پیر، 29 جنوری، 2024

بگ باس winner کی خوشی میں جشن

            حماقت سے بھرپور ایک ناجائز عمل

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! کل رات سونے کی تیاری چل رہی تھی کہ اچانک پے در پے پٹاخوں کی آواز سے ذہن منتشر ہوگیا، اور یہ خیال آیا کہ رات میں ساڑھے بارہ بجے کے بعد کون پٹاخے پھوڑ رہا ہے؟ تب ہی واٹس اپ کے ذریعے اطلاع ملی کہ انڈین ٹی وی پر جاری ایک لائیو شو "BIGG BOSS" میں ایک مسلم نام رکھنے والے "Contestant" کو "winner" قرار دیا گیا ہے، جس کی خوشی میں ہمارے شہر سمیت دیگر علاقوں کے بعض مسلمان بھی پٹاخے بازی کررہے ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ "BIG BOSS" نامی شو ایک ایسا واہیات اور حیاسوز "LIVE SHOW" ہے، جس میں چند مرد وعورتوں کو ایک گھر میں کچھ دنوں کے لیے بند کردیا جاتا ہے اور ان کی چوبیس گھنٹے کیمرے سے نگرانی ہوتی ہے، یہ لوگ اس گھر میں رہتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے بھی رہتے ہیں اور محبت کی پینگیں بھی بڑھا لیتے ہیں، اور ناچ گانے اس شو کا اہم حصہ ہیں، نیز انہیں مختلف ٹاسک دئیے جاتےجنہیں پورا کرنا ہوتا ہے۔ کسی غلطی کی وجہ سے گھر کا ایک ایک ممبر گھر سے باہر ہوتا رہتا ہے اور اخیر میں دو لوگوں کو ووٹ کی بنیاد پر فاتح قرار دیا جاتا ہے اور اسے لاکھوں روپے بطور انعام دئیے جاتے ہیں۔

اس شو کے contain سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ شرعاً یہ ایک ناجائز اور حرام شو ہے جس میں حصہ لینا، دیکھنا، دکھانا اور ان میں سے کسی بھی ممبر کی سپورٹ کرنا اور اسے ووٹ دینا سب ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس پر مزید حماقت اور بے وقوفی یہ کرنا کہ اگر کوئی ممبر خواہ وہ مسلم نام رکھنے والا ہی کیوں نہ ہو اگر وہ جیت جائے تو اس کی خوشی میں آتش بازی اور پٹاخے بازی کرنا دوہرے گناہ کی بات ہے، ایک تو پٹاخے بازی ویسے ہی متعدد گناہوں پر مشتمل عمل ہے اور اگر اسے کسی ناجائز خوشی میں کیا جائے تو اس کی قباحت اور شناعت بہت بڑھ جاتی ہے۔

ابھی چار دن ہوا ہے کہ ہماری ایک مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کرکے اس کا افتتاح کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سنجیدہ اور باشعور مسلمانوں کے دل ابھی سخت صدمہ سے دوچار ہیں، سی اے اے کی تلوار سر پر لٹکی ہوئی ہے۔ اور ہمارے بعض نوجوان ان سب سے بالکل بے خبر ایک انتہائی فضول، ناجائز اور حرام شو میں کسی کی جیت کا جشن منا رہے ہیں۔

اگر اس طرح کے فضول اور برائیوں سے لبریز شو میں کسی مسلمان کی جیت پر جشن مناکر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ انتہاء پسند اور متعصب غیرمسلموں کو چِڑھا لیں گے اور انہیں دلی تکلیف پہنچائیں گے تو یہ آپ کی خام خیالی اور انتہاء درجہ کی بے وقوفی ہے، وہ تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ مسلمان اسی طرح کے فضول اور ناجائز کاموں میں لگے رہیں، تاکہ وہ دین کے ساتھ دنیا سے بھی دور ہوتے رہیں، اور اپنے رب کی ناراضگی مول لے کر اس کی رحمت اور مدد سے دور ہو جائیں۔

