بدھ، 27 فروری، 2019

آخری رکعت میں قعدہ چھوٹ جائے تو کیا کرے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ امام صاحب نے عصر کی نماز میں چوتھی رکعت میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہوگئے اور پانچویں رکعت میں بھی بیٹھے نہیں بلکہ چھٹی رکعت مکمل کرکے سجدہ سہو کیا اور پھر نماز کو سلام کے ذریعے پورا کرلیے، اس طرح چھ رکعت اور دو قعدہ بشمول سجدہ سہو ہوئی تو کیا ایسی شکل میں نماز ہوجائے گی یا پھر اعادہ کرنا ہوگا؟ جبکہ مصلیان کا کہنا ہے کہ چھ رکعت ہوئی ہے اس لئے نماز دوہرائی جائے۔ تو بتلائیں عصر کی نماز ہوگئی یا پھر اعادہ ضروری ہے؟ مفصل جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : محمد شرجیل، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں امام صاحب عصر کی نماز میں قعدۂ اخیرہ میں بیٹھے بغیر  پانچویں رکعت کے لئے کھڑے ہوگئے تھے تو ان پر ضروری تھا کہ پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے پہلے انہیں یاد آجاتا تو وہ فوراً قعدہ کی طرف لوٹ آتے اور اخیر میں سجدۂ سہو کرکے نماز درست ہوجاتی۔ لیکن اگر انہوں نے پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا تو فرض باطل ہوگیا، اس صورت میں بہتر یہ ہوتا ہے  کہ چھٹی رکعت بھی ساتھ ملالی جائے، لیکن بطور خاص ملحوظ رہے کہ اس صورت میں فرض ادا نہیں ہوگا، بس اخیر کی دو رکعتیں نفل ہوجائیں گی، البتہ سجدۂ سہو کرنا بہر صورت ضروری ہوگا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عصر کی نماز نہیں ہوئی، اعادہ ضروری ہے۔

نوٹ : قعدۂ اخیرہ فرض ہے۔ لہٰذا جب یہ چھوٹ جائے اور نماز دو رکعت والی ہوتو تیسری رکعت اور چار رکعت والی ہوتو پانچویں رکعت کے سجدہ سے پہلے پہلے یاد آجائے اور قعدہ کرکے اخیر میں سجدۂ سہو کرلیا جائے تو اس غلطی کی تلافی ہوکر نماز درست ہوجائے گی، لیکن اگر سجدہ کرلیا گیا تو پھر تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے، فرض نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔

(ولو سھا عن القعود الأخیر) کلہ أو بعضہ (عاد) ویکفی کون کلا الجلستین قدر التشھد (مالم یقیدھا بسجدۃ) لان مادون الرکعۃ محل الرفض وسجد للسھو لتأخیر القعود، (وإن قیدھا) بسجدۃ عامدا أو ناسیا أو ساھیا او مخطئا (تحول فرضہ نفلاً برفعہ) الجبھۃ عند محمد، وبہ یفتی، لأن تمام الشیٔ بآخرہ، فلو سبقہ الحدث قبل رفعہ توضأ وبنی خلافاً لأبی یوسف، حتی قال: صلاۃ فسدت أصلحھا الحدث والعبرۃ للإمام، حتی لو عاد ولم یعلم بہ القوم حتی سجدوا لم تفسد صلاتھم مالم یتعمدوا السجود۔ وفیہ یلغز: أیّ مصلّ ترک القعود الأخیر وقید الخامسۃ بسجدۃ ولم یبطل فرضہ، (وضم سادسۃ) ولو فی العصر والفجر (إن شاء) لاختصاص الکراھۃ والإتمام بالقصد (ولا یسجد للسھو علی الأصح) لأن النقصان بالفساد لا ینجبر (وإن قعد فی الرابعۃ) مثلاً قدر التشھد (ثم قام عاد وسلم) ولو سلم قائما صح، ثم الاصح أن القوم ینتظرونہ، فإن عاد تبعوہ (وإن سجد للخامسۃ سلموا) لأنہ تم فرضہ، إذ لم یبق علیہ إلا السلام (وضم إلیھا سادسۃ) لو فی العصر، وخامسۃ فی المغرب: ورابعۃ فی الفجر، بہ یفتی (لتصیر الرکعتان لہ نفلا) والضم ھنا آکد، ولا عھدۃ لوقطع، ولا بأس بإتمامہ فی وقت کراھۃ علی المعتمد (وسجد للسھو) فی الصورتین لنقصان فرضہ بتاخیر السلام فی الأولی وترکہ فی الثانیۃ۔ (الدرالمختار، ۸۵تا۸۸/ ۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الآخر 1440

پیر، 25 فروری، 2019

مسبوق سے متعلق چند اہم مسائل

*مسبوق سے متعلق چند اہم مسائل*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! نماز ایک عظیم الشان عبادت ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، اور مردوں کے لئے باجماعت نماز ادا کرنے کو سنت مؤکدہ اور قریب قریب واجب قرار دیا گیا ہے، احادیث مبارکہ میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور بلا عذر اس کے ترک پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند احادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے کہ باجماعت نماز اکیلے نماز کے مقابلہ میں ۲۷؍ درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (بخاری شریف ۱؍۸۹) 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اچھی طرح وضو کرکے فرض نماز کی با جماعت ادائیگی کے لئے گیا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اس کے سب گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۵۹)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا لوگ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں کو ضرور جلوادوں گا۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہایت بے مروتی اور کفر ونفاق کی علامت ہے کہ آدمی اذان سن کر نماز کے لئے حاضر نہ ہو۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۶۷)

لہٰذا مسلمان مردوں کو چاہیے کہ وہ مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں، اس میں غفلت و سستی کا مظاہرہ کرنا سخت معصیت ہے۔

والجماعة سنة موٴکدة للرجال ۔۔من غیر حرج (درمختار) قال الشامي: قید لکونہ سنة موٴکدة أو واجبة، فبالحرج یرتفع ویرخص في ترکہا ولکنہ یفوتہ الأفضل (درمختار مع الشامي، ۲/ ۲۸۷- ۲۹۱، باب الإمامة، زکریا)

محترم قارئین ! ویسے تو نماز میں کئی مسائل اہمیت کے حامل ہیں، انہیں میں سے بعض اہم مسائل باجماعت نماز ادا کرنے کی صورت میں پیش آتے ہیں جو مسبوق سے متعلق ہیں، چنانچہ اس تحریر میں ان مسائل کو آسان انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ عوام الناس کو سمجھنے میں سہولت ہو۔

مسبوق اس مقتدی کو کہا جاتا ہے جو پہلی رکعت کا رکوع ہوجانے کے بعد جماعت میں شامل ہوا ہو خواہ وہ پہلی رکعت کے سجدے میں شامل ہوا یا دوسری، تیسری اور چوتھی میں شامل ہو۔

والمسبوق ہو من سبقہ الإمام بکلہا أو بعضہا۔ (طحطاوی ۱۶۹)

*مسبوق کے لیے چند ابتدائی احکام*

مسبوق کے لیے سب سے پہلے حکم یہ ہے کہ اسے امام کے ساتھ جو رکن سجدہ، قعدہ وغیرہ مل جائے اس میں شامل ہوجائے امام کے قیام کا انتظار نہ کرے، جیسا کہ بعض لوگوں کا عمل ہے۔ نماز کے اختتام پر جب امام دونوں سلام پھیرچکے اور مسبوق کو اس کا اطمینان ہوجائے کہ امام پر سجدۂ سہو لازم نہیں ہے، تو اب وہ اپنی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑا ہو، اگر مسبوق اپنی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑا ہوگیا ہو، پھر اسے معلوم ہوا کہ امام پر سجدہ سہو ہے، تو وہ واپس لوٹ کر امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شامل ہوگا۔

لا یقوم بعد التسلیمۃ أو التسلیمتین بل ینتظر فراغ الإمام بعدہما۔ (شامی ۲؍۳۴۸)

لو قام إلی قضاء ما سبق بہ وعلی الإمام سجدتا سہو ولو قبل اقتدائہٖ فعلیہ أن یعود۔ (بدائع الصنائع ۱؍۴۲۱)

*مسبوق کا امام کے ساتھ سلام پھیر دینا*

اگر مسبوق شخص نے بھول سے سلام پھیردیا تو اس کی تین صورتیں ہیں : (۱) امام سے پہلے سلام پھیرا (۲) امام کے بالکل ساتھ ساتھ سلام پھیرا (۳) امام کے بعد سلام پھیرا (جیساکہ عام طور پر ہوتا ہے) تو ان میں پہلی اور دوسری صورت میں مسبوق پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہے اور تیسری صورت میں واجب ہے، خواہ ایک طرف سلام پھیرا ہو یا دونوں طرف پھیردیا ہو۔

ومن أحکامہ أنہ لو سلّم مع الإمام ساہیاً أو قبلہ لا یلزمہ سجود السہو لأنہ مقتد وإن سلّم بعدہ لزمہ۔ (البحر الرائق ۱؍۶۶۲، تاتارخانیہ ۱؍۱۰۱/بحوالہ کتاب المسائل)

*مسبوق شخص اپنی چھوٹی ہوئی رکعت کیسے مکمل کرے؟*

مسئلہ ھذا میں اگر درج ذیل اصول کو سمجھ لیا جائے تو ان شاء اللہ اس میں غلطی کا امکان باقی نہیں رہے گا، اصول یہ ہے کہ مسبوق امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کو اس طرح ادا کرے گا کہ قرأت کے اعتبار سے انہیں پہلی رکعات شمار کرے گا، جب کہ قعدہ کی ترتیب کے اعتبار سے ان رکعتوں کو آخری سمجھا جائے گا۔
مثلاً اگر کسی شخص کی ظہر، عصر یا عشاء کی نماز میں تین رکعتیں چھوٹ گئیں اور امام کے ساتھ صرف ایک رکعت ملی، تو یہ شخص امام کے سلام کے بعد جب اپنی چھوٹی ہوئی تین رکعتیں ادا کرے گا تو ترتیب یہ رہے گی کہ پہلی رکعت میں ثناء، أعوذ باللہ، بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور کوئی سورت ملائے گا، اور پھر رکوع سجدہ کے بعد قعدہ کرے گا، کیوں کہ یہاں اس کی دو رکعتیں پوری ہوئی ہیں، ایک امام کے ساتھ اور دوسری بعد میں، (اگر اس رکعت میں قعدہ نہیں کیا تو سجدہ سہو واجب ہوجائے گا) پھر قعدہ کے بعد والی رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت ملائے گا اور آخری رکعت میں سورت نہیں ملائے گا۔ اسی طرح ایک دو رکعت چھوٹ جائے تو مذکورہ بالا ہدایت کے مطابق نماز مکمل کرے گا۔

البتہ مغرب کی نماز میں فرق یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو امام کے ساتھ مغرب کی صرف ایک رکعت ملی تو وہ بقیہ دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورۃ ملائے گا، اور بہتر ہے کہ دوسری رکعت میں قعدہ کرے لیکن اگر قعدہ نہیں کیا تب بھی سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔ حضرت عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ کے فتوی کے مطابق نماز درست ہوجائے گی۔

والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد حتی یثني ویتعوذ ویقرأ۔ (درمختار) وتحتہ في الشامیۃ: تفریع علی قولہ ’’منفرد فیما یقضیہ‘‘ بعد فراغ إمامہ، فیأتي بالثناء والتعوذ؛ لأنہللقراء ۃ ویقرأ لأنہ یقضي أول صلا تہ في حق القراء ۃ۔ (درمختار مع الشامي، باب الإمامۃ / مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ۔ ۲؍۳۴۶-۳۴۷ زکریا)

