بدھ، 27 فروری، 2019

آخری رکعت میں قعدہ چھوٹ جائے تو کیا کرے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ امام صاحب نے عصر کی نماز میں چوتھی رکعت میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہوگئے اور پانچویں رکعت میں بھی بیٹھے نہیں بلکہ چھٹی رکعت مکمل کرکے سجدہ سہو کیا اور پھر نماز کو سلام کے ذریعے پورا کرلیے، اس طرح چھ رکعت اور دو قعدہ بشمول سجدہ سہو ہوئی تو کیا ایسی شکل میں نماز ہوجائے گی یا پھر اعادہ کرنا ہوگا؟ جبکہ مصلیان کا کہنا ہے کہ چھ رکعت ہوئی ہے اس لئے نماز دوہرائی جائے۔ تو بتلائیں عصر کی نماز ہوگئی یا پھر اعادہ ضروری ہے؟ مفصل جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : محمد شرجیل، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں امام صاحب عصر کی نماز میں قعدۂ اخیرہ میں بیٹھے بغیر  پانچویں رکعت کے لئے کھڑے ہوگئے تھے تو ان پر ضروری تھا کہ پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے پہلے انہیں یاد آجاتا تو وہ فوراً قعدہ کی طرف لوٹ آتے اور اخیر میں سجدۂ سہو کرکے نماز درست ہوجاتی۔ لیکن اگر انہوں نے پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا تو فرض باطل ہوگیا، اس صورت میں بہتر یہ ہوتا ہے  کہ چھٹی رکعت بھی ساتھ ملالی جائے، لیکن بطور خاص ملحوظ رہے کہ اس صورت میں فرض ادا نہیں ہوگا، بس اخیر کی دو رکعتیں نفل ہوجائیں گی، البتہ سجدۂ سہو کرنا بہر صورت ضروری ہوگا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عصر کی نماز نہیں ہوئی، اعادہ ضروری ہے۔

نوٹ : قعدۂ اخیرہ فرض ہے۔ لہٰذا جب یہ چھوٹ جائے اور نماز دو رکعت والی ہوتو تیسری رکعت اور چار رکعت والی ہوتو پانچویں رکعت کے سجدہ سے پہلے پہلے یاد آجائے اور قعدہ کرکے اخیر میں سجدۂ سہو کرلیا جائے تو اس غلطی کی تلافی ہوکر نماز درست ہوجائے گی، لیکن اگر سجدہ کرلیا گیا تو پھر تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے، فرض نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔

(ولو سھا عن القعود الأخیر) کلہ أو بعضہ (عاد) ویکفی کون کلا الجلستین قدر التشھد (مالم یقیدھا بسجدۃ) لان مادون الرکعۃ محل الرفض وسجد للسھو لتأخیر القعود، (وإن قیدھا) بسجدۃ عامدا أو ناسیا أو ساھیا او مخطئا (تحول فرضہ نفلاً برفعہ) الجبھۃ عند محمد، وبہ یفتی، لأن تمام الشیٔ بآخرہ، فلو سبقہ الحدث قبل رفعہ توضأ وبنی خلافاً لأبی یوسف، حتی قال: صلاۃ فسدت أصلحھا الحدث والعبرۃ للإمام، حتی لو عاد ولم یعلم بہ القوم حتی سجدوا لم تفسد صلاتھم مالم یتعمدوا السجود۔ وفیہ یلغز: أیّ مصلّ ترک القعود الأخیر وقید الخامسۃ بسجدۃ ولم یبطل فرضہ، (وضم سادسۃ) ولو فی العصر والفجر (إن شاء) لاختصاص الکراھۃ والإتمام بالقصد (ولا یسجد للسھو علی الأصح) لأن النقصان بالفساد لا ینجبر (وإن قعد فی الرابعۃ) مثلاً قدر التشھد (ثم قام عاد وسلم) ولو سلم قائما صح، ثم الاصح أن القوم ینتظرونہ، فإن عاد تبعوہ (وإن سجد للخامسۃ سلموا) لأنہ تم فرضہ، إذ لم یبق علیہ إلا السلام (وضم إلیھا سادسۃ) لو فی العصر، وخامسۃ فی المغرب: ورابعۃ فی الفجر، بہ یفتی (لتصیر الرکعتان لہ نفلا) والضم ھنا آکد، ولا عھدۃ لوقطع، ولا بأس بإتمامہ فی وقت کراھۃ علی المعتمد (وسجد للسھو) فی الصورتین لنقصان فرضہ بتاخیر السلام فی الأولی وترکہ فی الثانیۃ۔ (الدرالمختار، ۸۵تا۸۸/ ۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الآخر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں