پیر، 10 دسمبر، 2018

بچے کو دودھ پلانے کی مدت

*بچے کو دودھ پلانے کی مدت*

سوال :

مفتی صاحب ایک سوال ہیکہ بچے اور بچی کی دودھ پینے کی عمر کتنی ہے؟ قرآن و حدیث سے مفصل جواب مطلوب ہے ۔
(المستفتی : شفیق الرحمن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نومولود خواہ بچہ ہو یا بچی دونوں کو دودھ پلانے کی مدت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ولادت کے وقت سے ڈھائی سال تک ہے، البتہ جمہور علماء بشمول امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک دو سال ہے، اور یہی قول راجح اور مفتی بہ ہے ۔

امام صاحب کے قول کا حاصل جمہور حنفیہ کے نزدیک یہ ہے کہ اگر بچہ کمزور ہو، ماں کے دودھ کے سوا کوئی غذا دو سال تک بھی نہ لیتا ہو تو مزید چھ ماہ دودھ پلانے کی اجازت ہوگی ۔

علامہ شامی رحمہ اللہ نے قہستانی کے حوالہ سے یہی بات نقل فرمائی ہے کہ جب تک بچہ کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہو، اس وقت تک دودھ پلانا واجب ہے، اس کے بعد سے دو سال تک دودھ پلانا مستحب، اور دو سال کے بعد سے ڈھائی سال تک ضرورۃً جائز، اور اس کے بعد دودھ پلانا مباح نہیں ہے، کیونکہ دودھ آدمی کا جُزء ہے، بلا ضرورت اس سے نفع اٹھانا حرام ہے۔

قال اللہ تعالیٰ : وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ۲۳۳)

(وہي) أي مدتہ (حولان ونصف) أي ثلاثون شہرًا من وقت الولادۃ عند الإمام ۔۔۔۔ (وعندہما حولان) وہو قول الشافعي ، وعلیہ الفتوی کما في المواہب ، وبہ أخذ الطحاوي ۔۔۔۔ وفي شرح المنظومۃ : الإرضاع بعد مدتہ حرام لأنہ جزء الآدمي والانتفاع بہ غیر ضرورۃ حرام علی الصحیح ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۵۵۲، کتاب الرضاع)

لکن في القہستاني عن المحیط : لو استغنی في حولین حل الإرضاع بعدہما إلی نصف ، ولا تأثم عند العامۃ خلافا لخلف بن أیوب ۔ اہـ ۔ ونقل أیضا قبلہ عن إجارۃ القاعدي أنہ واجب إلی الاستغناء ، ومستحب إلی حولین ، وجائز إلی حولین ونصف ۔ اھ (شامی : ۴/۲۹۴ ، کتاب النکاح ، باب الرضاع)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الآخر 1440

1 تبصرہ: