پیر، 28 جنوری، 2019

مسجد میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی حد

*مسجد میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی حد*

سوال :

مفتی صاحب مسجد نمازی کے کتنا آگے سے گزر سکتے ہیں؟ برائے مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں ۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجدِ کبیر جس کی لمبائی ٦٠ فٹ اور چوڑائی ٦٠ فٹ ہو اس میں نمازی کے آگے گذرنے کے متعلق راجح قول یہ ہے کہ اگر آدمی خشوع وخضوع  سے سجدہ کی جگہ پر نظر جماکر نماز پڑھے، تو جہاں تک اس کی نظر پڑے گی اس  سے آگے  سے گذرنے کی گنجائش ہے، اس کا اندازہ سجدہ کی جگہ سے تقریباً دو یا تین صف آگے  سے کیا گیا ہے، لہٰذا ایسی مسجد میں نمازی کے تین یا دو صف بھی آگے سے گذرنے کی اجازت ہے۔

اور اگر مسجد مذکورہ مقدار سے چھوٹی ہوتو ایسی مسجد میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی  گنجائش نہیں ہے۔

وأصح ما قیل فیہ أن المصلی لو صلی بخشوع فإلی الموضع الذي یقع بصرہ علی المار الذي یکرہ المرور بین یدیہ وفیما وراء ذٰلک لا یکرہ۔ (مبسوط سرخسی بیروت ۱؍۱۹۲)

ومنہم من قدرہ بقدر صفین أو ثلاثۃ۔ (تاتارخانیۃ زکریا ۲؍۲۸۵، ۲۴۳۲) ومنہم بمقدار صفین أو ثلاثۃ۔ (کبیری اشرفیہ ۳۶۷)

وذکر التمرتاشي أن الأصح أنہ إن کان بحال لو صلی صلاۃ خاشع لا یقع بصرہ علی المار فلا یکرہ المرور نحو أن یکون منتہی بصرہ في قیامہ إلی موضع سجودہ، وفي رکوعہ إلی صدور قدمیہ، وفي سجودہ إلی أرنبۃ أنفہ، وفي قعودہ إلی حجرہ، وفي سلامہ إلی منکبیہ، واختارہ فخر الإسلام فإنہ قال: إذا صلی رامیاً ببصرہ إلی موضع سجودہ فلم یقع علیہ بصرہ لم یکرہ، وہٰذا حسن، وفي البدائع: وقال بعضہم: قدر ما یقع بصرہ علی المار لو صلی بخشوع وفیما وراء ذٰلک لا یکرہ وہو الأصح، ورجحہ في النہایۃ بأنہ أشبہ إلی الصواب۔ (البحر الرائق کوئٹہ ۲؍۱۵، شامی زکریا ۲؍۳۹۸، عنایۃ مع الفتح بیروت ۱؍۴۰۵، طحطاوي علی الدر ۱؍۲۶۸، احسن الفتاویٰ ۳؍۴۰۹، مستفاد: فتاویٰ عثمانی ۱؍۴۶۶، کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 شعبان المعظم 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں