منگل، 17 مارچ، 2020

سوشل میڈیا پر حیا سوز ویڈیوز کی تشہیر؟

✍️ محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خیرِامت یعنی بہترین امت فرمایا ہے، یہ امت اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو نفع پہنچانے ہی کے لئے وجود میں آئی ہے، اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ مخلوق خدا کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکر اس کی اہم ذمہ داری ہے۔ اور اِس امت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی ہے کہ " اس امت میں تا قیامت ایک ایسی جماعت قائم رہے گی جو فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکیوں کا حکم کرنے اور برائیوں سے روکنے پر قائم رہے گی۔ (متفق علیہ)

چنانچہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے متعدد تحریکیں وجود میں آئیں جو اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں، لیکن یہ کام صرف جماعتوں کے اور اجتماعی طور پر کرنے کا نہیں ہے بلکہ امت کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں بقدر استطاعت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہے، جہاں کوئی برائی دیکھے اسے ہاتھوں سے روک دے اگر اس میں فتنہ کا اندیشہ ہوتو زبان سے کہہ دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو دل سے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمتر درجہ ہے۔ اب جبکہ برائیوں سے روکنے کا حکم شریعت نے دے دیا ہے تو اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آپ من مانی کریں اور جیسے سمجھ میں آئے برائی کو روکنے کی کوشش کریں، بلکہ اس سلسلے میں شرعی احکام کی پاسداری بہت ضروری ہے، ورنہ آپ کا نہی عن المنکر خود آپ کے لیے آخرت کی بربادی کا ذریعہ بن جائے گا۔

محترم قارئین ! اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ معاشرہ کے بگاڑ میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، فحاشی و عریانیت کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ نوجوان بچے بچیوں کی خرمستیاں عروج پر ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر سنجیدہ اور دینی مزاج رکھنے والا مسلمان غم زدہ اور اس بات کے لیے فکرمند ہے کیسے ان برائیوں کو روکا جائے؟ چنانچہ اگر کوئی ان فحاشیوں کو روکنے کے لیے مخلص اور سنجیدہ ہیں تو اُن کے لیے شرعی رہنمائی یہ ہے کہ آپ کو قابلِ اعتراض حالت میں کوئی جوڑا کہیں نظر آئے اور یقین ہو کہ یہاں ناجائز تعلقات بنائے جارہے ہیں تو آپ بطور ثبوت موبائل میں ان کی تصویر لے سکتے ہیں، لیکن اسے قطعاً وائرل نہ کریں اور نہ ہی کسی کو ارسال کریں، بلکہ براہِ راست ان کے والدین اور سرپرستوں سے ملاقات کریں، یا پھر کسی انتہائی معتبر ذمہ دار اور دیندار شخص سے رابطہ کرکے اس کے ذریعے والدین اور سرپرستوں تک پہنچیں، انہیں اس سے باخبر کردینے کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے، آپ نے نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کردیا جس پر آپ عنداللہ ماجور ہوں گے، اب والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں اور ماتحتوں کو برائیوں سے دور رکھیں اگر وہ اس کے باوجود اس سے غفلت برتتے ہیں تو بلاشبہ دارین کی رُسوائی ان کا مقدر ہوگی۔ لیکن اس کے برخلاف آج کل کسی کی برائی کو سرِعام بیان کردیا جاتا ہے، سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز وائرل کردی جاتی ہیں، نام بنام اسکی تشہیر کی جاتی ہے جو شرعاً بالکل بھی جائز نہیں ہے، ایسا کرنے والے سخت گناہ گار ہورہے ہیں، کیونکہ شریعتِ کاملہ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے عیوب پر نظر رکھے، اور اس کے عیوب اور غلطیوں کو جان لینے کے بعد لوگوں کے سامنے بیان کرکے اُسے ذلیل و رسوا کرے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد ہے کہ جو شخص مسلمان کی عیب پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی عیب پوشی کریں گے، اور جو شخص مسلمان کی پردہ دری یعنی اس کے عیوب کو لوگوں میں بیان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پردہ دری کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے گھر میں (چھپ کر) کوئی عیب کرتا ہے تب بھی اس کو فضیحت کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ)

اچھی طرح یاد رکھیں کہ آج ہم اور آپ گناہوں سے بچے ہوئے ہیں تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم ہے، لہٰذا ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ یا اللہ تعالیٰ نے ہمارے عیبوں پر پردہ پوشی فرمائی ہے تو ہمیں ڈرنا چاہئے اور توبہ و استغفار کرکے گناہوں سے بالکل دور ہوجانا چاہیے، کل کو ہمارے عیوب لوگوں پر ظاہر ہوگئے اور لوگوں میں بیان کیے جانے لگے تب کیا ہوگا؟ اس وقت ہمیں احساس ہوگا، لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی، تب سوائے افسوس کے اور کچھ نہ ہوگا۔

اسی طرح اس نیت سے بھی لوگوں میں اس کی برائی بیان کرنا درست نہیں ہے کہ لوگ اس سے دور رہیں، کیونکہ ہمیں برائیوں سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے، ناکہ ایسے شخص سے ہمیشہ کے لیے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر گناہ گار سچی پکی توبہ کرلے تو وہ گویا ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسے کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ (بیہقی) چنانچہ جب اللہ تعالیٰ اس گناہ گار کو معاف کردیں گے تو آپ کیوں خدائی فوجدار بنے ہوئے ہیں؟ آپ نے کیوں اس کے لیے توبہ کا دروازہ بند کردیا ہے؟ کون سی شریعت نے آپ کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ آپ برائی کو برائی سے روکیں؟ کس نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کسی کے عیبوں کو سوشل میڈیا پر وائرل کرکے اس کی عزت سے کھلواڑ کریں؟ آپ کو اس بات کا اندازہ بھی ہے کہ آپ کے شیئر و فارورڈ کا ایک کلک کئی خاندانوں کو تباہ کردینے کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ آپ کا نیکی سمجھ کر کیا ہوا عمل خود آپ کے لیے آخرت میں وبال بن جائے گا۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو حیا اور پاکدامنی کی زندگی عطا فرمائے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی اہم ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں صالح اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کا ذریعہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین

7 تبصرے: