ہفتہ، 7 دسمبر، 2024

پتنگ کی تجارت کا شرعی حکم


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک مسئلے میں رہنمائی درکار ہے، کہ پتنگ کی خرید و فروخت اور اس کا کاروبار شریعت کی روشنی میں کیسا ہے؟ براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔
جزاکم اللہ خیراً۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پتنگ آلہ لہو ولعب میں سے ہے، اس کے اڑانے میں نہ دین کا فائدہ ہے نہ دنیا کا۔ بلکہ عموماً اس کے اڑانے میں متعدد ناجائز کاموں کا ارتکاب ہوتا ہے، لہٰذا اس کی تجارت مکروہ ہے جس سے بچنا چاہیے۔ تاہم اس کی کمائی پر حرام کا حکم نہیں ہے۔


(فَإِنْ كَانَ يُطَيِّرُهَا فَوْقَ السَّطْحِ مُطَّلِعًا عَلَى عَوْرَاتِ الْمُسْلِمِينَ وَيَكْسِرُ زُجَاجَاتِ النَّاسِ بِرَمْيِهِ تِلْكَ الْحَمَامَاتِ عُزِّرَ وَمُنِعَ أَشَدَّ الْمَنْعِ فَإِنْ لَمْ يَمْتَنِعْ بِذَلِكَ ذَبَحَهَا)۔ (شامی :٦/٤٠١) 

مَا قَامَتْ الْمَعْصِيَةُ بِعَيْنِهِ يُكْرَهُ بَيْعُهُ تَحْرِيمًا وَإِلَّا فَتَنْزِيهًا۔ (شامی : ٦/٣٩١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الآخر 1446

پیر، 2 دسمبر، 2024

فرض نماز میں بالترتيب مکمل قرآن مجید پڑھنا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! عرض یہ ہے کہ ایک مسجد کے بورڈ پر لکھا گیا۔
اس مسجد میں روزانہ فجر کی نماز میں ترتیب سے قرآن پڑھا جارہا ہے۔گزشتہ سترہ مہینوں سے فجر میں پڑھے جانے والے قرآن کی کل  یکم ستمبر بروز پیر کی فجر میں تکمیل ہوگی۔ ظاہر ہے بورڈ پر لکھنے کا مقصد لوگوں کو "فجر کی نماز میں تکمیل قرآن" کی برکتوں سے مستفیذ ہونے کیلئے مدعو کرنا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ قرآن کی تکمیل ہوئی لیکن کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی۔
از راہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیجئے کہ کیا فجرکی نماز میں ایک طویل مدت میں پورا قرآن پڑھنا اور اس طرح قرآن کی تکمیل کے دن لوگوں کو مدعو کرنا مستحب اور مستحسن ہے یا بدعت؟ مزید یہ بھی بیان فرمایئے کہ یہ قابل تقلید ہے یا اسے روکنا ضروری ہے؟ اس بات  کا قوی اندیشہ ہے کہ مساجد میں مقابلہ آرائی شروع ہو جائے گی اور لوگوں کو وہاٹس ایپ پر دعوت نامے موصول ہونا شروع ہو جائیں گے کہ "فلاں مسجد میں یکم شوال سے فجر کی نماز میں قرآن  بالترتیب پڑھا جا رہا ہے۔گیارہ مہینوں میں یعنی 29 شعبان کی فجر میں قرآن کی تکمیل ہوگی۔ فلاں  صاحب رقت آمیز  دعا فرمائیں گے اور "فجر کی نماز میں تکمیل قرآن " کے فضائل بیان فرمائیں گے۔ عوام سے شرکت کی گزارش ہے۔"
(المستفتی : ڈاکٹر سعید احمد انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تمام باتیں اور اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں، ہم نے خود اس کا مشاہدہ بھی کرلیا ہے کہ فرض نمازوں بالخصوص فجر کی نماز میں بالترتيب قرآن مکمل کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ جن ائمہ کا قرآن پختہ نہیں ہے وہ بھی زور آزمائی کررہے ہیں اور نتیجتاً قرأت میں تغیر فاحش ہورہا ہے اور نماز دوہرانے کی نوبت آرہی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہورہا ہے کہ اسے بڑی فضیلت والا عمل سمجھا جارہا ہے، لہٰذا ہم یہاں عالم اسلام کے دو انتہائی مؤقر اور معتبر اداروں کے فتاوی نقل کررہے ہیں تاکہ یہ مسئلہ سب کے سامنے واضح ہوجائے۔

دارالعلوم کراچی کا فتوی ہے :
واضح رہے کہ عام حالات میں ہر نماز میں مسنون ترتیب کے مطابق تلاوت کرنا چاہیئے اور وہ فجر و ظہر کی نماز میں طوال مفصل (یعنی سورہ حجرات سے سورہ بروج تک) میں سے پڑھا جائے جہاں سے آسان ہو اور جو حصہ زیادہ یاد ہو، نماز عصر و عشاء میں اوساط مفصل (سورہ بروج تا سورہ بینہ) میں سے پڑھا جائے، مغرب کی نماز میں قصار مفصل (یعنی سورہ بینہ تا سورۃ الناس) میں سے پڑھا جائے، یہی مسنون ترتیب ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اکثری معمول رہی ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق قرأت کرنا افضل ہے اور اس میں زیادہ ثواب ہے، اور کبھی اسکے علاوہ دوسری جگہ سے پڑھ لینا بھی درست ہے، تاہم مذکورہ صورت میں قرآن ختم کرنے کا معمول جائز تو ہے مگر بہتر نہیں، کیونکہ اس میں مسنون ترتیب کو مستقل چھوڑنا ہے جو مکروہ تنزیہی ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے، نیز اس طرح نماز فجر اور نماز عشاء کے فرضوں میں قرآن مجید مکمل ختم کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ (ماخذ تبویب ۱۱/۷۶۸) 

واضح رہے کہ قرأت کی بعض غلطیاں ایسی ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ، اس لیے فجر اور عشاء کی نمازوں میں قرآن ختم کرنے کی وجہ سے اگر امام صاحب بکثرت غلطیاں کرتے ہوں تو قرآن ختم کرنے کے اس معمول کو ترک کرنا لازم ہے، نیز اسکے باوجود اگر امام صاحب اس سے باز نہیں آتے اور قرأت کی شدید غلطیاں کرتے ہیں، تو ایسے شخص کو امام بنانا درست نہیں، انتظامیہ امام کو تنبیہ کرے، ورنہ امام تبدیل کر سکتی ہے۔ (رقم الفتوی : ٥٧/٢٠١٦)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
نماز تو اس طرح قرآنِ کریم بالترتیب پڑھنے میں بھی صحیح ہوجاتی ہے مگر امام کو فرض نمازوں میں قرأتِ مسنونہ کے پڑھنے کو اختیار کرنا چاہیے، البتہ امام صاحب اپنی سنت ونوافل میں علی الترتیب پڑھتے رہیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 149216)

معلوم ہوا کہ فرض نمازوں میں بالترتيب قرآن مجید پڑھ کر مکمل کرنا کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے، بلکہ اس عمل کو خلافِ اولی یعنی بہتر نہیں لکھا گیا ہے۔ اور جب یہ عمل شرعاً پسندیدہ نہیں ہے تو پھر اس کو اہمیت دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا، اس کی تفصیلات عوام میں بیان کرنا یہاں تک کہ ختم قرآن پر اعلان لگاکر لوگوں کو جمع کرنا یہ سارا عمل شریعت کے مزاج کے خلاف ہے، لہٰذا فرض نمازوں میں بالترتيب پورا پڑھنے سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔


وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الصُّبْحِ بِالوَاقِعَةِ، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الفَجْرِ مِنْ سِتِّينَ آيَةً إِلَى مِائَة، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ " قَرَأَ: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔ (سنن الترمذي، رقم : ٣٠٦)

وَاسْتَحْسَنُوا فِي الْحَضَرِ طِوَالَ الْمُفَصَّلِ فِي الْفَجْرِ وَالظُّهْرِ وَأَوْسَاطَهُ فِي الْعَصْرِ وَالْعِشَاءِ وَقِصَارَهُ فِي الْمَغْرِبِ. كَذَا فِي الْوِقَايَةِ.
وَطِوَالُ الْمُفَصَّلِ مِنْ الْحُجُرَاتِ إلَى الْبُرُوجِ وَالْأَوْسَاطُ مِنْ سُورَةِ الْبُرُوجِ إلَى لَمْ يَكُنْ وَالْقِصَارُ مِنْ سُورَةِ لَمْ يَكُنْ إلَى الْآخِرِ. هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٧٧)

ويقرأ في الحضر في الفجر في الركعتين بأربعين آية أو خمسين آية سوى فاتحة الكتاب ". ويروى من أربعين إلى ستين ومن ستين إلى مائة وبكل ذلك ورد الأثر ووجه التوفيق أنه يقرأ بالراغبين مائة وبالكسالى أربعين وبالأوساط ما بين خمسين إلى ستين۔(ھدایہ : ١/٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الاول 1446

ہفتہ، 30 نومبر، 2024

ذوالقرنین نبی تھے یاولی؟


سوال :

مفتی صاحب : سورہ کہف میں حضرت ذو القرنين کا ذکر آیا ہے۔ کیا وہ نبی تھے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ڈاکٹر شہباز، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کی سورہ کہف میں حضرت  ذوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق صرف اتنا ذکر ملتا ہے کہ وہ ایک نیک صالح عادل بادشاہ تھے، جنہوں نے مشرق و مغرب کے ممالک فتح کیے اور ان میں عدل و انصاف قائم کیا۔ اور ایک علاقے والوں کے لیے یاجوج ماجوج سے بچنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تعمیر کرائی۔ 

حضرت ذوالقرنین کے نبی ہونے میں اگرچہ علماء کا اختلاف ہے، مگر مؤمن صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے، حافظ ابن کثیر کے ہاں ان کا نبی ہونا راجح ہے، جب کہ جمہور کا قول یہ ہے کہ وہ نہ نبی تھے نہ فرشتہ، بلکہ ایک نیک صالح مسلمان تھے۔


ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى ذَا الْقَرْنَيْنِ هَذَا، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِالْعَدْلِ، وَأَنَّهُ بَلَغَ الْمَشَارِقَ وَالْمَغَارِبَ، وَمَلَكَ الْأَقَالِيمَ وَقَهَرَ أَهْلَهَا، وَسَارَ فِيهِمْ بِالْمَعْدَلَةِ التَّامَّةِ، وَالسُّلْطَانِالْمُؤَيَّدِ الْمُظَفَّرِ الْمَنْصُورِ الْقَاهِرِ الْمُقْسِطِ. وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ كَانَ مَلِكًا مِنَ الْمُلُوكِ الْعَادِلِينَ، وَقِيلَ: كَانَ نَبِيًّا. وَقِيلَ: كَانَ رَسُولًا. وَأَغْرَبَ مَنْ قَالَ: مَلَكًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ. وَقَدْ حُكِيَ هَذَا عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَإِنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ لِآخَرَ: يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ، فَقَالَ: مَهْ، مَا كَفَاكُمْ أَنْ تَتَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ حَتَّى تَسَمَّيْتُمْ بِأَسْمَاءِ الْمَلَائِكَةِ. ذَكَرَهُ السُّهَيْلِيُّ.
وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ نَبِيًّا. وَرَوَى الْحَافِظُ ابْنُ عَسَاكِرَ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَمَّادٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «لَا أَدْرِي أَتُبَّعٌ كَانَ لَعِينًا أَمْ لَا، وَلَا أَدْرِي الْحُدُودُ كَفَّارَاتٌ لِأَهْلِهَا أَمْ لَا، وَلَا أَدْرِي ذُو الْقَرْنَيْنِ كَانَ نَبِيًّا أَمْ لَا» وَهَذَا غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ السَّاجِ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:  كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ مَلِكًا صَالِحًا، رَضِيَ اللَّهُ عَمَلَهُ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي كِتَابِهِ، وَكَانَ مَنْصُورًا، وَكَانَ الْخَضِرُ وَزِيرَهُ۔ (البدایہ النہایہ : ٢/٥٣٦)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
27 جمادی الاول 1446

جمعہ، 29 نومبر، 2024

ایک آدمی کا دو مسجد میں اذان دینا


سوال :

