پیر، 28 جنوری، 2019

انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا حکم

*انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ زید عورتوں کے سر کے جو بال جھڑ جاتے ہیں ان بالوں کی خرید وفروخت کرتا ہے تو زید کی یہ خرید وفروخت کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اور اس کی آمدنی پر کیا حکم ہے؟
(المستفتی : محمد سفیان، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زندہ یا مردہ انسان کے بالوں کی خرید وفروخت احترامِ انسانیت کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اور ان سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ انسانی بالوں کی خرید و فروخت میں انسان کی تکریم نہیں رہتی بلکہ تذلیل ہوتی ہے۔

اسی طرح اس کی آمدنی پر بھی حرام کا حکم ہے، مطلب یہ کہ زید نے ان بالوں پر جو نفع کمایا ہو اس رقم کا بلانیت ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔ اور جو لوگ اپنا ذاتی بال یا کہیں سے اٹھاکر یا مفت میں کسی سے لے کر فروخت کرتے ہیں وہ آمدنی کی پوری رقم بلا نیت ثواب صدقہ کریں گے۔

وَشَعْرِ الْإِنْسَانِ وَالِانْتِفَاعِ بِهِ لَمْ يَجُزْ بَيْعُهُ وَالِانْتِفَاعُ بِهِ لِأَنَّ الْآدَمِيَّ مُكَرَّمٌ غَيْرُ مُبْتَذَلٍ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ أَجْزَائِهِ مُهَانًا مُبْتَذَلًا۔ (البحر الرائق، كتاب البيوع، باب بیع الفاسد، ٦/٨٨)

لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء،۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الاول 1440

2 تبصرے: