ہفتہ، 26 جنوری، 2019

ایوارڈ کی تقسیم کے پروگرام کی شرعی حیثیت

*ایوارڈ کی تقسیم کے پروگرام کی شرعی حیثیت*

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ ایک پروگرام ہمارے اپنے شہر میں ہوا لوگوں کو انعامات و ایوارڈ بھی تقسیم کیے گئے لیکن اس پروگرام میں اسٹیج سے موسیقی کا بھی استعمال کیا گیا یہاں تک کہ نماز بھی کھڑی ہوئی تب بھی اس کا خیال نہیں کیا گیا اور مردوں اور عورتوں کا اختلاط بھی رہا نماز جیسی اہم عبادت کو بھی پامال کیا گیا تو ایسا پروگرام کرنے والی انتظامیہ پر شرعی حکم کیا ہے؟ کیا ایسا پروگرام کیا جاسکتا ہے یا ایسے پروگرام میں شرکت کی جاسکتی ہے جہاں پر ایسے معاملات ہوتے ہیں ۔
براہ کرم جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی ۔
(المستفتی : عباد الرحمن محمد شکیل، اسلام آباد، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی شخص کا دینی یا دنیاوی کوئی ایسا کام یا خدمت جس کی وجہ سے قوم و ملت شہر یا ملک کا نام روشن ہو، (بشرطیکہ دنیاوی کام مباح ہو، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہ ہو) ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کی خدمات کا اعتراف کرنا جائز اور درست ہے، اب اس کے لئے کسی جلسہ وغیرہ کا انعقاد کیا جائے اور اس میں ایسےشخص کو تحفے تحائف اور ایوارڈ وغیرہ دیا جائے تب بھی شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔
البتہ اگر ان جلسوں میں کسی غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو مثلاً موسیقی وغیرہ اہتمام ہو اور مرد و عورت کا اختلاط ہو تو ایسے جلسوں کا انعقاد کرنا اور اس کا علم ہوتے ہوئے اس میں برضا ورغبت شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔

اس لئے کہ گانا بجانا و موسیقی فی نفسہ ایک حرام اور قبیح ترین فعل ہے، قرآن کریم واحادیث مبارکہ میں ان کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ۔

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ  لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ۔
ترجمہ: اور وہ لوگ ہیں کہ خریدار ہیں کھیل کی باتوں کے تاکہ بچلائیں اللہ کی راہ سے بن سمجھے اور ٹھہرائیں اس کو ہنسی وہ جو ہیں ان کو ذلت کا عذاب ہے۔(سورۃ لقمان :۶)

چنانچہ ’’لہو الحدیث‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ :
’’ان لہو الحدیث ہو الغناء واشباہہ‘‘
یعنی ’’لہو الحدیث‘‘ سے مراد گانا بجانا اور اسی قسم کی اور بہت سی چیزیں جو گانے بجانے اور موسیقی کے مشابہ ہوں۔

در مختار میں ہے :
’’وفی السراج: ودلت المسألۃ ان الملاہی کلہا حرام‘ ویدخل علیہم بلا اذنہم لانکار المنکر۔قال ابن مسعود: صوت اللہو والغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء النبات‘‘
ترجمہ:’’اور سراج میں ہے مسئلہ دلالت کرتا ہے کہ ملاہی (لہو لعب کی چیزیں) ساری حرام ہیں، حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ لہوو لعب کی آواز اور گانے کی آواز دل میں نفاق اگاتی ہے‘ جیساکہ پانی پودوں کو اگاتا ہے ۔

درج بالا تفصیلات سے گانے بجانے کی قباحت وشناعت معلوم ہوتی ہے، چنانچہ جس محفل میں اس برائی کا ارتکاب ہو رہا ہو اس میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے ۔

صورتِ مسئولہ میں ایک جائز کام کے لیے منعقد کئے گئے پروگرام میں موسیقی کا انتظام کرنا اور اس میں مزید قباحت یہ کہ مرد و عورت کا اختلاط بھی ہو اور اس پروگرام کا مقصد یہ ہو کہ لوگ انتظامیہ سے خوش ہوں تو انہیں درج ذیل حدیث شریف پیش نظر رکھنا چاہیے۔

حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں خط لکھا کہ: مجھے کوئی مختصر سی نصیحت لکھ بھیجے ۔ جواب میں حضرت اُمّ الموٴمنین رضی اللہ عنہا نے لکھوایا : السلام علیکم، اما بعد! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد خود سنا ہے کہ جو شخص انسانوں کی ناراضگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی تلاش کرے، اللہ تعالیٰ لوگوں کے شر سے اس کی کفایت فرماتے ہیں، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کی رضامندی تلاش کرے، اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں (اور اپنی نصرت و حمایت کا ہاتھ اس سے اُٹھالیتے ہیں)

حدیث شریف کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے سے اللہ تعالیٰ تو ناراض ہوتے ہی ہیں، ساتھ ہی جن لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا جارہا ہے وہ بھی راضی نہیں ہوتے ۔

لہٰذا اس پروگرام کے منتظمین اور باوجود منکرات کا علم ہونے کے برضا ورغبت اس میں شرکت کرنے والے تمام لوگ ناجائز فعل اور گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان سب پر توبہ و استغفار لازم ہے۔

عن معاویة أنہ کتب الٰی عائشة : أن اکتبی الیّ کتابًا توصینی فیہ ولا تکثری، فکتبت: سلام علیک أمّا بعد فانی سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: من التمس رضی الله بسخط الناس کفاہ الله مونة الناس ومن التمس رضی الناس بسخط الله وکّلہ الله الی الناس، والسلام علیک۔ رواہ الترمذی۔

استماع الملاھی و الجلوس علیہا وضرب المزامیر والرقص کلہا حرام ‘‘ ومستحلہا کافر وفی الحمادیۃ من النافع اعلم ان التغنی حرام فی جمیع الادیان ۔ (جامع الفتاوی، ۱/ ۷۳، رحیمیہ، دیوبند)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں