پیر، 31 دسمبر، 2018

مکروہ اوقات میں نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم

*مکروہ اوقات میں نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مکروہ اوقات (طلوع آفتاب، زوال و غروب آفتاب) میں نماز جنازہ پڑھایا جاسکتا ہے؟ زید کہتا ہے کہ جس طرح فرض ونفل نماز پڑھنا مکروہ ہے اسی طرح نماز جنازہ بھی پڑھنا مکروہ ہے، مگر بکر کہتا ہے کہ مکروہ اوقات میں وہ نمازپڑھنا مکروہ ہے جس نماز میں سجدہ ہے اور نماز جنازہ میں سجدہ نہیں ہے اس لئے نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے؟
قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ انصاری سفیان ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اوقاتِ ثلاثہ ممنوعہ طلوع، غروب اور زوال آفتاب کے وقت ہر قسم کی نماز بشمول نماز جنازہ ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے، اس لئے کہ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تین اوقات میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روکا ہے کہ ہم اس میں نماز پڑھیں اور اپنے مردے کا نماز جنازہ پڑھیں : سورج طلوع ہوتے وقت، یہاں تک کہ بلند ہو جائے، اور ٹھیک دوپہر کے وقت میں یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور غروب کے لئے جائے، جب تک کہ غروب نہ ہو جائے۔

البتہ ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علی ! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے۔

اس روایت کی وجہ سے احناف کا موقف یہ ہے کہ اگر عین طلوع وغروب یا زوال کے وقت جنازہ نماز کے لئے لایا گیا تو اسی وقت نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر جنازہ پہلے لایا جاچکا تھا اور ابھی نماز نہیں پڑھی گئی تھی کہ مکروہ وقت شروع ہوگیا تو اب مکروہ وقت میں نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ مکروہ وقت ختم ہونے کے بعد ہی نماز پڑھنا درست ہوگا۔

عن عقبۃ بن عامر الجہنی رضي الله عنہ: ثلاث ساعات کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم ینہانا أن نصلي فیہن وأن نقبر فیہن موتانا: حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع، وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل، وحین تضیف للغروب حتی تغرب۔ (لصحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الأوقات التي نہی عن الصلوٰۃ فیہا، النسخۃ الہندیۃ ۱؍۲۷۶، بیت الأفکار، رقم: ۸۳۱)

و قال ابن المبارک : معنی ھذا الحدیث أن نقبر فیھن موتانا ، یعنی الصلاة علی الجنازة و کرہ الصلاة علی الجنازة عند طلوع الشمس و عند غروبھا ۔ ( تر مذی شریف ، باب ما جاء فی کراھیة الصلاة علی الجنازة عند طلوع الشمس و عند غروبھا ، ص ٢٤٩، نمبر ١٠٣٠)

عن علي بن أبي طالب أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال لہ: یا علي ثلاث لاتؤخرہا: الصلاۃ إذا آنت، والجنازۃ إذا حضرت، والأیم إذا وجدت لہا کفؤًا۔ (ترمذي شریف، باب ما جاء في تعجیل الجنازۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۰۶، مکتبۃ دار السلام رقم:۱۰۷۵)

فلو وجبتا فیہا لم یکرہ فعلہما أی تحریماً وفی التحفۃ : الأفضل أن لا تؤخر الجنازۃ۔ قولہ : وفی التحفۃ فثبتت کراہۃ التنزیہ فی سجدۃ التلاوۃ دون صلاۃ الجنازۃ۔ (درمختار : ۲؍۳۰ تا ۳۵)

ولا یصلی علی جنازۃ ولا یسجد لتلاوۃ فی ہٰذا الوقت فإنہ لا یجوز قطعاً ولو وجبتا فی ہٰذا الوقت وادیتا فیہ جاز الخ۔ (شامی : ۲؍۳۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الآخر 1440

اتوار، 30 دسمبر، 2018

فجر، ظہر اور جمعہ کے پہلے کی سنتیں چھوٹ جائیں تو؟

*فجر، ظہر اور جمعہ کے پہلے کی سنتیں چھوٹ جائیں تو؟*

سوال :

فجر، ظہر اور نماز جمعہ سے قبل کی سنتِ مؤکدہ چھوٹ جائے تو کب اور کس نیت سے ادا کی جائے؟ سنت مؤکدہ کی نیت سے یا نفل نماز کی نیت سے ؟؟
(المستفتی : فہیم ابراهيم، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی شخص کی عذر کی وجہ سے جمعہ یا ظہر سے پہلے کی سنتیں چھوٹ جائیں تو اسے فرض کے بعد پڑھ لینا مسنون ہے، البتہ قصداً فرض سے پہلے چھوڑ کر بعد میں ادا کرنا درست نہیں ہے۔

لیکن فرض کے بعد یہ سنت کب پڑھی جائے؟ تو اس میں دونوں قول ہیں، البتہ راجح قول یہ ہے کہ ظہر کی فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ اور جمعہ میں فرض نماز کے بعد والی چار سنتوں کو ایک سلام سے یا چھ رکعت سنتوں کو دو سلام سے ادا کرنے کے بعد پڑھی جائے۔ کیونکہ پہلی چار رکعت سنت مؤکدہ تو اپنی جگہ سے ہٹ ہی گئی ہیں، لہٰذا اب ان کو ادا کرنے کے لیے بعد والی سنت مؤکدہ کو اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے۔

مذکورہ سنتیں، سنت ہی کی نیت سے ادا کی جائیں گی، نفل کی نہیں۔ اور نہ ہی قضا کی نیت جائے گی، اس لئے کہ یہ وقت کے اندر ہی ادا ہورہی ہیں۔

٢) اگر کسی شخص کی عذر کی وجہ سے فجر کی سنت چھوٹ جائے تو وہ فرض کے کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے سنت نہ پڑھے، اس لئے کہ بخاری، مسلم اور ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

اس بنا پر احناف کا موقف یہ ہے کہ فجر کی سنتیں اگر چھوٹ جائیں تو انہیں فرض کے بعد ادا نہ کیا جائے، بلکہ طلوعِ آفتاب کے بعد اشراق کے وقت نفل کی نیت سے ادا کرلینا بہتر ہے، مسنون نہیں۔

١) عن عائشۃ -رضي اﷲ عنہا- قالت: کان رسول اﷲ ﷺ إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر، صلاہا بعد الرکعتین بعد الظہر۔ (سنن ابن ماجۃ، الصلاۃ، باب من فاتہ الأربع قبل الظہر، النسخۃ الہندیۃ ۸۰، دارالسلام، رقم: ۱۱۵۸)

بخلاف سنۃ الظہر، فإنہ یترکہا ثم یأتی بہا فی وقتہا قبل شفعہ، إلی قولہ: الأصح لحدیث عائشۃ أنہ علیہ الصلاۃ والسلام، کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ، ۲/ ۵۱۴)

(بخلاف سنة الظهر) وكذا الجمعة (فإنه) إن خاف فوت ركعة (يتركها) ويقتدي (ثم يأتي بها) على أنها سنة (في وقته) أي الظهر (قبل شفعه) عند محمد،وبه يفتى جوهرة.(الدر المختار) ۔۔۔ قال ابن عابدین:(قوله عند محمد) وعند أبي يوسف بعده، كذا في الجامع الصغير الحسامي وفي المنظومة وشرحها: الخلاف على العكس. وفي غاية البيان: يحتمل أن يكون عن كل من الإمامين روايتان ح عن البحر. (قوله وبه يفتى) أقول: وعليه المتون، لكن رجح في الفتح تقديم الركعتين. قال في الإمداد: وفي فتاوى العتابي أنه المختار، وفي مبسوط شيخ الإسلام أنه الأصح لحديث عائشة :أنه عليه الصلاة والسلام كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر يصليهن بعد الركعتين، وهو قول أبي حنيفة، وكذا في جامع قاضي خان اهـ والحديث قال الترمذي حسن غريب فتح .(رد المحتار علی الدر المختار:۲؍۵۸- ۵۹، باب إدارك الفریضۃ، مطلب هل الإساءة دون كراهة أو أفحش)

٢) عن عطاء بن یزید اللیثي أنہ سمع أبا سعید الخدري رضي اللہ عنہ یقول: قال رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ بعد صلاۃ العصر حتی تغرب الشمس ولا صلاۃ بعد صلاۃ الفجر حتی تطلع الشمس۔ (صحیح البخاري ۱؍۸۲، رقم: ۵۸۶، صحیح مسلم رقم: ۸۲۷)

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت غیر واحد من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم منہم عمر بن الخطاب وکان من أحبہم إلی أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس۔ (صحیح البخاري ۱؍۸۲، رقم ۵۸۱)

وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع، وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما، وقال محمدؒ: أحب إلي أن یقضیہا إلی الزوال۔ (شامی : ۲؍۵۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ربیع الآخر 1440

نکاح سے قبل لڑکی کو دیکھنے کا حکم

*نکاح سے قبل لڑکی کو دیکھنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ شادی سے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھ سکتے ہیں؟
برائے مہربانی مکمل مفصّل جواب ارسال فرمائیں ۔
(المستفتی : شیخ زبیر، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری ومسلم کی صحیح حدیث کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں جس لڑکی سے نکاح کی نسبت طے ہوئی ہے اسے نکاح سے قبل دیکھ لینے کی ترغیب آئی ہے، اور ائمہ اربعہ، جمہور علماء امت رحمھم اللہ کے نزدیک بھی مخطوبہ لڑکی کو نکاح سے قبل دیکھنا مستحب ہے۔

احادیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : نکاح سے پہلے لڑکی کو دیکھ لیا کرو، اس لئے کہ یہ دیکھنا تمہارے درمیان محبت اور پائیداری کا ذریعہ ہے۔

البتہ آمنے سامنے بیٹھ کر دیر تک بے تکلفی کی باتیں کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ کہیں موقع مل جائے تو چھپ چھپا کر ایک نظر میں چہرہ دیکھ لیا جائے، اسی طرح تصویروں کا تبادلہ اور فون پر کالنگ یا چیٹنگ وغیرہ بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ جب تک نکاح نہیں ہوجاتا وہ اس کے لئے نامحرم ہے۔

فقیہ النفس حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب  رحمہ اللہ لکھتے ہیں : صاف صاف مطالبہ کرنا کہ مجھے دکھاؤ میں خود دیکھ لوں گا، تو یہ مناسب نہیں ہے، کیونکہ اگر ہر شخص صاف صاف دیکھنے کا مطالبہ کرے اور یہ دروازہ کھو ل دیا جائے، تو نہیں معلوم ایک ایک لڑکی کو شادی کرنے کیلئے کتنے کتنے لڑکوں کو دکھانے کی نوبت آئے گی، ایک ناپسند کرے اس کی بھی شہرت ہوگی، اس سے احباب ناپسندیدگی کی وجہ دریافت کر یں گے، وہ اسی کا حلیہ پوری تفصیل سے بتائے گا، گھوڑی اور گائے کی سی کیفیت ہوجائے گی کہ گاہک آتے ہیں، دیکھتے ہیں، ناپسند کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ (فتاوی محمودیہ،16/145)

بعض گھروں میں لڑکے کے باپ بھائی وغیرہ یہ اصرار کرتے ہیں کہ ہم رشتہ طے کرنے سے پہلے خود لڑکی دیکھیں گے، یہ اصرار شرعاً ناجائز ہے، بلکہ یہ اجازت صرف لڑکے کے لئے ہے کہ وہ کسی بہانے لڑکی کو ایک نظر دیکھ لے بشرطیکہ رشتہ ہوجانے کی توقع ہو، ورنہ لڑکی کو دیکھنے کے لیے لڑکے کے گھر کی عورتیں مثلاً والدہ بہنیں وغیرہ کافی ہیں، وہ جاکر دیکھ سکتی ہیں۔

فقال لہ رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم: أ نظرت إلیہا قال: لا، قال: فاذہب فانظر إلیہا۔ الحدیث (مسلم شریف، النکاح، باب ندب النظر إلی وجہ المرأۃ، وکفیہا لمن یرید تزوجہا، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۵۶، بیت الأفکار، رقم: ۱۴۲۴)

وتحتہ فی النووي : وفیہ استحباب النظر إلی وجہ من یرید تزوجہا مذہبنا ومذہب مالک وأبي حنیفۃ وسائر الکوفیین وأحمد، وجماہیر العلماء۔ الخ (نووي شرح مسلم ۱/ ۴۱۵۶)

عن المغیرۃ بن شعبۃ -رضی ﷲ عنہ- أنہ خطب امرأۃ، فقال النبي صلی اﷲ علیہ وسلم: أنظر إلیہا، فإنہ أحری أن یؤدم بینکما۔ (ترمذي شریف، النکاح، باب ماجاء في النظر إلی المخطوبۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۰۷، دارالسلام، رقم: ۱۰۸۷)

نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الصورۃ في البیت ونہی أن یصنع ذلک۔ (سنن الترمذي ۲؍۳۰۱ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ربیع الآخر 1440

ہفتہ، 29 دسمبر، 2018

نمازِ جنازہ میں تکبیریں فوت ہوجائے تو کیا کرے؟

*نمازِ جنازہ میں تکبیریں فوت ہوجائے تو کیا کرے؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر نماز جنازہ میں شروع کی تکبیریں چھوٹ جائیں تو جماعت میں کیسے شامل ہوں گے؟
(المستفتی : ڈاکٹر فضل الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص جنازہ کی نماز میں بعد میں آئے تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ امام کی اگلی تکبیر کا انتظار کرے، (لیکن اگر مسبوق آتے ہی امام کی تکبیر کا انتظار کئے بغیر نماز میں شریک ہوجائے تو یہ شرکت بھی معتبر ہے، لیکن چونکہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر ایک رکعت کے قائم مقام ہے اس لئے اس تکبیر کا کچھ اعتبار نہ ہوگا؛ بلکہ اس تکبیر کو بھی امام کے سلام کے بعد دوبار کہنا ہوگا۔) جب امام تکبیر کہے تو اس کے ساتھ یہ شخص بھی تکبیر کہتا ہوا شامل ہوجائے، پھر اگر اسے معلوم ہے کہ یہ کونسی تکبیر ہے، تو امام کی موافقت کرتے ہوئے اس تکبیر کے بعد والی دعا پڑھے، اور اگر یہ معلوم نہیں کہ یہ دوسری تکبیر ہے یا تیسری، تو پھر ترتیب وار اپنی پہلی تکبیر کے بعد ثناء، پھر دوسری تکبیر کے بعد درود شریف، اور تیسری تکبیر کے بعد دُعا پڑھے، اور اگر ایک یا دو تکبیر کے بعد ہی امام نے سلام پھیر دیا، اور چُھوٹی ہوئی تکبیریں دعاؤں کے ساتھ ادا کرنے کا موقع نہیں ہے، یعنی جنازہ اٹھا لیے جانے کا اندیشہ ہوتو دعا وغیرہ کے بغیر صرف چُھوٹی ہوئی تکبیریں کہہ کر سلام پھیردے۔

والمسبوق ببعض التکبیرات لا یکبر فی الحال؛ بل ینتظر تکبیر الإمام لیکبر معہ للافتتاح۔ (درمختار) وفی الشامی : ویکون ہذا التکبیر تکبیر الافتتاح فی حق ہذا الرجل فیصیر مسبوقاً بتکبیرۃ یأتی بہا بعد سلام الإمام۔ (شامی زکریا ۳؍۱۱۴)

فلو کبر کما حضر ولم ینتظر لا تفسد عندہما لکن ما أداہ غیر معتبر۔ (وبعد اسطر) یصح شروعہ بہا ویعیدہا بعد سلام إمامہ۔ (شامی زکریا ۳؍۱۱۴)

ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : والمسبوق ببعض التکبیرات لا یکبر في الحال بل ینتظر تکبیر الإمام لیکبر معہ للافتتاح، لما مر أن کل تکبیرۃ کرکعۃ ۔ تنویر وشرحہ ۔ وفي الشامیۃ : قال الشامي رحمہ اللہ تعالی : وفي نور الإیضاح وشرحہ أن المسبوق یوافق في دعائہ لو علمہ بسماعہ ، ولم یذکر ما إذا لم یعلم ، وظاہر تقییدہ الموافقۃ بالعلم أنہ إذا لم یعلم بأن لم یعلم أنہ في التکبیرۃ الثانیۃ أو الثالثۃ مثلا یأتي بہ مرتبا : أي یأتي بالثناء ثم الصلاۃ ثم الدعاء ۔
(۳/۱۱۴- ۱۱۶، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب ہل یسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي)

فإذا انتہی إلی الإمام في صلاۃ الجنازۃ وقد سبقہ بتکبیرۃ لا یکبر ولکنہ ینتظر الإمام حتی یکبر فیکبر معہ ، وإذا سلم الإمام قضی ہذا الرجل ما فاتہ قبل أن ترفع الجنازۃ، وہذا مذہب أبي حنیفۃ ومحمد ۔ (۱/۶۵۰، الفصل الثاني والثلاثون في الجنائز ، القسم الثاني في کیفیۃ الصلاۃ علی المیت ، ومما یتصل بہذا القسم، الفتاوی التاتارخانیۃ)
مستفاد: کتاب المسائل، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، رقم الفتویٰ: ۳۹۰۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الآخر 1440

جمعرات، 27 دسمبر، 2018

زنا کی مرتکب بیوی کو طلاق دینا ضروری ہے؟

*زنا کی مرتکب بیوی کو طلاق دینا ضروری ہے؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ھندہ جو کہ شادی شدہ ہے اور اس کا غیر مرد سے ناجائز تعلق ہے ایسی حرکت کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
اب ایسی صورت میں ھندہ کا شوہر کیا کرے طلاق دے یا نہ دے شریعت کی اس معاملے میں کیا راہنمائی ہے؟
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت مطھرہ میں زنا کو کبیرہ گناہ بتایا گیا ہے، جس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور بروز حشر ایسے لوگوں کا انجام انتہائی دردناک ہوگا۔

چنانچہ معراج کی شب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زناکاروں کو ہورہا عذاب دکھایا گیا کہ ایک جگہ تنور کی طرح ایک گڑھا ہے جس کا منہ تنگ ہے اور اندر سے کشادہ ہے برہنہ مرد و عورت اس میں موجود ہیں اور آگ بھی اس میں جل رہی ہے جب آگ تنور کے کناروں کے قریب آجاتی ہے تو وہ لوگ اوپر اٹھ آتے ہیں اور باہر نکلنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور جب آگ نیچے ہوجاتی ہے تو سب لوگ اندر ہوجاتے ہیں۔

اور اسلامی حکومت میں اگر غیرشادی شدہ لڑکی یا لڑکا زنا کرے تو اسے سو کوڑے سزا کے طور پر مارے جائیں گے، اور اگر شادی شدہ مرد و عورت یہ قبیح اور غلیظ عمل کریں تو انہیں سنگسار یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔

صورت مسئولہ میں ہندہ اپنے اس قبیح و شنیع فعل کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوئی ہے، لیکن ہمارے یہاں چونکہ اسلامی حکومت نہیں ہے، اس لئے اس پر سنگسار کرنے کی سزا عائد نہیں کی جاسکتی ہے، اس لئے ہندہ پر لازم ہے کہ سچے اورخالص دل سے توبہ کرکے اپنی اس حرکت پر نادم ہو، اگر وہ سچے دل سے توبہ استغفار کرلیتی ہے تو امید ہے کہ اس کا گناہ معاف ہوجائے گا، اور شوہر کو اس پر اطمینان ہوجائے کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گی، تو وہ اسے اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہوتو رکھ سکتا ہے، شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، اس لئے کہ ہندہ کے زنا کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ نکاح باقی رہتا ہے۔

البتہ اگر شوہر کو اس کے ساتھ نباہ مشکل نظر آرہا ہو اور اس کے ساتھ رہنے میں شرعی حدود پر قائم نہ رہ سکتا ہوتو پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے خارج کرسکتا ہے، اس صورت میں شوہر شرعاً گناہ گار نہیں ہوگا۔

قال اللہ تعالٰی : الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ۔ (سورۃ النور : جزء آیت۲)

أخرج البیہقي عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما حدیثا فیہ … قال: کان الرجل إذا زنی أو أذی في التعبیر وضرب النعال فأنزل اللّٰہ عزوجل بعد ہٰذا: الزانیۃ والزاني فاجلدوا کل رجما في سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہٰذا سبیلہما الذي الذي جعل اللّٰہ لہما۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الحدود، باب ما یستدل بہ الخ، رقم : ۱۷۳۸۸)

قال اللہ تعالی : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (سورہٴ زمر، آیت : ۵۳)

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔ رواہ ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان

ولا یجب علی الزوج تطلیق الفاجرۃ و لاعلیہا تسریح الفاجر، إلا إذا خافا أن لا یقیما حدود اللہ فلا بأس أن یتفرقا۔ (البحر الرائق : ۳/۱۸۸)

فالأحسن : أن یطلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ واحدۃ في طہر لم یجامعہا فیہ، ویترکہا حتی تنقضي عدتہا۔ (ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ، ۲/۳۵۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الآخر 1440

موبائل وغیرہ میں آیتِ سجدہ سننے کا حکم

*موبائل وغیرہ میں آیتِ سجدہ سننے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب پوچھنا یہ تھا کہ اگر کوئی بندہ موبائیل کے ذریعہ یا ٹی وی کے ذریعہ آیت سجدہ سُنے تو کیا اُس پر سجدۂ تلاوت سجدہ واجب ہوگا؟
(المستفتی : مولوی وسیم، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موبائل، کمپیوٹر، ٹی وی وغیرہ پر اگر براہ راست (live) تلاوت کرنے والے کی آواز سن رہا ہے تو آیتِ سجدہ سننے سے سجدہ واجب ہوجائے گا، اس لئے کہ اسے قاری کی ہی آواز قرار دیا گیا ہے۔ اور اگر پہلے سے ریکارڈ شدہ تلاوت میں سجدۂ تلاوت سنے تو سجدہ واجب نہیں ہوگا، اس لئے کہ ریکارڈ شدہ جو تلاوت کی آواز ہوتی ہے اس کو نقل اور عکسِ تلاوت کہا گیا ہے۔