اگر آپ کو انہیں زیر کرنا ہے تو آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور آپ کے اخلاق وعادات کو اپنانا ہوگا۔ انہیں اپنا گرویدہ بنانا ہے تو خود بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے انہیں اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرانا پڑے گا۔ اگر انہیں ہرانا ہے تو دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم حاصل کرکے ان سے دو قدم آگے جانا ہوگا۔ اس طرح کے فضول اور منکرات سے بھرے ہوئے مقابلے میں آپ کا جیتنا نہ تو دنیا میں کوئی معنی رکھتا ہے، اور نہ ہی آخرت میں اس کا کوئی فائدہ ملنے والا ہے، بلکہ آخرت میں تو ایسے اعمال پر عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔

ناچ گانوں اور بے حیائی کے کاموں میں ملوث ہمارے بعض نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ قوموں کا عروج جہد مسلسل اور میدانِ کارزار کے لوازمات میں مہارت اور استقامت سے ہوتا ہے۔ طاؤس ورباب یعنی ناچ گانوں اور عیش وعشرت میں پڑجانا کسی بھی قوم کے زوال کا اہم سبب ہے۔

اسی کو اقبال نے کہا ہے کہ :

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حالات کی سنگینی کو سمجھ کر اس کے عین مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

جمعرات، 25 جنوری، 2024

جے شری رام کہنے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب !جئے شری رام کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ مطلب باتوں میں اور کچھ لوگ مذاق سے بھی کہتے ہیں، اور کیا یہ کفریہ جملہ ہے؟
(المستفتی : انظرکلیم، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : لغت میں "جے" کے معنی "زندہ باد" کے آتے ہیں، اور "شری" کا لفظ ادب کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے معنی "صاحب" اور "جناب" کے ہوتے ہیں۔ اور "رام" ہندو مذہب میں ان کے ایک معبود اور بھگوان کا نام ہے۔ پس "جے شری رام "کا معنی ہوا"رام بھگوان زندہ باد"۔ یہ جملہ ہندؤوں کا خالص مذہبی نعرہ ہے اور ان کے شعائر میں سے ہے اور یہ کفریہ جملہ ہی ہے۔ لہٰذا جو شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے یہ جملہ کہہ دے تو اس پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہوتو تجدید نکاح لازم ہے۔ البتہ اگرغلطی سے کوئی یہ جملہ کہہ دے یا اگر کسی کی بات نقل کرنا ہوتو پھر اس میں کوئی گناہ نہیں۔ اسی طرح ان کا مذاق اڑاتے ہوئے بھی یہ جملہ نہیں کہنا چاہیے، تاہم اگر کسی نے کہہ دیا تو اس صورت میں اس پر ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی، اسے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

وَمَنْ تَكَلَّمَ بِهَا مُخْطِئًا أَوْ مُكْرَهًا لَا يَكْفُرُ عِنْدَ الْكُلِّ۔ (شامی : ٤/٢٢٤)

(وَشَرَائِطُ صِحَّتِهَا الْعَقْلُ) وَالصَّحْوُ (وَالطَّوْعُ) فَلَا تَصِحُّ رِدَّةُ مَجْنُونٍ، وَمَعْتُوهٍ وَمُوَسْوِسٍ، وَصَبِيٍّ لَا يَعْقِلُ وَسَكْرَانَ وَمُكْرَهٍ عَلَيْهَا، وَأَمَّا الْبُلُوغُ وَالذُّكُورَةُ فَلَيْسَا بِشَرْطٍ بَدَائِعُ۔ (شامی : ٤/٢٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 رجب المرجب 1445

اکاؤنٹ استعمال کرنے پر اجرت کا لین دین


سوال :

