منگل، 10 ستمبر، 2024

حکومتی امداد سے مساجد ومدارس میں سولار لگانا


سوال :

مفتی صاحب ! آج کل مساجد و مدارس میں ایک مسلم سیاسی لیڈر موجودہ حکومت کی جانب سے سولار سسٹم لگوا رہے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ذاکر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کی ذمہ داریوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی عبادت گاہوں کو تحفظ اور سہولیات فراہم کریں، لہٰذا اگر حکومت کی کسی اسکیم کے تحت مساجد ومدارس میں سولار سسٹم لگائے جارہے ہیں تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، اور اس سلسلے میں کوشش کرنے والے مسلم لیڈر کو ان شاءاللہ اجر وثواب بھی ملے گا، کتبِ فقہ وفتاوی میں اس سلسلے میں رہنمائی موجود ہے۔


وَأَمَّا الْإِسْلَامُ فَلَيْسَ مِنْ شَرْطِهِ فَصَحَّ وَقْفِ الذِّمِّيِّ بِشَرْطِ كَوْنِهِ قُرْبَةً عِنْدَنَا وَعِنْدَهُمْ۔ (البحر الرائق : ٥/٢٠٤)

أَنَّ شَرْطَ وَقْفِ الذِّمِّيِّ أَنْ يَكُونَ قُرْبَةً عِنْدَنَا وَعِنْدَهُمْ كَالْوَقْفِ عَلَى الْفُقَرَاءِ أَوْ عَلَى مَسْجِدِ الْقُدْسِ۔ (شامی : ٨/٣٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ربیع الاول 1446

ہفتہ، 7 ستمبر، 2024

پولیو ڈوز کا شرعی حکم

سوال :

بچوں کو حکومت کی جانب سے جو پولیو ڈوز پلایا جاتاہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ پلا سکتے ہیں یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اسعد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ کا واضح اور مسلّم اصول ہے کہ جب تک کسی دوا یا کھانے، پینے وغیرہ کی اشیاء میں کسی ناپاک یا حرام شئے کے ملے ہونے کا یقینی علم نہ ہو تب تک اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ پولیو ڈوز کا بھی حکم یہی ہے کہ اس میں کسی ناپاک شئے کی آمیزش کا یقینی علم نہیں ہے۔ لہٰذا اس کا استعمال اصلاً جائز ہے۔ ذیل میں ہم عالم اسلام متعدد مؤقر اور معتبر اداروں کے فتاوی نقل کررہے ہیں تاکہ اس سلسلے میں مزید تشفی ہوجائے۔

دارالعلوم (وقف) دیوبند کا فتوی ہے :
 پولیو کی دوا میں جب تک تحقیق سے کسی غلط چیز کی ملاوٹ کا ثبوت نہ ہوجائے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ حکومت کا یہ اقدام ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس لئے بلاوجہ اس میں شبہ کرنا مناسب نہیں۔ (رقم الفتوی : 1503)

دارالعلوم کراچی کا فتوی ہے :
پولیو کے قطروں کے متعلق مسلمان اطباء حضرات یہی کہتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پولیو سے بچاؤ کے لئے پلائے جاتے ہیں اور شرعی نقطہ نگاہ سے کسی بھی حلال دوا یا غذا کے ذریعہ بیماری سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شرعاً فی نفسہ جائز ہے، لہٰذا پولیو کے قطرے میں جب تک کسی مستند ذریعہ سے کسی ناجائز بات یا ناپاک چیز کی آمیزش کا علم یا ظن غالب نہ ہو اس وقت تک اسکو پلانے کا اصولی حکم یہی ہے کہ شرعاً فی نفسہ جائز ہے۔ نیز چونکہ پولیو کے قطرے پلانا شرعاً فرض یا واجب یا قانوناً لازم نہیں اس لئے کوئی احتیاط پر عمل کرتے ہوئے نہ پلائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 86/1938)

جامعۃ الرشید، کراچی کا فتوی ہے :
پولیو کے قطرے عرصہ دراز سے پلائے جا رہے ہیں، لیکن تا حال اس کے کوئی مضر اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ نیز اس وقت عالم ِ اسلام کے ممتاز علماءکرام اور مستند طبی ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ پولیو کے قطروں میں کوئی مضرِصحت یا خلافِ شریعت چیز نہیں پائی جاتی، اس لئے یہ قطرے پلانا جائز ہے۔ (رقم الفتوی : 62585/57)


(لِانْقِلَابِ الْعَيْنِ) فَإِذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُكْمُ الْمِلْحِ. وَنَظِيرُهُ فِي الشَّرْعِ النُّطْفَةُ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ عَلَقَةً وَهِيَ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ مُضْغَةً فَتَطْهُرُ، وَالْعَصِيرُ طَاهِرٌ فَيَصِيرُ خَمْرًا فَيَنْجُسُ وَيَصِيرُ خَلًّا فَيَطْهُرُ، فَعَرَفْنَا أَنَّ اسْتِحَالَةَ الْعَيْنِ تَسْتَتْبِعُ زَوَالَ الْوَصْفِ الْمُرَتَّبِ عَلَيْهَا۔ (شامی : ١/٣٢٧)

الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)

مَعْنَى هَذِهِ الْقَاعِدَةِ أَنَّ مَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ بِالشَّكِّ، وَمَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ إِلاَّ بِيَقِينٍ، وَدَلِيلُهَا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَل عَلَيْهِ، أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لاَ؟ فَلاَ يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: قَال رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى أَثَلاَثًا أَمْ أَرْبَعًا؟ فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ، وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤٥/٥٧٩)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ربیع الاول 1446

منگل، 3 ستمبر، 2024

یوم اساتذہ منائیں مگر .........


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی 
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ہمارے ملک ہندوستان میں ہر سال پانچ ستمبر کو یومِ اساتذہ (Teacher's Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن پورے ملک میں اساتذہ سے متعلق مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے عمدہ خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو انعام سے نوازا جاتا ہے، اور طلباء اپنے اساتذہ کو پھول اور تحائف پیش کرتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح یوم آزادی اور یوم جمہوریہ قومی تہوار ہیں، اسی طرح یومِ اساتذہ بھی ایک قومی تہوار ہے، لہٰذا شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، بشرطیکہ اس کے منانے میں کوئی مُنکَر اور برائی نہ پائی جاتی ہو، مثلاً بے پردگی، ناچ گانے اور موسیقی وغیرہ کا انتظام نہ ہو۔

معزز قارئین ! ہمارے شہر کی اسکولوں میں یوم اساتذہ اس طرح منایا جاتا ہے کہ اس دن بعض طلباء خود استاذ بن کر پڑھاتے ہیں یا پھر اساتذہ کی اہمیت اور ان کے مقام ومرتبہ پر تقاریر ہوتی ہیں، بعض اسکولوں میں طلباء اپنے اساتذہ کو تحائف بھی پیش کرتے ہیں۔ اب اگر ان تحائف کا لین دین اپنی مرضی اور خوشی سے ہو اور اس کی وجہ سے دیگر غریب طلباء کی دل آزاری نہ ہوتی ہوتو اس میں حرج نہیں۔ لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ بعض اسکولوں میں باقاعدہ طلباء کو کہا گیا ہے کہ ٹیچرس ڈے کو گفٹ لے کر آنا ہے۔ یا پھر ان تحائف کا لین دین اس طرح ہوتا ہے کہ غریب طلباء بھی اپنے والدین سے مہنگے مہنگے گفٹ کے لیے ضد کرتے ہیں۔ ویسے ہمارے شہر میں الحمدللہ ایسے دیندار اور محتاط اساتذہ بھی ہیں جو یہ مسئلہ بھی پوچھتے ہیں کہ بغیر کچھ کہے بچوں سے ملنے والے تحائف ہم قبول کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یعنی اکثریت سمجھدار لوگوں کی ہے۔ لیکن جہاں بھی اوپر بتائے گئے غلط طریقے کے مطابق تحائف کا لین دین ہوتا ہے تو انہیں اس پر توجہ دینے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس سلسلے میں زیادہ کچھ لکھنا نہیں چاہتے بلکہ اسکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ سے صرف اتنی سی عاجزانہ اور مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ یوم اساتذہ منائیں لیکن اس میں کوئی ایسا عمل نہ ہو جس میں کسی کی دل آزاری اور شرعاً کوئی ناجائز عمل پایا جائے۔

محترم قارئین ! بلاشبہ علمِ نافع، اخلاق اور تہذیب سکھانے والے اساتذہ کی دین ودنیا دونوں طرح سے بڑی اہمیت اور ان کا بڑا مقام ومرتبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ماں باپ کے بعد کسی بھی انسان کے سب سے بڑے محسن اس کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ لیکن سال میں ایک مرتبہ وہ بھی رسمی طور پر ان کی مدح سرائی کردینا یا کوئی تحفہ دے دینا اور پھر انہیں اور ان کی خدمات کو فراموش کردینا نہ تو شرعاً درست ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر کوئی اچھا عمل ہے۔ لہٰذا طلباء کے لیے اپنے اساتذہ کا پوری زندگی اکرام کرنا اور ہمیشہ ان کے لیے دعائے خیر کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ طلباء کے ساتھ محبت، شفقت اور خیرخواہی کا معاملہ کریں اور اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کریں تب ہی ایک تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر معاملے میں شریعت کو مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں اپنے اساتذہ کی کماحقہ قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

ہفتہ، 31 اگست، 2024

روایت "میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے ابنیاء کی طرح ہیں" کی تحقیق

سوال :

محترم مفتی صاحب ! یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔ کیا یہ حدیث ہے؟ براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت اگرچہ ذخیرہ احادیث میں ملتی ہے، لیکن ماہر فن علماء مثلاً سیوطی، ابن حجر، ملا علی قاری اور زرکشی وغیرہ رحمھم اللہ نے اس روایت کو بے اصل اور من گھڑت قرار دیا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
یہ روایت بے اصل ہے، کسی معتبر کتاب میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔ ”علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل“ ”قال السیوطی فی الدرر: لا أصل لہ، وقال فی المقاصد: قال شیخنا یعنی ابن حجر: لا أصل لہ، وقبلہ الدمیری والزرکشی، وزاد بعضہم : ولا یعرف فی کتاب معتبر الخ (کشف الخفاء ومزیل الإ لباس: ۲/۷۴، رقم: ۱۷۴۴)۔ (رقم الفتوی : 164652)

لہٰذا اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، یہ روایت متعدد کتابوں میں مذکور ہے، جو معتبر بھی ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔


علماءُ أُمَّتي كأنبياءِ بَني إسرائيلَ
الراوي: - • ملا علي قاري، الأسرار المرفوعة (٢٤٧) • قيل لا أصل له أو بأصله موضوع

عُلَماءُ أُمَّتي كأنبياءِ بني إسرائيلَ.
الراوي: - • الزرقاني، مختصر المقاصد (٦٥٢) • لا أصل له

علماءُ أمتي كأنبياءِ بني إسرائيلَ
الراوي: - • الزركشي (البدر)، اللآلئ المنثورة (١٦٧) • لا يعرف له أصل۔

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه والدارمى)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
25 صفر المظفر 1446

پیر، 19 اگست، 2024

عورتوں کا بغیر سینہ بند (بَرا) کے نماز پڑھنا


سوال :

مفتی صاحب اسی طرح کا ایک مسئلہ کسی عالمہ نے بیان کیا کہ چھاتی کا زائد کپڑا (بَرا) کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس تعلق سے بھی رہنمائی کردیجئے، مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : عمر فاروق، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز میں عورت کا ستر چھپا ہو یعنی چہرہ، ہتھیلیاں اور دونوں قدم کے علاوہ بقیہ پورا جسم کپڑے سے ڈھکا ہوا ہو تو اس کی نماز ہوجائے گی، کپڑے کے اندر سینہ بند (بَرا) کا پہننا ضروری نہیں۔ بغیر سینہ بند کے بھی نماز بلاکراہت ادا ہوتی ہے۔

ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مذکورہ بات بے اصل ہے، عورت کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے ایسی کوئی شرط ثابت نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 152370)

لہٰذا سوال نامہ میں مذکور عالمہ صاحبہ کی بات بالکل غلط اور من گھڑت ہے، انہیں اپنی اصلاح کرنا چاہیے اور آئندہ بغیر دلیل کے ایسی بات نہیں کرنا چاہیے۔


سَتْرُ الْعَوْرَةِ شَرْطٌ لِصِحَّةِ الصَّلَاةِ إذَا قُدِرَ عَلَيْهِ. كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ... الْعَوْرَةُ لِلرَّجُلِ مِنْ تَحْتِ السُّرَّةِ حَتَّى تُجَاوِزَ رُكْبَتَيْهِ فَسُرَّتُهُ لَيْسَتْ بِعَوْرَةٍ عِنْدَ عُلَمَائِنَا الثَّلَاثَةِ وَرُكْبَتُهُ عَوْرَةٌ عِنْدَ عُلَمَائِنَا جَمِيعًا هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ. بَدَنُ الْحُرَّةِ عَوْرَةٌ إلَّا وَجْهَهَا وَكَفَّيْهَا وَقَدَمَيْهَا. كَذَا فِي الْمُتُونِ وَشَعْرُ الْمَرْأَةِ مَا عَلَى رَأْسِهَا عَوْرَةٌ وَأَمَّا الْمُسْتَرْسِلُ فَفِيهِ رِوَايَتَانِ الْأَصَحُّ أَنَّهُ عَوْرَةٌ. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ وَهُوَ الصَّحِيحُ وَبِهِ أَخَذَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى... قَلِيلِ الِانْكِشَافِ عَفْوٌ؛ لِأَنَّ فِيهِ بَلْوَى وَلَا بَلْوَى فِي الْكَبِيرِ فَلَا يُجْعَلُ عَفْوًا الرُّبْعُ وَمَا فَوْقَهُ كَثِيرٌ وَمَا دُونَ الرُّبْعِ قَلِيلٌ وَهُوَ الصَّحِيحُ. هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 صفر المظفر 1446

ہفتہ، 17 اگست، 2024

کیا عورتوں کے لیے نیکر(چڈی) پہننا ضروری ہے؟


سوال :

مفتی صاحب ! ایک عالمہ صاحبہ کہتی ہیں کہ عورتوں کو مخصوص ایام کے علاوہ بھی چڈی (نیکر) کا استعمال کرنا چاہیے  اگر نہیں کریں گی تو گناہ گار ہوں گی۔ شریعت کی روشنی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : زبیر احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شلوار اور پاجامہ کے اندر انڈر وئیر یعنی چڈی کا استعمال خواہ مرد ہو یا عورت سب کے لیے صرف جائز ہے، کوئی فرض یا واجب عمل نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
جیسے مرد حضرات لنگی پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں اگرچہ اندر انڈر ویئر وغیرہ نہ ہو، اسی طرح عورتیں بھی سوال میں مذکور لباس میں نماز پڑھ سکتی ہیں بشرطیکہ تمام ضروری ستر چھپ جائے، پیٹ، پیٹھ وغیرہ کھلی ہوئی نہ ہو۔ (رقم الفتوی : 62443)

لہٰذا جب شلوار اور پاجامہ سے ستر چھپ جاتا ہے تو اس کے اندر نیکر اور چڈی پہننے کو ضروری سمجھنا اور نہ پہننے کو ناجائز اور گناہ قرار دینا سخت غلطی ہے، عالمہ صاحبہ کو اپنی اس بے بنیاد بات سے توبہ و استغفار کرکے فوراً رجوع کرنا چاہیے۔


عَنْ دِحْيَةَ بْنِ خَلِيفَةَ الْکَلْبِيِّ أَنَّهُ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبَاطِيَّ فَأَعْطَانِي مِنْهَا قُبْطِيَّةً فَقَالَ اصْدَعْهَا صَدْعَيْنِ فَاقْطَعْ أَحَدَهُمَا قَمِيصًا وَأَعْطِ الْآخَرَ امْرَأَتَکَ تَخْتَمِرُ بِهِ فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ وَأْمُرْ امْرَأَتَکَ أَنْ تَجْعَلَ تَحْتَهُ ثَوْبًا لَا يَصِفُهَا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : 

(قَالَ): أَيِ النَّبِيُّ لَهُ (وَأْمُرْ): أَمَرَ مِنَ الْأَمْرِ (امْرَأَتَكَ أَنْ تَجْعَلَ تَحْتَهُ ثَوْبًا لَا يَصِفُهَا): بِالرَّفْعِ عَلَى أَنَّهُ اسْتِئْنَافُ بَيَانٍ لِلْمُوجِبِ، وَقِيلَ بِالْجَزْمِ عَلَى جَوَابِ الْأَمْرِ، أَيْ لَا يَنْعَتُهَا وَلَا يُبَيِّنُ لَوْنَ بَشْرَتِهَا لِكَوْنِ ذَلِكَ الْقُبْطِيِّ رَقِيقًا، وَلَعَلَّ وَجْهَ تَخْصِيصِهَا بِهَذَا اهْتِمَامٌ بِحَالِهَا، وَلِأَنَّهَا قَدْ تُسَامَحَ فِي لُبْسِهَا بِخِلَافِ الرَّجُلِ، وَفِإِنَّهُ غَالِبًا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ فَوْقَ السَّرَاوِيلِ وَالْإِزَارِ۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٧/٢٧٩٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 صفر المظفر 1446

جمعہ، 16 اگست، 2024

لاڈلی بہن اسکیم میں ملنے والی رقم کس کی؟


سوال :

مفتی صاحب مسئلہ یہ پو چھنا تھا کہ حکومت مہاراشٹر کی جانب سے بنی لاڈلی بہن یوجنا شروع ہوئی ہے۔ جس میں فارم بھرنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد ہر ماہ 1500 اپنے اکاونٹ میں آتا ہے۔ ابھی جلد یہ اسکیم شروع ہوئی۔ جس میں اب 2 ماہ کا 3000 انا شروع ہوگیا ہے۔ اور کچھ جاننے والوں کے گھر کی عورتوں کے اکاونٹ میں پیسہ آبھی گیا ہے۔ اب یہ مسئلہ ہے کہ اس پیسہ کا اصل مالک کون؟ آپ رہنمائی فرمائیں تو ان تک بات پہنچا دی جائیگی۔ انشاءاللہ اس سے کچھ میاں بیوی میں نااتفاقی ہو رہی ہے۔
(المستفتی : رضوان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : لاڈلی بہن اسکیم کے تحت مہاراشٹر گورنمنٹ کی جانب سے ملنے والی رقم میں چونکہ اس بات کی صراحت ہے کہ یہ رقم خواتین کے لیے ہے، لہٰذا ملنے والی اس رقم کی وہ تنہا مالک ہے اور اسے اس بات کا شرعاً اختیار ہے کہ وہ اس پیسے کو جائز کاموں میں جہاں چاہے خرچ کرے۔ اس رقم کا شوہر کو دینا ضروری نہیں۔ اور نہ ہی شوہر اس کی مرضی کے بغیر وہ یہ رقم اس سے لے سکتا ہے۔ ہاں اگر خاتون اپنی مرضی سے یہ رقم شوہر کو دے دے تو الگ بات ہے۔


عَنْ أنَسِ بْنِ مالِكٍ، أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قالَ : لا يَحِلُّ مالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إلّا بِطِيبِ نَفْسِهِ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ٢٨٨٥)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ۔ (شامی : ٤/٦١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 صفر المظفر 1446