مفتی صاحب ! کسی مؤذن کے لئے ایسا درست ہے کہ وہ ایک ہی وقت کی اذان کئی مسجدوں میں دے؟ مثلاً : 1بجے کی ظہر کی اذان دے، پھر کہیں 1.30 کی اذان دے، ایسا کرنا کسی ایسے شہر یا گاؤں میں ہو جہاں دوسرا کوئی اذان نہ دے سکتا ہو، یا وہ اپنی آمدنی میں اضافے کے پیش نظر کرے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک مسجد میں اذان دینے اور وہاں نماز پڑھ لینے کے بعد دوسری مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ اس لیے کہ دوسری مسجد میں اس کا اَذان دینا اس کے حق میں نفل ہوگا، جب کہ نفل اَذان مشروع نہیں ہے، نیز اَذان کا مقصد فرض نماز کی طرف بلانا ہے، اس صورت میں یہ شخص دوسروں کو تو فرض نماز کی طرف بلانے والا ہوگا اور خود ان کے ساتھ فریضے کی ادائیگی میں شامل نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایک مرتبہ فرض نماز ادا کرچکا ہے۔

اگر دوسری مسجد میں کوئی اذان دینے والا نہ ہو تو یہ شخص وہاں اذان دے سکتا ہے، لیکن ایسی صورت میں مسجد ثانی ہی میں نماز پڑھے، اس لیے کہ مسجد اول میں نماز پڑھنے کے بعد مسجد ثانی میں اسی مؤذن کا اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔


إذَا صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ الْأَوَّلِ يَكُونُ مُتَنَفِّلًا بِالْأَذَانِ فِي الْمَسْجِدِ الثَّانِي وَالتَّنَفُّلُ بِالْأَذَانِ غَيْرُ مَشْرُوعٍ؛ وَلِأَنَّ الْأَذَانَ لِلْمَكْتُوبَةِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ الثَّانِي يُصَلِّي النَّافِلَةَ، فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يَدْعُوَ النَّاسَ إلَى الْمَكْتُوبَةِ وَهُوَ لَا يُسَاعِدُهُمْ فِيهَا. اهـ۔ (شامی : ١/٤٠٠)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
26 جمادی الاول 1446

جمعرات، 28 نومبر، 2024

جو جیتا وہ ہمارا اور ہم اُس کے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! پیشِ نظر مضمون کا عنوان کوئی مذاق یا طنز نہیں ہے اور نہ ہی یہ جملہ کوئی مطلبی یا مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ بلکہ یہ جملہ حقیقت ہے اور قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً یہ جملہ درست ہے۔ 

اسمبلی الیکشن 2024 میں مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار مفتی محمد اسمعیل صاحب قاسمی کو 162 ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی ہے۔ اب اس جیت کے بعد وہ پورے حلقہ اسمبلی 114 یعنی مالیگاؤں سینٹرل میں رہنے والے ہر چھوٹے بڑے مرد وعورت، ہر مذہب، ہر مسلک اور ہر برادری کے لوگوں کے نمائندے بن چُکے ہیں۔

اگرچہ حقیقت یہی ہے کہ اس مرتبہ شہر کی اکثریت نے مفتی اسمعیل صاحب کو ووٹ نہیں دی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً یہ ذمہ داری ہے کہ بغیر کسی تفریق کے وہ اپنے حلقہ انتخاب میں رہنے والے تمام لوگوں کا کام کریں۔

حالانکہ مفتی اسمعیل صاحب جیسے عالم دین کو یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن عوام کا ایک بڑا طبقہ ان سب باتوں سے لاعلم رہتا ہے، اور اس لاعلمی کی وجہ سے غلط فہمیاں بھی پھیلتی ہیں، اور اس میں شرعی نکتہ بھی ہے، جس کی وضاحت کے لیے یہ مضمون لکھنا پڑا۔

اسی طرح جن لوگوں نے مفتی اسمعیل صاحب کو ووٹ نہیں دی ہے وہ بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب آپ لوگوں کے ایم ایل اے اور نمائندے مفتی اسمعیل صاحب ہی ہیں، اس لیے ہر کوئی بغیر کسی تردد اور جھجک کے بوقتِ ضرورت موجودہ ایم ایل اے مفتی اسمعیل صاحب سے ہر وہ کام کروانے کے لیے جاسکتا ہے جو ایک رُکن اسمبلی کی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔ کیونکہ یہ حق آپ کو قانون اور شریعت دونوں نے دیا ہے۔ لہٰذا اس میں کسی قسم کی شرم یا عار بالکل محسوس نہ کریں۔ اور خدانخواستہ کام نہ ہونے کی صورت میں آپ کو قانوناً اور شرعاً یہ مکمل اختیار ہے کہ آپ ایم ایل اے صاحب پر صحت مند تنقید کریں۔

نوٹ : اس مضمون کے ذریعے ہم اس شعبہ کے ماہر حضرات سے درخواست کریں گے کہ وہ اردو زبان میں عام فہم انداز میں ایک ایسا مضمون ترتیب دیں جس میں ایک رُکن اسمبلی کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں؟ اسے واضح کریں اور اسے عام کریں تاکہ اس سلسلے میں جو غلط فہمیاں عوام میں پھیل جاتی ہیں وہ ختم ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر کام ترتیب اور قاعدہ سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بے قاعدگی اور بدنظمی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

بدھ، 27 نومبر، 2024

الیکشنی ہار جیت میں اپنی آخرت برباد نہ کریں



✍ محمد عامر عثمانی ملی
   (امام و خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! اسمبلی الیکشن 2024 کا نتیجہ ظاہر ہوئے کئی دن ہوچکے ہے۔ جس کے مقدر میں فتح لکھی ہوئی تھی وہ کامیاب ہوا اور جس کے نصیب میں ہار کا فیصلہ تھا وہ شکست سے دو چار ہوا۔ لیکن مشاہدہ میں یہ آرہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک سنگین گناہ کا ارتکاب دونوں جماعتوں کے بعض افراد کی طرف سے دھڑلے سے اور مسلسل ہورہا ہے، اس گناہ سے ہماری مراد ایک دوسرے کا تمسخر، استہزاء اور مذاق اُڑانا ہے۔

جیتنے والی جماعت کے افراد "باقی کیسا ہرائے" باقی کیسا ترسائے" ہمارے یہاں اطمینان بخش طریقے پر ہرایا جاتا ہے" تو دوسری طرف کے لوگ "جھامو دوبارہ بن گیا ایم ایل اے" ۔ جیسے متعدد دل آزار جملوں کا استعمال مستقل کررہے ہیں۔ دن بھر سوشل میڈیا پر اسی عنوان سے لطیفے اور اسٹیکر بنا بناکر پھیلائے جارہے ہیں۔ عجیب وغریب حماقت یہ بھی ہے جب کسی لیڈر سے اچانک کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجائے جو غیراختیاری ہوتو اسے ڈر کا نام دے کر اس کی ویڈیو وائرل کی جاتی ہے اور اس پر دل آزار تبصرے کیے جاتے ہیں، اور کسی کی زبان پھسل جانے پر کئی دنوں تک اس پر لطیفے چلتے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور دیندار کہے جانے والے افراد بھی اس میں برابر کے شریک ہیں گویا اسے گناہ ہی نہیں سمجھا جارہا ہے۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ طوفانِ بدتمیزی ابھی تھمنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں پر اس گناہ کی سنگینی کو واضح کردیا جائے تاکہ ماننے والوں کو رہنمائی مل جائے اور وہ اس سے باز رہیں۔

محترم قارئین ! ایک دوسرے کا تمسخر، استہزاء اور مذاق اڑانا اسلام میں ایک بڑا جرم اور گناہ کبیرہ ہے جس کی ممانعت میں قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ۔ (سورہ حجرات، جزء آیت 11)
ترجمہ : اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔

اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قرطبی نے فرمایا کہ تمسخر یہ ہے کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں اس کو سُخْرِیہ، تمسخر، استہزاء  کہا جاتا ہے۔ اور جیسے یہ زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھوں پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا اسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنص قرآن حرام ہیں۔

