جمعرات، 9 مئی، 2024

عدت کے ایام میں ووٹ دینے جانا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ھذا کے متعلق کہ ایک عورت عدت کی حالت میں موجودہ الیکشن 2024 میں اپنی ووٹنگ کرنے کے لئے گھر سے نکل سکتی ہے کیا؟ شریعت کی نظر میں اس کا ووٹنگ کے لئے نکلنا کیسا ہے؟ ہم نے سنا ہے کہ عورت کا حالت عدت میں صرف ضروریات اصلیہ کے لئے نکلنا مباح ہے، موجودہ الیکشن 2024 کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے از راہ کرم مکمل رہبری فرمائے، عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : عبداللہ، پونہ)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عدت خواہ وفات کی ہو یا طلاق کی۔ اس میں معتدہ کے لیے بغیر کسی شرعی عذر کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ اور ووٹ دینے کو بعض مفتیان نے شرعی ضرورت میں شمار نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے دئیے گئے فتاوی میں اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے کہ متعدہ ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکلے۔ البتہ بہت سے مفتیان نے موجودہ حالات میں عدت کے ایام میں ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے۔

مفتی شکیل منصور قاسمی لکھتے ہیں :
معتدہ کو صرف ضرورت شرعی وطبعی کے لئے باہر نکلنے کی اجازت ہے :
لا تخرج المعتدۃ عن طلاق أو موت إلا لضرورۃ۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ، زکریا دیوبند ۵/۲۲۵، کراچی ۳/۵۳۶، البحر الرائق زکریا ۴/۲۵۹، کراچی ۴/۱۵۴)

ووٹ دینا ادائے شہادت ہے جو شرعی ضرورت اور بمنزلہ وجوب ہے۔ اس لئے میرے خیال سے شرعی حدود میں رہتے ہوئے معتدہ ووٹ دینے کے لئے دن ہی دن باہر نکل سکتی ہے۔ دیگر ارباب افتاء سے بھی استفسار کرلیا جائے، جو حضرات ووٹ دینے کو شرعی ضرورت نہ گردانتے ہوں ان کے یہاں حکم مختلف ہوسکتا ہے۔

معین مفتی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، مفتی نعمان سیتاپوری تحریر فرماتے ہیں :
دور حاضر میں ملکی حالات کے تناظر میں ووٹ ایک شخصی، ملی اور ملکی ضرورت ہے، اس کے لئے معتدہ کا نکلنا بلاشبہ جائز ہے۔ ووٹ کا مسئلہ نیا ہے؛ اس لئے شامی وغیرہ میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملے گا۔ اور اکابر کے فتاوی میں جو کچھ ہے، وہ ان حضرات کے حالات زمانہ کے تناظر میں ہے، اور اب حالات بہت کچھ بدل چکے ہیں اور ووٹ کی حیثیت واہمیت بھی پہلے سے بہت زیادہ ہوچکی ہے ، جس کی تفصیل کا فی الحال موقع نہیں ؛ البتہ اتنا عرض ہے کہ احقر کا فتوی سمجھنے کے لیے ۲؍ چیزیں ضروری ہیں: ایک ان فقہی جزئیات کا مطالعہ، جن میں ضرورت اور رفع حرج کے لیے معتدہ کو خروج کی اجازت دی گئی ہے۔ اور دوسری چیز یہ کہ ووٹ کی حیثیت، اس کے مثبت ومنفی اثرات ونتائج کیا ہیں بالخصوص دور حاضر کے ملکی حالات کے تناظر میں؟ جو مفتی درج بالا دونوں باتیں مد نظر رکھے گا، اسے احقر کے فتوے پر کوئی اشکال نہیں ہوگا، احقر نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بہت غور وفکر پر مبنی ہے؛ بلکہ احقر کئی مہینوں سے اس مسئلہ پر غور کررہا ہے، باقی احقر کا مقصد کسی کو منوانا نہیں ہے، اگر کوئی نہیں مانتا تو اس کی مرضی۔ اور اگر کسی کوئی علمی اشکال ہو تو احقر اسے سننے، سمجھنے اور اس کا معقول جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ (۲۵؍ رجب، ۱۴۴۰ھ، سہ شنبہ)

ان کے علاوہ بھی بیسیوں مفتیان نے ان فتاوی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور تصدیق کی ہے۔ بندہ کا رجحان بھی یہی ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ ووٹ کی اہمیت کافی بڑھ چکی ہے، پھر NRC (شہریت ترمیمی قانون) میں ووٹ دینا ثبوت کے طور پر بھی کام آنے والا ہے۔ لہٰذا اس کی اجازت ہونی چاہیے۔

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی نے لکھا ہے کہ 
قاتل کی شناخت کرنے کے لئے عدت والے مکان سے عدالت میں جانا درست ہے، مگررات کو اپنے مکان میں پہنچ جائے۔ (فتاوی محمودیہ : ٢٠/٣١)

چنانچہ جب ایک قاتل کی شناخت کے لیے عدت کے ایام میں عدالت جانے کی گنجائش ہے تو پھر سینکڑوں معصوموں اور بے گناہوں کے قاتلوں کو سبق سکھانے کے لیے عدت کے ایام میں ووٹ دینے کے لیے جانے کی بدرجہ اولیٰ گنجائش ہوگی۔

البتہ اس میں خیال رکھا جائے کہ جتنی جلدی ہوسکے معتدہ ووٹ دے کر اپنے گھر پہنچ جائے، نیز کسی محرم مرد یا کسی عورت کے ساتھ جائے اور پردہ کا اہتمام تو ہر وقت ضروری ہے۔


لا تخرج المعتدۃ عن طلاق أو موت إلا لضرورۃ۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ، زکریا دیوبند ۵/۲۲۵، کراچی ۳/۵۳۶، البحر الرائق زکریا ۴/۲۵۹، کراچی ۴/۱۵۴)

الضرورات تبیح المحظورات۔ (الاشباہ والنظائر :۱۴۰)

اَلضَّرُوْرَاتُ تَتَقَدَّرُ بِقَدْرِہَا۔ (قواعد الفقہ:ص۸۹، القاعدۃ:۱۷۱)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
29 شوال المکرم 1445

3 تبصرے:

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ طریقے سے سمجھایا گیا ہے
    جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب

    جواب دیںحذف کریں