بدھ، 4 مارچ، 2020

فساد متاثرین کو زکوٰۃ، صدقہ دینا

*فساد متاثرین کو زکوٰۃ، صدقہ دینا*

سوال :

حضرت مفتی صاحب! جیساکہ ہم سب کو معلوم ہے حال ہی میں دہلی میں ہمارے مسلمان بھائی انتہائی نازک حالات سے گزرے ہیں گھروں میں آگ لگا دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں اور سڑکوں پر آ چکے ہیں تو مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ہم اپنے ان مسلمان بھائیوں کی زکوٰۃ، صدقہ وغیرہ سے کچھ مدد کرسکتے ہیں یعنی ان کو زکوٰۃ، صدقہ وغیرہ دینا درست ہے یا نہیں؟
(المستفتی : محمد ناظم باغپتی)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صدقہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک صدقۂ واجبہ، دوسرے صدقۂ نافلہ۔

نذر، منت، زکوٰۃ، صدقۂ فطر، فوت شدہ نماز اور روزوں کے فدیہ کی رقم وغیرہ، صدقۂ واجبہ ہیں، اس کا مصرف مستحق اور مسکین مسلمان ہیں، اور اس میں تملیک یعنی مستحق کو اس مال کا مالک بنانا شرط ہے۔ لہٰذا یہ رقوم ان مسلمان فساد متاثرین کو دی جاسکتی ہے جو صاحبِ نصاب باقی نہیں رہے یعنی ان کے پاس زندگی کی لازمی ضروریات مثلاً رہائشی مکان، سامان خورد ونوش، استعمالی برتن و کپڑے کے علاوہ موجودہ اوزان کے مطابق 62 تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے بقدر مال نہ ہو۔

مذکورہ بالا صدقۂ واجبہ کے علاوہ آدمی اپنی کمائی سے جو مال نکالے اسے صدقۂ نافلہ، چندہ، ہبہ،  عطیہ اور  امداد سب کہہ سکتے ہیں۔ اس کا مصرف مساجد، مدارس، خود صدقہ دینے والا، اس کے گھر والے، مالدار اور غریب، مسلم غير مسلم سب ہیں، اس میں تملیک شرط نہیں۔ لہٰذا یہ رقوم غیرمستحق زکوٰۃ فساد متاثرین کو بھی دی جاسکتی ہے۔ ملحوظ رہے کہ صدقۂ نافلہ جتنی زیادہ ضرورت کی جگہ خرچ ہوگا اتنا ثواب ملے گا۔

اعلم أن الصدقۃ تستحب فاضل عن کفایتہ والافضل لمن یتصدق نفلا أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لأنہا تصل إلیہم ولا ینقص من أجرہ شیء۔ (شامي : ۲؍۳۵۷)

فالجملہ في ہذا أن جنس الصدقۃ یجوز صرفہا إلی المسلم … ویجوز صرف التطوع إلیہم با الاتفاق وری عن أبي یوسف أنہ یجوز صرف الصدقات إلی الأغنیاء أذا سموا فی الوقف۔ فأما الصدقۃ علی وجہ الصلۃ والتطوع فلا بأس بہ، وفي الفتاوی العتابیۃ وکذلک یجو ز النفل للغني۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۱-۲۱۴/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)

ای مصرف الزکاۃ والعشر…(ھو فقیر وھو من لہ ادنی شیٔ)ای دون نصاب أو قدر نصاب غیرتام مستغرق فی الحاجۃ (ومسکین من لاشیٔ لہ) علی المذھب۔ (الدر المختار : ۳۳۹/۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 رجب المرجب 1441

4 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ، ایک صحیح وقت پر ایک صحیح پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
    اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کے مال، اولاد، عمر ، رزق اور صحت میں برکت دے۔آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. 62 تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. اور سونے کا نصاب کیا ہوگا کیا نصاب صرف چاندی ہی ہے یا سونا بھی؟
    اکثر فسادات میں آدمی کا گھر مال سب جلا دیا جاتا ہے مگر عورتیں اپنے استعمال کے زیور کو جو پہنے ہوئے ہوتی ہیں بچ جاتا ہے ایسے میں اگر کسی کے پاس پانچ چھ تولہ سونا بچ جائے تو کیا وہ صاحب نصاب ہوگی یا زکواۃ کی مستحق؟

    جواب دیںحذف کریں


  4. ساڑھے باون تولہ پرانے تولے کے اعتبار سے ہے جو گیارہ گرام سے کچھ زیادہ کا ہوا کرتا تھا۔ اور اب تک بہت سی کتابوں میں یہی لکھا آرہا ہے۔

    اگر کسی کے پاس کچھ سونا اور کچھ چاندی یا نقد رقم یا مال تجارت ہوتو پھر چاندی کے نصاب کا اعتبار کرتے ہوئے اسے صاحب نصاب کہا جائے گا۔

    جواب دیںحذف کریں