وأما سبب وجوب السجدۃ فسبب وجوبہا أحد شیئین ؛ التلاوۃ أو السماع، کل واحد منہما علی حالہ موجب۔ (بدائع الصنائع : ۱/۴۳۰ ، فصل فی سبب وجوب السجدۃ  التلاوۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الآخر 1440

بدھ، 26 دسمبر، 2018

پانی کی تجارت کا شرعی حکم

*پانی کی تجارت کا شرعی حکم*

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے۔
ہمارے ایک دوست نے پوچھا ہے وہ پانی کا پلانٹ یعنی پانی کے جار، ‌‌اسکا کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا پانی بیچ سکتے ہیں ؟ تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : مولانا اشفاق، پونے)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی شخص کا اپنی ملکیت کے سرکاری نل، بورنگ، کنویں وغیرہ کے پانی کو بوتل یا جار وغیرہ میں بھر کر یا مشین کے ذریعہ فلٹر کرکے بیچنا جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

البتہ ایسا پانی جو کسی شخص نے برتن وغیرہ میں جمع نہ کیا ہو، بلکہ وہ قدرتی طور پر بہہ رہا ہو، جیسے دریا یا چشمہ کا بہتا ہوا پانی اس کا فروخت کرنا ممنوع ہے، کیونکہ اس صورت میں وہ پانی فروخت کرنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ اس میں تمام مسلمان شریک ہیں۔

عن أبي بکر بن عبداﷲ بن مریم عن المشیخۃ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نہی عن بیع الماء إلا ما حمل منہ، وقال: وعلی ہذا مضت العادۃ في الأمصار ببیع الماء في الروایا والحطب والکلاء من غیر نکیر۔ (إعلاء السنن، باب بیع الماء والکلاء، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۱۴/ ۱۶۶)

فإذا أخذہ وجعلہ في جرۃ، أو ما شبہہا من الأوعیۃ فقد أحرزہ، فصار أحق بہ، فیجوز بیعہ، فالتصرف فیہ … لا یجوز بیع الماء في بئرہ ونہرہ ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۳/۱۲۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ربیع الآخر 1440

شوہر طلاق کا اقرار کرے اور بیوی انکار کرے

*طلاق کا شوہر اقرار کرے اور بیوی انکار کرے*

سوال :

مفتی صاحب زید کہتا ہے کہ اس نے ہندہ کو دو طلاق دیا جس کی ہامی اس کی والدہ بھی بھرتی ہے لیکن والد صاحب اور بیوی کہتی کہ منہ بند کردیا گیا تھا اب کس کی بات کا اعتبار ہوگا ؟ اور اگر دو طلاق ہوگئی ہوتو آگے کا کیا مسئلہ شرعی بنےگا؟ رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
(المستفتی : محمد شرجیل، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں شوہر خود اس بات کا اقرار کررہا ہے کہ اس نے دو طلاق دی ہے، لیکن بیوی اور والد اس کا انکار کررہے ہیں تو شوہر کے اقرار کا اعتبار کیا جائے گا اور دو طلاق واقع ہوجائے گی۔

اگر اس سے پہلے کوئی طلاق نہ دی گئی ہوتو عدت کی مدت (تین ماہواری) میں رجوع کا حق باقی رہے گا، عدت کی مدت میں رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ تنہائی میں میاں بیوی والا عمل کرلے یا دو گواہوں کی موجودگی میں یہ کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں، ایسا کرلینے سے بیوی دوبارہ اس کے نکاح میں آجائے گی۔

بطور خاص ملحوظ رہے کہ اب صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا، لہٰذا بہت احتیاط اور سوچ سمجھ کر آئندہ کوئی بھی قدم اٹھائے۔

ولو أقر بالطلاق کاذباًأوہازلاً وقع قضائً لا دیانۃً۔ (شامي، کتاب الطلاق، ۴/۴۴۰)

وإذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ رجعیۃ، أو تطلیقتین فلہ أن یراجعہا في عدتہا رضیت بذلک، أو لم ترض۔ (ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب الرجعۃ،۲/۳۹۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ربیع الآخر 1440