۃ الحیوان حرامٌ شدید التحریم، وہو من الکبائر … فصنعتہ حرام بکل حال۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۲؍۱۹۹، ونحو ذٰلک في الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۹)

أما الصورۃ التي لیس لہا ثبات واستقرار ولیست منقوشۃ علی شیئ بصفۃ دائمۃ، فإنہا بالظلأشبہ (تکملۃ فتح الملہم، باب تحریم صورۃ الحیوان، اشرفیہ دیوبند ۴/۱۶۴)

قال اللہ تعالیٰ : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ۔ (سورۂ بنی اسرائیل: ۲۷)

وقال القرطبي : من أنفق مالہ في الشہوات زائداً علی قدر الحاجات وعرّضہ بذٰلک للنفاد فہو مبذر۔ (تفسیر القرطبي : ۵؍۲۲۴ بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 رجب المرجب 1446

اتوار، 19 جنوری، 2025

سنگین فتنہ پر شہریان کی کاری ضرب

     ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! دو دن پہلے بروز جمعرات 16 جنوری کو ہم نے میوزک اور گانوں پر ویڈیوز بناکر اسے سوشل میڈیا پر ڈالنے والے نوجوان لڑکوں، لڑکیوں اور بچوں کو تنبیہ کرنے والا ایک مضمون قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھا تھا۔ جس میں ہم نے کسی مخصوص فرد کا نام نہیں لیا، نہ ہی کسی فرد واحد کو نشانہ بنایا اور نہ ان شاءاللہ بنائیں گے، بلکہ ہم نے مجموعی طور پر ان تمام لوگوں کو خیرخواہانہ انداز میں شریعت کا حکم بتانے کی کوشش کی تھی جو سوشل میڈیا پر خود گانے بناکر گاتے ہیں، یا دوسروں کے گانے گاتے ہیں، ناچتے ہیں، یہاں تک کہ مرد ہوکر عورتوں کی طرح ناچتے ہیں، چند لڑکیاں برقعے میں ہی صحیح اپنے آپ کی نمائش کرتی ہیں۔ اس لیے کسی ایک کو نشانہ بنانے کے بجائے سب پر حکمت اور مصلحت کے ساتھ محنت کی جائے اور سب کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔

معزز قارئین ! ہمارا مضمون الحمدللہ ہزاروں کی تعداد میں پڑھا گیا، ضیاء الرحمن مسکان (گمشدہ بچوں کی تلاش) اور ان کے رفقاء نے اسے خصوصی طور پر شیئر کیا، اور سب نے اسے سنجیدگی سے لیا اور گویا سوشل میڈیا پر ایک مہم چھیڑ دی گئی کہ سوشل میڈیا بالخصوص youtube اور Instagram پر شہر کے بچے بچیاں جو کچھ غلط سلط کام کررہے ہیں اس پر فوری طور پر روک لگے۔ اس کو دیکھ کر تو اقبال کا یہی شعر یاد آتا ہے کہ :

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی 

یعنی ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بھی شہریان کی ایک بہت بڑی تعداد سنجیدہ اور دینی فکر رکھنے والی ہے اور وقت پڑنے پر دینی حمیت اور غیرت کا ثبوت دینے والی ہے۔  جو ہمارے لیے بڑے حوصلے کی بات ہے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

محترم قارئین ! سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کرنا کتنا مفید یا نقصان دہ ہے؟ اس سے قطع نظر اطلاعات ہیں کہ اس طرح کے کئی اکاؤنٹ بین ہوگئے ہیں یا خود سے بند کردئیے ہیں، اگر خود سے بند کیے گئے ہیں اور توبہ و استغفار کرکے آئندہ اس سے دور رہنے کا ارادہ کرلیا گیا ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے اور تاحیات انہیں عفت وپاکدامنی کے ساتھ رہنے اور ہر طرح کی برائیوں سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بقیہ افراد کو بھی ہم پھر یہی دعوت دیں گے کہ فوراً یہ تمام ناجائز کام بند کردیں اور اپنے اکاؤنٹ سے یہ ساری reels ڈیلیٹ کردیں اور ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرکے اپنی تعلیم اور روزگار پر محنت کریں کہ اسی سے آپ کی دنیا وآخرت کامیاب ہوگی۔ ان شاءاللہ 

اسی طرح اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ ناجائز contents یعنی گانے، میوزک، رقص اور عورتوں کی تصاویر اور ویڈیوز پر مشتمل چینل اور آئی ڈیز کو فالو اور سبکرائب کرنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور انہیں تقویت پہنچتی ہے۔ لہٰذا فوری طور پر ایسے چینلس اور آئی ڈیز کو ان فالو اور ان سبکرائب بلکہ رپورٹ بھی کردیا جائے تاکہ ان برائیوں پر کسی نہ کسی درجہ میں قدغن لگے۔ 

اللہ تعالیٰ ہم سب کی تمام برائیوں سے حفاظت فرمائے اور ہمیں ایمان کے پہلے درجہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین