جمعرات، 31 جنوری، 2019

ایک مثل پر نمازِ عصر پڑھنے کا حکم

*ایک مثل پر نمازِ عصر پڑھنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب بہت سارے احباب عصر کی نماز پہلے وقت میں غیر مقلدوں کے پیچھے پڑھ لیتے ہیں حالانکہ تقویم کے حساب سے احناف کا عصر کا وقت شروع نہیں ہوتا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
اسی طرح بعض مرتبہ جماعتوں میں کسی ایسی مسجد میں جہاں عصر کی نماز شافعی مسلک کے حساب سے ہوتی ہے اور احناف کا عصر کا وقت شروع نہیں ہوتا تو ایسے وقت میں نماز انہیں کیساتھ شافعی کے حساب سے پڑھنے پر کیا حکم ہے؟ آیا نماز ہوجائیگی یا احناف کے نزدیک وقت ہونے پر دوہرانا ہوگی؟
( المستفتی : عبدالرحمن بھائی، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق :  مثلِ  اول کے ختم پر نمازِ عصر ادا کرنے کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دو قول ہیں : ایک قول وہی ہے جس پر برصغیر میں عمل ہوتا ہے، یعنی دو مثل  کے بعد عصر کے وقت کا شروع ہونا اور یہی برصغیر میں مشہور اور معمول بہ ہے۔ اور امام صاحب کا دوسرا قول ائمۂ ثلاثہ اور جمہور کے قول کے مطابق ہے، یعنی ایک  مثل  کے بعد عصر  کے وقت کا شروع ہوجانا اور یہی امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، امام طحاوی رحمہم اللہ کا قول بھی ہے۔

لہٰذا اگرکبھی ضرورت کے وقت مثلاً سفر وغیرہ کی وجہ سے عصر کی نماز کے قضا ہونے کا اندیشہ ہو یا جماعت ملنے کی امید نہ ہوتو ایک مثل پر عصر کی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔

البتہ غیرمقلدین کے بعض عقائد فاسدہ کی وجہ سے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہٰذا بلاضرورتِ شدیدہ مثلاً قریب میں اپنے ہم خیال لوگوں کی مسجد ہوتو ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے اجتناب کیا جائے۔ تاہم بہرصورت نماز ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں۔

ووقت الظہر من زوالہ، أي میل ذکاء عن کبد السماء إلی بلوغ الظل  مثلیہ، وعنہ مثلہ، وہو قولہما، وزفر والأئمۃ الثلاثۃ، قال الإمام الطحاوي: وبہ نأخذ، وفي غرر الأذکار: وہو المأخوذ بہ، وفي البرہان: وہو الأظہر، لبیان جبرئیل، وہو نص في الباب، وفي الفیض: وعلیہ عمل الناس الیوم، وبہ یفتي (الدر المختار مع الرد المحتار، کتاب الصلوۃ، مطلب في تعبدہ علیہ الصلاۃ والسلام، کراچی ۱/ ۳۵۹، زکریا ۲/ ۱۵) 

عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أمني جبرئیل علیہ السلام عند البیت مرتین، فصلی بي الظہر حین زالت الشمس، وکانت قدر الشراک، وصلی بي العصرحین کان ظلہ مثلہ … فلما کان الغد صلی بي الظہر حین کان ظلہ مثلہ، وصلی بي العصرحین کان ظلہ مثلیہ۔(أبوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب في المواقیت، طبع ہندي ۱/ ۵۶، دارالسلام، رقم: ۳۹۳، سنن الترمذي، کتاب الصلوۃ، باب ماجاء في مواقیت الصلاۃ، طبع ہندي ۱/ ۳۸، دارالسلام، رقم: ۱۴۹)
مستفاد : فتاوی رشیدیہ قدیم ۲۹۶-۲۹۹، جدید زکریا ۷۲۸-۲۸۱، امداد الفتاوی زکریا ۱/ ۱۵۳/فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الاول 1440

بدھ، 30 جنوری، 2019

مطلقہ ثلاثہ کو ساتھ رکھنے والے کے یہاں کھانے پینے کا حکم

*مطلقہ ثلاثہ کو ساتھ رکھنے والے کے یہاں کھانے پینے  کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ بیوی کو طلاق دیدے اور اگر فتوی بھی آگیا ہو کہ طلاق ہو گئی ہے، لیکن وہ بندہ اُسکے باوجود بھی بیوی کو ساتھ میں ہی رکھے ہوئے ہے تو ایسے بندے سے تعَلُّقات کو باقی رکھنا کیسا ہے؟ اور کُچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اُسکے گھر کا کھانا پانی بھی ایمان والے کیلِئے حرام ہے۔ براہ کرم قُرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : وسیم جمالی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جوشخص اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد بغیر حلالہ شرعیہ کے ساتھ رکھے ہوئے ہو، اس کو اس قبیح وشنیع فعل سے روکنے کے لئے اس کے یہاں کھانے پینے سے احتراز کرنا مناسب ہے، تاکہ وہ اپنے حرام عمل سے باز آجائے، البتہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس کے یہاں کا کھانا اور پانی حرام ہوجاتا ہے۔

لا یجیب دعوۃ الفاسق المعلن، لیعلم أنہ غیر راض بنفسہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۵؍۴۴۳ زکریا)

وقد تستفاد حکمہ من حدیث عبد اللّٰہ بن معقل أنہ رأی رجل یخذف فقال لہ: لا تخذف؟ فإن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عن الخذف … وفیہ : ثم رآہ بعد ذٰلک یخذف فقال لہ: أحدثک عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن الخذف وأنت تخذف؟ لا أکلمک أبدا۔ (صحیح البخاري رقم: ۵۴۷۹)

قال الحافظ : وفي الحدیث جواز ہجران من خالف السنۃ وترک کلامہ، ولا یدخل ذٰلک في النہي عن الہجر فوق ثلاث فإنہ یتعلق بمن ہجر لحظ نفسہ۔ (فتح الباري ۹؍۷۵۹ دار الکتب العلمیۃ بیروت، المنہاج في شرح مسلم للنووي ۱۲۴۲ تحت رقم: ۱۹۵۴)

إن ہجرۃ أہل الأہواء والبدع واجبۃ علی مر الأوقات ما لم یظہر منہ التوبۃ والرجوع إلی الحق۔ (مرقاۃ المفاتیح ۹؍۲۶۲)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الاول 1440

بس، ریلوے اسٹیشن وغیرہ پر نماز کا حکم

*بس، ریلوے اسٹیشن وغیرہ پر نماز کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید ابھی ائیرپورٹ پر ہے ابھی اس کا سفر شروع نہیں ہوا ہے اور نماز کا وقت ہوگیا ہے تو کیا وہ قصر کرے گا یا پوری نماز پڑھے گا؟
(المستفتی : محمد یاسر، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شرعی مسافت کے سفر کی نیت سے اگر کوئی شخص اپنے شہر کی حدود سے باہر نکل جائے تو وہ مسافر ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے نمازوں میں قصر کرے گا۔
صورت مسئولہ میں اگر ائیر پورٹ آبادی سے ملحق ہے تو وہ شہر ہی کے حکم میں ہے، لہٰذا وہاں سے سفر شروع کرنے والا یا واپس آنے والا ان جگہوں پر قصر نہیں کرے گا، بلکہ مکمل نماز ادا کرے گا۔ لیکن اگر ائیرپورٹ آبادی کے باہر ہو جیسا کہ آج کل بعض شہروں کے ایئرپورٹ آبادی سے کافی دوری پر واقع ہوتے ہیں، تو پھر آدمی حدود شہر سے نکلتے ہی مسافر ہوجائے گا اور ایئرپورٹ وغیرہ پر قصر کرے گا۔
یشترط مفارقۃ ما کان من توابع موضع الإقامۃ۔ (شامی : ۲؍۵۹۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الاول 1440

عورت کا گھر میں کُھلے سر رہنا

*عورت کا گھر میں کُھلے سر رہنا*

سوال :

گھروں میں عورتیں اکثر سر پر دوپٹہ نہیں رکھتی اور گھر میں نہ کوئی غیر محرم ہے اور نہ ہی کسی غیر محرم کی نظر پڑ نے کا اندیشہ ہے اسکا کیا حکم ہے؟ اور کیا یہ با ت صحیح ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام وحی لے کر آئے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا تو واپس ہو گئے تھے۔
(المستفتی : محمد ابراہیم ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مردوں اور عورتوں کے لئے ستر چھپانا ضروری ہے، عورت کے لئے ستر چھپانے کی حد زیادہ ہے، چنانچہ عورت کے لیے سر کے بالوں کا چھپانا بھی ضروری ہے، البتہ اس کے شوہر کے لئے اس  میں  بہت رخصت دی گئی ہے، لہٰذا ایسی کوئی جگہ جہاں شوہر کے علاوہ دوسرے کسی نامحرم کی نظر نہ پڑتی ہو، جیسا کہ سوال میں پوچھا گیا ہے تو عورت  کھلے  سر رہ سکتی ہے اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ لیکن احتیاط بہرحال  اسی میں ہے کہ گھر کے اندر بھی سر ڈھک کر رہے، کیونکہ اگر کُھلے سر رہنے کی عادت بن گئی تو پھر بے خیالی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، اور محرم و غیر محرم کا فرق رخصت ہونے کا اندیشہ بھی ہے۔

