بدھ، 26 اپریل، 2023

زیر تعمیر مسجد میں نماز شروع کرنے کے بعد موقوف کرنا

سوال :

علمائے دین و مفتیان کرام سے مندرجہ ذیل مسئلے میں شرعی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
ایک زیرتعمیر مسجد جس کی بنیادی عمارت تین منزلہ تعمیر ہوچکی ہے۔ گنبد کی تعمیر ہوچکی ہے۔ مینار کی تعمیر جاری ہے۔ وضو خانہ اور استنجاء خانہ بھی بن چکے ہیں لیکن ٹائلس نہیں لگے ہیں۔ کھڑکی، فرش اور پلاسٹر وغیرہ کا کام باقی ہے۔ اس مسجد میں رمضان المبارک سے قبل عارضی طور پر پنج وقتہ نماز شروع کی گئی اور اس میں نماز جمعہ اور تراویح کا بھی اہتمام کیا گیا۔ مسجد کے ذمہ داران عیدالفطر کے بعد مسجد میں نماز بند کر دینا چاہتے ہیں اور پلاسٹر اور ٹائل وغیرہ کے کام مکمل کرنے کے بعد مسجد کو دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مسجد کے کچھ مصلیان کا کہنا ہے کہ نماز شروع ہونے کے بعد بند کرنا غلط ہوگا۔ مسجد میں نماز جاری رکھتے ہوئے بقیہ تعمیری کام بسہولت ہوسکتے ہیں۔ اور نماز ادا کرنے کے لئے جتنی ضرورت ہے اتنی تعمیر ہوچکی ہے اسی لئے نماز بند نہ کی جائے۔ چنانچہ دو سوالوں کے جوابات دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
١) نماز شروع ہونے کے بعد کیا نماز کو موقوف کیا جا سکتا ہے؟
٢) کیا اس مسجد میں آخری عشرے میں اعتکاف مسنون کیا جا سکتا ہے؟
(المستفتی : شاداب احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ مسجد کے لیے جگہ وقف ہے اور اس میں باقاعدہ نماز باجماعت ادا کی جاچکی ہے تو اب یہ جگہ مسجد شرعی بن چکی ہے۔ لہٰذا اب یہاں باجماعت پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام ہونا ضروری ہے خواہ چند لوگ ہی یہاں نماز کیوں نہ پڑھیں۔ بقیہ تعمیری کاموں کے لیے اذان اور جماعت کچھ دنوں کے لیے مکمل طور پر بند کردینا درست نہیں ہے۔

٢) جبکہ یہ جگہ شرعی مسجد بن چکی ہے تو پھر یہاں رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کا مسنون اعتکاف بھی کیا جائے گا۔

وَيَزُولُ مِلْكُهُ عَنْ الْمَسْجِدِ وَالْمُصَلَّى بِالْفِعْلِ وَ بِقَوْلِهِ جَعَلْته مَسْجِدًا) عِنْدَ الثَّانِي (وَشَرَطَ مُحَمَّدٌ) وَالْإِمَامُ الصَّلَاةَ فِيهِ بِجَمَاعَةٍ وَقِيلَ: يَكْفِي وَاحِدٌ وَجَعَلَهُ فِي الْخَانِيَّةِ ظَاهِرَ الرِّوَايَةِ۔ (شامی : ٤/٣٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 شوال المکرم 1444

منگل، 25 اپریل، 2023

بیٹی رحمت بیٹا نعمت کی تحقیق

سوال :

لڑکا رحمت ہے یا نعمت یا پھر لڑکی نعمت یا رحمت ہے؟ عام طور پر یہ جو جملہ کہا جاتا ہے۔ اس کی شرعی دلیل اور تفصیل بتا کر شکریہ کا موقع دیں۔
(المستفتی : مولوی شرجیل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ لڑکا نعمت اور لڑکی رحمت ہے۔ اس طرح کی کوئی حدیث نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک عربی مقولہ ہے جو ان الفاظ "البنات حسنات والبنون نعم" کے ساتھ عربی ادب کی بعض کتابوں میں منقول ہے۔ لہٰذا اس جملہ کو حدیث سمجھنا اور حدیث سمجھ کر اسے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ بیٹے اور بیٹیاں دونوں ہی اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے : "يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ،أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ۔ (سورۃ الشوری، آیت : ٤٩)
ترجمہ : وہ جس کو چاہتا ہے، لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، لڑکے دیتا ہے یا پھر ان کو ملا جلا کر لڑکے بھی دیتا اور لڑکیاں بھی، اور جس کو چاہتا ہے، بانجھ بنا دیتا ہے، یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے، قدرت کا بھی مالک ہے۔

اسی طرح حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں،  یا تین بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ اور اچھا معاملہ کرے، تو اس کی بدولت وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ایک بیٹی یا بہن پر بھی یہی فضیلت ہے۔ (ترمذی)

اس حدیث شریف کی بناء پر بعض بزرگانِ دین نے بیٹی کو رحمت سے تعبیر کردیا ہے کہ بیٹی کی اچھی پرورش اور ان کے ساتھ حسن سلوک پر بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، ورنہ فی نفسہ بیٹا اور بیٹی دونوں اللہ کی نعمت ہیں، اور دونوں کی بہترین دینی تربیت انہیں رحمت بھی بناسکتی ہے۔ نیز دونوں کے بارے میں بروز حشر سوال ہوگا۔

يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ،أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ۔ (سورۃ الشوری، آیت : ٤٩)

قال محمد بن سليمان : البنون نعمٌ، والبنات حسنات، والله عز وجل يحاسب على النعم، ويجازي على الحسنات۔ (بهجة المجالس وأنس المجالس لابن عبد البر : ١/١٦٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 شوال المکرم 1444

جمعرات، 20 اپریل، 2023

لشکر والی عیدگاہ جانے والوں سے اہم  گزارشات

✍️ مفتی محمد عامرعثمانی ملی
    (امام خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام! مسلمانوں کے سب سے بڑے تہوار عیدالفطر کی آمد آمد ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر نماز عیدالفطر ادا کرنے کے لیے شہر عزیز مالیگاؤں کا ایک بہت بڑا طبقہ لشکر والی عیدگاہ پہنچتا ہے۔ چونکہ یہ عیدگاہ غیرمسلموں کے علاقے میں ہے۔ لہٰذا یہاں جانے اور واپس آنے میں چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جنہیں زیر نظر مضمون میں ذکر کیا جارہا ہے۔

محترم قارئین! سب سے پہلی اور انتہائی اہم گزارش یہ ہے کہ نماز عیدالفطر کا جو وقت متعین کیا گیا ہے ہم اس وقت سے پہلے عیدگاہ پہنچ جائیں، بلاعذر شرعی اس میں تاخیر کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ تاخیر سے آنے والوں کی وجہ سے اگر نماز میں تاخیر کی جاتی ہے تو پہلے آنے والوں کو غیرمعمولی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اس بات کا خوب خیال رکھیں۔

عیدالفطر کی سنتوں میں ایک اہم سنت یہ ہے کہ عیدگاہ جانے سے پہلے طاق عدد میں چھوارے یا کھجور تناول کرلی جائے، اگر یہ میسر نہ ہو تو کوئی بھی میٹھی چیز کھالینا کافی ہے، اس موقع پر صرف کھجور یا چھوہارہ ہی کھانا سنت نہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہم نماز سے پہلے بطور ناشتہ سوئیاں یا پھینی وغیرہ کچھ بھی کھا کر عیدگاہ پہنچیں، بالکل خالی پیٹ عیدگاہ نہ جائیں کہ یہ عمل سنت کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن نماز عیدالفطر کے بعد ہمارے بہت سے نوجوان ایک عجیب سی حرکت یہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اُسی غیروں کے علاقے میں جہاں بھی کوئی کھانے پینے کوئی چیز فروخت ہورہی ہو وہاں اس طرح ٹوٹ پڑتے جیسے وہ چیز مفت مل رہی ہو یا پھر یہ بے چارے کئی دنوں کے بھوکے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ برادران وطن پر اس کا بہت غلط اثر پڑتا ہوگا اور وہ یہ سمجھتے ہوں گے بے چاروں نے ایک مہینہ بھوکے رہ کر گذارا ہے۔ اب جاکر انہیں جیسے ہی کھانے کی اجازت ملی ہے تو وہ کھانے پینے پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جب ہم گھر سے ناشتہ کرکے نکلے ہیں تو پھر دو تین گھنٹے ہم بغیر کھائے پیئے کیوں نہیں رہ سکتے؟ اور حال یہ ہے کہ ہماری ایک مہینہ دن بھر روزہ رکھنے کی مشق بھی ہے تو پھر چاند دکھنے کے دوسرے ہی دن صبح میں ہی ہماری بھوک قابو سے باہر کیوں ہوجاتی ہے؟ جبکہ نماز عیدالفطر کے بعد ہمیں آدھے گھنٹے کے بعد گھر پہنچ کر کھانا ہی کھانا ہے، جہاں ہمارے گھر کی خواتین بڑی محنت سے عمدہ کھانے پکا کر ہمارے انتظار میں ہوتی ہیں، اور ہم اوٹ پٹانگ، غیرمعیاری اور مہنگی چیزوں سے اپنی بھوک مار کر گھر پہنچتے ہیں۔ لہٰذا اب اس مرتبہ سے ہم پختہ ارادہ کرلیں کہ گھر سے ٹھیک ٹھاک ناشتہ کرکے نکلیں گے اور گھر آکر ہی کھانا کھائیں گے، تاکہ ہمارے وقار، سنجیدگی اور تعلیمات پر کوئی سوالیہ نشان نہ لگے۔

اسی طرح ایک طبقہ ان نوجوانوں کا ہوتا ہے جو فلموں کے پوسٹرس دیکھتا ہوا اور یہ پلاننگ کرتا ہوا لشکر والی عیدگاہ سے واپس ہوتا ہے کہ کون سے دن؟ اور کون سے شو میں فلم دیکھنے آنا ہے؟ جبکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ یہ ایسا بابرکت اور مقدس موقع ہوتا ہے کہ فرشتے رمضان المبارک میں کی گئی عبادات کے بدلے بندوں کو دئیے گئے اجر اور مغفرت کو دیکھ کر خوشیاں مناتے ہیں اور کھِل جاتے ہیں، لہٰذا اس مبارک موقع پر بالخصوص گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہوئے گھروں کی طرف لوٹنا چاہیے۔

لشکر والی عیدگاہ جانے والوں میں ایک طبقہ وہ بھی ہوتا ہے (جو اگرچہ بہت معمولی ہوتا) جو ایسے علاقوں سے عیدگاہ آتا جاتا ہے جہاں غیرمسلم عورتیں دکھائی دیں اور ان لوگوں کو کوئی غیر اخلاقی حرکت کرنے یا کوئی غیرشرعی جملہ کہنے کا موقع ملے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو بھی اس سے بچنا چاہیے کہ یہ حرکت ناجائز اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بدنام کرنے والی ہے۔ اور ایسے حالات میں اس کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔

بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو رمضان المبارک میں صدقہ فطر ادا نہیں کر پاتے وہ عیدگاہ جاتے ہوئے سڑکوں پر بھیک مانگنے والے غیرمسلموں کو صدقہ فطر ادا کرتے ہوئے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں غریب مسلمانوں کی کمی نہیں ہے، اور اصل صدقہ فطر کے حقدار غریب مسلمان ہیں، لہٰذا کوشش تو یہی ہو کہ نماز سے پہلے پہلے غریب مسلمانوں کو صدقہ فطر ادا کردیا جائے، لیکن اگر کوئی نماز سے پہلے مستحق مسلمانوں کو صدقہ فطر ادا نہیں کرسکا تو وہ نماز کے بعد بھی مستحق مسلمانوں کو ہی صدقہ فطر ادا کرے، غیرمسلموں کو صدقہ فطر نہ دے۔

امید ہے کہ معزز شہریان مذکورہ بالا تمام گذارشات پر توجہ فرمائیں گے اور اس پر پوری طرح عمل کرکے اپنے بہترین مسلمان ہونے کا ثبوت دیں گے جس پر وہ بلاشبہ اجر وثواب کے مستحق بھی ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سلیم الفطرت مسلمان بنائے اور ہمیں اخلاق حسنہ سے مالا مال فرمائے، ناجائز افعال، بد اخلاقی اور بد تہذیبی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

منگل، 18 اپریل، 2023

لوبھی گاؤں میں لباڑ بھوکا نہیں مرتا

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! آئے دن شہر میں یہ بات سننے اور پڑھنے میں آتی ہے کہ فلاں کمپنی یا فلاں شخص نے لوگوں کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور لوگوں کے لاکھوں، کروڑوں روپے لے کر منظر عام سے غائب ہوگئے۔ چنانچہ پیش نظر مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ایسا کیونکر ہوتا ہے؟ اور ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

محترم قارئین! شہری سطح پر ایک کہاوت مشہور ہے کہ "لوبھی گاؤں میں لباڑ بھوکا نہیں مرتا" جس کا مطلب یہ ہے کہ لالچیوں کے گاؤں میں دھوکہ بازوں کی بڑی چاندی ہوتی ہے، وہ ایسی جگہ کبھی بھوکے نہیں مرتے بلکہ وہ لالچیوں اور بھولے بھالے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس کہاوت کو ہم نے گوگل پر بھی سرچ کیا، لیکن گوگل پر اس کا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔ یعنی یہ اردو زبان کی کہاوت نہیں ہے بلکہ یہ خالص مالیگاؤں کی کہاوت ہے جسے ہماری معلومات کے مطابق مالیگاؤں کے ہی ایک منجھے ہوئے مرحوم سیاست دان نے کہا تھا، اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات کوئی ایسا شخص ہی کہہ سکتا ہے جو شہر کی رگ رگ سے واقف ہو۔ خلاصہ یہ کہ یہ کہاوت بالکل سچی اور مبنی برحقیقت ہے۔ جسے شہر میں اکثر سنا جاتا ہے بلکہ اس کا واضح طور پر ظہور ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

آج آپ کو گلی گلی مضاربت اور پارٹنر شپ کے نام پر پیسہ لے کر نفع بول کر سود دینے والے مل جائیں گے۔ ایک لاکھ پر ماہانہ چار ہزار سے لے کر دسیوں ہزار تک دینے کا لالچ دیا جاتا ہے اور پھر دو چار مہینے نفع کے نام پر سود دے کر بقیہ رقم لے کر نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں یا پھر کچھ گھاگ اور ڈھیٹ قسم کے لوگ تو شہر میں ہی رہتے ہیں، لیکن مجال ہے کہ آپ ان سے اپنی اصل رقم وصول سکیں۔

معلوم ہونا چاہیے کہ عموماً مضاربت اور پارٹنر شپ کے نام پر شہر میں سود کا لین دین ہورہا ہے جو شرعاً ناجائز اور ملعون عمل ہے۔ اور اس کی وجہ سے تجارت اور روزی میں جو نحوست اور بے برکتی آجاتی ہے وہ الگ نقصان ہے۔

باخدا ہم ایسے میں معاملات میں متاثر ہونے والوں اور ٹھگے جانے والوں کے زخم پر نمک چھڑکنا نہیں چاہتے بلکہ ہم ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور انہیں دعوتِ محاسبہ دے رہے ہیں کہ آخر کون سی وجوہات ہیں کہ جو ہم ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جارہے ہیں؟ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ کیا ہماری آمدنی میں کہیں کوئی کمی کوتاہی ہے؟ کیونکہ ہمارے شہر میں ایک کہاوت یہ بھی کہی جاتی ہے کہ سُم کا مال شیطان کھاتا ہے، جو حقیقت بھی ہے کہ حرام مال، غلط جگہوں پر ہی جاتا ہے۔ کیا ہم زکوٰۃ باریکی کے ساتھ مکمل طور پر ادا کررہے ہیں؟ کیونکہ جس مال کی زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے وہ محفوظ ہوجاتا ہے۔ کیا ہم استطاعت ہونے کے بعد بھی مستحقین کی نفلی صدقات سے مدد نہیں کررہے ہیں؟ کیونکہ اخلاص کے ساتھ صدقہ کرنے سے بلاشبہ مال بڑھتا ہے۔ کیا ہزاروں، لاکھوں روپے زائد موجود ہونے کے بعد بھی ہم اچھے، معتبر اور انتہائی ضرورت مند لوگوں کو بھی قرض کیوں نہیں دیتے ہیں؟ جبکہ قرض دینے کا اجر تو بہت بڑھا ہوا ہے۔ اور بلاشبہ یہ بھی مال کی حفاظت کا ذریعہ بنے گا۔ ان شاءاللہ

آج بہت سے لوگوں کے پاس اپنی ضرورت سے زائد لاکھوں روپے نقد پڑے ہوتے ہیں، جس سے وہ کسی مستحق کی مدد کرنے، ضرورت مندوں کو قرض دینے کے بجائے اسے اور بڑھانے کے چکر میں شرعی رہنمائی لیے بغیر ایسے لباڑوں کے دھوکہ میں آجاتے ہیں۔ جس سے ان کی کیفیت "نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم" جیسی بن جاتی ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اخیر میں ہماری شہریان سے انتہائی عاجزانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ کسی بھی کمپنی اور فرد کے پاس مضاربت وغیرہ کے نام پر پیسے لگائیں ہی نہیں۔ کیونکہ اس طرح کے معاملات میں نوے/ پچانوے فیصد معاملات یا تو غیرشرعی ہوتے ہیں یا پھر ان میں شروع سے ہی دھوکہ کی نیت ہوتی ہے یا پھر بعد میں دھوکہ کردیا جاتا ہے۔ اور اگر واقعتاً کوئی انتہائی معتبر شخص یا کمپنی ہوتو اس کے تجارتی معاملات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ یہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں؟ اور اس کے لیے جید مفتیان کرام کے ساتھ ساتھ وکلاء سے بھی رہنمائی ضرور حاصل کی جائے۔ اور اس میں بھی اندھا دھند کسی پر اعتماد کرلینا اور گھر، کارخانہ، زمین بیچ کر اس میں لاکھوں روپے لگادینا انتہائی حماقت اور بے وقوفی کی بات ہے، کیونکہ کسی کی پیشانی پر لکھا ہوا نہیں ہوتا کہ وہ کب دھوکہ دے دے؟ لہٰذا اگر کبھی خدانخواستہ فراڈ اور دھوکہ دہی کے معاملات سامنے آ بھی جائیں تو بندہ کنگال ہوکر سڑک پر نہ آ جائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی مال کی حرص سے حفاظت فرمائے، ہر معاملات میں شریعت کو مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہم سب کو رزق حلال اور طیب عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


پارٹنرشپ اور کہیں پیسے لگاکر نفع میں حصہ داری کرنے والے کاروبار کی شرعی حیثیت کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے درج ذیل جواب ملاحظہ فرمائیں :

مضاربت اور مشارکت کے کاروبار کی شرعی حیثیت

اتوار، 16 اپریل، 2023

عید کے دن ملنے والے یتیم بچے کے واقعہ کی تحقیق

سوال :

محترم مفتی صاحب! عوام الناس اور گویوں میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے، اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے۔ (واقعہ مختصرا)
ہمارے نبی ﷺ کو عید کے دن عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے، ایک بچہ روتے ہوئے ملا، جو یتیم تھا، نبی پاک ﷺ اسے اپنے گھر لے آئے، نئے کپڑے پہنائے اور اس سے کہا کہ آج سے تو یتیم نہیں بلکہ تیرا والد میں خود ہوں اور تیری ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں۔
(المستفتی : نعیم سویرا، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے کہ یہ واقعہ عوام الناس اور گویوں میں مشہور ہے تو بلاشبہ حقیقت میں ایسا ہی ہے کہ یہ واقعہ عوام الناس اور قصہ گو واعظین سے ہی سننے میں آئے گا ورنہ محققین علماء کرام سے یہ واقعہ سننے کو نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ احادیث کی تحقیق کرنے والے ماہر فن علماء نے اس واقعہ کو موضوع (من گھڑت) لکھا ہے۔ لہٰذا اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوم العيد لأجل صلاة العيد
فرأى الصبيان يلعبون ووجد صبيا واقفاً يبكي فقال له النبي صلى الله عليه وسلم مايبكيك أيها الصبي فقال له الصبي وهو لم يعرف إنه النبي صلى الله عليه وسلم دعني أيها الرجل فإن ابي مات في أحد الغزوات مع رسول الله  صلى الله عليه وسلم وأمي تزوجت بغير أبي فأخذ داري وأكل مالي فصرت كما تراني عاريا جائعا حزيناً ذليلا فلما أتى يوم العيد رأيت الصبيان يلعبون فتشدد حزني فبكيت فقال له النبي صلى الله عليه وسلم أما ترضى أن أكون لك أبا وعائشة أما وفاطمة أختا  وعلي عما والحسن والحسين إخوة فقال له الصبي كيف لا أرضى يارسول الله فأخذه النبي صلى الله عليه وسلم وتوجه به إلى داره فأطعمه وألبسه لباس العيد فخرج الصبي يلعب مع الصبيان فقال له الصبيان كنت واقفاً بيننا الآن تبكي وما يضحكك الآن فقال لهم كنت جائعا فشبعت وكنت عاريا فكسيت وكنت بغير ابي فأصبح رسول الله أبي وعائشة أمي وفاطمة أختي وعلي عمي والحسن والحسين إخوتي  فقال له الصبيان ياليت آباءنا ماتوا في أحد الغزوات مع رسول الله صلى الله عليه.

وقصة اليتيم التي تقرأ علي المنابر ايام الاعياد وفيها:  وجده يبكي يوم العيد فقال له:ايها الصبي! مالك تبكي؟ فقال: دعني فان ابي مات في الغزو مع رسول الله، وليس لي طعام ولا شراب، فاخذه بيده وقال: اما ترضي ان اكون لك ابا، وعائشة اما؟ الخ.

وقد فتشت عليها كثيرا في الكتب فلم اجدها الا في كتاب (التحفة المرضية) وهو قد حوي من الخرافات والاكاذيب والترَّهات شيئا كثيرا،وقد جعلها الرويني في ديوانه خطبة لعيد الفطر، فاحذروا الكذب علي رسول الله فوق المنابر.

المصدر: السنن والمبتدعات
المؤلف: الشقيريؒ
الصفحة: 107
الطبع: دار الشريعة، قاهرة، مصر.

المصدر: التصدي للبدع والاباطيل
المؤلف: أشرف بن إبراهيم قطقاط
المجلد: 2
الصفحة: 130
الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رمضان المبارک 1444

ہفتہ، 15 اپریل، 2023

مفت کا گیہوں صدقہ فطر میں دینا

سوال :

مفتی صاحب! فری میں راشن کارڈ پر اناج مل رہا ہے، اگر لوگ فری میں اناج صدقہ فطر میں ادا کریں تو ادا ہوگا؟ اس کا جواب دیجئے۔
(المستفتی : حافظ رمضان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : راشن کارڈ پر مفت میں ملنے والا گیہوں اس لائق ہو کہ اسے کھایا جاسکتا ہے تو پھر اسے صدقہ فطر میں دینا جائز ہے، جو لوگ ایک فرد کی طرف سے پونے دو کلو گیہوں کسی غریب مسکین کو دے دیں تو ان کا صدقہ فطر ادا ہوجائے گا۔ اگرچہ زیادہ بہتر یہی ہے کہ صدقات وغیرہ میں خوب اچھا مال دیا جائے یا پھر مارکیٹ کے اعتبار سے پونے دو کلو گیہوں کی قیمت ادا کی جائے تاکہ غرباء اپنی دیگر ضروریات کی چیزیں خرید لیں۔

وھی نصف صاع من بر او دقیقہ او سویقہ او صاع تمر او زبیب او شعیر۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی : ۳۹۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 رمضان المبارک 1444

جمعہ، 14 اپریل، 2023

زائد ادا کی گئی زکوٰۃ کو دوسرے سال شمار کرنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ میں نے گذشتہ سال واجب زکوٰۃ سے زیادہ زکوٰۃ نکال دی تھی تو کیا زائد ادا کی گئی زکوٰۃ کی رقم کو میں اِس سال کی زکوٰۃ میں جوڑ سکتا ہوں؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد انس، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں آپ نے گذشتہ سال جو زائد رقم زکوٰۃ میں ادا کی ہے اسے آپ اِس سال کی زکوٰۃ میں جوڑ سکتے ہیں۔

اسی طرح اگر کسی نے غلطی سے غیر مالِ زکوٰۃ پر زکوٰۃ دے دی ہو جیسے رہائشی زمین کی زکوٰۃ نکال دی تو اسے اگلے سال کی زکوٰۃ میں شمار کر سکتا ہے۔

عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعُمَرَ إِنَّا قَدْ أَخَذْنَا زَکَاةَ الْعَبَّاسِ عَامَ الْأَوَّلِ لِلْعَامِ۔ (سنن الترمذي، رقم : ۶۷۴)

ولو مرّ بأصحاب الصدقات فأخذوا منہ أکثر مما علیہ ظنًّا منہم أن ذٰلک علیہ لما أن مالہ أکثر یحتسب الزیادۃ للسنۃ الثانیۃ۔ (المحیط البرہاني : ٣/۲۲۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 رمضان المبارک 1444

بدھ، 12 اپریل، 2023

جماعت میں جانا افضل یا اعتکاف کرنا؟

سوال :

مفتی صاحب! جماعت میں جانا افضل ہے یا رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا؟ ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ جماعت میں جانا افضل ہے۔ لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ مفصل اور مدلل رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عبدالرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تبلیغی جماعت کی محنت دین سیکھنے اور سکھانے کی ایک مفید اور بہتر شکل ہے، لیکن اس کا درجہ شرعاً صرف ایک جائز اور مباح عمل کا ہے، فرض، واجب یا سنت کا نہیں۔ جبکہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ کیا ہے جو ایک اہم اور عظیم سنت ہے۔ لہٰذا ایک جائز عمل کو ایک اہم سنت سے افضل کہنا قطعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت ہے اور تبلیغی جماعت میں جانا سنت نہیں، ایک مباح اورجائز کام ہے، ظاہر ہے کہ سنت کو ترجیح دی جائے گی، جماعت میں جانے کے لیے پورا سال ہے جب چاہیں جاسکتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 150292)

ملحوظ رہنا چاہیے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی محلہ کا ایک شخص بھی اگر اعتکاف کرلے تو پورے محلہ کے لیے کافی ہوجائے گا، لہٰذا اگر کوئی آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کے بجائے جماعت میں چلا جائے تو اس کا یہ عمل جائز تو ہے، لیکن اگر وہ یہ سمجھ کر جماعت میں جائے کہ جماعت میں جانا اعتکاف سے زیادہ فضیلت والا عمل ہے تو اس کا ایسا سوچنا، سمجھنا اور کہنا بالکل غلط اور گمراہی کی بات ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو توبہ و استغفار کرکے اپنی اصلاح کرلینا چاہیے۔

من أصر علیٰ أمر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال۔ (مرقاۃ، باب الدعاء فی التشہد، الفصل الأول، ۲/۳۴۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1444

زیادہ مستحق کے انتظار میں زکوٰۃ روک کر رکھنا

سوال :

محترم مفتی صاحب! اس سال کی میں نے زکوٰۃ نکال لی ہے، تو کیا میں اس رقم کو فوری طور پر اس کی مد میں خرچ کردوں یا زیادہ مستحق افراد کے لیے کچھ دن روک سکتا ہوں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : اعجاز احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اصل حکم تو یہی ہے کہ سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ ادا کردی جائے، لیکن اگر زکوٰۃ کی رقم اپنی مملوکہ رقم سے حساب لگاکر الگ کردی گئی اور زیادہ مصیبت زدہ اور مستحق شخص کے انتظار میں زکوٰۃ روک کر رکھے تو ایک سال تک اس کی گنجائش ہے، لیکن ایک سال سے زیادہ تاخیر نہ کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا۔

(قَوْلُهُ فَيَأْثَمُ بِتَأْخِيرِهَا إلَخْ) ظَاهِرُهُ الْإِثْمُ بِالتَّأْخِيرِ وَلَوْ قَلَّ كَيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ لِأَنَّهُمْ فَسَّرُوا الْفَوْرَ بِأَوَّلِ أَوْقَاتِ الْإِمْكَانِ. وَقَدْ يُقَالُ الْمُرَادُ أَنْ لَا يُؤَخِّرَ إلَى الْعَامِ الْقَابِلِ لِمَا فِي الْبَدَائِعِ عَنْ الْمُنْتَقَى بِالنُّونِ إذَا لَمْ يُؤَدِّ حَتَّى مَضَى حَوْلَانِ فَقَدْ أَسَاءَ وَأَثِمَ اهـ فَتَأَمَّلْ۔ (شامی : ٢/٢٧٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1444

جمعہ، 7 اپریل، 2023

رمضان اور عید میں پہنے گئے نئے کپڑوں کا حساب؟

سوال :

مفتی صاحب رمضان یا عید پر پہنے ہوئے نئے کپڑوں کا حساب نہیں ہوگا، یا اللہ کی دی ہوئی نعمتیں جو استعمال کی گئی خاص رمضان المبارک میں اس کا حساب نہیں ہوگا ایسی کچھ باتیں لوگوں میں گردش کرتی ہوئی سنی گئی ہے
اور کچھ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رمضان میں ہر جمعہ نیا کپڑا پہن لیتے ہیں کیوں کہ ان کا حساب آخرت میں نہیں لیا جائیگا۔ ایسی باتوں پر اعتماد کرنا کس حد تک درست ہے؟
(المستفتی : کاشف انجینئر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : رمضان المبارک یا عید کے دن پہنے جانے والے نئے لباس کا حساب نہیں ہوگا، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
عید کے دن پہنے جانے والے نئے کپڑوں کا آخرت میں کوئی حساب نہیں ہوتا“ اس سلسلے میں ہم کو کوئی حدیث نہیں مل سکی؛ البتہ عید کے دن نیا یا پہلے سے موجود کپڑوں میں سے اچھا کپڑا پہننا مستحب ہے۔ (رقم الفتوی : 68069)

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ بالکل بے بنیاد اور من گھڑت ہیں، لہٰذا اس پر اعتماد کرنا اور اسے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ حساب لینے پر آئیں تو ایک ایک بوند پانی کا حساب لیں گے اور درگذر کرنے پر آئیں تو بڑے بڑے گناہ گاروں کے اعمال نامہ کو دیکھ کر اسے نظرانداز کردیں گے۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي بَعْضِ صَلَاتِهِ اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يَسِيرًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَا الْحِسَابُ الْيَسِيرُ قَالَ أَنْ يَنْظُرَ فِي كِتَابِهِ فَيَتَجَاوَزَ عَنْه إِنَّهُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَوْمَئِذٍ يَا عَائِشَةُ هَلَكَ وَكُلُّ مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ يُكَفِّرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ عَنْه حَتَّى الشَّوْكَةُ تَشُوكُهُ۔ (مسند احمد، رقم : ٢٦٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رمضان المبارک 1444

بدھ، 5 اپریل، 2023

یاترا پر جارہے غیرمسلموں پر پھول نچھاور کرنا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین گذشتہ دنوں کل جماعتی تنظیم کی جانب سے ہندوؤں کے جلوس کے استقبال اور انکے دھرم گرو پر پھول برسانے والوں کے بارے میں؟ کیوں کہ عوام الناس میں یہ چرچا ہورہی ہے کہ استقبال کرنے والے پھول برسانے والے اسلام سے خارج ہو گئے ہیں؟ برائے کرم جواب فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عرفان الحراء، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہندوؤں کا ایک مذہبی عمل ہے کہ وہ اپنے مقام سے پیدل یا سواری پر چلتے ہوئے ایک ایسی جگہ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں جہاں ان کی مخصوص پوجا پاٹ ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے جاتے ہیں، لہٰذا بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اگر ہمارے شہر سے گزر رہے ہیں تو وہ امن وسکون کے ساتھ یہاں سے گزر جائیں اور انہیں کسی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہ ہو، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مذہبی رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کے نام پر ہم ان کا استقبال کرنے لگیں اور ان پر پھول نچھاور کرنے لگیں، ایسا کرنے والوں نے اگر یہ عمل انہیں حق سمجھتے ہوئے تعظیمًا نہیں کیا ہے تو ان پر کفر کا حکم تو نہیں ہے، لہٰذا عوام کی بات درست نہیں ہے کہ یہ لوگ اسلام سے خارج ہوگئے، لیکن اس عمل سے مشرکین کی مذہبی معاملہ میں حوصلہ افزائی ضرور ہوتی ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام کام ہے، لہٰذا جس تنظیم کے کارکنان نے بھی یہ کام کیا ہے ان پر ضروری ہے کہ وہ ندامت اور شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کریں اور بہتر یہ ہے کہ اعلانیہ طور پر بھی اس عمل سے براءت کا اظہار کر دیں تاکہ دیگر مسلمانوں کو بھی اطمینان ہو اور آئندہ کوئی اور اس طرح کی حرکت نہ کرے۔

قال اللہ تعالیٰ : وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلیَ الاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (سورۃ المائدہ، آیت :٢)

عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال : من کثر سواد قوم فہو منہم، ومن رضی عمل قوم کان شریکاً في عملہ۔ (کنز العمال، ۹؍۲۲، رقم الحدیث: ۲۴۷۳۵ مکتبۃ التراث الإسلامي حلب)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 رمضان المبارک 1444