جمعرات، 30 مئی، 2024

نئی صف کہاں سے بنانا شروع کرے ؟



سوال :

مفتی صاحب ! ایک مسجد میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ دائیں اور بائیں دروازوں سے آنے والے (اکثر ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد) بیچ میں سے صف لگانا چھوڑ کر دائیں سے آنے والے دائیں سے اور بائیں سے آنے والے بائیں سے ہی صف لگانے لگتے ہیں اور صف بیچ میں خالی خالی رہتی ہے۔ نیا آدمی اندر آتے ہی سوچتا ہے کہ دائیں سے مکمل کروں یا بائیں سے؟ تو سوال یہ ہے کہ صف کس طرف سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نئی صف کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ درمیان سے یعنی امام کے پیچھے سے بنانا شروع کی جائے گی، اس کے بعد آنے والا دائیں طرف کھڑا ہو، پھر آنے والا بائیں طرف کھڑا ہو، پھر دائیں، پھر بائیں، اسی طرح دونوں طرف میں برابری کا خیال رکھتے ہوئے کنارے تک صف کو مکمل کرنا چاہیے۔

سوال نامہ میں جو صورت بیان کی گئی ہے وہ خلافِ سنت اور غلط طریقہ ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔


حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ بَشِيرِ بْنِ خَلَّادٍ، عَنْ أُمِّهِ، أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، فَسَمِعَتْهُ يَقُولُ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَسِّطُوا الْإِمَامَ وَسُدُّوا الْخَلَلَ "۔(سنن ابی داؤد، رقم : ٦٨١)

وَكَيْفِيَّتُهُ أَنْ يَقِفَ أَحَدُهُمَا بِحِذَائِهِ وَالْآخَرُ بِيَمِينِهِ إذَا كَانَ الزَّائِدُ اثْنَيْنِ، وَلَوْ جَاءَ ثَالِثٌ وَقَفَ عَنْ يَسَارِ الْأَوَّلِ، وَالرَّابِعُ عَنْ يَمِينِ الثَّانِي وَالْخَامِسُ عَنْ يَسَارِ الثَّالِثِ، وَهَكَذَا. اهـ. وَفِيهِ إشَارَةٌ إلَى أَنَّ الزَّائِدَ لَوْ جَاءَ بَعْدَ الشُّرُوعِ يَقُومُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَيَتَأَخَّرُ الْمُقْتَدِي الْأَوَّلُ وَيَأْتِي تَمَامُهُ قَرِيبًا ...... قَالَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «تَوَسَّطُوا الْإِمَامَ وَسُدُّوا الْخَلَلَ» وَمَتَى اسْتَوَى جَانِبَاهُ يَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْإِمَامِ إنْ أَمْكَنَهُ وَإِنْ وَجَدَ فِي الصَّفِّ فُرْجَةً سَدَّهَا۔ (شامی : ١/٥٦٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی القعدہ 1445

ایکسپائری اشیاء فروخت کرنے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایکسپائری پروڈکٹ بیچ رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی صحت خراب ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کو کیا گناہ ملے گا؟ اور ایسا دھندہ کرنے والوں کے لیےشریعت میں کیا حکم ہے؟
(المستفتی : طفیل الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کھانے پینے والی اشیاء یا دوائیں جب ان کی مدت ختم (expiry date) ہوجائے تو پھر ان کے استعمال سے سخت نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی خرید وفروخت قانوناً جُرم ہوتی ہے۔ تاہم ایکسپائری اشیاء شرعاً مال غیرمتقوم یعنی ایسا مال نہیں ہے کہ اس کی کوئی قیمت ہی نہ ہو، لہٰذا اسے بتاکر اور باہمی رضامندی سے قیمت طے کرکے فروخت کرنے کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر اس کا عیب چھپاکر یعنی اس کی ایکسپائری ڈیٹ نہ بتاکر اسے عام اشیاء کی طرح فروخت کرنا دھوکہ ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

  
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ " مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ ؟ " قَالَ : أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ، كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي "۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٠٢)

لَا يَحِلُّ كِتْمَانُ الْعَيْبِ فِي مَبِيعٍ أَوْ ثَمَنٍ؛ لِأَنَّ الْغِشَّ حَرَامٌ إلَّا فِي مَسْأَلَتَيْنِ۔ (شامی : ٥/٤٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی القعدہ 1445

منگل، 28 مئی، 2024

بیوی سے ایک ماہ صحبت نہ کرنے کی قسم کھالے تو؟


سوال :

مفتی صاحب ! مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ شوہر نے ایک ماہ تک بیوی سے مباشرت نہ  کرنے کی اللہ کی قسم کھائی تھی اور ایک ماہ سے پہلے ہی مباشرت کرلیا تو کیا حکم ہے؟ پس منظر یہ تھا کہ بیوی بار بار مباشرت کرنے سے ناراض ہوگئی تھی۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : اکرم علی، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں شوہر نے ایک غلط بات کی قسم کھائی تھی، کیونکہ اس میں بیوی کو تکلیف دینا اور ایک واجب عمل یعنی بیوی کا حق ادا نہ کرنے کی قسم کھانا پایا جاتا ہے۔ تاہم اگر کسی نے ایسی قسم کھا لی ہے تو اسے یہ قسم توڑ دینا چاہیے اور قسم کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ لہٰذا شوہر پر قسم توڑنے کی وجہ سے کفارہ لازم ہوا ہے۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے یا ان کو پہننے کے لئے ایک ایک جوڑا دے، یا ایک غلام آزاد کرے اور اگر دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانے یا ایک ایک جوڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو مسلسل تین دن روزے رکھے۔ اگر الگ الگ کرکے تین روزے رکھے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزہ رکھنا ہوگا۔

قسم کے کفارہ میں دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، البتہ گھر میں کھانے کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں دس مسکینوں کو دو وقت کے کھانے کی قیمت ادا کرنے کی شرعاً اجازت ہے، اسی کے ساتھ اس کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ مالی کفارہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے روزہ رکھ کر کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ کفارہ ادا کرنے کی آسان شکل یہ ہے کہ الگ الگ دس مسکینوں کو دونوں وقتوں کے کھانے کا پیسہ دے دیا جائے۔


قال اللہ تعالیٰ : فَکَفَّارَتُہُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ۔ (سورہ مائدہ، آیت : ۸۹)

وإن شاء أطعم عشرۃ مساکین کالإطعام فی کفارۃ الظہار۔ (ہدایۃ، الأیمان، باب ما یکون یمینا و مالایکون یمینا، ۲/۴۸۱)

ولو غدی مسکینا و أعطاہ قیمۃ العشاء أجزأہ و کذا إذا فعلہ فی عشرۃ مساکین۔ (شامی، کتا ب الأیمان، مطلب : کفارۃ الیمین، ۵/۵۰۳)

وإن عجز عنہا کلہا وقت الأداء صام ثلاثۃ أیام ولاء۔ (در مختار مع الشامی : ۵/۵۰۵)

أو إطعام عشرۃ مساکین، قال فی الشامیۃ: وفی الإطعام إما التملیک أو الإباحۃ فیعشیہم ویغدیہم (إلی قولہ) وإذا غدی مسکینا وعشی غیرہ عشرۃ أیام لم یجزہ لأنہ فرق طعام العشرۃ علی عشرین کما إذا فرق حصۃ المسکین علی مسکینین (وقولہ تحقیقا أو تقدیراً) حتی لو أعطی مسکینا واحدا فی عشرۃ أیام کل یوم نصف صاع یجوز۔ (شامی : ۵/۵۰۳)