حضرت خدیجہ کے متعلق دوپٹہ والی ایک روایت ملتی ہے، لیکن یہ روایت قابلِ استدلال نہیں ہے، جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ کُھلے سر رہنا گناہ نہیں ہے، اور جب یہ عمل گناہ نہیں ہے تو یہ چیز فرشتوں کے لئے بھی مانع نہیں ہوگی۔

(وَلِلْحُرَّةِ) وَلَوْ خُنْثَى (جَمِيعُ بَدَنِهَا) حَتَّى شَعْرُهَا النَّازِلُ فِي الْأَصَحِّ، قال ابن عابدین : (قَوْلُهُ النَّازِلُ) أَيْ عَنْ الرَّأْسِ، بِأَنْ جَاوَزَ الْأُذُنَ، وَقَيَّدَ بِهِ إذَا لَا خِلَافَ فِيمَا عَلَى الرَّأْسِ (قَوْلُهُ فِي الْأَصَحِّ) صَحَّحَهُ فِي الْهِدَايَةِ وَالْمُحِيطِ وَالْكَافِي وَغَيْرِهَا۔ (شامی : ١/٤٠٥)

يُرَخَّصُ لِلْمَرْأَةِ كَشْفُ الرَّأْسِ فِي مَنْزِلِهَا وَحْدَهَا فَأَوْلَى أَنْ يَجُوزَ لَهَا لُبْسِ خِمَارٍ رَقِيقٍ يَصِفُ مَا تَحْتَهُ عِنْدَ مَحَارِمِهَا كَذَا فِي الْقُنْيَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٣٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
7 شعبان المعظم 1439

کراماتِ اولیاء سے متعلق چند سوالات

*کراماتِ اولیاء سے متعلق چند سوالات*

سوال :

مفتی صاحب مندرجہ ذیل سوالات کے  مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
1) کرامت اولیاء حق ہے جیسا کہ معجزات انبیاء حق ہے، آیا یہ کلمات کہاں تک درست ہیں؟
کیا اس طرح کی باتیں ذخیرہ حدیث میں موجود ہے؟
2) کرامات سے مراد کیا ہیں؟
3) کیا کرامت اولیاء پر  یقین رکھنا ایمان کے لیے ضروری ہے؟
4) ألا ان اولیاء اللہ لا خوف عليهم ولا ھم یحزنون ۔  کیا اس آیت سے یہ مراد لیا جاسکتا ہے کہ اولیاء اللہ اپنے قبور میں زندہ ہیں جیسا کہ شہدائے کرام زندہ ہیں؟
5)اللہ کے ولی ہونے کی واضح اوصاف کیا ہیں؟ کیا ولی کی زندگی میں پہچانا جاسکتا ہے؟
نمبر وار جواب مطلوب ہیں۔
امید ہے کہ تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں گے۔
(المستفتی : انصاری سفیان ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کرامات اولیاء معجزات کی طرح حق اور سچ ہیں، البتہ معجزات اور کرامات میں تین فرق ہیں۔

١) کرامت پیغمبر کی اتباع کی برکت سے ظاہر ہوتی ہے، اگر کسی فاسق وفاجر کے ہاتھوں پر کوئی خرق عادت امر ظاہر ہوتو وہ مکر و استدراج ہے۔ (التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ الکھف، تحت آیہ : 9)

٢) نبی کو اپنی نبوت پر یقین ہوتاہے، بر خلاف ولی، جس کے ہاتھوں کرامت ظاہر ہوتی ہے، اسے اپنی ولایت کا علم اور اس پر یقین نہیں ہوتا۔ (التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ الکھف :تحت آیہ :9)

٣) نبی پر اپنے معجزے کا اظہار ضروری ہے اور ولی پر اپنی کرامت کا اخفا ضروری ہے۔

کرامات اولیاء حق ہیں، لیکن یہ الفاظ باقاعدہ کسی حدیث شریف میں نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک عقیدہ ہے جس کا ثبوت قرآن کریم اور خبر متواتر سے ملتا ہے۔

حضرت مریم علیہا السلام چونکہ نبی نہیں ہیں، ان کی کرامت قرآن کریم میں مذکور ہے کہ انہیں بے موسم کے پھل کھانے کو ملتے تھے۔حضرت زکریا علیہ السلام یہ دیکھ کر پوچھتے ہیں (یامریم انیٰ لکِ ھذا) اے مریم! تمہارے پاس یہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں ؟ تو حضرت مریم علیہ السلام فرماتی ہیں (ھُوَمِنْ عِندِاللہ) کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔

اور خبر متواتر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ کرامت ملتی ہے کہ آپ ایک بار مدینہ منورہ میں منبر پر تشریف فرماتھے کہ اچانک بآواز بلند آپ نے فرمایا : یا ساریة، الجبل۔اے ساریہ!پہاڑ کی طرف سے ہوشیار ہوجائیں۔ حضرت ساریہ  نہاوند میں مجاہدین کے امیر تھے۔ میدان جنگ کی پشت میں ایک پہاڑ تھا، جہاں سے دشمن اچانک حملہ کرنے کی تیاری کررہا تھا، مجاہدین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سن کر پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئے اور دشمن کی سازش ناکام بنا دی۔ دیکھیے! دشمن کی سازش سے آگاہ ہونا، مجاہدین کو خبردار کرنا، آپ کی آواز کا مدینہ سے نُہاوند تک،پہنچ جانا،یہ سب آپ کی کرامات کا حصہ ہیں۔

2) جو امرِ خارِق عادت کسی صالح متبعِ سنت امتی سے صادر ہو وہ کرامت ہے، ولی کی کرامت بھی اصل اس نبی کا معجزہ ہوتا ہے جس کا یہ امتی ہے اور جن کی اتباع اور پیروی کے صلہ میں اس کو یہ کمال حاصل ہوا ہے، مثلاً ہوا میں اڑنا، مسافت بعیدہ کو مختصر وقت میں طے کرلینا، غیر موسم کے پھل ملنا وغیرہ، ان کرامات کو کرامات حِسی کہا جاتا ہے۔ اس جگہ یہ بات بھی بطورِ خاص ملحوظ رکھی جائے کہ عام طور پر حِسی کرامتوں کو ہی کمال سمجھا جاتا ہے مگر اہلِ کمال کے نزدیک "کرامت معنوی" کمال ہے یعنی شریعتِ محمدیہ پر مضبوطی سے ثابت قدم رہنا زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر موقع پر سنت اور غیر سنت کے فرق کو سمجھ کر سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی مکمل اتباع اس کا شوق اس کی لگن اور دل سے توجہ الی اﷲ اور اشتغال باﷲ کہ ایک دم اور ایک سانس بھی غفلت میں نہ گذرے، لہٰذا کسی شخص میں طریقۂ سنت کی اتباع کے بغیر اگر کوئی تعجب کی چیز دیکھنے میں آئے تو وہ ہرگز کرامت نہیں بلکہ استدراج اور شیطانی حرکت ہے۔

چنانچہ سلطان العارفین شیخ بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : اگر تم کسی کو دیکھو کہ اس کو عجیب و غریب باتیں ملی ہیں، ہوا میں اڑتا ہے، فضا ء میں چار زانو بیٹھتا ہے ۔ پانی پر چلتا ہے تو جب تک وہ شریعت اور طریقہ ٔ سنت کا پابند نہ ہو اسے خیال میں نہ لاؤ ۔ (البلاغ المبین فارسی ص ۴۶/رسالۂ قشیریہ ص ۱۵)

ایک مرتبہ حضرت بسطامی رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ فلاں شخص ایک رات میں مکہ پہنچ جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ شیطان تو ایک جھپک میں مشرق سے مغرب پہنچ جاتا ہے حالانکہ وہ اﷲ کی لعنت میں گرفتار ہے۔ (بصائر العشائر ص ۶۱۲)

اسی طرح ہر ولی  کامل سے حِسی کرامت کا صادر ہونا ضروری نہیں، بلکہ بعض اولیاء کاملین یہ تمنا کیا کرتے تھے کہ کاش ان سے کوئی کرامت صادر نہ ہوتی، اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بلند مرتبہ ولی سے کرامت ظاہر نہیں ہوتی اور ایسے ولی سے کرامت ظاہر ہوتی ہے جو مقام و مرتبہ میں پہلے کی بہ نسبت کم درجہ کا ہوتا ہے۔(١)

3) کرامات اولیاء کو حق اور سچ ماننا اہلِ سنت و الجماعت کے عقائد میں ہے، اس کا انکار کرنے والا بدعتی اور فاسق ہے، لیکن ایسے شخص پر کفر کا حکم نہیں ہے۔(٢)

4) سوال نامہ میں مذکور آیت کا اولیاء اللہ کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی روایات کی رو سے ہرمرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب وثواب کو محسوس کرتا ہے اس میں موٴمن وکافر یا صالح و فاسق میں کوئی فرق نہیں لیکن اس حیاتِ برزخی کے مختلف درجات ہیں ایک درجہ تو سب کو عام وشامل ہے، کچھ درجے انبیاء وصلحاء کے لیے مخصوص ہیں، ان میں بھی باہمی تفاضل ہے، انبیاء کی حیات سب سے اقوی ہے اس کے بعد شہداء کی حیات ہے اور یہ شہداء عام ہیں، چاہے حقیقی شہداء ہوں مثلاً اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے ہوں یا حکمی جیسے موٴذن، محتسب، طالب علم، مبطون وغیرہ وغیرہ۔ ان ہی شہداء میں بعض اولیاء بھی شامل ہیں، چنانچہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بیان القرآن (۱/۸۸، مکتبہ الحق) میں لکھا ہے ”البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اولیاء وصالحین بھی اس فضیلت میں شہداء کے شریک ہیں سو مجاہدہٴ نفس میں مرنے کو بھی معنیً شہادت میں داخل سمجھیں گے اس طور پر وہ شہدا ہوئے“۔(دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، رقم الفتوی 43097)

5) اولیاء اللہ کی حقیقی پہچان مشکل ہے، ظاہری پہچان اتباع سنت ہے، جو شخص جس قدر زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور طریقوں کا متبع ہوگا اسی قدر زیادہ بزرگ اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا۔

١) الکرامۃ خارق للعادۃ الا انہا غیرمقرونۃ بالتحدی وہوکرامۃ للولی (شرح فقہ اکبر ص۹۵)

وقد قالوا الاستقامۃ خیر من الف کرامۃ۔(شرح فقہ اکبر،ص۱۹۸، مطبوعہ مجتبائی دہلی)

وکرامات الأولیاء حق، ہو العارف باللہ تعالیٰ وصفاتہ حسب ما یمکن، المواظب علی الطاعۃ، المجتنب عن المعاصي، المعرض عن إنہماک في اللذات والشہوات، وکرامتہ ظہور أمر خارق للعادۃ من قبلہ غیر مقارن لدعوی النبوۃ، فما لا یکون مقرونا بالإیمان والعمل الصالح یکون استدارجا۔ (شرح عقائد، مبحث کرامات الأولیاء حق، مکتبہ نعیمیہ دیوبند ۱۴۴، شامي، کتاب الجہاد، باب المرتد، مطلب في کرامات الأولیاء حق، کراچی ۳/ ۵۵۱، زکریا ۶/ ۴۰۹)

٢) کرامات الأولیاء ثابتۃ علی مادلّت علیہ الأخبار الثابتۃ والآیات المتواترۃ ولاینکرہا إلّا المبتدع الجاحد أو الفاسق الحائد الخ۔ (تفسیر قرطبي، سورۃ الکہف: تحت تفسیر الآیۃ : ۷۷، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۱/۲۰)
مستفاد : فتاوی رحیمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 جمادی الاول 1440

دورانِ تلاوت اذان کے جواب کا حکم

*دورانِ تلاوت اذان کے جواب کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ دورانِ تلاوت اگر اذان شروع ہوجائے تو اذان کا جواب دیا جائے گا یا نہیں؟
یہ بھی واضح فرمائیں کہ اگر تلاوت مسجد میں کی جا رہی ہو تو کیا حکم ہے؟ اور اگر گھر پر دورانِ تلاوت اذان کی آواز آتی ہو تو تلاوت جاری رکھیں یا روک کر اذان کا جواب دیا جائے؟
(المستفتی : ڈاکٹر زبیر، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دورانِ تلاوت اذان ہونے لگے تو افضل اور مناسب یہ ہے کہ تلاوت روک کر اذان کا جواب دیا جائے، اس لئے کہ تلاوت تو بعد میں ہوسکتی ہے، لیکن اذان تو ایک بار ہی ہوگی۔

