منگل، 31 اگست، 2021

بچوں کو ہندوؤں کے مذہبی پیشواؤں کے کپڑے پہنانا


سوال :

مفتی صاحب! سوشل میڈیا وغیرہ پر دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض مسلمان اپنے چھوٹے بچوں کو ہندوؤں کے بعض مذہبی پیشواؤں مثلاً کرشنا وغیرہ کا لباس پہناتے ہیں اور انہیں ٹیکہ بھی لگا دیتے ہیں اور اسے بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کا نام دیا جاتا ہے تو کیا یہ عمل شریعت میں درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : انصاری محمد عابد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی مسلمان برضا ورغبت اور قلبی بشاشت کے ساتھ غیرمسلموں کا مخصوص لباس پہنے، اور ان کے مذہبی اعمال انجام دے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں تجديدِ ایمان وتجديدِ نکاح کی ضرورت ہوتی ہے۔

البتہ اگر اس عمل کی عظمت دل میں نہ ہو اور دینِ اسلام کی پوری عظمت قلب میں موجود ہو تو اس پر کفر کا حکم تو نہیں ہوگا، لیکن یہ صورت بھی ناجائز اور حرام ہے۔

صورت مسئولہ میں چونکہ یہ بچے عموماً نابالغ ہوتے ہیں، جو شریعت کے احکامات کے مکلف نہیں ہیں، لہٰذا انکے گناہوں کے ذمہ دار انکے والدین ہوں گے، یا وہ لوگ ہوں گے جو ان سے یہ کام کرواتے ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں پر لازم ہے کہ وہ آئندہ اس عمل سے باز رہنے کا عزم بالجزم کریں، اور ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ واستغفار کریں، نیز انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ شرعی حدود میں ہو تب ہی اس کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے۔ شرعی حدود سے تجاوز اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے اگر قومی یکجہتی کی کوشش کی جائے گی تو خالق کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی بھی ناراضگی ہی ہاتھ آئے گی۔ کیونکہ کفر تو اس وقت تک آپ سے راضی نہیں ہوگا جب تک آپ اپنا دین چھوڑ کر ان کے مذہب کی پیروی نہ کرنے لگیں۔ لہٰذا اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

١) کما استفید من عبارۃ الہندیۃ يَكْفُرُ بِوَضْعِ قَلَنْسُوَةِ الْمَجُوسِ عَلَى رَأْسِهِ عَلَى الصَّحِيحِ إلَّا لِضَرُورَةِ دَفْعِ الْحَرِّ وَالْبَرْدِ وَبِشَدِّ الزُّنَّارِ فِي وَسْطِهِ إلَّا إذَا فَعَلَ ذَلِكَ خَدِيعَةً فِي الْحَرْبِ وَطَلِيعَةً لِلْمُسْلِمِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٧٦)

ولو شبہ نفسہ بالیہود والنصاریٰ أی صورۃ أو سیرۃ علی طریق المزاح والہزل أي: ولوعلی ہذا المنوال کفر۔ (شرح الفقہ الأکبر،ص: ۲۲۷، ۲۲۸، فصل في الکفر صریحا وکنایۃ، یاسر ندیم- دیوبند)

وَإِنْ كَانَتْ نِيَّتُهُ الْوَجْهَ الَّذِي يُوجِبُ التَّكْفِيرَ لَا تَنْفَعُهُ فَتْوَى الْمُفْتِي، وَيُؤْمَرُ بِالتَّوْبَةِ وَالرُّجُوعِ عَنْ ذَلِكَ وَبِتَجْدِيدِ النِّكَاحِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٨٣)

٢) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ ؛ عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَكْبَرَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٣٩٨)

عن ابن عمر قال : قال رسول الله ﷺ : من تشبَّه بقوم) قال القاري أي : من شَبَّهَ نفسه بالكفار مثلًا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار (فهو منهم) أي: في الإثم أو الخير عند الله تعالى۔ (بذل المجہود: ۱۲/ ۵۹ باب في لبس الشہرة)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 محرم الحرام 1443

ہفتہ، 28 اگست، 2021

بغل اور زیر ناف بال بنانے کا حکم اور اس کی حدود؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ بغل اور زیر ناف بال بنانے کا کیا حکم ہے؟ اور اس کی حد کیا ہے؟ برائے مہربانی آسان الفاظ میں بیان فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بغل اور ناف کے نیچے کے بالوں کو صاف کرنا ایک فطری عمل ہے جو شریعت مطہرہ میں سنت قرار دیا گیا ہے۔ ہر ہفتہ ان بالوں کی صفائی کرلینا مستحب ہے، اور چالیس دن سے زائد چھوڑے رکھنا اور نہ کاٹنا مکروہِ تحریمی اور گناہ کا کام ہے۔

بغل کے بالوں کو صاف کرنے میں عموماً کوئی کنفیوژن نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر کوئی اسے آسانی سے صاف کرلیتا ہے۔ لہٰذا اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ زیر ناف بالوں کو صاف کرنے کے سلسلے میں سوالات ہوتے رہتے ہیں۔ ان بالوں کو صاف کرنے کی حد یہ ہے کہ اگر آدمی اکڑوں بیٹھے تو ناف سے تھوڑا نیچے، جہاں پیٹ میں بل پڑتا ہے وہاں سے رانوں کی جڑوں تک اگنے والے بال، مخصوص عضو (آلہ تناسل) اور اس کے ارد گرد کے حصے كے بال، اور خصیتین (فوطہ) کے بال اور پاخانے کے خارج ہونے کی جگہ اور اس کے ارد گرد کے بال زیرِ ناف بالوں میں داخل ہیں، مزید آسان الفاظ میں کہا جائے تو اکڑوں بیٹھے کی صورت میں پیٹ کے ختم پر جو بل اور لکیر ہوتی ہے اسی طرح رانوں کے ختم پر جو لکیر ہوتی ہے جس کی وجہ یہ حصہ مخروطی اور سموسے کی شکل میں بن جاتا ہے، لہٰذا اس پورے حصے کے بالوں کو نیز پاخانہ نکلنے کی جگہ پر بال ہوں تو اسے بھی صاف کیا جائے گا۔

عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : خمس من الفطرة : الختان، والاستحداد، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط، وقص الشارب۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم : ٢٠٥٩)

(والاستحداد) وهو حلق العانة، وهو متفق على أنه سنَّة۔ (بذل المجهود : ١٢/٢٢٣)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ وَنَتْفِ الْإِبِطِ وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ أَنْ لَا نَتْرُکَ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً۔ (ابن ماجہ، رقم : ٢٩٥)

قَالَ فِي الْقُنْيَةِ: الْأَفْضَلُ أَنْ يُقَلِّمَ أَظْفَارَهُ وَيَقُصَّ شَارِبَهُ وَيَحْلِقَ عَانَتَهُ وَيُنَظِّفَ بَدَنَهُ بِالِاغْتِسَالِ فِي كُلِّ أُسْبُوعٍ، وَإِلَّا فَفِي كُلِّ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، وَلَا عُذْرَ فِي تَرْكِهِ وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ وَيَسْتَحِقُّ الْوَعِيدَ فَالْأَوَّلُ أَفْضَلُ وَالثَّانِي الْأَوْسَطُ وَالْأَرْبَعُونَ الْأَبْعَدُ۔ (شامی : ٢/١٨١)

وَالْعَانَةُ الشَّعْرِ الْقَرِيبِ مِنْ فَرْجِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ وَمِثْلُهَا شَعْرُ الدُّبُرِ بَلْ هُوَ أَوْلَى بِالْإِزَالَةِ لِئَلَّا يَتَعَلَّقَ بِهِ شَيْءٌ مِنْ الْخَارِجِ عِنْدَ الِاسْتِنْجَاءِ بِالْحَجَرِ۔ (شامی : ٢/٤٨١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 محرم الحرام 1443

جمعرات، 26 اگست، 2021

لوڈو اور کیرم کھیلنے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! لوڈو اور کیرم کھیلنا کیسا ہے؟ بہت سے لوگ اسے ناجائز اور حرام کہتے ہیں، دلائل کی روشنی میں آپ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد شہباز، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موبائل پر یا موبائل کے باہر کھیلے جانے والے گیم مثلاً لوڈو، کیرم، پول وغیرہ اگر فرائض اور واجبات کو چھوڑ کر اس میں لگا رہے یا اُس میں پیسوں کے لین دین کی شرط لگادی جائے تب تو جُوا ہونے کی وجہ سے انہیں کھیلنا ناجائز اور حرام ہوگا۔