ایک آدمی شیئرز مارکیٹ میں زیادہ انویسٹ کرتا رہتا ہے، اور اچھا نفع ملتا ہے تو شیئرز کی خریدوفروخت کرتا رہتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ اسکا انویسمنٹ بڑا ہوتا ہے اور رقم بھی بڑی ہوتی ہے اور شیئرز کے خریدوفروخت کے دوران جو رقم اسکے بینک اکاؤنٹ میں آتی ہے وہ بڑی مقدار میں آتی ہے اور بینک میں متعین ہوتا ہے اتنے روپیوں کا ہی ٹرانزیکشن ہونا چاہیے، اگر بڑھ جاتا ہے تو وہ آدمی حکومت کی نظروں میں آجاتا ہے، تو وہ شخص اس سے بچنے کے لئے دوسرے آدمی کا اکاؤنٹ استعمال کرتا ہے اور وہ آدمی شیئرز کی خریدوفروخت سے جو نفع حاصل ہوتا ہے اس سے وہ اس اکاؤنٹ والے شخص کو کچھ رقم اس نفع میں سےغیر متعین دے دیتا ہے، آیا اس شخص کا ایسا حیلہ کرنا درست ہے؟ اور نفع میں سے دوسرے شخص کو دینا کیسا ہے؟ اور اس شخص کا وہ پیسے لینا کیسا ہے؟ اور اکاؤنٹ والے شخص کی نفع کی نیت سے اکاؤنٹ کو دینا نہیں ہے بلکہ اس نے تو تبرع کے طور پر دیا ہے۔
(المستفتی : حامد، پالن پور)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اپنے کسی کام کے لیے دوسرے شخص کا بینک اکاؤنٹ استعمال کرنا جائز ہے۔ اور یہ معاملہ باقاعدہ اجرت طے کرکے بھی کیا جاسکتا ہے اور بغیر اجرت طے کیے بھی کیا جاسکتا ہے۔ یعنی بطور ہبہ اور گفٹ بھی جس کا اکاؤنٹ استعمال کیا جارہا ہے اسے کچھ رقم دی جاسکتی ہے۔ یا پھر پہلے ہی کوئی رقم بطور اجرت متعین کرکے دوسرے شخص کا اکاؤنٹ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

البتہ دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ اگر اجرت متعین نہ کی تو مال کے ہلاک ہونے کی صورت میں جس کا اکاؤنٹ استعمال کیا جارہا ہے وہ ضامن نہیں ہوگا، اور اگر اجرت مقرر کی گئی ہو تو مال کی ہلاکت کی صورت میں اُس پر ضمان آئے گا اور اسے یہ رقم بہرحال ادا کرنا پڑے گا۔

(الْوَدِيعَةِ)الْأَمَانَةُ وَهِيَ فِي اللُّغَةِ مُشْتَقَّةٌ مِنْ الْوَدْعِ وَهُوَ التَّرْكُ وَفِي الشَّرِيعَةِ مَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ (قَوْلُهُ الْإِيدَاعُ هُوَ تَسْلِيطُ الْغَيْرِ عَلَى حِفْظِ مَالِهِ) يَعْنِي صَرِيحًا أَوْ دَلَالَةً۔ (البحر الرائق : ٧/٢٧٣)

(الْإِيدَاعُ هُوَ تَسْلِيطُ الْغَيْرِ عَلَى حِفْظِ مَالِهِ الْوَدِيعَةُ مَا يُتْرَكُ عِنْدَ الْأَمِينِ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَعَلَى الْعَبْدِ أَنْ يَسْأَلَ التَّوْفِيقَ عَلَى حِفْظِ وَدِيعَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَعَلَى حِفْظِ جَمِيعِ الْأَمَانَاتِ فَإِنَّهُ فَرْضٌ قَالَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَهُ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «أَدِّ الْأَمَانَةَ إلَى مَنْ ائْتَمَنَكَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَك» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} [النساء: 58] وَحِفْظُهَا يُوجِبُ سَعَادَةَ الدَّارَيْنِ وَالْخِيَانَةُ تُوجِبُ الشَّقَاءَ فِيهِمَا قَالَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «الْأَمَانَةُ تَجُرُّ الْغِنَى وَالْخِيَانَةُ تَجُرُّ الْفَقْرَ۔ (تبيين الحقائق : ٥/٧٦)

بِخِلَافِ الْمُودِعِ إذَا شَرَطَ لِلْمُودَعِ أَجْرًا عَلَى حِفْظِ الْوَدِيعَةِ أَنَّ لَهُ الْأَجْرَ؛ لِأَنَّ حِفْظَ الْوَدِيعَةِ لَيْسَ بِوَاجِبٍ عَلَيْهِ؛ فَجَازَ شَرْطُ الْأَجْرِ، وَأُجْرَةُ الْحَافِظِ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهَا مُؤْنَةُ الْحِفْظِ وَالْحِفْظُ عَلَيْهِ۔ (بدائع الصنائع : ٦/١٥١)

الْمُودِعُ إذَا شَرَطَ الْأُجْرَةَ لِلْمُودَعِ عَلَى حِفْظِ الْوَدِيعَةِ صَحَّ وَلَزِمَ عَلَيْهِ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ۔ (الفتاوى الہندیۃ : ٤/٣٤٢)

فَلَا تُضْمَنُ بِالْهَلَاكِ إلَّا إذَا كَانَتْ الْوَدِيعَةُ بِأَجْرٍ أَشْبَاهٌ مَعْزِيًّا لِلزَّيْلَعِيّ۔ (شامی : ٥/٦٦٤)

فَأفَاد أَن الْوَدِيعَة بِأَجْر مَضْمُونَة اتِّفَاقًا وَبلا أجر غير مَضْمُونَة اتِّفَاقًا. قره عين الأخيار لتكملةَ۔ (شامی : ٨/٤٧٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 رجب المرجب 1445

منگل، 23 جنوری، 2024

یوم آزادی و یوم جمہوریہ کے یہ ہلڑباز نوجوان

                  خدارا انہیں روک لیجئے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں صرف مسجدوں، میناروں، علماء، حفاظ اور تعلیم یافتہ افراد کا شہر نہیں ہے، بلکہ یہاں ایک ایسی مخلوق بھی بستی ہے جسے نہ تو دین سے کچھ لینا ہے نہ دنیا سے اور نہ ہی ان میں اخلاق، سنجیدگی اور شعور نام کی کوئی چیز ہے۔

دین، دنیا، اخلاق اور شعور سے عاری یاجوج ماجوج جیسی اس مخلوق کو آپ یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے موقع پر اپنے ٹھکانوں سے نکلتا ہوا اور شہر کی شاہراہوں پر طوفانِ بدتمیزی برپا کرتا ہوا دیکھیں گے، اس بدتمیزی کو طوفانِ بدتمیزی کہنا ہلکا معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے بدتمیزی کا سونامی کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔

یہ ایسی مخلوق ہے جسے آزادی اور جمہوریت کا مطلب، فرق اور اس کا مفہوم بھی معلوم نہیں ہے، انہیں کسی ایک مجاہدِ آزادی اور اس کارنامے کی مکمل معلومات بھی نہیں ہوگی۔ بلکہ ان میں سے بہت سوں کو آزادی کا سَن اور کس سال جمہوریت کا نفاذ ہوا؟ یہ تک معلوم نہیں ہوگا۔

لیکن گذشتہ چند سالوں سے ان دونوں مواقع پر بڑی پابندی کے ساتھ اس مخلوق کا قافلہ جانوروں کی طرح آوازیں نکالتا ہوا۔ جو کتوں اور گدھوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہوتا ہوگا کہ آوازیں تو ہماری مکروہ اور ناپسندیدہ ہیں، یہ کون سی مخلوق آگئی ہے جو ہم سے تیز اور مکروہ آواز نکالنے میں ہمیں پیچھے چھوڑ رہی ہے؟ اب ان کی جسمانی آواز کے ساتھ انتہائی مکروہ اور تکلیف دہ باجوں اور سائلنسر کی آواز بھی شامل ہوگئی ہے۔

قارئین ! سب سے زیادہ خرافات اور منکرات قدوائی روڈ شہیدوں کی یادگار کے پاس ہورہے ہیں، یہاں رات سے ہی ڈی جے پر کان پھاڑنے والی آواز میں فلمی گانے جاری رہتے ہیں، رنگ برنگی تیز روشنیوں کا ایسا مخصوص نظم ہوتا ہے کہ گویا ناچنے گانے کا پورا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ کم سمجھ اور لاابالی قسم کے نوجوان یہاں ناچے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ چنانچہ یہاں رات سے ہی نوجوانوں کا ناچنا شروع ہوجاتا ہے، اور پھر صبح میں یہاں یکے بعد دیگرے ایسے ہی ہلڑ باز نوجوانوں کا قافلہ آتا رہتا ہے، اور بقدر استطاعت اپنی بدبختی اور شقاوت کا مظاہرہ کرتا ہوا رخصت ہوتا ہے، جس میں انتہائی تیز آواز سے چلانا یا کوئی بھی فضول اور بے ڈھنگے قسم کے ڈائلاگ بولنا، ناچنا، آتش بازی کرنا اور پٹاخے پھوڑنا، بائک اسٹنٹ اور بائک کے سائلنسر سے کان پھاڑ دینے والی آوازیں نکالنا، شامل ہے۔

ان ہلڑ باز نوجوانوں کی وجہ سے اطراف میں اسکول جانے والے طلباء بالخصوص طالبات اور اسکول میں ہونے والے پروگرام کس قدر ڈسٹرب ہوتے ہوں گے؟ یہ وہی بتا سکتے ہیں، ہم تو اس کا ادراک بھی نہیں کرسکتے۔

اور یہ ساری روداد آنکھوں دیکھی ہے،
بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے  اہلِ  کرم  دیکھتے  ہیں
کوئی سنی سنائی نہیں ہے کہ جس میں غلو یا غلطی کا اندیشہ ہو۔

لہٰذا سب سے پہلے تو ہماری انہیں نوجوانوں سے مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ اللہ کے لیے اپنی حیثیت کو سمجھیں، آپ قوم کا سرمایہ ہیں، سونے سے قیمتی ان ایام کو آپ یوں لغویات، خرافات اور ناجائز وحرام کاموں میں ضائع نہیں کرسکتے، ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس جوانی کا حساب دینا ہے کہ ہم نے اسے کہاں لگایا؟ اُس وقت ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟ ہم من مانی کی زندگی نہیں گزار سکتے، ہم مسلمان ہیں، اور مسلمان شریعت کا پابند ہوتا ہے، اور اسی پابندی کی وجہ سے اسے آخرت میں ہمیشہ کی جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، کفار اور مشرکین کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے دنیا ان کے لیے جنت ہے، اور آخرت میں ان کے لیے جہنم ہے۔

والدین اور سرپرستوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور سختی سے اس بات سے روکیں کہ ان مواقع پر بائک لے کر بالکل نہ نکلیں، کیونکہ اس طرح کی ناجائز حرکتیں کرنے والے بچے آپ کی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی برباد کریں گے اور آپ کی ذلت اور رسوائی کا سبب بنیں گے۔

سیاسی لیڈران سے بھی مؤدبانہ، مخلصانہ اور عاجزانہ گذارش ہے کہ وہ بھی اللہ کے لیے اس بدتمیزی کے طوفان بلکہ سونامی کو کسی بھی طرح روکنے کی کوشش کریں، اس لیے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کوئی اختیار، صلاحیت اور طاقت دی ہے تو اس کا استعمال سب سے پہلے قوم کی اصلاح کے لیے کرنا ضروری ہے، ان نوجوانوں کو ترغیب دے کر ان لغویات، خرافات اور منکرات سے روکنے کی کوشش کریں، اگر یہ سیدھا طریقہ کارگر نہ ہوتو ڈپارٹمنٹ کا سہارا لیا جائے اور ایسے بگڑے گھوڑوں پر اچھی لگام کسی جائے، جس کے لیے آپ عنداللہ ماجور اور سنجیدہ شہریان کے نزدیک مشکور ہوں گے۔ ان شاءاللہ

معزز قارئین ! یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ پر صرف اتنا کام کیا جاسکتا ہے کہ قومی پرچم کو لہرایا جائے اور اس وقت بغیر کسی میوزک والے جائز ترانوں کو پڑھا یا بجایا جائے، شیرینی وغیرہ تقسیم کی جائے، مجاہدین آزادی اور ان کے کارناموں کا تذکرہ کیا جائے، جمہوریت کے معنی ومفہوم کو سمجھایا جائے، اور قوم کو یہ بتایا جائے کہ کس طرح ہم ملک میں امن وامان قائم رکھ کر اسے ترقی کی بلندیوں پر لے جاسکتے ہیں؟ بس اس سے زیادہ اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اہم نوٹ : سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں ٢٢ جنوری ٢٠٢٤ کو ہماری ایک بڑی اور تاریخی مسجدِ بابری کو شہید کرکے اس کی جگہ پر مندر بناکر اس کا افتتاح بھی کردیا گیا ہے۔ تو کیا اب بھی ہمارے ہلڑ باز نوجوانوں کی آنکھ نہیں کھلے گی؟ کیا اب بھی یہ نوجوان نام نہاد بن جانے والی جمہوریت کے دن ناجائز طریقے سے جشن مناکر اپنے ضمیر، سیاسی شعور اور مذہبی غیرت کے مردہ ہوجانے کا ثبوت دیں گے؟

اللہ تعالٰی ہم سب کو ہر جگہ شریعت کو مقدم رکھنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس کی برکت سے وطن عزیز ہندوستان کو امن کا گہوارا بنا دے۔ آمین یا رب العالمین

اتوار، 21 جنوری، 2024

دولہن لانے جانے کی خرافات

                 خدارا اسے بند کردیجیئے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
      (امام خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں میں دیگر علاقوں کی بہ نسبت شادیوں میں بہت حد تک شریعت کی پاسداری کی جاتی ہے۔ یہاں کی شادیاں کم خرچ اور آسان ہوتی ہیں، لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ یہاں کی شادیوں میں بھی فضول خرچی، خرافات اور منکرات کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ انہیں میں ایک عمل دولہن لانے جانے کی رسم ہے۔

ہمارے یہاں عموماً یہ رواج ہے کہ نکاح شہر میں ہی ہوتا ہے۔ اور نکاح کے بعد لڑکی والوں کے یہاں کھانا ہوتا ہے اور اس کے بعد لڑکے والوں کی طرف سے چند عورتیں دولہن لانے جاتی ہیں۔ چند سالوں پہلے دو بڑی عمر کی خواتین خاموشی سے رکشے پر جاکر دولہن لے کر آجاتی تھیں، لیکن کچھ سالوں سے ایسا ہورہا ہے کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں نوجوان لڑکیاں دولہن لانے کے لیے جاتی ہیں، اور دولہن لے کر سیدھے گھر آنے کے بجائے اسے ہائی وے کی ہوٹلوں پر لے جایا جاتا ہے، اور پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دلہن کو گاڑی میں ہی چھوڑ کر یہ لوگ ہوٹل میں کھانے پینے اورتفریح میں مگن ہوجاتے ہیں، اور دولہن تنہا یا پھر کسی ایک خاتون کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوتی ہے۔ کیا یہ بات کوئی غیرت مند شوہر گوارا کرسکتا ہے کہ اس کی دولہن پر نکاح کے دن ہی کسی غیرمرد کی نظر پڑے؟ اور اسے گھر لانے کے بجائے ہوٹلوں پر لے جایا جائے؟

ایک فکرمند شہری نے اطلاع دی ہے کہ :
مالیگاؤں میں شادیوں کے سیزن میں بہت سارے اوباش نوجوانوں کی ٹیم ہائے وے کی ہوٹلوں پر عصر سے پہنچ جاتے ہیں، باقاعدہ موبائل فون پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں کہ کون سی ہوٹل پر ابھی دولہن کی گاڑی آئی ہے؟ وہاں پہنچ کر اس حکمت سے فوٹو گرافی کرتے ہیں کہ فریم میں نوجوان لڑکیاں اور کسی طرح دولہن بھی سیلفی فوٹو میں آ جائے، اسی دوران کم عمر لڑکوں کو لگا کر کسی طرح لڑکیوں کے فون نمبر حاصل کرنے کی کوششیں بھی جاری رہتی ہیں۔ (تبصرہ مکمل ہوا)

پھر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ دولہن لانے جانے کے لیے اگر بعض رشتہ دار لڑکیاں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جائیں تو اس کی وجہ سے بہت سے گھرانوں میں شادی جیسے خوشی کے دن تنازعے اور جھگڑے بھی ہوجاتے ہیں۔

لہٰذا پہلے والے طریقے کو پھر سے شروع کرنا چاہیے کہ بڑی عمر کی خواتین خاموشی کے ساتھ رکشے وغیرہ پر جاکر دولہن لے آئیں یا پھر دولہن کے گھر کی ہی دو بڑی عمر کی خواتین دولہن کو چھوڑ آئیں کہ یہ دونوں طریقہ سنت اور شریعت کے مطابق ہونے کی وجہ سے بابرکت بھی ہوگا، یا اگر مزید خواتین بھی دلہن لانے کے لیے جارہی ہیں تو وہ مکمل پردہ کی رعایت کے ساتھ جائیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر اپنا میک اپ اور سنگھار غیرمردوں کو قطعاً نہ دکھائیں کہ یہ سخت گناہ کی بات ہے اور اس کی نحوست کا اثر نکاح پر بھی پڑے گا۔ اور دولہن لے کر سیدھے گھر آئیں، اگرتفریح کے لیے جانا ہی ہے تو صرف ہائی وے کا ایک چکر لگا لیں، دولہن کو لے کر ہوٹل وغیرہ پر بالکل نہ رُکیں کہ اس میں بے پردگی کا بڑا اندیشہ ہے۔

لہٰذا دولہا سمیت مرد سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اس پر خصوصی توجہ دیں اور اس فضول خرچی وگناہوں والے کام کو فوری طور پر بند کروائیں۔ اسی طرح خواتینِ اسلام بھی اس اہم مسئلہ پر توجہ فرمائیں اور اس پر عمل کرکے دارین کی سرخروئی حاصل کریں۔

اللہ تعالیٰ ہماری ہمیں اور ہماری خواتین کو عقل سلیم اور شریعت کا فہم عطا فرمائے اور ہم سب کو شریعت وسنت کا پابند بناکر ہمیں دنیا وآخرت میں کامیاب بنائے۔ آمین یا رب العالمین

جمعرات، 18 جنوری، 2024

عورت کا عورت کے لیے ستر کیا ہے؟


سوال :

مفتی صاحب عورتوں کا صرف اندر کا لباس پہن کر جم میں ایک ساتھ اسٹیم باتھ لینا کیسا ہے؟
(المستفتی : محمد عمیر، پونہ)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتو ایک مسلمان عورت کا دوسری مسلمان کے لیے ستر وہی ہے جو ایک مرد کا دوسرے مرد کے لیے ہے، یعنی ایک مسلمان عورت دوسری مسلمان عورت کی ناف اور گھٹنے کے درمیانی حصہ کے علاوہ تمام بدن دیکھ سکتی ہے۔ البتہ غیرمسلم عورت یا فسق و فجور میں مبتلا مسلمان عورت یا ایسی عورت جو دوسروں کے سامنے پوشیدہ جسم کی صفات بیان کرے ان کے سامنے مسلمان عورت کو پیٹ، پیٹھ، سینہ، پنڈلیاں بھی چھپانا ضروری ہوگا۔

اب آپ سمجھ لیں کہ وہاں کیسی عورتیں ہوتی ہیں؟ اور لباس کس حد تک ہوتا ہے؟ اس حساب سے عمل کریں۔ البتہ اگر کسی عورت کو ایسا کوئی مرض ہو جس کے علاج کے لیے کسی ماہر ڈاکٹر نے اسٹیم باتھ لینا ہی تجویز کیا ہو اور وہاں غیرمسلم عورتیں بھی ساتھ میں ہوتی ہوں تو ایسی صورت میں بطور علاج اس کی گنجائش ہوگی۔

(وَتَنْظُرُ الْمَرْأَةُ الْمُسْلِمَةُ مِنْ الْمَرْأَةِ كَالرَّجُلِ مِنْ الرَّجُلِ) وَقِيلَ كَالرَّجُلِ لِمَحْرَمِهِ وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ سِرَاجٌ (وَكَذَا) تَنْظُرُ الْمَرْأَةُ (مِنْ الرَّجُلِ) كَنَظَرِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ (إنْ أَمِنَتْ شَهْوَتَهَا) فَلَوْ لَمْ تَأْمَنْ أَوْ خَافَتْ أَوْ شَكَّتْ حَرُمَ اسْتِحْسَانًا كَالرَّجُلِ هُوَ الصَّحِيحُ فِي الْفَصْلَيْنِ تَتَارْخَانِيَّةٌ مَعْزِيًّا لِلْمُضْمَرَاتِ (وَالذِّمِّيَّةُ كَالرَّجُلِ الْأَجْنَبِيِّ فِي الْأَصَحِّ فَلَا تَنْظُرُ إلَى بَدَنِ الْمُسْلِمَةِ)۔ (شامی : ٦/٣١٧)

الضرورات تبیح المحظورات۔ (الاشباہ والنظائر :۱۴۰)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 رجب المرجب 1445