منگل، 31 مارچ، 2020

گلیوں کو بند کرنے والے خدارا باز آجائیں

*گلیوں کو بند کرنے والے خدارا باز آجائیں*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! مذہب اسلام ایک ایسے سماج اور معاشرے کا تقاضہ کرتا ہے جس میں مسلمان آپس میں اخوت، محبت، ہمدردی، غمخواری اور حسنِ سلوک کے ساتھ رہیں۔ ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان، حتی کہ غیرمسلم کو بھی کوئی ایذا اور تکلیف نہ پہنچے۔ بلکہ احادیث مبارکہ میں تو یہاں تک تعلیم دی گئی ہے کہ راستے میں اگر کوئی تکلیف دِہ چیز پڑی ہو تو اس کو ہٹا دیا جائے، جسے صدقہ اور ایمان کا حصہ تک کہا گیا ہے۔ (بخاری ومسلم)

ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان منقول ہے کہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔ (مسلم)

ایک جگہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے کوئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے کہ کانٹوں بھری ٹہنی کو ہٹایا جو راستے پر تھی، یا درخت پر تو اس عمل پر اللہ نے اسے جنت میں داخل کردیا۔(ابوداؤد)

ذکر کردہ احادیث سے معلوم ہوا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹادینا کوئی عام نیکی نہیں ہے، بلکہ یہ ایسا عظیم کارِ خیر ہے جو آدمی کی مغفرت کے لیے بھی کافی ہوسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ احادیث میں اس پر وعید بھی سنائی گئی ہے کہ کوئی مسلمان دوسروں کے لیے ایذا اور تکلیف کا سبب بنے۔ ذیل میں اس مضمون کی چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن سے ایذائے مسلم و ایذائے ناس جیسے گناہ کی سنگینی کا وضاحت کے ساتھ علم ہوجائے گا۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذاء) سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے کہ جس سے لوگ اپنے جان و مال کا اطمینان رکھیں۔ (سنن نسائی)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : اے لوگو! جو محض زبان سے ایمان لائے اور یہ ایمان دل تک نہیں پہنچا، مسلمانوں کو تکلیف مت دو ،جو اپنے بھائی کی عزت کے درپے ہوگا تو اللہ اس کے درپے ہوگا اور اسے ذلیل کردے گا، خواہ وہ محفوظ جگہ چھپاہواہو۔ (جامع المسانید والمراسیل، رقم: ۶۹۳۷۲)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو لعنت کرنے والوں (یعنی اپنے لیے لعنت کا سبب بننے والے دوکاموں) سے بچو، صحابہ نے دریافت کیا یہ دونوں کام کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو راستہ یا وہاں موجود سایہ میں ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔(مسلم)

حضرت سہل بن معاذ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو لوگوں نے خیمے لگانے میں راستہ کی جگہ تنگ کردی، اور عام گذر گاہ کو بھی نہ چھوڑا، اللہ کے رسول کو اس صورتحال کا پتہ چلا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستہ میں خیمہ لگائے تو اس کا جہاد (قبول) نہیں ہے۔ (ابوداؤد)

ذکر کردہ احادیث مبارکہ میں ایسی واضح اور درخشاں ہدایات موجود ہیں جس پر عمل کرلیا جائے تو ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ اور مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف مسلم اکثریتی، مسجدوں میناروں اور علماء و حفاظ کے شہر مالیگاؤں میں گمان ہوتا ہے کہ ایک بڑا طبقہ لوگوں کو تکلیف پہنچانے جیسے سنگین گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتا۔ بات اگر کچے، کم تعلیم یافتہ اور کم دیندار علاقوں کی ہوتی تو اس پر زیادہ افسوس نہیں ہوتا، لیکن وہ علاقے جنہیں تعلیم یافتہ اور دیندار سمجھا جاتا ہے ایسے علاقوں میں دھڑلے سے ذرا ذرا سی بات پر عام گذر گاہ کو مکمل طور پر بند کردیا جاتا ہے۔ موجودہ لاک ڈاؤن کے حالات میں صرف اپنے فائدہ کے لیے گلیوں کو بند کردیا جارہا ہے کہ پولیس اِدھر نہ آئے اور ہم بآسانی گلی میں بیٹھ کر کیرم، لوڈو کھیلیں اور گپ شپ کریں۔ ایسے لوگوں کو راہ گیروں کی تکلیف کا ذرا بھی احساس نہیں۔ پوری پوری گلی چلنے کے بعد راستہ بند ہونے کی وجہ سے راہ گیروں کو واپس ہونا پڑتا ہے۔ اسی جگہ کھڑے ہوئے لوگوں کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوتی کہ ان کے جانے کے لیے سردست کچھ راستہ تو بنادیں۔ اس پر مزید نالائقی یہ کہ بند گلیوں سے بچے بلکہ بعض نوجوان شیطانی حرکت کرتے ہوئے پولیس کو عجیب وغریب حرکت کرکے یا ان پر فقرے کَس کر انہیں پریشان کرتے ہیں، بلاوجہ گلیوں کے نکڑ پر کھڑے ہوتے ہیں اور جیسے ہی پولیس کو دیکھتے ہیں بھاگتے ہوئے گلی میں گھُس جاتے ہیں۔ ایک صاحب بتانے لگے دو نوجوان بائک پر آئے دو پولیس والے جارہے تھے یہ ان کے پیچھے جاکر زور سے ہارن بجاکر اور ریس دے کر انہیں ڈرا دیا، جب تک وہ پولیس والے سنبھلتے بائک والے ہلڑباز نوجوان یہ جا وہ جا۔ ان سب کا خمیازہ عام شہریان جو اپنی ضروریات کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں انہیں پولیس کے ڈنڈے کھاکر بھگتنا پڑتا ہے۔ بے قصوروں کو مارنے کی جتنی گناہ گار پولیس ہے اتنے ہی گناہ گار یہ ہلڑ باز نوجوان اور شیطانی شرارت کرنے والے بچے اور ان سے غفلت برتنے والے ان کے والدین ہیں کہ انہیں کا غصہ عام شہریان پر نکالا جاتا ہے۔ لہٰذا والدین پر ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور پوری کوشش کریں کہ آپ کے نو نہالوں سے کوئی غیرشرعی اور غیرقانونی حرکت سرزد نہ ہو۔

راستہ بند کرنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ حقوق العباد کا معاملہ شریعت میں بہت اہمیت رکھتا ہے، لہٰذا خدارا فوراً اس سنگین گناہ سے باز آجائیں، کیونکہ آپ کی وجہ سے کسی کو تکلیف اور ایذا پہنچتی ہے تو بروزِ حشر آپ کا مؤاخذہ بڑا سخت ہونے والا ہے، جہاں معافی تلافی سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ آپ کی ایذا کے بقدر آپ کی نیکیاں انہیں دے دی جائیں گی اور اگر نیکیاں نہ ہوتو ان کے گناہ آپ پر ڈال دیئے جائیں گے۔ پس ڈریں اس دن سے جس دن ہمارے ذرہ برابر گناہ بھی ہمارے سامنے ہوں گے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو سو فیصد اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو مثالی معاشرہ بنادے۔ آمین

پیر، 30 مارچ، 2020

ایک شخص کا متعدد مرتبہ فرض نماز پڑھانا

*ایک شخص کا متعدد مرتبہ فرض نماز پڑھانا*

سوال :

زید نے جو کہ حافظ ہے ایک ہی فرض نماز کی چار مرتبہ امامت کرائی الگ الگ لوگوں کی، جب اس سے کہا گیا تو بحث و تکرار کرنے لگا۔ کیا یہ درست ہے؟
مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالمتین، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص فرض نماز خواہ مقتدی بن کر ادا کرے یا انفرادی ادا کرے یا پھر امام بن کر ادا کرے اس کے بعد وہ دوسروں کو فرض نماز پڑھائے تو احناف کے نزدیک اس کی اقتداء کرنے والوں کی نماز نہیں ہوگی۔ کیونکہ امام نے اپنی فرض نماز ادا کرلی ہے اب یہ اس کی نفل نماز ہوگی۔ لہٰذا نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے والوں کی نماز درست نہ ہوگی۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ امام ضامن ہے۔ اس لئے ضامن کو مضبوط ہونا چاہئے اور اعلی درجہ کا ہونا چاہئے یا کم از کم برابر درجہ کا ہونا چاہئے۔ اور فرض پڑھنے والا اعلی اور مضبوط ہے جبکہ نفل پڑھنے والا ادنی اور کمزور ہے اس لئے فرض پڑھنے والے کے لیے نفل پڑھنے والے کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے۔