ویجوز دفع القیمۃ … ولو غداہم و عشاہم فی یوم واحد أو عشاہم فی یوم آخر أو غداہم فی یومین أو غداہم و أعطاہم قیمۃ عشائہم الخ۔ (تاتارخانیۃ ۶/۳۰۲-۳۰۳، رقم: ۹۴۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ذی القعدہ 1445

اتوار، 26 مئی، 2024

کرکٹ ٹیم کی جیت پر آتش بازی کرنے والے کون؟


✍️مفتی محمد عامرعثمانی ملی 
(امام وخطیب کوہ نور مسجد) 


قارئین کرام ! کچھ دیر پہلے یکے بعد دیگرے کئی مرتبہ کانوں میں پٹاخوں کی تیز آوازیں گونجی تو روڈ پر نکلا تو چند نوجوانوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آئی پی ایل کا آج فائنل تھا جس میں کے کے آر نامی ٹیم فتحیاب ہوئی ہے۔ چونکہ بندے کو کرکٹ میں ذرا بھی دلچسپی نہیں ہے اس لیے ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔

خیر جیسے ہی معلوم ہوا کہ ہمارے نوجوان کرکٹ ٹیم کی فتح کا جشن پٹاخے جلا کر منا رہے ہیں تو دل بالکل بیٹھ سا گیا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ یہ کیا بات ہوئی کہ آئی پی ایل جیسی انتہائی فضول سیریز جو سراسر فضول خرچی اور فحاشی کا اڈا بنی ہوئی ہے، اس میں ہمارے نوجوانوں کی دلچسپی وہ بھی اس حد تک کہ اس میں اپنی پسندیدہ ٹیم کی جیت پر یوں ناجائز اور حرام طریقے پر اس کا جشن منایا جائے؟ وہ بھی ایسے حالات میں جبکہ مسلمان معاشی، سماجی اور سیاسی ہر اعتبار سے کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ پٹاخے  پھوڑنا اور آتش بازی کرنا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے۔

اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۔(سورہ بقرہ، آیت : 195)
ترجمہ : اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔  (سورہ بقرہ، آیت : 195)
آتش بازی میں اکثر جان کی ہلاکت و زخمی ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں۔

فضول خرچی، اور وقت کا ضیاع ۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت : 27)
ترجمہ : بلاشبہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ 

اسی طرح آتش بازی میں غیروں سے مشابَہت پائی جاتی ہے جس کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا، نیز اس میں دوسروں کو تکلیف دینا بھی پایا جاتا ہے جو ایک الگ اور مستقل ناجائز اور حرام کام ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آئی پی ایل میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کی بولیاں لگتی ہیں؟ کیا یہ معاملہ طوائفوں کے ساتھ نہیں ہوتا؟ تو کیا ایسے گھٹیا لوگوں کی جیت پر مسلمانوں کا جشن منانا اور آتش بازی کرنا انتہائی بے غیرتی کی بات نہیں ہے؟


لہٰذا ہماری اپنے نوجوانوں سے انتہائی دردمندانہ درخواست ہے کہ اللہ کے لیے ایسی غیرذمہ داری کا مظاہرہ نہ کریں، حالات کے رُخ کو دیکھیں، ہوش کے ناخن لیں، اپنے آپ کو پہچانیں کہ آپ قوم وملت کا قیمتی سرمایہ ہیں، اپنی جوانی اور اپنے حلال مال کو یوں ان بت پرستوں اور پیسے کے پجاریوں کے پیچھے ضائع نہ کریں۔ اور یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ آپ کی اس غیرشرعی حرکت کا کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے بلکہ صرف اور صرف آپ کی آخرت برباد ہونے والی ہے، اس لیے ابھی سچی پکی توبہ کریں اور پختہ عزم کرلیں کہ آئندہ ایسی چیزوں سے مکمل طور پر دور رہیں گے۔

اللہ تعالٰی ہمارے نوجوانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے، فضولیات اور منکرات سے ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں قوم وملت کے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین یا رب العالمین

ہفتہ، 25 مئی، 2024

عقل کے ننانوے حصے والی روایت کی تحقیق


سوال :

مفتی صاحب ! اللہ نے جب عقل کو پیدا کیا تو اس کے سو حصے کیے ایک حصہ پوری دنیا کے انسانوں میں تقسیم کیا باقی ننانوے حصہ عقل کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔ اس کی تحقیق مطلوب ہے۔
(المستفتی : مشتاق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت مکمل اس طرح بیان کی جاتی ہے :

اللہ تعالیٰ نے عقل کی تخلیق کی، پھر اس کو حکم دیا کہ پیچھے ہو جا، تو وہ پیچھے ہوگئی، پھر اس کو حکم دیا: آگے ہو جا! تو وہ آگے ہو گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں سے ننانوے حصے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا کیے اور ایک حصہ باقی بندوں میں تقسیم کیا۔

اس روایت کے بارے میں مشہور محدث ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق جھوٹی اور من گھڑت ہے۔ ان کے علاوہ حافظ ابن حجر، علامہ سخاوی، علامہ جلال الدین سیوطی اور علامہ عجلونی رحمھم اللہ جیسے بلند پایہ محدثین نے بھی اس روایت کو موضوع من گھڑت قرار دیا ہے۔ 

معلوم ہونا چاہیے کہ مندرجہ بالا ائمہ حدیث نے اس روایت کا پہلا حصہ یعنی "لما خلق الله العقل سے لے کر ”أحب إلي منك“ تک نقل کرکے اس حصے کو موضوع قرار دیا ہے، جبکہ روایت مذکورہ کا وہ حصہ جو زیادہ مشہور ہے (یعنی عقل کے سو حصوں میں سے ننانوے حصے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دیئے گئے اور ایک حصہ باقی لوگوں پر تقسیم کیا گیا) روایت کے اس ٹکڑے کو مندرجہ بالا ائمہ میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اس حصے کو مشہور شیعہ مصنف باقر مجلسی نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے، جو بلاشبہ معتبر نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم افضل البشر ہیں، اللہ تعالیٰ کے بعد بلاشبہ آپ کا ہی مقام ومرتبہ ہے۔ لیکن سوال نامہ میں جو روایت مذکور ہے وہ موضوع اور من گھڑت ہے، لہٰذا اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ہے۔


المحاسن : أبي، عن عبد الله بن الفضل النوفلي، عن أبيه، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): خلق الله العقل فقال له أدبر فأدبر، ثم قال له أقبل فأقبل، ثم قال: ما خلقت خلقا أحب إلي منك، فأعطى الله محمدا (صلى الله عليه وآله) تسعة وتسعين جزءا، ثم قسم بين العباد جزءا واحدا۔ بحار الانوار : ٩٧)

إِنَّ اللَّه لَمَّا خَلَقَ الْعَقْلَ قَالَ لَهُ: أَقْبِلْ، فَأَقْبَلَ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: أَدْبِرْ، فَأَدْبَرَ، فَقَالَ: وَعِزَّتِي وَجَلالِي مَا خَلَقْتُ خَلْقًا أَشْرَفَ مِنْكَ، فَبِكَ آخُذُ، وَبِكَ أُعْطِي، قال ابن تيمية وتبعه غيره: إنه كذب موضوع باتفاق انتهى، وفي زوائد عبد اللَّه بن الإمام أحمد على الزهد لأبيه عن علي بن مسلم عن سيار بن حاتم، وهو ممن ضعفه غير واحد، وكان جماعا للرقائق۔ (المقاصد الحسنۃ، رقم : ٢٣٣)

إِنَّ اللَّهَ لَمَّا خَلَقَ الْعَقْلَ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ فَقَالَ وَعِزَّتِي وَجَلالِي مَا خَلَقْتُ خَلْقًا أَشْرَفَ مِنْكَ فَبِكَ آخُذُ وَبِكَ أُعْطِي قَالُوا إِنَّهُ كَذِبٌ مَوْضُوعٌ اتِّفَاقًا كَذَا فِي الْمَقَاصِدِ۔ (المصنوع فى معرفة الحديث الموضوع، رقم : ٤٨)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 ذی القعدہ 1445

جمعہ، 24 مئی، 2024

بچے کی ختنہ کب کی جائے؟


سوال :

مفتی صاحب ! مسئلہ یہ ہے کہ بچہ کی ختنہ کتنی سال کی عمر تک  کرنا چاہیے؟ ایک صاحب بتارہے تھے کے تیسرے سال میں بچہ کی ختنہ نہیں کرنا چاہیے۔ اسکی کیا حقیقت ہے؟
(المستفتی : حافظ سفیان، اورنگ آباد)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ختنہ کے لیے کوئی مخصوص دن، مہینہ یا سال شرعاً متعین نہیں ہے۔ نومولود لڑکے کی صحت جب بھی اس قابل ہوکہ وہ ختنہ کی تکلیف برداشت کرسکتا ہو تو اس کی ختنہ کرلینا چاہیے۔ اگر پہلے نہیں کی گئی ہے تو تیسرے سال بھی کرسکتے ہیں، تیسرے سال ختنہ کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔


ابْتِدَاءُ الْوَقْتِ الْمُسْتَحَبُّ لِلْخِتَانِ مِنْ سَبْعِ سِنِينَ إلَى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً هُوَ الْمُخْتَارُ كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ بَعْدَ سَبْعَةِ أَيَّامٍ مِنْ وَقْتِ الْوِلَادَةِ كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْفَتَاوَى۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٥٧)

(وَوَقْتُ الْخِتَانِ غَيْرُ مَعْلُومٍ) عِنْدَ الْإِمَامِ فَإِنَّهُ قَالَ لَا عِلْمَ لِي بِوَقْتِهِ، وَلَمْ يَرْوِ عَنْهُمَا فِيهِ شَيْءٌ (وَقِيلَ سَبْعُ سِنِينَ) وَقِيلَ لَا يُخْتَنُ حَتَّى يَبْلُغَ وَقِيلَ أَقْصَاهُ اثْنَيْ عَشَرَ سَنَةً، وَقِيلَ تِسْعُ سِنِينَ وَقِيلَ وَقْتُهُ عَشْرُ سِنِينَ؛ لِأَنَّهُ يُؤْمَرُ بِالصَّلَاةِ إذَا بَلَغَ عَشْرًا اعْتِبَارًا أَوْ تَخَلُّقًا فَيَحْتَاجُ إلَى الْخِتَانِ؛ لِأَنَّهُ شُرِعَ لِلطَّهَارَةِ وَقِيلَ إنْ كَانَ قَوِيًّا يُطِيقُ أَلَمَ الْخِتَانِ خُتِنَ وَإِلَّا فَلَا وَهُوَ أَشْبَهُ بِالْفِقْهِ۔ (مجمع الانہر : ٢/٧٤٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ذی القعدہ 1445

جمعرات، 23 مئی، 2024

ناپاکی کی حالت میں کھانا پینا



سوال :

محترم مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ سننے میں آیا ہے کہ حالت جنابت میں کچھ کھانے پینے سے پہلے کُلی کرنا واجب ہے اگر ایسا کئے بغیر کھایا پیا جائے تو گناہ ہوتا ہے، بہت ہی مؤدبانہ گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائیں کہ شریعت مطہرہ میں اس تعلق سے کیا احکام ہیں؟
(المستفتی : عبدالرحمن انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ناپاکی یعنی صحبت یا احتلام کے بعد غسل سے پہلے آدمی جس کیفیت میں ہوتا ہے اسے حالتِ جنابت کہتے ہیں، اس حالت میں اس کا کھانا پینا جائز ہے۔ البتہ کھانے پینے سے پہلے کُلّی کرلینا بہتر ہے، کُلّی کیے بغیر کھانا پینا خلافِ اولیٰ یعنی بہتر نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
حالت جنابت (ناپاکی) میں کھانا پینا درست ہے، حرام یا ناجائز نہیں ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ ہاتھ دھوکر اور کلی کرکے کھائیں پئیں۔ اور اگر ہاتھ میں نجاست لگے ہونے کا شبہ ہو تو ہاتھ دھونا ضروری ہے۔ (رقم الفتوی : 10859)

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں جو واجب والی بات لکھی ہے وہ درست نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی جنابت کی حالت میں بغیر کُلّی کیے کھا پی لے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔


(لَا) قِرَاءَةَ (قُنُوتٍ) وَلَا أَكْلَهُ وَشُرْبَهُ بَعْدَ غَسْلِ يَدٍ وَفَمٍ، وَلَا مُعَاوَدَةَأَهْلِهِ قَبْلَ اغْتِسَالِهِ إلَّا إذَا احْتَلَمَ لَمْ يَأْتِ أَهْلَهُ۔ (شامی : ١/١٧٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ذی القعدہ 1445

منگل، 21 مئی، 2024

روایت "عالم کا سونا جاہل کی رات بھر کی عبادت سے افضل ہے" کی تحقیق

؛
سوال : 

محترم مفتی صاحب ! ایک عالم کا پوری رات سونا، ایک عابد کی پوری رات عبادت سے افضل ہے۔ کیا یہ حدیث ہے؟ براہ کرم آگاہ فرمائیں۔
(المستفتی : خالد مسیح اللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : علم اور علماء کی بڑی فضیلت قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : " ‌هَلْ ‌يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لايَعْلَمُونَ" علم والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہیں، یعنی جاہل آدمی خواہ کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہوجائے، کتنی ہی عبادت کرلے وہ ایک عالم باعمل کے مقام ومرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن یہ الفاظ کہ"عالم کا سونا جاہل کی ساری رات کی عبادت سے افضل ہے" کسی حدیث شریف میں مذکور نہیں ہے جیسا کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ لہٰذا ان الفاظ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔


"حديث"نوم العالم عبادة "لا أصل له في المرفوع هكذا، بل ورد نوم الصائم عبادة وصمته تسبيح وعمله مضاعف ودعاؤه مستجاب وذنبه مغفور. رواه البيهقي بسند ضعيف عن عبد الله بن أبي أوفى۔ (الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة : ٣٧٤)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
12 ذی القعدہ 1445

پیر، 20 مئی، 2024

رکوع اور سجدہ میں کتنی دیر ٹھہرنا واجب ہے؟


سوال :

مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ رکوع و سجود میں کم سے کم ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم کی مقدار میں ٹھہرنا واجب ہے یا ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم پڑھنا واجب ہے؟ ایک عالم صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔ مع حوالہ بتادیں۔
(المستفتی : عبدالرحمن انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : رکوع یا سجدہ میں ایک مرتبہ ''سبحان ربی العظیم'' یا ''سبحان ربی الاعلی'' کہنے کی مقدار ٹھہرنا واجب ہے، ایک مرتبہ ان تسبیحات کا پڑھنا واجب نہیں۔ ایک قول وجوب کا بیان کیا گیا ہے لیکن وہ مرجوح ہے، راجح قول وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا، اور تین مرتبہ ''سبحان ربی العظیم'' یا ''سبحان ربی الاعلی'' پڑھنا سنت ہے۔


وَالْحَاصِلُ أَنَّ فِي تَثْلِيثِ التَّسْبِيحِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ثَلَاثَةَ أَقْوَالٍ عِنْدَنَا، أَرْجَحُهَا مِنْ حَيْثُ الدَّلِيلُ الْوُجُوبُ تَخْرِيجًا عَلَى الْقَوَاعِدِ الْمَذْهَبِيَّةِ، فَيَنْبَغِي اعْتِمَادُهُ كَمَا اعْتَمَدَ ابْنُ الْهُمَامِ وَمَنْ تَبِعَهُ رِوَايَةَ وُجُوبِ الْقَوْمَةِ وَالْجِلْسَةِ وَالطُّمَأْنِينَةِ فِيهِمَا كَمَا مَرَّ. وَأَمَّا مِنْ حَيْثُ الرِّوَايَةُ فَالْأَرْجَحُ السُّنِّيَّةُ لِأَنَّهَا الْمُصَرَّحُ بِهَا فِي مَشَاهِيرِ الْكُتُبِ، وَصَرَّحُوا بِأَنَّهُ يُكْرَهُ أَنْ يُنْقِصَ عَنْ الثَّلَاثِ۔ (شامی : ١/٤٩٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ذی القعدہ 1445

اتوار، 19 مئی، 2024

حج کس پر فرض ہے؟



سوال : 

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ حج کس پر فرض ہے؟ کیا اس کے لیے بھی کسی نصاب کا مالک ہونا ضروری ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد سلمان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : جس طرح زکوٰۃ اور قربانی کے لیے مخصوص نصاب ہوتا ہے اس طرح حج فرض ہونے کے لیے کسی مخصوص نصاب کا مالک ہونا ضروری نہیں، بلکہ حج کے لیے جانے کی استطاعت ہونی چاہیے۔ اور استطاعت ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس  حج کا سفرخرچ اور جن لوگوں  کی  کفالت اس شخص پر ضروری ہے، سفر  سے واپس آنے تک ان کے گذر بسر کا خرچ نکل سکے اتنے روپئے حج کے مہینوں  میں یا  حجاج کے قافلے  حج  کے لئے جن دنوں میں جاتے ہیں ان دنوں میں مذکور خرچ کسی مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ کے پاس موجود ہو اور اس کی صحت بھی اس کی اجازت دیتی ہو تب اس پر  حج  فرض ہو گا۔


وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا۔ (سورۃ آل عمران، جزء آیت : ٩٧)

الأول : الاسلام فلا یجب علی کافر الخ۔ (غنیۃ الناسک : ۱۲)

 والثانی : العلم بکون الحج فرضاً إما بکونہ فی دارالاسلام وإما بإخبار رجلین أو رجل وامرأتین الخ۔ والحاصل أن العلم المذکور یثبت للمسلم فی دارالاسلام لمجرد الوجود فیہا سواء علم بالفرضیۃ أو لا الخ۔ (غنیۃ الناسک : ۱۳) 

الثالث والرابع : البلوغ والعقل فلا یجب علی صبی أو مجنون الخ۔ الخامس: الحریۃ فلا یجب علیٰ عبد الخ فلو حج ولو باذن المولی فہو نفل لا یسقط الفرض۔ (غنیۃ الناسک : ۱۶) 

السادس : الاستطاعۃ وہی القدرۃ علی زاد یلیق بحالہ۔ (غنیۃ الناسک : ۱۶) 

السابع : الوقت أی وجود القدرۃ فیہ وہی اشہر الحج أو ہو وقت خروج أہل بلدہ إن کانوا یخرجون قبلہا۔ (غنیۃ الناسک : ۲۲، ومثلہ فی الہندیۃ ۱؍۲۱۶-۲۱۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ذی القعدہ 1445

ہفتہ، 18 مئی، 2024

*شہری سیاست میں برائیوں کا سیلاب*


                            کون ہے جو اسے روکے؟

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی 
  (امام و خطیب مسجد کوہ نور) 

قارئین کرام ! بڑے افسوس اور کرب کے ساتھ یہ سطریں لکھ رہا ہوں کہ دن بدن شہری سیاست میں بگاڑ در بگاڑ پیدا ہوتا جارہا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ، غیبت، بہتان، آبرو ریزی، دل آزاری، ایذائے مسلم، تکبر، وعدہ خلافی، بے وفائی، غداری اور حرام خوری کا دور دورہ تو ہے ہی، اسی کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپے کے بڑے بڑے تصویری بینر، جلسہ جلوس میں ڈھول باجے، اور لاکھوں روپے کے پٹاخے اور آتش بازی کے سامان چند منٹوں میں پھونکے جارہے ہیں۔

اچھے اچھے دیندار سمجھے جانے والے اور داڑھی ٹوپی والوں کے سامنے ڈھول باجے بج رہے ہیں اور ان کے استقبال میں آتش بازی ہورہی ہے، جلسوں میں شرکت کے نام پر ہلڑ باز نوجوانوں کی بائک ریلی جو انتہائی مکروہ آواز کے باجے بجاتی ہوئی اور جانوروں کی طرح چینختی چلاتی اور راہ گیروں کو تکلیف دیتی ہوئی سڑکوں سے گذر رہی ہے۔ لیکن نہ ہی ان سیاسی لیڈروں کے کان پر جوں رینگ رہی ہے اور نہ ہی ان کے ماننے والوں میں سے کوئی اسے برا کہہ رہے اور نہ ہی اسے برا سمجھ رہا ہے۔ کیونکہ اگر برا سمجھا جارہا ہوتا تو اب تک اس پر کچھ لکھا اور بولا کیوں نہیں گیا؟ جبکہ یہ تمام چیزیں شرعاً ناجائز اور حرام ہیں۔ اس پر تو یہی شعر صادق آتا ہے کہ :

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

معزز قارئین! تصویری بینروں کا ناجائز اور گناہ ہونا بالکل واضح ہے۔ احادیث مبارکہ میں تصویر بنانے اور بنوانے کے لیے متعدد احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے : اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جَو ہی بناکر دکھلائیں۔ (صحیح بخاری، حدیث : 5953، 7559)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن سب سے سخت ترین عذاب تصویریں بنانے والے لوگوں کو ہوگا۔ (صحیح مسلم، حدیث : 2109)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ہر مصور جہنم میں جائے گا۔ اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ایک جان بنائی جائے گی جس کے ذریعہ سے اس (مصور) کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث : 2225، 5963)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی، اسے قیامت کے دن اس تصویر میں روح پھونکنے کا حکم دیا جائے گا مگر وہ اس میں روح ہر گز نہ پھونک سکے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث : 5963)

ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا : کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، وہ یہ کہ تم کسی تصویر کو مٹائے بغیر اور کسی بلند قبر کو زمین کے برابر کیے بغیر نہ چھوڑنا۔ (صحیح مسلم، حدیث : 969)


ڈھول باجے اور موسیقی فی نفسہ ایک حرام اور قبیح ترین فعل ہے، قرآن کریم واحادیث مبارکہ میں ان کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ۔

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ  لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ۔
ترجمہ: اور وہ لوگ ہیں کہ خریدار ہیں کھیل کی باتوں کے تاکہ بچلائیں اللہ کی راہ سے بن سمجھے اور ٹھہرائیں اس کو ہنسی وہ جو ہیں ان کو ذلت کا عذاب ہے۔ (سورۃ لقمان : ۶)

چنانچہ ’’لہو الحدیث‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ :
’’ان لہو الحدیث ہو الغناء واشباہہ‘‘
یعنی ’’لہو الحدیث‘‘ سے مراد گانا بجانا اور اسی قسم کی اور بہت سی چیزیں جو گانے بجانے اور موسیقی کے مشابہ ہوں۔

در مختار میں ہے :
’’وفی السراج: ودلت المسألۃ ان الملاہی کلہا حرام‘ ویدخل علیہم بلا اذنہم لانکار المنکر۔قال ابن مسعود: صوت اللہو والغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء النبات‘‘
ترجمہ:’’اور سراج میں ہے مسئلہ دلالت کرتا ہے کہ ملاہی (لہو لعب کی چیزیں) ساری حرام ہیں، حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ لہوو لعب کی آواز اور گانے کی آواز دل میں نفاق اگاتی ہے‘ جیساکہ پانی پودوں کو اگاتا ہے۔


پٹاخے پھوڑنے اور آتش بازی کرنے میں درج ذیل قباحتیں ہیں۔

اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۔(سورہ بقرہ، آیت : 195)
ترجمہ : اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔  (سورہ بقرہ، آیت : 195)
آتش بازی میں اکثر جان کی ہلاکت و زخمی ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں۔

فضول خرچی، اور وقت کا ضیاع ۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت : 27)
ترجمہ : بلاشبہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ 

اسی طرح آتش بازی میں غیروں سے مشابَہت پائی جاتی ہے جس کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا، نیز اس میں دوسروں کو تکلیف دینا بھی پایا جاتا ہے جو ایک الگ اور مستقل ناجائز اور حرام کام ہے۔

محترم قارئین! درج بالا تفصیلات کے پڑھنے کے بعد ہم اور آپ اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ تمام کام کبیرہ اور سنگین گناہ ہیں، لیکن آج حالات ایسے بن چکے ہیں کہ اب ان پر کوئی لکھے یا بولے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھا جائے گا، ایسے ہی حالات کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے درج ذیل پیشگوئی فرمائی ہے۔

حضرت عمر بن عوف راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : دین ابتداء میں غریب پیدا ہوا تھا اور آخر میں ایسا ہی ہو جائے گا جیسا کہ ابتداء میں تھا، چنانچہ خوشخبری ہو غریبوں کو وہی اس چیز کو درست کر دیں گے جس کو میرے بعد لوگوں نے خراب کر دیا ہوگا۔ (ترمذی)

یعنی جب ایسی برائیوں پر نکیر کی جائے گی جو لوگوں میں بالکل رچ بس گئی ہوگی، تو ان برائیوں کا ارتکاب کرنے والے، نکیر کرنے والوں اور ان برائیوں کے خلاف بولنے والوں کو احمق، بے وقوف اور قدامت پسند سمجھ کر نظرانداز کردیں گے۔

لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان سنگین گناہوں پر لکھیں، بولیں اور اپنے متعلقین میں کوئی یہ حرکت کررہا ہوتو اسے سمجھائیں، اثر ورسوخ رکھنے والے افراد لیڈران سے بات کریں، کیونکہ اگر ان برائیوں پر قدغن نہیں لگایا گیا تو مستقبل میں ہمیں ایسے لیڈران دیکھنے کو ملیں گے جنہیں دین کا کوئی شعور نہیں ہوگا، جو دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری نسلوں کی آخرت کی بربادی کا بھی سبب بنیں گے۔ معاذ اللہ

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کے پہلے درجہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جمعہ، 17 مئی، 2024

ووٹ دینا کیوں ضروری ہے؟


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
         (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! لوک سبھا انتخابات کا سلسلہ جاری ہیں، کئی مراحل کی ووٹنگ ہوچکی ہے۔ اور کئی مرحلوں کی ووٹنگ باقی ہے۔ ایسے میں مختلف طرح کے سوالات اور مطالبات آرہے ہیں جس کی وجہ سے یہ مضمون لکھا جارہا ہے، اس مضمون کو  ملاحظہ فرمائیں ان شاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا۔

معزز قارئین ! علماء نے ووٹ کی مختلف حیثیتیں لکھی ہیں، جن میں ایک حیثیت شہادت کی ہے، لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ ووٹ بذاتِ خود شہادت نہیں بلکہ یہ شہادت کی طرح ہے۔جس طرح شہادت میں گواہ کسی چیز کا دعوی کرنے والے شخص کے حق میں گواہی دیتا ہے اسی طرح ووٹ کے موجودہ نظام میں بھی انتخابات کے لئے کھڑا ہونے والا امیدوار شخص دو چیزوں کا دعوی کرتا ہے ایک یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ دیانت داری اور امانت داری کے ساتھ اس کام کو انجام دے گا اور اس کو ووٹ دینے والا شخص امیدوار کے متعلق ان دونوں دعوؤں پر گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت رکھتا ہے اور دیانتدار و امانتدار بھی ہے۔

دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے، کہ ووٹر امیدوار کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے۔ 

ووٹ کی ایک تیسری حیثیت وکالت کی ہے،کہ ووٹ دینے والااس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے، ایک شہادت، دوسری سفارش، تیسری حقوقِ مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح دیانت دار اور قابل امیدوار کو ووٹ دینا موجبِ ثواب ہوگا، اسی طرح جان بوجھ کر یا مال کے عوض نااہل شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی ووٹ دینے والے کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ نیز بغیر کسی عذر کے ووٹ ہی نہ دینا کسی نہ کسی درجہ میں شہادت اور گواہی کو چھپانا ہے جو شرعاً بھی درست نہیں ہے۔ اور موجودہ حالات میں جبکہ فرقہ پرست اور شرپسند عناصر اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل یہاں کی بھائی چارگی اور مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں، مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے ہیں، مذہبی کارڈ کھیل کر اور عوام کو گمراہ کرکے اپنا اُلو سیدھا کیا جاریا ہے، ہندوستان کی معیشت کو غیرمعمولی نقصان پہنچایا جارہا ہے تو ایسے حالات میں ووٹ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ہرحال میں ووٹ دینا اور دلوانا ہے اور سیکولر پارٹیوں کے جیتنے کی پوزیشن رکھنے والے امیدوار کو ووٹ دینا ہے، جیتنے کی پوزیشن نہ رکھنے والے امیدوار کو اپنا قیمتی ووٹ دے کر اس کو ضائع کرنے کی حماقت بالکل نہ کریں۔ 

یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ ان شرپسندوں کے مقابلے میں بظاہر جو سیکولر اتحاد قائم کیا گیا ہے وہ بھی کوئی دودھ کا دھلا یا مسلمانوں کا بڑا خیرخواہ نہیں ہے، لیکن شریعت کے اصولوں اور حکمت ومصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ جب دو مصیبتیں ہم پر نازل ہورہی ہوں اور دونوں سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہ ہوتو ہم چھوٹی مصیبت کو اختیار کرلیں اور چھوٹی مصیبت کے ذریعے بڑی مصیبت کو زِیر کردیں۔ 

اسی طرح خواتین کو صبح کی اولین ساعتوں میں ووٹنگ کے لیے لے جایا جائے۔ کیونکہ خواتین گھریلو مصروفیات کی وجہ سے اس میں کوتاہی کردیتی ہیں، اگر کسی پولنگ بوتھ پر شناخت کے لیے افسران کے مطالبے پر چہرہ کھولنے کی نوبت آجائے تو بوقتِ ضرورت شرعاً اس کی بھی گنجائش ہوگی۔ اسے مسئلہ بناکر ووٹنگ میں تاخیر نہ کی جائے، کیونکہ تاخیر کی وجہ سے ووٹنگ کے فیصد پر اثر پڑتا ہے، اور ہمیں زیادہ سے زیادہ بلکہ صد فیصد ووٹنگ کی کوشش کرنا ہے جو ہمارے لیے ان شاء اللہ مفید ثابت ہوگی۔

اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کو درست فرمادے، ظالموں کے تسلط سے ہماری حفاظت فرمائے اور وطن عزیز ہندوستان میں امن وامان اور ترقی کے فیصلے فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

منگل، 14 مئی، 2024

رشتہ داری ٹوٹنے کے ڈر سے اپنا حصہ معاف کرنا


سوال :

اگر بھائی" بہنوں کو وراثت میں حصہ نہیں دے رہے یا مانگنے پر لڑائی کر رہے، تو رشتے داری نا ٹوٹے اس خوف سے بہن مطالبہ نا کرے یا چھوڑ دے یا معاف کر دے، تو کیا معاف ہو جائے گا؟
(المستفتی : بلال احمد، پونہ)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اپنی مرضی اور خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے اگر بہن اپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ کردے تو یہ جائز ہے۔ لیکن بھائیوں کے حصہ نہ دینے، لڑائی کرنے اور رشتہ داری ٹوٹ جانے کے اندیشہ کی وجہ سے اگر کوئی بہن اپنا حصہ چھوڑ دے یا معاف کردے تو وہ معاف نہیں ہوتا بلکہ اس کا حصہ بدستور برقرار رہتا ہے۔ لہٰذا اس کا حصہ دینا ضروری ہے، ورنہ بروزِ حشر حصہ نہ دینے والے بھائیوں سے اس کا سخت مؤاخذہ ہوگا، اور ان سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔


الارث جبري لا يسقط بالاسقاط۔ (تكملۃ ردالمحتار علی الدرالمختار،كتاب الدعوی، ١١/٦٧٨)

لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، وكذا لو قال المرتهن: تركت حقي في حبس الرهن بطل،كذا في جامع الفصولين للعمادي، وفصول العمادي .

قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء، وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية ولا يخالفنا إلا في الدين، فإنه يجوز تمليكه ممن هو عليه.

قوله: كذا في جامع الفصولين. يعني في الثامن والثلاثين وعبارته: قال أحد الورثة برئت من تركة أبي؛ يبرأ الغرماء عن الدين بقدر حقه لأن هذا إبراء عن الغرماء بقدر حقه فيصح ولو كانت التركة عينا لم يصح. ولو قبض أحدهم شيئا من بقية الورثة وبرئ من التركة وفيها ديون على الناس لو أراد البراءة من حصة الدين صح لا لو أراد تمليك حصته من الورثة لتمليك الدين ممن ليس عليه"۔ (غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر : ٣/٣٥٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی القعدہ 1445

جمعرات، 9 مئی، 2024

ایک سحری سے متعدد روزے اور چپ کا روزہ رکھنے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے اگر کوئی شخص ایک سحری سے کئی روزہ رکھے اور اس میں کسی سے بھی چیت نہ کرے تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حسان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے روزہ پر روزہ پر رکھنے سے منع فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو روزہ پر روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تم میں سے کون شخص میری طرح ہے؟ میں تو اس طرح رات گزارتا ہوں میرا پروردگار کھلاتا ہے اور میری پیاس بجھاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

حدیث شریف میں مذکور روزہ پر روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد روزے اس طرح مسلسل رکھے جائیں کہ درمیان میں افطار نہ ہو، روزہ پر روزہ رکھنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ ضعف اور کمزوری کا سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے دوسری عبادات اور طاعات میں نقصان و حرج واقع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور امام شافعی رحمھم اللہ نے اسے مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔

جمہور علماء امت کا کہنا ہے کہ روزہ پر روزہ رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے ہے اور حدیث کے ظاہر مفہوم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔

چپ کا روزہ رکھنا یعنی روزہ کی حالت میں بتکلف خاموش رہنا، کوئی بات چیت نہ کرنا اور اس کو عبادت سمجھنا مجوسیوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے۔ 

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور دونوں عمل کوئی ثواب کا کام نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے خلاف مکروہ تحریمی یعنی ناجائز اور گناہ کے ہیں، لہٰذا ان سے بچنا ضروری ہے۔


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تُوَاصِلُوا ، فَأَيُّكُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوَاصِلَ فَلْيُوَاصِلْ حَتَّى السَّحَرِ ". قَالُوا : فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنِّي أَبِيتُ لِي مُطْعِمٌ يُطْعِمُنِي، وَسَاقٍ يَسْقِينِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١٩٦٣)

وَكَذَا صَوْمُ الصَّمْتِ وَهُوَ أَنْ يُمْسِكَ عَنْ الطَّعَامِ، وَالْكَلَامِ جَمِيعًا، لِأَنَّ «النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَهَى عَنْ ذَلِكَ» وَلِأَنَّهُ تَشَبُّهٌ بِالْمَجُوسِ۔ (بدائع الصنائع : ٢/٧٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 شوال المکرم 1445

عدت کے ایام میں ووٹ دینے جانا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ھذا کے متعلق کہ ایک عورت عدت کی حالت میں موجودہ الیکشن 2024 میں اپنی ووٹنگ کرنے کے لئے گھر سے نکل سکتی ہے کیا؟ شریعت کی نظر میں اس کا ووٹنگ کے لئے نکلنا کیسا ہے؟ ہم نے سنا ہے کہ عورت کا حالت عدت میں صرف ضروریات اصلیہ کے لئے نکلنا مباح ہے، موجودہ الیکشن 2024 کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے از راہ کرم مکمل رہبری فرمائے، عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : عبداللہ، پونہ)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عدت خواہ وفات کی ہو یا طلاق کی۔ اس میں معتدہ کے لیے بغیر کسی شرعی عذر کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ اور ووٹ دینے کو بعض مفتیان نے شرعی ضرورت میں شمار نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے دئیے گئے فتاوی میں اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے کہ متعدہ ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکلے۔ البتہ بہت سے مفتیان نے موجودہ حالات میں عدت کے ایام میں ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے۔

مفتی شکیل منصور قاسمی لکھتے ہیں :
معتدہ کو صرف ضرورت شرعی وطبعی کے لئے باہر نکلنے کی اجازت ہے :
لا تخرج المعتدۃ عن طلاق أو موت إلا لضرورۃ۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ، زکریا دیوبند ۵/۲۲۵، کراچی ۳/۵۳۶، البحر الرائق زکریا ۴/۲۵۹، کراچی ۴/۱۵۴)

ووٹ دینا ادائے شہادت ہے جو شرعی ضرورت اور بمنزلہ وجوب ہے۔ اس لئے میرے خیال سے شرعی حدود میں رہتے ہوئے معتدہ ووٹ دینے کے لئے دن ہی دن باہر نکل سکتی ہے۔ دیگر ارباب افتاء سے بھی استفسار کرلیا جائے، جو حضرات ووٹ دینے کو شرعی ضرورت نہ گردانتے ہوں ان کے یہاں حکم مختلف ہوسکتا ہے۔

معین مفتی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، مفتی نعمان سیتاپوری تحریر فرماتے ہیں :
دور حاضر میں ملکی حالات کے تناظر میں ووٹ ایک شخصی، ملی اور ملکی ضرورت ہے، اس کے لئے معتدہ کا نکلنا بلاشبہ جائز ہے۔ ووٹ کا مسئلہ نیا ہے؛ اس لئے شامی وغیرہ میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملے گا۔ اور اکابر کے فتاوی میں جو کچھ ہے، وہ ان حضرات کے حالات زمانہ کے تناظر میں ہے، اور اب حالات بہت کچھ بدل چکے ہیں اور ووٹ کی حیثیت واہمیت بھی پہلے سے بہت زیادہ ہوچکی ہے ، جس کی تفصیل کا فی الحال موقع نہیں ؛ البتہ اتنا عرض ہے کہ احقر کا فتوی سمجھنے کے لیے ۲؍ چیزیں ضروری ہیں: ایک ان فقہی جزئیات کا مطالعہ، جن میں ضرورت اور رفع حرج کے لیے معتدہ کو خروج کی اجازت دی گئی ہے۔ اور دوسری چیز یہ کہ ووٹ کی حیثیت، اس کے مثبت ومنفی اثرات ونتائج کیا ہیں بالخصوص دور حاضر کے ملکی حالات کے تناظر میں؟ جو مفتی درج بالا دونوں باتیں مد نظر رکھے گا، اسے احقر کے فتوے پر کوئی اشکال نہیں ہوگا، احقر نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بہت غور وفکر پر مبنی ہے؛ بلکہ احقر کئی مہینوں سے اس مسئلہ پر غور کررہا ہے، باقی احقر کا مقصد کسی کو منوانا نہیں ہے، اگر کوئی نہیں مانتا تو اس کی مرضی۔ اور اگر کسی کوئی علمی اشکال ہو تو احقر اسے سننے، سمجھنے اور اس کا معقول جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ (۲۵؍ رجب، ۱۴۴۰ھ، سہ شنبہ)

ان کے علاوہ بھی بیسیوں مفتیان نے ان فتاوی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور تصدیق کی ہے۔ بندہ کا رجحان بھی یہی ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ ووٹ کی اہمیت کافی بڑھ چکی ہے، پھر NRC (شہریت ترمیمی قانون) میں ووٹ دینا ثبوت کے طور پر بھی کام آنے والا ہے۔ لہٰذا اس کی اجازت ہونی چاہیے۔

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی نے لکھا ہے کہ 
قاتل کی شناخت کرنے کے لئے عدت والے مکان سے عدالت میں جانا درست ہے، مگررات کو اپنے مکان میں پہنچ جائے۔ (فتاوی محمودیہ : ٢٠/٣١)

چنانچہ جب ایک قاتل کی شناخت کے لیے عدت کے ایام میں عدالت جانے کی گنجائش ہے تو پھر سینکڑوں معصوموں اور بے گناہوں کے قاتلوں کو سبق سکھانے کے لیے عدت کے ایام میں ووٹ دینے کے لیے جانے کی بدرجہ اولیٰ گنجائش ہوگی۔

البتہ اس میں خیال رکھا جائے کہ جتنی جلدی ہوسکے معتدہ ووٹ دے کر اپنے گھر پہنچ جائے، نیز کسی محرم مرد یا کسی عورت کے ساتھ جائے اور پردہ کا اہتمام تو ہر وقت ضروری ہے۔


لا تخرج المعتدۃ عن طلاق أو موت إلا لضرورۃ۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ، زکریا دیوبند ۵/۲۲۵، کراچی ۳/۵۳۶، البحر الرائق زکریا ۴/۲۵۹، کراچی ۴/۱۵۴)

الضرورات تبیح المحظورات۔ (الاشباہ والنظائر :۱۴۰)

اَلضَّرُوْرَاتُ تَتَقَدَّرُ بِقَدْرِہَا۔ (قواعد الفقہ:ص۸۹، القاعدۃ:۱۷۱)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
29 شوال المکرم 1445

منگل، 7 مئی، 2024

حج کی قربانی میں تاخیر ہوجائے تو؟


سوال :

مفتی صاحب ! تمتع کرنے والے نے حج کی قربانی ۱۲ کی غروب سے پہلے نہیں کی تو کیا حکم ہے؟ کیا صرف ایک دم دینا ہوگا یا ساتھ میں تمتع کی قربانی بھی کرنی ہوگی یعنی دو قربانی کرنی ہوگی؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نصاب والی قربانی کی طرح دمِ قران اور دم تمتع کے بھی تین دن ہیں، عید کا دن (دس ذی الحجہ)، اور عید کے بعد دو دن (گیارہ اور بارہ ذی الحجہ)۔ یعنی ان تین دنوں میں حج کی قربانی کرلینا واجب ہے۔ اگر اس میں تاخیر ہوگئی یعنی بارہ ذی الحجہ کو غروب کے بعد اگر کسی نے حج کی قربانی کی تو اس کی قربانی تو ادا ہوجائے گی، لیکن وقتِ مقررہ، یعنی ایام نحر میں قربانی نہ ہونے کی وجہ سے اس پر ایک دم بھی لازم ہوگا۔ 

صورتِ مسئولہ میں دمِ تمتع کے ساتھ دمِ جنایت بھی دینا ضروری ہے۔


ویختص ذبحہ بالمکان وہو الحرم، وبالزمان وہو أیام النحر حتی لو ذبح قبلہا لم یجز بالإجماع ولو ذبح بعدہا أجزأہ بالإجماع، ولکن کان تارکا للواجب عند الإمام یجب بین الرمي والحلق ولا آخر لہ في حق السقوط۔ (غنیۃ : ۱۲۸)

ولو أخر القارن والمتمتع الذبح عن أیام النحر فعلیہ دم۔ (غنیۃ : ۱۴۹)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
27 شوال المکرم 1445

اتوار، 5 مئی، 2024

کیا اللہ کے ذکر سے غافل مچھلی جال میں پھنستی ہے؟


سوال :

مفتی صاحب ! جال میں وہی مچھلی پھنستی ہے جو اللہ کے ذکر سے غافل ہو، کیا یہ حدیث ہے یا کسی بزرگ کا مقولہ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، بھیونڈی)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : واقعات اور پند ونصائح پر مشتمل علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی کتاب "صفۃ الصفوۃ" میں ایک واقعہ مذکور ہے جو درج ذیل ہے۔

ابو العباس بن مسروق بیان فرماتے ہیں کہ میں جب یمن میں تھا، تو  ایک ساحل پر کسی شکاری کو مچھلی  شکار کرتے دیکھا، اس کے پہلو میں اس کی بیٹی بھی موجود تھی، وہ جب بھی مچھلی شکار کرکے اسے ٹوکرے میں ڈالتا، اس کی بیٹی اسے واپس پانی میں ڈال دیتی، آخر میں شکاری نے ٹوکرے کو دیکھا تو اس میں کچھ نہیں تھا، اپنی بیٹی سے کہا : تونے مچھلیوں کے ساتھ کیا کیا؟ اس نے کہا: اے ابا جان ! کیا میں نے آپ سے نہیں سنا  کہ آپ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جال میں وہی مچھلی پھنستی ہے جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو، مجھے اچھا نہیں لگا کہ ہم ایسی چیز کھائیں جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو، تو آدمی رونے لگا، اور جال پھینک دیا۔ 

لیکن اس واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرکے جو بات کہی گئی ہے کہ "جال میں وہی مچھلی پھنستی ہے جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو" اس کی کوئی سند نہیں ہے اور نہ ہی کسی حدیث کی کتاب میں یہ روایت مذکور ہے۔ لہٰذا اسے حدیث کہہ کر تو بالکل بیان نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی کا قول کہہ کر بیان کرسکتے ہیں، اس لیے کہ یہ ایک غیبی اور چھپی ہوئی بات ہے جس کا علم ہمیں قرآن وحدیث کے بغیر نہیں ہوسکتا۔


أبو العباس بن مسروق قال : كنت باليمن فرأيت صياداً يصطاد السمك على بعض السواحل، وإلى جنبه ابنة له. فكلما اصطاد سمكة فتركها في دوخلة معه ردت الصبية السمكة إلى الماء، فالتفت الرجل فلم ير شيئاً، فقال لابنته: أي شيء عملت بالسمك؟ فقالت: يا أبي أليس سمعتك تروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "لا تقع سمكة في شبكة إلا إذا غفلت عن ذكر الله عز وجل" فلم أحب أن نأكل شيئاً غفل عن ذكر الله تعالى. فبكى الرجل ورمى الصنارة۔ (صفة الصفوة لابن الجوزي : ٢/٥٣٥)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
25 شوال المکرم 1445

ہفتہ، 4 مئی، 2024

حضرت ادریس علیہ السلام کا آسمان پر اٹھا لیا جانا


سوال :

مفتی صاحب ! آج ایک صاحب جو کہ عالم ہیں، انہوں نے مجھے ایک واقعہ بیان کیا کہ 
ادریس علیہ السلام کی ملک الموت سے دوستی تھی حضرت ادریس علیہ السلام سے ملک الموت سے کہا کہ آپ روح کسطرح نکالتے ہو تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر ان کو کہا کہ آپ لیٹ جائیں پھر انہوں نے اُنکی روح نکالنا شروع کر دیا پھر تھوڑی دیر بعد حضرت ادریس علیہ السلام نے منع کر دیا کہ اب رک جاؤ پھر حضرت ادریس علیہ السلام نے جہنم دیکھنے کی خواہش کی پھر ملک الموت نے اللہ تعالیٰ سے اجازت کے بعد انہیں لے گئے جہنم سے پہلے ہی حضرت ادریس علیہ السلام نے گرمی اور سختی کی وجہ سے کہا کہ بس میں نے دیکھ لیا جبکہ انہوں نے نہیں دیکھا تھا پھر اسی طرح جنت کی خواہش ظاہر کی پھر اللہ تعالیٰ سے اجازت کے بعد وہ دونوں گئے پھر حضرت ادریس علیہ السلام نے جنت میں سے جانے سے منع کیا تو فرشتے نے اُن سے کہا کہ یہاں موت سے پہلے نہیں آ سکتے تو حضرت ادریس علیہ السلام نے کہا کہ روح تو نکالی تھی نا۔ بھلے تھوڑی ہی، لیکن نکالی تھی، پھر ان کو اجازت مل گئی اور وہ وہاں ہی ہے۔ اس کی دلیل انہوں نے کہا کہ رفع ادریس ایسے کچھ الفاظ ہے ۱۰ سے ۲۰ پارے کے درمیان میں نے کہا کہ آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سنا تھا یہ پہلے سنا تو وہ کہنے لگے کہ یہ علماء کرام کے لیول کی باتیں ہیں، عوام میں ان کو بیان نہیں کیا جاتا اور میں قرآن سے بتا رہا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس واقعہ کی تحقیق بیان فرمائیں۔
(المستفتی : محمد یاسین، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم میں حضرت ادریس علیہ السلام کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا۔ اور ہم نے انہیں رفعت دے کر ایک بلند مقام تک پہنچا دیا تھا۔ 

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے سوال نامہ میں مذکور اور اس جیسے اور بھی واقعات بیان کیے ہیں۔ اس واقعہ کی تحقیق میں درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ فرمائیں :

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
حضرت ادریس علیہ السلام کے زندہ آسمان میں اٹھائے جانے کے متعلق جو روایات ہیں حضرت مفتی شفیع صاحب رحمةاللہ علیہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ ان روایات کے بارے میں ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہیں اور اُن میں سے بعض میں نکارت واجنبیت ہے اور حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم کی آیت وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کے معنی یہ ہے کہ اُن کو نبوت و رسالت اور قرب الٰہی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا، بہرحال قرآن کریم کے الفاظِ مذکورہ صریح نہیں ہے کہ یہاں رفعت درجہ مراد ہے یا زندہ آسمان میں اٹھانا مراد ہے اس لیے انکار رفع الی السماء قطعی نہیں ہے (معارف القرآن، ج: ۶/۴۰) مذکورہ عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کا زندہ جنت میں جانا قطعی نہیں ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام باحیات ہیں قرآن کریم اس پر شاہد ہے بل رفعہ اللہ إلیہ (النساء آیت: ۱۵۸) اور آپ قرب قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ (رقم الفتوی : 145940)

مفتی رضاء الحق لکھتے ہیں :
حقیقت بھی یہی ہے کہ اس روایت کے اکثرو بیشتر رواۃ کا تذکرہ کتب رجال میں موجود ہی نہیں ہے ان کے علاوہ اور دوسرے حضرات مثلا امام سیوطی ؒ نے در منثور میں امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اور دیگر مفسرین نے اپنی کتب تفاسیر میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس روایت کے مختلف طرق نقل کئے ہیں، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ اکثرکا مدار کعب احبار پر ہے اور ان کے بارے میں ابن کثیرؒ کی رائے گزرچکی کہ یہ اسرائیلیات ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جو روایات کعب احبار کے علاوہ ہیں ان کے رواۃ پر جرح ہے وہ غیر مقبول ہیں ، لہذا کسی بھی اعتبار سے اس واقعہ کی روایات قابل اطمینان نہیں اور اس کی صحت بہت بعید ہے۔ (فتاوی دارالعلوم زکریا : ١/١٣١)

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں :
اس سے مراد نبوت و رسالت اور تقویٰ اور بزرگی کا اعلیٰ مرتبہ ہے جو ان کے زمانے میں انہی کو عطا ہوا۔ بائبل میں ان کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی ایسی کچھ روایتیں آئی ہیں جن کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے نہایت کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں۔ (توضیح القرآن : ٦٦٠)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور حضرت ادریس علیہ السلام کا واقعہ معتبر نہیں ہے، لہٰذا اسے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ اور مَكَانًا عَلِيًّا سے مراد یہی ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو نبوت و رسالت اور تقویٰ اور بزرگی کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کیا گیا تھا جو اُس وقت کسی اور کو نہیں دیا گیا تھا۔


عن ام سلمۃ ان رسول اللہاقال ان ادریس علیہ السلام کان صدیقا لملک الموت فسألہ أن یریہ الجنۃ والنار فصعد ادریس ،رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ ابراہیم بن عبد اللہ بن خالد المصیصی وہومتروک۔ (مجمع الزوائد ۸/۱۹۹)

حدثنا حسین بن علیّ عن زائدۃ عن مسیرۃ الاشجعی عن عکرمۃ عن ابن عباس قال : سالت کعباً عن رفع ادریس مکانا علیا فقال الخ ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱/۵۴۹/۱۱۹۳۲)

ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد یہ تبصرہ فرمایا ہے۔

ھذا من اخبار کعب الاحبار الاسرائیلیات وفی بعضہ نکارۃ ۔واللہ اعلم (تفسیر ابن کثیر : ۳/ ۱۴۰)

وھذا من الاسرائیلیات وفی بعضہ نکارۃ وایضا قال فی مثل ھذہ الروایات وہو من الاسرائیلیات لا تصدق ولا تکذب بل الظاہر ان صحتہا بعیدۃ۔(البدایۃ والنہایۃ : ۱/۱۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شوال المکرم 1445