تلاوت اگر مسجد میں کی جائے یا گھر میں افضل یہی ہے کہ تلاوت موقوف کرکے اذان کا جواب دیا جائے۔ تاہم اگر کوئی تلاوت کرتا رہے تب بھی اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

لو کان في القراء ۃ ینبغي أن یقطع و یشتغل بالاستماع والإجابۃ۔ (بدائع الصنائع، کتاب الأذان، فصل بیان ما یجب علی السامعین عند الأذان، ۱/۳۸۳)

وإذا سمع المسنون منه" أي الأذان وهو ما لا لحن فيه ولا تلحين "أمسك" حتى عن التلاوة ليجيب المؤذن ولو في المسجد وهو الأفضل، وفي الفوائد يمضي على قراءته إن كان في المسجد.(مراقي الفلاح : ۸۰، باب الأذان)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 رمضان المبارک 1439

الکحل ملے ہوئے عطر، دواؤں اور سنیٹائزر استعمال کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ہومیوپیتھک دوائیں اور پرفیوم جن میں الکحل ملا ہوتا ہے ان کے استعمال کے متعلق شریعتِ مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم مدلل اور مفصل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد ابوذر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اشربہٴاربعہ محرمہ (انگور کی کچی شراب، انگور کی پکی شراب، کھجور اور منقی) ان اشیاء سے بنائے گئے الکوحل کا استعمال حرام ہے، اسی طرح جن چیزوں میں ایسا الکوحل شامل ہو ان اشیاء کا استعمال بھی جائز نہیں ہے۔

البتہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ استعمالی اشیاء مثلاً ادویات، عطریات وغیرہ میں شامل کیا جانے والا الکوحل جو کہ آلو، گنا، پیٹرول، سبزیوں اور پتھر کے کوئلے وغيرہ سے بنتا ہے ایسے الکوحل کی آمیزش سے پرفیوم ناپاک نہیں ہوتا، اسے لگاکر ان کپڑوں میں نماز پڑھ سکتے ہیں، اور ان دواؤں کا خارجی اور داخلی استعمال بھی کرسکتے ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں جب تک ہومیوپیتھک دواؤں میں حرام الکحل کے ملے ہونے کا یقین نہ ہو اس کا استعمال جائز ہے، یقینی علم ہونے کی صورت میں عام حالات میں ان دواؤں کا استعمال جائز نہیں، اضطراری حالت (اس کے علاوہ اور کوئی جائز دوا نہ ہو) میں اس کے استعمال کی اجازت ہوگی۔

نوٹ : سنیٹائزر کا بھی یہی حکم ہے۔ لہٰذا اس کا استعمال بھی شرعاً درست ہے۔

وإن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویۃ والعطور وغیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ، کما ذکرنا في باب بیع الخمر من کتاب البیوع، وحینئذٍ ہناک فسحۃ في الأخذ بقول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ عند عموم البلویٰ، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔ (تکملۃ فتح الملہم، کتاب الأشربۃ / حکم الکحول المسکرۃ ۳؍۶۰۸ مکتبۃ دار العلوم کراچی)

الیقین لا یزول بالشک ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)

ان ما ثبت بیقین لا یرتفع بالشک ، وما ثبت بیقین لا یرتفع إلا بیقین ۔ (۴۵/۲۷۹ ، یقین، الموسوعۃ الفقہیۃ)

یجوز للعلیل شرب البول والدم و أکل المیتۃ للتداوی إذا أخبرہ طبیب مسلم أن شفاء ہ فیہ ولم یجد من المباح مایقوم مقامہ۔ (ہندیہ، کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، ۵/۴۱۰)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا تجوز إذا لم یعلم فیہ شفاء، أما إذا علم أن فیہ شفاء ولیس لہ دواء أخر غیرہ یجوز الاستشفاء بہ۔ (عنایۃ مع فتح القدیر : ۱۰/۸۰) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شعبان المعظم 1439

پیر، 28 جنوری، 2019

مسجد میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی حد

*مسجد میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی حد*

سوال :

