پیر، 16 اکتوبر، 2023

قضیہ فلسطین اور ہماری ذمہ داریاں

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی
   (امام و خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! فلسطین روئے زمین کا ایسا حصہ ہے جو تاریخی، جغرافیائی، اور مذہبی ہر اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مادی اور روحانی برکات سے مالا مال فرمایا ہے۔ اور اس کا ذکر خود قرآن کریم میں فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۔ (سورۃ الاسراء، آیت : ١)
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے،تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔

مذہبی اور روحانی لحاظ سے مالا مال ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ متعدد جلیل القدر انبیاء اس سر زمین میں مبعوث ہوئے اور یہیں مدفون بھی ہوئے، یا پھر کسی نہ کسی درجہ میں ان کا تعلق اس سر زمین سے رہا۔ جن میں حضرت صالح علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت عیسٰی علیہ السلام وغیرہ ہیں۔

پھر ہمارے اور آپ کے آقا خاتم الانبیا والمرسلين صلی اللہ علیہ و سلم معراج کے موقع پر مکہ مکرمہ سے مسجد اقصی تشریف لے گئے پھر وہاں سے آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی، واپسی میں بھی آپ مسجد اقصی تشریف لائے پھر وہاں سے مکہ مکرمہ واپس ہوئے۔ اسی سفر میں مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز کا تحفہ ملا، اسی سفر سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد اقصی میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی۔

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قریش مجھ سے میرے معراج پر جانے کے بارے میں سوال کر رہے تھے تو قریش نے مجھ سے بیت المقدس کی چند ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھا جن کو میں دوسری اہم چیزوں میں مشغولیت کے باعث محفوظ نہ رکھ سکا تھا، مجھے اس کا اتنا زیادہ افسوس ہوا کہ اتنا اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کے درمیان پردے اٹھا کر میرے سامنے کردیا میں نے اسے دیکھ کر جس کے بارے میں سوال کرتے وہ انہیں بتلا دیتا۔ (مسلم)

نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سرزمین اور مسجد اقصی کے بڑے فضائل بھی بیان فرمائے ہیں جو درج ذیل ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جب سلیمان بن داؤد علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں ایسے فیصلے جو اللہ کے فیصلہ کے مطابق ہوں اور ایسی شاہی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملے اور یہ کہ اس مسجد میں جو بھی صرف اور صرف نماز کے ارادے سے آئے تو وہ اس مسجد سے اس طرح گناہوں سے پاک ہو کر نکلے جس طرح پیدائش کے دن تھا۔ نبی نے فرمایا کہ دو تو ان کو مل گئیں، تیسری کی بھی مجھے امید ہے کہ مل گئی ہوگی۔ (ابن ماجہ)

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ہمیں بیت المقدس کے متعلق کچھ بتائیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : وہ اٹھائے جانے اور جمع کئے جانے کا علاقہ ہے، تم وہاں جا کر اس میں نماز پڑھا کرو، کیونکہ بیت المقدس میں ایک نماز پڑھنا دوسری جگہوں پر ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، انہوں نے عرض کیا کہ بتایئے کہ اگر کسی آدمی میں وہاں جانے کی طاقت نہ ہو، وہ کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اسے چاہئے کہ زیتون کا تیل بھیج دے جو وہاں چراغوں میں جلایا جائے ، کیونکہ اس کی طرف ہدیہ بھیجنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے اس میں نماز پڑھی ہو۔ (مسند احمد)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تین مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ کے لئے سفر نہ کرو، مسجد حرام، مسجد اقصی، (یعنی بیت المقدس اور مسجد نبوی۔(متفق علیہ)

معزز قارئین ! سر زمین فلسطین نے زمانے کے اتنے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں جو کم ہی علاقوں میں دیکھنے میں آتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کے وقت سے یہ علاقہ آباد تھا لیکن درحقیقت یہ اس سے بھی بہت پہلے قدیم انسانی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ جب یہاں حضرت داؤد و حضرت سلیمان علیہما السلام کی حکومت تھی تو یہ بنی اسرائیل کےعروج کا زمانہ تھا۔ ان بر گزیدہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد یہودیوں کی نافرمانیوں کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان پر مختلف فاتح بادشاہوں کو مسلّط کیا، جنہوں نے ان کو عبرتناک طریقے سے قتل کیا، غلام بنایا اور باقی ماندہ کو یہاں سے جلا وطن کردیا۔ کسی قوم کی ایسی اجتماعی رسوائی اور وطن سے محرومی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔قرآن مجید کے مطابق یہ درحقیقت عذاب الٰہی تھا جو اس کم فطرت اور نافرمان قوم کی شرارتوں پر ان پر بھیجا گیا تھا۔ اس سلسلے میں تاریخ کے صفحات ہمیں عراق کے بخت نصر اور روم کے ٹائٹس کے نام بتاتے ہیں جنہوں نے یہودیوں کو رسوا کن طریقے سے دربدر کیا۔ عراق، فارس اور روم کے کئی اور بادشاہ یہودیوں کی بداعمالی کی سزا کے طور پر انہیں مارتے، کاٹتے اور جلا وطن کرتے رہے، اخیر میں جرمنی کے حکمراں ہٹلر نے بھی یہودیوں کو بڑی تعداد میں کھدیڑا اور ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ بھی اتار دیا۔

