ہفتہ، 28 اکتوبر، 2023

عمرہ کے فضائل اور اس کا مفصل طریقہ


سوال :

محترم مفتی صاحب ! عمرہ کا شرعی حکم کیا ہے؟ عمرہ کی کیا فضیلت ہے؟ اور اس کا مفصل طریقہ آسان انداز میں بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کعبۃ اللہ کی زیارت اتنی اہم ہے کہ وہ بھی ایک عبادت ہے اور اس سے بھی اللہ تعالیٰ کا قُرب اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ اسی زیارت کو مخصوص انداز میں کرنا عمرہ کہلاتا ہے۔

عمرہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہر صاحبِ استطاعت یعنی جس کے پاس وہاں آنے جانے، رہنے سہنے کھانے پینے وغیرہ کے خرچ کا نظم ہو اور اس دوران اس کے اہل خانہ کی ضروریات کا بھی انتظام ہو اور اس کی صحت بھی اس سفر کی اجازت دیتی ہوتو ایسے شخص کے لئے زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، فرض یا واجب نہیں۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کیا عمرہ واجب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ واجب نہیں ہے۔ البتہ تم عمرہ کرو کیونکہ عمرہ کرنا افضل ہے۔ (ترمذی)

عمرہ کے متعدد فضائل حدیث شریف میں بیان ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حجِ مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : پے درپے حج وعمرے کیا کرو، بے شک یہ دونوں (حج وعمرہ) فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے وچاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت فرمایا یارسول اللہ! کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ (یعنی عورتوں، بوڑھوں اور کمزوروں کو حج وعمرہ کرنے سے جہاد کا ثواب ملتا ہے)۔ (مسند احمد)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : رمضان المبارک میں عمرہ کرنا ایک حج کے برابر یا میرے ساتھ حج کے برابر ہے۔ (بخاری)

عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر ممکن ہوتو میقات پر، ورنہ گھر یا ایئرپورٹ میں غسل کرکے احرام کی چادریں باندھ لیں، مردوں کے لیے احرام دو بے سِلی ہوئی چادریں ہیں، ایک چادر کو تہبند کے طور پر باندھ لیا جائے اور دوسری کو اوڑھ لیا جائے، اگر تہبند والی چادر کو لنگی کی طرح سِل لیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ عورتوں کے لیے ان کا عام لباس ہی احرام ہے۔ مرد حضرات احرام پہننے کے بعد دونوں کاندھے ڈھانپتے ہوئے دو رکعت نفل ادا کریں، اسی طرح عورتیں بھی دو رکعت نفل ادا کریں گی۔ پھر اگر میقات پر احرام باندھا ہو تو وہیں تلبیہ پڑھ کر عمرہ کی نیت کریں، اور گھر یا اپنے شہر میں غسل کرکے احرام باندھا ہو تو فی الحال نیت نہ کریں، یہاں تک کہ جب جہاز پرواز کرجائے تو میقات آنے سے پہلے عمرے کی نیت کرلیں، عمرہ کی نیت کے لیے یہ الفاظ کہے :”اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أُرِيْدُ الْعُمْرَةَ فَيَسِّرْهَا لِيْ وَتَقَبَّلْهَا مِنِّيْ“ ۔ ترجمہ : اے اللہ میں عمرہ کی نیت کرتا ہوں، آپ اسے آسان فرما دیجیے اور اسے قبول فرما لیجیے۔
نیت کے لیے انہیں الفاظ کا کہنا ضروری نہیں۔ بلکہ صرف دل میں یہ ارادہ کرلیا کہ میں عمرہ کی نیت کرتا ہوں یا زبان سے اردو میں ہی کہہ دیا عمرہ کی نیت کرتا ہوں تو یہ کافی ہوجائے گا۔ عمرہ کی نیت کرنے کے بعد تلبیہ پڑھیں، مرد متوسط بلند آواز کے ساتھ اور عورتیں آہستہ پڑھیں گی۔ تلبیہ کے منقول الفاظ درج ذیل ہیں :
لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ۔ (بخاری شریف ۱؍۲۱۰)
ترجمہ : میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں آپ کا کوئی ساجھی نہیں، میں حاضر ہوں، ہر طرح کا شکر اور سب نعمتیں صرف آپ ہی کے لئے ہیں اور ساری بادشاہی آپ ہی کے اختیار میں ہے، آپ کا کوئی شریک نہیں۔

تلبیہ پڑھ لینے کے بعد اب احرام کی پابندیاں لاگو ہوجائیں گی۔ یعنی مردوں کو خوشبو لگانے، سر ڈھانپنے اور چہرہ پر کپڑا لگانے سے بچنا ہے، اسی طرح عورتوں کو خوشبو لگانے اور چہرے پر کپڑا لگانے سے بچنا ہے، تاہم چہرہ کے پردہ کے لیے انہیں چھجہ جیسا کوئی نقاب استعمال کرنا چاہیے۔ دورانِ سفر مسجد الحرام تک تلبیہ کا ورد کرتے رہیں، البتہ طواف شروع کرنے سے پہلے تلبیہ پڑھنا بند کردیں۔

بیت اللہ میں داخل ہوتے ہوئے اگر فرض نماز کی جماعت کا وقت نہ ہو تو پہلا کام طواف کا ہی کریں، اور طواف باوضو کرنا ضروری ہے۔ مطاف میں داخل ہوتے ہوئے اضطباع یعنی سیدھا کاندھا ننگا کرلیں، طواف حجرِ اسود سے شروع کریں، طواف شروع کرنے سے پہلے نیت کرلیں کہ میں عمرہ کا طواف کرتا ہوں، پھر حجرِ اسود کی سیدھ میں کھڑے ہوکر جیسے نماز میں تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں اسی طرح دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھاکر تکبیر وتہلیل (بسم اللہ اللہ اکبر، لاالٰہ الا اللہ) کہیں، پھر بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر حجرِ اسود کو بوسہ دیں، اگر حجرِ اسود کو بوسہ دینا ممکن نہ ہوتو اسے ہاتھ لگا کر چوم لیں، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتو صرف ہاتھ سے اشارہ کر دیں، آج کل چونکہ حجر اسود پر خوشبو لگی ہوتی ہے، اس لیے احرام کی حالت میں اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ پھر کُل سات چکر کعبۃ اللہ کے لگائیں، پہلے تین چکروں میں ممکن ہوتو رمل کریں، رمل کا مطلب یہ ہے کہ اکڑ کر کاندھے ہلاتے ہوئے کچھ تیزی کے ساتھ قریب قریب قدم رکھتے ہوئے پیر کے اگلے حصہ (یعنی پنجوں) پر چلے۔ رمل صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے نہیں۔ ہر چکر کی کوئی خاص دعا تو نہیں، لیکن آپ چند ایک دعائیں ضرور یاد کر لیں، اور دورانِ طواف اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ تسبیح بیان کریں یعنی سبحان اللہ یا تیسرا کلمہ پڑھتے رہیں، ہر چکر میں رکنِ یمانی کا استلام کریں یعنی صرف دائیں ہاتھ سے رکن یمانی کو چھوئیں، اور اگر چھونے کا موقع نہ ملے تو اور کچھ نہ کریں، کیونکہ رکنِ یمانی سے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر دورانِ طواف اس کے قریب سے گذرا جائے تو دائیں ہاتھ سے اس کا چُھونا مسنون ہے، البتہ حجر اسود کی طرح اسے چومنا یا دور سے اشارہ کرنا مکروہ ہے۔ رکنِ یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان یہ دعا کی قبولیت کا اہم مقام ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں، پس جو شخص طواف کے دوران یہاں سے گذرتے ہوئے یہ دعا پڑھے :

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ الدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃِ، رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
ترجمہ : اے اللہ! میں آپ سے معافی اور دنیا وآخرت میں عافیت کا طلب گار ہوں، اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی سے نوازئے اور آخرت میں بھی بھلائی سے سرفراز فرمائیے، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھئے۔

تو وہ مقررہ ستر فرشتے اس دعا پر آمین کہتے ہیں۔ اس لئے طواف کے ہر چکر میں خصوصاً رکن یمانی پر پہنچ کر مذکورہ دعا (اور اس کے علاوہ جو بھی دعا یاد آجائے وہ) مانگنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ طواف کے ہر چکر میں حجر اسود پر پہنچ کر استلام کریں، ساتویں چکر کے بعد بھی استلام کریں، اس طرح طواف میں آٹھ مرتبہ استلام ہوگا۔ طواف کے دوران کعبۃ اللہ کی طرف منہ کرنا اور دیکھنا مکروہ اور خلافِ ادب ہے، جس طرح نماز کے دوران نمازی کا سجدہ گاہ کی طرف دیکھنا نماز کے آداب میں ہے، اسی طرح طواف کرنے والے کا اپنے سامنے دیکھنا آدابِ طواف میں ہے۔ سات چکروں کے بعد مقامِ ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعتیں نماز واجب الطواف ادا کر لیں، نماز واجب الطواف کا مقام ابراہیم کے پاس پڑھنا ضروری نہیں ہے، لہٰذا اگر بھیڑ یا پھر کسی اور وجہ سے یہاں نماز نہ پڑھ سکیں تو کوئی حرج نہیں۔ کہیں بھی یہ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ نماز کے بعد آبِ زم زم خوب سیر ہو کر پئیں، حدیث شریف میں آیا ہے کہ زمزم کا پانی جس مقصد سے بھی پیا جائے گا اللہ تعالیٰ وہ مقصد پورا فرمائے گا، اس لئے جائز مرادیں ذہن میں رکھ کر خوب جی بھر کر زمزم پئیں۔ اس موقع پر درج ذیل دعا اہتمام فرمالیں :
اللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ عِلْماً نَافِعاً وَرِزْقاً وَاسِعاً وَشِفَاء اً مِّنْ کِلِّ دَائٍ۔
ترجمہ : اے اللہ ! میں آپ سے نفع بخش علم، اور کشادہ روزی اور ہر طرح کے مرض سے شفاکا طلب گار ہوں۔ (ارواء الغلیل)

اس کے بعد ممکن ہو تو ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں، آج کل یہاں بھی خوشبو لگی ہوئی ہوتی ہے، اس لیے ملتزم سے چمٹے بغیر اس کی سیدھ میں کھڑے ہوکر دعا مانگ لیں۔ پھر حجر اسود کا استلام کرکے سعی کرنے کے لیے صفا کا رُخ کریں اور صفا کے قریب پہنچ کر یہ کہیں :
’’ أبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بِہ، إنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ۔ (یعنی میں بھی اپنی سعی اسی مقام سے شروع کرتا ہوں جسے اللہ نے اپنے ارشاد (ان الصفا والمروۃ) میں اول رکھا ہے، (یعنی صفا سے) اس کے بعد صفا پہاڑی پر اتنا چڑھے کہ بیت اللہ شریف نظر آنے لگے، پھر سعی کی نیت کریں، (سعی باوضو کرنا افضل ہے) اور بیت اللہ شریف کی طرف رُخ کرکے اپنے دونوں ہاتھ دعا کی طرح کندھوں تک اٹھاکر، اللہ اکبر اور کلمہ طیبہ پڑھے اور خوب دعائیں مانگے، یہ بھی قبولیتِ دعا کا مقام ہے۔
نبی کریم ﷺ نے صفا پر چڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل کلمات پڑھے تھے، آپ بھی ان کو پڑھ لیں :
’’ لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ، وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، أَنْجَزَ وَعْدَہ، وَ نَصَرَ عَبْدَہ، وَ ہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہ ۔‘‘
دعا کے بعد مروہ کی طرف چلنا شروع کردیں، خاموش رہیں تو بھی جائز ہے، مگر دل وزبان کو اللہ کے ذکر اور دعا میں مشغول رکھنا ہی بہتر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ ایک مختصر دعا ہے،آپ بھی سعی کے دوران اس دعا کا کثرت سے ورد رکھیں : ’’ رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَنْ مَّا تَعْلَمُ، إِنَّکَ أَنْتَ الْأَعَزُّ الْأَکْرَمُ۔‘‘
جب سعی کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان وادی کے اُس حصہ میں پہنچیں جہاں اُوپر چھت میں ہری لائٹیں بطور نشان لگی ہوئی ہیں، تو دوڑنے کے انداز میں چلنے کی رفتار تیز کردیں اور جہاں تک وہ ہری لائٹیں لگی ہوئی ہیں اسی طرح دوڑنے کے انداز میں تیز رفتاری سے چلتے رہیں، ہر چکر میں ایسا ہی کریں (دوڑنا صرف مردوں کے لیے مسنون ہے، عورتیں اس حصہ میں بھی معمولی رفتار ہی سے چلیں گی) ہری لائٹوں والا حصہ ختم ہوجانے کے بعد معمولی رفتار سے چلتے ہوئے مروہ پر پہنچ جائیں۔ مروہ پر پہنچ کر قبلہ رُو ہوکر دعا مانگیں، یہ سعی کا ایک چکر ہوگیا، پھر یہاں سے صفا پر پہنچیں گے تو دوسرا چکر ہوجائے گا، اس طرح سات چکر سعی کریں، ساتواں چکر مروہ پر ختم ہوگا۔ ہر دفعہ کی طرح اب بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کرلیں۔ آپ کی سعی مکمل ہوگئی۔

سعی کرنے کے بعد عورتیں ایک پور کے برابر بالوں کو کٹوالیں اور مرد حضرات کے لیے حلق کروانا افضل ہے، اور قصر یعنی ایک پور کے برابر بال کٹوانے کی بھی اجازت ہے، حلق یا قصر کے بعد احرام کھول دیں۔ الحمدللہ آپ کا عمرہ مکمل ہوا، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین

عمرہ سے فراغت کے بعد آپ چونکہ مکی شخص کے حکم میں ہوں گے اور مکی شخص کا میقات عمرہ کے لیے حِل ہے، لہٰذا آپ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران دوبارہ عمرہ کرنا چاہتے ہوں تو حدودِ حرم سے باہر نکل کر حِل مثلاً تنعیم (مسجد عائشہ) اور جعرانہ  سے احرام باندھیں۔ البتہ اگر میقات سے باہر جانا ہو، یا مکہ سے مدینہ منورہ جائیں اور دوبارہ مکہ مکرمہ آنا ہو تو میقات مثلاً اہلِ مدینہ کی میقات بئر علی/ ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کر آنا ہوگا، اسی طرح طائف جاکر آنے والوں کی میقات "قرن المنازل" ہے، آج کل طائف سے مکہ مکرمہ  آنے کے دو راستے ہیں، ایک راستے میں "السیل الکبیر یا السیل الصغیر"  اور دوسرے راستے میں ''ہدا'' نامی علاقہ میقات کہلاتا ہے۔

عمرہ سے متعلق مزید اہم مسائل کی لنک ہم نے یہاں چسپاں کردی ہے، لہٰذا آپ درج ذیل عنوانات پر کلک کرکے اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

احرام کی حالت میں سلی ہوئی لنگی پہننا

کعبہ پر پہلی نظر کے وقت دعا کا قبول ہونا

حائضہ عورت کے احرام اور عمرہ کا مسئلہ

حالتِ احرام میں کنگھی کرنا اور تولیہ سے چہرا اور بالوں کا پونچھنا

احرام کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ/پاؤڈر استعمال کرنا

حالتِ احرام میں سلا ہوا کپڑا پہننے کا حکم

میقات سے بغیر احرام کے گذرنا

دوسروں کی طرف سے عمرہ کرنے کا حکم اور اس کا طریقہ

رکنِ عراقی، شامی اور یمانی کے متعلق احکام

نماز واجب الطواف کہاں ادا کرے؟

سعی صفا کے بجائے مروہ سے شروع کرنا

عمرہ کے لیے طواف وداع کا حکم

مُحرِم کا خود اپنا اور دوسروں کا بال کاٹنا

خواتین کے قصر کا طریقہ

حج یا عمرہ کے بعد مشین سے بال کاٹنا

حج یا عمرہ میں حلق کے بجائے قصر کرانے کا حکم

سر پر بال نہ ہوں تو حلق کا مسئلہ

مکہ مکرمہ میں مقیم کا مسجدِ عائشہ سے عمرہ کرنا

عمرہ افضل یا طواف؟

روضہ اقدس پر دوسرے کی طرف سے سلام پہنچانا

ریاض الجنہ میں نماز پڑھنے کی فضیلت

مسجد نبوی میں چالیس نماز ادا کرنے کا ثواب؟

وہی فی الشرع زیارۃ مخصوصۃ بالبیت بافعال مخصوصۃ۔ (البحر العمیق : ۴؍۲۰۱۰)

وہی فی العمر مرۃ سنۃ مؤکدۃ لمن استطاع ہو المذہب۔ (غنیۃ الناسک : ۱۹۶، ومثلہ فی البحر العمیق ۴؍۲۰۱۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 ربیع الآخر 1445

جمعرات، 26 اکتوبر، 2023

نام نہاد قادری اور پیرانِ پیر


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ایک نام نہاد قادری، نیز انہیں جیسے چند اور علم سے پیدل مقررین کی پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات سے متعلق ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر وائرل رہتی ہے، جن میں ایسے عجیب وغریب اور من گھڑت واقعات ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کوئی مافوق الفطرت شخصیت تھے۔ یا ان کا مرتبہ تمام انسانوں بلکہ معاذ اللہ انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ کیونکہ چاند نکلنے سے پہلے ان سے پوچھتا ہے کب نکلنا ہے؟ ان کا نام ناپاکی میں کوئی لے لے تو پہلے مرجاتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے درخواست کی کہ عبدالقادر میری امت پر رحم کرو۔ تو جواباً کہا گیا کہ ٹھیک ہے۔ اب نہیں مریں گے۔ لیکن اتنا نقصان تو ضرور ہوگا کہ کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام ناپاکی کی حالت میں لے گا تو اس کا کم از کم ایک بال ضرور ٹوٹ جائے گا۔

اب آپ ہی غور کریں کہ انبیاء کرام علیہم السلام، خاتم الانبياء والمرسلين صلی اللہ علیہ و سلم یہاں تک کہ اللہ جل شانہ کا نام ناپاکی کی حالت میں لینے سے کوئی نہیں مرتا، لیکن شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام کوئی ناپاکی کی حالت میں لے لے تو وہ مرجاتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان سے درخواست کرنا پڑتا ہے کہ امت پر رحم کرو، پھر جاکر اس میں رعایت کی گئی، اور یہ طے پایا کہ ٹھیک ہے اب کوئی مرے گا نہیں، لیکن اس کا ایک بال ضرور ٹوٹ جائے گا۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور اللہ تعالیٰ کا نام کوئی ناپاکی میں لے لے تو اس کا کوئی بال نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ ایسی کوئی بات قرآن وحدیث میں آئی ہی نہیں ہے۔

یہی نام نہاد قادری صاحب کہتے ہیں کہ حضرت عبدالقادر جیلانی نے بچپن میں ان کی والدہ پر بری نظر ڈالنے والے بھکاری کو وہ شیر بن کر چیر پھاڑ دیتے ہیں۔

ایک صاحب کہتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے قبر میں سوال کرنے کے لیے آنے والے فرشتوں کی کلاس لے لی، اور تمام فرشتوں کو جمع کرکے اس شرط پر چھوڑا کہ وہ کسی بھی قادری سلسلہ والے کو سوال پوچھ پوچھ کر پریشان نہیں کریں گے۔ گویا قادری سلسلہ والوں کو بغیر سوال جواب کے جنت داخل کردیا جائے گا۔

ایک صاحب کہتے ہیں کہ آپ بچپن میں کھیلتے کھیلتے چاند میں چلے جاتے تھے، یعنی چاند کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے تھے۔

ایک اور صاحب کہتے ہیں کہ بچپن میں آپ سورج میں داخل ہوجاتے تھے، اور پھر خود حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کہتے ہیں کہ وہ بچپن کی بات ہے، اب تو میں جوان ہوں، اب ایسے ستر ہزار سورج عبدالقادر کے سینے میں سما سکتے ہیں۔

ہمارا ان جاہل اور نام نہاد قادریوں سے سوال ہے کہ اس طرح کی من گھڑت، جھوٹی اور مضحکہ خیز کرامات کو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرکے آپ عوام کو کیا بتانا چاہتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی طرف من گھڑت کرامات منسوب کرکے بھولی بھالی عوام کو مرعوب اور متاثر کرکے قادری سلسلہ میں آپ اپنے مریدین کی تعداد بڑھا کر اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس طرح کی مضحکہ خیز کرامات سننے کے بعد کوئی غیرمسلم اسلام سے متاثر ہوسکتا ہے؟ وہ تو یہی کہے گا یہ لوگ تو ہم سے بھی دو جوتا آگے ہیں۔ اس طرح کی من گھڑت اور مضحکہ خیز کرامات سناکر آپ لاعلم اور بھولی بھالی عوام کو تو متاثر کرسکتے ہیں، لیکن اصلاً آپ اسلام کو نقصان پہنچانے اور اپنی آخرت برباد کرنے کا کام کررہے ہو۔ ہم تو دعوی کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ بروزِ حشر ان دین فروش واعظوں کو فرشتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے خود شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ بھی ان کے سروں پر ایسا گرز ماریں گے کہ ان کا خرافاتی دماغ پاش پاش ہوجائے گا۔

ایسی ہی ساری من گھڑت کرامات سن کر عوام کا ایک طبقہ جن کا علمی لیول کچھ بھی نہیں ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاذ اللہ حضرت عبدالقادر جیلانی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کے کوئی بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، اور یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے سوالات علماء اور تبلیغی جماعت کے ساتھیوں سے ہوئے ہیں۔

معزز قارئین ! شیخ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ چھٹی صدی ہجری کے ایک متقی، پرہیزگار، علم وعمل میں یکتائے روزگار، صاحب نسبت بزرگ گزرے ہیں۔ لہٰذا عوام الناس کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، نہ کسی کو دھوکہ دیا نہ کبھی نماز جیسی اہم اور فرض عبادت ترک فرمائی۔ لیکن قصہ گو واعظین نے عوام کے ذہن میں بٹھا دیا ہے کہ بس تم "یا غوث الاعظم" کے نعرے مارے جاؤ تمہاری ہر مراد پوری ہوگی، کیا کبھی نماز پڑھنے کا ایسا ذہن بنایا؟کبھی یہ بتایا کہ کسی کے ساتھ دھوکہ دہی کا معاملہ کرنا کیسا قبیح و شنیع فعل ہے؟کبھی یہ باور کرایا کسی کی دل آزاری کیسا جرمِ عظیم ہے؟ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی کرنے پر کیا وعیدیں ہیں؟ بدنظری اور بے حیائی پر کون سی سزائیں ملیں گی؟ اگر اسٹیج سے ان کی کرامات وہ بھی من گھڑت کرامات سنانے کے بجائے، آپ کی عبادت، ریاضت، شوقِ علمِ دین، اس راہ میں آنے والی سختیاں، مصائب، تنگیوں کا تذکرہ کیا جائے اور ہم ان پر عمل کرنے والے بنیں تب ہی ہم سچے قادری کہلائے جائیں گے۔ ورنہ ان دین فروش خطیبوں نے عوام کو ان جھوٹی کرامات سنا سنا کر ان کا ایسا ذہن بنادیا ہے کہ تم جو چاہے کرو لیکن پیرانِ پیر قدم نہیں ہٹائیں گے جب تم سب کو داخلِ جنت نہ کرالیں۔ اور اسے یہی کہا جائے گا کہ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ جس کا علم مرنے کے بعد اٹھائے جانے کے بعد ہی ہوگا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن وحدیث اور سلف صالحین کی پیروی کرنے اور ان سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

اتوار، 22 اکتوبر، 2023

بینک کی نیلامی والی اشیاء خریدنے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر کوئی آدمی بینک کے ذریعے کوئی چیز مثلاً گاڑی یا مکان وغیرہ خریدتا ہے اور پھر اس کی مکمل قیمت ادا نہیں کرپاتا تو بینک وہ چیز ضبط کرلیتی ہے، اسی طرح بینک میں زیورات رکھ کر قرض لیا جاتا ہے اور پھر اس کی ادائیگی نہیں کی جاتی ہے تو بینک ان چیزوں کی نیلامی کرکے اپنی بقیہ رقم اس سے وصول کرلیتی ہے تو کیا ایسی چیزوں کا خریدنا ہمارے لیے جائز ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : ظہیر احمد، بمبئی)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص بینک کے ذریعے قسطوں پر گاڑی یا مکان وغیرہ خریدے، پھر وہ کچھ قسطیں ادا کرنے کے بعد بقیہ قسطیں نہ بھر سکے، جس کی وجہ سے بینک مکان یا گاڑی وغیرہ اُس شخص سے ضبط کرلے، تو اگر بینک کا یہ تصرُّف حکومت کی تائید وتوثیق سے ہے، تو بینک سے اس طرح کی ضبط کردہ گاڑی یا مکان کو خریدنے کی اگرچہ گنجائش ہے اور اس سے خریدنے والے کی ملکیت بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ تاہم اس سے بچنا بہتر ہے۔

اسی طرح بینک میں رہن رکھے ہوئے زیورات کی نیلامی میں ان کا خریدنا جائز ہے، دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :
مسئولہ صورت میں اگر لوگ بینک سے قرض لے کر اپنا زیور بینک میں رہن کے طور پر رکھتے ہیں اور شروع میں یہ معاہدہ طے ہوجاتا ہے کہ اگر میں فلاں تاریخ تک روپیہ (قرض) ادا نہ کروں تو شئ مرہون (زیور) کو فروخت کرکے اپنا قرض وصول کرسکتے ہیں تو اس صورت میں بینک والے مقررہ وقت پر قرض وصول نہ ہونے کی صورت میں بولی لگاکر اس زیور کو بیچ کر اپنا قرض وصول کرسکتے ہیں اور لوگ ان سے خرید بھی سکتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 57178)

قَوْله تَعَالَى : (للْفُقَرَاء الْمُهَاجِرين الَّذين أخرجُوا من دِيَارهمْ) الْآيَة فَإِنَّهُ سيق لبَيَان اسْتِحْقَاق الْغَنِيمَة فَصَارَ نصا فِي ذَلِك وَقد ثَبت فَقرهمْ بنظم النَّص فَكَانَ إِشَارَة إِلَى أَن اسْتِيلَاء الْكَافِر على مَال الْمُسلم سَبَب لثُبُوت الْملك للْكَافِرِ إِذْ لَو كَانَت الْأَمْوَال بَاقِيَة على ملكهم لَا يثبت فَقرهمْ، وَيخرج مِنْهُ الحكم فِي مَسْأَلَة الِاسْتِيلَاء وَحكم ثُبُوت الْملك للتاجر بِالشِّرَاءِ مِنْهُم وتصرفاته من البيع وَالْهِبَة وَالْإِعْتَاق، وَحكم ثُبُوت الاستغنام وَثُبُوت الْملك للغازي وَعجز الْمَالِك عَن انْتِزَاعه من يَده وتفريعاته۔ (اصول الشاشی : ١/١٠١)

فَالأَْصْل بِالنِّسْبَةِ لِلْمَال الْمَعْصُومِ الْمَمْلُوكِ لِلْغَيْرِ أَنَّ الاِسْتِيلاَءَ عَلَيْهِ مُحَرَّمٌ، إِلاَّ إِذَا كَانَ مُسْتَنِدًا إِلَى طَرِيقٍ مَشْرُوعٍ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤/١٥٨)

كُلٌّ يَتَصَرَّفُ فِي مِلْكِهِ كَيْفَ مَا شَاءَ۔ (درر الاحکام : ٣/١٠١)

سلطة ببيع الرهن ومات للمرتهن بيعه بلا محضر وارثه۔ (در مختار : ٢٨٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ربیع الآخر 1445