مفتی صاحب مسجد نمازی کے کتنا آگے سے گزر سکتے ہیں؟ برائے مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں ۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجدِ کبیر جس کی لمبائی ٦٠ فٹ اور چوڑائی ٦٠ فٹ ہو اس میں نمازی کے آگے گذرنے کے متعلق راجح قول یہ ہے کہ اگر آدمی خشوع وخضوع  سے سجدہ کی جگہ پر نظر جماکر نماز پڑھے، تو جہاں تک اس کی نظر پڑے گی اس  سے آگے  سے گذرنے کی گنجائش ہے، اس کا اندازہ سجدہ کی جگہ سے تقریباً دو یا تین صف آگے  سے کیا گیا ہے، لہٰذا ایسی مسجد میں نمازی کے تین یا دو صف بھی آگے سے گذرنے کی اجازت ہے۔

اور اگر مسجد مذکورہ مقدار سے چھوٹی ہوتو ایسی مسجد میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی  گنجائش نہیں ہے۔

وأصح ما قیل فیہ أن المصلی لو صلی بخشوع فإلی الموضع الذي یقع بصرہ علی المار الذي یکرہ المرور بین یدیہ وفیما وراء ذٰلک لا یکرہ۔ (مبسوط سرخسی بیروت ۱؍۱۹۲)

ومنہم من قدرہ بقدر صفین أو ثلاثۃ۔ (تاتارخانیۃ زکریا ۲؍۲۸۵، ۲۴۳۲) ومنہم بمقدار صفین أو ثلاثۃ۔ (کبیری اشرفیہ ۳۶۷)

وذکر التمرتاشي أن الأصح أنہ إن کان بحال لو صلی صلاۃ خاشع لا یقع بصرہ علی المار فلا یکرہ المرور نحو أن یکون منتہی بصرہ في قیامہ إلی موضع سجودہ، وفي رکوعہ إلی صدور قدمیہ، وفي سجودہ إلی أرنبۃ أنفہ، وفي قعودہ إلی حجرہ، وفي سلامہ إلی منکبیہ، واختارہ فخر الإسلام فإنہ قال: إذا صلی رامیاً ببصرہ إلی موضع سجودہ فلم یقع علیہ بصرہ لم یکرہ، وہٰذا حسن، وفي البدائع: وقال بعضہم: قدر ما یقع بصرہ علی المار لو صلی بخشوع وفیما وراء ذٰلک لا یکرہ وہو الأصح، ورجحہ في النہایۃ بأنہ أشبہ إلی الصواب۔ (البحر الرائق کوئٹہ ۲؍۱۵، شامی زکریا ۲؍۳۹۸، عنایۃ مع الفتح بیروت ۱؍۴۰۵، طحطاوي علی الدر ۱؍۲۶۸، احسن الفتاویٰ ۳؍۴۰۹، مستفاد: فتاویٰ عثمانی ۱؍۴۶۶، کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 شعبان المعظم 1439

انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا حکم

*انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ زید عورتوں کے سر کے جو بال جھڑ جاتے ہیں ان بالوں کی خرید وفروخت کرتا ہے تو زید کی یہ خرید وفروخت کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اور اس کی آمدنی پر کیا حکم ہے؟
(المستفتی : محمد سفیان، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زندہ یا مردہ انسان کے بالوں کی خرید وفروخت احترامِ انسانیت کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اور ان سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ انسانی بالوں کی خرید و فروخت میں انسان کی تکریم نہیں رہتی بلکہ تذلیل ہوتی ہے۔

اسی طرح اس کی آمدنی پر بھی حرام کا حکم ہے، مطلب یہ کہ زید نے ان بالوں پر جو نفع کمایا ہو اس رقم کا بلانیت ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔ اور جو لوگ اپنا ذاتی بال یا کہیں سے اٹھاکر یا مفت میں کسی سے لے کر فروخت کرتے ہیں وہ آمدنی کی پوری رقم بلا نیت ثواب صدقہ کریں گے۔

وَشَعْرِ الْإِنْسَانِ وَالِانْتِفَاعِ بِهِ لَمْ يَجُزْ بَيْعُهُ وَالِانْتِفَاعُ بِهِ لِأَنَّ الْآدَمِيَّ مُكَرَّمٌ غَيْرُ مُبْتَذَلٍ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ أَجْزَائِهِ مُهَانًا مُبْتَذَلًا۔ (البحر الرائق، كتاب البيوع، باب بیع الفاسد، ٦/٨٨)

لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء،۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الاول 1440