اتوار، 30 جون، 2019

راستوں کی کیچڑ اور پانی کے چھینٹوں کا حکم

*راستوں کی کیچڑ اور پانی کے چھینٹوں کا حکم*

سوال :

اگر کپڑے پر سڑکوں پر موجود بارش وغیرہ کی وجہ سے ہونے والے کیچڑ  پانی لگ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کپڑا دھوئے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں؟ پانی سے دھوکر کیچڑ صاف کرنے کے بعد کپڑے پر جو اس کا ڈاغ دھبہ باقی رہ جاتا ہے جس کو صابن کے بغیر صاف کرنا مشکل ہوتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : شجاع الدین، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بارش کے موسم میں راستوں پر موجود کیچڑ اور پانی کے چھینٹے کپڑوں یا بدن پر لگ جائیں تو کپڑوں اور بدن کو ناپاک نہیں کہا جائے گا۔ اس لیے کہ اس میں عمومِ بلوی اور دفع حرج کی وجہ سے فقہاء کرام نے گنجائش لکھی ہے۔ البتہ اگر اس کیچڑ میں نجاست صاف نظر آرہی ہو یا ظنِ غالب ہو، یا پھر پانی کا رنگ اور بُو نجاست کے ملنے کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہو تو ایسی صورت میں کپڑوں اور بدن کا دھونا ضروری ہوگا۔

ناپاک کیچڑ اور پانی جو کپڑے پر لگ گیا ہوتو کپڑے پر پانی ڈال کر اس کا نچوڑ دینا کافی ہے، اگرچہ داغ دھبہ باقی رہے، کپڑا پاک ہی شمار کیا جائے گا۔

وطین الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ، ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلوٰۃ معہ الخ۔ بل الأشبہ المنع بالقدر الفاحش منہ إلا لمن ابتلي بہ بحیث یجيء ویذہب في أیام الأوحال في بلادنا الشامیۃ؛ لعدم انفکاک طرقہا من النجاسۃ غالباً مع عسر الاحتراز بخلاف من لا یمر بہا أصلاً في ہٰذہ الحالۃ فلا یعفی في حقہ، حتی أن ہٰذا لا یصلي في ثوب ذاک۔ (شامی، ۱/۵۳۱)

سئل أبو نصر عن ماء الثلج الذي یجري علی الطریق، وفي الطریق سرقین ونجاسات یتبین فیہ أیتوضأ بہ؟ قال: متی ذہب أثر النجاسۃ ولونہا جاز، وفي الحجۃ: ماء الثلج والمطر یجري في الطریق إذا کان بعیداً من الأرواث یجوز التوضي بہ بلاکراہۃ۔ (فتاویٰ تاتارخانیۃ ۱؍۲۹۸ رقم: ۴۸۱/بحوالہ کتاب النوازل)

وبتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً۔ أما القلیل فینجس وإن لم یتغیر۔ (درمختار مع الشامي : ۱/۳۳۲)

ولا یضر بقاء أثر کلون وریح فلا یکلف في إزالتہ إلی ماء حارٍ أو صابون ونحوہ۔ (شامي : ۱/۵۳۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 شوال المکرم 1440

ہفتہ، 29 جون، 2019

حج بدل کرنے والا کون سا حج کرے؟

*حج بدل کرنے والا کون سا حج کرے؟*

سوال :

حج بدل کرنے والا شخص کون سا حج کرسکتا ہے؟ حجِ قران حجِ تمتع یا حج افراد؟
(المستفتی : محمد آفاق، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج بدل میں اصل حکم یہ ہے کہ حج بدل کرنے والے کا حج میقاتی ہو، یعنی وہ میقات سے حج کا احرام باندھے اور یہ بات حجِ افراد اور حجِ قران میں تو پائی جاتی ہے، لیکن حج تمتع میں نہیں پائی جاتی، اسی لئے بہت سی کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ حج بدل میں افراد یا قران ہی ہونا چاہئے، حج تمتع سے حجِ بدل معتبر نہ ہوگا۔ زبدۃ المناسک از : حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، غنیۃ الناسک، از : حضرت مولانا حسن شاہ مہاجر مکیؒ، اور معلم الحجاج، از: حضرت مولانا قاری سعید احمد صاحب اجراڑویؒ ،وغیرہ میں بھی یہی رائے اپنائی گئی ہے۔

قالوا: قید بالقران؛ لان في التمتع یصیر مخالفاً بالإجماع وإن نوی العمرۃ عن الآمر؛ لأنہ أمر بالإنفاق في سفر الحج، وقد اتفق في سفر العمرۃ؛ ولأنہ أمر بحجۃ میقاتیۃ وقد أتی بحجۃ مکیۃ۔ (البحر العمیق ۴؍۳۱۲۳، مناسک ملا علی القاري ۴۵۹)

لیکن موجودہ دور میں بالخصوص احرام میں طوالت اور جنایات احرام کے ارتکاب کے خطرہ کی وجہ سے محقق مفتیانِ کرام نے حج بدل کروانے والے کی اجازت سے حج بدل میں تمتع کو جائز لکھا ہے۔ چنانچہ لباب المناسک (للشیخ رحمت اللہ سندھی) اور ارشاد الساری حاشیۃ مناسک ملا علی قاری (از: علامہ محمد سعید عبدالغنی مکی) اور زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک (مؤلفہ حضرت مولانا شیر محمد سندھیؒ مہاجر مدنی) ۴۵۶، جواہر الفقہ (مؤلفہ: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ) ۵۰۸-۵۱۶، احسن الفتاویٰ (مؤلفہ: مفتی رشید احمد لدھیانویؒ) ۴؍۵۲۳ اورانوار مناسک (مؤلفہ: مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی) ۵۵۰-۵۵۱ میں بھی دلائل کے ساتھ یہی رائے مذکور ہے۔

نیز ادارۃ المباحث الفقہیۃ جمعیۃ علماء ہند کے چھٹے فقہی اجتماع منعقدہ ۱۴۱۷ھ میں منظور کردہ تجویز کے الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’حج بدل کا اصل حکم تو یہی ہے کہ مامور حج افراد کرے، لیکن اگر آمر یا وصی تمتع کی اجازت دے تو تمتع بھی درست ہے۔ البتہ دم تمتع مامور اپنے مال سے ادا کرے الا یہ کہ آمر دم تمتع ادا کرنے کی بھی اجازت دے دے، خواہ یہ اجازت صراحۃً ہو یا دلالۃً‘‘۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ حج بدل میں حج افراد کیا جائے، تاکہ کوئی خلجان نہ رہے، اور اس کی آسان شکل یہ ہوسکتی ہے کہ حج کے قریبی وقت میں سفر کیا جائے (اور آج کل پرائیویٹ ٹور سے جانے میں اس میں زیادہ دشواری نہیں ہے؛ کیونکہ بہت سے ٹور والے بالکل آخری دنوں میں سفر پر لے جاتے ہیں) یا اولاً مدینہ منورہ جائیں اور وہاں سے ذی الحجہ کے شروع میں حج کا احرام باندھ کر مکہ معظمہ چلے جائیں۔

قال الشیخ أبو بکر محمد بن الفضل رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: إذ أمر غیرہ بأن یحج عنہ ینبغي أن یفوض الأمر إلی المامور، فیقول: حج عني بہٰذا کیف شئت إن شئت حجۃ؟ وإن شئت حجۃ وعمرۃ، وإن شئت قرانا، والباقي من المال مني لک وصیۃ کیلا یضیق الأمر علی الحاج ولا یجب علیہ رد ما فضل إلی الورثۃ۔ (فتاویٰ قاضي خان ۱؍۳۰۷)

ودم القران والتمتع والجنایۃ علی الحاج إن اذن لہ الآمربالقران والتمتع۔ (در مختار ۲؍۶۱۱ کراچي، ۴؍۳۲ زکریا)