البتہ اگر یہ کھیل لین دین کی شرط کے ساتھ نہ ہو اور کبھی کبھار تفریح طبع کے لئے تھوڑی دیر کھیل لیا جائے جس میں فرائض و واجبات سے کوتاہی نہ ہوتو اس کی گنجائش ہوگی۔

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ۔(سنن الترمذي، رقم : ٢٣١٧)

إن الملاهي كلها حرام۔ (الدر المختار مع رد المحتار : ٥٠٢/٩)

وکرہ تحریمًا اللعب بالنرد وکذا الشطرنج۔ قولہ : والشطرنج معرب شدرنج، وإنما کرہ؛ لأن من اشتغل بہ ذہب عناؤہ الدنیوي، وجاء ہ العناء الأخروي فہو حرام، وکبیرۃ عندنا۔ (شامي : ۶؍۳۹۴)

الألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها ما لم تشتمل على معصية أخرى۔ (تكملة فتح الملهم ٤٣٦/٤ حكم الألعاب في الشريعة)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 محرم الحرام 1443

بدھ، 25 اگست، 2021

کسی غیرمسلم سے زبردستی نعرہ تکبیر کہلوانا

سوال :

مفتی صاحب کیا کسی غیر مسلم کو زبردستی اللہ اکبر بلوا سکتے ہیں؟ جیسے جے شرم رام پر لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔
(المستفتی : سفیان ملک، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت ہیں، یہی وجہ ہے کہ دین کے معاملے میں کسی غیرمسلم پر کوئی زور زبردستی نہیں کی جاسکتی، جیسا کہ قرآن کریم ہے :
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ
ترجمہ : دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔

لہٰذا مسلمانوں کا کسی غیرمسلم سے زبردستی نعرہ تکبیر کہلوانا ناجائز اور حرام ہے۔

کسی مخصوص مذہب اور نظریات کے لوگ اگر مسلمانوں پر زور زبردستی کرکے اپنا مذہبی نعرہ لگانے کے لیے کہتے ہیں تو یہ ان کے مذہب کا نقص ہے یا پھر وہ خود اپنی مذہبی تعلیمات سے نا آشنا ہیں اور یہ سنگین جرم ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ہورہا ہے تو یہ اس کی جمہوریت پر بھی سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان بھی یہ غیرقانونی اور غیرشرعی فعل انجام دینے لگیں۔ اسی طرح ایسے حالات سے دو چار مسلمان کے لیے شرعی رہنمائی یہ ہے کہ وہ قانون کے دائرہ میں رہ کر اپنا دفاع ضرور کرے بزدلی کا مظاہرہ نہ کرے۔

قَالَ اللہُ تعالیٰ : لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ۔ (البقرۃ جزء آیت : ۲۵۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 محرم الحرام 1443

منگل، 24 اگست، 2021

ایک شہر یا گاؤں کی ہر مسجد میں جمعہ قائم کرنا

سوال :

امید کہ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ آپ خیریت سے ہونگے۔ ایک مسئلہ ہمارے یہاں بہت زیادہ عروج پر ہے جمعہ کے سلسلے میں۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے محلہ میں تقریباً چار مساجد ہیں جس میں سے تین مساجد میں جمعہ کی نماز کافی روز سے ہوتی چلی آرہی ہے، لیکن اب اس وقت چوتھی مسجد کے اطراف میں جو حضرات مقیم ہیں وہ اپنی مسجد میں جمعہ شروع کرنا چاہتے ہیں، اور جمعہ شروع کرنے کے بنیاد بھی یہ ہے کہ یہاں اگر جمعہ شروع کیا جائے تو جمعہ کے روز چندہ ہوگا جس سے مسجد کی ضروریات کو پورا کرنے میں سہولت ہوگی، اب حضرت مفتی صاحب ایسی صورت میں وہاں چوتھی مسجد میں جمعہ شروع کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیے گا۔
(المستفتی : محمد واصف، اورنگ آباد روڈ، جالنہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسا مقام جہاں جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہوں وہاں کی ہر مسجد میں نماز جمعہ قائم کرنا جائز ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ شہر کی صرف بڑی مساجد میں جمعہ قائم کیا جائے تاکہ مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی شان و شوکت اور ان کے اتحاد واتفاق کا مظاہرہ ہو۔

