منگل، 7 جنوری، 2025

اجتماع کی اختتامی دعا سے متعلق عاجزانہ درخواست

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام! تبلیغی جماعت کے اجتماعات الحمدللہ پوری دنیا میں ہوتے ہیں، اور جس علاقے میں ہوتے ہیں اس دن اس علاقے کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ لوگوں کا جوش وخروش اور اجتماع میں شرکت کی تڑپ قابلِ دید ہوتی ہے۔ اجتماعات سے بڑی تعداد میں لوگ اللہ کے راستے میں نکلتے ہیں اور خود کی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش بھی کرتے ہیں جو بلاشبہ بڑے اجر وثواب کا کام ہے۔

اجتماع کی اختتامی دعا میں لوگ دور دور سے اور بڑی عقیدت کے ساتھ پہنچتے ہیں، لیکن ایک بات کا احساس ہمیں اس وقت سے ہے جب ہم نے پہلی مرتبہ 2007 کے صوبائی اور تاریخی اجتماع میں شرکت کی تھی۔ یہ اجتماع تیسرے دن ظہر کے وقت ختم ہوا تھا۔ اس اجتماع میں اختتامی دعا ظہر سے کچھ پہلے شروع ہوئی تھی، اور دعا کے اختتام کے بعد ظہر کی نماز ہوئی جبکہ پچاس فیصد سے زائد مجمع گھروں کو روانہ ہوچکا تھا۔ اس کے بعد سے شہر میں متعدد ضلعی اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا، اور ہر ایک میں یہی بات دیکھنے کو ملی کہ رات میں نو بجے کے آس پاس اختتامی دعا ختم ہوتی ہے اور اس کے بعد عشاء کی اذان اور پھر جماعت ہوتی ہے جبکہ دعا ختم ہوتے ہی تقریباً ستر فیصد مجمع گھروں کو روانہ ہوجاتا ہے اور اجتماعی طور پر ترکِ جماعت بلکہ سرے سے نماز ہی چھوڑ دینے کے گناہ گار ہوتے ہیں، اور اس مجمع میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو نماز کے پابند ہوتے ہیں لیکن تاخیر ہوجانے کی وجہ سے وہ نماز پڑھے بغیر ہی نکل جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بہت بڑی نحوست اور بے برکتی کی بات ہے کہ ایک بہت بڑا مجمع اجتماعی طور پر جماعت یا نماز چھوڑے۔ اہل علم بخوبی اس کی قباحت کو سمجھ سکتے ہیں۔

لہٰذا اس سلسلے میں ہماری عاجزانہ، مؤدبانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ اگر آخری بیان کے فوراً بعد اذان دے کر جماعت کھڑی کردی جائے اور نماز کی دعا میں ہی آخری دعا رکھ دی جائے۔ جس کی وجہ سے تقریباً پورا مجمع باجماعت نماز بھی ادا کرلے گا اور اس دعا کی فضیلت بھی بڑھ جائے گی جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔

أيُّ الدُّعاءِ أَسْمَعُ ؟ قَالَ : جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَواتِ۔ (ترمذی)

یا پھر ایسا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ تقریباً تمام لوگ عشاء کی نماز باجماعت ادا کرکے ہی اجتماع گاہ سے تشریف لے جائیں۔ جیسا کہ دو سال پہلے اجتماع میں دعا سے پہلے مجمع کو نماز کی تاکید کی گئی اور دعا کے فوراً بعد اذان اور پھر جماعت کھڑی کردی گئی جس کی وجہ سے تقریباً 90 فیصد مجمع نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کرلی تھی جو اپنے آپ میں ایک تاریخی واقعہ  تھا۔

بعض لوگوں نے کہا کہ ٹریفک کا نظام درست کرنے کے لئے اس طرح کیا جاتا ہے تاکہ ٹریفک کا نظام خراب نہ ہو، ہم نے اس پر جواب دیا کہ نماز سے پہلے دعا کی صورت میں تقریباً 70 فیصد مجمع ایک ساتھ باہر نکل جاتا ہے، نماز پڑھ کر نکلیں گے تو اس میں بہت ہوا تو 25 فیصد کا مزید اضافہ ہوجائے گا، 05 فیصد تو بہرحال اجتماع گاہ میں ہی انتظامات اور جماعت میں نکلنے کے لیے ٹھہرا ہوتا ہے۔ اتنے میں کوئی نظام ان شاءاللہ درہم برہم نہیں ہوگا، بلکہ باجماعت نماز کی برکت سے ان شاء اللہ مزید آسانی ہوگی۔

ہم نے یہ بات کئی لوگوں سے کہی، لیکن اب سوشل میڈیا کے توسط سے مفصل اور مدلل انداز میں یہ بات کہہ رہے ہیں تاکہ مالیگاؤں سمیت جہاں کے بھی اجتماع میں اس طرح کا نظام بنا ہو وہاں اس پر غور کیا جائے۔

اسی طرح صرف اختتامی دعا کی عقیدت میں اجتماع میں شرکت کرنے اور عشاء کی نماز ترک کردینے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم صرف دعا میں شریک رہیں گے تو بہت بڑی خیر حاصل کرلیں گے اور ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا تو ایسے حضرات کو اچھی طرح یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ اپنی مسجد میں باجماعت نماز پڑھ کر اپنے طور سے جو بھی ٹوٹی پھوٹی ایک دو منٹ دعا کرلیں گے تو یہ دعا اس دعا سے کئی ہزار گنا بہتر ہوگی جو اجتماع میں جاکر نماز چھوڑ کر کی جاتی ہے۔ لہٰذا ایسے افراد سے بھی عاجزانہ درخواست ہے کہ اجتماع میں شرکت صرف دعا کے لیے نہ ہو بلکہ عشاء کی نماز باجماعت کا اہتمام بہرحال ہو، ورنہ سوائے محرومی کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آنے والا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں بہت سے لوگوں کے دل کی آواز بھی ہوگی۔ اور ہر ذی شعور اور دین کی معمولی سمجھ رکھنے والے نے اس کو محسوس بھی کیا ہوگا۔ لہٰذا ہماری تبلیغی جماعت کے اجتماع کے ذمہ داران سے مؤدبانہ، مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ اس معقول اور شرعاً درخواست پر ضرور غور فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین میں ترجیحات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

پیر، 6 جنوری، 2025

مزارات پر چادر چڑھانے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب ! مزاراتِ اولیاء پر چادر چڑھانا کیا بدعت نہیں ہے؟ اور کیا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت جعل فی قبر رسول اللہﷺ قطيفة حمراء سے مزار پر چادر چڑھانا ثابت ہوسکتا ہے؟ ایک صاحب کا کہنا ہے مزار پر چادر چڑھا سکتے میری پاس اس کی دلیل ہے میرے حساب سے دلیل وہی اوپر مذکور روایت ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہےکہ ولیوں کی قبروں کا امتیاز ہونا مقصود ہوتا ہے اس لیے چادر چڑھانے کی گنجائش ہے۔ کیا شریعت کی روشنی میں یہ خیال صحیح ہے؟
(المستفتی : مسیّب رشید خان، جنتور)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : قبروں پر چادر چڑھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، صحابہ کرام اور سلفِ صالحین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بدعت، مکروہِ تحریمی اور ناجائز عمل ہے۔

سوال نامہ میں جو روایت آپ نے لکھی ہے وہ مسلم شریف میں موجود ہے : 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی قبر میں ایک سرخ لوئی (چادر) ڈالی گئی تھی۔

اس حدیث شریف کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے ایک خادم تھے جن کا نام "شعران" تھا انہوں نے صحابہ کرام کی مرضی اور ان کی اجازت کے بغیر از خود اس چادر کو آنحضرت ﷺ کی قبر میں رکھ دیا تھا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ میں اسے قطعی ناپسند کرتا ہوں کہ جس چادر مبارک کو سرکار دو عالم ﷺ خود استعمال کر چکے ہوں اسے آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص استعمال کرے۔

بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قبر میں یہ چادر رکھنا آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے تھا (اب کسی دوسرے کے لئے اجازت نہیں کہ اس کی قبر میں چادر وغیرہ بچھائی جائے یا رکھی جائے) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قبر میں چادر رکھنے کے بارہ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت علی اور حضرت عباس کے بارہ میں منقول ہے کہ ان دونوں نے شعران سے اس بات پر سخت مؤاخذہ  کیا کہ انہوں نے وہ چادر قبر مبارک میں کیوں رکھی؟ نیز علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے تو " کتاب استیعاب" میں یہ لکھا ہے کہ " وہ لوئی (جو شعران نے آپ ﷺ کی قبر مبارک میں ڈالی تھی) مٹی ڈالنے سے پہلے قبر مبارک سے نکال لی گئی تھی۔ بہر حال علماء نے قبر میں مردہ کے نیچے کپڑا بچھانے کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ اس میں مال کا اسراف اور اس کا ضائع کرنا ہے۔

معلوم ہوا کہ اس حدیث شریف میں بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ چادر قبر کے اندر رکھی گئی تھی، قبر کے اوپر چڑھائی نہیں گئی تھی۔ لہٰذا اس روایت کو قبر پر چادر چڑھانے کی دلیل بنانا جہالت اور حماقت ہے۔

اسی طرح علماء کرام اور بزرگانِ دین کی قبروں کے امتیاز کے لیے بھی چادر چڑھانے کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے میت کی تعظیم اور قُرب جوئی مقصود ہوتی ہے، اور یہ دونوں باتیں شرک کا ذریعہ ہیں۔ جبکہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت میں قبروں پر چراغ جلانے والے پر لعنت کی گئی ہے، اور علماء نے لعنت اور ممانعت کی حکمت اور مصلحت یہ بیان فرمائی ہے کہ قبروں پر چراغ جلانے میں بہت بڑا خطرہ قبر پرستی کا تھا، اس لیے شرک کا دروازہ بند کرنے کے لیے اس سے ممانعت فرمائی گئی۔


عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : جُعِلَ فِي قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٩٦٧)

(وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : «جُعِلَ فِي قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ») فِي النِّهَايَةِ: الْقَطِيفَةُ هِيَ كِسَاءٌ لَهُ خَمْلٌ وَهُوَ الْمُهَدَّبُ، وَمِنْهُ الْحَدِيثُ: «تَعِسَ عَبْدُ الْقَطِيفَةِ»، أَيِ: الَّذِي يَعْمَلُ لَهَا، وَيَهْتَمُّ بِتَحْصِيلِهَا. قَالَ النَّوَوِيُّ: وَهَذِهِ الْقَطِيفَةُ أَلْقَاهَا شُقْرَانُ مَوْلًى مِنْ مَوَالِي رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ: كَرِهْتُ أَنْ يَلْبَسَهَا أَحَدٌ بَعْدَهُ ﷺ، وَقَدْ نَصَّ الشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُ مِنَ الْفُقَهَاءِ عَلَى كَرَاهَةِ وَضْعِ الْقَطِيفَةِ وَالْمِخَدَّةِ وَنَحْوِهِمَا تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ، وَقِيلَ: إِنَّ ذَلِكَ مِنْ خَوَاصِّهِ ﷺ فَلَا يَحْسُنُ فِي غَيْرِهِ اهـ. وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ نَقْلًا عَنْ وَكِيعٍ: إِنَّ ذَلِكَ مِنْ خَصَائِصِهِ ﷺ. قَالَ التُّورِبِشْتِيُّ: وَذَلِكَ أَنَّهُ ﷺ كَمَا فَارَقَ أَهْلَ الدُّنْيَا فِي بَعْضِ أَحْكَامِ حَيَاتِهِ فَارَقَهُمْ فِي بَعْضِ أَحْكَامِ مَمَاتِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ لُحُومَ الْأَنْبِيَاءِ، وَحَقَّ لِجَسَدٍ عَصَمَهُ اللَّهُ عَنِ الْبِلَى وَالِاسْتِحَالَةِ أَنْ يُفْرَشَ لَهُ فِي قَبْرِهِ ; لِأَنَّ الْمَعْنَى الَّذِي يُفْرَشُ لِلْحَيِّ لَهُ لَمْ يَزَلْ عَنْهُ ﷺ بِحُكْمِ الْمَوْتِ، وَلَيْسَ الْأَمْرُ فِي غَيْرِهِ عَلَى هَذَا النَّمَطِ اهـ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: تَنَازَعَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ فَقَصْدُ شُقْرَانَ بِوَضْعِهَا دَفَعَ ذَلِكَ. ذَكَرَهُ ابْنُ حَجَرٍ، وَهُوَ بَعِيدٌ جِدًّا، وَقَالَ الشَّيْخُ الْعِرَاقِيُّ فِي أَلْفِيَّتِهِ فِي السِّيرَةِ: وَفُرِشَتْ فِي قَبْرِهِ قَطِيفَةٌ وَقِيلَ أُخْرِجَتْ، وَهَذَا أَثْبَتُ، وَكَأَنَّهُ أَشَارَ إِلَى مَا قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي الِاسْتِيعَابِ: إِنَّهَا أُخْرِجَتْ قَبْلَ إِهَالَةِ التُّرَابِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ. (رَوَاهُ مُسْلِمٌ)۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٣/١٢١٥)

قَوْلُهُ (جُعِلَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ) هَذِهِ الْقَطِيفَةُ أَلْقَاهَا شُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ كَرِهْتُ أَنْ يَلْبَسَهَا أَحَدٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ نَصَّ الشَّافِعِيُّ وَجَمِيعُ أَصْحَابِنَا وَغَيْرُهُمْ مِنَ الْعُلَمَاءِ عَلَى كَرَاهَةِ وَضْعِ قَطِيفَةٍ أَوْ مِضْرَبَةٍ أَوْ مِخَدَّةٍ وَنَحْوِ ذَلِكَ تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ وَشَذَّ عَنْهُمُ الْبَغَوِيُّ مِنْ أَصْحَابِنَا فَقَالَ فِي كِتَابهِ التَّهْذِيبِ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ لِهَذَا الْحَدِيثِ وَالصَّوَابُ كَرَاهَتُهُ كَمَا قَالَهُ الْجُمْهُورُ وَأَجَابُوا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ بِأَنَّ شُقْرَانَ انْفَرَدَ بِفِعْلِ ذَلِكَ لَمْ يُوَافِقْهُ غَيْرُهُ مِنَ الصَّحَابَةِ وَلَا عَلِمُوا ذَلِكَ وَإِنَّمَا فَعَلَهُ شُقْرَانُ لِمَا ذَكَرْنَاهُ عَنْهُ مِنْ كَرَاهَتِهِ أَنْ يَلْبَسَهَا أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَلْبَسُهَا وَيَفْتَرِشُهَا فَلَمْ تَطِبْ نَفْسُ شُقْرَانَ أَنْ يَسْتَبْدِلَهَا أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَخَالَفَهُ غَيْرُهُ فروى البيهقي عن بن عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُجْعَلَ تَحْتَ الْمَيِّتِ ثَوْبٌ فِي قَبْرِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔ (شرح النووی : ٧/٣٤)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٣٢٣٦)

قَالَ فِي فَتَاوَى الْحُجَّةِ وَتُكْرَهُ السُّتُورُ عَلَى الْقُبُورِ۔ (شامی : ٦/٣٦٣)

اتفق الخطابي و الطرطوشي و القاضي عیاض علی المنع، وقولہم أولیٰ بالاتباع حیث أصبح مثل تلك المسامحات والتعللات مثاراً للبدع المنکرۃ و الفتن السائرۃ، فتری العامة یلقون الزهور علی القبور۔ (معارف السنن : ٢٦٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 رجب المرجب 1446

ہفتہ، 4 جنوری، 2025

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! گذشتہ دنوں دیانہ کے ایک نوجوان کی آڈیو کال ریکارڈ واٹس اپ کافی وائرل ہوئی تھی، جس میں اس نوجوان نے دین اور خدا سے متعلق کچھ ایسی باتیں کہی تھیں جس کی وجہ سے شہر میں بے چینی پائی جا رہی تھی، اس کلپ میں اس نوجوان سے سوال کیا گیا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ تو اس نے کہا تھا کہ میرا مذہب "ہکوکا مٹاٹا" ہے۔

چنانچہ اس معاملے کو لے کر چند فکرمند نوجوان مثلاً مولانا سلمان، لئیق رحمانی اور حافظ سالک وغیرہ اس نوجوان سے ملے اور اسے دارالقضاء معہد ملت، مالیگاؤں لے کر پہنچے جہاں قاضی شریعت حضرت مولانا مفتی حسنین محفوظ صاحب نعمانی نے اس سے کئی اہم سوالات کئے اور مطمئن ہونے کے بعد اسے توبہ و استغفار کرایا، یہ نوجوان بھی الحمدللہ اسلام پر مطمئن ہے۔ اور اس نے پختہ عزم کیا ہے کہ آئندہ ان معاملات سے مکمل طور پر دور رہے گا اور اسلام پر قائم رہے گا۔ اللہ تعالٰی اسے استقامت عطا فرمائے اور ساری زندگی اسے اسلام پر قائم فرما کر ایمان پر خاتمہ فرمائے۔آمین 

اس نوجوان سے دارالقضاء معہد ملت میں پوچھا گیا تھا کہ یہ ہکوکا مٹاٹا کہاں سے آیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں نے ایک مرتبہ یوٹیوب پر ایک ایکس مسلم (مرتد) کی کسی عام مسلمان سے بحث سنی تھی، جس میں مسلمان نے اُس مرتد سے پوچھا تھا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہکوکا مٹاٹا کہ کارٹون، میرا مذہب بھی ہکوکا مٹاٹا ہے۔ تو اس وقت میرے ذہن میں یہی الفاظ آئے تو میں نے بھی ایسے ہی اپنے مذہب کا نام یہی بتا دیا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ الفاظ بھی اصل میں "ہکونا مٹاٹا" ہے۔ جو کسی دوسری زبان جملہ ہے جس کے معنی "کوئی مسئلہ نہیں" ہوتا ہے۔

درج بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ اصل فتنہ ارتداد اور انڈین ایکس مسلمس (Indian ex muslims) کا ہے۔ جو یوٹیوب کے ذریعے عام مسلمانوں کو لائیو بلاکر ان سے ایسے سوالات (مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمری میں نکاح، غزوہ بدر میں فرشتوں کا مدد کے لیے اترنا اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے نا اترنا۔ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے وغیرہ) کرتے ہیں جن کے جوابات عموماً ان کے علم میں نہیں ہوتے جس کی وجہ سے عام مسلمانوں کے بہکنے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ ہکوکا مٹاٹا نامی کوئی چیز نہیں ہے۔اس لیے اب اس بے معنی، من گھڑت اور بے وقوفی پر مبنی الفاظ کو بالکل استعمال نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس نام کا کوئی فتنہ نہ کبھی رہا ہے اور نہ ہی فی الحال ایسا کوئی فتنہ ہے۔ اور یہ بات بھی الحمدللہ اطمینان کی ہے کہ اس نوجوان کے ذریعے اور کوئی فتنہ ارتداد کا شکار نہیں ہوا ہے اور نہ ہی یہ نوجوان کسی کے ذریعے گمراہ ہوا تھا، بلکہ یہ خود اپنے طور پر یوٹیوب گردی کے دوران ایکس مسلم ساحل کے چینل سے متاثر ہوا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس پر کام کرنا ہے اور ایسے یوٹیوب چینلس کو بین کروانے کی کوشش کرنا ہے، مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب اور ان کی ٹیم اور ان جیسے دیگر علماء جو ان مرتد لوگوں کے خلاف کام کررہے ہیں، ان کی آڈیو، ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کرنا اور ان کے چینلس کی تشہیر کرنا ہے اور بالخصوص اپنے نوجوان بچوں پر نظر رکھنا ہے کہ وہ یوٹیوب پر کیا دیکھ رہے ہیں؟ کہیں کوئی بات کھٹکے تو فوراً علماء کرام سے رابطہ کریں تاکہ فتنہ کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی ان سنگین فتنوں سے حفاظت فرمائے اور ہمیں بقدر استطاعت اس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


*What is the truth about Hakuka Matata?*

Dear readers! Recently, an audio call recorded on WhatsApp of a young man from Dayana, Malegaon went viral, in which the young man had said some things related to religion and God, due to which there was unrest in the city. In this clip, the young man was asked what is your religion? So he said that my religion is "Hakuka Matata".
Therefore, regarding this matter, some concerned youths like Maulana Salman, Laeeque Rahmani and Hafız Salik etc. met this young man and took him to Darul Qaza, Ma'had e Millat, Malegaon where Qazi e Shari'at Hazrat Maulana Mufti Hasnain Mahfooz Sahab No'mani asked him several important questions and after being satisfied, made him repent and seek forgiveness to ALLAH s.w.t. Alhamdulillah, this young man is satisfied with Islam. And he has firmly resolved that in future he will stay away from these matters completely and will remain steadfast in Islam. May ALLAH Almighty grant him steadfastness and make him remain steadfast in Islam for the rest of his life and end it with faith, Ameen.
This young man was asked in the Darul Qaza Ma'had-e-Millat that where did this word "Hakuka Matata" come from? So he said that I once heard a discussion on YouTube between an ex-Muslim (apostate) and an ordinary Muslim, in which the Muslim asked the apostate what is your religion? So he said that "Hakuka Matata" a cartoon, my religion is also "Hakuka Matata". So at that time these words came to my mind, so I also told the name of my religion in the same way. It should be known that these words are originally "Hakuna Matata". Which is a phrase in another language which means "no problem".

From the above details, it is clear that the real temptation is of apostasy and ex-Muslims. Who live-broadcast regular Muslims through YouTube and ask them such questions (for example, Hazrat Aaisha (RA) married at a young age, angels descending to help in the Battle of Badr and not descending to help the Palestinians, Islam spread by the power of the sword, etc.) the answers to which are usually unknown to them, due to which the fear of misleading regular Muslims increases. There is no such thing as Hakuka Matata. Therefore, don't use these meaningless, fabricated and foolish words, because there has never been any temptation of this name and there is no such temptation at present Alhamdulillah. So we have to work on this and try to ban such YouTube channels, share as much audio and video of Mufti Yasir Nadeem Al-Wajdi Sahib and his team and other scholars like him who are working against these apostates and promote their channels and especially keep an eye on our young children to see what they are watching on YouTube. If something goes wrong, contact the scholars immediately so that the fitna is ended at the very first stage.

May ALLAH Almighty protect us all from these serious temptations and grant us the ability to completely eliminate them to the best of our ability. Ameen.

✍️ Mufti Muhammad Aamir Usmani sahab
(Imam and preacher of Koh-e-Noor Masjid, Malegaon)

جمعرات، 2 جنوری، 2025

مسجد میں جمعہ کا چندہ اور ہمارے نوجوان

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
                    (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! برِصغیر ہندوپاک وغیرہ میں مساجد کی تعمیر اور ان کے اخراجات کی تکمیل مسلمانوں کی حلال کمائی سے ہوتی ہے۔ اور مسلمان اسے بحسن وخوبی ادا کررہے ہیں اور اسے اپنے لیے دارین کی سعادت سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ ایسا ہی ہے کہ قرآن وحدیث میں مسجد کی تعمیر اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِی سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَاءُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ۲۶۱)

ترجمہ : جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بڑھاکر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔

دوسری جگہ ہے :
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ اَصَابَھَا وَابِلٌ فَآتَتْ اُکُلَھَا ضِعْفَیْنِ فَاِنْ لَمْ یُصِبْھَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ۲۶۵)

ترجمہ : ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک روپیہ بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔ 

مسجد کی تعمیر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مسجد بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ : جس شخص نے پرندے کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد اللہ کے لیے بنوائی، تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)

مذکورہ بالا فضائل کو بار بار سننے اور پڑھنے کے باوجود فی الحال نوجوان نسل اس سلسلے میں بڑی غیرذمہ داری اور کوتاہی کا ثبوت دیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ان نوجوانوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنے روزمرہ کے شوق گٹکا، تمباکو، بیڑی، سگریٹ، پان اور چائے وغیرہ میں ایک دن کے حساب سے سو روپے تک خرچ کررہے ہیں، اور یہ رقم ہفتہ واری پانچ سے سات سو تک تجاوز کررہی ہے۔ لیکن یہی نوجوان اپنے محلہ کی مسجد اور جہاں یہ لوگ نماز جمعہ ادا کرتے وہاں انہیں معمولی سی رقم بیس روپے تک دینا گوارا نہیں ہورہا ہے۔ حالات کا جائزہ لینے والے فکرمند افراد بتاتے ہیں کہ صف کی صف نکل جاتی ہے اور کوئی چندہ دینے والا نہیں ہوتا۔ ایک بڑی تعداد تو سلام پھیرتے ہی سیدھے دروازے کی طرف لپکتی ہے کہ ان کو دعا اور فرض کے بعد کی تاکیدی سنت اور مسجد کے تعاون سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، اور جو دعا کے لیے رُکتے بھی ہیں تو ان میں سے بہت سے لوگ اپنا ہاتھ تعاون کے لیے روکے رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت ساری مساجد میں اخراجات کی تکمیل یعنی بجلی، پانی، صاف صفائی اور امام ومؤذن حضرات کی تنخواہ کے لیے قرض لینے کی نوبت آجاتی ہے جو بڑی تشویش کی بات ہے۔

لہٰذا ایسے حالات میں ہر شخص کو بطور خاص جمعہ کی نماز میں مسجد کے تعاون کے لئے بالکل آخری درجہ میں بیس روپے تو لے جانا ہی چاہیے، اور پھر اس سے زیادہ جس کی استطاعت ہو وہ ضرور مسجد کا تعاون کرے، یہ عمل آپ کی آخرت کو سنوارنے کے ساتھ آپ کی روزی میں برکت، بیماریوں، بلاؤں اور مصیبتوں کو ٹالنے کا سبب ہوگا۔ ان شاء اللہ

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مساجد کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین 

منگل، 31 دسمبر، 2024

حفاظ کرام کی دعوتیں اور تحائف

                                                       چند ہدایات اور گزارشات

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
        (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! جیسا کہ ہم سب کو بخوبی اس بات کا علم ہے کہ شہر عزیز مالیگاؤں میں مکاتب کا جال بچھا ہوا ہے۔ تقریباً ہر محلے میں ایک منظم مکتب موجود ہے، جہاں قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم سے قرآن مجید کے حفظ تک کا معقول نظم موجود ہے۔ اور یہاں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں بچے اور بچیاں حفظ قرآن کی دولت بے بہا سے مالا مال ہوکر نکل رہے ہیں۔

حافظ ہونے والے طلباء وطالبات کے والدین اس خوشی میں دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض والدین بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض چھوٹی اور اور بعض بالکل نہیں کرتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، استطاعت نہیں ہے تو اس کے لیے قرض لینے یا بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ کوئی فرض یا واجب عمل نہیں ہے۔ لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ مشاہدہ ہورہا ہے کہ ان معاملات میں بعض قباحتیں در آرہی ہیں جن کے سدباب کے لیے یہ مضمون لکھا جارہا ہے۔

معاملات اس طرح ہیں کہ حفظ کی تکمیل کرنے والے طلباء وطالبات پہلے اپنے حفظ کے استاذ کے ساتھ پوری کلاس اور پورے اسٹاف کے لیے مٹھائی کا نظم کرتے ہیں، بلاشبہ یہ چیز مزدور طبقہ کے لیے مشکل بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی مشکل ہوتی ہے۔

اس کو آسان اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ صرف حفظ کے استاذ یا جن اساتذہ کے پاس اس طالب علم نے قاعدہ اور قرآن مجید پڑھا ہے صرف انہیں اساتذہ کو مٹھائی دی جائے۔ دس سے لے کر بیس، تیس اساتذہ کے اسٹاف کو دیڑھ دو سو والا مٹھائی کا ڈبہ دینا ضروری نہیں ہے۔ 

بعض مکاتب سے اس طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ وہاں حفاظ یا حافظات مل کر پہلے پورے اسٹاف کو دعوت دیتے ہیں جن کی تعداد پندرہ، بیس سے زائد ہوسکتی ہیں، پھر سب اکیلے اکیلے پورے اسٹاف کی دعوت کرتے ہیں، اس طرح اگر تیس حافظ یا حافظات ہیں تو پورے مہینے دعوت چلے گی۔ پھر حفاظ یا حافظات پر یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ وہ تمام حفاظ یا حافظات کے لیے تحفے کا نظم کریں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان سارے انتظامات میں ایک بہت بڑی رقم خرچ ہوگی جو مزدور طبقہ کی کمر توڑ دینے والی ہے اور عموماً ایسے ہی گھرانے کے بچے بچیاں حفظ کرتے ہیں۔

دعوتوں اور تحائف کے اہتمام میں بھی اس کا خیال رکھا جائے کہ صرف حفظ کے استاذ کو تحفہ دیا جائے، اگر استطاعت ہوتو دعوت میں حافظ/حافظہ کے حفظ کے استاذ کے ساتھ قاعدہ اور قرآن مجید کے استاذ کو بھی مدعو کرلیا جائے، اور اگر مزید استطاعت ہے اور بڑا انتظام کیا جارہا ہے تو پھر اسٹاف کو مدعو کیا جائے۔

دوسری طرف بعض والدین بڑے بڑے ہال بُک کروا کر بڑی بڑی دعوتیں کرتے ہیں جس میں پچاس ہزار سے دیڑھ دو لاکھ تک خرچ کردیتے ہیں، لیکن اس بچے پر چار، پانچ یا پھر چھ سال تک سخت محنت کرنے والے استاذ کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں، جب کہ وہ اکرام اور حوصلہ افزائی کا زیادہ حق دار ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دعوت میں ہزاروں، لاکھوں روپے خرچ کردینے سے آپ کو وہ ثواب نہیں ملے گا جو حافظ کے استاذ کی مالی خدمت کرنے پر ملے گا۔ اور اگر یہ دعوتیں ریاکاری اور نام ونمود کے لیے ہورہی ہیں تو یہ آپ کے لیے بروزِ حشر وبال بن جائیں گی۔

امید ہے کہ مکاتب اور مدارس کے اساتذہ، ذمہ داران اور سرپرست حضرات ان باتوں پر توجہ فرماکر عمل فرمائیں گے اور اپنے آپ کو بے جا مشکلات میں ڈالنے سے پرہیز فرمائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ترجیحات سمجھنے اور اصل کرنے کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

پیر، 30 دسمبر، 2024

حدیث "وقفہ وقفہ سے ملاقات کرنا محبت کو بڑھاتا ہے" کی تحقیق


سوال :

مفتی صاحب ! وقفہ وقفہ سے ملاقات کرنا محبت کو بڑھاتا ہے۔ یہ حدیث ہے یا نہیں؟ تحقیق ارسال فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ ارسال کردہ روایت کا عربی متن زُرْ غِبًّا تزْدَدْ حُبًّا ہے۔ یہ حدیث ہے، اور حدیث کی متعدد کتابوں میں مذکور ہے جسے ماہرِ فن علماء مثلاً علامہ ہیثمی، علامہ سفارینی، علامہ جلال الدین سیوطی رحمھم اللہ وغیرہ نے حسن قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت معتبر ہے اور اس کا بیان کرنا درست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں سے ملاقات میں کسی قدر وقفہ رکھنا چاہئے کہ یہ وقفہ شوقِ ملاقات، آپسی محبت اور اہمیت کو بڑھاتا ہے۔


زُرْ غِبًّا تزْدَدْ حُبًّا
الراوي: - • محمد جار الله الصعدي، النوافح العطرة (١٥٨) • حسن لغيره

زُرْ غِبًّا تزدَدْ حبًّا
الراوي: [أبو هريرة] • الزرقاني، مختصر المقاصد (٥٠٨) • حسن لغيره • أخرجه الطيالسي (٢٦٥٨)، والبزار (٩٣١٥)، والعقيلي في ((الضعفاء الكبير)) (٢/١٣٨)

زُرْ غِبًّا تزدَدْ حُبًّا
الراوي: - • السفاريني الحنبلي، شرح ثلاثيات المسند (١/٢١٤) • كثرة طرقه تكسبه قوة يبلغ بها درجة الحسن۔فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
27 جمادی الآخر 1446 

اتوار، 29 دسمبر، 2024

شادی کارڈ پر "تحفہ صرف دعاؤں کا" لکھنا اور تحفہ قبول کرنا


سوال :

محترم مفتی صاحب! اکثر شادیوں کے دعوت نامے پر لکھا ہوتا ہے، تحفہ صرف دعاؤں کا، جسے دیکھ کر مرد حضرات تو مطمئن ہو جاتے ہیں کہ چلو، کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ مگر جب عورتوں میں بات چلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے شامیانے میں باقاعدہ کرسی ٹیبل لگا کر وصولی جاری تھی، کوئی منہ دکھائی کے نام پر زیور دے رہا ہے تو کوئی ایک جوڑا کپڑا دے رہا ہے۔ کیا یہ بات مناسب ہے کہ آپ نے دعوت نامے پر دعاؤں کی درخواست کی اور منہ دکھائی کے نام سے تحائف بھی لے رہے ہیں، کپڑے بھی لے رہے ہیں (جہیز کے علاوہ)۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شادی کارڈ پر "تحفہ صرف دعاؤں کا" کا لکھنا شرعاً جائز اور درست ہے۔ ہمارے یہاں اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ دعوت دینے والا تحفہ کے نام پر کوئی بھی چیز قبول نہیں کرے گا، اس لیے کہ تحفہ کے نام پر اب یہ ایک تکلیف دہ رسم بن چکی ہے، اور بہت سے لوگ خوش دلی کے بجائے مجبوراً اور شرما حضوری میں تحائف لے کر آتے ہیں۔ اور بہت سی جگہوں پر ماشاءاللہ اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے کہ کسی سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن بعض شادیوں میں خواتین کی طرف باقاعدہ تحفہ وصول کرنے کا انتظام ہوتا ہے۔ یہ عمل شرعاً اور اخلاقاً غیرت کے خلاف ہے۔ لہٰذا ایسے ہلکے پن سے بچنا چاہیے۔ نیز مدعو حضرات کو بھی چاہیے کہ جس جگہ کے شادی کارڈ پر "تحفہ صرف دعاؤں کا" کا لکھا ہوتا ہے وہاں تحائف لے جانے کی زحمت نہ کیا کریں۔


عن عائشۃ ؓ قالت : قال رسول اللہ ﷺ : تہادوا تحابوا۔ (المعجم الأوسط للطبرانی، رقم : ۷۲۴۰)

و ھي التبرع بتملیک مال في حیاتہ، و ھي مستحبۃ ۔ ( الکافي : ۳/۵۹۳ ، باب الھبۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی 
26 جمادی الآخر 1446