لأن المیت لو أمرہ بالتمتع فتمتع المامور صح ولا یکون مخالفا بلا خلاف بین الأمۃ الأسلاف۔ (إرشاد الساري لملا علی القاري ۳۰۴ بحوالہ جواہر الفقہ ۱؍۵۱۲ انوار مناسک ۵۵۲)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 شوال المکرم 1440

جمعرات، 27 جون، 2019

نفاق کی قسمیں اور ان کے احکام

*نفاق کی قسمیں اور ان کے احکام*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلمائے دین متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کل معاشرے میں ایک وبا عام ہوچکی ہے وہ یہ کہ لوگوں کے آپسی تعلقات میں دورخاپن اور دوغلہ پن عام ہوتا جارہا ہے مثلاً چند ساتھی بیٹھے ہوئے ہیں ان ہی کا ایک ساتھی بواسطہ فون ان سے ان کا محل وقوع دریافت کرکے انکے پاس آنے کی اطلاع دیتا ہے اب جب تک وہ آئے ان ساتھیوں کے درمیان اس آنے والے ساتھی کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہے کہ فلاں آرہا ہے وہ تو ایسا اور وہ تو ویسا اور خوب غیبتیں ہوتی ہیں اور جیسے ہی وہ مجلس میں آتا ہے سب اسکو عزت وتکریم کے کلمات سے مخاطب کرکے اس کی تعریفوں کے پل باندھنے لگتے ہیں اور جیسے ہی وہ رخصت ہوتا ہے یہ لوگ پھر اسی ڈگر پرآجاتے ہیں کہ اچھا ہوا گیا پتہ نہیں کہاں سے ٹپک پڑا تھا کباب میں ہڈی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔اب دریافت طلب بات یہ ہے کہ انکے اس عمل قبیح وشنیع کو دائرہ شریعت کی حدود میں کس نگاہ سے دیکھا جائے اور کس ترازو میں تولاجائے آیا اس کو منافقت کا نام دیا جائے یا کچھ؟ اور اگر منافقت کا ہی نام دیا جائے تو آیا یہ منافقت وہ منافقت ہے جس پر قران وحدیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں یا اسکے علاوہ ۔۔برائے مہربانی نصوص شرعیہ کی ضو وروشنی میں اطمینان بخش وبحوالہ تمام جواب مرحمت فرماکر ذرہ نوازی فرمائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔ بینوا توجروا
(المستفتی : وقاص انجم انصاری، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : "منافق" نفق سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی سرنگ کے ہوتے ہیں، اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہے۔ ایک کا نام نافقاء اور دوسرے  کا نام قاصعاء ہے۔ ایک طرف سے وہ داخل ہوتی ہے اور جب کوئی شکاری اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ دوسری طرف سے نکل جاتی ہے اور اگر دوسری جانب سے کوئی اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ پہلے سوراخ سے نکل جاتی ہے۔ اس کے بل کے ایک طرف کا نام نافقاء ہے، اسی سے "منافق" ماخوذ ہے۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک کفر، جو اس کے دل میں ہے۔ دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے۔ اگر کفر سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے اور اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ فوراَ اپنے کافر ہونے کا اعلان کر دیتا ہے۔

شریعت کی اصطلاح میں اس شخص کو منافق  کہا جاتا ہے جو ظاہری شکل وصورت میں مسلمان اور ارکانِ اسلام کا پابند ہو، لیکن در پردہ کفریہ عقائد پر قائم ہو یا اسلامی عقائد کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا ہو۔ (البحرالرائق، کتاب الجہاد، احکام المرتدین، 212/5، رشیدیہ)

منافقین کی دو قسمیں ہیں۔

۱) منافق اعتقادی : وہ ہے جو بظاہر مسلمان لیکن درپردہ کافر ہو ، ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ قرآن کریم میں انہیں کے ناشائستہ اعمال وافعال کا تذکرہ ہے۔ نفاقِ اعتقادی کا حکم یہ ہے جو شخص نفاقِ اعتقادی رکھتا ہو اسے ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’’ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۔ ترجمہ : یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے،‘‘ نفاق اعتقادی والے منافق ہی کے بارے میں ہے۔

۲) منافق عملی : اسے کہتے ہیں جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کی ظاہری صفات منافقین سے ملتی جلتی ہوں، مثلاً جھوٹ، وعدہ خلافی، اور خیانت جیسے برے افعال میں مبتلا رہتا ہو۔ ایسا شخص مسلمان تو ہے، لیکن سخت گناہ گار شمار ہوگا۔

نیز بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ "ہم حکمرانوں اور سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو کچھ اور بات (یعنی ان کی تعریف ہی)کرتے ہیں اور جب وہاں سے نکلتے ہیں تو اس بات کے خلاف بات کرتے ہیں " تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا ہم اُسے مُنافقت میں گنا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری /کتاب الاحکام/باب 27)

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور افراد جو دو رُخی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، منہ پر الگ اور پیٹھ پیچھے الگ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، یہ سب نفاقِ عملی کے حامل ہیں، اور نفاقِ عملی کا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو توبہ کرنے سے معاف کردیں گے، لیکن اگر کوئی بغیر توبہ کے مرجائے، تو نفاقِ عملی کی سزا کے لیے دوزخ میں جائے گا، پھر اس کی سزا پوری ہو کر اس کو جنت میں داخل کیاجائے گا، نفاقِ عملی گناہِ کبیرہ کے مثل ہے۔ لہٰذا اگر کوئی مسلمان دانستہ یا نا دانستہ طور پر ان میں سے کسی بری عادت کا شکار ہے تو اس کو فوراً اپنا احتساب کرنا چاہیے اور اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ورنہ آخرت میں سخت عذاب بھگتنا ہوگا۔

(النفاق الاعتقادی) الذی ہو ابطان الکفر واظہار الاسلام (مرقاۃ، ۱/۱۲۷، باب الکبائر وعلامات النفاق، مطبوعہ نوریہ دیوبند)

عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أربع من کن فیہ کان منافقاً، ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا، إذا حدّث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا خاصم فجر، وإذا عاہد غدر۔ (صحیح البخاري رقم : ۳۴)

أو المراد بالنفاق النفاق العملي لا الإیماني۔ (حاشیہ صحیح البخاری ۱؍۱۰، فتح الباري بیروت ۱؍۹۰)

قال اللّٰہ تعالیٰ : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَآءُ ۔ (سورۃ النساء، آیت : ۱۱۶)

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ رواہ ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان کذا في مشکاة المصابیح (کتاب الدعوات باب الاستغفار والتوبة الفصل الثالث)
مستفاد : مضمون منافقین کا بیان، منافق کسے کہتے ہیں؟ اور منافقت کی علامت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شوال المکرم 1440

حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کے احوال

*حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کے احوال*

سوال :

مفتی صاحب حضرت ایوب علیہ السلام کو کونسی بیماری تھی؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ ان کے جسم سے کیڑے گرتے اور پھر وہ انہیں اٹھا کر اپنے جسم پر رکھ دیتے تھے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : ظہیر احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کے بارے میں قصہ گو حضرات نے جو احوال بیان کیے ہیں اس میں بہت مبالغہ کیا گیا ہے۔ ملحوظ رہے کہ ایسا مرض جو عام طور پر لوگوں کے حق میں تنفر اور گھِن کا باعث ہو انبیاء علیہم السلام کے منصب کے منافی ہے۔ جیسا کہ آیت مبارکہ وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْامُوْسیٰ فَبَرّأہٗ الخ۔(سورہ احزاب) کی تفسیر میں ملتا ہے کہ موسی علیہ السلام پر ان کی قوم نے برص وغیرہ جسمانی مرض کا عیب لگایا تو اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ یہ ظاہرکردیا کہ موسی علیہ السلام جسمانی طور پر بے عیب ہیں۔ اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انبیاء علیہم السلام کو جسمانی اور روحانی عیوب سے پاک ثابت کرنے کا کس قدر اہتمام ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی طرف سے نفرت اور استخفاف کے جذبات پیدا ہوکر قبولِ حق میں رُکاوٹ نہ ہو۔ اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم اطہر میں کیڑے لگنے کی تردید متعدد معتبر تفاسیر میں بھی موجود ہے۔

مفسرِ قرآن مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قرآن کریم میں اتنا بتایا گیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کوایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا، لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کے جسم کے ہرحصے پر پھوڑے نکل آئے تھے، یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو ایک کوڑی پر ڈال دیا تھا، لیکن بعض مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بیماریاں تو آسکتی ہیں، لیکن انھیں ایسی بیماریوں میں مبتلا نہیں کیا جاتا، جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری بھی ایسی نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ کوئی عام قسم کی بیماری تھی، لہٰذا وہ آثار جن میں حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف پھوڑے پھنسیوں کی نسبت کی گئی ہے یا جن میں کہا گیا ہے کہ آپ کو کوڑی پر ڈال دیا گیا تھا، یا بعض لوگوں کا یہ بیان کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے بدن پر کیڑے پڑگئے تھے، روایۃً و درایۃً قابل اعتماد نہیں ہیں۔ (معارف القرآن، 7/522)

ومنہا ماقالہ القاضی وغیرہ ان الانبیاء صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہم منزہون عن النقائص فی الخلق سالمون من العاہات والمعائب قالواولاالتفات الی ماقالہ من لاتحقیق لہ من اہل التاریخ فی اضافۃ بعض العاہات الی بعضہم بل نزہہم اللّٰہ تعالیٰ من کل عیب وکل مایغض العیون اوینفرالقلوب (مسلم مع شرحہ للنووی، کتاب الفضائل باب من فضائل موسی علیہ الصلوۃ والسلام، ۲۶۷/۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 شوال المکرم 1440

منگل، 25 جون، 2019

خواتین کے قصر کا طریقہ

*خواتین کے قصر کا طریقہ*

سوال :

مفتی صاحب عورتیں حج یا عمرہ احرام کھولتے وقت قصر کیسے کریں گی؟ براہ کرم وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیں۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خواتین کے لیے احرام سے نکلتے وقت اپنے بالوں کا قصر کرنا واجب ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بالوں کو جڑ سے پکڑ کر نیچے سرے تک لائیں اور ایک پوروے کی مقدار سے تھوڑا سا زیادہ کاٹ لیں تاکہ یقینی طور پر مطلوبہ بالوں کا قصر ثابت ہوجائے، اس لیے کہ عموماً سارے بال برابر نہیں ہوتے۔ البتہ اگر کسی عورت کے پورے بال یا اکثر بال پیچھے کی طرف جمع ہو جاتے ہوں تو پوروں کے برابر کاٹ لینا کافی ہے۔

ثم قصر بان یاخذ من کل شعرۃ قدر الانملۃ وجوبا و تقصیر الکل مندوب والربع واجب … وحلقہ افضل … قولہ بان یاخذ الخ قال فی البحر: والمراد بالتقصیر ان یأخذ الرجل والمرأۃ من رؤوس شعرربع الرأس مقدار الانملۃ کذا ذکرہ الزیلعی ومرادہ ان یأخذ من کل شعرۃ مقدار الانملۃ کما صرح بہ فی المحیط۔ وفی البدائع قالوا: یجب ان یزید فی التقصیر علی قدر الانملۃ حتی یستوفی قدر الانملۃ من کل شعرۃ براسہ لان اطراف الشعر غیر متساویۃ عادۃ …… قولہ وحلقہ افضل ای ھو مسنون وھذا فی حق الرجل ویکرہ للمرأۃ لانہ مثلۃ فی حقھا کحلق الرجل لحیتہ واشار الی انہ لو اقتصر علی حلق الربع جاز کما فی التقصیر۔ لکن مع الکراھۃ لترکہ السنۃ فان السنۃ حلق جمیع الرأس او تقصیر جمیعہ کمافی شرح اللباب والقھستانی۔ (شامی : ۵۱۵/۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 شوال المکرم 1440

پیر، 24 جون، 2019

خواتین کے موٹر-سائیکل چلانے کا حکم

*خواتین کے موٹر-سائیکل چلانے کا حکم*

سوال :

ایک مسئلہ یہ دریافت کرنا تھا کہ کیا لڑکیاں گاڑی وغیرہ چلا سکتی ہیں؟ اگر کسی شخص کو اپنی بیوی، بیٹی، یا گھر کی کسی لڑکی پر مکمّل اعتماد ہو تو بلحاظِ ضرورت وہ اسے اسکی اجازت دے یا نہ دے؟ اطمینان بخش جواب مطلوب ہے۔ جزاک اللہ خیرًا -
(المستفتی : کامران حسان، مالیگاؤں)
-----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ضرورت کے وقت مکمل پردہ کی رعایت کے ساتھ عورتوں کے لئے موٹر سائیکل چلانے کی اگرچہ شرعاً گنجائش ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ رہے کہ موجودہ فتنوں کے دور میں عورت کا موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر سڑکوں پر نکلنا خطرات سے خالی نہیں، کیونکہ ایسی عورتوں کی طرف راہ گیروں کی نظریں بے ساختہ اُٹھتی ہیں، گویا کہ یہ عورتیں اپنے عمل سے غیر مردوں کو اپنی جانب مائل کرنے والی ہیں، جس کی مذمت احادیث شریفہ میں وارد ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عورت چھپانے کی چیز ہے، کیونکہ جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تانک جھانک میں لگ جاتا ہے۔‘‘
علاوہ ازیں سواری کے خدا نخواستہ بے قابو ہونے کی صورت میں بے پردگی کا بھی سخت احتمال ہے، نیز جرائم پیشہ افراد کا شکار ہونے کا بھی خطرہ ہے، اِس لئے بلا ضرورتِ شدیدہ عورتوں کو موٹر سائیکل چلانے سے یقیناً احتراز کرنا چاہئے۔

{وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ} فیہ الدلالۃ علی أن النساء مأمورات بلزوم البیت منہیًا عن الخروج۔ (تفسیر القرطبي ۳؍۳۶۰ بیروت)
ومعنی ہٰذہ الآیۃ، الأمر بلزوم البیت، وإن کان الخطاب لنساء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتدخلن غیرہن فیہ بالمعنی … والإنکفاف عن الخروج منہا إلا للضرورۃ۔ (تفسیر القرطبي ۷؍۱۷۹ بیروت)

وفي الشامي قولہ: ولو لحاجۃ غزو … أي بشرط أنہ تکون متسترۃ، وأن تکون مع زوج أو محرم۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء ۹؍۶۰۶ زکریا، ۹؍۵۱۹ دار إحیاء التراث العربي بیروت)

الحاجۃ تنزل منزلۃ الضرورۃ عامۃًوخاصۃً۔ (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۱۶؍۳۰۳ ڈابھیل)

وروي عن أبي حنیفۃ وأبي یوسف کراہۃ خروجہا مسیرۃ یوم واحد، وینبغي أن یکون الفتویٰ علیہ لفساد الزمان۔ (شامي، کتاب الحج / مطلب في قولہم: یقدم حق العبد علی حق الشرع ۳؍۴۶۵ زکریا)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 شوال المکرم 1440

دعائے گنج العرش کا پڑھنا کیسا ہے؟

*دعائے گنج العرش کا پڑھنا کیسا ہے؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ دعائے گنج العرش قرآن و حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا یہ دعا پڑھ سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دعائے گنج العرش قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، نیز اس کے شروع میں جو فضیلتیں مذکور ہیں، مثلاً اس کے پڑھنے سے تمام کاموں کا انجام پذیر ہوجانا، رزق میں وسعت ہونا، مشکلات کا حل ہونا، ہر قسم کے مرض سے شفایاب ہونا، ان فضائل کی نسبت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تمام فضیلتیں گھڑی ہوئی ہیں۔ اس لیے اس دعا اور اس کے فضائل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا ائمہ مجتہدین رحمھم اللہ سے منقول اور مروی سمجھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے۔

البتہ دعائے گنج العرش کے الفاظ معنی کے اعتبار سے درست ہیں۔ لہٰذا اسے منقول نہ سمجھتے ہوئے پڑھنے کی گنجائش ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ ان دعاؤں اور اذکار کا اہتمام کیا جائے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہیں، کیونکہ منقول اذکار و دعائیں زیادہ پُر نور، مؤثر اور اجر وثواب میں بڑھے ہوئے ہیں۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (صحیح البخاري : رقم: ۱۱۰)

إن الأفضل والأولی والأکثر ثواباً والأجزل جزائً وأرضاہا عند اللّٰہ ورسولہ ا ہي الصیغۃ الماثورۃ، ویحصل ثواب الصلاۃ والتسلیم بغیرہا أیضاً بشرط أن یکون فیہا طلب الصلاۃ والرحمۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اللّٰہ عزوجل۔ (أحکام القرآن ۵؍۳۲۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 شوال المکرم 1440

اتوار، 23 جون، 2019

حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا نکاح؟

*حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا نکاح؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درمیان مسئلہ ھذا کے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے زلیخا کو جوان کیا گیا تھا پھر اس کے بعد ان کا نکاح ہوا تھا کیا یہ بات درست ہے؟ کیا نکاح ہونے والی بات بھی معتبر ہے؟
(المستفتی : ظہیراحمد، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بعض تفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا  نکاح  زلیخا  سے ہوا ہے، لیکن زلیخا کو جوان کیا گیا اس کے بعد نکاح ہوا یہ بات کسی معتبر تفسير میں نہیں ملتی۔

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر معارف القرآن میں ہے :  بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اسی زمانہ میں  زلیخا کے شوہر قطفیر  کا  انتقال ہوگیا تو شاہِ مصر نے حضرت  یوسف  علیہ السلام سے ان کی شادی کردی۔ (معارف القرآن، ۵/۷۷)

شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ اپنی تفسیر معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ عزیز مصر کے انتقال کے بعد بادشاہ نے  یوسف  علیہ السلام کے ساتھ عزیز مصر کی بیوی  زلیخا  سے نکاح کردیا جس سے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک افرائیم دوسرے میشا۔ تفصیل کے لئے دیکھیں۔ تفسیر قرطبی ج ۹ص۲۱۳۔ وزاد المسیر ج ۴ ص ۲۳۴، وتفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۴۸۲ (معارف القرآن، ۵/۲۴۲، سورۂ یوسف، لاہور)

دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں : یوسف  علیہ السلام نے ایک سو دس سال یا ایک سوسات سال کی عمر میں وفات پائی، اور عزیز مصر کی بیوی (زلیخا) کے بطن سے ان کے دو لڑکے پیدا ہوئے اور ایک لڑکی، لڑکوں  کا  نام افرائیم اور میشا تھے اور لڑکی  کا  نام رحمت تھا جو حضرت ایوب علیہ السلام کے عقد میں آئیں۔ (معارف القرآن، ۶/۲۷۲)

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں : بعض تاریخی روایات میں ایسا آیا ہے کہ حضرت یوسف  علیہ السلام کا نکاح  زلیخا سے ہوگیا تھا لیکن قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

مفتی سلمان صاحب منصورپوری رقم طراز ہیں : تفسیر کی بعض روایات سے (جن میں صدق وکذب دونوں  کا  احتمال ہے) یہ معلوم ہوتا ہے کہ عزیزِ مصر کے انتقال کے بعد اس کی بیوی  کا  نکاح  بعد میں حضرت  یوسف علیہ السلام سے کردیا گیا تھا۔

آخر کے دونوں قول زیادہ صحیح ہیں کہ حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

مستفاد : فتاوی محمودیہ، فتاوی رحیمیہ، فتاوی عثمانی، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 شوال المکرم 1440