اتوار، 30 دسمبر، 2018

فجر، ظہر اور جمعہ کے پہلے کی سنتیں چھوٹ جائیں تو؟

*فجر، ظہر اور جمعہ کے پہلے کی سنتیں چھوٹ جائیں تو؟*

سوال :

فجر، ظہر اور نماز جمعہ سے قبل کی سنتِ مؤکدہ چھوٹ جائے تو کب اور کس نیت سے ادا کی جائے؟ سنت مؤکدہ کی نیت سے یا نفل نماز کی نیت سے ؟؟
(المستفتی : فہیم ابراهيم، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی شخص کی عذر کی وجہ سے جمعہ یا ظہر سے پہلے کی سنتیں چھوٹ جائیں تو اسے فرض کے بعد پڑھ لینا مسنون ہے، البتہ قصداً فرض سے پہلے چھوڑ کر بعد میں ادا کرنا درست نہیں ہے۔

لیکن فرض کے بعد یہ سنت کب پڑھی جائے؟ تو اس میں دونوں قول ہیں، البتہ راجح قول یہ ہے کہ ظہر کی فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ اور جمعہ میں فرض نماز کے بعد والی چار سنتوں کو ایک سلام سے یا چھ رکعت سنتوں کو دو سلام سے ادا کرنے کے بعد پڑھی جائے۔ کیونکہ پہلی چار رکعت سنت مؤکدہ تو اپنی جگہ سے ہٹ ہی گئی ہیں، لہٰذا اب ان کو ادا کرنے کے لیے بعد والی سنت مؤکدہ کو اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے۔

مذکورہ سنتیں، سنت ہی کی نیت سے ادا کی جائیں گی، نفل کی نہیں۔ اور نہ ہی قضا کی نیت جائے گی، اس لئے کہ یہ وقت کے اندر ہی ادا ہورہی ہیں۔

٢) اگر کسی شخص کی عذر کی وجہ سے فجر کی سنت چھوٹ جائے تو وہ فرض کے کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے سنت نہ پڑھے، اس لئے کہ بخاری، مسلم اور ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

اس بنا پر احناف کا موقف یہ ہے کہ فجر کی سنتیں اگر چھوٹ جائیں تو انہیں فرض کے بعد ادا نہ کیا جائے، بلکہ طلوعِ آفتاب کے بعد اشراق کے وقت نفل کی نیت سے ادا کرلینا بہتر ہے، مسنون نہیں۔

١) عن عائشۃ -رضي اﷲ عنہا- قالت: کان رسول اﷲ ﷺ إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر، صلاہا بعد الرکعتین بعد الظہر۔ (سنن ابن ماجۃ، الصلاۃ، باب من فاتہ الأربع قبل الظہر، النسخۃ الہندیۃ ۸۰، دارالسلام، رقم: ۱۱۵۸)

بخلاف سنۃ الظہر، فإنہ یترکہا ثم یأتی بہا فی وقتہا قبل شفعہ، إلی قولہ: الأصح لحدیث عائشۃ أنہ علیہ الصلاۃ والسلام، کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ، ۲/ ۵۱۴)

(بخلاف سنة الظهر) وكذا الجمعة (فإنه) إن خاف فوت ركعة (يتركها) ويقتدي (ثم يأتي بها) على أنها سنة (في وقته) أي الظهر (قبل شفعه) عند محمد،وبه يفتى جوهرة.(الدر المختار) ۔۔۔ قال ابن عابدین:(قوله عند محمد) وعند أبي يوسف بعده، كذا في الجامع الصغير الحسامي وفي المنظومة وشرحها: الخلاف على العكس. وفي غاية البيان: يحتمل أن يكون عن كل من الإمامين روايتان ح عن البحر. (قوله وبه يفتى) أقول: وعليه المتون، لكن رجح في الفتح تقديم الركعتين. قال في الإمداد: وفي فتاوى العتابي أنه المختار، وفي مبسوط شيخ الإسلام أنه الأصح لحديث عائشة :أنه عليه الصلاة والسلام كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر يصليهن بعد الركعتين، وهو قول أبي حنيفة، وكذا في جامع قاضي خان اهـ والحديث قال الترمذي حسن غريب فتح .(رد المحتار علی الدر المختار:۲؍۵۸- ۵۹، باب إدارك الفریضۃ، مطلب هل الإساءة دون كراهة أو أفحش)

٢) عن عطاء بن یزید اللیثي أنہ سمع أبا سعید الخدري رضي اللہ عنہ یقول: قال رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ بعد صلاۃ العصر حتی تغرب الشمس ولا صلاۃ بعد صلاۃ الفجر حتی تطلع الشمس۔ (صحیح البخاري ۱؍۸۲، رقم: ۵۸۶، صحیح مسلم رقم: ۸۲۷)

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت غیر واحد من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم منہم عمر بن الخطاب وکان من أحبہم إلی أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس۔ (صحیح البخاري ۱؍۸۲، رقم ۵۸۱)

وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع، وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما، وقال محمدؒ: أحب إلي أن یقضیہا إلی الزوال۔ (شامی : ۲؍۵۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ربیع الآخر 1440

11 تبصرے:

  1. اس پوسٹ میں ایک سلام سے کیا مراد ہے؟
    براہ کرم واضح کریں ؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. چار رکعت ایک سلام سے مراد چوتھی رکعت پر سلام پھیرنا ، جبکہ چار رکعت دو سلام سے کہا جائے تو مراد ہوتی ہے ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا۔

    واللہ تعالٰی اعلم

    جواب دیںحذف کریں
  3. مزید سوالات کے لیے واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ کریں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. جزاک اللہ خیرا محترم المقام جناب مفتی صاحب.

    جواب دیںحذف کریں
  5. جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ اللہ آپکے علم و عمل میں خوب برکت عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  6. agar ek shaks zuhar ki sirf farz ada kar ly aur ye niyat kar ly k ma ye kam kar k pher sunnaten ada karonga ----aur wo ada karna bhool jay tu eska kia hukam hai ???

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اگر واقعتاً بھول جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن سنت مؤکدہ فرض کے فوراً بعد پڑھ لینا سنت ہے، اس میں دنیاوی کاموں کی وجہ سے تاخیر کرنا خلاف سنت ہے۔

      حذف کریں