بدھ، 4 مارچ، 2020

قیلولہ کا وقت اور اس کی مدت

*قیلولہ کا وقت اور اس کی مدت*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ قیلولہ کا صحیح وقت کیا ہے اور کتنی دیر ہے؟
مدلل و مفصل جواب مطلوب ہے ۔
(المستفتی : عبدالرحمن انجینئر، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قیلولہ کے معنی ہیں : دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لیٹنا، خواہ نیند آئے یا نہ آئے۔ (1)

"قیلولہ" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : دن کے سونے کے ذریعے رات کی عبادت پر قوت حاصل کرو۔ (2) اسی طرح دوپہر کو سونا عقل کی زیادتی اور کھانے کے ہضم ہونے کا باعث بھی ہے۔

بعض روایات سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا عام معمول "غداء " کے بعدسونے کا ملتا ہے، "غداء "دوپہر کا کھانا ہے جو ظہر سے پہلےکھایا جاتاہے، البتہ جمعہ کے دن کے متعلق روایات میں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد کھانا اورقیلولہ ہوتا تھا۔

روایات ملاحظہ فرمائیں :

حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز پڑھنے کے لئے اٹھتے تو وضو کر کے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے اور نبی ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کرتے، نصف النہار (زوال) کے قریب تک وہیں رہتے، پھر گھر آکر قیلولہ کرتے، کھانا کھاتے اور ظہر کی نماز کے بعد تیار ہو کر چلے جاتے، پھر عشاء کے وقت ہی واپس آتے ۔ (3)

قَالَ : مَا كُنَّا نَقِيلُ ، وَلَا نَتَغَدَّى فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ ۔ (صحیح مسلم 859، جامع ترمذی 525)

مذکورہ روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے دن نماز کے بعد ہی کرتے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حضرات جمعہ کی نماز کے لئے اہتمام کے ساتھ سویرے مسجد چلے جاتے تھے، اور نماز سے فراغت کے بعد ہی لوٹتے تھے ۔
مذکورہ روایت میں جمعہ کے دن کی قید سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دوپہر کے کھانے اور قیلولہ کو صرف جمعہ کے دن مؤخر کیا جاتا تھا۔

حضرت مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری لکھتے ہیں کہ : صبح کا کھانا زوال سے پہلے گیارہ بجے کے قریب کھایا جاتا تھا پھر قیلولہ کیا جاتا تھا  چونکہ جمعہ کے دن مسجد جلدی جانا ہوتا ہے، اس لئے صحابہ جمعہ کے دن یہ دونوں کام مؤخر کرتے تھے۔ ( تحفۃ الالمعی، ٢/٤٠٠)

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اس زمانے میں جمعہ کے علاوہ باقی دنوں میں دوپہر کا کھانا ظہر سے پہلے کھانے کا معمول تھا، اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ ظہر سے پہلے کھانا کھا کر قیلولہ کی عادت بنائی جائے۔ البتہ ظہر کے بعد کھانا کھا کر قیلولہ کی نیت سے لیٹنے سے بھی قیلولہ کی سنت پوری ہوجائے گی ۔

قیلولہ کی کم ازکم یا زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق تلاش کے باوجود صراحتاً کوئی روایت نہیں ملی، البتہ تحفۃ الالمعی کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیلولہ کا زیادہ سے زیادہ وقت ایک سے دیڑھ گھنٹے ہوتا ہوگا، اور اقل مدت کی تعیین نہیں ہے چند منٹ لیٹ جانا بھی قیلولہ کہلائے گا ۔

1) وتستحب القائلۃ أو القیلولۃ : أي الاستراحۃ وسط النہار، وإن لم یکن مع ذٰلک نوم، شتائً أو صیفًا۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ : ۱؍۴۰۴)

القیلولۃ : وہي الاستراحۃ في نصف النہار۔ (حاشیۃ ابن ماجۃ ۷۷)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : اسْتَعِينُوا بِطَعَامِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ، وَبِالْقَيْلُولَةِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ۔(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر : 1693)

3) فَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ يَقُومُ صَلَاةَ الْغَدَاةِ يَتَوَضَّأُ، وَيَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُصَلِّي مَعَهُ، وَيَكُونُ مَعَهُ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ، فَيَجِيءُ فَيَقِيلُ وَيَأْكُلُ ، فَإِذَا صَلَّى الظُّهْرَ تَهَيَّأَ وَذَهَبَ فَلَمْ يَجِئْ إِلَى صَلَاةِ الْعَتَمَةِ۔ (مسند احمد، حدیث نمبر :12401)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 محرم الحرام 1439

4 تبصرے:

  1. السلام علیکم عرض یہ ہیکہ اگر کوئ صرف قیلولہ کرے کھانا سے پہلے تو سنت ہوجاتا گی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

      اگرقیلولہ کی نیت سے کچھ دیر آرام کرلے تو امید ہے کہ سنت ادا ہوجائے ۔

      واللہ تعالٰی اعلم

      حذف کریں
  2. جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب

    جواب دیںحذف کریں
  3. عبدالشکور پربھنی مہاراشٹر
    جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء فی الدارین

    جواب دیںحذف کریں