وحکمہ أنہ یقضی أول صلا تہ فی حق القراء ۃ وآخرہا فی حق القعدۃ۔ (طحطاوی علی المراقی ۱۶۹)

ولو أدرک رکعۃً من الرباعیۃ فعلیہ أن یقضی رکعۃ ویقرأ فیہا الفاتحۃ والسورۃ ویقعد لأنہ یقضی آخر صلا تہ فی حق القعدۃ وحینئذ فہی ثانیۃ ویقضی رکعۃ یقرأ فیہا کذلک ولا یقعد، وفی الثالثۃ یتخیر والقراء ۃ أفضل۔ (حلبی کبیر ۴۶۸-۴۶۹)

لو أدرک مع الإمام رکعۃ من المغرب فإنہ یقرأ فی الرکعتین الفاتحۃ والسورۃ ویقعد فی أولٰہما، لأنہا ثانیۃ ولو لم یقعد جاز استحساناً لا قیاساً ولم یلزمہ سجود السہو لو سہواً لکونہا أولی من وجہ۔ (حلبی کبیر ۴۶۸)

عن ابن مسعودؓ ان جندباً ومسروقا ادرکا رکعۃ یعنی عن صلاۃ المغرب فقرأ جندب ولم یقرأ مسروق خلف الا مام فلما سلم الا مام قاما یقضیان فجلس مسرق فی الثانیۃ والثالثۃ وقام جندب فی الثانیۃ ولم یجلس فلما انصرف تذکر اذلک فاتیا ابن مسعود فقال کل قد اصاب اوقال کل قد احسن واصنع کمایصنع مسروق۔ (مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۷۲)

*مسبوق کے لئے قرأت میں ترتیب لازم نہیں*

مسبوق سے متعلق ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے جس کے متعلق سوال ہوتے رہتے ہیں وہ یہ کہ مسبوق کے لئے قرأت میں ترتیب مسنون ہے یا نہیں؟ معلوم ہونا چاہیے کہ مسبوق جب اپنی چھوٹی ہوئی رکعت ادا کرے گا تو وہ کوئی بھی سورت پڑھ سکتا ہے، خواہ وہ امام کی پڑھی ہوئی سورت سے پہلے کی ہو یا بعد کی، اس لئے کہ وہ منفرد اور تنہا نماز پڑھنے والے کے حکم میں ہے، لہٰذا مسبوق کے لیے امام کی قرأت کی ترتیب کو باقی رکھنا مسنون نہیں ہے۔

والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا، وہو منفرد حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ فیما یقضیہ … ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وأخرہا في حق تشہد۔ (درمختار ۲؍۲۴۶ زکریا/مستفاد : کتاب المسائل/کتاب النوازل)

اللہ تعالٰی ہم سب کو پنج وقتہ نمازوں کا باجماعت اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہماری نمازوں کا ظاہر اور باطن دونوں سنوار دے۔ آمین یا رب العالمین

اتوار، 24 فروری، 2019

رافضیوں کے جنازے میں شرکت کا حکم

*رافضیوں کے جنازے میں شرکت کا حکم*

سوال :

شیعہ حضرات کے جنازے میں شرکت کرنا کیسا ہے؟ اس مسئلے سے متعلق تمام احکام بیان فرمادیں۔
(المستفتی : محمد اشفاق، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہندوستان میں عموماً جتنے شیعہ رہتے ہیں وہ سب کفریہ اعمال و عقائد کے حامل ہیں، غالی اور تبرائی ہیں، جو حضرات شیخینؓ کو معاذ اللہ مرتد کہتے ہیں اورگالیاں دیتے ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت کے قائل ہیں، جس سے نص قطعی یعنی قرآن کریم کی بعض آیات  کا انکار لازم آتا ہے اور یہ شیعہ اثناء عشریہ ہیں۔ چنانچہ ایسے شیعہ کے انتقال پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنا درست نہیں ہے، بلکہ الحمدللہ کہا جائے کہ اس  کے  کفر اور عقائد باطلہ سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو پاک فرمادیا یا پھر خاموش رہے اور اپنی موت کو یاد کرے۔ نہ ہی اس کے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے، اسی طرح اس کے جنازہ کو کندھا دینے، نماز پڑھنے اور تجہیز و تکفین میں شرکت کی بھی اجازت نہیں ہے، البتہ اس کے اہل خانہ کو تسلی و دلاسہ دینے کی گنجائش موجود ہے۔

ایسا  شیعہ جو مذکورہ یا ان کے علاوہ دیگر  کفریہ عقائد کا حامل نہ ہو تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کیا جائے گا، اس کی تجہیز و تکفین میں شرکت جائز ہوگی، اور اس کے  جنازہ کی نماز اہلِ سنت پڑھ سکتے ہیں اور جب نمازِ جنازہ کا امام اہل سنت میں سے ہو تو اقتداء بھی کرسکتے ہیں، لیکن اگر نمازِ جنازہ کا امام شیعہ ہوتو اس کی اقتداء درست نہ ہوگی۔

قال فی الدر من سب الشیخین اوطعن فیہما کفر قال الشامی نعم نقل فی البزازیہ عن الخلاصة ان الرافضی اذا  کان یسب الشیخین ویلعنہما فہو کافر۔(الدر مع الرد: ٣/٣٢١)

الثانیة الردة بسبب سب الشیخین ابی بکر وعمر ۔( البحرالرائق : ٥/٢١٢)

الرافضی ان کان یسب الشیخین  ویلعنہما فہوکافر وان کان یفضل علیاکرم اللہ وجہہ علیہما فہو مبتدع۔(بزازیہ علی ہامش الہندیة :٣١٩/٦)

عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من کثر سواد قوم فہو منہم، ومن رضي عمل قوم کان شریکًا في عملہ۔ (کنز العمال / کتاب الصحبۃ من قسم الأقوال ۲؍۱۱ رقم: ۲۴۷۳۰ بیروت)

ویجوز عیادۃ الذمي، کذا في التبیین۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الرابع عشر ۵؍۳۴۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 جمادی الآخر 1440

ہفتہ، 23 فروری، 2019

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولٰی کہنے کا حکم

سوال :

میرا تعلق حنفی مسلک سے ہے، اکثر ایک بڑے عالم کا بیان سنتا رہتا ہوں، ایک بیان میں عالم صاحب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے ایک حدیث پڑھی ہے کیا وہ حدیث درست ہے؟ حدیث کا حوالہ کیا ہے؟ کیا حضرت علی کو مولی کہہ سکتے ہیں؟ اگر کہہ سکتے ہیں تو حنفی مسلک کے لوگ کیوں نہیں کہتے؟
ویڈیو بیان ارسال کررہا ہوں براہ کرم اسے دیکھ کر مفصل جواب عنایت فرمائیں ۔
(المستفتی : شاہد احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ نے جس حدیث شریف سے متعلق سوال کیا ہے وہ متعدد کُتب احادیث میں موجود ہے جو مع پس منظر یہاں ذکر کی جاتی ہے، جس سے مسئلہ ایک حد تک خود بخود واضح ہوجائے گا۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے قبل ماہ رمضان ۱۰ہجری میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو تین سو آدمیوں پر سردار مقرر فرماکر یمن کی جانب روانہ فرمایا تھا، قیام یمن کے دوران کچھ ساتھیوں کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے شکایت ہوگئی، اس میں حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ بھی شامل تھے، تو حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ نے واپسی کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شکایت کی، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپس ہوتے ہوئے ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر خطبہ دیا، جس میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی نسبت فرمایا: ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَہُ‘‘ جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں۔ (١)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ منقبت ان کے علم وفہم حسن سیرت اور صفاء باطن اور بااخلاق وقدامت فی الاسلام کے سبب فرمایا۔آپ کے اس ارشاد کا مقصد یہ بھی تھا کہ بتقاضائے بشریت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کے بعض ساتھیوں کو جو دوستانہ شکر رنجی پیدا ہوگئی ہے وہ دور ہوجائے۔

اس کے علاوہ مزید دلائل بھی ذکر کئے جاتے ہیں جن سے امید ہے کہ مسئلہ مکمل طور پر منقح اور واضح ہوجائے گا۔

اگر احادیثِ مبارکہ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے لفظِ مولی کا استعمال آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لیے بھی فرمایا ہے، ارشاد ہوتا ہے : أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا (صحیح بخاری، رقم : ٢٦٩٩)
آپ ہمارے بھائی بھی ہیں اور ہمارے مولی بھی ہیں۔
تو پھر حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لیے مولی کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ اور یہاں کیوں نہیں مولی کے معنی سردار اور آقا کے لیا جاتا ہے؟ 

امامِ لغت ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَقَدْ تَكَرَّرَ ذِكْرُ «المَوْلَى» فِي الْحَدِيثِ، وَهُوَ اسْمٌ يقَع عَلَى جَماعةٍ كَثيِرَة، فَهُوَ الرَّبُّ، والمَالكُ، والسَّيِّد، والمُنْعِم، والمُعْتِقُ، والنَّاصر،والمُحِبّ،والتَّابِع،والجارُ،وابنُ العَمّ، والحَلِيفُ، والعَقيد، والصِّهْر، والعبْد، والمُعْتَقُ، والمُنْعَم عَلَيه۔
حدیث میں مولی کا لفظ کئی مرتبہ آیا ہے اور یہ لفظ بہت سارے معنی کے لیے مستعمل ہے، مثلاً مولی کا معنی رب، مالک، سردار،کسی پر احسان کرنے والا، کسی غلام کو آزاد کرنے والا،کسی کی مدد کرنے والا، محبت کرنے والا فرمانبرداری کرنے والا، چچا کا بیٹا، جس سے معاہدہ ہو اور اسی طرح رشتے داروں، غلام اور جس پر کوئی احسان کیا جائےاس کو بھی مولی کہتے ہیں۔
والمُوَالاةُ مِن وَالَى القَوْمَ.
وَمِنْهُ الْحَدِيثُ «مَن كُنْتُ مَوْلاه فَعَليٌّ مَوْلاه» يُحْمَل عَلَى أكْثر الأسْمَاء المذْكورة۔
مولا کا لفظ”المولاۃ”سے مشتق ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے کسی قوم سے محبت رکھنا اور یہ معنی اس حدیث میں ہے :
مَن كُنْتُ مَوْلاه فَعَليٌّ مَوْلاه
یعنی جس کا میں محبوب ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس کے محبوب ہونے چاہییں۔  (النھایہ فی غریب الحدیث والاثر : ٥/٢٢٩)

امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنے ساتھ خصوصی تعلق اور اپنی محبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جوتھی وہ ذکرکرتے اور لوگوں کو بھی ترغیب دیتے کہ وہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ
اس کے آگے الفاظ ہیں کہ:
اللَّهُمْ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ۔
اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تُو اس سے بھی محبت رکھ اور جو علی سے نفرت رکھے تُو اس سے نفرت کر۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ ہی معنی بیا ن کیا گیا ہے کہ جس کو مجھ سے محبت ہے اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت ہونی چاہیے اور یہی معنی دوسری حدیث میں ان الفاظ کےساتھ آیا ہے۔

لَا يُحِبُّنِي إِلَامُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ
مجھ سے محبت نہیں رکھے گا مگر مومن، مجھ سے نفرت نہیں رکھے گا مگر منافق۔  (الاعتقاد : ١/٣٥٤)

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”علی مولا“ یا ”مولی علی“  کہنا درست نہیں ہے، کیونکہ عُرف میں "مولی"  کا اطلاق "آقا" پر ہوتا ہے اور حدیث شریف میں مولی کے معنی یہ نہیں لئے گئے ہیں، لہٰذا مذکورہ عالم صاحب نے مولی کا جو معنی لیا ہے وہ غلط ہے، اور ان کے درج ذیل جملوں کی وجہ سے ان کے موقف کا غلط ہونا مزید واضح ہوجاتا ہے۔
فرماتے ہیں : یہاں مولی کا معنی دوست یا محبوب کا نہیں ہے بلکہ اس کا معنی "آقا اور سردار" ہے۔ اور آگے بالکل صاف صاف کہتے ہیں کہ : "شیعہ جو مولاعلی کہتے ہیں وہ صحیح کہتے ہیں۔"

اب یہ بات تو بالکل مشہور ہے کہ شیعہ حضرات تو حضرت علی کو خلیفہ بلافصل سمجھ کر مولاعلی کہتے ہیں، اور عالم صاحب غالباً نادانستہ طور پر ان کی تائید کررہے ہیں۔ لہٰذا اسے عالم صاحب کی ایک علمی خطا ہی کہا جائے گا، اور اس پر عمل کرنے اور اسے عام کرنے سے پرہیز کیا جائے گا۔

حنفی مسلک میں حلقہ دیوبند کے علماء سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اسی وجہ سے مولی نہیں کہتے کہ اس میں شیعوں کی مشابہت پائی جاتی ہے، اور حنفیت کی دعویدار دیگر جماعتیں کہتی ہوں تو یہ ان کا معاملہ ہے۔

١) أن بریدۃ بن الحصیب الأسلمي رضي اللّٰہ عنہ: روی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نزل بغدیر خم حین مراجعۃ حجۃ الوداع - وہو موضع بین مکۃ ومدینۃ - أخذ بید علی رضي اللّٰہ عنہ وخاطب جماعۃ المسلمین الحاضرین فقال: یا معشر المسلمین! ألست أولی بکم من أنفسکم؟ قالوا: بلی! قال: من کنت مولاہ فعلي مولاہ۔ اللّٰہم وال من مولاہ، وعاد من عاداہ، قال الشیعۃ في تقریر الاستدلال بہذا الحدیث: أن المولی بمعنی الأولی بالتصرف، وکونہ أولی بالتصرف عین الإمامۃ۔ (تحفۂ اثنا عشریہ ۱۵۹، والحدیث بتمامہ أخرجہ الإمام أحمد في مسندہ ۱؍۱۱۹ رقم: ۹۶۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 جمادی الآخر 1440

رکوع پالینے کی کم از کم مقدار

*رکوع پالینے کی کم از کم مقدار*

سوال :

کیا فرماتے ھیں علماء دین و مفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کے ایک شخص نماز میں اس حال میں شامل ہوا کہ امام رکوع میں تھا اس نے تکبیر تحریمہ کہہ کر جیسے ہی رکوع میں شامل ہوا تو امام نے رکوع سے سر اٹھا لیا اب اس کا رکوع ہوا یا نہیں؟
(المستفتی : محمد اسعد، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر امام کے رکوع سے سر اُٹھانے سے پہلے پہلے مقتدی نے ایک لمحہ بھی امام کو رکوع میں پالیا، خواہ ایک تسبیح سے کم ہوتو وہ اس رکعت کو پانے والا سمجھا جائے گا۔ البتہ اگر امام رکوع سے اٹھنے کی حالت میں ہو اور مقتدی جانے کی حالت میں ہوتو رکوع نہیں ہوا، لہٰذا یہ رکعت شمار نہیں کی جائے گی۔

ولکنہ لم یدرک الرکعۃ حیث لم یدرک في جزء من الرکوع قبل رفع رأسہ منہ۔(مراقي الفلاح : ۲۴۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 جمادی الآخر 1440