یہودی قوم چونکہ انتہائی مکار اور سازشی قوم ہے، چنانچہ انہوں نے اپنے دو سو سالہ منصوبہ کے تحت کام کرتے ہوئے دیگر یورپی ممالک اور عیسائیوں کی مدد سے ارض فلسطین میں ہی اپنی ایک آزاد ریاست کی بنیاد رکھ دی جسے اقوام متحدہ میں 1949 میں منظوری بھی مل گئی۔ چنانچہ تقریباً پچہتر سالوں سے ناجائز قبضہ اور دنیا کا سب سے بڑا اتی کرمن کرنے والے یہودیوں اور اپنے حق اور مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے لڑنے والے مظلوم فلسطینیوں کے درمیان آئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، جو بعض مرتبہ بڑی خونریز جنگ کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ فی الحال اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک بار پھر بڑی خون آشام جنگ جاری ہے۔

اس سلسلے میں ہمارا بالکل صاف، واضح اور دو ٹوک موقف یہی ہے کہ فلسطینی مسلمان مظلوم ہیں، ان کی زمینیں بھی چھینی گئی ہے اور انہیں ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان بھی یہودیوں کی طرف سے پہنچایا گیا ہے اور پہنچایا جارہا ہے۔ لہٰذا ہم مظلومین کے ساتھ ہیں، اور یہ ہمارے ایمانی بھائی ہیں اس وجہ سے بھی ہمیں ان سے ہمدردی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ سر زمین انبیاء کرام علیہم السلام کا وطن اور مدفن ہے، یہاں مسجد اقصی ہے جو ہمارا قبلہ اول اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے بعد تیسرا سب سے مقدس اور محترم مقام ہے، اور ہم کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ہمارا یہ مقدس اور محترم مقام کسی غیرمسلم اور دشمنِ اسلام کے قبضہ میں ہو، لہٰذا ہم بوقتِ ضرورت اور بقدرِ استطاعت تن، من، دھن کے ساتھ مظلوم مسلمانوں کے ساتھ تھے، ہیں، اور ان شاء اللہ رہیں گے۔

محترم قارئین ! ایسے حالات میں ہمارے کرنے کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے توبہ کریں، اور گناہوں سے بالکل دور ہوجائیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جان جان کر ادا کریں، اور پھر دعاؤں کا اہتمام کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ناراضگی کے ساتھ دعائیں قبول نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ خام خیالی میں بالکل نہ رہیں کہ ہماری زندگی گناہوں سے اٹی ہوئی ہوگی اور ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے دعا کریں گے یا وظائف کا اہتمام کریں گے، یا اس کی دعوت سوشل میڈیا پر چلائیں گے اور فتح وکامرانی ان کا قدم چوم لے گی۔ ہم سب کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اگر وہ اپنی جان مال کے ساتھ اپنی زمین اور مسجد اقصی کی بازیابی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تو ہم بھی اپنے نفس کو مار کر گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے ان کے لیے دعا کریں، تب ہی ہماری دعا مؤثر اور مفید ہوگی۔

اسی کے ساتھ ہم حتی الامکان ان اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کری‍ں جو ہمارے لیے ضروری نہیں ہیں۔ یا پھر ان کا بدل ہمارے پاس موجود ہے، کیونکہ جنگ کی ایک اہم حکمتِ عملی یہ بھی ہے کہ دشمن کو مالی طور پر نقصان پہنچایا جائے۔

اسی طرح دن رات سوشل میڈیا پر بیٹھ کر فلسطین و اسرائیل کی خبروں کو شیئر نہ کریں۔ اس لیے کہ بہت سی خبریں بلاشبہ جھوٹی یا پھر پرانی ہوتی ہے۔ اور نہ ہی اس موضوع پر کماحقہ علم کے بغیر مباحثہ کیا جائے۔ کیونکہ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ جن کو اپنے گھر اور گلی محلے کی خبر نہیں ہے وہ اپنے حق کے لیے لڑنے والی تنظیموں پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ فلاں ملک اور تنظیم کو ایسا کرنا چاہیے تھا اور فلاں ملک اور تنظیم کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایسے لوگوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کے ان تبصروں سے کسی کو کوئی رتی برابر فرق پڑنے والا نہیں ہے، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح کی بحثوں میں آپ کسی ملک یا تنظیم پر بہتان لگاکر اپنے اوقات کے ساتھ اپنی آخرت بھی برباد کرلو۔ فلسطینی مسلمانوں کی تیسری نسل جنگ کے حالات میں پلی بڑھی ہے، انہیں اور ان کی حامی تنظیموں کو ہم سے بہتر سمجھتا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟ کیا نہیں کرنا ہے؟

امید ہے کہ قارئین تمام باتوں پر غور کرکے اس پر عمل کریں گے اور بقدر استطاعت فلسطینی مسلمانوں کی حمایت داد رسی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کی حفاظت فرمائے، مسجد اقصی کی بازیابی کے فیصلے فرمائے، ظالموں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچنے کے فیصلے فرمائے، پورے عالم کے مسلمانوں کو اس سلسلے میں بقدر استطاعت اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا مجیب المضطرین

5 تبصرے:

  1. بر وقت رہنمائی ،اللہ جزائے خیر عطا فرمائے اور ہمیں عمل کی توفیق

    جواب دیںحذف کریں
  2. ما شاءاللہ بہت قیمتی باتیں بیان کی گئ اور بہترین رہنمائ فرمائ جزاکاللہ خیرا واحسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں