منگل، 8 اکتوبر، 2024

امام کا نماز مقررہ وقت سے تاخیر کرنا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک امام صاحب کا معمول ہے کہ وہ ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں تاخیر سے آتے ہیں، آ کر 4 رکعت سنت مؤکدہ کی نیت باندھ لیتے ہیں اور جماعت کے وقت سے 2 سے 4 منٹ تاخیر سے جماعت کھڑی کرتے ہیں، اس سلسلے میں کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عہد اور وعدہ کی ایک قسم وہ ہے جو انسان کسی انسان سے کرتا ہے جس میں تمام معاہدات سیاسی تجارتی معاملاتی شامل ہیں جو افراد یا جماعتوں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ معاہدات خلافِ شرع نہ ہوں تو ان کا پورا کرنا واجب ہے اور جو خلافِ شرع ہوں ان کا فریقِ ثانی کو اطلاع کرکے ختم کردینا واجب ہے۔ جن معاہدات کا پورا کرنا واجب ہے اگر کوئی پورا نہ کرے تو دوسرے کو حق ہے کہ وہ عدالت میں دعویٰ کرکے اس کو پورا  کرنے پر مجبور کرے۔ معاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ دو فریق کے درمیان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو۔ اور اگر کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کردوں گا تو اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے، اور بعض حضرات نے اس کو بھی عہد کے اس مفہوم میں داخل کیا ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ معاہدہ فریقین کی صورت میں اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو دوسرا فریق اس کو بذریعہ عدالت تکمیل معاہدہ پر مجبور کرسکتا ہے مگر یک طرفہ وعدہ کو عدالت کے ذریعہ جبراً پورا نہیں کراسکتا ہاں بلاعذر شرعی کے کسی سے وعدہ کرکے جو خلافِ ورزی کرے گا وہ شرعاً گناہ گار ہوگا۔ (مستفاد : معارف القرآن)

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسجد میں فرض نمازوں کے اوقات کا بورڈ لگا دینا یک طرفہ وعدہ کی قبیل سے ہے جس کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ کبھی کبھار کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو حرج نہیں، لیکن روزآنہ یا اکثر تاخیر کا معمول بنالینا بلاشبہ وعدہ خلافی ہے، نیز اس کی وجہ سے مصلیان کو کسی نہ کسی درجہ میں تکلیف بھی ہوتی ہے، لہٰذا یہ عمل وعدہ خلافی اور ایذائے مسلم میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور گناہ کی بات ہے جس سے بچنا بہت ضروری ہے۔


قال اللہ تعالٰی : وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا۔ (سورۃ الاسراء، آیت : ۳۴)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۳۳)

قال الملا علی القاری ان من وعد ولیس من نیتہ ان یفی فعلیہ الاثم سواء وفی بہ اولم یف فانہ من اخلاق المنافقین۔ (مرقاۃ : ۴؍۶۴۷، باب الوعد)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔ (سنن النسائي، رقم : ۴۹۹۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ربیع الآخر 1446

بدھ، 2 اکتوبر، 2024

نماز جنازہ کے بعد اجتماعی دعا؟


سوال :

میت کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد اسی جگہ پر کھڑے کھڑے امام صاحب اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔
کیا ایسا کر سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : سلیم احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : نماز جنازہ کے فوراً بعد تدفین میت سے پہلے دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، نماز جنازہ تو خود میت کے لیے ایک جامع دعا ہے، لہٰذا اس کے فوراً بعد پھر دعا کرنا تحصیلِ حاصل اور دین میں زیادتی ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
نماز جنازہ خود دعا ہے، اس میں تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے خاص یا عام الفاظ میں مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ اس لیے نماز جنازہ کے بعد مستقل دعا کی ضرورت نہیں، نیز قرآن وسنت اورصحابہ کرام، تابعین عظام،تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، محدثین ومفسرین وغیرہم میں سے بھی کسی سے ثابت نہیں۔ اور بعض علاقوں میں جو اس کا رواج واہتمام ہے، یہ درست نہیں؛ بلکہ بدعت ہے۔ (رقم الفتوی : 168696)

مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مطبوعہ فتاوی، فتاوی رحیمیہ (٧/١١٠) میں سترہ فقہاء کے حوالہ سے اس عمل کو غیر ثابت شدہ اور دین میں زیادتی لکھا ہے، لہٰذا اس عمل سے بچنا ضروری ہے۔ 


(قَوْلُهُ مِنْ أَنَّ الدُّعَاءَ رُكْنٌ) قَالَ لِقَوْلِهِمْ إنَّ حَقِيقَتَهَا وَالْمَقْصُودَ مِنْهَا الدُّعَاءُ ..... فَقَدْ صَرَّحُوا عَنْ آخِرِهِمْ بِأَنَّ صَلَاةَ الْجِنَازَةِ هِيَ الدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ إذْ هُوَ الْمَقْصُودُ مِنْهَا۔ (شامی : ٢/٢٠٩)

وَلَا يَدْعُو لِلْمَيِّتِ بَعْدَ صَلَاةِ الْجَنَازَةِ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ الزِّيَادَةَ فِي صَلَاةِ الْجَنَازَةِ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٣/١٢١٣)

لا یقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة۔ (خلاصة الفتاوی : ۱/۲۲۵، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
28 ربیع الاول 1446

ہفتہ، 28 ستمبر، 2024

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی شرعی حیثیت


سوال :

مفتی صاحب ! ایک مسئلہ کی وضاحت چاہتا ہوں امید کے جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔ عبداللہ اور اس کی بیوی اولاد نہ ہو کے وجہ سے ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے اولاد چاہتے ہیں، کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے؟ اور کیا طریقہ کار ہوگا؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت کر کے رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مولانا خالد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فی زمانہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی درج ذیل تین صورتیں رائج ہیں۔

١) اجنبی مرد اور اجنبی عورت کے مادہ تولید کی تلقیح (مرد کی منی کے جرثومے اور بیضۃ انثی کی مصنوعی تخم ریزی کے اختلاط) سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی۔

٢) میاں بیوی کے مادہ تولیدی کی بیرونی طور پر تلقیح واختلاط  سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو رحم مستعار (دوسری عورت کے رحم) میں داخل کرکے اس میں بقیہ افزائش کے بعد تولید۔ جسے surrogate mother یعنی کرایہ کی کوکھ کہا جاتا ہے۔

٣) شوہر کے مادہ تولید کی تلقیح خود اسی کی بیوی کے رحم میں یا میاں بیوی کے مادہ تولید کے اختلاط سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو اسی بیوی کے رحم میں داخل کرکے اس میں بقیہ افزائش کے بعد ولادت ہوتی ہے۔ جسے طب کی اصطلاح میں (IVF) اور (IUI) کہا جاتا ہے۔

ذکر کردہ پہلی دو صورتیں تو بالاتفاق ناجائز اور حرام ہیں، لہٰذا ان کی اجازت بالکل نہیں ہے۔ البتہ تیسری صورت کی گنجائش بہت سے علماء اور مؤقر اداروں نے لکھی ہے، بشرطیکہ میاں بیوی کی فطری طریقے سے اولاد نہ ہوتی ہو، اور علاج کے دوران مندرجہ ذیل دو باتوں کا خوب خیال رکھا جائے :

١) شوہر کی منی کا اخراج عزل یعنی بیوی کے ساتھ صحبت کے بعد ہو۔ یا پھر بیوی کے ہاتھ کے ذریعہ بھی منی کا اخراج کیا جاسکتا ہے۔

٢) بیوی کے رحم میں نطفہ پہنچانے کا عمل کسی لیڈی ڈاکٹر کے ذریعے انجام دیا جائے اور جتنا ستر کھولنے کی حاجت ہو، صرف اُس حد تک ستر کھولا جائے، باقی ستر کے حصے کو نہ کھولا جائے۔ اگر کسی لیڈی ڈاکٹر کا انتظام نہ ہوسکتا ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہو کہ مرد ڈاکٹر کسی خاتون کو سکھا کر اُس کے ذریعے یہ عمل انجام دے تو پھر ایسی صورت میں مرد ڈاکٹر کے ذریعے بھی یہ عمل انجام دیا جاسکتا ہے، لیکن اِس میں پھر اِس بات کا اور زیادہ اہتمام ہو کہ ضرورت کی جگہ کے علاوہ باقی ستر کو مکمل ڈھانکا جائے، اور اِس کے ساتھ مرد ڈاکٹر کے ساتھ شوہر یا کوئی خاتون موجود ہوں تاکہ خلوت پیش نہ آئے۔ اِسی طرح مرد ڈاکٹر کو ایسی صورت میں اِس بات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ دورانِ علاج ستر کے حصے کی طرف کم سے کم نظر کرے اور ضرورت کے علاوہ اپنی نظر کو دوسری طرف رکھے۔

اسی طرح ہر ممکن وضروری تدابیر اختیار کی جائیں جس سے مادہ منویہ کی تبدیلی یا اختلاط نسب کا اندیشہ نہ ہو، مزید تفصیل اور تشفی کے لیے فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی جدید فقہی مسائل جلد پنجم کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔


قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗإِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ۔ (سورۃ النور، آیت : ٣٠)

عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ : كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ حُنَيْنًا، فَقَامَ فِينَا خَطِيبًا، فَقَالَ : " لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ۔ (مسند احمد، رقم : ١٩٩٩٠)

وَإِنْ كَانَ فِي مَوْضِعِ الْفَرْجِ، فَيَنْبَغِي أَنْ يُعَلِّمَ امْرَأَةً تُدَاوِيهَا فَإِنْ لَمْ تُوجَدْ وَخَافُوا عَلَيْهَا أَنْ تَهْلِكَ أَوْ يُصِيبَهَا وَجَعٌ لَا تَحْتَمِلُهُ يَسْتُرُوا مِنْهَا كُلَّ شَيْءٍ إلَّا مَوْضِعَ الْعِلَّةِ ثُمَّ يُدَاوِيهَا الرَّجُلُ وَيَغُضُّ بَصَرَهُ مَا اسْتَطَاعَ إلَّا عَنْ مَوْضِعِ الْجُرْحِ۔ (شامی : ٦/٣٧١)

وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَمْنِيَ بِيَدِ زَوْجَتِهِ وَخَادِمَتِهِ اهـ وَسَيَذْكُرُ الشَّارِحُ فِي الْحُدُودِ عَنْ الْجَوْهَرَةِ أَنَّهُ يُكْرَهُ وَلَعَلَّ الْمُرَادَ بِهِ كَرَاهَةُ التَّنْزِيهِ فَلَا يُنَافِي قَوْلَ الْمِعْرَاجِ يَجُوزُ تَأَمَّلْ وَفِي السِّرَاجِ إنْ أَرَادَ بِذَلِكَ تَسْكِينَ الشَّهْوَةِ الْمُفْرِطَةِ الشَّاغِلَةِ لِلْقَلْبِ وَكَانَ عَزَبًا لَا زَوْجَةَ لَهُ وَلَا أَمَةَ أَوْ كَانَ إلَّا أَنَّهُ لَا يَقْدِرُ عَلَى الْوُصُولِ إلَيْهَا لِعُذْرٍ قَالَ أَبُو اللَّيْثِ أَرْجُو أَنْ لَا وَبَالَ عَلَيْهِ وَأَمَّا إذَا فَعَلَهُ لِاسْتِجْلَابِ الشَّهْوَةِ فَهُوَ آثِمٌ۔ (شامی : ٢/٢٩٨)

وَذَكَرَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - فِي شَرْحِ كِتَابِ الصَّوْمِ أَنَّ الْحُقْنَةَ إنَّمَا تَجُوزُ عِنْدَ الضَّرُورَةِ، وَإِذَا لَمْ يَكُنْ ثَمَّةَ ضَرُورَةٍ وَلَكِنْ فِيهَا مَنْفَعَةٌ ظَاهِرَةٌ بِأَنْ يَتَقَوَّى بِسَبَبِهَا عَلَى الْجِمَاعِ لَا يَحِلُّ عِنْدَنَا، وَإِذَا كَانَ بِهِ هُزَالٌ، فَإِنْ كَانَ هُزَالٌ يُخْشَى مِنْهُ التَّلَفُ يَحِلُّ، وَمَا لَا فَلَا، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٣٠)

وَلَا يَجُوزُ لَهَا أَنْ تَنْظُرَ مَا بَيْنَ سُرَّتِهَا إلَى الرُّكْبَةِ إلَّا عِنْدَ الضَّرُورَةِ بِأَنْ كَانَتْ قَابِلَةً فَلَا بَأْسَ لَهَا أَنْ تَنْظُرَ إلَى الْفَرْجِ عِنْدَ الْوِلَادَةِ.
وَكَذَا لَا بَأْسَ أَنْ تَنْظُرَ إلَيْهِ لِمَعْرِفَةِ الْبَكَارَةِ فِي امْرَأَةِ الْعِنِّينِ وَالْجَارِيَةِ الْمُشْتَرَاةِ عَلَى شَرْطِ الْبَكَارَةِ إذَا اخْتَصَمَا وَكَذَا إذَا كَانَ بِهَا جُرْحٌ أَوْ قُرْحٌ فِي مَوْضِعٍ لَا يَحِلُّ لِلرِّجَالِ النَّظَرُ إلَيْهِ فَلَا بَأْسَ أَنْ تُدَاوِيَهَا إذَا عَلِمَتْ الْمُدَاوَاةَ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمْ تَتَعَلَّمْ ثُمَّ تُدَاوِيهَا فَإِنْ لَمْ تُوجَدْ امْرَأَةٌ تَعْلَمُ الْمُدَاوَاةَ وَلَا امْرَأَةٌ تَتَعَلَّمُ وَخِيفَ عَلَيْهَا الْهَلَاكُ أَوْ بَلَاءٌ أَوْ وَجَعٌ لَا تَحْتَمِلُهُ يُدَاوِيهَا الرَّجُلُ لَكِنْ لَا يَكْشِفُ مِنْهَا إلَّا مَوْضِعَ الْجُرْحِ وَيَغُضُّ بَصَرَهُ مَا اسْتَطَاعَ۔ (بدائع الصنائع : ٥/١٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ربیع الاول 1446

بدھ، 25 ستمبر، 2024

ایک روپے کے بدلہ ایک مقبول نماز؟


سوال :

مفتی صاحب ! ایک حدیث کے بارے میں تحقیق چاہیے تھی کہ اس طرح کی کوئی حدیث ہے جس میں ایسا ہے کہ دنیا میں کسی کا ایک روپیہ لیا ہو اس کے بدلے میں ایک مقبول نماز دینی پڑے گی۔ ایسی کوئی حدیث ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی آدمی نے دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے حاصل کرلیا ہو اور واپس نہ کیا ہوتو بروز حشر اسے ایک روپے کے بدلے ایک، چھ سو یا سات سو مقبول نمازیں صاحب معاملہ کو دینا پڑے گا۔ ان الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث نہیں ہے۔ البتہ بعض کتب فقہ وفتاوی میں ابو القاسم القشیری رحمہ اللہ سے منسوب یہ قول ملتا ہے کہ "أنه ‌يؤخذ ‌لدانق ثواب سبع مائة صلاة بالجماعة" یعنی ایک دانق کے بدلے میں سات سو باجماعت نمازوں کا ثواب لیا جائے گا۔ ایک دانق درہم کے چھٹے حصے کے برابر ہوتا ہے۔ اور ایک درہم ساڑھے تین گرام چاندی کا ہوتا ہے، اس کا چھٹا حصہ آدھا گرام چاندی بنتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ حدیث نہیں ہے، لہٰذا اسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی منسوب کرکے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ 

بہرحال اتنی بات تو طے ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن حساب کتاب درہم ودینار کے بجائے نیکی اور بدی کے ذریعے ہوگا۔ جس شخص نے کسی دوسرے کی جان، مال یا عزت کو نقصان پہنچایا ہو اور دنیا میں ہی اس کی تلافی نہ کی ہوگی تو اس کے بقدر نیکیاں صاحب معاملہ کو دینا پڑے گا اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو سامنے والوں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس کے ذمے  کسی  بھائی کا کچھ حق ہو، اس کی آبرو کے متعلق یا اور کسی قسم کا، وہ اس سے آج معاف کرالے، ایسے وقت سے پہلے کہ نہ اس کے پاس دینار ہو گا نہ درہم، اگر اس کے پاس کچھ عملِ صالح ہو گا تو بقدر اس کے حق کے اس سے لے کر صاحبِ  حق کو دے دیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے فریق کے گناہ لے کر اس پر لاد دیے جائیں گے۔ 

ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا کہ : تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں، اور مال واسبا ب نہ ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اور اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں، اور زکوٰۃ بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا، اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں، لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَحَدٍ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٢٤٤٩)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَتَدْرُونَ مَنِ الْمُفْلِسُ ؟ " قَالُوا : الْمُفْلِسُ فِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاتِهِ وَصِيَامِهِ وَزَكَاتِهِ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيَقْعُدُ فَيَقْتَصُّ هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْتَصَّ مَا عَلَيْهِ مِنَ الْخَطَايَا، أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٤١٨)

الصَّلَاةُ لِإِرْضَاءِ الْخُصُومِ لَا تُفِيدُ، بَلْ يُصَلِّي لِلَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَعْفُ خَصْمُهُ أُخِذَ مِنْ حَسَنَاتِهِ جَاءَ «أَنَّهُ يُؤْخَذُ لِدَانَقٍ ثَوَابُ سَبْعِمِائَةِ صَلَاةٍ بِالْجَمَاعَةِ»

(قَوْلُهُ جَاءَ) أَيْ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ أَشْبَاهٌ عَنْ الْبَزَّازِيَّةِ، وَلَعَلَّ الْمُرَادَ بِهَا الْكُتُبُ السَّمَاوِيَّةِ أَوْ يَكُونُ ذَلِكَ حَدِيثًا نَقَلَهُ الْعُلَمَاءُ فِي كُتُبِهِمْ: وَالدَّانَقُ بِفَتْحِ النُّونِ وَكَسْرِهَا: سُدُسُ الدِّرْهَمِ، وَهُوَ قِيرَاطَانِ، وَالْقِيرَاطُ خَمْسُ شَعِيرَاتٍ، وَيُجْمَعُ عَلَى دَوَانِقَ وَدَوَانِيقَ؛ كَذَا فِي الْأَخْسَتْرِيِّ حَمَوِيٌّ (قَوْلُهُ ثَوَابُ سَبْعِمِائَةِ صَلَاةٍ بِالْجَمَاعَةِ) أَيْ مِنْ الْفَرَائِضِ لِأَنَّ الْجَمَاعَةَ فِيهَا: وَاَلَّذِي فِي الْمَوَاهِبِ عَنْ الْقُشَيْرِيِّ سَبْعُمِائَةِ صَلَاةٍ مَقْبُولَةٍ وَلَمْ يُقَيِّدْ بِالْجَمَاعَةِ. قَالَ شَارِحُ الْمَوَاهِبِ: مَا حَاصِلُهُ هَذَا لَا يُنَافِي أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَعْفُو عَنْ الظَّالِمِ وَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ ط مُلَخَّصًا۔ (شامی : ١/٤٣٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الاول 1446

پیر، 23 ستمبر، 2024

حضرت عکاشہ کا بوسہ لینے والے واقعہ کی تحقیق



سوال :

محترم مفتی صاحب ! درج ذیل واقعہ سوشل میڈیا پر گردش میں رہتا ہے، اوراس میں حوالہ (الرحیق المختوم صفحہ نمبر 628) کا لکھا ہوا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس واقعہ کی تحقیق بیان فرمائیں۔

نبى کریم صلى الله علیہ وسلم کی وفات کا وقت جب آیا اس وقت آپ صلى الله علیہ وسلم کو شدید بخار تھا۔
آپ نے حضرتِ بلال رضی الله تعالى عنه کو حکم دیا کہ مدینہ میں اعلان کردو کہ جس کسی کا حق مجھ پر ہو وہ مسجدِ نبوی میں آکر اپنا حق لے لے۔
مدینہ کے لوگوں نے یہ اعلان سُنا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور مدینہ میں کہرام مچ گیا، سارے لوگ مسجدِ نبوی میں جمع ہوگئے صحابه کرام رضوان الله کی آنکھوں میں آنسوں تھے دل بے چین وبے قرار تھا۔
پھر نبى کریم صلى الله علیہ وسلم تشریف لائے آپ کو اس قدر تیز بخار تھا کہ آپ کا چہره مبارک سرخ ہوا جارہا تھا۔
نبى کریم صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا اے میرے ساتھیو! تمھارا اگر کوئی حق مجھ پر باقی ہو تو وہ مجھ سے آج ہی لے لو میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے رب سے قیامت میں اس حال میں ملوں کہ کسی شخص کا حق مجھ پر باقی ہو یہ سن کر صحابہ کرام رضوان الله علیھم کا دل تڑپ اُٹھا۔ مسجدِ نبوی میں آنسوؤں کا ایک سیلاب بہہ پڑا، صحابہ رو رہے تھے لیکن زبان خاموش تھی کہ اب ہمارے آقا ہمارا ساتھ چھوڑ کر جارہے ہیں۔
اپنے اصحاب کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ "اے لوگوں ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے"
میں جس مقصد کے تحت اس دنیا میں آیا تھا وہ پورا ہوگیا ہم لوگ کل قیامت میں ملیں گے۔
ایک صحابی کھڑے ہوئے روایتوں میں ان کا نام عُکاشہ آتا ہے عرض کیا یا رسول الله میرا حق آپ پر باقی ہے آپ جب جنگِ اُحد کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو آپ کا کوڑا میری پیٹھ پر لگ گیا تھا میں اسکا بدلہ چاہتا ہوں۔
یہ سن کر حضرت عمر رضی الله تعالى عنه کھڑے ہوگئے اور کہا کیا تم نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدلہ لوگے؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم بیمار ہیں۔
اگر بدلہ لینا ہی چاہتے ہو تو مجھے کوڑا مار لو لیکن نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدلہ نہ لو
یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا "اے عمر اسے بدلہ لینے دو اسکا حق ہے اگر میں نے اسکا حق ادا نہ کیا تو الله کی بارگاہ میں کیا منہ دکھاؤں گا اسلئے مجھے اسکا حق ادا کرنے دو۔
آپ نے کوڑا منگوایا اور حضرت عُکاشہ کو دیا اور کہا کہ تم مجھے کوڑا مار کر اپنا بدلہ لے لو۔
حضرات صحابہ كرام رضوان الله یہ منظر دیکھ کر بے تحاشہ رو رہے تھے حضرت عُکاشہ نے کہا کہ اے الله کے رسول ! میری ننگی پیٹھ پر آپکا کوڑا لگا تھا یہ سن کر نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنا کُرتہ مبارک اُتار دیا اور کہا لو تم میری پیٹھ پر کوڑا مار لو، حضرتِ عُکاشہ نے جب اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی پیٹھ مبارک کو دیکھا تو کوڑا چھوڑ کر جلدی سے آپ صلى الله علیہ وسلم کی پیٹھ مبارک کو چُوم لیا اور کہا یا رسول الله
"فَداکَ أبِی واُمی"
میری کیا مجال کہ میں آپ کو کوڑا ماروں میں تو یہ چاہتا تھا کہ آپکی مبارک پیٹھ پر لگی مہر نبوّت کو چوم کر جنّت کا حقدار بن جاؤں۔
یہ سن کر آپ صلى الله علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا تم نے جنّت واجب کرلی۔
(المستفتی : محمد آفاق، مالیگاؤں)
-----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور واقعہ میں حوالہ کے طور پر الرحیق المختوم نامی کتاب کا صفحہ 628 لکھا ہوا ہے۔ لیکن یہ کتاب آپ ایک ایک صفحہ اور سطر سطر پڑھ جائیں، کہیں یہ واقعہ نہیں لکھا ہوا ہے، غلط انتساب کرنے والے نے اتنا بھی خیال نہیں کیا کہ بڑی آسانی سے اس کا جھوٹ پکڑا جائے گا، کیونکہ الرحیق المختوم سیرت کی ایک مشہور کتاب ہے جس تک رسائی کوئی مشکل نہیں ہے۔

خیر اتنا تو معلوم ہوگیا کہ الرحیق المختوم میں یہ واقعہ مذکور نہیں ہے تو پھر یہ واقعہ کہاں سے آیا ہے؟

طبرانی کی المعجم الکبیر میں یہ روایت مذکور ہے جس کا نمبر 2676 ہے۔ جس راوی سے یہ روایت مروی ہے وہ متہم بالکذب یعنی جھوٹا راوی ہے۔ ابن جوزی نے اپنی (موضوعات ١/٢٩٧) اور صاحب مجمع الزوائد نے بھی اسے موضوع (من گھڑت) لکھا ہے۔ لہٰذا اس واقعہ کا بیان کرنا اور اسے عام کرنا جائز نہیں ہے۔


لمّا نزلتْ ﴿إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ والْفَتْحُ﴾ [النَّصر: ١] إلى آخرِ السُّورةِ قال النَّبيُّ ﷺ: يا جبريلُ نفسي قد نُعِيَتْ، قال جبريلُ: ﴿وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولى وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضى﴾ [الضُّحى: ٤ - ٥] فأمر رسولُ اللهِ ﷺ بلالًا ينادي: الصَّلاةُ جامعةٌ، فاجتمع المهاجرون، والأنصارُ إلى مسجدِ رسولِ اللهِ ﷺ فصلّى بالنّاسِ ثمَّ صعِد المنبرَ فحمِد اللهَ وأثنى عليه، ثمَّ خطَب خُطبةً وَجِلتْ منها القلوبُ وبكتْ منها العيونُ، ثمَّ قال: أيُّها النّاسُ أيُّ نبيٍّ كنتُ لكم؟ فقالوا: جزاك اللهُ من نبيٍّ خيرًا فلقدْ كُنتَ لنا كالأبِ الرَّحيمِ، وكالأخِ النّاصحِ المشفقِ، أدَيْتَ رسالاتِ اللهِ وأبلغتنا وحيَه، ودعوتَ إلى سبيلِ ربِّك بالحكمةِ والموعظةِ الحسنةِ، فجزاك اللهُ عنّا أفضلَ ما جازى نبيًّا عن أمَّتِه، فقال لهم: معاشرَ المسلمين أنشدُكم باللهِ، وبحقِّي عليكم، من كانت له قِبَلي مَظلمةٌ فليقُمْ فليقتصَّ منِّي، فلم يقُمْ إليه أحدٌ، فناشدهم اللهَ، فلم يقُمْ إليه أحدٌ، فناشدهم الثّالثةَ: معاشرَ المسلمين ! من كانت له من قِبَلي مظلمةٌ فليقُمْ فليقتصَّ منِّي قبلَ القِصاصِ في القيامةِ فقام من بينِ المسلمين شيخٌ كبيرٌ يُقالُ له عُكّاشةُ، فتخطّى المسلمين حتّى وقف بينَ يدَيِ النَّبيِّ ﷺ، فقال: فِداكَ أبي وأمِّي، لولا أنَّك ناشدتَنا مرَّةً بعدَ أخرى ما كنتُ بالَّذي أنقلِعُ على شيءٍ منك، كنتُ معك في غَزاةٍ فلمّا فتح اللهُ علينا فكنّا في الانصرافِ، حاذت ناقتي ناقتَك فنزلتُ عن النّاقةِ ودنوتُ منك لأقبِّلَ فخِذَك، فرفعتَ القضيبَ فضربتَ خاصرتي، فلا أدري أكان عمدًا منك أم أردتَ ضربَ النّاقةِ؟ فقال رسولُ اللهِ ﷺ: يا عُكّاشةُ أُعيذُك بجلالِ اللهِ أن يتعمَّدَك رسولُ اللهِ بالضَّربِ. يا بلالُ انطلِقْ إلى منزلِ فاطمةَ وأتني بالقضيبِ الممشوقِ، فقالت فاطمةُ: وما يصنعُ أبي بالقضيبِ الممشوقِ، وليس هذا يومَ حجٍّ ولا يومَ غَزاةٍ؟ فقال: يا فاطمةُ ما أغفلَك عمّا فيه أبوك؟ إنَّ رسولَ اللهِ يُودِّعُ الدِّينَ ويُفارِقُ الدُّنيا، ويُعطي القِصاصَ من نفسِه، فقالت فاطمةُ: يا بلالُ ومن ذا الَّذي تطيبُ نفسُه أن يقتصَّ من رسولِ اللهِ ﷺ؟ يا بلالُ إذن فقلْ للحسنِ والحسينِ يقومان إلى هذا الرَّجلِ فيقتصَّ منهما ولا يدعانه يقتصُّ من رسولِ اللهِ ﷺ فدخلَ بلالٌ المسجدَ، ودفع القضيبَ إلى رسولِ اللهِ ﷺ فدفع رسولُ اللهِ ﷺ القضيبَ إلى عُكّاشةَ، فلمّا نظر أبو بكرٍ وعمرُ إلى ذلك قاما فقالا: يا عُكّاشةُ ها نحن بين يدَيْك، فاقتصَّ منّا ولا تقتصَّ من رسولِ اللهِ ﷺ، فقال لهما النَّبيُّ ﷺ: امضِ أبا بكرٍ، وأنتَ يا عمرُ فامضِ، فقد عرف اللهُ عزَّ وجلَّ مكانَكما ومقامَكما، فقام عليُّ بنُ أبي طالبٍ فقال: يا عُكّاشةُ أنا في الحياةِ بين يدَيْ رسولِ اللهِ ﷺ ولا تطيبُ نفسي أن تضرِبَ رسولَ اللهِ ﷺ وهذا ظهرِي وبطني فاقتصَّ منِّي بيدِك واجلدنِي مائةً، ولا تقتصَّ من رسولِ اللهِ ﷺ، فقال النَّبيُّ ﷺ يا عليُّ اقعُدْ، فقد عرف اللهُ عزَّ وجلَّ مقامَك ونيَّتَك، وقام الحسنُ والحسينُ فقالا: يا عُكّاشةُ أليس تعلَّمُ أنا سِبطا رسولِ اللهِ ﷺ؟ فالقِصاصُ منّا كالقِصاصِ من رسولِ اللهِ، فقال لهما النَّبيُّ ﷺ اقعُدا يا قُرَّةَ عيني، لا نَسِي اللهُ لكما هذا المقامَ، فقال النَّبيُّ ﷺ: يا عُكّاشةُ اضرِبْ إن كنتَ ضاربًا، فقال: يا رسولَ اللهِ ضربتني وأنا حاسرٌ عن بطني، فكشف عن بطنِه ﷺ وصاح المسلمون بالبكاءِ، وقالوا: ترى عُكّاشةَ ضاربًا بطنَ رسولِ اللهِ ﷺ؟ فلمّا نظر عُكّاشةُ إلى بياضِ بطنِ رسولِ اللهِ ﷺ كأنَّه القَباطِيُّ لم يملكْ أن أكبَّ عليه فقبَّل بطنَه وهو يقولُ: فداكَ أبِي وأمِّي، ومن تُطيقُ نفسُه أن يقتصَّ منك؟ فقال له النَّبيُّ ﷺ: إمّا أن تضرِبَ وإمّا أن تعفوَ، فقال: قد عفوتُ عنك رجاءَ أن يعفواللهُ عنِّي في القيامةِ، فقال النَّبيُّ ﷺ من أراد أن ينظُرَ إلى رفيقِي في الجنَّةِ فلينظُرْ إلى هذا الشَّيخِ، فقام المسلمون، فجعلوا يُقبِّلون ما بين عينَيْه، ويقولون: طوباك، طوباك نِلتَ الدَّرجاتِ العُلى، ومرافقةَ رسولِ اللهِ ﷺ، فمرِض رسولُ اللهِ من يومِه فكان مرضُه ثمانيةَ عشرَ يومًا يعودُه النّاسُ، وكان ﷺ وِلِد يومَ الإثنين، وبُعث يومَ الإثنين، وقُبِض يومَ الإثنين، فلمّا كان يومُ الأحدِ ثَقُل في مرضِه، فأذَّن بلالٌ، ثمَّ وقف بالبابِ فنادى: السَّلامُ عليك يا رسولَ اللهِ ورحمةُ اللهِ وبركاتُه، الصَّلاةَ يرحمُكَ اللهُ ! فسمِع رسولُ اللهِ ﷺ صوتَ بلالٍ فقالتْ فاطمةُ: يا بلالُ إنَّ رسولَ اللهِ ﷺ اليومَ مشغولٌ بنفسِه فدخل بلالٌ المسجدَ فلمّا أسفر الصُّبحُ قال: واللهِ لا أُقيمُها أو أستأذِنُ سيِّدي رسولَ اللهِ ﷺ فخرج وقام بالبابِ ونادى: السَّلامُ عليك يا رسولَ اللهِ ورحمةُ اللهِ الصَّلاةُ يرحمُك اللهُ ! فسمِع رسولُ اللهِ ﷺ صوتَ بلالٍ فقال: ادخُلْ يا بلالُ إنَّ رسولَ اللهِ مشغولٌ بنفسِه مُرْ أبا بكرٍ يُصلِّي بالنّاسِ فخرج ويدُه على أمِّ رأسِه يقولُ: يا غوْثاه باللهِ ! وانقطاعَ رجائي، وانفصامَ ظهري، ليتني لم تلِدْني أمِّي، وإذ ولدتني لم أشهَدْ مِن رسولِ اللهِ ﷺ هذا اليومَ ثم قال يا أبا بكرٍ ألا إنَّ رسولَ اللهِ أمرك أن تصلِّيَ بالنّاسِ فتقدَّم أبو بكرٍ، وكان رجلًا رقيقًا، فلمّا نظر إلى [خلُوِّ] المكانِ من رسولِ اللهِ ﷺ لم يتمالَكْ أن خرَّ مغشيًّا عليه، وصاح المسلمون بالبكاءِ، فسمِع رسولُ اللهِ ضجيجَ النّاسِ، فقال ما هذه الضَّجَّةُ؟ فقالوا: ضجَّةُ المسلمين لفقدِك يا رسولَ اللهِ ! فدعا النَّبيُّ ﷺ عليًّا والعبّاسَ، فاتَّكأ عليهما فخرجَ إلى المسجدِ فصلّى بالنّاسِ ركعتَيْن خفيفتَيْن، ثمَّ أقبل بوجهِه المليحِ عليهم فقال: معشرَ المسلمين أستودِعُكم اللهَ، أنتم في رجاءِ اللهِ وأمانتِه، واللهُ خليفتي عليكم، معاشرَ المسلمين عليكم باتِّقاءِ اللهِ ! وحفْظِ طاعتِه من بعدي، فإنِّي مفارقٌ الدُّنيا هذا أوَّلُ يومٍ من أيّامِ الآخرةِ، وآخرُ يومٍ من الدُّنيا فلمّا كان يومُ الإثنينِ اشتدَّ به الأمرُ، وأوحى اللهُ تعالى إلى ملَكِ الموتِ أن اهبِطْ إلى حبيبي وصفيِّي محمَّدٍ في أحسنِ صورةٍ، وارفُقْ به في قبضِ روحِه، فهبط ملَكُ الموتِ، فوقف بالبابِ شبهَ أعرابيٍّ، ثمَّ قال: السَّلامُ عليكم يا أهلَ بيتِ النُّبوَّةِ، ومعدِنَ الرِّسالةِ ومختلفَ الملائكةِ أدخُلُ؟ فقالت عائشةُ لفاطمةَ أجيبي الرَّجلَ، فقالت فاطمةُ: آجرك اللهُ في ممشاك يا عبدَ اللهِ، إنَّ رسولَ اللهِ ﷺ اليومَ مشغولٌ بنفسِه، فنادى الثّانيةَ فقالت عائشةُ: يا فاطمةُ أجيبي الرَّجلَ، فقالت فاطمةُ آجركَ اللهُ في ممشاك يا عبدَ اللهِ إنَّ رسولَ اللهِ اليومَ مشغولٌ بنفسِه، ثمَّ دعا الثّالثةَ فقال: السَّلامُ عليكم يا أهلَ بيتِ النُّبوَّةِ ومعدِنَ الرِّسالةِ ومختلفَ الملائكةِ أدخُلُ؟ فلا بدَّ من الدُّخولِ ! فسمِع رسولُ اللهِ ﷺ صوتَ ملَكِ الموتِ، فقال: يا فاطمةُ مَن بالبابِ؟ فقالت: يا رسولَ اللهِ إنَّ رجلًا بالبابِ يستأذِنُ في الدُّخولِ فأجبناه مرَّةً بعد أخرى فنادى في الثّالثةِ صوتًا اقشعرَّ منه جلدي، وارتعَدَتْ منه فرائصي، فقال لها النَّبيُّ ﷺ: يا فاطمةُ أتدرين من بالبابِ؟ هذا هادمُ اللَّذاتِ ومفرِّقُ الجماعاتِ، هذا مُرمِّلُ الأزواجِ، ومُوتِمُ الأولادِ، هذا مخرِّبُ الدُّورِ، وعامرُ القبورِ، هذا ملَكُ الموتِ، ادخلْ يرحمْك اللهُ يا ملَكَ الموتِ جئتني زائرًا أم قابضًا؟ قال: جئتُك زائرًا وقابضًا، وأمرني اللهُ عزَّ وجلَّ أن لا أدخلَ عليك إلّا بإذنِك، ولا أقبضُ روحَك إلّا بإذنِك، فإن أذِنتَ وإلّا رجِعتُ إلى ربِّي فقال رسولُ اللهِ ﷺ: يا ملَكَ الموتِ أين خلَّفت حبيبي جبريلَ؟ فقال: خلَّفتُه في السَّماءِ الدُّنيا والملائكةُ يُعزُّونه فيك، فما كان بأسرع أن أتاه جبريلُ، فقعد عندَ رأسِه، فقال رسولُ اللهِ ﷺ: يا جبريلُ ! هذا الرَّحيلُ من الدُّنيا فبشِّرْني ما لي عند اللهِ؟ قال: أُبشِّرُك يا حبيبَ اللهِ إنِّي تركتُ أبوابَ السَّماءِ قد فُتِحَتْ والملائكةُ قد قاموا صفوفًا بالتَّحيَّةِ والرَّيحانِ يُحيُّونَ روحَك يا محمَّدُ، فقال: لوجهِ ربِّي الحمدُ، فبشِّرْني يا جبريلُ، قال: أُبشِّرُك أنَّ أبوابَ الجنَّةِ قد فُتِّحتْ، وأنهارُها قد اطَّردتْ وأشجارُها قد تدلَّتْ، وحورُها قد تزيَّنتْ لقُدومِ روحِك يا محمَّدُ. قال: لوجهِ ربِّي الحمدُ ! بشِّرْني يا جبريلُ، قال: أبوابُ النِّيرانِ قد أطبَقتْ لقُدومِ روحِك يا محمَّدُ، قال: لوجهِ ربِّي الحمدُ ! فبشِّرْني يا جبريلُ، قال: أنت أوَّلُ شافعٍ وأوَّلُ مُشفَّعٍ في القيامةِ، قال لوجهِ ربِّي الحمدُ ! فبشِّرْني يا جبريلُ: يا حبيبي عمَّ تسألُني؟ قالَ: أسألُك عن غمِّي وهمِّي من لقُرّاءِ القرآنِ من بعدي، من لصُّوّامِ رمضانَ من بعدي؟ من لحُجّاجِ بيتِ اللهِ الحرامِ من بعدي؟ من لأمَّتي المصطفاةِ من بعدي؟ قال: أُبشِّرُك يا حبيبَ اللهِ فإنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ يقولُ: قد حرَّمتُ الجنَّةَ على جميعِ الأنبياءِ والأممِ حتّى تدخُلَها أنتَ وأمَّتُك يا محمَّدُ. قال: الآنَ طابتْ نفسي، ادْنُ يا ملكَ الموتِ فانتَهِ إلى ما أُمِرْتَ: فقال عليٌّ رضِي اللهُ عنه: إذا أنت قُبِضتَ فمن يُغسِّلُك وفيم نُكفِّنُك؟ ومن يُصلِّي عليك؟ ومن يدخُلُ القبرَ؟ فقال النَّبيُّ ﷺ: يا عليٌّ أمّا الغُسلُ فاغسلني أنت، وابنُ عبّاسٍ يصبُّ عليك الماءَ، وجبريلُ ثالثُكما، فإذا أنتم فرغتُم من غسلي فكفِّنوني في ثلاثةِ أثوابٍ جُددٍ، وجبريلُ يأتيني بحنوطٍ من الجنَّةِ، فإذا أنتم وضعتموني على السَّريرِ فضعوني في المسجدِ، واخرجوا عنِّي فإنَّ أوَّلَ من يُصلِّي عليَّ الرَّبُّ عزَّ وجلَّ من فوقِ عرشِه، ثمَّ جبريلُ، ثمَّ ميكائيلُ، ثمَّ إسرافيلُ، ثمَّ الملائكةُ، زُمَرًا زُمَرًا، ثمَّ ادخلوا فقُوموا صفوفًا صفوفًا لا يتقدَّمُ عليَّ أحدٌ، فقالت فاطمةُ: اليومَ الفِراقُ، فمتى ألقاك، فقال لها: يا بُنيَّةُ تلقينني يومَ القيامةِ عند الحوضِ وأنا أسقِي من يرِدُ على الحوضِ من أمَّتي، قالت: فإن لم ألقَك يا رسولَ اللهِ؟ قال: تلقينني عند الميزانِ، وأنا أشفعُ لأمَّتي، قالت: فإن لم ألقَك يا رسولَ اللهِ؟ قالَ: تلقينني عند الصِّراطِ وأنا أُنادي: ربِّ سلَّم أمَّتي من النّارِ، فدنا ملَكُ الموتِ فعالج قبْضَ روحِ رسولِ اللهِ ﷺ، فلمّا بلغ إلى الرُّكبتَيْن قال النَّبيُّ: أُواه ! فلمّا بلغ الرَّوحُ إلى السُّرَّةِ نادى النَّبيُّ ﷺ: واكرْباه ! فقالتْ فاطمةُ: كربي لكربِك يا أبتاه ! فلمّا بلغ الرُّوحُ إلى الثُّندُوَةِ قال النَّبيُّ ﷺ: يا جبريلُ ما أشدَّ مرارةَ الموتِ ! فولّى جبريلُ وجهَه عن رسولِ اللهِ ﷺ فقال رسولُ اللهِ ﷺ: يا جبريلُ كرِهتَ النَّظرَ إليَّ؟ فقال جبريلُ: يا حبيبي ومن تُطيقُ نفسُه أن ينظُرَ إليك وأنت تُعالِجُ سكَراتِ الموتِ، فقُبِض رسولُ اللهِ ﷺ فغسَّله عليُّ بنُ أبي طالبٍ وابنُ عبّاسٍ يصُبُّ الماءَ، وجبريلُ عليه السَّلامُ معهما، وكُفِّنَ في ثلاثةِ أثوابٍ جُددٍ، وحُمِل على السَّريرِ، ثمَّ أدخلوه المسجدَ وخرج النّاسُ عنه، وأوَّلُ من صلّى عليه الرَّبُّ من فوقِ عرشِه تعالى وتقدَّس ثمَّ جبريلُ، ثمَّ ميكائيلُ، ثمَّ إسرافيلُ، ثمَّ الملائكةُ زُمَرًا زُمَرًا، قال عليٌّ رضِي اللهُ عنه: لقد سمِعنا في المسجدِ همهمةً ولم نرَ لهم شخصًا، فسمِعنا هاتفًا يهتِفُ وهو يقولُ: ادخلوا رحِمكم اللهُ ! فصلُّوا على نبيِّكم ﷺ، فدخلنا فقُمنا صفوفًا كما أمرنا رسولُ اللهِ ﷺ فكبَّرنا بتكبيرِ جبريلَ. وصلَّيْنا على رسولِ اللهِ ﷺ بصلاةِ جبريلَ ما تقدَّم منّا أحدٌ على رسولِ اللهِ ﷺ، ودخل القبرَ عليُّ بنُ أبي طالبٍ وابنُ عبّاسٍ وأبو بكرٍ الصِّدِّيقُ، ودُفِن رسولُ اللهِ ﷺ، فلمّا انصرف النّاسُ قالت فاطمةُ: يا أبا الحسنِ دفنتُم رسولَ اللهِ؟ قال: نعم قالتْ فاطمةُ: كيف طابتْ أنفسُكم أن تحثوا التُّرابَ على رسولِ اللهِ ﷺ؟ أما كان في صدورِكم لرسولِ اللهِ الرَّحمةُ؟ أما كان مُعلِّمَ الخيرِ؟ قال: بلى يا فاطمةُ، ولكنَّ أمرَ اللهِ عزَّ وجلَّ الَّذي لا مردَّ له، فجعلتْ تبكي، وتندُبُ وهي تقولُ: يا أبتاه؟ الآن انقطع عنّا جبريلُ وكان جبريلُ يأتينا بالوحيِ من السَّماءِ
الراوي: جابر بن عبدالله وعبدالله بن عباس • ابن الجوزي، الموضوعات لابن الجوزي (٢/٣٠) • موضوع
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ربیع الاول 1446

اتوار، 22 ستمبر، 2024

روایت "امت کی موت کی تکلیف مجھے دے دو" کی تحقیق


سوال : 

مفتی صاحب ! حضور ﷺ کی وفات کے متعلق جو واقعہ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب اور دیگر مقررین بیان کرتے ہیں لیکن وہ واقعہ سیرت کی مشہور کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔ واقعہ یہ بیان کرتے ہیں کہ موت کا فرشتہ حضور ﷺ کے پاس آیا تو اللہ کے نبی نے کہا میرے جانے کے بعد اللہ میری امت کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ میری امت کی موت کی تکلیف مجھے دے دو، میری امت کو میرے جانے کے بعد میں تکلیف میں دیکھنا نہیں چاہتا۔ آپ مستند و معتبر واقعہ نقل کردیجئے۔عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : حافظ ساجد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کا ارسال کردہ واقعہ کسی بھی صحیح یا ضعیف روایت میں موجود نہیں ہے۔ صحیح روایات میں صرف اتنا ملتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما رہے تھے کہ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ یا اللہ مجھے بخش دے رحم فرما اور بلند رفیقوں سے ملا۔ 

غیرمعتبر روایات کا فنی جائزہ نامی کتاب میں ہے :
تلاش بسیار کے باوجودیہ روایت سنداً تاحال ہمیں کہیں نہیں مل سکی، اور جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ ﷺ کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے،کیونکہ آپﷺ کی جانب صرف ایسا کلام وواقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے جومعتبر سند سے ثابت ہو۔ (رقم : ٥١٥)

معلوم ہوا کہ جب یہ واقعہ کسی معتبر روایت میں موجود ہی نہیں ہے تو پھر اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے خواہ کتنے ہی مشہور عالم اور واعظ نے کیوں نہ بیان کیا ہو۔


يوم وفاة نبيِّنا محمد عليه الصلاة والسلام، عندما رأى ألَمَ الموت تعرفون ماذا قال؟! قال: اللهم ثقِّل في سكراتي، وخفِّف في سكرات أمتي!
الدرجة : ليس بحديث

حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْغَتْ إِلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ وَهُوَ مُسْنِدٌ إِلَيَّ ظَهْرَهُ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ۔ (بخاری)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ربیع الاول 1446

جمعہ، 20 ستمبر، 2024

حضرت عمر کا قبر میں منکر نکیر سے سوال کرنا


سوال :

مفتی صاحب ! شہر کے ایک شعلہ بیان مقرّر ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا عمر قبر میں تیرا کیا بنے گا جب منکر نکیر سوال کرنے آئیں گے؟ حضرت عمر نے فرمایا : جیسا ابھی ہوں ویسا ہی قبر میں رہوں گا تو میں ان کے لیے کافی ہوجاؤں گا۔ اتنے میں جبرئیل آئے اور فرمایا قبر میں عمر منکر نکیر سے خود سوال کریں گے۔ کیا یہ روایت درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مدثر انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت کے دو حصے بنتے ہیں، پہلے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منکر نکیر سے متعلق گفتگو کرنا جبکہ دوسرے حصے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قبر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود منکر نکیر سے سوال کریں گے۔ یعنی منکر نکیر سوالات کریں گے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ یوں جواب دیں کہ میرا رب اللہ ہے، مگر تمہارا رب کون ہے؟ میرا دین اسلام ہے، مگر تمہارا دین کیا ہے؟ میرے نبی تو محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم ہیں، مگر تمہارا نبی کون ہے؟ وہ کہیں گے: بڑے تعجب کی بات ہے، ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں یا تم ہماری طرف بھیجے گئے ہو؟

معلوم ہونا چاہیے کہ مذکورہ روایت کا پہلا حصہ تو معتبر روایات سے ثابت ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ جس میں حضرت عمرؓ کا خود منکر نکیر سے سوال کرنے کا ذکر ہے یہ حصہ کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے، یہ روایت "الریاض النضرة" نامی کتاب میں مذکور ہے، لیکن اس کتاب کی تحقیق اور تخریج کرنیوالے محقق عبدالمجید طعمة حلبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منکر نکیر سے سوال کرنے والا حصہ روایت کا جزو نہیں ہے، بلکہ اسے بغیر سند کے محب طبریؒ نے ذکر کردیا ہے۔ لہٰذا اس روایت کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔


 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْأَحْمَسِيُّ، قَالَ: ثنا مُفَضَّلٌ يَعْنِي ابْنَ صَالِحِ أَبَا جَمِيلَةَ، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي شَهْرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ : «كَيْفَ أَنْتَ إِذَا كُنْتَ فِي أَرْبَعَةِ أَذْرُعٍ فِي ذِرَاعَيْنِ، وَرَأَيْتَ مُنْكَرًا وَنَكِيرًا؟» قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا مُنْكَرٌ وَنَكِيرٌ؟ قَالَ: «فَتَّانَا الْقَبْرِ، يَبْحَثَانِ الْأَرْضَ بِأَنْيَابِهِمَا، وَيَطَآنِ فِي أَشْعَارِهِمَا، أَصْوَاتُهُمْ كَالرَّعْدِ الْقَاصِفِ، وَأَبْصَارُهُمَا كَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ، مَعَهُمَا مِرْزَبَّةُ لَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهَا أَهْلُ مِنًى، لَمْ يُطِيقُوا رَفْعَهَا، هِيَ أَيْسَرُ عَلَيْهِمَا مِنْ عَصَاتِي هَذِهِ» قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَنَا عَلَى حَالِي هَذِهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: إِذَنْ أَكْفِيكَهُمَا۔ (البعث : ١٨)

فقال ﷺ: «والذي بعثني بالحق نبيًّا، لقد أخبرني جبريل أنهما يأتيانك فتقول أنت: الله ربي فمن ربكما؟ ومحمد نبيي فمن نبيكما؟ والإسلام ديني فما دينكما؟ فيقولان: وا عجباه!! ما ندري نحن أرسلنا إليك، أم أنت أرسلت إلينا؟» خرجه عبد الواحد بن محمد بن علي المقدسي في كتابه التبصير، وخرج الحافظ أبو عبد الله القاسم الثقفي عن جابر من أوله إلى ذكر السؤال وقال: فقال عمر: يا رسول الله أية حال أنا يومئذ؟ قال: «على حالك» قال: إذن أكفيكهما، ولم يذكر ما بعده. وخرج سعيد بن منصور معناه، ولفظه: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم أنا محمد بن علوان بن علقمة قال: حدثني أصحابنا قالوا: قال رسول الله ﷺ لعمر: «كيف بك إذا جاءك منكر ونكير يسألانك؟ صوتهما مثل الرعد القاصم وأبصارهما مثل البرق الخاطف، يطئان في أشعارهما ويبحثان بأنيابهما» فقال: يا رسول الله، أنبعث على ما متنا عليه؟ قال: «نعم، إن شاء الله تعالى» قال: إذن أكفيكهما۔(الریاض النضرۃ، المؤلف: محب الطبریؒ، المحقق: عبد المجید طعمة حؔلبی، ٢/٣٤٦)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 ربیع الاول 1446