پیر، 9 اکتوبر، 2023

سجدہ تعظیمی کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا شریعت میں اپنے شیخ کو سجدۂ تعظیمی کے لیے کوئی گنجائش ہے؟ اگر نہیں تو ایسے سجدہ کرنے اور کروانے والے کے لیے کیا وعیدیں ہیں؟ اور ایسے شخص کا ایمان باقی رہے گا یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مدثر حسین، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سجدۂ تعظیمی اور سجدۂ عبادت ایک چیز ہے، اور سجدہ تحیۃ دوسرا ہے۔ سجدۂ تعظیم اور سجدۂ عبادت غیر اللہ کے لئے موجب کفر ہے۔ کیونکہ غیر اللہ کی تعظیم سجدہ کے ساتھ کرنا اور اس کی عبادت سجدہ کے ساتھ کرنا دونوں کا مفاد ایک ہے، ہاں سجدہ تحیۃ میں مقصد جداگانہ ہوتا ہے۔ تحیت کے معنی یہ ہیں کہ اپنے ملنے والے کو ملاقات کے وقت کوئی ایسا لفظ کہنا یا ایسا کام کرنا جو تہذیب ملاقات اور ملنے والے کی خوشنودی کا باعث ہو تحیۃ کہلاتا ہے۔ تحیۃ کے لئے ضروری نہیں کہ ملنے والا بڑا ہو بلکہ برابر درجے والے اور چھوٹے بڑے سب تحیۃ کے مستحق ہوتے ہیں۔ اور تحیۃ کا معاملہ سب کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے صاحبزادوں کا سجدہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے سجدہ تعظیم نہ تھا بلکہ سجدہ تحیۃ تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں ملاقات کے وقت تحیۃ کا یہ طریقہ رائج اور شریعت حاضرہ میں جائز تھا۔ قرآن پاک میں ملائکہ کا سجدہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی تحیۃً تھا۔ یہ دونوں سجدے (فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ اور حضرت یعقوب علیہ السلام اور بھائیوں یا صرف بھائیوں کا سجدہ حضرت یوسف علیہ اسلام کو) سجدہ تحیۃ تھے۔ اور جائز تھے۔ اور شرائع سابقہ کے احکام جو قرآن پاک یا حدیث میں نقل کئے جائیں شریعت محمدیہ علی صاحبہ االصلوٰۃ والسلام میں اُس وقت حجت اور قابلِ عمل ہوتے ہیں، جب شریعتِ محمدیہ میں ان کے خلاف احکام موجود نہ ہوں۔ اگر شریعتِ محمدیہ میں ان کے خلاف احکام موجود ہوں تو شرائع ماقبل کے احکام حجت نہیں ہوتے۔ (کفایت المفتی : ١/٢٧٢)

اب شریعتِ محمدیہ کا حکم یہ ہے کہ سجدۂ تعظیمی یعنی سجدۂ عبادت غیر اللہ کے لئے کفر ہے، اور سجدۂ تحیۃ غیراللہ کے لئے حرام ہے۔ لہٰذا اگر کسی مرید نے اپنے پیر کو سجدۂ تعظیمی کیا ہے جو اصل میں سجدۂ عبادت ہی ہے تو اس پر کفر کا حکم ہے اور اگر پیر بھی اس پر راضی ہے تو اس پر بھی یہی حکم لاگو ہوگا۔ جس کی وجہ سے ان دونوں پر تجدیدِ ایمان ونکاح لازم آئے گا۔ اور اگر سجدۂ تحیہ ہے اور دونوں اس پر راضی ہیں تو ان پر کفر کا حکم تو نہیں ہے، البتہ دونوں ناجائز اور حرام کام کے مرتکب ہوئے ہیں، لہٰذا ان دونوں پر توبہ و استغفار لازم ہے۔

اخْتَلَفُوا فِي سُجُودِ الْمَلَائِكَةِ قِيلَ : كَانَ لِلَّهِ تَعَالَى وَالتَّوَجُّهُ إلَى آدَمَ لِلتَّشْرِيفِ، وَقِيلَ : بَلْ لِآدَمَ عَلَى وَجْهِ التَّحِيَّةِ وَالْإِكْرَامِ ثُمَّ نُسِخَ بِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «لَوْ أَمَرْت أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْت الْمِرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا» تَتَارْخَانِيَّةٌ قَالَ فِي تَبْيِينِ الْمَحَارِمِ، وَالصَّحِيحُ الثَّانِي وَلَمْ يَكُنْ عِبَادَةً لَهُ بَلْ تَحِيَّةً وَإِكْرَامًا۔ (شامی : ٦/٣٨٣)

(وَكَذَا) مَا يَفْعَلُونَهُ مِنْ (تَقْبِيلِ الْأَرْضِ بَيْنَ يَدَيْ الْعُلَمَاءِ) وَالْعُظَمَاءِ فَحَرَامٌ وَالْفَاعِلُ وَالرَّاضِي بِهِ آثِمَانِ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ عِبَادَةَ الْوَثَنِ وَهَلْ يَكْفُرَانِ: عَلَى وَجْهِ الْعِبَادَةِ وَالتَّعْظِيمِ كُفْرٌ وَإِنْ عَلَى وَجْهِ التَّحِيَّةِ لَا وَصَارَ آثِمًا مُرْتَكِبًا لِلْكَبِيرَةِ، وفی الشامی : وَذَكَرَ الصَّدْرُ الشَّهِيدُ أَنَّهُ لَا يَكْفُرُ بِهَذَا السُّجُودِ، لِأَنَّهُ يُرِيدُ بِهِ التَّحِيَّةَ وَقَالَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ السَّرَخْسِيُّ: إنْ كَانَ لِغَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى عَلَى وَجْهِ التَّعْظِيمِ كَفَرَ اهـ قَالَ الْقُهُسْتَانِيُّ: وَفِي الظَّهِيرِيَّةِ يَكْفُرُ بِالسَّجْدَةِ مُطْلَقًا۔ (شامی : ٦/٣٨٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الاول 1445

1 تبصرہ: