ہفتہ، 28 نومبر، 2020

پٹرول پمپ پر ملازمت کرنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! پیٹرول پمپ پر کام کرنا کیسا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ تنخواہ کم ہوتی ہے لیکن ریڈنگ کا حساب ہونے کے بعد روزآنہ دو سو تین سو روپے بچتے ہیں انکا استعمال کیسا ہے؟
(المستفتی : مولوی محمد ذاکر، بیڑ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پٹرول پمپ پر پٹرول ڈالنے کی ملازمت کرنا فی نفسہ جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ آپ نے جو صورت بیان کی ہے اس میں اگر ملازمین قصداً گراہک کو کم پٹرول دیتے ہیں تو اس سے بچی ہوئی رقم کا استعمال ان کے لیے جائز نہ ہوگا۔ البتہ اگر غلطی سے کچھ کم پٹرول چلا جائے جس کی تلافی کرنا بھی ممکن نہ ہو نیز یہ مقدار بہت کم ہو جس سے گراہک کو بھی ناگواری نہ ہوتی ہو جیسا کہ عموماً ہوتا ہے تو پھر اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔

قال اللہ تعالیٰ : وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (3)۔ (سورۃ المطففين)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 ربیع الآخر 1442

پیر، 23 نومبر، 2020

تہمت اور بہتان ایک سنگین گناہ

قارئین کرام! ہمارے معاشرے میں متعدد سماجی واخلاقی برائیاں پنپ رہی ہیں، جن میں ایک بڑی برائی جسے سوشل میڈیا نے کافی بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی فراہم کیا ہے وہ ہے کسی پر تہمت اور بہتان لگانا۔ آج کل کوئی بھی اپنی شناخت چھپاکر یا پھر ظاہر کرکے کسی کی بھی طرف کوئی بھی غلط بات منسوب کردیتا ہے، اور یہ تہمت منٹوں میں پورے شہر میں پھیل جاتی ہے، بلکہ اگر پھیلانے والے چاہیں تو اسے پوری دنیا میں بھی پھیلا سکتے ہیں، اور عموماً ان پر کوئی قانونی گرفت بھی نہیں ہوتی۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم اس فعل کی قباحت کو قرآن و احادیث کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ نصیحت قبول کرنے والے افراد اس کی قباحت جاننے کے بعد اس سے باز آجائیں اور من مانی کرنے والے بدبختوں پر حجت تمام ہوجائے، نیز جن لوگوں پر بہتان لگایا جاتا ہے ان کی بھی دلجوئی اور تسلی کا سامان ہوجائے۔

معزز قارئین! شریعتِ مطہرہ میں کسی پر بھی تہمت اور بہتان لگانا (یعنی کسی کی طرف ایسا کوئی غلط قول یا فعل منسوب کرنا جو اس نے انجام نہ دیا ہو) شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔ جس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

معلوم ہونا چاہیے کہ بہتان تراشی کو علماء نے جھوٹ میں شمار کرنے کے ساتھ ساتھ علیحدہ طور پر بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسا جھوٹ ہے جس کے بارے میں خاص طور پر درج ذیل شدید وعیدیں آئی ہیں، لہٰذا اسے علیحدہ ذکر کیا۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کا مال، عزت اور خون حرام ہے، آدمی کے برا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ (ابوداؤد)

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : پانچ چیزوں کا کوئی کفارہ نہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا (۲) ناحق قتل کرنا (۳) مومن پر تہمت لگانا (۴) میدانِ جنگ سے بھاگ جانا اور (۵) ایسی جبری قسم جس کے ذریعے کسی کا مال ناحق لے لیا جائے۔ (مسند احمد)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (معجم اوسط)

ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہوجائے۔ (ابوداؤد)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔ (کنز العمال)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : اے وہ لوگوں جو اپنی زبانوں سے ایمان لائے ہو مگر ایمان ان کے دلوں میں نہیں اترا ہے، مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان ان کے عیوب کے درپہ ہوا کرو بلاشبہ جو شخص ان کے عیوب کے درپے ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کے درپے ہوں گے اور اللہ جس کے عیوب کے درپے ہوں گے تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کردیں گے۔ (ابوداؤد)

یعنی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ دوسروں پر بہتان اور الزام تراشی کرکے بچ جائیں گے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پکڑ فرمالی تو پھر آپ کو گھر بیٹھے ذلیل کردیا جائے گا، اس کی مثال ہمارے معاشرے میں آپ کو بآسانی سے مل جائے گی جو دوسروں پر کیچڑ اچھالا کرتے تھے جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آئی تو ایسا ذلیل ہوئے کہ آج ان کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔

محترم قارئین! تہمت اور بہتان کا زہر بڑا خطرناک ہوتا ہے، جو بہت دیر تک اثر انداز ہوتا ہے اس کی مثال اس فرضی کہانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک گاؤں میں پنچائت لگی ہوئی تھی، معاملہ بھینس چوری کا تھا، گاؤں کے اسکول کے ماسٹر صاحب بھی موجود تھے، اچانک ایک دیہاتی ہانپتا ہوا وہاں آیا اور بلند آواز سے کہنے لگا : ماسٹر جی! وہ بھینس آپ کے باڑے سے مل گئی ہے۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا، پنچائیت کے لوگ بھی حیرت زدہ رہ گئے، لیکن ماسٹر صاحب کے سامنے کچھ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی لہٰذا ایک ایک کرکے کِھسَک لئے۔ وہ دیہاتی بھی چلا گیا۔ ماسٹر صاحب شرمندگی اور افسوس کے مارے وہیں سکتے کے عالم میں بیٹھے رہے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ دیہاتی دوبارہ بھاگتا ہوا آیا اور ماسٹر صاحب کے پاؤں پکڑ کر کہنے لگا : مجھےمعاف کردیں ! وہ بھینس آپ کے باڑے سے نہیں بلکہ ساتھ والے باڑے سے ملی ہے۔ ماسٹر جی صدمے کی حالت میں اتنا ہی کہہ سکے : اب تم سارے گاؤں میں اعلان بھی کروا دو تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ لوگ اب مجھے ”چور“ کے نام سے یاد کیا کریں گے۔

یعنی ایک مرتبہ کسی کے اوپر تہمت لگ جائے تو پھر ساری زندگی کہیں نہ کہیں و اس گناہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، خواہ بہتان باندھنے والا خود ہی اس کی صفائی کیوں نہ دے دے۔

جن لوگوں پر تہمت لگائی جاتی ہے، بلاشبہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے یہاں مظلوم ہوتے ہیں، ان کے دل سے اگر بددعا نکل جائے تو بہتان لگانے والوں کی دنیا وآخرت دونوں برباد ہوجائے گی۔ جن لوگوں پر بہتان لگایا گیا ہو ان کے لیے درج ذیل حدیث شریف میں بڑی بشارت اور تسلی کا سامان ہے اور بہتان لگانے والوں کے لیے عبرت کا سبق ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا : کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی : ہم میں مفلِس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا : میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کوگالی دی ہوگی، فُلاں پر تہمت لگائی ہوگی، فُلاں کا مال کھایا ہو گا،فُلاں کا خون بہایا ہوگا اورفُلاں کو مارا ہوگا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم)

لہٰذا جن لوگوں نے بھی اس سنگین اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہو ان پر لازم ہے کہ وہ براہ راست صاحبِ معاملہ سے مل کر اس کا تصفیہ کرلیں اور حتی الامکان اس الزام کو زائل کرنے کی کوشش کریں، ورنہ یہ حقوق العباد ہے جس کا بروز حشر پورا پورا حساب لیا جائے گا۔ نیز جو لوگ ایسی خبروں کو سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہیں وہ بھی اس گناہ میں ان کے شریک ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے لوگوں کو بھی اپنی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی تمام طرح روحانی بیماریوں سے حفاظت فرمائے اور اخلاق حسنہ سے مالا مال فرمائے۔ آمین ثم آمین

ہفتہ، 21 نومبر، 2020

نماز میں دائیں پیر کا انگوٹھا اٹھنے اور ہلنے کا مسئلہ

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید کہتا ہے کہ پوری نماز میں سیدھے پیر کا انگوٹھا اپنی جگہ اٹھنا اور ہلنا نہیں چاہیے، ورنہ نماز نہیں ہوگی، کیا زید کی بات درست ہے؟ باحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حسان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیث اور کتب فقہ میں باقاعدہ اس طرح کوئی حکم نہیں ہے کہ نماز میں دائیں پیر کا انگوٹھا ہلنا یا اٹھنا نہیں چاہیے۔ لیکن اگر نماز سنت کے مطابق ادا کی جائے گی تو دائیں پیر کا انگوٹھا خود بخود زمین پر ٹکا رہے گا، اٹھے گا نہیں۔ البتہ سجدہ کرتے وقت اپنی جگہ سے کھسک سکتا ہے۔ 

فتاوی دارالعلوم میں ہے :
صورت مسئولہ میں مصلیوں کی یہ بات کہ نماز میں داہنے پیر کا انگوٹھا ایک ہی جگہ رہے اور ہلنا درست نہیں ہے،شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اگر نماز میں پیر کا انگوٹھا ہل گیا تو اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی۔ (۲؍۱۵۲)

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں زید کی بات قطعاً درست نہیں ہے، اسے اپنے قول سے رجوع کرنا چاہیے۔ البتہ قصداً نماز میں دائیں پیر کے انگوٹھے کو اٹھانا مکروہ ہے کیونکہ نماز میں پیروں کی انگلیاں قبلہ رُخ رکھنا سنت ہے۔ تاہم اس صورت میں بھی نماز ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ویفترض وضع أصابع القدم ولو واحدۃ نحو القبلۃ وإلا لم تجز۔ (درمختار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ۲/۲۰۴)

وإن وضع إصبعا واحدۃ، فلو وضع ظہر القدم دون الأصابع… تجوز صلاتہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ۱/۱۲۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ربیع الآخر 1442

جمعہ، 20 نومبر، 2020

پانی پیتے وقت پانی مونچھ کو لگ جانا

سوال :

مفتی صاحب ! کئی لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ پانی یا شربت پیتے وقت اگر وہ چیز مونچھ کے بال بڑے ہونے کی وجہ سے لگ جائے تو حرام ہو جاتی ہے، اسکی تسلی بخش وضاحت کردیجئے۔
(المستفتی : عزیر انجینئر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں مونچھوں کو کتروانے داڑھیوں کے بڑھانے اور مشرکین کی مخالفت کا حکم وارد ہوا ہے۔ یعنی بڑی بڑی مونچھیں رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب سنت کے مطابق مونچھ رکھی جائے گی تو اطمینان اور سکون سے پانی وغیرہ پیتے وقت مونچھ کا حصہ پانی میں نہیں لگے گا۔ تاہم اگر مونچھ بڑی ہوتو پانی میں ڈوب جانے یا لگ جانے سے پانی ناپاک اور حرام نہیں ہوگا۔ پانی کے حرام ہوجانے والی بات عوام کے ایک طبقہ کی اپنی گھڑی ہوئی ہے جس کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذا جو لوگ ایسا کہتے ہیں انہیں توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بلا دلیل کسی بھی چیز کو حرام کہنے سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔ البتہ مونچھ پانی میں لگنے کی وجہ سے طبعی طور پر آدمی کو اس سے نفرت اور گھن پیدا ہوگی۔ لہٰذا مونچھ سنت کے مطابق رکھنا چاہیے اور چالیس دن گزرنے سے پہلے پہلے اسے کاٹ لینا چاہیے، بغیر کاٹے چالیس دن گزر جانے کی صورت میں ایسا شخص گناہ گار ہوگا۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من الفطرۃ قصُّ الشارب۔ (صحیح البخاري، کتاب اللباس/ باب قص الشارب، رقم : ۵۸۸۸)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: جزُّوا الشوارب وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ / باب خصال الفطرۃ، رقم : ۲۶۰)

(و) يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة، وجاز في كل خمسة عشرة، وكره تركه وراء الأربعين، مجتبى۔

 (قوله: وكره تركه) أي تحريماً لقول المجتبى: ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد اهـ وفي أبي السعود عن شرح المشارق لابن ملك: روى مسلم عن أنس بن مالك: «وقت لنا في تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لانترك أكثر من أربعين ليلةً». وهو من المقدرات التي ليس للرأي فيها مدخل فيكون كالمرفوع اهـ"۔ (الدر مع الرد : ٦/٤٠٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ربیع الآخر 1442

جمعرات، 19 نومبر، 2020

الگ الگ پلیٹ میں کھانے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! ایک سوال عرض خدمت ہے۔
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم کھانا تو کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے آپ نے فرمایا کہ شاید تم الگ الگ کھاتے ہو، انہوں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا کہ اپنے کھانے پر جمع ہو جایا کرو اور کھانے کے وقت اللہ کا نام لیا کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے کھانے میں برکت ڈال دے گا۔ (ابوداؤد)

کیا علیحدہ پلیٹوں میں کھانا کھانا اس حدیث کے خلاف کرنا ہوگا؟ اور کیا ایک تھالی میں چند لوگوں کا ایک ساتھ کھانا کھانا سنت ہے؟ براہ مہربانی حدیث کی وضاحت فرمادیں۔ جزاک اللہ خیرا
(المستفتی : محمد عمر، تھائی لینڈ)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کھانا کھانے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ گھرکے سب لوگ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر اجتماعی طور پر کھانا کھائیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اکیلے اکیلے کھانے سے بے برکتی ہوتی ہے، اور اجتماعی طور پر بسم اللہ پڑھ کر کھانے میں ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا کھانا تین کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ یعنی اگر کھانا ایک قسم کا ہوتو ہر فرد کا الگ الگ پلیٹ میں کھانا بہتر نہیں ہے۔ البتہ اگر کھانا متعدد اقسام کا ہو تو ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق کھانا نکال کر کھائے گا، لہٰذا ایسی صورت میں الگ الگ پلیٹ میں کھانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔

عن وحشي بن حربٍ عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہما أن أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالوا: یا رسول اللّٰہ! إنا نأکل ولا نشبع، قال: فلعلکم تفترقون؟ قالوا: نعم، قال: فاجتمعوا علی طعامکم واذکروا اسم اللّٰہ علیہ، یبارک لکم فیہ۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأطعمۃ / باب في الاجتماع علی الطعام، رقم: ۳۷۶۴)

عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کلوا جمیعًا ولا تفرقوا؛ فإن البرکۃ مع الجماعۃ۔ (سنن ابن ماجۃ : ۲۳۶)

والاجتماع علی الطعام أفضل من فرادیٰ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۸؍۱۸۰ رقم: ۲۸۴۳۴)

ومن آدابہ کذٰلک الأکل مع الجماعۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۶؍۱۲۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ربیع الآخر 1442

نامحرم کا جوٹھا کھانے پینے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کہ اگر ایک گھر میں تین سے چار بھائی ایک ساتھ ہی رہتے ہوں اور اگر صرف ایک بھائی اپنی بیوی کیساتھ کھانا کھایا ہو اور اگر اسی پلیٹ میں کھانا بچ گیا ہو تو کیا وہ کھانا جھوٹا ہوگیا اور اگر ہوبھی گیا تو کسی اور بھائی کی بیوی جیسا کہ بھابھی وغیرہ اس بچے ہوئے کھانے کو کھا سکتی ہے؟ شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : حافظ شعیب احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسلمان کا جوٹھا پاک ہے، لہٰذا اس کا کھانا پینا شرعاً جائز اور درست ہے۔ البتہ نامحرم عورت یا مرد کا جھوٹا مکروہ ہے۔ لیکن یہ حکم مطلق نہیں ہے، بلکہ اس میں تفصیل ہے۔

جامع الفتاوی میں ہے :
میاں بیوی، آقا اور باندی اور محرم مردوعورت کے علاوہ عورت کا جوٹھا اجنبی مرد کے لئے اور اجنبی مرد کاجھوٹا عورت کے لئے مکروہ ہے۔ لیکن وہ ناپاک ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ لذت پانے کی وجہ سے ہے پس اگر یہ معلوم نہ ہو کہ کس کا جھوٹا ہے یا لذت حاصل کرنے کیلئے نہ ہوتو مکروہ نہیں خصوصاً جبکہ جوٹھے سے نفرت کی جاتی ہوتو بدرجہ اولیٰ مکروہ نہیں ہے۔ (٦/٣٥)

امید ہے کہ درج بالا تفصیل میں آپ اپنے سوال کا جواب پاگئے ہوں گے۔

يكره سؤرها للرجل كعكسه للاستلذاذ۔ (الدر المختار : ١/٢٢١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الآخر 1442

بدھ، 18 نومبر، 2020

آدھی دھوپ اور آدھی چھاؤں میں بیٹھنا

سوال :

مفتی صاحب! انسان کا جسم آدھا دھوپ میں اور آدھا چھاؤں میں رہے تو کیا مسئلہ ہے؟ وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ شعیب اختر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بعض روایات میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ دھوپ اور کچھ سایہ میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو بایں طور کہ اس سایہ کی جگہ دھوپ آجانے کی وجہ سے اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہو تو اس کو چاہیے کہ وہاں سے اٹھ جائے اور ایسی جگہ جا کر بیٹھ جائے جو پوری طرح سایہ میں یا پوری طرح دھوپ میں ہو۔ (ابوداؤد)

کیونکہ جب کوئی شخص ایسی جگہ بیٹھا یا لیٹا ہوتا ہے کہ کچھ دھوپ میں ہو اور کچھ سایہ میں، تو اس کے جسم پر ایک ہی وقت میں دو متضاد چیزوں کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے اس کا مزاج بگاڑ اور خلل کا شکار ہوسکتا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوپ اور سائے والی جگہ پر بیٹھنے سے منع فرمایا، اور فرمایا یہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ (مسنداحمد)

اس روایت میں شیطان کے بیٹھنے کی جگہ سے مراد یہ ہے کہ شیطان جسے پریشان کرنا چاہتا ہے اس کو ایسی جگہ پر بیٹھنے یا لیٹنے کی طرف راغب کرتا ہے اور گویا اس جگہ پر کسی شخص کے بیٹھنے یا لیٹنے کا سبب شیطان بنتا ہے اور اس سے شیطان اپنے مقصد کہ وہ شخص تکلیف و دکھ میں مبتلا ہو کامیاب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ شیطان جس طرح انسان کے دین کا دشمن ہے اسی طرح اس کے بدن کا بھی برا چاہنے والا ہے۔

خلاصہ یہ کہ آپ علیہ السلام کا یہ حکم طبی اعتبار سے ہے کیونکہ اس میں نقصان کا اندیشہ ہے ورنہ شرعاً اس طرح کرنے میں کوئی گناہ نہیں، بلکہ اس سے بچ جانا بہتر ہے۔ یعنی یہ حکم وجوبی اور تاکیدی نہیں ہے، بلکہ مشفقانہ اور خیرخواہی پر مبنی ہے۔

وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا كان أحدكم في الفيء) : بفتح فسكون أي: في ظل (فقلص) أي: ارتفع (عنه الظل) أي: بعضه وفيه تفنن (فصار بعضه في الشمس، وبعضه في الظل) بيان لما قبله (فليقم) أي: فليتحول منه إلى مكان آخر يكون كله ظلا أو شمسا؛ لأن الإنسان إذا قعد ذلك المقعد فسد مزاجه لاختلاف حال البدن من المؤثرين المتضادين، كذا قاله بعض الشراح، وتبعه ابن الملك، ولأنه خلاف العدالة الموجبة لاختلال الاعتدال مع أنه تشبه بمجلس المجانين، ونظيره النهي عن لبس إحدى النعلين، والأولى أن يعلل بما علله الشارع من قوله الآتي: فإنه مجلس الشيطان. (رواه أبو داود) أي: مرفوعا.

(وفي شرح السنة عنه) أي: عن أبي هريرة (قال) . أي: أبو هريرة (إذا كان أحدكم في الفيء فقلص) أي: ارتفع الفيء (عنه فليقم، فإنه) أي: ذلك المجلس (مجلس الشيطان) الظاهر أنه على ظاهره، وقيل: إنما أضافه إليه؛ لأنه الباعث عليه ليصيبه السوء، فهو عدو للبدن كما هو عدو للدين، ويدل عليه إطلاق قوله سبحانه: {إن الشيطان لكم عدو فاتخذوه عدوا} [فاطر: 6] ويمكن أن تكون عداوته للبدن بناء على استعانته بضعف البدن على ضعف الدين. (هكذا رواه معمر موقوفا) أي: على أبي هريرة، لكنه في حكم المرفوع. قال التوربشتي: الأصل فيه الرفع وإن لم يرد مرفوعا؛ لأن الصحابي لا يقدم على التحدث بالأمور الغيبية إلا من قبل الرسول صلوات الله عليه وسلامه، لا سيما وقد وردت به الروايات من غير هذا الوجه عنه صلى الله عليه وسلم  والحق الأبلج فيه وفي مثاله التسليم لنبي الله عليه السلام في مقاله، فإنه يعلم ما لا يعلم غيره ويرى ما لايرى اهـ. في الجامع الصغير: أنه صلى الله عليه وسلم «نهى أن يجلس الرجل بين الضح والظل، وقال: " مجلس الشيطان» ". رواه أحمد بسند حسن عن رجل مرفوعا"۔ (مرقاة المفاتيح : 7 / 2983)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ربیع الآخر 1442

پیر، 16 نومبر، 2020

ماہواری کے ایام میں بیوی کے ہاتھ سے انزال کرانا

سوال :

مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ بیوی کو حیض کے دن شروع ہوں اور شہوت قابو میں نہیں آئے تو بیوی کے ہاتھ کو استعمال کرکے انزال کرسکتے ہیں؟
(المستفتی : محمد شاہد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حیض کی حالت میں بیوی سے جماع کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ لہٰذا اگر ان ایام میں شوہر پر شہوت غالب ہوجائے تو بیوی کے ہاتھوں سے مشت زنی کرانا اگرچہ جائز ہے، لیکن بہتر نہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مذکورہ احوال میں اس فعل کی گنجائش ہے تاہم اس کی عادت نہ بنائی جائے۔ (رقم الفتوی : 600833)

وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَمْنِيَ بِيَدِ زَوْجَتِهِ  وَخَادِمَتِهِ اهـ وَسَيَذْكُرُ الشَّارِحُ فِي الْحُدُودِ عَنْ الْجَوْهَرَةِ أَنَّهُ يُكْرَهُ وَلَعَلَّ الْمُرَادَ بِهِ كَرَاهَةُ التَّنْزِيهِ فَلَا يُنَافِي قَوْلَ الْمِعْرَاجِ۔ (شامی : ٢/٣٩٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ربیع الاول 1442

سورج، چاند گرہن اور اماوس کی رات سے متعلق سوالات

سوال :

عرض تحریر ہے کہ معاشرے میں مشہور ہے کہ اماوس کی راتوں میں ‌ہمبستری کرنا اور کسوف و خسوف میں حاملہ عورتوں کا کسی چیز کا کانٹا وغیرہ آفت و مصیبت کو دعوت دینا ہے، پس اسی خیالات قدیم کو معاشرے کے دماغ سے دور کرنے کے لیے بندہ آپ سے عرض پرداز ہے۔ امید پیہم ہے کہ آپ اس کا ازالہ قرآن‌ و سنت سے فرمائیں گے۔
(المستفتی : ابرارالحق قریشی، ضلع احمد نگر)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سورج اور چاند کو گرہن لگنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تنبیہ فرماتے ہیں کہ جو قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ سورج سے روشنی اور چاند سے چاندنی عطا فرماتے ہیں وہی ان کو ماند کردینے پر بھی قادر ہیں۔ اور وہی چاند کو اس کی آخری تاریخوں میں انسانی آنکھوں سے اوجھل کردیتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں آپ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد سورج گرہن ہوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی آپ کے بیٹے کی وفات پر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عقیدے کی تردید فرما دی۔

بخاری شریف میں ہے :
بلاشبہ سورج اور چاند کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے ہیں، لیکن وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب تم سورج چاند گرہن دیکھو تو کھڑے ہوجاوٴ اور نماز پڑھو۔ (رقم : ١٠٤٢) اور ایک روایت میں صدقہ دینے کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔ (ابوداؤد، رقم : ١١)

یعنی سورج یا چاند گرہن کے وقت مسلمانوں کو اصل حکم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں، اور یہ حکم مردوں اور عورتوں (جن میں حاملہ عورتیں بھی ہیں) سب کے لیے ہے۔

گرہن سے متعلق عوام کے ایک طبقہ میں طرح طرح کی توہمات رائج ہیں۔ مثلاً : اس وقت کھانا نا کھانا، حاملہ عورت کا گھر کے کام کاج سے رکے رہنا، خصوصاً چھری کے استعمال سے اجتناب کرنا، اسی طرح اماوس کی رات میں ہمبستری کو نقصان دہ سمجھنا جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت مطہرہ میں گرہن یا اماوس کے وقت اس طرح کا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے، اور جہاں تک ہماری تحقیق ہے طبی لحاظ سے بھی ان اوقات میں مذکورہ اعمال کے کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ یہ تمام باتیں توہم پرستی کی ہیں اور سراسر باطل عقائد پر مبنی ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا مسلمانوں کے لیے ان باطل عقائد کا ترک کرنا ضروری ہے۔

قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ربیع الاول 1442