تمسخر کی ممانعت کا قرآن کریم نے اتنا اہتمام فرمایا کہ اس میں مردوں کو الگ مخاطب فرمایا عورتوں کو الگ، مردوں کو لفظ قوم سے تعبیر فرمایا کیونکہ اصل میں یہ لفظ مردوں ہی کے لئے وضع کیا گیا ہے اگرچہ مجازاً و توسعاً عورتوں کو اکثر شامل ہوجاتا ہے اور قرآن کریم نے عموماً لفظ قوم مردوں عورتوں دونوں ہی کے لئے استعمال کیا ہے مگر یہاں لفظ قوم خاص مردوں کے لئے استعمال فرمایا اس کے بالمقابل عورتوں کا ذکر لفظ نساء سے فرمایا اور دونوں میں یہ ہدایت فرمائی کہ جو مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ استہزاء و تمسخر کرتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ شاید وہ اللہ کے نزدیک استہزاء کرنے والے سے بہتر ہو، اسی طرح جو عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ استہزاء و تمسخر کا معاملہ کرتی ہے اس کو کیا خبر ہے شاید وہی اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔

حاصل آیت کا یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بدن یا صورت یا قد و قامت وغیرہ میں کوئی عیب نظر آئے تو کسی کو اس پر ہنسنے یا استہزاء کرنے کی جرأت نہ کرنا چاہئے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید وہ اپنے صدق و اخلاص وغیرہ کے سبب اللہ کے نزدیک اس سے بہتر اور افضل ہو۔ اس آیت کو سن کر سلف صالحین کا حال یہ ہوگیا تھا کہ عمرو بن شرجیل نے فرمایا کہ میں اگر کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتے دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہوجاؤں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ میں اگر کسی کُتے کے ساتھ بھی استہزاء کروں تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں خود کتا نہ بنادیا جاؤں۔ (قرطبی/ بحوالہ معارف القرآن)

لہٰذا ہماری دونوں جماعتوں کے کارکنان سے عاجزانہ اور دردمندانہ التجاء ہے کہ وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے اور اپنے لیڈر کو بدنام کرنے والے اس قبیح سلسلے کو بند کردیں، اس گناہ پر شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کریں۔ اگر آپ کو اپنے لیڈر سے سچی محبت اور عقیدت ہے تو اس کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ مثبت کام کریں۔ ناجائز لطیفے بنانے اور ذاتیات پر  مبنی چٹکلوں پر جو دماغ اور وقت لگارہے ہیں اس کا استعمال اپنے لیڈر کو اچھے مشورے دینے اور قوم و ملت کی ترقی کے لئے لگائیں جو یقیناً آپ کے لیے، آپ کے لیڈر کے لیے اور پوری قوم کے لئے نفع بخش ثابت ہوگا۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو قوم و ملت کے حق میں نافع بنائے، انتشار افتراق سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

جمعرات، 14 نومبر، 2024

بوگس ووٹ دینے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کچھ لوگ ووٹر آئی ڈی کارڈ کے نام یا ایڈریس وغیرہ میں تبدیلی کرواتے ہیں تو ان کا دو کارڈ بن جاتا ہے اور کبھی تین بھی بن جاتا ہے، اور کچھ لوگ جان بوجھ کر یہ کام کرتے ہیں اور اپنا کئی کئی کارڈ بنوا لیتے ہیں جس سے ان کی ووٹ بھی ایک سے زائد آتی ہے۔ ایسی صورت میں ایک سے زائد ووٹ دینا جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہندوستانی قانون کے مطابق کسی بھی الیکشن میں ایک شخص کو صرف ایک ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے۔ لہٰذا قصداً ایک سے زائد ووٹر آئی ڈی بنانا تاکہ زائد ووٹ دی جائے تو یہ عمل بلاشبہ دھوکہ ہے جو شرعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔ اور اگر کبھی غلطی سے کسی کا ووٹر آئی ڈی ایک سے زائد بن جائے اور اس کی ووٹ ایک سے زائد آنے لگے تب بھی اس کے لیے ایک سے زائد ووٹ دینا شرعاً جائز نہیں ہے، یہ دھوکہ اور بے ایمانی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : من غش فلیس منا، انتہی الحدیث، قال الترمذي : والعمل علی ہٰذا عند أہل العلم کرہوا الغش، وقالوا : الغش حرام۔ (سنن الترمذي : ۱؍۲۴۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الاول 1446