منگل، 29 اگست، 2023

مشترکہ خاندانی نظام سے متعلق چند اہم سوالات

سوال :

مفتی صاحب ! ہمارے معاشرے میں زیادہ تر افراد مشترکہ خاندانی نظام کے تحت ایک گھر میں رہتے ہیں ،ایک ساتھ کاروبار کرتے ہیں ،کھانے کپڑے سے لے کر شادی بیاہ تک، اسی طرح علاج ومعالجے، تعلیمی خرچ اور گھر کی تعمیر وتوسیع سمیت گھر کے تمام افراد کی چھوٹی بڑی ضروریات مشترکہ کاروبار کے ذریعہ ہونے والی آمدنی سے پوری ہوتی ہیں۔ گھر کا سربراہ باپ ہوتا ہے اور وہی کاروبار کا مالک ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ بیٹے اس کاروبار میں شریک ہوتے جاتے ہیں، اس طرح دن بدن کاروبار میں ترقی ہوتی ہے اور افراد خانہ میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بعض بیٹے کاروبار میں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں ،اور بعض تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں ،ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض بیٹے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے کہیں ملازمت اختیار کرلیتے ہیں۔ البتہ سب اپنی آمدنی باپ کے پاس جمع کرتے ہیں جس کے ذریعہ باپ گھر کے سارے اخراجات پورے کرتا ہے اور اپنے بیٹوں کو جیب خرچ کے طور پر ایک مناسب رقم بھی دیتا ہے۔
ایک طویل عرصہ تک باپ اور بیٹوں کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا، البتہ جب بیٹے بڑے ہوجاتے ہیں اور نکاح کے بعد خود صاحب اولاد ہوجاتے ہیں تب ان کی ضروریات کا دائرہ بڑھنا شروع ہوتا ہے اور پھر کبھی گھر میں جگہ کی تنگی محسوس ہوتی ہے تو کبھی مشترکہ کاروبار کے ذریعہ ہونے والی آمدنی ناکافی لگتی ہے، اسی کے ساتھ ساتھ بیٹوں کے ذہن میں مختلف طرح کے سوالات گردش کرنے لگتے ہیں، مثلاً

۱) کاروبار تو اصلاً باپ کی ملکیت ہے، لیکن ہم نے کاروبار میں برسوں جو محنت کی ہے اور اس کو آگے بڑھایا ہے تو کاروبار میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟

۲) کاروبار میں بعض بیٹے پوری محنت کرتے ہیں اور بعض علاحدہ طور پر ملازمت کرتے ہیں، تو کیا باپ کے وصال کے بعد پورا کاروبار مال وراثت شمار ہوگا اور سب لوگ اس میں برابر کے شریک ہوں گے؟

۳) کسی بیٹے کی فیملی چھوٹی ہوتی ہے اور کسی کی بڑی،اس طرح کسی کے اخراجات کم ہوتے ہیں اور کسی کے زیادہ ،کسی کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں تو کسی کے بچے تعلیم حاصل کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، کسی کے بچوں کی شادی مشترکہ خرچ سے ہوچکی ہوتی ہے اور کسی کے بچوں کی شادی کا مرحلہ باقی رہتا ہے، بعض بیٹے اور بیٹیاں مشترکہ کاروبار سے حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں اور بعض بیٹے اور بیٹیاں کسی وجہ سے محروم رہتے ہیں۔

مذکورہ تمام باتوں کو لے کر بھی مختلف طرح کے سوالات اور الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی دوران باپ کا اگر انتقال ہوجائے تو میراث کو لے کر بھی طرح طرح کے مسائل ہوتے ہیں، مثلاً جو بیٹے شروع سے کاروبار میں شریک ہوکر محنت کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کو برسوں کی محنت کے صلے کے طور پر میراث میں سے بڑھا کر مال دیا جائے، لیکن دوسرے بیٹے اور بیٹیاں (جن کا کاروبار کی محنت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا) وہ چاہتے ہیں کہ میراث میں سے سب کو برابر برابر حصہ ملے۔ اس آپسی رسہ کشی میں سالوں گزر جاتے ہیں لیکن میراث تقسیم نہیں ہوپاتی۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا شرعی حل کیا ہے؟
ایک اہم سوال :
باپ کے انتقال کے بعد ایسا بھی ہوتا ہے کہ کاروبار پر قابض بیٹے کاروبار کو چلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سالوں گزر جاتے ہیں،کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کاروبار میں نقصان ہوجاتا ہے اور عموماً کاروبار میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ جب شرعی طور پر کاروبار کی تقسیم کا موقع آتا ہے تو نفع کی صورت میں دیگر وارثین یہ چاہتے ہیں کہ پورا کاروبار نفع سمیت سارے وارثین میں برابر برابر تقسیم کردیا جائے، لیکن اگر کاروبار میں نقصان ہوگیا ہو تو دیگر وارثین کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ جن بیٹوں نے کاروبار چلایا ہے وہ اپنے حصے سے نقصان کی بھرپائی کریں، اس اختلاف کی وجہ سے بھی کاروبار کی شرعی طور پر تقسیم نہیں ہوپاتی۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
(المستفتی : خلیل احمد، نیا اسلام پورہ، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تمام مسائل مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، مشترکہ خاندانی نظام اگرچہ شرعاً ناجائز نہیں ہے، لیکن موجودہ دور میں اس کے بڑے نقصانات سامنے آرہے ہیں اگرچہ کسی وقت یہ نظام لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہوگا، لیکن آج کے دور میں جہاں اکثر اخلاقی قدریں زوال پذیر ہورہی ہیں، ان میں باہم اشتراک کے ساتھ ان بلند مقاصد کا حصول مشکل ہوگیا ہے، عموماً ایک ساتھ رہنے کے نتیجے میں باہم اختلاف بڑھتا ہے، بے پردگی کا اندیشہ ہوتا ہے، رشتوں کا توازن بگڑتا ہے، نزدیکیاں دوریوں میں بدلتی ہیں، باہم مخلصانہ جذبات کمزور پڑنے لگتے ہیں، تعاون کے بجائے ضرر کا جذبہ ابھرنے لگتا ہے، حق تلفیاں عام ہوجاتی ہیں، بزرگوں کا احترام بے کیفی اور بدمزگی میں بدل جاتا ہے، سب مل کر آگے بڑھنے کے بجائے ایک دوسرے کو پچھاڑنے اور نیچا دکھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اس ضمن میں اکثر جانی ومالی زیادتیاں بھی ہوتی ہیں، چنانچہ ایسے حالات میں مشترکہ خاندانی نظام کی تائید اور ترغیب نہیں دی جاسکتی بلکہ اس سے بچنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے، بالخصوص ہمارے اپنے شہر مالیگاؤں میں (جہاں چھوٹے چھوٹے مکانات ہوتے ہیں) تو اس کی بالکل بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا گھر کے سربراہ کو سب سے پہلے یہی کوشش کرنا چاہیے کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام کو ختم کرکے جداگانہ خاندانی نظام کے تحت معاملات طے کریں، یعنی بچوں کی شادیاں کرنے کے بعد استطاعت ہوتو خود ہی ان کے لیے الگ کاروبار اور الگ رہائش کا نظم کردیں، اگر استطاعت نہ ہوتو بچوں کو خود سے کوشش کرکے علحدہ رہائش اور کاروبار یا ملازمت کا نظم کرلینا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ اب والدین تنہا رہیں گے اور اپنی ضروریات خود پوری کریں گے، بلکہ یہ ان کی صواب دید پر ہوگا کہ وہ جب، جتنا چاہیں کسی بھی بیٹے کے یہاں رہیں یا پھر وہ چاہیں تو تنہا رہیں، البتہ ان کی خدمت کرنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بچوں پر بہرحال واجب ہے۔

١) اصولی بات یہی ہے کہ مشترکہ کاروبار میں صرف محنت کی زیادتی کی وجہ سے کوئی شریک مکمل کاروبار یا زیادہ حصے کا حق دار نہیں ٹھہرتا۔ لہٰذا جتنا دیگر بھائیوں کو ملے گا اتنا ہی آپ کو بھی ملے گا۔

اس طرح کے مسائل کا حل یہ ہے کہ والد کو اپنی حیات میں ہی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب بعض بیٹوں کی پڑھائی اور ملازمت پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے تو دیگر بیٹے جو کاروبار سنبھالتے ہیں انہیں بھی اتنا مال دے کر انہیں اس کا مالک بنا دیا جائے، پھر وہ اس مال سے جو کاروبار کریں گے یہ ان کا اپنا مال ہوگا۔ دیگر بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس صورت میں نا انصافی کا پہلو بھی باقی نہیں رہے گا اور بعد میں جو تنازعہ اور اختلاف پیدا ہوتا ہے اس سے بھی حفاظت رہے گی۔

٢) اگر یہ کاروبار باپ کا لگایا ہوا ہے تو بلاشبہ اس میں تمام بیٹے بیٹیاں شریک ہوں گے خواہ وہ الگ کہیں ملازمت کیوں نہ کرتے ہوں۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ آپس کی رضامندی سے کاروبار سنبھالنے والے اور اسے محنت سے آگے بڑھانے والے بھائیوں کی دلجوئی کے لیے ان کو کچھ اضافی حصہ دے دیا جائے۔

٣) جب کاروبار مشترکہ ہے تو جس طرح نفع میں تمام وارثین شریک ہوں گے اسی طرح نقصان میں بھی شریک ہوں گے، البتہ اگر کاروبار کرنے والے بھائی کی اس میں صریح غلطی اور بالکل واضح غفلت ہوتو پھر وہی اپنے ذاتی مال سے نقصان کی بھرپائی کرے گا۔ لہٰذا جب کاروبار سنبھالنے والے کی غلطی نہ ہو بلکہ مندی وغیرہ کی وجہ سے نقصان ہوجائے جیسا کہ عموماً اسی وجہ سے نقصان ہوتا ہے تو اس میں تمام وارثین شریک ہوں گے، نقصان کا بار صرف کاروبار کرنے والے بھائی پر نہیں ڈالا جائے گا۔

مَطْلَبٌ: اجْتَمَعَا فِي دَارٍ وَاحِدَةٍ وَاكْتَسَبَا وَلَا يُعْلَمُ التَّفَاوُتُ فَهُوَ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ [تَنْبِيهٌ] يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا مَا أَفْتَى بِهِ فِي الْخَيْرِيَّةِ فِي زَوْجِ امْرَأَةٍ وَابْنِهَا اجْتَمَعَا فِي دَارٍ وَاحِدَةٍ وَأَخَذَ كُلٌّ مِنْهُمَا يَكْتَسِبُ عَلَى حِدَةٍ وَيَجْمَعَانِ كَسْبَهُمَا وَلَا يُعْلَمُ التَّفَاوُتُ وَلَا التَّسَاوِي وَلَا التَّمْيِيزُ.

فَأَجَابَ بِأَنَّهُ بَيْنَهُمَا سَوِيَّةً، وَكَذَا لَوْ اجْتَمَعَ إخْوَةٌ يَعْمَلُونَ فِي تَرِكَةِ أَبِيهِمْ وَنَمَا الْمَالُ فَهُوَ بَيْنَهُمْ سَوِيَّةً، وَلَوْ اخْتَلَفُوا فِي الْعَمَلِ وَالرَّأْيِ اهـ۔ (شامی : ٤/٣٢٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 صفر المظفر 1445

پیر، 28 اگست، 2023

نومولود کی ناف اور بالوں کا کیا جائے؟

سوال :

امید کہ مزاج بخیر ہونگے۔
عرض یہ ہے کہ بچوں کی ختنہ شدہ جلد ساتویں دن کے نکالے بال اور جھڑی ہوئی ناف وغیرہ کو گاڑنا چاہیے یا کسی رواں ندی میں ڈال سکتے ہیں؟ امید کہ رہبری فرمائیں گے۔
(المستفتی : عرفان احمد، بیڑ)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : انسانی کرامت کا تقاضہ ہے کہ اس کے جسم سے نکالے گئے بال، ناخن یا دیگر اعضاء کو دفن کیا جائے۔ لہٰذا نومولود کے بال، ختنہ کی جلد اور ناف کے بارے میں بھی مستحب یہی ہے کہ انہیں دفن کردیا جائے، دریا یا ندی میں ڈالنا ثابت نہیں۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا۔ (سورۃ الإسراء، آیت : 70)

عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ : كَانَ يَأْمُرُ بِدَفْنِ الشَّعْرِ، وَالْأَظْفَارِ۔ (المعجم الکبیر، رقم : ٧٣)

فَإِذَا قَلَّمَ أَطِّفَارَهُ أَوْ جَزَّ شَعْرَهُ يَنْبَغِي أَنْ يَدْفِنَ ذَلِكَ الظُّفْرَ وَالشَّعْرَ الْمَجْزُوزَ فَإِنْ رَمَى بِهِ فَلَا بَأْسَ وَإِنْ أَلْقَاهُ فِي الْكَنِيفِ أَوْ فِي الْمُغْتَسَلِ يُكْرَهُ ذَلِكَ لِأَنَّ ذَلِكَ يُورَثُ دَاءً كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٥٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 صفر المظفر 1445

اتوار، 20 اگست، 2023

ہری چادر/عمامے والے دجال کے ساتھی؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا درج ذیل حدیث شریف درست ہے؟ آگاہ فرمائیں۔
حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسولﷲﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار آدمی کہ جن کہ سروں پر سبز چادریں پڑی ہوں گے دجال کی اطاعت اختیار کرلیں گے۔
(المستفتی : خالد عزیز، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دجال کی اطاعت کرنے والوں سے متعلق تین طرح کی روایات ملتی ہیں، ایک مسلم شریف میں ہے جبکہ دو روایات مصنف عبدالرزاق میں ہیں۔

مسلم شریف کی روایت ہے :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : أَصْبَهَانَ کے ستر ہزار یہودی دجال کے پیروکار ہو جائیں گے جن پر (طیالسہ) سبز رنگ کی چادریں ہوں گی۔ (١)

مصنف عبدالرزاق کی روایت ہے :
حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار افراد کہ جن کہ سروں پر سیجان پڑے ہوں گے دجال کی اطاعت اختیار کر لیں گے۔ (٢)

سیجان اصل میں ساج کی جمع ہے، جیسا کہ تاج کی جمع تیجان آتی ہے اور ساج بھی طیلسان کی طرح سبز سیاہ چادر کو کہتے ہیں۔ (٣)

مصنف عبدالرزاق کی دوسری روایت میں ہے کہ عموماً دجال کی اتباع کرنے والے اصفہان کے یہودی ہوں گے۔ (٤)

معلوم ہونا چاہیے کہ سوال نامہ میں مذکور مصنف عبدالرزاق کی روایت جس میں "میری امت" کے الفاظ موجود ہیں وہ روایت بہت سے علماء کے نزدیک معتبر نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں ایک راوی متروک ہے۔ اور جن علماء کے نزدیک یہ روایت معتبر ہے ان کے یہاں بھی "میری امت" میں امت سے مراد امتِ اجابت یعنی ملت اسلامیہ نہیں، بلکہ امتِ دعوت یعنی غیرمسلم (یہود) ہیں جیسا کہ مُلّا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ (٥) اور یہود کے  مذہبی افراد آج بھی بعض جگہوں پر سبز چادر استعمال کرتے ہیں، لہٰذا سوال نامہ میں مذکور روایت کو بیان کرنے سے احتیاط کرنا چاہیے یا پھر اس وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہیے کہ یہاں میری امت سے یہود مراد ہیں، نیز اس روایت کا مصداق مسلمانوں کے کسی خاص فرقے کو قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔

١) حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ يَهُودِ أَصْبَهَانَ سَبْعُونَ أَلْفًا، عَلَيْهِمُ الطَّيَالِسَةُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٩٤٤)

٢) عن أبي سعيد الخدري : يَتَّبِعُ الدَّجّالَ مِن أُمَّتي سبعونَ ألفًا، عليهِمُ السِّيجانُ۔
ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، تخريج مشكاة المصابيح ٥‏/١٣٩  •  [فيه] أبو هارون متروك۔

عن أبي سعيد الخدري : يتَّبِعُ الدَّجّالَ مِن أُمَّتي سَبعونَ ألفًا عليهمُ السِّيجانُ..
شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج شرح السنة ٤٢٦٥  •  إسناده ضعيف جدا

٣) السِّيجَانُ بِكَسْرِ السِّينِ جَمْعُ سَاجٍ كَتِيجَانَ وَتَاجٍ، وَهُوَ الطَّيْلَسَانُ الْأَخْضَرُ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٨/٣٤٥١)

٤) أخبرنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ يَرْويهِ قَالَ : عَامَّةُ مَنْ يَتَّبِعُ الدَّجَّالَ يَهُودُ أَصْبَهَانَ۔ (مصنف عبدالرزاق، رقم : ٢١٩٠٤)

٥) «يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ أُمَّتِي» أَيْ : أُمَّةِ الْإِجَابَةِ أَوِ الدَّعْوَةِ وَهُوَ الْأَظْهَرُ لِمَا سَبَقَ أَنَّهُمْ مِنْ يَهُودِ أَصْفَهَانَ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٨/٣٤٥١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 صفر المظفر 1445

منگل، 15 اگست، 2023

جشنِ آزادی یا سونامئی بدتمیزی؟

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں صرف مسجدوں، میناروں، علماء، حفاظ اور تعلیم یافتہ افراد کا شہر نہیں ہے، بلکہ یہاں ایک ایسی مخلوق بھی بستی ہے جسے نہ تو دین سے کچھ لینا ہے نہ دنیا سے اور نہ ہی ان میں اخلاق، سنجیدگی اور شعور نام کی کوئی چیز ہے۔

دین، دنیا، اخلاق اور شعور سے عاری یاجوج ماجوج جیسی اس مخلوق کو آپ یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے موقع پر اپنے ٹھکانوں سے نکلتا ہوا اور شہر کی شاہراہوں پر طوفانِ بدتمیزی برپا کرتا ہوا دیکھیں گے، اس طوفانِ بدتمیزی کو طوفان کہنا ہلکا معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے سونامئ بدتمیزی کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔

یہ ایسی مخلوق ہے جسے آزادی اور جمہوریت کا مطلب اور اس کا مفہوم بھی معلوم نہیں ہے، انہیں کسی ایک مجاہدِ آزادی اور اس کارنامے کی مکمل معلومات بھی نہیں ہوگی۔ بلکہ ان میں سے بہت سوں کو آزادی کا سَن اور کس سال جمہوریت کا نفاذ ہوا؟ یہ تک معلوم نہیں ہوگا۔

لیکن گذشتہ چند سالوں سے ان دونوں مواقع پر بڑی پابندی کے ساتھ اس مخلوق کا قافلہ جانوروں کی طرح آوازیں نکالتا ہوا۔ جو کتوں اور گدھوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہوتا ہوگا کہ آوازیں تو ہماری مکروہ اور ناپسندیدہ ہیں، یہ کون سی مخلوق آگئی ہے جو ہم سے تیز اور مکروہ آواز نکالنے میں ہمیں پیچھے چھوڑ رہی ہے؟ اب ان کی جسمانی آواز کے ساتھ انتہائی مکروہ اور تکلیف دہ باجوں اور سائلنسر کی آواز بھی شامل ہوگئی ہے۔

قارئین ! سب سے زیادہ خرافات اور منکرات قدوائی روڈ شہیدوں کی یادگار کے پاس ہورہے ہیں، یہاں رات سے ہی ڈی جے پر کان پھاڑنے والی آواز میں فلمی گانے جاری رہتے ہیں، رنگ برنگی تیز روشنیوں کا ایسا مخصوص نظم ہوتا ہے کہ گویا ناچنے گانے کا پورا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ کم سمجھ اور لاابالی قسم کے نوجوان یہاں ناچے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ چنانچہ یہاں رات سے ہی نوجوانوں کا ناچنا شروع ہوجاتا ہے، اور پھر صبح میں یہاں یکے بعد دیگرے ایسے ہی ہلڑ باز نوجوانوں کا قافلہ آتا رہتا ہے، اور بقدر استطاعت اپنی بدبختی اور شقاوت کا مظاہرہ کرتا ہوا رخصت ہوتا ہے، جس میں تیز آواز سے چلانا یا کوئی بھی فضول اور بے ڈھنگے قسم کے ڈائلاگ بولنا، ناچنا، آتش بازی اور پٹاخے پھوڑنا، بائک اسٹنٹ اور بائک کے سائلنسر سے کان پھاڑ دینے والی آوازیں نکالنا، شامل ہے۔

ان ہلڑ باز نوجوانوں کی وجہ سے اطراف میں اسکول جانے والے طلباء بالخصوص طالبات اور اسکول میں ہونے والے پروگرام کس قدر ڈسٹرب ہوتے ہوں گے؟ یہ وہی بتا سکتے ہیں، ہم تو اس کا ادراک بھی نہیں کرسکتے۔

اور یہ ساری روداد آنکھوں دیکھی ہے،
بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے  اہل  کرم دیکھتے  ہیں
کوئی سنی سنائی نہیں ہے کہ جس میں غلو یا غلطی کا اندیشہ ہو۔

لہٰذا سب سے پہلے تو ہماری انہیں نوجوانوں سے مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ اللہ کے لیے اپنی حیثیت کو سمجھیں، آپ قوم کا سرمایہ ہیں، سونے سے قیمتی ان ایام کو آپ یوں لغویات، خرافات اور ناجائز وحرام کاموں میں ضائع نہیں کرسکتے، ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس جوانی کا حساب دینا ہے کہ ہم نے اسے کہاں لگایا؟ اُس وقت ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟ ہم من مانی کی زندگی نہیں گزار سکتے، ہم مسلمان ہیں، اور مسلمان شریعت کا پابند ہوتا ہے، اور اسی پابندی کی وجہ سے اسے آخرت میں ہمیشہ کی جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، کفار اور مشرکین کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے دنیا ان کے لیے جنت ہے، اور آخرت میں ان کے لیے جہنم ہے۔

والدین اور سرپرستوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور سختی سے اس بات سے روکیں کہ ان مواقع پر بائک لے کر بالکل نہ نکلیں، کیونکہ اس طرح کی ناجائز حرکتیں کرنے والے بچے آپ کی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی برباد کریں گے اور آپ کی ذلت اور رسوائی کا سبب بنیں گے۔

سیاسی لیڈران سے بھی مؤدبانہ، مخلصانہ اور عاجزانہ گذارش ہے کہ وہ بھی اللہ کے لیے اس بدتمیزی کے طوفان بلکہ سونامی کو کسی بھی طرح روکنے کی کوشش کریں، اس لیے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کوئی اختیار، صلاحیت اور طاقت دی ہے تو اس کا استعمال سب سے پہلے قوم کی اصلاح کے لیے کرنا ضروری ہے، ان نوجوانوں کو ترغیب دے کر ان لغویات، خرافات اور منکرات سے روکنے کی کوشش کریں، اگر یہ سیدھا طریقہ کارگر نہ ہوتو ڈپارٹمنٹ کا سہارا لیا جائے اور ایسے بگڑے گھوڑوں پر اچھی لگام کسی جائے، جس کے لیے آپ عنداللہ ماجور اور سنجیدہ شہریان کے نزدیک مشکور ہوں گے۔ ان شاءاللہ

معزز قارئین ! یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ پر صرف اتنا کام کیا جاسکتا ہے کہ قومی پرچم کو لہرایا جائے اور اس وقت بغیر کسی میوزک والے جائز ترانوں کو پڑھا یا بجایا جائے، شیرینی وغیرہ تقسیم کی جائے، مجاہدین آزادی اور ان کے کارناموں کا تذکرہ کیا جائے اور قوم کو یہ سمجھایا جائے کہ کس طرح ہم ملک میں امن وامان قائم رکھ کر اسے ترقی کی بلندیوں پر لے جاسکتے ہیں؟ بس اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو ہر جگہ شریعت کو مقدم رکھنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس کی برکت سے وطن عزیز ہندوستان کو امن کا گہوارا بنا دے۔ آمین یا رب العالمین

پیر، 14 اگست، 2023

نماز میں ضرورت سے زیادہ لاؤڈ-اسپیکر استعمال کرنا


سوال :

مفتی صاحب مسجد میں اتنے نمازی ہو کہ آسانی سے امام صاحب کی آواز وہاں تک پہنچ جاتی ہے، اسکے باوجود امام صاحب مائک استعمال کرتے ہیں اس طرح سے بلا ضرورت مائک کا استعمال کرنا صحیح ہے؟
(المستفتی : محمد ساجد، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : امام صاحب کی آواز بغیر مائک کے مصلیان تک پہنچ جاتی ہے تو بلا ضرورت مائک استعمال کرنا خلاف اولٰی یعنی بہتر نہیں ہے، اور اگر مقتدی حضرات کو تیز آواز سے تکلیف ہوتو ایسا کرنا مکروہ ہوگا۔ تاہم ہر دو صورت میں نماز بلا کراہت ادا ہوجائے گی، اس لئے کہ مذکورہ عمل کا تعلق نماز کے اعمال سے نہیں ہے۔

وَإِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ فَوْقَ حَاجَةِ النَّاسِ فَقَدْ أَسَاءَ؛ لِأَنَّ الْإِمَامَ إنَّمَا يَجْهَرُ لِإِسْمَاعِ الْقَوْمِ لِيَدَّبَّرُوا فِي قِرَاءَتِهِ لِيَحْصُلَ إحْضَارُ الْقَلْبِ. كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٧٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
5 شوال المکرم 1439

قومی جھنڈے کو سلامی دینے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب ! کیا ترنگا جھنڈے کو سلامی دینا اور کھڑے ہونا شرک میں داخل ہے؟ جیسا کہ ابھی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ڈاکٹر اسرار صاحب کی گردش میں ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : انصاری ابوذر، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عُرف میں کسی بھی ملک کا جھنڈا اور پرچم اس ملک کی عزت، بلندی، اور شان کا نشان ہوتا ہے، ہمارے ملکِ عزیز ہندوستان کا بھی ایک پرچم (ترنگا) ہے، جو انہی چیزوں کی علامت ونشانی ہے، لہٰذا اگر دیگر خرافات اور منکرات مثلاً میوزک، مرد وزن کے بے پردگی والے ماحول وغیرہ سے بچتے ہوئے خاص مواقع پر جھنڈے کو سلامی دی جائے اور اسے دین سمجھ کر نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
شریعتِ مطہرہ میں سلام اور جوابِ سلام سے متعلق جو کچھ احکام وہدایات ہیں وہ پرچم کی سلامی پر لاگو نہیں ہوتے، بلکہ یہ تو ایک قومی مشترکہ عمل کے قبیل سے ہے، اگر قومی ترانہ کا مضمون درست ہو اور اس کے پڑھنے میں قانوناً کھڑا ہونا لازم ہو تو کھڑے ہوکر پڑھنے کی گنجائش ہے۔ (رقم الفتوی : 21173)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا ہے :
جھنڈے کی سلامی مسلم لیگ بھی کرتی ہے اور اسلامی حکومتوں میں بھی ہوتی ہے وہ ایک قومی عمل ہے اس میں اصلاح ہوسکتی ہے مگر مطلقاً اس کو مشرکانہ فعل قرار دینا صحیح نہیں۔ (کفایت المفتی : ٩/٣٧٩)

مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری نور اللہ مرقدہ نے لکھا ہے :
یہ محض سیاسی چیز ہے اور حکومتوں کا طریقہ ہے، اسلامی حکومتوں میں بھی ہوتا ہے، بچنا اچھا ہے، اگر فتنہ کا ڈر ہو تو بادل ناخواستہ کرنے میں مواخذہ نہیں ہوگا ان شاءاللہ۔ (فتاوی رحیمیہ : ١٠/١٨١)

المسائل المہمۃ فی مابتلت بہ العامۃ میں ہے :
۱۵؍ اگست یا ۲۶؍ جنوری کو پرچم کشائی کے موقع پروطنِ عزیز؛ ہندوستان کے تمام اسکولوں ، کالجوں اور مدارس کے طلبہ واساتذہ اور دیگر محکموں کے افسران وملازمین اسے اپنے ہاتھ کے اشارے سے جو سلامی دیتے ہیں ، یہ عمل محض عرفی طریقہ پر اس کا احترام ہے، اس میں اس کی عبادت وتعظیم کا کوئی پہلو نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی مسلم اس کا یہ احترام اس نیت سے کرتا ہے کہ وہ قابلِ تعظیم وعبادت ہے، کیوں کہ اس کا عقیدہ ہے کہ لائق عبادت وتعظیم صرف اللہ کی ذات ہے ، اس لیے شرعاً یہ عمل جائز ہے۔ (١٠/٣١)

درج بالا تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ بوقتِ ضرورت قومی پرچم اور جھنڈے کو سلامی دینا جائز ہے، اسے شرک کہنا زیادتی ہے، البتہ اسے بہت اہمیت نہ دی جائے، نیز جھنڈے کے سامنے تعظیمًا جھکنے کی شرعاً بالکل اجازت نہیں ہے۔

قال اللہ تعالیٰ : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ۔ (سورۃ الفاتحۃ، آیت : ۴)

الأصل أن تزول الأحکام بزوال عللہا۔ (القواعد الفقہیۃ : ۱۷۰)

الأمور بمقاصدہا۔ (الأشباہ والنظائر : ۱/۱۱۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 محرم الحرام 1445