اسی طرح اس حدیث سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : امام صرف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے تم اس سے اختلاف نہ کرو۔ اور یہاں اعلی کا ادنی درجہ سے اختلاف ہو جاتا ہے۔

لہٰذا مسئولہ صورت میں زید نے پہلی مرتبہ جو نماز لوگوں کو پڑھائی ہے اور اس سے پہلے خود اس نے یہ نماز ادا نہ کی ہوتو اس پہلی جماعت میں شریک ہونے والے مقتدی حضرات کی نماز درست ہوگئی۔ اس کے بعد بقیہ جماعتوں میں جتنے افراد نے زید کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے ان کی نماز نہیں ہوئی۔ لہٰذا وہ اپنی نماز دوہرا لیں۔

عن أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن۔ (سنن أبي داؤد رقم: ۵۱۷)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہما أنہ قال: إنما جعل الإمام إماماً لیؤتم بہ فلا تختلفوا علیہ۔ (صحیح البخاري، الأذان / باب فضل اللّٰہم ربنا لک الحمد رقم : ۷۹۶، صحیح مسلم، الصلاۃ / باب التسمیع والتحمید رقم : ۴۰۹)

ومن شروط الإمامۃ أن لا یکون الإمام أدنی حالا من الماموم فلا یصح اقتداء مفترض بمتنفل۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ : ۲۳۵)

ولا یصح إقتداء المفترض بالمتنفل۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۸۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شعبان المعظم 1441

حالات کا فائدہ اٹھاکر زیادہ نفع کمانا

*حالات کا فائدہ اٹھاکر زیادہ نفع کمانا*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! وطنِ عزیز ہندوستان سمیت پوری دنیا کے اکثر ممالک میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام الناس کے سامنے متعدد مسائل کھڑے ہوگئے ہیں، جن میں ایک اہم مسئلہ بعض تاجروں کا ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کو مہنگا بلکہ من مانے داموں میں فروخت کرنا ہے۔ خود شہر عزیز مالیگاؤں میں کرانہ سامان اور سبزیوں کے دام میں بے تحاشہ اضافہ کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے بیروزگاری کی مار جھیل رہے مزدوروں بلکہ بعض مالداروں تک کی کمر ٹیڑھی ہوجانے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ان تاجروں تک شرعی رہنمائی پہنچانے کی کوشش کی جائے تاکہ نصیحت قبول کرنے والے تاجر اس گناہ سے باز آکر اپنی دنیا وآخرت کو برباد ہونے سے بچالیں، اسی طرح ہٹ دھرمی کرنے والوں پر اتمام حجت بھی ہوجائے۔

محترم قارئین ! جس طرح ہمارے زمانہ میں بہت سے تاجر غلہ وغیرہ ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں مہنگائی اور گرانی بڑھ جاتی ہے اور عام صارفین پر بوجھ پڑتا ہے اور ان کے لئے گذارا دشوار ہو جاتا ہے، اسی طرح رسول اللہﷺ کے زمانہ میں بھی کچھ تاجر ایسا کرتے تھے (اور غالباً اس کو کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے) لیکن رسول اللہﷺ نے اس کو سختی سے منع فرمایا اور گناہ قرار دیا۔ عربی زبان میں اس کو "احتکار" کہا جاتا ہے۔ اس عمل کی قباحت پر چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :

حضرت معمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : جو تاجر احتکار کرے (یعنی غلہ وغیرہ ضروریات زندگی کا ذخیرہ عوام کی ضرورت کے باوجود مہنگائی کے لئے محفوظ رکھے) وہ خطاکار گنہگار ہے۔ (مسلم)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جوشخص کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر مہنگائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جذام (کوڑھ) کے مرض اور محتاجی میں مبتلا کردیتا ہے۔ (ابن ماجہ)

ابن قدامہ المغنی کے باب الاحتکار میں روایت کرتے ہیں کہ : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دکاندار کو ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا اور ساتھ رسول اللہ ﷺ کا اس کام سے روکنا بھی واضح کیا لیکن وہ باز نہ آیا اور کوڑھی بن گیا۔

ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : محتکر (یعنی مہنگائی کے لئے ذخیرہ اندوزی کرنے والا) ملعون ہے (یعنی اللہ کی طرف سے پھٹکارا ہوا اور اس کی رحمت و برکت سے محروم ہے) ۔ (ابن ماجہ، دارمی)

معزز قارئین ! رسول اللہﷺ کی تعلیم اور آپﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا رُخ یہ ہے کہ معاشی نظام ایسا ہو جس میں عوام خاص کر غریبوں یعنی کم آمدنی والوں کو زندگی گذارنا دشوار نہ ہو، تجارت پیشہ اور دولت مند طبقہ زیادہ نفع اندوزی اور اپنی دولت میں اضافہ کے بجائے عوام کی سہولت کو پیش نظر رکھے اور اس مقصد کے لئے کم نفع پر قناعت کرکے اللہ کی رضا و رحمت اور آخرت کا اجر حاصل کرے۔ اگر ایمان و یقین نصیب ہو تو بلاشبہ یہ تجارت بڑی نفع بخش ہے۔

کبھی حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ غذا جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں پر حکومت کی طرف سے یا کسی بااختیار ادارہ کی طرف سے کنٹرول کیا جائے اور تاجروں کو من مانے طریقہ پر زیادہ نفع خوری کی اجازت نہ دی جائے، تاکہ عوام خاص کر غریبوں کو زیادہ تکلیف نہ پہنچے۔ اسی کو عربی زبان میں تسعیر کہا جاتا ہے۔ یہاں اسی سے متعلق رسول اللہﷺ کا ایک ارشاد درج کیا جا رہا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ) مہنگائی بڑھ گئی، تو لوگوں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ آپ نرخ مقرر فرما دیں (اور تاجروں کو اس کا پابند کر دیں) تو آپﷺ نے فریاما : کہ نرخ کم و بیش کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہی تنگی یا فراخی کرنے والا ہے، وہی سب کا روزی رساں ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان و مال کے ظلم اور حق تلفی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی)

اس حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے بعض صحابہ کی طرف سے مہنگائی کی شکایت اور تسعیر (یعنی قیمتوں پر کنٹرول) کی درخواست کرنے کے باوجود اپنے لئے اس کو مناسب نہیں سمجھا اور اندیشہ ظاہر فرمایا کہ اس طرح کے حکم سے کسی پر زیادتی اور کسی کی حق تلفی نہ ہو جائے۔ یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ غلہ وغیرہ کی گرانی اور مہنگائی کبھی قحط اور پیداوار کی کمی جیسے قدرتی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہے اور کبھی تاجر اور کاروباری لوگ زیادہ نفع کمانے کے لئے مصنوعی قلت کی صورت پیدا کر کے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں حضورﷺ کا جو جواب ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی گرانی قدرتی اسباب کی پیدا کی ہوئی تھی، تاجروں کی نفع اندوزی کا اس میں دخل نہیں تھا اس لئے آپﷺ نے کنٹرول نافذ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور آپﷺ کو خطرہ ہوا کہ تاجروں پر زیادتی نہ ہو جائے۔ اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر حاکمِ وقت یقین کے ساتھ محسوس کرے کہ تاجروں کی طرف سے عام لوگوں پر زیادتی ہو رہی ہے اور افہام تفہیم اور نصیحت سے تاجر اپنے رویہ کی اصلاح نہیں کرتے تو وہ قیمتیں مقرر کرکے کنٹرول نافذ کرسکتا ہے۔ بقول حضرت شاہ ولی اللہؒ تاجروں کو ظالمانہ نفع اندوزی کی چھوٹ دینا تو فساد فى الارض اور اللہ کی مخلوق پر تباہی لانا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ)

امام مالک نے مؤطا میں حضرت سعید بن المسیب تابعی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے بازار میں حاطب بن ابی بلتعہ صحابی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ خشک انگور (یعنی منقی) ایسے نرخ پر فروخت کر رہے ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک نامناسب حد تک گراں ہے، تو آپ نے ان سے فرمایا : إِمَّا أَنْ تَزِيدَ فِي السِّعْرِ، وَإِمَّا أَنْ تَرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا۔ یا تو تم بھاؤ بڑھاؤ (یعنی قیمت مناسب حد تک کم کرو) یا پھر اپنا مال ہمارے بازار سے اُٹھا لو۔ (جمع الفوائد : ۶۶۲/ ۱)

شریعت کے عام قواعد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر ہی کی روشنی میں علماء محققین نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اگر حالات کا تقاضا ہو تو عوام کو تاجروں کے استحصال سے بچانے کے لئے حکومت کی طرف سے ضروری اشیاء کی قیمتیں مقرر کر دینی چاہئیں اور کنٹرول نافذ کر دینا چاہئے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اپنے بعض رسائل میں یہی رائے ظاہر کی ہے۔ (مستفاد : معارف الحدیث)

موجودہ حالات میں اگر تاجر حضرات اپنی اس ظالمانہ روش سے باز نہ آرہے ہوں تو حکومت کو اس معاملہ میں مداخلت کرنا چاہیے اور اس پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے کہ یہ ان کا فرضِ منصبی ہے۔ شہر عزیز کے لیے یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ اس سلسلے میں شہری انتظامیہ نے دلچسپی دکھائی ہے، امید ہے کہ اس پر کماحقہ کارروائی کرکے اس ظلم کا سدباب کیا جائے گا۔

نوٹ : بعض تاجروں کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں اوپر سے ہی زیادہ قیمت پر مال مل رہا ہے تو ہم اسی کے حساب سے فروخت کررہے ہیں، اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو اس میں ان پر کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اگر وہ جھوٹ بول رہے ہیں یا حالات کا فائدہ اٹھاکر عموماً لیے جانے والے نفع کی مقدار میں اضافہ کرکے فروخت کررہے ہیں تب تو وہ احتکار کے ساتھ جھوٹ جیسے گناہ عظیم کے بھی مستحق ہورہے ہیں جو ایک مومن کی شان کے بالکل خلاف ہے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کی مطلب اور موقع پرستی سے حفاظت فرمائے، ایثار وقربانی اور قناعت کا جذبہ ہم سب میں پروان چڑھائے۔ آمین یا رب العالمین

اتوار، 29 مارچ، 2020

گھروں میں باجماعت نماز ادا کرنے کا طریقہ

*گھروں میں باجماعت نماز ادا کرنے کا طریقہ*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! کرونا وائرس کے پھیلنے سے بچاؤ کے لیے مساجد میں عارضی طور پر عمومی جماعت کا سلسلہ موقوف کردیا گیا ہے، صرف پانچ افراد کے نماز باجماعت پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے، بقیہ حضرات کے لیے گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چونکہ امت کا ایک بڑا طبقہ عموماً اس طرح کی صورت حال سے دو چار نہیں ہوا ہے، اس لیے گھروں میں نماز پڑھنے کو لے کر بہت سے افراد بعض مسائل کے لیے بار بار سوالات کررہے ہیں، لہٰذا اس پر خوب غور کرکے اس سلسلے میں جتنے مسائل پیش آسکتے ہیں ان تمام مسائل کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

▪ گھروں میں نماز باجماعت پڑھنے والوں کے لیے اذان کہنا مسنون نہیں ہے۔ اس لئے کہ محلہ کی اذان اُن کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا الگ سے اذان دینا ضروری نہیں۔ لیکن اُن کے لیے اذان دے دینا بہتر ہے۔ البتہ اگر محلہ کی مسجد کی اذان سے پہلے گھر میں باجماعت نماز پڑھنا ہوتو اس کے لیے کہنا سنت ہے، لہٰذا ایسی صورت میں اذان کا اہتمام کیا جائے گا۔ نیز اقامت کا کہنا ہر دوصورت میں سنت ہے، پس اقامت کہی ۔

▪گھر میں اگر ایک سے زائد افراد ہوں تو انہیں باجماعت نماز ادا کرلینا چاہیے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ باجماعت نماز اکیلے نماز کے مقابلہ میں ۲۷؍ درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (بخاری : ۱؍۸۹)

خواہ مرد کے ساتھ ایک عورت یا نابالغ سمجھدار بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس صورت میں بھی باجماعت نماز کا ثواب مل جائے گا، لیکن یہ عورت مرد کے لیے محرم ہو، یعنی بیوی، ماں، بہن، دادی وغیرہ ۔ مرد کا صرف غیرمحرم عورت (خواہ ایک ہو یا ایک سے زائد) کی امامت کرنا سخت مکروہ ہے۔

▪اگر دو لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں تو مقتدی خواہ وہ نابالغ بچہ ہی کیوں نہ ہو، امام کے دائیں جانب ایک قدم پیچھے کھڑا ہوگا۔ 

▪اگر دو محرم مرد وعورت باجماعت نماز پڑھیں تو عورت پچھلی صف میں کھڑی ہوگی، مردوں کی طرح امام کے برابر نہیں کھڑی ہوگی۔

▪اگر دو مرد اور ایک عورت ہوتو ایک مرد امامت کرے گا، دوسرا اس کے دائیں جانب ایک قدم پیچھے کھڑا ہوگا اور عورت پچھلی صف میں کھڑی ہوگی۔

▪اگر تین مرد اور ایک عورت ہو تو ایک امامت کرے گا، بقیہ دو پچھلی صف میں کھڑے ہوں گے، اور ان کی پچھلی صف میں عورت کھڑی ہوگی۔

▪ہمارے شہر میں چونکہ مکانات چھوٹے چھوٹے ہیں، اس لیے یہ صورت بھی پیش آتی ہے کہ اگر مرد وعورت دونوں ہوں تو تین صف لگانا ممکن نہیں ہوتا، اس صورت میں مرد حضرات امام کے دائیں بائیں ایک قدم پیچھے کھڑے ہوں گے۔ اور عورت پچھلی صف میں کھڑی ہوگی۔

▪اگر دو لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں مقتدی امام کے دائیں جانب ایک قدم پیچھے کھڑا ہے، اب اگر تیسرا شخص جماعت میں شامل ہونے کے لیے آجائے تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ اگر آگے جگہ ہو اور امام کو علم ہوجائے تو امام خود آگے بڑھ جائے، یا پھر آنے والے مقتدی کو چاہئے کہ پہلے مقتدی کو پیچھے کرلے۔

▪اگر دو محرم مرد وعورت باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں تیسرا اس میں شامل ہونا چاہے تو وہ امام کے دائیں جانب ایک قدم پیچھے کھڑا ہوجائے گا۔

▪عورت امامت نہیں کرسکتی نہ ہی اقامت کہے گی۔ چنانچہ اگر مرد اکیلا ہوتو وہی امامت کے ساتھ اقامت بھی کہے گا۔

▪اگر جماعت میں عورت بھی ہوتو امام کے لیے عورت کی امامت کی نیت بھی کرنا ہے، اور اس کے لیے باقاعدہ الفاظ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ دل میں ارادہ ہونا کافی ہے۔

▪مرد وعورت مقتدیوں کے لیے ضروی ہے کہ وہ امام کی اقتداء کی نیت کرلیں، اس کے لیے بھی الفاظ کا ادا کرنا ضروری نہیں۔ دل میں ارادہ کرلینا کافی ہے۔

▪جس طرح مرد امام کی اقتداء میں قرأت کی جگہ خاموش رہتے ہیں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے، اور جہاں مردوں کے لئے دعا اور تسبیحات پڑھنے کا حکم ہے وہی حکم عورتوں کے لیے بھی ہے۔

نوٹ : شہر میں بعض مکانات اور کارخانوں میں باجماعت نماز ادا کی جارہی ہے جس میں بیس پچیس افراد تک شامل ہورہے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ وبائی مرض کو لے کر مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ باجماعت نماز میں کم سے کم افراد ہوں، نیز قانوناً بھی گرفت کا اندیشہ ہے، لہٰذا اس کا خیال رکھا جائے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو صحیح طریقے پر باجماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور اس کی برکت سے ہمارے تمام مسائل کو حل فرمائے۔ آمین ثم آمین

رمضان سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا

*رمضان سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا*

سوال :

ابھی حالات کے اعتبار سے صدقۃ الفطر جو عید سے پہلے دیا جاتا ہے کیا وہ ابھی کسی غریب کو دے سکتے ہیں؟
(المستفتی : صغير احمد، جلگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صدقہ فطر رمضان المبارک سے پہلے ادا کرنے کے مسئلہ میں فقہاء کے مابین اختلاف ہے۔

بعض فقہاء کے نزدیک صدقۂ فطر رمضان المبارک کے مہینے میں کسی بھی دن دینا جائز ہے، البتہ رمضان سے پہلے ادا کرنا درست نہ ہوگا، جبکہ دیگر فقہاء کے نزدیک صدقۂ فطر کا حکم بھی زکوٰۃ کی طرح ہے یعنی چاہے رمضان میں ادا کیا جائے یا رمضان سے پہلے ادا کیا جائے دونوں صورتوں میں صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔

احتیاطی پہلو تو یہی ہے کہ رمضان المبارک سے پہلے صدقہ فطر ادا نہ کیا جائے، کیونکہ عبادات میں احتیاط کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے، لیکن موجودہ لاک ڈاؤن کے حالات میں جبکہ بیروزگاری کی وجہ سے بھکمری کے حالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، لہٰذا رمضان المبارک سے پہلے بھی صدقہ فطر ادا کیا جاسکتا ہے، نیز دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی اس کے جواز پر موجود ہے :
راجح قول کے مطابق ماہِ رمضان شروع ہونے سے پہلے بھی صدقة الفطر ادا کیا جا سکتا ہے اور واجب ذمہ سے ساقط ہو جائے گا۔

قال العلامة الحصکفي : وصحّ أدائہا إذا قدّمہ علی یوم الفطر أو أخرہ اعتباراً بالزکاة ، ․․․․․ بشرط دخول رمضان في الأول ہو الصحیح وبہ یفتي جوہر وبحر عن الظہیریة ؛ لکن عامة المتون والشروح علی صحة التقدیم مطلقاً وصححہ غیر واحد ورجّحہ فی النہر، ونقل عن الولوالجیة أنہ ظاہر الراویة، قلت : فکان ہو المذہب ۔ الدر المختار ، کتاب الزکاة ، باب صدقة الفظر، ۳/۳۲۲، زکریا دیوبند/فتوی نمبر :16936)

ملحوظ رہے کہ فی زمانہ نصف صاع  گیہوں کے اعتبار سے ایک صدقۂ فطر کی مقدار بہت معمولی ہوتی ہے، جو بڑے مال داروں کے لئے کوئی حیثیت اور وقعت نہیں رکھتی، اس لئے ایسے لکھ پتی اور کروڑ پتی سرمایہ دار حضرات کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لئے نصف صاع (پونے دو کلو) گیہوں کی قیمت لگانے کے بجائے ایک صاع (تین کلو ڈیڑھ سو گرام) کھجور یا کشمش کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں، جبکہ موجودہ حالات میں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : پیغمبر علیہ السلام نے ایک صاع کھجور یا جو یاآدھا صاع گیہوں کا صدقہ ضروری قرار دیا ہے، جو ہر آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر لازم ہے، لیکن جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ وہاں تشریف لائے اور یہ دیکھاکہ گیہوں کا بازاری بھاؤ سستا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمہارے اوپر وسعت فرمائی ہے، اس لئے اگر تم صدقۂ فطر ہر چیز کا ایک صاع کے حساب سے نکالو تو زیادہ بہتر ہے۔ (ابوداؤد، حدیث : ۱۶۲۲)

قولہ صاعاً من کل شیئٍ ای من الحنطۃ وغیرہا لکان احسن۔ (بذل المجہود : ۶؍۴۵۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 شعبان المعظم 1441