سوال :
محترم مفتی صاحب ! عرض یہ ہے کہ ایک مسجد کے بورڈ پر لکھا گیا۔
اس مسجد میں روزانہ فجر کی نماز میں ترتیب سے قرآن پڑھا جارہا ہے۔گزشتہ سترہ مہینوں سے فجر میں پڑھے جانے والے قرآن کی کل یکم ستمبر بروز پیر کی فجر میں تکمیل ہوگی۔ ظاہر ہے بورڈ پر لکھنے کا مقصد لوگوں کو "فجر کی نماز میں تکمیل قرآن" کی برکتوں سے مستفیذ ہونے کیلئے مدعو کرنا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ قرآن کی تکمیل ہوئی لیکن کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی۔
از راہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیجئے کہ کیا فجرکی نماز میں ایک طویل مدت میں پورا قرآن پڑھنا اور اس طرح قرآن کی تکمیل کے دن لوگوں کو مدعو کرنا مستحب اور مستحسن ہے یا بدعت؟ مزید یہ بھی بیان فرمایئے کہ یہ قابل تقلید ہے یا اسے روکنا ضروری ہے؟ اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ مساجد میں مقابلہ آرائی شروع ہو جائے گی اور لوگوں کو وہاٹس ایپ پر دعوت نامے موصول ہونا شروع ہو جائیں گے کہ "فلاں مسجد میں یکم شوال سے فجر کی نماز میں قرآن بالترتیب پڑھا جا رہا ہے۔گیارہ مہینوں میں یعنی 29 شعبان کی فجر میں قرآن کی تکمیل ہوگی۔ فلاں صاحب رقت آمیز دعا فرمائیں گے اور "فجر کی نماز میں تکمیل قرآن " کے فضائل بیان فرمائیں گے۔ عوام سے شرکت کی گزارش ہے۔"
(المستفتی : ڈاکٹر سعید احمد انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تمام باتیں اور اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں، ہم نے خود اس کا مشاہدہ بھی کرلیا ہے کہ فرض نمازوں بالخصوص فجر کی نماز میں بالترتيب قرآن مکمل کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ جن ائمہ کا قرآن پختہ نہیں ہے وہ بھی زور آزمائی کررہے ہیں اور نتیجتاً قرأت میں تغیر فاحش ہورہا ہے اور نماز دوہرانے کی نوبت آرہی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہورہا ہے کہ اسے بڑی فضیلت والا عمل سمجھا جارہا ہے، لہٰذا ہم یہاں عالم اسلام کے دو انتہائی مؤقر اور معتبر اداروں کے فتاوی نقل کررہے ہیں تاکہ یہ مسئلہ سب کے سامنے واضح ہوجائے۔
دارالعلوم کراچی کا فتوی ہے :
واضح رہے کہ عام حالات میں ہر نماز میں مسنون ترتیب کے مطابق تلاوت کرنا چاہیئے اور وہ فجر و ظہر کی نماز میں طوال مفصل (یعنی سورہ حجرات سے سورہ بروج تک) میں سے پڑھا جائے جہاں سے آسان ہو اور جو حصہ زیادہ یاد ہو، نماز عصر و عشاء میں اوساط مفصل (سورہ بروج تا سورہ بینہ) میں سے پڑھا جائے، مغرب کی نماز میں قصار مفصل (یعنی سورہ بینہ تا سورۃ الناس) میں سے پڑھا جائے، یہی مسنون ترتیب ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اکثری معمول رہی ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق قرأت کرنا افضل ہے اور اس میں زیادہ ثواب ہے، اور کبھی اسکے علاوہ دوسری جگہ سے پڑھ لینا بھی درست ہے، تاہم مذکورہ صورت میں قرآن ختم کرنے کا معمول جائز تو ہے مگر بہتر نہیں، کیونکہ اس میں مسنون ترتیب کو مستقل چھوڑنا ہے جو مکروہ تنزیہی ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے، نیز اس طرح نماز فجر اور نماز عشاء کے فرضوں میں قرآن مجید مکمل ختم کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ (ماخذ تبویب ۱۱/۷۶۸)
واضح رہے کہ قرأت کی بعض غلطیاں ایسی ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ، اس لیے فجر اور عشاء کی نمازوں میں قرآن ختم کرنے کی وجہ سے اگر امام صاحب بکثرت غلطیاں کرتے ہوں تو قرآن ختم کرنے کے اس معمول کو ترک کرنا لازم ہے، نیز اسکے باوجود اگر امام صاحب اس سے باز نہیں آتے اور قرأت کی شدید غلطیاں کرتے ہیں، تو ایسے شخص کو امام بنانا درست نہیں، انتظامیہ امام کو تنبیہ کرے، ورنہ امام تبدیل کر سکتی ہے۔ (رقم الفتوی : ٥٧/٢٠١٦)
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
نماز تو اس طرح قرآنِ کریم بالترتیب پڑھنے میں بھی صحیح ہوجاتی ہے مگر امام کو فرض نمازوں میں قرأتِ مسنونہ کے پڑھنے کو اختیار کرنا چاہیے، البتہ امام صاحب اپنی سنت ونوافل میں علی الترتیب پڑھتے رہیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 149216)
معلوم ہوا کہ فرض نمازوں میں بالترتيب قرآن مجید پڑھ کر مکمل کرنا کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے، بلکہ اس عمل کو خلافِ اولی یعنی بہتر نہیں لکھا گیا ہے۔ اور جب یہ عمل شرعاً پسندیدہ نہیں ہے تو پھر اس کو اہمیت دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا، اس کی تفصیلات عوام میں بیان کرنا یہاں تک کہ ختم قرآن پر اعلان لگاکر لوگوں کو جمع کرنا یہ سارا عمل شریعت کے مزاج کے خلاف ہے، لہٰذا فرض نمازوں میں بالترتيب پورا پڑھنے سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔
وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الصُّبْحِ بِالوَاقِعَةِ، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الفَجْرِ مِنْ سِتِّينَ آيَةً إِلَى مِائَة، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ " قَرَأَ: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔ (سنن الترمذي، رقم : ٣٠٦)
وَاسْتَحْسَنُوا فِي الْحَضَرِ طِوَالَ الْمُفَصَّلِ فِي الْفَجْرِ وَالظُّهْرِ وَأَوْسَاطَهُ فِي الْعَصْرِ وَالْعِشَاءِ وَقِصَارَهُ فِي الْمَغْرِبِ. كَذَا فِي الْوِقَايَةِ.
وَطِوَالُ الْمُفَصَّلِ مِنْ الْحُجُرَاتِ إلَى الْبُرُوجِ وَالْأَوْسَاطُ مِنْ سُورَةِ الْبُرُوجِ إلَى لَمْ يَكُنْ وَالْقِصَارُ مِنْ سُورَةِ لَمْ يَكُنْ إلَى الْآخِرِ. هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٧٧)
ويقرأ في الحضر في الفجر في الركعتين بأربعين آية أو خمسين آية سوى فاتحة الكتاب ". ويروى من أربعين إلى ستين ومن ستين إلى مائة وبكل ذلك ورد الأثر ووجه التوفيق أنه يقرأ بالراغبين مائة وبالكسالى أربعين وبالأوساط ما بين خمسين إلى ستين۔(ھدایہ : ١/٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الاول 1446