صورتِ مسئولہ میں جبکہ آپ کے علاقے میں جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہیں اور وہاں تین مساجد میں جمعہ ہوتا ہے تو چوتھی مسجد میں بھی جمعہ قائم کرنا جائز ہے۔ اور مسجد کی ضروریات کی تکمیل کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔

(وَتُؤَدَّى فِي مِصْرٍ وَاحِدٍ بِمَوَاضِعَ كَثِيرَةٍ) مُطْلَقًا عَلَى الْمَذْهَبِ وَ عَلَيْهِ الْفَتْوَى شَرْحُ الْمَجْمَعِ لِلْعَيْنِيِّ وَإِمَامَةُ فَتْحِ الْقَدِيرِ دَفْعًا لِلْحَرَجِ، (قَوْلُهُ مُطْلَقًا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَ الْمِصْرُ كَبِيرًا أَوْ لَا وَسَوَاءٌ فَصَلَ بَيْنَ جَانِبَيْهِ نَهْرٌ كَبِيرٌ كَبَغْدَادَ أَوْ لَا وَسَوَاءٌ قُطِعَ الْجِسْرُ أَوْ بَقِيَ مُتَّصِلًا وَسَوَاءٌ كَانَ التَّعَدُّدُ فِي مَسْجِدَيْنِ أَوْ أَكْثَرَ هَكَذَا يُفَادُ مِنْ الْفَتْحِ، وَمُقْتَضَاهُ أَنَّهُ لَا يَلْزَمُ أَنْ يَكُونَ التَّعَدُّدُ بِقَدْرِ الْحَاجَةِ كَمَا يَدُلُّ عَلَيْهِ كَلَامُ السَّرَخْسِيِّ الْآتِي (قَوْلُهُ عَلَى الْمَذْهَبِ) فَقَدْ ذَكَرَ الْإِمَامُ السَّرَخْسِيُّ أَنَّ الصَّحِيحَ مِنْ مَذْهَبِ أَبِي حَنِيفَةَ جَوَازُ إقَامَتِهَا فِي مِصْرٍ وَاحِدٍ فِي مَسْجِدَيْنِ وَأَكْثَرَ بِهِ نَأْخُذُ لِإِطْلَاقِ۔ (شامی : ٢/١٤٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 محرم الحرام 1443

پیر، 23 اگست، 2021

حضرت مریم کا نبی کریم ﷺ سے نکاح؟

سوال :

کیا حضرت مریم اللہ کے نبی کی پہلی بیوی ہیں؟ یعنی آپ ﷺ کی بیوی بننے کا شرف روز آخرت میں حاصل ہوگا؟ کیا اس طرح کی کوئی روایت ملتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضرت مریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پہلی بیوی ہیں، ایسا کسی روایت میں نہیں ملتا، لہٰذا یہ بات بیان نہیں کرنا چاہیے۔

البتہ بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے علاوہ حضرت مریم بنت عمران والدہ حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت کلثوم اختِ موسی علیہ السلام، اور فرعون کی اہلیہ حضرت آسیہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح میں ہوں گی۔

لیکن یہ تمام روایات سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جیسا کہ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنھایہ میں لکھا ہے بلکہ اس میں بعض کو موضوع (من گھڑت) تک کہا ہے۔ لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ یہ بات بیان نہ کی جائی، کیونکہ اس کا تعلق اعمال کی درستگی یا عقائد سے نہیں ہے۔ یا اگر بیان کیا جائے تو ان روایات کا ضعیف اور کمزور ہونا بھی بیان کیا جائے۔

عن ابي أمامة قال : سمعت رسول الله صلي عليه وسلم يقول لعائشة : أشعرت أن الله عز و جل زوجني في الجنة مريم بنت عمران، و كلثوم أخت موسي، و امرأة فرعون۔ (المعجم الكبير للطبراني، رقم : ٨٠٠٦)

ولکن ہذا السیاق بہذہ الزیادات غریب جدا، وکل من ہذہ الأحادیث في أسانیدہا نظر -قولہ- عن عبادۃ بن الصامت عن النبي ﷺ بمثلہ، وہذا منکر من ہذا الوجہ بل ہو موضوعؒ، رواہ أبو زرعۃ الحدیث۔ (البدایۃ والنہایۃ، باب ذکر جماعۃ من أنبیاء بني إسرائیل، قصۃ عیسی بن مریم الخ، ۲/ ۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 محرم الحرام 1443

رکعت پانے کے لیے صف سے پہلے ہی کہیں نیت باندھ لینا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرع متین اِس ضمن میں کہ کچھ مساجد میں ایسے مصلیان جو اندرونِ حرم و صحنِ مسجد کی صفوں میں جگہ نہیں ملنے پر، وضو خانوں کے پاس، جہاں کا فرش وضو سے فارغ ہونے والے مصلیان کے پیروں سے گیلا ہے یا بعض جگہوں پر صحن مسجد کا وہ حصہ جہاں وضو خانہ اور طہارت خانہ کے ساتھ اتنی جگہ ہے کہ وہاں بآسانی نماز کی صف قائم تو ہو سکتی ہے مگر وضو سے فارغ  مصلیان کے پیروں سے گیلے فرش کے ساتھ۔ آیا ایسی جگہوں پر صرف اس لئے صفِ نماز بنا لینا کہ رکعت نہ چھوٹ جائے، درست ہے؟ آیا سستی یا رکعت چھوٹنے کی مجبوری، یا معذوری کی وجہ سے ایسی جگہ نماز پڑھنا کیسا ہے؟ طہارت خانہ سے نکلنے وقت طہارت خانہ کے حصہ کی جگہ سے صحن مسجد گیلی ہو تو ایسی جگہ نماز کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
اللہ آپ کے علم تقویٰ طہارت و عمل برکت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
(المستفتی : عبدالمتین سر، دھولیہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صفوں کا درست رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پُر کرنا شریعت مطہرہ کا ایک اہم حکم اور نماز کا حصہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صفوں کے درست کرنے کو نماز کی تکمیل قرار دیا ہے، اور اگلی صف میں جگہ موجود ہوتے ہوئے پچھلی صف میں کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں صرف رکعت پانے کے لیے اگلی صف میں جگہ موجود ہوتے ہوئے پیچھے کی صف میں نیت باندھ لینا سخت مکروہ عمل ہے، نیز اگر یہ جگہ طہارت اور وضو کرکے آنے والوں کی وجہ سے گیلی اور کیچڑ والی ہوجائے تو پھر اس میں مزید کراہت پیدا ہوجائے گی، کیونکہ جب مسجد میں صاف ستھری جگہ موجود ہے تو بلاعذر ایسی جگہ نماز پڑھنا بلاشبہ مکروہ ہوگا۔ لہٰذا جو لوگ ایسے مکروہات کا ارتکاب کررہے ہیں انہیں فوراً اس سے باز آجانا چاہیے، سکون و اطمینان سے اگلی صف میں ہی جاکر نماز پڑھنا چاہیے خواہ کتنی ہی رکعتیں نکل جائیں۔ تاہم ان جگہوں پر پڑھی جانے والی نماز ادا ہوجائے گی، کیونکہ یہ جگہ مسجد میں ہی ہونے کی وجہ سے اتصال صفوف قائم رہے گا، اور اقتداء درست ہوگی، نیز گیلی اور کیچڑ والی جگہ کو بھی ناپاک نہیں کہا جاسکتا، جب تک یقینی طور پر وہاں نجاست کا علم نہ ہو۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ۔ (صحیح مسلم، رقم : ٤٣٣)

وَعَنْ اَنَس قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتِمُّو الصَّفَّ الْمُقَدَّمَ ثُمَّ الَّذِی یَلِیْہٖ فَمَا کَانَ مِنْ نَقْصٍ فَلْیَکُنْ فِی الصَّفِّ المُؤَخِّرِ۔ (سنن ابوداؤد، رقم : ٦٧١)

وَلَوْ صَلَّى عَلَى رُفُوفِ الْمَسْجِدِ إنْ وَجَدَ فِي صَحْنِهِ مَكَانًا كُرِهَ كَقِيَامِهِ فِي صَفٍّ خَلْفَ صَفٍّ فِيهِ فُرْجَةٌ۔ (شامی : ١/٦٤٩)

ویکرہ القیام خلف صفّ  فیہ فرجۃ للأمر بسد۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ۳۶۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 محرم الحرام 1443

اتوار، 22 اگست، 2021

نس بندی کروانے کا شرعی حکم

سوال :

مفتی صاحب اگر 3 بچے  آپریشن سے ہوں اور ڈاکٹر کہے کے اب چوتھے بچے کے لیے آپریشن نہیں کر سکتے ہیں تو کیا بچے روکنے کا آپریشن کر سکتے ہیں؟ کیونکہ تین مرتبہ سیزر ہوتا ہے تب بہت زیادہ پیچیدگیاں ہوجاتی ہیں اس لئے ڈاکٹرز بولتے ہیں کہ اب پریگننسی ہوگی تو جان کو خطرہ ہوگا اور اس لئے تیسرے یا دوسرے سیزر کے بعد یا اسی میں وہ ٹیوب کاٹ کر نکال لیتے ہیں جس سے دوبارہ حمل نہیں ٹھہرتا۔
(المستفتی : شیخ امجد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسا کوئی طریقہ اختیار کرنا جس میں مرد یا عورت میں مستقل بنیادوں پر افزائش نسل کی صلاحیت ختم ہوجائے ناجائز اور حرام ہے، اس لیے کہ یہ عمل تغییر لخلق اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی بناوٹ میں تبدیلی کرنے کی حرمت میں داخل ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں نس بندی (ٹیوبل لگیشن TUBAL LIGATION) کرانے کی بھی اجازت نہیں ہے، کیونکہ اس میں بھی آپریشن کے ذریعہ وہ نسیں بند کردی جاتیں ہیں جس کی وجہ سے حمل ٹھہرنا مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں عارضی طور پر مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کا حکم ہے، مثلاً شوہر عزل کرلے یعنی انزال کے وقت عضو باہر نکال کر منی خارج کردے یا کنڈوم کا استعمال کرے۔ یا عورت کوپرٹی اور دواؤں وغیرہ کا استعمال کرے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ : سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ : رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ، وَلَوْ أَذِنَ لَهُ لَاخْتَصَيْنَا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٠٧٣)

فإن الاختصاہ في الاٰدمي حرام۔ (عمدۃ القاري : ۲۰/۷۲)

خِصَاءُبَنِي آدَمَ حَرَامٌ بِالِاتِّفَاقِ۔ (الفتاوی الہندیۃ : ۵/۳۵۷)

عَنْ الْخَانِيَّةِ وَالْكَمَالِ أَنَّهُ يَجُوزُ لَهَا سَدُّ فَمِ رَحِمِهَا كَمَا تَفْعَلُهُ النِّسَاءُ۔ (شامي : ۳/۱۷۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 محرم الحرام 1443

ہفتہ، 21 اگست، 2021

موت کے وقت شیطان انسان کو کیسے بہکاتا ہے؟

سوال :

جب کسی مسلمان بندے کی موت کا وقت قریب آتا ہے  اگر اس کے ماں باپ اس سے پہلے انتقال کرچکے ہوں تو شیطان ان کی شکل میں آتا ہے اور اس بندے کو بہکاتا کہ بیٹا یہودی یا نصرانی ہوکر مر! اب اس مسلمان کیلئے بڑی آزمائش ہوتی ہے کیونکہ اسے لگتا ہے اس کے ماں باپ یہ بات کہہ رہے ہیں۔ مفتی صاحب کیا اس طرح کی کوئی روایت موجود ہے؟ موت کے وقت شیطان کیسے بہکاتا ہے؟
(المستفتی : اسجد ملک، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جب تک انسان کے جسم میں روح ہوتی ہے تب تک شیطان اسے گمراہ کرنے کی پوری کوشش کرتا رہتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابلیس نے کہا : (اے اللہ) تیری عزت کی قسم ! میں آپ کے بندوں کو مسلسل گمرہ کرتا رہوں گا جب تک روح ان کے جسموں میں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! میں بھی برابر ان کی مغفرت کرتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے۔ (١)

نیز حدیث شریف میں اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ شیطان بطور خاص موت کے وقت بندے کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دعا میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے تھے کہ موت کے وقت شیطان میرے حواس مختل کردے۔ (٢)

البتہ موت کے وقت شیطان کس شکل وصورت میں بندے کو بہکاتا ہے اس کی تفصیل کسی معتبر روایت میں نہیں ملتی۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ جب کسی کی موت کا وقت ہوتا ہے تو اس کے پاس دائیں جانب باپ کی شکل میں اور بائیں جانب ماں کی شکل میں دو شیطان آ بیٹھتے ہیں، دائیں جانب والا کہتا ہے کہ اے میرے لختِ  جگر!  دیکھو میں تمہارے لیے کتنا مشفق تھا اور تمہیں کتنا چاہتا تھا، مگر میں عیسائی مرا تھا اور عیسائیت ہی بہترین دین ہے، جب کہ بائیں جانب والا کہتا ہے : اے میرے جگر کے ٹکڑے! تمہارے لیے میرا پیٹ ایک برتن تھا، اور میرے پستان تمہارے لیے پینے کا ذریعہ تھے، میری ران تمہارے  لیے بچھونا تھی، لیکن میں یہودی مری، اور یہودیت ہی بہترین دین ہے۔ (٣)

لیکن اس روایت کو علماء محققین نے غیر معتبر قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس کا بیان کرنا درست نہیں۔ (٤)

خلاصہ یہ کہ بالخصوص موت کے وقت شیطان کا انسان کو بہکانا بلاشبہ ثابت ہے۔ اس وجہ سے کہ یہ سختی کا وقت ہے، اور انسان اس وقت بڑا محتاج اور بے بس ہوتا ہے، لیکن اس کی کوئی مخصوص کیفیت یا نوعیت متعین نہیں ہے۔ مختلف شخصیات اور ان کے مزاج، مقام ومرتبہ اور ضروریات کے اعتبار سے شیطان کا حملہ اور بہکانا الگ الگ ہوسکتا ہے۔

١) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ : وَعِزَّتِكَ يَا رَبِّ، لَا أَبْرَحُ أُغْوِي عِبَادَكَ مَا دَامَتْ أَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ. قَالَ الرَّبُّ : وَعِزَّتِي وَجَلَالِي، لَا أَزَالُ أَغْفِرُ لَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُونِي۔ (مسند احمد، رقم : ١١٢٣٧)

٢) عَنْ أَبِي الْيَسَرِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَدْعُو اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْهَدْمِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ التَّرَدِّي وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ الْغَرَقِ وَالْحَرَقِ وَالْهَرَمِ وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِکَ مُدْبِرًا وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٥٤٩)

٣) روي عن النبي صلى الله عليه وسلم : أن العبد إذا كان عند الموت قعد عنده شيطانان : الواحد عن يمينه والآخر عن شماله، فالذي عن يمينه على صفة أبيه، يقول له: يا بني! إني كنت عليك شفيقاً ولك محباً، ولكن مت على دين النصارى فهو خير الأديان، والذي على شماله على صفة أمه، تقول له: يا بني! إنه كان بطني لك وعاءً، وثديي لك سقاءً، وفخذي لك وطاءً، ولكن مت على دين اليهود وهو خير الأديان۔ (دليل المسلمين شرح رياض الصالحين، للشيخ علي احمد عبد العال الطهطاوي، باب ما يقوله من يحضر الميت من الشياطين، ٢ / ٩٧، دار الكتب العلمية)

٤) ضعيف : أخرجه أبو الحسن القابسي في "شرح رسالة ابن أبي زيد" له، و ابن المفلح في " مصائب الإنسان" بصيغة التضعيف"۔ (سكب العبرات للموت و القبر و السكرات، ٣ / ٢٨٨، رقم : ١٠١، مكتبة معاذ بن جبل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 محرم الحرام 1443