جمعہ، 6 مارچ، 2020

حوالہ کا کاروبار اور اس میں ملازمت کرنا

*حوالہ کا کاروبار اور اس میں ملازمت کرنا*

سوال :

مفتی صاحب ایک  مسئلہ یہ معلوم کرنا تھا کہ ایک شخص ہے جو ایسی  کمپنی میں  کام کرتا ہے  جو حوالہ کا کاروبار  کرتی ہے مطلب  پیسے (روپے) کا کاروبار کرتی ہے جو کہ غیر قانونی ہے، وہ ایک جگہ سے پیسہ لے کر دوسری جگہ پہنچاتی ہے تو کیا ایسی کمپنی میں کام کرنا جائز ہے ایسی کمپنی کی کمائی حلال ہے؟
مدلل جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ناصر بھائی، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حوالہ کا کاروبار مطلقاً ناجائز نہیں ہے، بلکہ یہ کاروبار جائز شکل میں بھی موجود ہے۔ اس کاروبار کی شرعاً درست شکل یہ ہوسکتی ہے کہ حوالہ کے طور پر پیسہ منتقل کرنے والا شرعاً اجیر (اجرت پر کام کرنے والا) بن جائے، اور اپنے عمل کی اُجرت متعین طور پر مالک سے وصول کرے، تو یہ معاملہ منی آرڈر کے حکم میں ہوکر دائرۂ جواز میں آجائے گا۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور کمپنی اگر یہی طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے تو اس میں ملازمت کرنا جائز ہے۔

البتہ اگر یہ کاروبار قانوناً جُرم ہو اور گرفت کا اندیشہ ہو اور اس میں جان، مال اور عزت داؤں پر لگی ہوتو ایسا کاروبار کرنا اور ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ تاہم اس کی اجرت حلال ہی کہلائے گی۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (سورۃ البقرۃ، آیت: ۱۹۵)
مستفاد : امداد الفتاویٰ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 رجب المرجب 1441

1 تبصرہ: